اداریہ: سیاست، ریاست اور مزدور
محنت کش طبقہ آج جس اذیت اور تکلیف سے گزر رہا ہے اس کا اندازہ لگانا بھی حکمرانوں کے لیے ناممکن ہے۔ ان کی زندگیاں انتہائی عیش اور آرام سے بسر ہو رہی ہیں۔ ہر گزرتا دن ان کے لیے دولت کے نئے انبار لے کر آتا ہے اور وہ […]
محنت کش طبقہ آج جس اذیت اور تکلیف سے گزر رہا ہے اس کا اندازہ لگانا بھی حکمرانوں کے لیے ناممکن ہے۔ ان کی زندگیاں انتہائی عیش اور آرام سے بسر ہو رہی ہیں۔ ہر گزرتا دن ان کے لیے دولت کے نئے انبار لے کر آتا ہے اور وہ […]
|تحریر: جاش لوکر اور جو اٹارڈ، ترجمہ: ولید خان| امریکی قرضہ جات حدبندی پر کوئی بھی معاہدہ کرنے کی ڈیڈ لائن میں چند دن رہ گئے ہیں لیکن کانگریس بند گلی میں پھنسی ہوئی ہے۔ یکم جون یا اس کے آس پاس فیڈرل حکومت کے پاس اخراجات کے لئے پیسے […]
|تحریر: آدم پال| گزشتہ چند دنوں میں اس ملک کے حکمران طبقے کی ہونے والی لڑائی پورے ملک کے عوام کے سامنے کھل کر نظر آئی جس میں مزدور طبقہ محض تماشائی بنا رہا۔ عمران خان اور اس کی پشت پر موجود اسٹیبلشمنٹ کا دھڑا اقتدار کی ہوس میں پاگل […]
|تحریر: ولید خان| پاکستانی ریاست، سیاست اور اس کے ذرائع ابلاغ میں موجود چاپلوس نوکر مل کر ایک ایسا تعفن زدہ کچرے کا ڈھیر بن چکے ہیں کہ حقیقت اور سچائی کی تلاش ایک روز مرہ کی اعصاب شکن محنت بن چکی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے پریس کانفرنسوں، ٹی […]
|تحریر: پارس جان| مملکت خداداد میں گزشتہ عشرے میں کئی نام نہاد ’انقلابی تحریکیں ‘ عوامی شعور پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی مگر ہر بار پالیسی سازوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ سلسلہ پرویز مشرف کے اقتدار کے اختتام کے دنوں سے شروع ہوا تھا جب […]
پاکستانی ریاست کا بحران نئی انتہاؤں کو چھو رہا ہے جبکہ سامراجی طاقتوں کی لڑائی ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ یکم جنوری کو ٹرمپ کی ٹویٹ اور دو جنوری کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے چین کے ساتھ یوآن(چینی کرنسی) میں تجارت کا فیصلہ ریاست کے نامیاتی بحران اور اس پر سامراجی طاقتوں کے دباؤ کی شدت کا تھوڑا بہت اندازہ دیتے ہیں
تیزترین بدلتی ہوئی صورتحال میں ایسے قنوطیت پسندوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ سالِ نو ان کو ہی خوش آمدید کہے گا جو انقلابی تحریکوں اور تیز ترین تبدیلیوں سے عہدہ برآ ہونے کی جرات اور حوصلہ رکھتے ہیں۔
ریاست کا بحران تیزی سے شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ معیشت، سیاست سمیت سماج کے ہر حصے کا بحران انتہاؤں کے قریب پہنچ رہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے بہت سی مقداری تبدیلیاں اب ایک معیاری تبدیلی کی جانب بڑھ رہی ہیں