امریکہ: حکمران طبقہ عوام کو خوفزدہ کرنے میں ناکام۔۔۔آگے کیا ہوگا؟

|تحریر:جان پیٹرسن اور جارج مارٹن، ترجمہ: آصف لاشاری|

پچھلے اٹھارہ سالوں میں افغانستان کے اندر لڑائی میں مارے جانے والے امریکیوں سے کہیں زیادہ تعداد میں سیاہ فام امریکی پچھلے دو سالوں میں پولیس کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں۔ نائن الیون کے حملوں میں مارے جانے والے لوگوں سے زیادہ تعداد میں سیاہ فام امریکی پچھلے تین سالوں میں پولیس کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔

جس طرح صدیوں سے مجتمع شدہ تحقیر و ذلت غصے کی صورت میں سڑکوں پر پھیلتی جا رہی ہے۔ اگر اس سب کو بگڑتی معاشی صورتحال اور کرونا وبا سے جوڑ کر دیکھیں تو یہ سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ امریکہ میں چیزیں کیوں نقطہ ابال تک پہنچ گئی ہیں۔

اس سال کی ابتدا میں ہم نے مستقبل کے امریکی انقلاب کے بارے اپنے مجوزہ تناظر 2020ء میں یہ لکھا تھا:

”2008ء نے واضح طور پر اربوں انسانوں کے شعور کو تبدیل کیا۔ سرمائے کے سب سے زیادہ سنجیدہ پالیسی ساز اس بات کو سمجھتے ہیں اور اس سے خوف زدہ ہیں۔ دی ایڈلمین ٹرسٹ بیرومیٹر نے 28 بڑے ممالک میں لوگوں سے رائے لی اور جانا کہ 56 فیصد آبادی یقین کرتی ہے کہ ”آج سرمایہ داری دنیا کو فائدہ دینے کی نسبت زیادہ نقصان دے رہی ہے“ اور اس میں 47 فیصد امریکی بھی شامل تھے۔
”اور ’میپل کروفٹ گلوبل پولیٹیکل رسک آؤٹ لنک‘ نے نتیجہ نکالا کہ 2019 ء کے پورے سال میں 47 ممالک نے ’احتجاجوں میں بہت بڑا اضافہ دیکھا اور جو آخری سہ ماہی کے اندر زیادہ شدید ہونے کی طرف گئے۔‘ یہ اعداد و شمار دنیا بھر کے تمام ممالک کے 25 فیصد افراد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ’اور اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں کاروباروں، سرمایہ کاری اور قومی معیشتوں میں پڑنے والا خلل اربوں امریکی ڈالروں کے برابر ہے۔‘ ایک نئے عالمی معاشی بحران کی افق پر موجودگی یا پہلے سے شروع ہونے کے ساتھ، ہم 2020ء اور اس کے بعد پہلے سے بھی زیادہ ایک عمومی بے چینی کی توقع کر سکتے ہیں۔ لاطینی امریکہ، افریقہ، مشرقِ وسطیٰ، ایشیاء اور افریقہ سے گزرتی ہوئی انقلاب کی لہروں کے ناگزیر اثرات امریکہ پر بھی پڑیں گے۔“

اب یہ تناظر بالکل درست ثابت ہوچکا ہے۔ منیا پولس میں پولیس کے ہاتھوں جارج فلوئڈ کے قتل کے دس دنوں میں ایک غیر معمولی عوامی تحریک نے امریکہ کو اوپر سے لے کر نیچے تک لرزا کر رکھ دیا ہے۔ یہ ایک بنیادی اور نامیاتی تحریک تھی جو وحشیانہ جبر اور پولیس کے ہاتھوں اموات کے بڑھنے کے باوجود بلا خوف بڑھتی چلی گئی۔ 200 سے زیادہ شہروں میں کرفیو لگا دیا گیا اور 28 ریاستوں میں 20 ہزار سے زیادہ نیشنل گارڈز کو تعینات کیا گیا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کی پسپائی

ملک گیر تحریک نے، جو بڑے شہری مراکز سے لے کر چھوٹے مراکز اور سوئے ہوئے قدامت پسند قصبوں سمیت ملک کے ہر کونے تک پہنچ گئی ہے، اسٹیبلیشمنٹ کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب وہ رعایتیں دینے پر مجبور ہو گئے ہیں، اس لیے قتل میں ملوث تین افسران پر فرد جرم عائد کردی گئی ہء اور شوون پر عائد دفعات کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اور حتیٰ کہ صورتحال کو ٹھنڈا کرنے کے لیے وہ سابق صدر براک اوباما کو بھی میدان میں لے آئے ہیں۔

لیکن موجودہ صدر نے انجیل کو ہاتھ میں لیتے ہوئے یہ اعلان کر کے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا کہ ”اگر کوئی ریاست لوگوں کی زندگیوں اور املاک کو بچانے کے لیے لازمی اقدامات اٹھانے سے انکار کرتی ہے تو میں امریکی فوج تعینات کر دوں گا اور تیزی سے ان کے لیے مسئلے کو حل کر دوں گا۔“

پرامن مظاہرین کو آنسو گیس اور لاٹھی چارج کے ذریعے منتشر کر کے فوٹو سیشن کی جگہ بنانے کے بعد یہ اعلان کیا گیا۔ تاہم پولیس کا جبر تحریک کو خوفزدہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ لوئی ول، کنٹکی میں پولیس نے ایک اور غیر مسلح سیاہ فام شخص ’ڈیوڈ میکاٹی‘ کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ پولیس نے الزام لگایا کہ وہ ہجوم کی جانب سے گولیاں چلانے کے بعد جوابی کاروائی کر رہے تھے لیکن بعد میں یہ واضح ہو گیا کہ اس واقع میں ملوث پولیس افسران نے لباس پر لگے اپنے کیمرے بند کیے ہوئے تھے اور ان کی کہانی عینی شاہدین سے بہت مختلف ہے۔ ایک بار پھر یہ قتل ہی تھا۔

9 ہزار سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان میں سے اکثریت کو فقط ’احتجاج‘ کرنے کی وجہ سے پکڑا گیا۔ یکے بعد دیگرے مختلف شہروں میں مظاہرین نے کرفیو کو ماننے سے انکار کر دیا۔ لاس اینجلس اور سی سیاٹل میں مظاہرین نے نعرے لگائے کہ ”یہاں تو کوئی بلوا نہیں ہو رہا تو تم نے بلوے والا حفاظتی لباس کیوں پہن رکھا ہے۔“

ٹرمپ کا اٹھایا ہر قدم نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے منشور(Prism) سے منعکس ہوتا ہے۔ فوج کے استعمال کی دھمکی دینا ”لا اینڈ آرڈر“ کارڈ کھیلنے کی کوشش تھی تاکہ وہ خود کو مضبوط ظاہر کر سکے اور ڈیموکریٹس کو ”لٹیرے بلوائیوں“ کے مقابلے میں نرم خو ثابت کر سکے۔

لیکن وہ ایک خطرناک کھیل کھیل رہا ہے۔ فوج کی تعیناتی ایک خطرناک قسم کا جوا ہوگا جو واپسی کے راستوں کو ہمیشہ کے لیے بند کر دے گا۔ اگر احتجاجی مظاہرین فوجی جبر کے خوف سے پیچھے نہ ہٹے تو کیا ہوگا؟ اور اگر فوجی دستوں نے مردوں، عورتوں اور بچوں کے ہجوم پر گولی چلانے سے ہی انکار کر دیا تو؟ اگر وہ گولیاں چلاتے ہیں تو کروڑوں نئے لوگوں کے تحریک میں شامل ہونے، فوج کے طبقاتی بنیادوں پر تقسیم ہو جانے اور دنیا بھر میں ہر امریکی سفارتخانے کے شعلوں کی لپیٹ میں آنے سے پہلے وہ کتنے لوگوں کو مار سکتے ہیں؟

پہلے ہی پولیس افسروں اور مجمع کے درمیان بھائی چارے (حقیقی یا دکھاوے کے) کے کئی واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔ ایک وائرل ویڈیو میں ایک سیاہ فام نوجوان سیاہ فام پولیس والوں سے مخاطب ہوتا ہے اور انہیں بتاتا ہے کہ ان کی وردیوں کے بغیر دولت مند اور ان کے افسران انہیں حقیر سمجھتے ہیں۔ ایک دوسری ویڈیو میں ایک افسر کو آنسو بہاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے اور ایک سیاہ فام لڑکی کی سرزنش اور مظاہرین سے یکجہتی دکھانے کے اصرار کے بعد اس کی جگہ دوسرے افسر کو تعینات کر دیا جاتا ہے۔

حکمران طبقے، جو ماضی کی طرح اپنی حکمرانی برقرار نہیں رکھ سکتا، کے درمیان تقسیم افق پر موجود انقلاب کی پہلی علامت ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کے معاشی عروج کے ثمرات ختم ہو چکے ہیں اور جبر کے عمومی طریقہ کار اپنا اثر کھو رہے ہیں۔ سرمایہ دار اور ان کے سیاسی نمائندگان حیرت زدہ ہیں اور ایک دوسرے کے گریبان پکڑ رہے ہیں۔

ہم نے اس کی بات ساری مثالیں دیکھی ہیں بالخصوص 2016 ء سے۔ لیکن عوامل کے موجودہ مخصوص دھماکہ خیز ملاپ نے ان تقسیموں کو بالکل واضح کر دیا ہے۔

نیشنل گارڈ کی بجائے حقیقی فوج کی 1807ء کے بغاوت ایکٹ کے تحت تعیناتی بہت برے طریقے سے ناکام ہو سکتی ہے۔ ایک غیر اہم کاروباری اور جعلی فنکار جو کوئی عسکری تجربہ نہیں رکھتا، ٹرمپ شاید سمجھتا ہے کہ فوجیں پانی کے نل کی طرح ہوتی ہیں جنہیں اپنی مرضی سے کھولا یا بند کیا جا سکتا ہے، یا ایسی دھمکی ہے جس سے لوگ خوفزدہ ہو جائیں گے اور بغیر کسی سوال کے سرِ تسلیم خم کر دیں گے۔ لیکن پینٹاگان میں بیٹھے سنجیدہ پالیسی ساز جانتے ہیں کہ اگر ایک دفعہ وہ ’فوجیں بھیجنے“ کے کارڈ کا استعمال کرتے ہیں تو ان کے پاس اور کوئی کارڈ نہیں بچے گا۔

حقیقت میں، امریکی فوج سرمایہ داروں کی حکمرانی کا واحد ادارہ ہے جو ابھی تک کافی حمایت کا حامل ہے۔ یہ انہی لوگوں کے بھائیوں، بہنوں،ماں، باپ، خالہ زادوں اور بچوں وغیرہ پر مشتمل ہے اور اسے ’امریکی آزادی‘ کا محافظ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اگر اس کو سول آبادی کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، وہ آبادی جو ’ظلم سے آزادی‘ کو خاص طور پر سنجیدہ لیتی ہے، تو کچھ بھی ہونے کی طرف جا سکتا ہے۔ یہ امریکی عوام کے خلاف جنگ کا اعلان کرنے کے مترادف ہوگا۔ ایک ایسی جنگ جس کو اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کی صلاحیت کو مستقل طور پر نقصان پہنچائے بغیر جیتنا ان کے لیے یقینی نہیں ہوگا۔ وال سٹریٹ جرنل کا ایک اداریہ اسی بات کو کچھ اس طرح سے بیان کرتا ہے:

”اگرچہ مسٹر ٹرمپ کے پاس اس کا اختیار ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں یہ غلطی ہوگی۔۔۔موجودہ لمحے میں امریکی فوجیوں کا امریکی سڑکوں پر دیکھا جانا حالات کو پرسکون کرنے کی بجائے آگ لگانے کی طرح ہوگا۔۔۔امریکی فوجیوں کو بیرونی دشمنوں کے خلاف لڑائی لڑنے کی تربیت دی گئی ہے، امریکیوں کے خلاف احتجاجوں کو قابو کرنے کے لیے نہیں۔ غلطیوں کے خطرات بہت زیادہ ہوں گے اور سویلینز کی فوجیوں کے ساتھ محاذ آرائی سے ہونے والے قتلِ عام کا تمام الزام ٹرمپ کو دیا جائے گا۔۔۔“

وہ صرف غلطیوں سے خوفزدہ نہیں ہیں بلکہ حاضر سروس فوجیوں کے ہاتھوں سویلینز کے مارے جانے کے عام عوامی رائے پر پڑنے والے اثرات سے بھی خوفزدہ ہیں۔ وہ پولیس کے ہاتھوں ہونے والے نسل پرستانہ قتل کے خلاف مارچ کرنے والے غیر مسلح مظاہرین سے لڑنے کے لیے سپاہیوں کو بھیجنے کے نتائج سے بھی خوف زدہ ہیں، جن کا بڑا حصہ سیاہ فاموں اور لاطینیوں پر مشتمل ہے اور جو معاشی مجبوریوں کی بنا پر فوج میں بھرتی ہوئے ہیں۔ کچھ سابقہ فوجی تنظیموں کی رپورٹس ہیں کہ کچھ حاضر سروس سپاہی اور نیشنل گارڈز ان حالات میں تعیناتی کے خلاف ہیں۔ نیشنل گارڈ کا ایک سپاہی جو انفینٹری لائن کمپنی میں بطور ڈاکٹر کام کرتا ہے یہ کہتے ہوئے پایا گیا:

”میں یہ سب نہیں کر سکتا۔ حتیٰ کہ اپنی وردی کی طرف دیکھنے سے بھی مجھے حقارت ہوتی ہے کہ میں اس کا حصہ ہوں، خاص طور پر نیشنل گارڈز دستے کی جانب سے اس آدمی کو قتل کرنے کے بعد جو (لوئی ول، کنیٹکی میں) باربی کیو کی دکان کا مالک تھا۔ میں پنسلوینیا میں رہتا ہوں۔ میں کنٹکی ریاست میں رہا ہوں۔ میں اس سب کا حصہ نہیں بن سکتا۔“

دی ملٹری ٹائمز نے بھی فوجیوں، جنہیں مظاہرین کے خلاف ستعمال کیا جا سکتا ہے، کے اندر پروان چڑھتے ہوئے غصیلے موڈ کو رپورٹ کیا ہے۔

حکمران طبقے میں دراڑیں

فوج کی تعیناتی ایک گہرے آئینی بحران کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے جس میں بغاوت کے ایکٹ کو لاگو کرنے کے قانونی جواز کے حوالے سے ریاستی مشینری میں ایک کھلی پھوٹ پڑ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے ٹرمپ نے فوج کو گلیوں میں لانے کی دھمکی دی تب سے سرمایہ دارانہ ریاست کے مختلف دھڑوں کی جانب سے پرزور مخالفت دیکھنے میں آئی ہے۔ ایسا اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ کم ظالم ہیں یا ٹرمپ کی نسبت زیادہ جمہوریت پسند ہیں بلکہ اس کی بجائے وہ ڈرتے ہیں کہ اس طرح کا اقدام تحریک کو کچلنے اور حالات کو قابو میں لانے کی بجائے اس سے الٹ اثرات ڈال سکتا ہے۔ وہ امریکی آئین کی پہلے سے کم ہو چکی اہمیت کو مزید کم نہیں کرنا چاہتے کیونکہ یہ ملک میں سرمایہ دارانہ حکمرانی کا قانونی دفاعی مورچہ ہے۔

سی این این کے ایک آرٹیکل نے رپورٹ کیا کہ پینٹاگان میں فوج کی تعیناتی کے معاملے پر مخالفت موجود تھی:”دفاعی تجزیہ کاروں نے سی این این کو بتایا کہ صدر ٹرمپ کے سوموار کو امریکہ کے اندر آرڈر قائم کرنے کے لیے فوج تعیناتی کے اعلان سے بھی بہت پہلے پینٹاگان کے کچھ لوگوں میں گہرا اور بڑھتا ہوا عدم اطمینان موجود تھا۔“

ٹرمپ کے سابقہ سیکرٹری دفاع ’بد دماغ‘ میٹس نے بھی دی اٹلانٹک میں ایک مضمون کے ساتھ مداخلت کی جس میں اس نے ٹرمپ کو ”امریکی آئین کے لیے خطرہ“ قرار دیا اور اس کو ہٹائے جانے کا مطالبہ کیا:
”ہم اس(ٹرمپ) کے بغیر اپنی سول سوسائٹی میں چھپی طاقتوں پر انحصار کرتے ہوئے متحد ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ پچھلے چند دنوں نے دکھایا ہے کہ ایسا کرنا آسان نہیں ہوگا لیکن ہمیں اپنے پیارے شہریوں کے لیے ایسا کرنا ہوگا۔“ ایک دفعہ پھر یہ ایک ناقابلِ تصور حرکت ہے۔ بحریہ کا سابقہ جنرل اور سابقہ سیکرٹری برائے دفاع صدر ٹرمپ کو ہٹانے کا مطالبہ کر رہا ہے!

سابقہ چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ریٹائرڈ ایڈمرل مائک مولن آرمی کو استعمال کرنے کی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ اپنی آواز ملائی۔ اس نے کم و بیش خفیہ مطالبے کے انداز میں سپاہیوں کو حکم ماننے سے انکار کا کہتے ہوئے ایسا کیا:”مجھے وردی میں ملبوس اپنے مردوں اور خواتین سپاہیوں کے پیشہ ور ہونے پر مکمل اعتماد ہے۔ وہ مہارت اور گرمجوشی کے جذبے ساتھ خدمت کریں گے۔ وہ قانونی احکامات کی ہی پیروی کریں گے۔ لیکن مجھے موجودہ کمانڈر ان چیف کی جانب سے جاری کیے جانے والے احکامات کی درستگی پر بہت کم اعتماد ہے۔“

جان ایلن ایک ریٹائرڈ فور سٹار جنرل، جو افغانستان میں امریکیوں کا سابقہ کمانڈر جنرل اور اوبامہ کے دور میں بنائے گئے داعش مخالف عالمی اتحاد کا سابقہ خصوصی صدارتی سفیر بھی ہے، نے لکھا کہ ٹرمپ کے حالیہ اقدام اور دھمکیاں ”امریکی تجربے کے خاتمے کا آغاز کا اشارہ بھی ہو سکتی ہیں۔“ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکی انقلاب کے پہلی سطح پر لڑنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ امریکی فوجیوں کی امریکہ کے شہروں میں مستقل تعیناتی کی بربریت کے خلاف احتجاج کرنا تھا۔

اور اگرچہ ٹرمپ اور اس کے پاگل خوشامدی ”بائیں کے انتہاپسندوں“ پر انتشار کا الزام لگاتے ہیں اور انہوں نے ’انتیفا‘(فسطائی مخالف گروہ) کو ایک ملکی دہشت گرد تنظیم منسوب کر دیا ہے۔ ایف بی آئی نے نتیجہ نکالا ہے کہ انتیفا کی جانب سے منظم کی گئی کسی تحریک کا کوئی ثبوت نہیں ملا لیکن البتہ انہوں نے انتہائی دائیں بازو کے شدت پسندوں کو بم حملوں کی منصوبہ بندی کرنے پر ضرور گرفتار کیا ہے۔

یہ تمام تر دباؤ ابھی تک کے ایک اور غیر یقینی اقدام کی وجہ بنا ہے جو ایک بار پھر حکمران طبقے میں موجود دراڑوں کی گہرائی کو واضح دکھاتا ہے۔ موجودہ سیکرٹری دفاع مارک ایسپر بدھ کے دن بغاوت ایکٹ کو لاگو کرنے سے اختلاف کرتے ہوئے عوام کے سامنے گیا اور اس نے کھلم کھلا صدر سے اختلاف کیا۔ یہ ایک انتہائی اہم واقعہ ہے اور دکھاتا ہے کہ سرمایہ دارانہ ریاست کے پاس حتیٰ کہ انتہائی منحرف صدر کو کنٹرول کرنے کے خاص میکانزم بھی موجود ہیں۔ لیکن دن کے ختم ہونے سے بھی پہلے کہانی میں ایک اور موڑ آ گیا۔

واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا کہ جس لمحے فوج واشنگٹن ڈی سی میں تعینات ڈیوٹی پر موجود فوجیوں کو گھروں کو بھیجنے کا منصوبہ بنا رہی تھی، ”بدھ کے دن وائٹ ہاؤس میں ایک میٹنگ، جس میں سیکرٹری دفاع مارک ٹی ایسپر بھی موجود تھا، کے بعد منصوبے کو واپس لے لیا گیا۔“

حکمران طبقے میں رسہ کشی جاری ہے جو حکمران طبقے کے قلعے اور ریاستی مشینری کو پاش پاش کر رہی ہے اور جہاں کہیں بھی جب کبھی بھی اس تناسب کی تحریک ابھرتی ہے ہمیشہ یہی کچھ ہوتا ہے۔ ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ تحریک کو مطمئن کرنے کے لیے رعایتیں دی جانی چاہئیں جبکہ دوسرے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پہلے دلیل دیتے ہیں کہ جبر کا استعمال تحریک کو مزید مشتعل کرنے کی طرف جائے گا۔ دوسرے کہتے ہیں کہ نرمی دکھانے سے تحریک مشتعل ہونے کو جائے گی۔ احتجاجوں کی تیاری کے موجودہ مرحلے میں دونوں غلط بھی ہیں اور ٹھیک بھی۔

ہمیں پچھلے دو ہفتوں میں پروان چڑھنے والی عوامی تحریک کی وسعت، گہرائی اور پھیلاؤ کو ہلکا نہیں لینا چاہیے۔ یہ کوئی عام ملک نہیں ہے۔ یہ سب سے زیادہ طاقتور سامراجی ملک ہے جو کرہِ ارض نے آج تک دیکھا ہے، ایک ایسا ملک جس کے حکمران طبقے نے دنیا کے ایک بڑے حصے اور اپنی آبادی کے ایک بڑے حصے کو صدیوں تک خوف زدہ کیے رکھا ہے۔

بے نقاب ہوتے تضادات
تحریک بہت سے عوامل کے مجموعے کا نتیجہ ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ اس کی تعمیر ”Black Lives Matter“ تحریک کی حقیقی لہر کے تجربے اور اس احساس پر ہوئی کہ سیاہ فاموں کے حقوق کے حوالے سے آج تک کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہوئی۔ اس کے اندر ہمیں ’عرب بہار‘ اور ’وسکونسن کی بغاوت‘ سے شکتی حاصل کرنے والی 2011 ء کی ’آکو پائی وال سٹریٹ‘ تحریک کے تجربے کا اضافہ کرنا چاہیے۔ ان کے اندر 2016 ء اور 2020ء کی برنی سینڈر کی انتخابی دوڑ کے تجربے کو بھی شامل کرنا چاہیے جس نے سوشلزم کو ایجنڈے پر لاتے ہوئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اور سب سے بڑھ کر نوجوانوں کو ریڈیکلائز کیا۔ بہت سے لوگوں نے سینڈرز کی غداری سے یہ ناگزیر نتیجہ اخذ کیا کہ انتخابی راستہ بند کر دیا گیا ہے اور یہ سب انہیں سڑکوں پر لے آیا۔

نوجوان نسل، جو تحریک کو چلانے والی قوت ہے، 2008 ء کے بحران اور بینکوں کو بیل آؤٹ کرنے کے اثرات کے نتیجے میں سیاسی طور پر باشعور بننے کی طرف گئی۔ ان کی پوری زندگی کا تجربہ بحرانات، غیر یقینی پن اور ایک بہتر مستقبل کے کسی امکان کی غیر موجودگی سے مزین ہے

اور پھر جس بھونڈے طریقے سے کرونا کی عالمی وبا سے نمٹا گیا، اس نے سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقی فطرت کو بے نقاب کیا جس میں منافعوں کو انسانی زندگیوں پر زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور اب تک زیادہ درستگی سے کہا جائے تو تقریباً ایک لاکھ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر امریکہ کی تاریخ کی سب سے گہری ترین کساد بازاری موجود ہے جس نے کروڑوں امریکیوں کو صرف چند ہفتوں کے دورانیے کے اندر بے روزگاری میں دھکیل دیا ہے۔

نوجوان نسل، جو تحریک کو چلانے والی قوت ہے، 2008 ء کے بحران اور بینکوں کو بیل آؤٹ کرنے کے اثرات کے نتیجے میں سیاسی طور پر باشعور بننے کی طرف گئی۔ ان کی پوری زندگی کا تجربہ بحرانات، غیر یقینی پن اور ایک بہتر مستقبل کے کسی امکان کی غیر موجودگی سے مزین ہے۔ ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے اور موجودہ وقت میں ان کے پاس کوئی متبادل بھی موجود نہیں۔ یہ وہ ناقابلِ کنٹرول غصہ ہے جو وحشیانہ جبر کے مقابلے میں موجودہ تحریک کو بے پناہ قوت فراہم کرتا ہے۔

اس سب میں امریکہ میں ابھرنے والی حالیہ بغاوت کے بہت سے پہلو 2019ء کے اکتوبر میں چلی، کیٹالونیا اور لبنان وغیرہ میں ابھرنے والی بغاوتوں سے مشترک ہیں۔ 2008ء کے سرمایہ دارانہ بحران کے دور کی نسل دن بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے والی بغاوتوں میں اگلی صفوں کے اندر کھڑی ہے اور یہ بغاوتیں کرونا وبا کے پھیلنے سے بہت پہلے شروع ہوئیں اور جو آنے والے عرصے میں مزید شدت اختیار کرنے کی طرف جائیں گی۔

لیکن یہ صرف نوجوان نسل نہیں ہے جو نظام کے متعلق سوالات اٹھا رہی ہے۔ ان کے ساتھ آبادی کی ایک بڑی اکثریت کی ہمدردی موجود ہے جس میں ریپبلیکن ووٹرز کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔31 مئی اور یکم جون کے درمیان کرائے گئے ایک مارننگ سروے نے دکھایا کہ”54 فیصد بالغ امریکی جن میں 69 فیصد ڈیموکریٹس، 49 فیصد آزاد اور 39 فیصد ریپبلیکنز شامل تھے، جارج فلوئڈ اور دوسرے سیاہ فام امریکیوں کے قتل کے ردِ عمل میں ابھرنے والی حالیہ جاری احتجاجوں کی حمایت کرتے ہیں۔“

اس سے بھی زیادہ حیران کن یہ ہے کہ نیوزویک کی جانب سے ایک مختلف سروے سے پتہ چلا کہ اکثریتی امریکی، تقریباً 54 فیصد، ”سمجھتے ہیں کہ جارج فلوئڈ کے قتل کے جواب میں منیا پولس پولیس تھانے کا جلایا جانا درست اقدام تھا“!

فی الحال تحریک کا بڑے پیمانے پر خود رو کردار اور اس کی قومی قیادت، پروگرام اور لائحہ عمل کی کمی ہی اس کی طاقت ہے کیونکہ یہ ڈیموکریٹس اور لبرلز کی جانب سے تحریک کو استعمال کرنے کو مشکل بناتی ہے۔ لیکن ایک مخصوص لمحے پر جا کر پختہ سمجھ بوجھ اور توجہ کی کمی ناگزیر طور پر مضمحل کر دینے والی قوت اور ممکنہ طور ایک مہلک کمزوری میں تبدیل ہو جائے گی۔

یقینا اس حجم کی کوئی بھی تحریک جو چند دنوں سے زیادہ جاری رہتی ہے اپنی فطری قیادت کو سامنے لانا شروع کر دیتی ہے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق، منیا پولس جو کہ تحریک کا مرکز ہے، سے شروع ہوتے ہوئے غریبوں، سیاہ فاموں اور لاطینیوں کے علاقوں میں عوامی کمیٹیاں بننا شروع ہو گئی ہیں۔ پولیس، لوٹ مار کرنے والوں اور انتہائی دائیں بازو کی ملیشیا کی دھمکیوں کے پیشِ نظر لوگوں نے اپنا دفاع کرنے کے لیے منظم ہونا شروع کر دیا ہے اور کچھ جگہوں پر مسلح ہو کر بھی۔

منیا پولس سے ایک ڈرامائی رپورٹ حالات کو یوں بیان کرتی ہے:”میں آپ سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں اور میرے ہمسائے جب تک ہمت رہی گھروں سے باہر رہے۔ کچھ نے ساری رات باہر گزاری تاکہ ہم میں سے کچھ آرام کر سکیں۔ میں سمجھتا ہوں اس کو واضح کر دینا ضروری ہے کہ پولیس اور نیشنل گارڈز نے نہیں بلکہ ہم نے خود اپنے محلے کو محفوظ رکھا۔ پولیس نے دو کاروں کو، جنہوں نے رکاوٹوں کو توڑا، کے خلاف کوئی ردعمل نہیں دیا ہم نے انہیں پیچھے دھکیلا۔ پولیس نے کئی لوگوں کو بینک، آٹو مال اور ریپئرنگ شاپ کے اندر داخل ہونے سے نہیں روکا بلکہ ہم نے روکا۔ پولیس نے گورے قوم پرستوں اور باہر کے افراد کو ہمارے محلے میں آنے والوں کو باہر نہیں نکالا، ہم نے نکالا۔ پولیس نے خطرے سے دو چار ہمسایوں کا پتہ نہیں چلایا اور اپنے گھر میں محفوظ رہنے میں ان کی مدد نہیں کی بلکہ ہم نے یہ سب کیا۔ نیشنل گارڈز نے گلیوں کو صاف نہیں کیا، ضرورت مندوں تک خوراک نہیں پہنچائی اور خطرے سے دو چار افراد کو ہوٹلوں میں رہائش نہیں دلائی بلکہ ہم نے یہ کام کیا۔ اس لیے منیا پولس میں بھاری نفری کی موجودگی کو کسی کے تحفظ کا کریڈٹ نہ دیں۔ والز (گورنر)، فے (مئیر)، خنزیروں اور سپاہیوں کو نہیں بلکہ ہمسائیوں اور کمیونٹی کے افراد کو ایک دوسرے کا خیال رکھنے پر کریڈٹ دیا جانا چاہیے۔ یہ غیر مکمل اور تلخ ہے لیکن یہ اس سب سے بہتر ہے جو کچھ پہلے موجود تھا۔“

یہی آگے بڑھنے کا طریقہ ہے۔ جمہوری عوامی کمیٹیوں کی عمومیت نہ صرف یہ کہ محنت کش علاقوں میں لوگوں کے اپنے تحفظ کو یقینی بنائے گی بلکہ تحریک کو ایک جمہوری اور قابلِ احتساب ڈھانچہ بھی فراہم کرے گی۔ وہ کمیٹیاں، جو منیاپولس کے مختلف حصوں میں ابتدائی شکل کے اندر موجود ہیں، انہیں منتخب شدہ اور واپس بلائے جا سکنے والے وفود کے نیٹ ورک کے ذریعے جوڑا جانا چاہیے۔ منیاپولس لیبر فیڈریشن کو اپنے ممبران کو متحرک اور اپنے وسائل کے آخری اونس تک کو ان کمیٹیوں کو جڑواں شہروں کے میٹرو ایریا اور اس سے باہر تک جڑنے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے۔

ٹرمپ یا جوبائیڈن نہیں، محنت کشوں کی طاقت

منظم تشدد اور طاقتور ریاست کا مقابلہ منظم مزدور تحریک کی طاقت سے کرنے کی ضرورت ہے۔ مختلف شہروں میں نقل و حمل کے شعبے سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کے اعلانات کہ وہ مظاہرین کو گھیرنے کے ان کے اقدامات کے بیانات اور اقدامات میں مدد فراہم نہیں کریں گے، محض اس طاقت کا اشارہ ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے باہر مظاہرین نے صدر کو بنکر کے اندر گھسنے پر مجبور کر دیا اور سرمایہ دارانہ طاقت کی اس علامت کی روشنیاں محض اس ڈر سے بجھا دی گئیں کہ یہ مظاہرین کی توجہ نہ حاصل کرلے۔ منظم اور متحرک محنت کش طبقہ پورے ملک کو مفلوج کر سکتا ہے اور پورے نظام کو بند کر سکتا ہے۔

کرونا وبا کے دوران پچھلے چند مہینوں کے اندر اجرتوں، تحفظ اور کام کے حالات کے خلاف 220 سے زیادہ خودرو ہڑتالیں اور ریلیاں ہوئیں۔ زیادہ تر جگہوں پر ان کی قیادت محنت کشوں کی غیر منظم پرتیں کر رہی تھیں۔ یہ وہ طاقت ہے جس کو تحریک کو آگے لے جانے کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو محنت کشوں کی طرف رخ کرنے کی ضرورت ہے جو پہلے ہی تحریک سے ہمدردی رکھتے ہیں اور منظم محنت کشوں کو احتجاج و ہڑتال کے مخالف ڈیموکریٹس کے ساتھ اپنے غیرمقدس اتحاد کو توڑنا ہوگا اور دلجمعی کے ساتھ جدوجہد میں داخل ہونا ہوگا۔ ذرا تصور کریں کہ کیا ہوگا اگر کروڑوں منظم اور غیر منظم محنت کش ایک ملک گیر عام ہڑتال میں، جو منیا پولس سے شروع ہوتے ہوئے ملک بھر میں پھیل جائے، اپنا ہاتھ روک دیں۔

لیکن تلخ سچائی یہ ہے: اگر تحریک اپنے آپ کو منظم نہیں کرتی اور اپنی توانائی کو ایک بنیادی تبدیلی لانے کے لیے استعمال نہیں کرتی تو نفرت کی یہ بکھری ہوئی لہریں واپس اپنے کناروں کی جانب لوٹ جائیں گی چاہے اس دریا کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تبدیل ہی کیوں نہ ہو جائے۔ جب بھی محنت کش عوام پہلے سے تیار شدہ انقلابی قیادت کے بغیر خود رو طریقے سے ابھرتے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی لڑائی کو آخر تک لے جانے کے لیے تیار ہوتے ہیں، یہ پچھلے سو سالوں کا وہ دکھ بھرا سبق ہے جو بار بار دہرایا جاتا ہے۔

شوون کے خلاف مقدمہ درج کروانے کے لیے منیا پولس میں پولیس تھانے کو جلانا پڑا۔ ریاست کو جارج فلوئڈ کے قتل میں ملوث باقی تین پولیس افسران پر مقدمات بنانے کے لیے ملک بھر میں دس دن کے لیے مستقل عوامی ایکشن کی ضروت پڑی۔ ان علامتی رعایتوں پر خوش ہونا چاہیے لیکن یہ کافی نہیں ہیں۔ جیسے ہی عوام سڑکوں سے پیچھے ہٹیں گے، ریاست اس سے مکر جائے گی اور ان کو بری کرنے یا زیادہ سے زیادہ بہت معمولی سزا دینے کی تیاری شروع کر دے گی۔

تحریک پہلے ہی جارج فلوئڈ کے قتل سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ پورا نظام ہی ذمہ دار ہے۔ تحریک پورے نسل پرست سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سوالات اٹھا رہی ہے جس نے ایک اور سیاہ فام شخص کو محض اس کی جلد کے رنگ کی وجہ سے قتل کر دیا۔ اس کا سفاکانہ قتل تاریخی حادثہ ثابت ہوا جو دبی ہوئی ضرورت کو آشکار کرنے کی طرف گیا۔ جیسا کہ اس کی چھ سالہ بیٹی گیانا نے کہا: ”ابو نے دنیا کو تبدیل کر دیا۔“

ہمیں ٹرمپ کی اقتدار سے بے دخلی کے نعرے کو بلند کرنا ہوگا۔ تاہم اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ ہمیں بحث کرنی چاہیے کہ اس کی جگہ کون لے گا۔ ہمارا مقصد اسے مائک پنس یا جوبائڈن سے تبدیل کرنا نہیں ہے۔ ان شہروں اور ریاستوں میں گورنرز اور مئیر زیادہ تر ڈیموکریٹس ہی ہیں جہاں غریب لوگ نسل پرست پولیس والوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ ان شہروں اور ریاستوں میں زیادہ تر گورنرز اور مئیرز کا تعلق ڈیموکریٹس سے ہی ہے جہاں پولیس اور نیشنل گارڈز نے مظاہرین کے خلاف سفاکانہ جبر کا استعمال کیا۔ جوبائڈن نے تجویز دی کہ اگر وہ صدر منتخب ہوا تو پولیس کے نظام میں تبدیلی لانے کی طرف جا سکتا ہے مثال کے طور پر جیسا کہ ”سینے میں گولی مارنے کی بجائے ٹانگوں میں گولی مارنے“ کی تربیت دینا۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے اور کس چیز کی ضرورت ہے کہ سرمایہ دارانہ اسٹیبلیشمنٹ کی دو جماعتوں کے درمیان کوئی بنیادی فرق نہیں ہے؟ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ کم تر برائی نام کی کوئی چیز نہیں ہوا کرتی ہے؟

جس چیز کی ضرورت ہے وہ محنت کش طبقے کی عوام سوشلسٹ پارٹی ہے جو منظم محنت کشوں اور وسیع ترین محنت کش عوام کے ساتھ نامیاتی طور پر جڑی ہوئی ہو۔ نوجوانوں کے غصے اور طاقت کو استعمال میں لانے اور پورے بحران زدہ، نسل پرست سرمایہ دارانہ نظام کو گرانے پر لگانے کے لیے ایسے ہی ایک اوزار کی ضرورت ہے۔ ہمیں مستقبل کی عوامی پارٹی کو اٹل طبقاتی آزادی اور تاریخ کے وسیع نظریے کے ساتھ جوڑنے کے لیے مارکسی نظریات میں ڈھلے ہوئے، ہمارے طبقے کی جدوجہدوں میں کندن بنے ہوئے پروفیشنل انقلابیوں پر مبنی کیڈرز کی ضرورت ہے۔

یہ شاندار تحریک پوری دنیا پر اثرات مرتب کر رہی ہے۔ جی بالکل، اگر امریکہ جیسے خوفناک دیو میں ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں تو پھر کہیں پر بھی ہو سکتے ہیں۔

جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ ’تیسرا امریکی انقلاب‘ تو نہیں ہے مگر یہ بغیر کسی شک و شبے کے ایک انقلابی عہد کے آغاز کے واقعات ہیں جو کہ یا تو ’سماج کی بڑے پیمانے پر انقلابی از سرِ نو تعمیر‘’ یا متحارب طبقات کی مکمل بربادی پر منتج ہوگا۔ اگر ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہی، کرونا وائرس اور سرمایہ داری کی مجتمع شدہ بربادیوں سے بچنا ہے تو مختصراً یہ کہ انسانیت کا مستقبل خطرے میں ہے۔ اس نظام اور اس کے دفاع کرنے والوں کے لیے یہ بات نوشتۂ دیوار ہے۔ سرمایہ دارانہ بیماری کی بڑھتی ہوئی لکیر کو کم کرنے کا واحد طریقہ منظم ہو کر اسے اگلے تاریخی عہد میں مکمل طور پر اکھاڑ پھینکنا ہے۔

• قاتل پولیس والوں سے لڑنے کے لیے سرمایہ داری کے خلاف لڑو!

• محنت کش طبقے کے اتحاد کے لیے۔ایک کا دکھ سب کا دکھ!

• ہر جگہ جمہوری طور پر منتخب شدہ اور قابلِ احتساب عوامی کمیٹیوں کی تشکیل کرو!

• منظم محنت کش طبقہ لازمی تحریک میں شامل ہو، عوامی کمیٹیوں کو آپس میں جوڑنے میں کردار ادا کرے، عام ہڑتال کی کال دے اور پورے ملک کو جام کر دے!

• ٹرمپ، ریپبلیکنز اور ڈیموکریٹس مردہ باد! ایک محنت کش طبقے کی عوامی سوشلسٹ پارٹی اور مزدوروں کی حکومت کے لیے!

Comments are closed.