فیصلہ کن موڑ

تحریر: وی آئی لینن

(یہ مضمون لینن نے 26جون 1917ء کو لکھا جب ردانقلابی عبوری حکومت بالشویک پارٹی کے خلاف کاروائیاں کرنے کی حکمت عملی ترتیب دے رہی تھی جس کی وجہ بالشویک پارٹی کی جنگ جاری رکھنے کی حکومتی پالیسی کی مخالفت اور عبوری حکومت کی عوامی مسائل کو حل کرنے کی تاریخی نااہلی اور سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کا موقف تھا، جس کا عملی اظہار جولائی کے دنوں میں ہوا۔)

’’نکتہ یہ ہے کہ روسی اور اتحادی سامراجیوں کے اشاروں پر چلنے والے پیٹی بورژوا جمہوریت پسند، بین الاقوامیت پسند سوشلسٹوں سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں۔‘‘

انقلاب روس کے پہلے مرحلے میں اقتدار سامراجی بورژوازی کو ملا اور اس اقتدار کے ساتھ ساتھ نمائندگان کی سوویتیں بھی قائم ہوئیں جن میں اکثریت پیٹی بورژوا جمہوریت پسندوں کو حاصل تھی۔ انقلاب کے دوسرے مرحلے (6مئی) نے میلیوکوف اور گچکوف جیسے سامراج کے بے دھڑک نمائندوں کو اقتدار سے بیدخل کرتے ہوئے سوویتوں میں اکثریت رکھنے والی پارٹیوں کو حکومت کرنے والی پارٹیوں میں بدل دیا۔ 6مئی سے پہلے اور بعد میں بھی ہماری پارٹی ایک اقلیتی حزب مخالف کے طور پر رہی۔ ایسا ہونا ناگزیر تھا کیونکہ ہم سوشلسٹ پرولتاریہ کی پارٹی ہیں، ایک ایسی پارٹی جو بین الاقوامیت کی پوزیشن رکھتی ہے۔ ایک سامراجی جنگ کے دوران بین الاقوامی نقطہ نظر رکھنے والا سوشلسٹ پرولتاریہ جنگ کرنے والی طاقت کا صرف مخالف ہی ہو سکتا ہے، چاہے وہ طاقت بادشاہت ہو یا جمہوریہ، یا پھر یہ طاقت دفاع پسند ’’سوشلسٹوں‘‘ کے پاس ہو۔ سوشلسٹ پرولتاریہ کی پارٹی ناگزیر طور پر عوام کی وسیع اکثریت کو جیتتی جائے گی، جو کہ طویل ہوتی ہوئی جنگ سے برباد ہو رہے ہیں اور سامراج کی دلالی کرنے والے ’’سوشلسٹوں‘‘ سے ویسے ہی بدظن ہو رہے ہیں جیسا کہ اس سے پہلے وہ بذات خود سامراجیوں سے بدظن ہوئے تھے۔ 

ہماری پارٹی کی مخالفت انقلاب کے بالکل ابتدائی دنوں میں ہی شروع ہو گئی تھی۔ کیڈٹس اور پلیخانوف کے ساتھیوں کی جانب سے پرولتاریہ کی پارٹی کے خلاف کی گئی جدوجہد کی مختلف اشکال، چاہے کتنی ہی قابل نفرت کیوں نہ ہوں، اس جدوجہد کا مقصد و مطلب نہایت واضح ہے۔ یہ بالکل ویسی ہی جدوجہد ہے جیسی کہ سامراجیوں اور شائیڈمان کے حامیوں نے لائبنیخت اور ایڈلر کے خلاف کی تھی (ان دونوں کو جرمن ’’سوشلسٹوں‘‘ کے مرکزی اخبار میں ’’پاگل‘‘ قرار دے دیا گیا تھا اور بورژوا پریس نے تو ان کامریڈوں کو برطانیہ کے لئے کام کرنے والے ’’غداروں‘‘ جیسے القابات سے نوازا)۔ یہ سوشلسٹ بین الاقوامیت پسند پرولتاریہ کے خلاف پیٹی بورژوا جمہوریت پسندوں سمیت پورے بورژوا سماج کی لڑائی ہے۔ 

روس میں یہ لڑائی ایسے مرحلے تک پہنچ گئی ہے جہاں سامراجی سریتیلی اور چرنوف جیسے پیٹی بورژوا جمہوریت پسند لیڈروں کے ذریعے پرولتاریہ کی پارٹی کی بڑھتی ہوئی طاقت کو ایک فیصلہ کن وار کے ساتھ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس فیصلہ کن حملے کے لئے ماحول سازگار بنانے کی خاطر منسٹر سریتیلی نے انقلاب دشمنوں کے ایک آزمودہ طریقہ کار کا سہارا لیا ہے، یعنی کہ ایک سازش کا الزام۔ یہ الزام تو محض ایک بہانہ ہے۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ روسی اور اتحادی سامراجیوں کے اشاروں پر چلنے والے پیٹی بورژوا جمہوریت پسند سوشلسٹوں سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حملے کا وقت آ چکا ہے۔ وہ ڈرے ہوئے ہیں اور خلفشار کا شکار ہیں اور اپنے آقاؤں کے حکم پر فیصلہ کر چکے ہیں کہ اب یا کبھی نہیں۔ 

سوشلسٹ پرولتاریہ اور ہماری پارٹی کو اپنے حواس قائم رکھنے، نہایت استقامت اور احتیاط کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مستقبل کے کیویگناکس (ردانقلابیوں) کو پہل کرنے دو۔ ہماری پارٹی کانفرنس نے پہلے ہی ان کی آمد کی چیتاونی دے دی ہے۔ پیٹرو گراڈ کے محنت کش انہیں بری الذمہ ہونے کا کوئی موقع نہیں دیں گے۔ وہ (محنت کش) اپنی قوتوں کو مجتمع کرتے ہوئے اور مزاحمت کی تیاری کرتے ہوئے اس وقت کا انتظار کریں گے جب یہ حضرات اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کریں گے۔ 

Comments are closed.