گلگت بلتستان: ٹورازم میں سرمائے کا تیز پھیلاؤ اور اس کے مقامی سماج پر اثرات

|رپورٹ: احسان علی ایڈووکیٹ|

70ء اور 80ء کی دہائیوں میں گلگت بلتستان میں صرف غیر ملکی سیاح آتے تھے مگر 90ء کی دہائی میں مذہبی شدت پسندی میں تیزی سے اضافہ اور خاص کر نائن الیون کے واقعے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے نتیجے میں غیر ملکی سیاحوں کی آمد تقریباً ختم ہو کر رہ گئی تھی۔ نتیجتاً، جی بی اور خاص کر ہنزہ میں ٹورازم انڈسٹری سخت بحران کا شکار ہو گئی۔ ہوٹل انڈسٹری سے منسلک چھوٹے بڑے سرمایہ دار دیوالیہ ہو گئے۔ اب پچھلے دس بارہ سالوں میں پھر سے ٹورازم انڈسٹری میں تیزی آئی ہے اور خاص کر گزشتہ پانچ چھ سالوں سے حیرت انگیز طور پر غیر ملکی سیاحوں سے کہیں زیادہ ملکی ٹورسٹس کی آمد اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے ہزاروں لوکل ٹورسٹ ہنزہ کے باغات اور سڑک کنارے ٹینٹ لگا کر رہنے لگے ہیں۔

ٹورازم انڈسٹری میں اس ترقی کو دیکھ کر پاکستان اور ٹرانس نیشنل سرمایہ داروں کے منہ میں پانی بھر آیا ہے اور انہوں نے تیزی سے گلگت بلتستان کے مختلف ٹورسٹ اسپاٹس اور خاص کر ہنزہ میں غریب کسانوں سے اونے پونے داموں اراضی خرید کر بڑے بڑے ہوٹل کھڑے کر لیے ہیں اور مزید ہوٹلوں کی تعمیر جاری ہے۔ خاص طور پر عطاآباد مصنوعی جھیل کے آس پاس اور کریم آباد، گلمت، بھوریت لیک اور سوست میں بہت تیزی سے لاشاری، میریٹ، پرل کانٹیننٹل اور سیرینا ہوٹلز کی چینز تعمیر ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ نلتر، گلگت، سکردو، پھنڈر اور شندور کے صحت افزا مقامات پر بھی بڑے بڑے سرمایہ داروں نے ہوٹلوں کی تعمیر کے لیے اراضی خرید رکھی ہیں۔ ملکی و ملٹی نیشنل سرمائے کے اس بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کی وجہ سے جہاں مقامی ہوٹل مالکان کی اجارہ داری ختم ہونے کی وجہ سے ان میں پریشانی بڑھ رہی ہے وہاں مقامی درمیانے طبقے سے منسلک چھوٹے کاروباری طبقے میں بھی اراضیات، معدنیات اور کاروبار پر ملکی و غیر ملکی سرمائے کی غلبے سے ایک تشویش ابھر رہی ہے کہ اس طرح آگے چل کر علاقے کی سیاست و معیشت پر بھی ان بڑے سرمایہ داروں کا غلبہ قائم ہو جائے گا۔ بڑے سرمائے کے غلبے کے اس وقت زیادہ اثرات ہنزہ میں نظر آ رہے ہیں۔ بڑے ہوٹلوں کی تعمیر کے علاوہ یہاں کے مقامی کاروباریوں کے چھوٹے بڑے ہوٹلوں کو بھی پاکستان میں کالے دھن سے منسلک سرمایہ داروں نے انتہائی اونچے کرایوں پر حاصل کیا ہے جو کہ خود ہوٹل کاروبار سے منسلک لوگوں کے مطابق مختصر سیزن میں ان ہوٹلوں کا کرایہ ہی نکلنا بہت مشکل ہے۔ کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے رئیل اسٹیٹ کو ملنے والی ٹیکس ایمنسٹی کا رخ گلگت بلتستان میں مہنگے داموں کرائے پر لیے گئے ہوٹلوں میں بھی ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ کرایوں میں بے تحاشا اضافے کی صورت میں نکلے گا جو کہ یہاں آنے والے سیاحوں کی جیبوں سے پورا کیا جائے گا اور لوٹ مار کا بازار گرم کیا جائے گا۔ یہاں کے اکثر نوجوانوں میں اس صورت حال سے بے چینی بڑھ رہی ہے مگر این جی اوز، مذہبی اداروں اور سرکار سے منسلک افراد مقامی نوجوانوں میں پیدا اس بے چینی کو رد کرتے ہیں اور اسے ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ یہاں کام کرنے والی تمام اصلاح پسند پارٹیاں اور ان کی مقامی قیادت بھی بڑے سرمائے کے اس تیزی سے پھیلاؤ سے مطمئن نظر آتی ہے۔

نیو لبرل سرمایہ داری میں ظاہر ہے بڑا سرمایہ وہاں پھیلتا ہے جہاں سرمائے کے پھیلاؤ کے لئے سازگار حالات میسر ہوں۔ پاکستان کے مختلف شہروں کی طرح جی بی میں بھی سرمائے کے اس پھیلاؤ کو مکمل ریاستی سرپرستی حاصل ہے۔ زمینوں کی خرید فروخت اور ہوٹلوں کی تعمیرات میں حائل رکاوٹوں کو فوراً ہی ریاستی ادارے حل کر دیتے ہیں۔ آج کل پاکستانی ریاست نے اسی ملکی اور ملٹی نیشنل سرمائے کے اس خطے میں پھیلاؤ کو تحفظ دینے اور یہاں کی متنازعہ حیثیت کی وجہ سے ملکی اور عالمی سرمایہ داروں کے تحفظات کو دور کرنے کیلئے ہی گلگت بلتستان کو کسی نہ کسی شکل میں پاکستان کی آئینی حدود میں لانے کے لئے ایک عبوری آئینی صوبے کے ایک فارمولے پر تیزی سے کام جاری ہے۔

سرمایہ داری کے پھیلاؤ سے وابستہ لوگوں کو بڑی امیدیں ہیں کہ اس کے نتیجے میں روزگار کے مواقع ملیں گے مگر عملاً ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے۔ بڑے ہوٹلوں میں تربیت یافتہ عملہ باہر سے لایا جا رہا ہے جبکہ مقامی ہوٹلوں کو کرائے پر لینے والے بڑے کاروباری بھی مقامی ملازموں کو نکال کر ملک کے دوسرے حصوں سے ملازم درآمد کر رہے ہیں۔ دوسری طرف بڑے پیمانے پر سیاحوں کی آمد کی وجہ سے مقامی قدرتی ماحول پر بھی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس حوالے سے بھی مقامی نوجوانوں میں تشویش پائی جاتی ہے جو کہ بے ہنگم طریقے سے سرمائے کے پھیلاؤ کے ساتھ اس قسم کے مسائل کا پیدا ہونا لازمی امر ہے۔
گلگت بلتستان میں شاہراہ قراقرم کی تعمیر، چین کے ساتھ 80ء کی دہائی سے بارٹر ٹریڈ، سیاحوں کی آمد سے ہوٹل انڈسٹری اور ٹرانسپورٹ کے کاروبار میں اضافے کی وجہ سے اور اس دوران ریاستی سرپرستی میں مختلف مافیاز جن میں ٹمبر مافیا، ڈرگ مافیا، ٹھیکہ داری مافیا، پاک چین بارڈر پر اور قیمتی پتھروں کی سمگلنگ کرنے والا مافیا اور ترقیاتی رقومات میں کرپشن کرنے والے مافیا کے پھیلاؤ کی وجہ سے پاکستانی سرمائے سے جڑا ایک محتاج سرمایہ دار طبقہ پیدا ہو چکا ہے۔ اب ٹورازم انڈسٹری میں تیزی سے پھیلاؤ کے نتیجے میں یہاں کا پرانا قبائلی سماج تیزی سے مٹ رہا ہے اور اس کی جگہ سرمادارانہ رشتیتیزی سے پھیل رہے ہیں، جو یقینا مستقبل میں طبقاتی تفریق میں بھی مزید شدت لائیں گے۔ غربت اور بے روزگاری سے تنگ چھوٹے چھوٹے قطعہئ اراضی رکھنے والے مقامی باشندے جو کل تک زمین بیچنا بڑا معیوب سمجھتے تھے یا وہ اپنے خاندان یا قبیلے سے باہر نہیں بیچ سکتے تھے، اب دھڑا دھڑ اپنی اراضی بڑے سرمایہ داروں کے ہاتھوں فروخت کر رہے ہیں؛ جیساکہ سوشلزم کے بانی کارل مارکس اور اینگلز نے اپنے مشہور زمانہ کمیونسٹ مینی فیسٹو 1848ء میں واضح طور پر کہا تھا کہ سرمایہ داری نے انسانوں کے درمیان تمام قبائلی، مذہبی، قومی، لسانی اور دیگر قدیم خونی رشتوں کو روند کر صرف نقد پیسے کے لین دین کا رشتہ قائم کیا ہے اور آج زیادہ واضح اور ٹھوس شکل میں پیسے کے لین دین کا رشتہ یعنی محنت کشوں کے بدترین استحصال سے پیدا ہونے والے سرمائے سے مزید سرمایہ پیدا کرنے والا سرمایہ دار طبقہ اور استحصال کے شکار محنت کش طبقے کے درمیان طبقاتی فرق وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں آنے والے وقت میں پاکستان کے دوسرے شہروں اور دیہاتوں کی طرح گلگت بلتستان اور کشمیر میں بھی طبقاتی شعور اور اس کے نتیجے میں طبقاتی تحریکیں ابھریں گی۔

ٹورازم انڈسٹری میں آنے والی اس سرمایہ کاری کے حوالے سے آج کل خاصی گرما گرم بحث جاری ہے اور اس حوالے سے مختلف آرا سامنے آرہی ہیں۔ ایک حلقہ اس سرمایہ کاری کو گلگت بلتستان کے جملہ مسائل کا حل بتاتا ہے اور ان کے مطابق یہ سرمایہ کاری یہاں روزگار لائے گی اور خوشحالی کا دور دورہ ہوگا۔ دوسری طرف، غیر مقامی سرمایہ کاروں کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ غیر مقامی سرمایہ داروں کی بجائے مقامی سرمایہ داروں کو مواقع فراہم کیے جائیں۔ یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سرمایہ دار مقامی ہو یا غیر مقامی، اس کی اصل شناخت اس کا سرمایہ دار ہونا ہے جو محنت کش عوام کے استحصال سے منافع بٹورتا ہے اور اس میں وہ کسی مقامی یا غیر مقامی کی تفریق کو روا نہیں رکھتا۔ اس کا دین دھرم صرف اور صرف منافع ہوتا ہے۔ مزید برآں، اس سرمایہ کاری کا کردار انتہائی خون آشام ہوگا جو نئے تضادات کو جنم دے گی اور قومی محرومی کے جذبات کو مزید سلگائے گی۔ اگر سی پیک کی مد میں آنے والی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری بے روزگاری اور خطے کے دیگرمسائل حل نہیں کر سکی تو ٹورازم میں آنے والی اس سرمایہ کاری کا کردار بھی چنداں مختلف نہیں ہوگا۔ ہاں اس چکر میں چند مٹھی بھر افراد کی قسمت شاید بدل جائے مگر خطے کی اکثریتی محنت کش عوام کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ اپنی رہی سہی زمینوں سے ہاتھ دھو کر وہ محنت کشوں اور غریب عوام کی صف میں جا کر کھڑے ہو جائیں گے۔

درمیانے طبقے کی اس نظام سے بہتری کی امیدیں بھی روز بروز دم توڑ رہی ہیں۔ گہرا ہوتا معاشی بحران اس پسماندہ ترین خطے میں پہلے سے کہیں زیادہ غربت، افلاس اور بے روزگاری کو جنم دے رہا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے عام عوام کا جینا دوبھر کرکے رکھ دیا ہے۔ تعلیم اور علاج اکثریت کی پہنچ سے باہر ہوچکا ہے۔ بجلی، پانی اور دیگر انفراسٹرکچر زبوں حالی کا شکا ر ہے۔ ایسے میں درمیانے طبقے میں قومی محرومی کے جذبات کا شدت سے ابھرنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ مگر سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے کسی بھی طرح کی خود مختاری یا آئینی سیٹ اپ کسی ایک بھی بنیادی مسئلے کو حل نہیں کر سکتا۔ مسئلہ اس سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے۔ پورے کے پورے نظام، اس کی محافظ ریاست اس وقت بحران اور ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہے۔ گو کہ صحت، تعلیم، روزگار، انفراسٹرکچر ریاست کی ذمہ داری ہے مگر یہی ریاست باقی ماندہ ملک میں رہی سہی سہولیات واپس لینے کے درپے ہے اور نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، جبری طرفیوں سے ہزاروں محنت کشوں کو بے روزگار کرچکی ہے اور مزید کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے خلاف ملک بھر کے محنت کش سراپا احتجاج ہیں۔ ایسے میں خطے کے نوجوانوں اور محنت کشوں کو ملک کے دیگر محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریکوں سے جڑنا ہوگا، مگر یہ جڑت تنگ نظر قوم پرست نظریات پر استوار نہیں ہوسکتی۔ گلگت بلتستان میں صحت، تعلیم، علاج، روزگار، بہتر انفراسٹرکچر کی جدوجہد کو خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریک سے جوڑنا ہوگا۔

اس صورت حال میں یہاں کے محنت کشوں، نوجوانوں اور دیگر نچلی پرتوں کے پاس سرمائے کے پھیلاؤ سے پیداہونے والے منفی اثرات سے بچنے، ماحولیات کو تباہی سے بچانے، معدنیات کی آمدنی چند افراد کی دولت میں اضافے کا باعث بننے سے روکنے اور اس دولت سے تمام محنت کش عوام اور نوجوانوں کے اجتماعی فائدے کے لیے استعمال میں لانے اور سرمائے کے محافظ حکمرانوں اور ان کی عوام دشمن پالیسیوں کے خاتمے کیلئے ملک گیر بلکہ عالمی سطح پر جاری انقلابی سوشلسٹ تحریک کا حصہ بن کر اس پورے سرمایہ داری نظام کے خلاف جاری جدوجہد میں شریک ہوں تاکہ تمام مسائل کی جڑ اس سرمایہ داری نظام کو شکست دے کر محنت کرنے والوں کی ریاست قائم کی جا سکے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی درمیانی راستہ نہیں۔

Comments are closed.