پاکستان: برباد سماج، ظالم حکمران اور انقلاب کے لیے بے چین محنت کش طبقہ

|تحریر: ولید خان|

پاکستانی ریاست، سیاست اور اس کے ذرائع ابلاغ میں موجود چاپلوس نوکر مل کر ایک ایسا تعفن زدہ کچرے کا ڈھیر بن چکے ہیں کہ حقیقت اور سچائی کی تلاش ایک روز مرہ کی اعصاب شکن محنت بن چکی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے پریس کانفرنسوں، ٹی وی پروگراموں، سوشل میڈیا ویڈیوز اور اخباروں میں کالموں کی بھرمار کر کے یقین دلانے کی مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں کہ حالات بہت شاندار ہونے جا رہے ہیں، معیشت اور ترقی کا راکٹ بے قابو ہو رہا ہے، امریکی سامراج سے لے کر عرب آقاؤں تک ہر کوئی ہماری سٹریٹجک پوزیشن کا بھکاری بن چکا ہے، کورونا وبا پر تقریباً قابو پا لیا گیا ہے، سیاسی مخالفین دھول چاٹ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ بس اب عوام تھوڑا اور صبر کرے اور ملکِ خداداد میں پیسوں کی بارش ہو گی اوردودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی۔ اسی قسم کے جھوٹ اور فریب صبح شام گلا پھاڑ پھاڑ کر سنائے جاتے ہیں۔ ستم ظریقی یہ ہے کہ عوام اس ریاست، اس نظام اور اس کی ہی ہر پرچھائی سے جتنی زیادہ متنفر ہو رہی ہے، بلند و بانگ دعوؤں میں اتنی ہی زیادہ شدت آ رہی ہے جن کا حقیقت سے دور دور تک کا تعلق نہیں۔ یہ شوروغوغا، یہ دعوے اور عوام سے صبر کی التجاء آنے والے طوفان کے پیشِ نظر حکمران طبقے کی مایوس کن اور خوفزدہ چیخیں ہیں۔

درحقیقت عالمی سطح پر گزشتہ سال سے بدترین مالیاتی بحران کا آغاز ہو چکا ہے اور دنیا کی ترقی یافتہ معیشتیں بشمول امریکہ کی معاشی بنیادیں لرز رہی ہیں۔ اسی صورتحال میں دنیا بھر میں سامراجی طاقتوں کا توازن تبدیل ہو رہا ہے جس میں سب سے اہم امریکی سامراج کی مسلسل شدید ہوتی کمزوری ہے۔ اس کے براہ راست اثرات جنوبی ایشیا کے خطے پر بھی مرتب ہو رہے ہیں جہاں پاکستان امریکی سامراج کے گماشتے کا کردار گزشتہ سات دہائیوں سے ادا کرتا آ رہا ہے۔ اس خطے میں اب چین مخالفت کی بنیاد پر انڈیا اور امریکہ کے تعلقات مضبوط ہوتے جا رہے ہیں جس کے باعث پاکستان کی امریکی سامراج کے لیے اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے اور اسی لیے پاکستان کے حکمران طبقات چیخ و پکار کرتے نظر آتے ہیں اور اپنے امریکی آقاؤں کی نظر کرم کے لیے ترس رہے ہیں۔ وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اپنے امریکی ہم منصبوں سے ملاقات یا صرف ایک ٹیلی فون کال کی بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ابھی تک ان کی مراد پوری نہیں ہو سکی۔ خبروں کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن وزیراعظم عمران خان کی فون کال سننے کے لیے بھی تیار نہیں۔

یہ سب ایسے وقت میں ہورہا ہے جب خطے میں اہم پیش رفت ہو رہی ہے اور افغانستان سے امریکی افواج مکمل انخلا کر رہی ہیں۔ اعلان کے مطابق یہ انخلااس سال گیارہ ستمبر تک مکمل ہو جائے گا اور امریکی سامراج یہاں سے دم دبا کر بھاگ جائے گا۔ پاکستان کے حکمران اسے اپنے مفادات کے لیے خطرہ محسوس کر رہے ہیں اور پوری کوشش کررہے ہیں کہ امریکی آقاؤں کی سرپرستی ان پر قائم رہے تاکہ وہ اپنے عوام کی لوٹ مار اور ان پر جبر کا سلسلہ پہلے کی طرح جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ خطے میں بھی، خاص طور پر افغانستان میں اپنے مخصوص سامراجی مفادات کا حصول جاری رکھیں۔ اورساتھ ہی امریکہ سے ملنے والی فوجی امداد اور ڈالروں کی بارش بھی کسی نہ کسی طرح جاری رہے۔ پاکستان کی ریاست سامراجی امداداوراس کے ساتھ جڑی بلیک اکانومی کی بیساکھیوں کی اس قدر عادی ہو چکی ہے کہ اس کے بغیر اپنے طور پر اپنی معاشی سرگرمی کے ذریعے اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی۔

دوسری جانب طالبان بھی مختلف علاقائی سامراجی آقاؤں بشمول پاکستان کی حمایت سے اپنی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہیں جبکہ افغانستان کے عوام امریکی سامراج کی طرح طالبان سے بھی شدید نفرت کرتے ہیں اور ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن محنت کش عوام کے پاس کوئی منظم متبادل سیاسی قوت موجود نہیں اور نام نہاد بائیں بازو کی قوتیں دو دہائی قبل ہی امریکی سامراج اور اس کے گماشتوں کے ہاتھوں پر بیعت کر چکی ہیں۔ ایسے میں خطے میں موجود حکمران طبقات اور مختلف سامراجی طاقتیں ایک بار پھر خون کی ہولی کھیلنے کی تیاری کر رہی ہیں جبکہ کسی کے پاس بھی ترقی اور خوشحالی کا کوئی منصوبہ نہیں جس کے ناگزیر اثرات پاکستان کے سماج پر بھی بڑے پیمانے پر مرتب ہوں گے۔ امریکی سامراج کی خطے میں موجودگی کے دوران بھی خون کی ندیاں بہائی جا رہی تھیں اور خاص کر گزشتہ چند سالوں سے افغانستان میں ہونے والی ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا اور امریکی سامراج کی روس، چین اور یہاں تک کہ ایران کے ساتھ مل کر استحکام لانے کی تمام کوششیں مکمل طور پر ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں۔ کئی سال پہلے سے قطر میں طالبان کا سفارت خانہ کھول کر امریکہ کے ان پرانے یاروں کو دوبارہ اقتدار میں لانے کی تیاری کی جا رہی تھی اور جنگ اور مذاکرات کا بھیانک کھیل ایک طویل عرصے سے کھیلا جا رہا تھا۔ اب یہ سمجھوتے منظر عام پر آ چکے ہیں لیکن کسی طرف بھی استحکام اور پائیداری دور تک بھی نظر نہیں آ رہی۔ سب سے اہم اس سارے کھیل کی مالیاتی بنیادیں ہیں جس میں ہر فریق زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کے چکر میں ہے لیکن کسی کے پاس سرمایہ کاری کے وسائل پہلے جیسے موجود نہیں اور بحران بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسے میں پاکستانی ریاست کی بنیادوں پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

پاکستان کے سماج میں بھی اہم معیاری تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں لیکن حکمران طبقات اسے پرانے طریقوں سے ہی ہانکنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن پورا زور لگانے کے باوجود ان کے تمام منصوبے ناکام ہوتے جا رہے ہیں۔ عوام کو مذہبی بنیاد پرستی کے جس خونی چکر میں امریکی سامراج کی ایما پر دھکیلا گیا تھا اس کی تمام مالیاتی بنیادیں اور حکمرانوں کے مذموم ارادے عوام پر عیاں ہو چکے ہیں اور ان کا پورا میتھڈ واضح طور پر ہر کوئی دیکھ سکتا ہے۔ اسی لیے ان کے رجعتی پراپیگنڈے سے نفرت ہر سطح پر نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں پر امریکہ کے سپانسرڈڈالر جہاد کے لیے جو بنیادیں تعمیر کی گئیں تھیں وہ اب منہدم ہو رہی ہیں اور خود امریکی سامراج کی ترجیحات تبدیل ہو چکی ہیں۔ اسی لیے FATF اور دوسرے ذرائع سے اپنے غلام کوبربادی کے نئے رستوں پر دھکیلا جا رہا ہے۔ امریکہ نے اس وقت چین کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دے دیا ہے اور اس کے لیے انڈیا کو مقابلے کے لیے تیار کر رہا ہے۔ اس سے پہلے امریکہ کے ہی ایماپر پاکستان نے چین کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے تھے۔ جب 1950ء کی دہائی میں سوویت یونین اور چین کی سٹالنسٹ بیوروکریسی میں تضادات کا آغاز ہوا اور ان کی سپلٹ ہوئی تو امریکہ کے آشیر باد سے پاکستان نے چین کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا تاکہ سوویت یونین کے خلاف چین کی نفرت کو امریکہ کے حق میں استعمال کیا جا سکے۔ یہ تعلق سوویت یونین کے انہدام اور چین کے سرمایہ دارانہ نظام کی جانب لانگ مارچ میں مزید مضبوط ہوا اور سرمایہ دارانہ چین کو امریکی سامراج نے عالمی منڈی میں خوش آمدید کہا۔ لیکن اب امریکہ اور چین کے تضادات اسی عالمی سرمایہ دارانہ منڈی کے ہیجان اور نظام کے زوال کے باعث ابھر رہے ہیں۔ یہ لڑائی اب دو متحارب سماجی و معاشی نظاموں کی نظریاتی لڑائی نہیں جس میں ایک جانب منصوبہ بند معیشت ہو اور دوسری جانب منڈی کی معیشت ہے، بلکہ یہ دو سرمایہ دارانہ معیشتوں کی آپسی لڑائی ہے جو عالمی منڈی میں زیادہ سے زیادہ حصہ چاہتی ہیں۔ اس لڑائی میں پاکستان نے دونوں جانب کھیلنے کی کوشش کی لیکن اب یہ توازن رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے حالیہ پیکج میں ایک شرط یہ بھی شامل تھی کہ سی پیک کے لیے گئے قرضے آئی ایم ایف کے دیے گئے ڈالروں سے واپس نہیں کیے جائیں گے۔ آنے والے عرصے میں یہ تضاد مزید شدت اختیار کرے گا اورپاکستان کی ریاست کی بنیادوں کے حوالے سے اہم معیار ی تبدیلیاں سطح پر نظر آئیں گی۔

اس سارے عمل میں پچھلے عرصے کے دوران بنی سیاسی پارٹیاں، ریاستی ادارے اور ریاستی پالیسیاں بھی ناکارہ ہو چکی ہیں اور نئے معروض کے ساتھ بالکل بھی ہم آہنگ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ریاستی اقدام کو لطیفوں اور مذاق میں اڑا دیا جاتا ہے اور ریاست کے بنائے گئے بڑے بڑے بت پاش پاش ہو رہے ہیں۔ خواہ یہ بڑے بڑے نام سیاسی لیڈروں کی شکل میں ہوں یا کھلاڑیوں اور مذہبی علماء کی شکل میں، عوام کے سامنے ان کی حقیقت عیاں ہوتی جا رہی ہے اور پہلے جس طرح سنجیدگی، مدبرانہ انداز اور تحکمانہ طریقے سے دولت مند افراد کے ان نمائندوں کو عوام کی سوچوں پر مسلط کیا جاتا تھا اور بتایا جاتا تھا کہ کرکٹ کے میدان میں تیز ترین چھکے لگانے والا انتہائی سنجیدہ موضوعات پر دانشوارانہ رائے بھی دے سکتا ہے، اب ایسا ممکن نہیں۔ فلمی ستاروں اور مذہبی عالموں کے ذریعے صابن اور شیمپو بیچنے کے ساتھ سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کا منجن بیچنے کا کام بھی پہلے کی طرح نہیں ہو پا رہا۔ لیکن دوسری جانب عوامی امنگوں اور خواہشات کی ترجمانی کرنے والی حقیقی قوتوں کی بھی عدم موجودگی ہے جو زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گی اور یہ اسٹیٹس کو ایک بڑے دھماکے کے ساتھ جلد ٹوٹنے کی جانب بڑھے گا۔

اس دوران حکمران طبقے کے تضادات بھی کھل کر سطح پر آ رہے ہیں۔ عدالتی نظام جو کرپشن میں پاؤں سے لے کر سر تک اٹا ہوا ہے اور مزدوروں پرظلم اور جبر کی زندہ مثال بن چکا ہے، وہاں پر بھی سب سے اعلیٰ سطح پر لڑائی کھل کر نظر آ رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے جج ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگا رہے ہیں اور ایک دوسرے کے فیصلوں پر تنقید بھی نظر آتی ہے جو برطانوی سامراج کے بنائے گئے اس نظام کے کھوکھلے پن کو عیاں کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک بڑا دھماکہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد قاسم خان نے کیا جب ایک کیس کی سماعت کے دوران اس نے ملک کا سب سے بڑا قبضہ مافیا فوج کو قرار دے دیا اور سینیئر فوجی اہلکاروں کو عدالت میں بلانے کی دھمکی بھی دے دی۔ یہ حکمران طبقات کے باہمی اختلافات کا کھلا اظہار ہے جبکہ دوسری جانب عوام مکمل طور پر عدلیہ اور انصاف کی سوچ سے ہی بیگانہ ہو چکی ہے۔ جس ملک میں ایک سادہ سائیکل چوری کی ایف آئی آر کے لئے رشوت دینی پڑتی ہو، وکیل کی فیس نہ دینے کی سکت پرتمام عمر جیل کی سلاخیں مقدر ہوں، اربوں کھربوں کی چوری کر کے لوگ آزاد دندناتے پھرتے ہوں اور از خود نوٹس ایک ڈرامہ بن چکا ہووہاں اعلیٰ عدلیہ اور اس کا تقدس ایک بھونڈا مذاق ہے۔ ریاست نے عدلیہ کو مزدور تحریک کو کچلنے کے لیے اتنا استعمال کیا ہے کہ اب یہ اوزار ناکارہ ہو چکا ہے۔

دوسری جانب میڈیا میں موجود اشرافیہ کے نمائندہ اینکروں کی جانب سے بھی جرنیلوں پر کھلم کھلا الزامات حکمران طبقے کی فرسٹریشن اور ٹوٹ پھوٹ کا اظہار کرتے ہیں۔ اسلام آباد میں ایک نوجوان صحافی پر چند غنڈوں کی جانب سے ہونے والے پر تشدد حملے کے بعد یہ آپسی تضادات کھل کر سامنے آئے۔ کچھ رپورٹوں کے مطابق یہ حملہ ایک معروف اینکر پرسن عمران ریاض خان نے ہی اپنے غنڈوں اورخفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر کروایا تھا۔ اس پر تشدد کاروائی کے بعد صحافیوں کے ایک احتجاج میں لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ اور بہت سی مراعات لینے والے امیر ترین صحافی حامد میر بھی اپنے غم و غصے پر قابونہیں رکھ سکے اور کھل کر جرنیلوں پر نہ صرف الزام تراشی کی بلکہ ان کے گھریلو راز اگلنے کی بھی دھمکی دی۔ اس کے بعد یہ بحث کافی مقبول ہوئی اور آپسی لڑائی میں عوام کے سامنے حکمرانوں کے گھروں کے کھلنے والے راز دلچسپی کا باعث بنے رہے۔ ملک میں مزاحمتی سیاست کی پسپائی اور سوشلسٹ نظریات کی حامل قوتوں کی عددی کمزوری کے باعث صحافیوں کی تنظیمیں اور تحریکیں بھی کمزور ہوئی ہیں اور ماضی میں جو پرتیں آمریتوں اور مزدور دشمن قوتوں کے خلاف مزاحمت میں سب سے آگے ہوتی تھیں آج وہ کرپشن، لوٹ مار، بلیک میلنگ اور اشرافیہ کی غلاظتوں پر پردہ ڈالنے کے ہتھیار بن چکے ہیں۔ یہاں پر امیر اور غریب کی طبقاتی تقسیم بھی واضح ہے اور ہزاروں میڈیا ورکرز جہاں انتہائی کم اجرتوں اور مشکل ترین حالات میں کام کر رہے ہیں وہاں اشرافیہ کے لے پالک لاکھوں روپے تنخواہوں اور مراعات کے ساتھ ساتھ بد عنوانی کے ذریعے بھی کروڑوں روپے کما رہے ہیں جو ان کے معیار زندگی سے واضح ہے۔ ایسے میں ریاستی جبر اور حکمران طبقے کے مظالم کا مقابلہ مزدور تحریک اور سوشلسٹ نظریات کے ساتھ جڑکر ہی کیا جا سکتا ہے اور کسی سامراجی قوت یا ریاستی دھڑے کا آلہ کار بن کر صرف مصنوعی مقبولیت یا کیرئیر بنانے کے گھناؤنے چکر کا ہی حصہ بنا جا سکتا ہے۔

اس وقت سماج میں موجود گھٹن اور بے چینی انتہاؤں کو پہنچ رہی ہے جبکہ کسی بھی قسم کا حقیقی سیاسی متبادل نہ ہونے کے باعث یہ صورتحال ایک تکلیف دہ سیاسی حبس کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس میں بہت سے لوگ اپنی دکانداری چمکانے کے لیے حکمران طبقے کے کسی ایک دھڑے کی ایما پر سیاست میں قسمت آزمائی کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن صورتحال جس بڑے پیمانے پر بنیادی تبدیلی اور اسٹیٹس کو اکھاڑنے کا تقاضا کر رہی ہے وہ ایک سوشلسٹ انقلاب سے کم کسی بھی اقدام سے ممکن نہیں۔ معیشت کی بربادی کے باعث بھوک اور بیماری سے ہونے والی ہلاکتیں سینکڑوں سے اب ہزاروں کی جانب بڑھ رہی ہیں اور کروڑوں لوگ دو وقت کی روٹی بھی حاصل نہیں کر پا رہے۔ سماج کی ایک بہت بڑی اکثریت فاقوں پر مجبور ہو چکی ہے جبکہ پورے ملک میں حالات سے تنگ آکر ہونے والی خود کشیوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے۔ ایسے میں حکمران طبقات کا جبر اور مظالم بھی نئی انتہاؤں کو پہنچ چکے ہیں تاکہ موجودہ نظام کو کسی نہ کسی طرح قائم رکھا جائے اور اپنی پر تعیش زندگیاں پہلے کی طرح جاری رکھی جا سکیں۔ اس بربادی میں لوٹ مار بھی نئی انتہاؤں کو چھو رہا ہے اور کرونا فنڈ سے بارہ سو ارب روپے خورد برد کرنے والا جنرل ہو یا راولپنڈی رنگ روڈ میں سیاستدانوں اور جرنیلوں کی سینکڑوں ارب روپے کی لوٹ مار، ہر روز کسی نہ کسی مافیا کی کرپشن کے حیران کر دینے والے قصے سننے کو ملتے ہیں لیکن سزا کسی کو بھی نہیں۔ سزا اگر مل رہی ہے تو اس ملک کے محنت کش عوام کو جن کی زندگی جہنم سے بھی بد تر ہو چکی ہے اور کوئی بھی پرسان حال نہیں۔ ایسے میں صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی اس بد ترین جبر کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور سامراجی طاقتوں اور مقامی حکمران اشرافیہ کے قبضے کا انت کرتے ہوئے مزدور ریاست کی تعمیراور منصوبہ بند معیشت کے ساتھ ترقی اور خوشحالی کے دور کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔

Comments are closed.