|تحریر: ثاقب اسماعیل|
حکمران طبقے کی لوٹ مار اور جبر کے باعث پاکستان میں نوجوان نسل حال اور مستقبل کے متعلق غیر یقینی پن، تذبذب اور بے چینی کا شکار ہے۔ تبھی تو سی ایس ایس کیسے پاس کیا جائے؟ کاروبار کیسے کیا جائے؟ سٹڈی ویزا پر ملک سے باہر کیسے جا سکتے ہیں؟ اس طرح کے اور بے تحاشا موضوعات پر منعقد ہونے والے پروگراموں اور سیمیناروں میں نوجوانوں کا رش بڑھتا جا رہا ہے۔ کالج کا سٹوڈنٹ فرسٹ ائیر پاس کرنے کے بعد ملک سے باہر جانے کے لیے سکالرشپس کی تلاش میں لگ جاتا ہے اور جو سٹوڈنٹس بدترین معاشی حالت کی وجہ سے باہر جانے کے قابل نہیں ہوتا، وہ تعلیم چھوڑ کر کوئی کام ڈھونڈنے میں لگ جاتا ہے۔
مجھے ان اعداد و شمار میں جانے کی ضرورت نہیں کہ کتنے بچے سکولوں میں داخل ہی نہیں ہو پاتے؟ کتنے بچے پرائمری کے بعد تعلیم ہی چھوڑ دیتے ہیں؟ کتنے نوجوان جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں پھر وہ تعلیمی و دیگر اخراجات کو پورا کرنے کے لیے پارٹ ٹائم نوکری کر رہے ہوتے ہیں۔ ان حقائق کا اندازہ سب کو ہے اور مجھے ان حقائق میں بھی جانے کی ضرورت نہیں کہ پی ایچ ڈی کر جانے کے باوجود بھی کتنے بے روزگار ہیں اور جن کا روزگار لگ بھی گیا ہے تو ان کی زندگی کیا واقعی بہتر ہے؟ ان کی تنخواہیں ان کی ضروریات پوری کر رہی ہیں؟ ان سوالات کا جواب جاننے کے لیے کوئی خاص ریسرچ کی ضرورت نہیں۔ سماج میں موجود بچے سے لے کر بڑا ہر شخص اس حقیقت سے واقف ہے۔
بظاہر حکومتی ایوانوں میں بیٹھے وزیروں اور مشیروں کے بیانات میں نوجوانوں کی حالت زار پر آج کل بہت تشویش پائی جاتی ہے۔ یہ ناٹک کوئی نیا نہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے حکومتی ایوانوں میں یہ ناٹک کھیلا جا رہا ہے محض چہرے یعنی کہ اداکار بدلتے رہتے ہیں۔ آج کل میڈیا پہ ’اڑان پاکستان‘ جس میں ’پرائم منسٹر یوتھ پروگرام‘ بھی شامل ہے کا بہت شوشہ چھوڑا جا رہا ہے۔ ’اڑان پاکستان‘ کا مقصد محض عوام کو ایک اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا ہے۔ ’اڑان پاکستان‘ کی افتتاحی تقریب میں وزیراعظم شہباز شریف نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ، ”حکومت ایک ایسی پالیسی پر کام کر رہی ہے جس کا مقصد نوجوانوں کو پیشہ وارانہ ہنر فراہم کر کے اور نجی شعبے کی شمولیت کو فروغ دے کر بے روزگاری کو کم کرنا ہے۔“ آئی ایم ایف کی ایما پر بنائی گئی یہ پالیسی جو نجکاری کو بے روزگاری کا واحد نسخہ بتا رہی ہے، مضحکہ خیز ہے۔
حالانکہ پچھلی چار دہائیاں بتاتی ہیں کہ نجکاری کی صورت میں بے روزگاری میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ جن اداروں کو بیچا گیا وہ ادارے تباہ ہو گئے ہیں۔ مہنگائی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے، مالی بحران گہرا ہوا ہے اور عوام کے مسائل میں شدت آئی ہے۔ اس کے علاوہ حکمران طبقے کی طرف سے عوام کو فریب میں ڈالنے کا یہ نیا منصوبہ نہیں۔ پی پی پی حکومت کا وژن 2030ء جو کہ مشرف دور کے ہی ایک پروگرام کا تسلسل ہے، پھر نواز شریف حکومت کا وژن 2025ء، پی ٹی آئی حکومت کا ’کامیاب جوان پروگرام‘ اور ’احساس پروگرام‘ اور اب شہباز حکومت کا ’اڑان پاکستان‘۔۔۔ لیکن اس سارے عرصے میں نام نہاد ترقی کے ان منصوبوں کے باوجود محنت کش عوام کے حصے میں بے روزگاری، مہنگائی، لاعلاجی کے علاوہ کچھ نہیں آیا اور حکمران طبقات کی مراعات اور عیاشیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
ایسے میں آج کا نوجوان، جو اپنا اور اپنے خاندان کا مستقبل محفوظ دیکھنا چاہتا ہے اس کی ساری جوانی اچھے روزگار کی تلاش میں برباد ہو رہی ہے، ان کے سامنے جب حکومتی وزرا یوتھ امپاورمنٹ سکیم، آن لائن ارننگ، فری لانسنگ وغیرہ، وغیرہ جیسے جادوئی حل لے آتے ہیں، جبکہ بے روزگاری پر موٹیویشنل سپیکرز کے لیکچرز سے لے کرٹی وی چینلوں اور اخباروں میں بے تحاشا اشتہار بازی چل رہی ہوتی ہے۔ یہ حکومتی ایوانوں میں کھیلے جانے والے وہ ناٹک ہیں، جس کا واحد مقصد نوجوانوں کو سبز باغ دکھانا اور فریب میں رکھنا ہے۔ اور یہ سبز باغ اس لیے دکھائے جاتے ہیں کہ معاشی بدحالی سے تنگ نوجوانوں کا غصہ کہیں تحرک کی شکل نہ اختیار کر جائے اور ان کا اقتدار خطرے میں نہ پڑ جائے۔
کیریئرازم یا انقلابی جدوجہد
ہم سمجھتے ہیں آج کے عہد میں نوجوانوں کے پاس اس گھن چکر سے نجات کا واحد راستہ کیرئیرازم کا نشہ نہیں بلکہ حکمران طبقے اور اس کے نظام کے خلاف انقلابی جدوجہد ہے۔ حکمران آج یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یا تو مسئلہ پچھلی حکومتوں کا تھا حالانکہ تمام حکومتوں کی پالیسی ایک جیسی رہی ہے، یا نوکری اس لیے نہیں لگ رہی کہ نوجوانوں کے پاس ہنر نہیں ہیں حالانکہ پچھلے کئی سالوں سے کوئی نیا روزگار پیدا نہیں ہو رہا، تبھی تو لاکھوں ہنر مند نوجوان ملک سے باہر جا رہے ہیں یا موٹی ویشنل سپیکرز کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ نوجوان محنت نہیں کرتے اور جاہل ہیں۔ طرح طرح کی جھوٹی تاویلات! اس سارے عرصے کے دوران جب ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے سرمایہ داروں، ججوں، جرنیلوں، سیاستدانوں، بیوروکریٹوں کی دولت توکئی گنا بڑھ چکی ہے۔ جب ملک بحران میں ہے اور جب محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو روزگار نہیں مل رہا اور مسلسل ان کا معیارِ زندگی گرتا جا رہا ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ حکمران طبقات اور ان کے بچوں کی دولت کیسے بڑھ رہی ہے؟ حقیقت میں حکمرانوں کا کیرئیر اس نظام کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور یہ طبقہ جو انقلابی بغاوت سے خوفزدہ ہے محنت کش نوجوانوں میں کیرئیرازم کا چورن بیچتا ہے۔
ایسے میں دوسری طرف معاشی بدحالی و دیگر وجوہات کی وجہ سے پاکستانی نوجوانوں کے ملک سے باہر جانے کے رجحان میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ان میں ہنر مند نوجوانوں کی بھی بڑی تعداد ہے، جس میں یونیورسٹی گریجوایٹس، ڈاکٹرز، انجینئرز، آئی ٹی سپیشلسٹس، ٹیچرز اور اکاؤنٹنٹس شامل ہیں اور یہ تعداد لاکھوں میں ہے۔ اس وقت پاکستانی ریاست نوجوانوں کی بیرون ملک نقل مکانی کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ پاکستان کا پسماندہ سرمایہ دار طبقہ جو 1947ء سے ہی بیرونی ٹکڑوں پر پلتا آ رہا ہے، نے بڑھتی بے روزگاری کا بوجھ اپنے سر سے اتارنے کے لیے ایک لمبے عرصے سے نوجوانوں کو باہر بھیجنا شروع کر رکھا ہے تاکہ بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلات زر کی مد میں آنے والے اربوں ڈالرز سے بحران زدہ ملکی معیشت کو نئی بیساکھی پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جا سکے۔
اس کام کو نبھانے کے لیے بہت سے حکومتی ادارے کام کر رہے ہیں جیسا کہ بیورو آف ایمیگریشن اینڈ اورسیز ایمپلائیمنٹ (BEOE) اوورسیز ایمپلائمنٹ کمیشن (OEC) اور اس کے علاوہ بہت سے ہنر سیکھانے کے لیے قائم کیے گئے اداروں کا مقصد ہی مقامی نہیں بلکہ بیرونی صنعت کے لیے تربیت دینا ہے، جس میں نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن (NAVTTC) سر فہرست ہے۔ اسی طرح ملک سے باہر بھیجنے والی مختلف لائسنسڈ ایجنسیاں اور اسی طرح باہر سے آنے والا ترسیلاتِ زر جن چینلوں کے ذریعے آتا ہے اس پہ بھی حکمران طبقات کے مختلف دھڑے قابض ہیں جن سے وہ بلواسطہ یا بلاواسطہ اپنا فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔ بدترین معاشی بدحالی کا شکار پاکستانی نوجوان جو اپنا سب کچھ بیچ کر باہر جا رہا ہے ریاستی اشرافیہ اس سے بھی اپنی تجوریاں بھرنا چاہتی ہے۔
بیرون ملک جانے والوں کے مسائل
اس کے علاوہ یورپ جہاں کے شہریوں کی زندگی کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے وہ اب ماضی جیسی عظیم طاقت نہیں رہی اور نہ ہی وہاں کے شہریوں کی زندگیاں ماضی جیسی زندگیاں رہ گئی ہیں، بلکہ عالمی سرمایہ داری کے زوال کی وجہ سے یورپ اب دوسرے درجے کی طاقت بن کے رہ گیا ہے، جس کی اہمیت عالمی سیاست، سفارت اور معیشت میں ختم ہوتی جا رہی ہے۔ یورپ کے زوال کا اندازہ امریکہ یورپ تعلقات بگڑنے کے بعد یورپی حکمرانوں کی بھاگ دوڑ میں نظر آ رہا ہے۔ اس وقت یورپ میں مہنگائی، بے روزگاری اور تنخواہوں میں کٹوتیوں کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ وہاں محنت کشوں کا معیارِ زندگی مسلسل گر رہا ہے اور یہی حالات امریکہ کے ہیں جو ماضی کی نسبت زوال کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں گزشتہ کئی سالوں میں احتجاجی تحریکوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے حالات میں اپنا سب کچھ خرچ کرنے کے بعد جن میں ڈنکی لگا کر جانے والے بھی شامل ہیں، جب یورپ جاتے ہیں تو وہاں انہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم نوکری کرنا پڑتی ہے تاکہ اپنے تعلیمی اخراجات پورا کرنے کے ساتھ ساتھ گھر والوں کو بھی پیسے بھیج سکیں۔ سٹڈی ویزا پر جانے والوں میں بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی بھی ہوتی ہے، جو تعلیم کی بجائے وہاں نوکری کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ انہیں ویزہ پر لگنے والے اخراجات جو عموماً قرضے لے کر پورے کیے جاتے ہیں، اپنے اخراجات اور گھر والوں کے اخرجات پورے کرنے ہوتے ہیں۔ انہیں اگر وہاں کام ملتے بھی ہیں تو اکثریت کو مختلف ریسٹورینٹس میں یا ڈیلوری سروسز میں۔۔ تین تین شفٹوں میں کام کرنے کے باوجود بھی یہ اخراجات پورے نہیں ہوتے۔
کیونکہ ایک تو یورپ میں پہلے ہی تنخواہوں میں کٹوتیاں کی جا رہی ہیں دوسرا یورپی شہریوں کی نسبت باہر والوں کو بہت ہی کم اجرت دی جاتی ہے۔ مثالی زندگی جینے کا خواب لیے نوجوانوں کے مسائل یورپ جا کے بالکل بھی ختم نہیں ہوتے۔ یہی حالات مڈل ایسٹ جانے والے اکثر نوجوانوں کا ہے جہاں انہیں بدترین استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن دوسری طرف جرنیلوں، ججوں، بیوروکریٹوں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں، سیاستدانوں کے بچے جو سب عموماً جاتے ہی باہر ہیں، ان کی زندگی ایسی نہیں ہوتی۔ پاکستانی محنت کشوں کی لوٹ مار کے پیسوں سے اشرافیہ کے بچے باہر جا کر عیاشیاں کرتے ہیں اور ان میں سے اکثریت بیرون ممالک مکمل طور پر شفٹ ہو جاتی ہے اور جو واپس آتے ہیں وہ یہاں آ کے بیوروکریسی، عدلیہ، فوج یا پارلیمنٹ میں جا کے محنت کشوں کا مزید استحصال کرتے ہیں۔
گِگ اکانومی اور فری لانسنگ کے مسائل
ساتھ ہی حکومتی سطح پر پچھلے کچھ سالوں سے گگ اکانومی اور فری لانسنگ کو بے روزگاری کے حل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ حکومتی سطح پر مختلف پروگراموں جیسا کہ ’نیشنل فری لانس ٹریننگ پروگرام‘، ’ای روزگار‘، ’ڈی جی سکلز‘، ’پی ایم یوتھ پروگرام‘ وغیرہ کے ذریعے بڑی تعداد میں نوجوانوں کو اس طرف راغب کیا جا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت بیس لاکھ سے زائد پاکستانی نوجوان فری لانسنگ کے شعبے سے جڑے ہیں جس میں یہ غیر ملکی اداروں کے لیے آن لائن کام کر کے پیسے کماتے ہیں۔ باقی حربوں کی طرح بے روزگاری کے مسئلے کے حل میں ناکامی کو چھپانے اور نئے طریقوں سے اپنی تجوریاں بھرنے کا یہ ایک اور حکومتی حربہ ہے۔ ہم ابھی اس طرف نہیں جاتے اوپر ذکر کردہ پروگراموں میں کیا کیا گھپلے ہیں، ذرا سی تحقیق پر بھی آپ کے سامنے سب حقائق آ جائیں گے۔ ہم یہاں مختصراً گِگ اکانومی اور فری لانسنگ پر بات کریں گے کہ یہ کیسے بے روزگاری کے مسئلے کا مستقل حل نہیں۔
اول تو پاکستان میں انٹرنیٹ کے حوالے سے بدترین مسائل ہیں اوریہ مسائل حکومت کی طرف سے فائر وال کے نفاذ کی صورت میں شعوری طور پر پیدا کیے جا رہے ہیں۔ انہی مسائل کی وجہ سے بہت سی کمپنیوں نے پاکستان سے فری لانسنگ پر کام کروانے میں کمی کر دی ہے۔ دوم اس وقت بے روزگاری، جو کہ وبا کی صورت میں سماج میں پھیلی ہوئی ہے، کی وجہ سے لاکھوں نوجوان فری لانسنگ کی طرف سے آئے ہیں، جس نے مقابلہ بازی کو جنم دیا ہے اور نئے آنے والوں کے لیے جگہ بنا پانا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ اسی طرح اتنی بڑی تعداد کے اس فیلڈ میں آنے کی وجہ سے اب تو سروسز دینے والوں کی تعداد کلائنٹس سے ہی بڑھتی جا رہی ہے۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے باقیوں کی نسبت کم قیمت پر پاکستانی فری لانسرز سروسز دے رہے ہوتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی فری لانسرز عالمی ریٹ کے مقابلے میں سات گنا کم ریٹ پر کام کر رہا ہوتا ہے۔ سوم فری لانسنگ روایتی نوکریوں کی طرح کی نوکری نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ کچھ فری لانسرز نے روایتی نوکریوں سے زیادہ پیسے کمائے ہیں مگر اس میں روایتی نوکریوں کی طرح کا کسی قسم کا تحفظ حاصل نہیں۔ نہ ہی پنشن، نہ ہی چھٹی، نہ ہی مستقل تنخواہ۔۔۔ فری لانسر بھی اجرت پر ہی کام کرتا ہے، وہ کسی کے لیے کام کر رہا ہوتا ہے۔ اس کی صلاحیتوں کا فائدہ کسی اور کو ہو رہا ہے وہ اس کمپنی کے مالک کو ہوتا ہے جس کمپنی کے لیے وہ کام کر رہا ہوتا ہے۔ بیمار پڑ جانے کی صورت میں یا کسی اور ایمرجنسی کی صورت میں آپ کو کوئی تحفظ حاصل نہیں بلکہ آپ کو مسلسل آن لائن رہنا پڑتا ہے۔
لیکن اب آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے آنے کے باعث یہ شعبہ بھی بحران کا شکار ہے اور بڑی تعداد میں فری لانسرز بیروزگار ہو رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ فری لانسنگ ایک طرف سرمایہ داروں کے لیے سستی ترین لیبر کا ذریعہ بن چکی ہے جبکہ دوسری طرف اسے بے روزگاری کا مستقل حل بنا کے پیش کرنا اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے اور فریب ڈالنے کی ہی ایک اور کوشش ہے۔
بیروزگاری کی وجوہات اور ان کا حل
بیروزگاری میں اضافے کی وجہ ملکی معیشت کا شدید ترین بحران ہے جس کی ذمہ داری اس ملک کے حکمرانوں اور تمام سیاسی پارٹیوں پر عائد ہوتی ہے جبکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے اور ان کی پالیسیاں بھی اس کی ذمہ دار ہیں۔ بے روزگاری کا مظہر صرف پاکستان میں موجود نہیں بلکہ پوری دنیا اس کی لپیٹ میں ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام شدید بحران کا شکار ہے۔ ایک طرف جنگوں میں لاکھوں بے گناہ انسان سامراجی ریاستوں کے جنگی ساز و سامان کا نشانہ بن رہے ہیں، تو دوسری طرف پاکستان سمیت، یورپ سے لے کر امریکہ میں بھی محنت کشوں پر بدترین معاشی حملے کیے جا رہے ہیں۔ محنت کشوں کا معیارِ زندگی مسلسل گر رہا ہے۔ مڈل کلاس سکڑ کر ورکنگ کلاس میں شامل ہو رہی ہے۔ یہ عالمی سطح پہ ہو رہا ہے مگر دوسری طرف کیا اس بحران میں سرمایہ داروں کی دولت میں کوئی کمی آئی ہے؟ بالکل بھی نہیں، بلکہ یہاں کے محنت کش عوام چشم دید گواہ ہیں کہ بحران کا رونا رو کر تنخواہوں میں کٹوتیاں اور ٹیکسوں میں اضافہ کرنے والی ریاستی اشرافیہ کس منافقت سے اپنی مراعات اور تنخواہیں بڑھا دیتی ہے۔
حالیہ بجٹ میں سیاسی و فوجی اشرافیہ نے اپنی مراعات تو سو سو فیصد بڑھا دی ہیں اور عوام کے لیے صرف نجکاری و کٹوتیاں ہی ہیں۔ وسائل اور پیسوں کی کمی کا رونا رونے والی ریاستی اشرافیہ کے پاس اپنی عیاشیوں کے لیے تو اربوں ڈالر ہوتے ہیں مگر عام عوام کے لیے کچھ نہیں بلکہ اپنی عیاشیوں کے لیے عام عوام کی جیبوں سے ہی پیسہ نکالا جاتا ہے۔ جیسا کہ کارل مارکس نے کہا تھا کہ، ”جدید ریاست وہ انتظامی کمیٹی ہے، جس کا مقصد سرمایہ دار طبقے کے مفادات کو تحفظ دینا ہے۔“ سرمایہ دارانہ ریاست سرمایہ داروں کے مفادات کے لیے ہی کام کرتی ہے۔ سرمایہ دار طبقہ ذرائع پیداوار، بینکوں، فیکٹریوں، ملوں، جاگیروں پر قابض ہے اور ان سے اپنے منافعوں میں اضافہ کرتا ہے اور محنت کشوں کا استحصال کرتا ہے اور سرمایہ دارانہ ریاست اس میں سرمایہ دار طبقے کی مدد کرتی ہے۔ جب تک اس ریاست اور اس نظام کو انقلاب کے ذریعے بنیادوں سے اکھاڑ کر ذرائع پیداوار پر محنت کشوں کا اجتماعی کنٹرول نہیں آتا، تب تک کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ ان مسائل کی شدت میں اضافہ ہو گا۔
لہٰذا اپنی ذات کو سنوارو! اپنا کیرئیر بناؤ! جیسا ہر بھاشن فریب ہے، جھوٹ ہے، بلکہ مکاری ہے۔ نوجوان نسل کے سامنے یہ حقیقتیں آج کل کھل کر عیاں ہو چکی ہیں۔ تبھی تو موجودہ سیاسی پارٹیوں سے نفرت کرتے ہیں اور متبادل چاہتے ہیں۔ گو کہ سطح پر اس غصے کا اظہار بہت بڑے انقلابی تحرک کی صورت میں نہیں ہو رہا مگر کسی بھی لمحے کسی بھی مسئلے پر یہ غصہ پھٹ سکتا ہے اور آج جو ریاستی و سماجی ڈھانچہ، جو بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا، حقیقت میں کھوکھلا ہو چکا ہے اور کسی بھی انقلابی تحریک میں مکمل طور پر ٹوٹ کر بکھر جائے گا۔ مگر یہ خودبخود نہیں ہو گا۔ ایک انقلابی جدوجہد ہی وہ واحد راستہ ہے، جو اس نظام کو منہدم کر سکتا ہے۔ ہم کمیونسٹ آئیں بائیں شائیں سے کام نہیں لیتے۔ حالات و واقعات کا تجزیہ اپنی خواہشات کے مطابق نہیں کرتے بلکہ سائنسی انداز میں جو جیسا ہے اسے ویسا دیکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر ہی تجزیہ کرتے ہیں۔ لہٰذا ہم ببانگِ دہل کہتے ہیں کمیونزم کے انقلابی نظریات پر انقلابی جدوجہد واحد پریکٹیکل حل ہے۔ نسلِ انسانی کی بقا اسی کے ساتھ جڑی ہے۔





















In defence of Marxism!
Marxist Archives
Progressive Youth Alliance