ٹرمپ، چین اور افق پر منڈلاتا معاشی بحران

|تحریر: لیروی جیمز؛ ترجمہ: ولید خان|

اس سال اگست میں 10 سالہ حکومتی ٹریژری بلوں (Treasury Bills-T Bills) پر متوقع منافع دو سالہ مدتی بلوں سے توقعات کے خلاف نیچے گر گیا۔ ایسا 2007ء کے بعد پہلی مرتبہ ہوا ہے جبکہ 30 سالہ بانڈ پر منافع بھی کم تر سطح پر پہنچ گیا ہے۔ Yield Curve ان سرمایہ کاروں کے لئے متوقع منافع کا تخمینہ ہے جو حکومتی قرضے میں شیئر خریدتے ہیں جو مختلف مدت میں واپس کیا جاتا ہے۔ امریکی وزارت خزانہ بانڈ بیچ کر پیسے کماتی ہے تاکہ حکومت چلائی جا سکے جبکہ قومی قرضہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔

یہ بانڈ طلب اور رسد کی قوتوں سے براہِ راست ٹکراتے ہیں اور طویل مدتی مگر کم منافع اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ سرمایہ کار اپنا پیسہ اسٹاک مارکیٹ کی سٹہ بازی کے بجائے کم خطر طویل مدتی حکومتی بانڈز میں لگا رہے ہیں۔ یعنی دوسرے الفاظ میں سرمایہ کاروں کو مستقبل قریب میں معاشی بحران پھٹتا نظر آرہا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے سرمائے کو محفوظ کر رہے ہیں۔ 1950ء سے لے کر اب تک ہر بڑے معاشی بحران سے قبل Yield Curve کاالٹا ہوجانا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اگلے چند سالوں میں ایک بڑا معاشی بحران آنے والا ہے۔

1950ء سے لے کر اب تک ہر بڑے معاشی بحران سے قبل Yield Curve کاالٹا ہوجانا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اگلے چند سالوں میں ایک بڑا معاشی بحران آنے والا ہے۔

چین کے ساتھ ٹرمپ کی تجارتی جنگ کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ کے دو کلیدی سیاسی اہداف۔۔۔نئے معاشی بحران کو موخر کرنا اور اپنی تجارتی جنگ جیتنا۔۔ ایک دوسرے سے متصادم ہیں اور اسی لیے وہ امریکی فیڈرل ریزرو کی طرف دیکھ رہا ہے کہ شاید یہاں سے کچھ مدد مل جائے۔ چیئرمین جیروم پاویل کے اگست میں بیان پر کہ فیڈرل ریزرو ٹرمپ کی تجارتی جنگ کے اثرات کو ختم نہیں کر سکے گا، ٹرمپ شدید تنقید کر رہا ہے۔منڈیوں کا قیاس ہے کہ فیڈرل ریزرو اس دباؤ کا شکار ہوتے ہوئے اگلے چند سال شرح سود کو بدتریج کم کرتا چلا جائے گا یعنی 2008ء کے معاشی بحران کے بعد لاگو ہونے والی انتہائی کم شرح سود دوبارہ لاگو کر دی جائے گی۔

امریکہ کے مرکزی بینکاری سسٹم فیڈرل ریزرو کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ افراطِ زر اور بیروزگاری کو شرحِ سود کے ذریعے کنٹرول کرے۔ خیال یہ ہے کہ جب افراطِ زر بڑھتا ہے (اکثر معاشی نمو کے ادوار میں) تو فیڈرل ریزرو شرح سود بڑھا کر ذر کی ترسیل کو محدود کر سکتا ہے تاکہ افراطِ زر کو کم رکھا جا سکے۔ جب بیروزگاری اور معاشی نمو اہداف سے کم ہو جاتی ہے تو پھر فیڈرل عام طور پر شرح سود کم کر دیتا ہے تاکہ صنعتی سرمایہ دار ”سستا پیسہ“ ادھار لے کر پیداوار میں سرمایہ کرے اور نیا روزگار پیدا کرے۔ سرمائے اور صنعت کا نیا پھیلاؤ ایک بار پھر افراطِ زر کو جنم دیتا ہے اور اس طرح زر کا عمومی دائرہ گھومتا رہتا ہے۔ یہ بات کم از کم تھیوری میں تو ایسے ہی ہے۔ اس پورے نظام کا مقصد فنانس اور صنعتی سرمایہ داروں کو امریکی ریاستی مشینری کے ساتھ جوڑے رکھنا ہے تاکہ سرمایہ داری کے عمومی عروج و زوال میں حکمران طبقہ مستحکم رہے۔

2008ء کی میراث

2008ء کے معاشی بحران کے بعد سے فیڈرل ریزرو اور کانگریس کے باہمی تعلقات مستقل تناؤ کا شکار ہیں کیونکہ معاشی امور چلانے کا روایتی طریقہ کار سیاسی اور معاشی دباؤ کے نتیجے میں منہدم ہو چکا ہے۔ اوباما حکومت میں کانگریس کی لاگو کردہ کٹوتیوں کی پالیسیوں کے نتیجے میں مرکزی بینک پر دباؤ پڑ گیا کہ وہ اپنے مطابق معمولات کو چلانے کی کوشش کرے جس کے نتیجے میں کم شرح سود کا سب سے طویل تاریخی دور دیکھنے کو ملا۔ سابق فیڈرل چیئرمین بین بیرنانکے اپنے دور میں مستقل کانگریس کو تنقید کا نشانہ بناتا رہا کہ ان کا ہدف خسارے کو کٹوتیوں کے ذریعے کم کرنا ہے جس کی وجہ سے فیڈرل ریزرو شرح نمو قائم کرنے کے لئے شرح سود مستقل کم رکھنے پر مجبور ہے۔

مالیاتی حوالے سے 2008ء کے بعد تاریخی طور پر پہلی مرتبہ شرح سود کم کرکے تقریباً صفر کے قریب آگئی۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرمایہ کاری پیداواری شعبوں یا جی ڈی پی نمو کے بجائے زیادہ تر اثاثوں کی قدر میں اضافے کے لئے کی گئی جن میں اسٹاک مارکیٹس بھی شامل ہے۔ 2015ء کے آخر میں بہرحال فیڈرل نے تھوڑا تھوڑا کر کے شرحِ سود بڑھانی شروع کر دی۔ اب یہ اقدامات پھر واپس لیے جا رہے ہیں۔ جولائی 2019ء میں اور پھر ستمبر میں ٹرمپ کی تجارتی جنگ اور مستقل کم افراطِ زر کے نتیجے میں شرح سود پھر کم کی جا چکی ہے۔ تناؤ اس بات پر ہے کہ کیا آنے والے وقت میں شرح سود مزید کم ہونی چاہیے کہ نہیں۔

ٹرمپ اور سرمایہ داروں کا ایک بڑا حصہ خواہش مند ہے کہ شرح سود صفر یا اس سے بھی نیچے کر دی جائے جس کا مطلب یہ ہے کہ بینکوں کو فیڈرل کے پاس پیسے رکھوانے کے لئے پیسے دینے پڑیں گے۔ یہ یورپی سینٹرل بینک کی طرز پر اقدام ہے جس نے شرحِ سود منفی رکھی ہوئی ہے۔ ٹرمپ نے اس تجویز کو کہ قومی قرضے کی از سرِ نو فنانسنگ کی جائے تاکہ ٹرمپ کی بڑے کاروباریوں کو دی گئی ٹیکس کٹوتیوں کا بوجھ برداشت کیا جا سکے۔ سب سے بڑھ کر وہ شدید پریشان ہے کہ 2020ء کے انتخابات سے پہلے نیا معاشی بحران نہ شروع ہو جائے۔ لیکن فیڈرل میں کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جو کچھ گنجائش رکھنا چاہتے ہیں تاکہ جب بحران کا آغاز ہو تو شرح سود کو مزید نیچے لانے کی گنجائش رہے۔

کم شرحِ سود سے امریکی ڈالر کی قدر میں بھی کمی ہو سکتی ہے جس سے امریکی اشیاء عالمی منڈی میں بہتر مسابقت کی وجہ سے ملکی برآمدات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ چین نے اپنی برآمدات کو ایسے ہی سہارا دیا ہوا ہے اور اس موسمِ گرما میں چین کی کرنسی کی قدر عرصہ دراز سے چلی آ رہی حد بندی سے نیچے گر گئی جو چینی مال پر ٹرمپ کے لاگو کردہ محصولات کا ممکنہ نتیجہ ہے۔

اگلے مالیاتی بحران کی سماجی قیمت سب سے پہلے محنت کش طبقہ ادا کرے گا۔ ایسی کوئی مالیاتی پالیسی موجود نہیں جس سے مزدوروں کو کوئی فائدہ ہو اور سرمایہ داری میں ایسی کوئی معاشی شرحِ نمو ممکن نہیں جو مزدوروں کے استحصال کو ختم کر سکے جو اس شرحِ نمو کے حقیقی پیدا کار ہیں۔ ”نئے“ معاشی خیال، جیسے جدید مالیاتی تھیوری(Modern Monetary Theory) دوسری عالمی جنگ کے بعد کی سرمایہ دارانہ بحالی کے دور میں پروان چڑھنے والی کینیشیئن معاشی تھیوری سے کوئی علیحدہ چیز نہیں ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ معاشی دور عرصہ دراز پہلے ختم ہو چکا ہے۔ بحران سے باہر نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ معیشت کے کلیدی شعبوں کو نجی ملکیت کے چنگل سے آزاد کیا جائے نہ کہ بورژوا مرکزی بینکوں کی پالیسیوں میں ردو بدل کی جائے۔

سرمایہ دارانہ مرکزی بینکوں کی ذمہ داریاں ایک پر انتشار سرمایہ دارانہ نظام کے تسلط کا نتیجہ ہیں جس میں بحرانات لازم ہیں۔ ان ادوار میں مزدوروں کو بھاری بھرکم قیمت ادا کرنی پڑتی ہے جبکہ سرمایہ دار کم قیمت پر اثاثے ہڑپ کر جاتے ہیں۔ لیکن سرمایہ داری کا ”حتمی بحران“ جیسی کسی چیز کا وجود نہیں جو خود سے نئے سماجی تعلقات کو جنم دے۔ ایسی کسی بھی تبدیلی کے لیے محنت کش طبقے کی شعوری انقلابی مداخلت درکار ہے۔

Comments are closed.