پاکستان: کرونا ویکسین کی قلت اور قاتل حکمران

|تحریر: خالد مندوخیل|

کرونا وبا کی تیسری لہر پچھلے کچھ عرصے میں تھم گئی ہے۔ روزانہ کے حساب سے مثبت کیسز میں تیز رفتار کمی رپورٹ کی گئی ہے۔ اب تک اس وباء سے مرنے والوں کی مجموعی تعداد پاکستان میں 22 ہزار سے زائد رپورٹ ہوئی۔ پچھلے دو دنوں میں مثبت کیسز کو ریکارڈ کمی کے ساتھ 2.5 فیصد رپورٹ کیا گیا۔ اب اس پر حکومت کے وزیر و مشیر بڑے فخر سے سینے چوڑے کر رہے ہیں اور اس کو اپنی کامیابی بنا کر جشن مناتے نظر آتے ہیں۔ حکومت ہر چھوٹے بڑے اقدام یا کامیابی کو اپوزیشن کو نیچا دکھانے اور عوام کو دھوکا دینے کے لیے بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے چاہے اس کی حقیقت کتنی ہی عارضی، سطحی اور کھوکھلی کیوں نہ ہو۔ ایسی ہی کچھ صورتحال کرونا کے پھیلاؤ میں کمی کے حوالے سے بھی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کرونا وبا کا خطرہ اب بھی مکمل طور پر ٹلا نہیں ہے اور روزانہ کے حساب سے 25 سے 30 کے درمیان اموات رپورٹ ہورہی ہیں۔ 20 جون تک پاکستان میں ایکٹیو کیسز کی مجموعی تعداد 37900 بتائی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مریضوں کی یہ تعداد بھی کوئی کم خطرناک بات نہیں ہے۔ پچھلے سال کے آغاز میں پاکستان میں سب سے پہلے چند ہی کیسز ریکارڈ ہوئے تھے جو بعد میں پورے ملک میں وبا کے پھیلاؤ کا باعث بنے۔ اب اگر حکمران طبقے کا ردعمل بدستور اسی طرح نااہلی اور عوام دشمنی پر مبنی رہے گا تو وبا کا دوبارہ پھیلنا خارج از امکان نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں خاص طور پر ویکسین کے حوالے سے حکمران طبقے کی خصی پن، غیر سنجیدگی اور نااہلی پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔

چونکہ موجودہ صورتحال میں صرف ویکسین ہی وبا کے خطرے کو مکمل طور پر ٹالنے کا واحد راستہ ہے جس کے لئے کم از کم 70 فیصد آبادی کو ویکسین لگوانا ضروری ہے، بصورت دیگر وبا کے خاتمے کا کوئی معجزاتی یا جادوئی امکان موجود نہیں ہے۔

پاکستان میں ویکسینیشن کا عمل پہلے ہی سے کافی سست رفتار ہے جس کی بنیاد حکمران طبقے کی وبا کے شروع سے لے کر اب تک لاپرواہی اور جہالت پر مبنی ردعمل اور ان کی عوام دشمن ترجیحات ہیں۔ پچھلے سال کے اختتام تک دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک میں کرونا ویکسین کا عمل شروع کیا گیا تھا اور ویکسین خریدنے کی ایک دوڑ جاری تھی جس میں کچھ امیر ممالک نے تو اپنی ضرورت سے زیادہ ویکسینیں خرید کر اپنے پاس رکھیں تاکہ دوبارہ اس قسم کی وبا ان کی صنعتوں، فیکٹریوں، تجارت اور منافعوں کی تسلسل میں خلل نہ ڈال سکے۔ اس دوران اقوام متحدہ کے اندر اس وبا پر نہ صرف امیر ممالک میں بلکہ پوری دنیا میں قابو پانے کی ضرورت پر بھی باتیں ہو رہی تھیں تاکہ پوری دنیا میں نظام کو معمول پر لایا جا سکے۔

اس کے لئے اقوام متحدہ نے کووِڈ الائنس ”کوویکس (COVAX)“ کے ذریعے دنیا کے غریب ممالک کو 2 ارب ویکسینیں فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا جس میں 2021ء کے اختتام تک دنیا کے اکثر ممالک میں 20 فیصد بہت کمزور آبادی کو ویکسین لگوانے کا ہدف مقرر تھا۔ اس پروگرام نے فروری میں پاکستان کو بھی ڈیڑھ کروڑ ویکسینیں رواں سال جون کے اختتام تک فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان کے حکمرانوں نے یہ اعلان سنتے ہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے اور سر راہ اس خیرات کے وصول کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ مگر اسی عرصے میں چین کی طرف سے 12 لاکھ کرونا ویکسینیں سائنو فام خیرات میں ملی تھیں جن کے ذریعے سب سے پہلے فروری میں ہیلتھ ورکرز کو ویکسین لگوانے کا عمل شروع کیا گیا تھا۔ پاکستان کے حکمران ویکسین خریدنے کے لیے ایک روپیہ تک خرچ کرنے کو گناہ کبیرہ تصور کرتے آرہے ہیں۔

فروری سے لے کر اب تک پاکستان نے کرونا ویکسین کے کئی کھیپ وصول کر لئے ہیں جن میں اکثریت خیرات میں ملنے والی ویکسین کی ہے، جو کہ ساتھ ساتھ لوگوں کو لگائی جارہی ہیں۔ یعنی فی الحال تقریباً چائنہ اور ”کوویکس“ کی طرف سے ملنے والی ویکسین پر ہی زیادہ تر تکیہ کیا جا رہا ہے البتہ اس دوران چینی ویکسین کین سائنو اور سائنوفام کے کچھ ڈوز خریدے بھی گئے۔

کوویکس کے تحت ملنے والی ویکسین صرف 20 فیصد آبادی کیلئے ہے، باقی 50 فیصد آبادی کیلئے پاکستان کو ویکسینیں خریدنا پڑیں گی تاکہ تیز ترین بنیادوں پر آبادی کے باقی ماندہ حصے کو محفوظ بنایا جاسکے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ابھی تک پوری آبادی کے بمشکل 2 فیصد کے لگ بھگ کو ہی ویکسین لگ پائی ہے۔

وزیر اعظم کے مشیر خاص ڈاکٹر فیصل سلطان نے فروری میں دعویٰ کیا تھا کہ جون تک ہم روزانہ پانچ لاکھ ڈوز لگانے کا ہدف حاصل کریں گے مگر رواں ماہ کے پہلے دو ہفتوں میں عوام نے کچھ ہی زیادہ تعداد میں ویکسین سینٹرز کا رخ کیا اور روزانہ ویکسین لگانے والوں کی تعداد بمشکل 1 لاکھ 30 ہزار کے لگ بھگ پہنچتے ہی ریاستی حکمت عملی کے کھوکھلے پن کو ننگا کرنے کا باعث بنی۔ اب صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ پچھلے ایک ہفتے سے پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں ویکسین سینٹرز میں کورونا ویکسین کی قلت رپورٹ کی گئی۔ اس قلت کے باعث ویکسین لگوانے کی رفتار 60 فیصد تک گر چکی ہے۔ جون کے آغاز میں ایک لاکھ تیس ہزار ویکیسینیں لگائی جارہی تھیں، یہ تعداد اب پچھلے ہفتہ اتوار کو 55 ہزار 728 پر پہنچ چکی ہے۔ اس میں بھی ابھی 30 ہزار سے کچھ اوپر دوسری ڈوز لگانے والے شامل تھے۔ جبکہ دس ہزار نئی ڈوز لگائی گئیں۔

لاہور، کراچی، راولپنڈی، ملتان اور فیصل آباد جیسے بڑے شہروں میں چند ایک کے علاوہ تقریبا تمام ویکسینیشن سنٹرز پچھلے تین دنوں میں بند ہوتے ہوئے نظر آئے۔ لاہور ایکسپو سینٹر میں 19 جون کو صبح سے لوگ ویکسین لگوانے کے لیے آنا شروع ہوئے تھے۔ ایکسپو سنٹر کے مین گیٹ کو بند پا کر لوگوں نے گیٹ کے سامنے کھڑے ہوکر انتظار کرنا شروع کیا۔ دو تین گھنٹے انتظار کرنے کے بعد سخت گرمی اور انتظامیہ کی لا پرواہی سے دلبرداشتہ ہوکر لوگوں نے احتجاج کا آغاز کیا۔ ایکسپو سینٹر کے سامنے ہزاروں کی تعداد میں لوگ ویکسین لگوانے کے انتظار میں گھنٹوں کھڑے رہنے بعد غصے سے بے قابو ہوگئے اور حکومت کی ویکسین سٹریٹیجی پر سخت تنقید کی گئی۔ انتظامیہ کی طرف سے لوگوں کو ہراساں کرنے پر انہوں نے گیٹ توڑ کر اندر جانے کی کوشش کی اور کافی دیر تک یہ دھکم پیل جاری رہی۔ مختصر یہ کہ ہزاروں لوگوں کو اس طرح کی دھکم پیل کے بعد ویکسین حاصل کئے بغیر مایوس ہوکر اپنے گھروں کو لوٹنا پڑا۔

تقریباً یہی حالت ملک کے باقی شہروں میں رہی مگر وزیراعظم کے مشیر خاص ڈاکٹر فیصل سلطان نے میڈیا پر آکر ویکسین کی قلت کو ایک بے بنیاد پراپیگنڈا قرار دیا اور کرونا سنٹرز پر ایسی صورتحال کی موجودگی کو رد کر دیا۔ اسی طرح وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے میڈیا پر اس حقیقت سے انکار کیا جو اس وقت میں ویکسین مراکز کے بارے میں رپورٹ کی جارہی تھی۔ اس نے ویکسین مراکز میں ویکسین کی قلت کو عارضی قرار دیا اور اس بے ہنگم صورتحال کی ساری ذمہ داری ان پاکستانیوں پر ڈال دی جو اپنے بچوں کی روزی روٹی کا بندوبست کرنے کے لیے محنت مزدوری کرنے ملک سے باہر جانے پر مجبور ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد اے سی دفتروں میں بیٹھ کر گھنٹوں سخت گرمی میں دھکے کھاتے اور انتظار کرتے لوگوں پر جلد بازی سے کام لینے کی تہمت لگا رہی ہے۔ یہ غیر انسانی رویہ آج ان لوگوں کے ساتھ اپنایا گیا جو کہ بیرونی ممالک میں جا کر محنت مزدوری کرکے جب پیسے بھیجتے ہیں تو عمران خان کی زبان پر ترسیلات زر کے علاوہ کوئی اور بات ہی نہیں ہوتی۔ بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے پیسے کا ذکر کرتے ہوئے عمران کی آنکھوں میں جو چمک اور منہ میں جو پانی آتا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان یا ریاستی حکمرانوں کو محنت مزدوری کرنے والوں سے نہیں بلکہ صرف ان کے پیسوں سے دلچسپی ہے۔ غرض یہ کہ پاکستان کے حکمرانوں کی ہر جگہ سے پیسے، خیرات، فنڈز، قرضے اور عطیات پر نظر ہوتی ہے۔ یہی رویہ کورونا ویکسین کے بارے میں برقرار رکھا گیا۔

اس صورتحال میں وزیر صحت یاسمین راشد اور فیصل سلطان کی کھلی منافقت پر مبنی تردید کے بعد جب وفاقی وزیروں اور مشیروں کا ایک اہم اجلاس طلب کیا گیا تو اس میں ایک اور کہانی سامنے آئی۔ اس اجلاس کی پریس ریلیز میں ویکسین کی قلت کا اعتراف کرنا پڑا اور بتایا گیا کہ ویکسین خریدنے کے لئے ادائیگی کا بندوبست کرنے کے سلسلے میں مختلف عالمی ترقیاتی اداروں سے قرض لے جائیں گے تاکہ ویکسین سپلائی کو دوبارہ بحال کروانے کے لئے پیسے ادا کیے جا سکیں۔ مگر ڈان اخبار کے ایڈیٹوریل میں بتایا گیا کہ اس طرح ترقیاتی اداروں سے ویکسین خریدنے کے لیے قرضہ حاصل کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے جس میں کافی زیادہ مشکلات اور شرائط ہوتی ہیں۔ لیکن بہر حال 20 جون کو ہم نے دیکھا کے چائنہ نے بالآخر پندرہ لاکھ سائنو ویک ڈوز کی سپلائی جاری کر دی جو کہ پاکستان پہنچ چکی ہیں۔ مگر اس طرح کی بیساکھیوں پر یہ سلسلہ خاطرخواہ طور پر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ نئے سال کے بجٹ میں گو کہ 1 ارب ڈالر کورونا ویکسین کے لیے مختص کیے گئے ہیں لیکن فی الحال پاکستان کے پاس یہ رقم جیب میں موجود نہیں ہے اور پھر کاغذی فیصلے اور ٹارگٹس کی اگر بات کی جائے تو پاکستان کے نئے سال کا بجٹ ایسے دعووں سے بھرا پڑا ہے جن کی کوئی خاص عملی اہمیت نہیں ہوتی۔

اصل صورتحال یہ ہے کہ جن 2 فیصد لوگوں کو ویکسینیٹ کیا جا چکا ہے ان میں بھی نصف سے کافی زیادہ کو صرف ایک ڈوز لگائی گئی ہے جبکہ وہ تعداد بہت کم ہے جن کی ویکسینیشن مکمل ہوچکی ہے۔ ان 2 فیصد لوگوں کو ویکسینیٹ کرنے کیلئے 1 کروڑ 30 لاکھ کے قریب ڈوز لگے ہیں جن میں سے آدھے سے زیادہ خیرات میں ملی جبکہ باقی کچھ حصہ خریدا گیا۔ اس بنیاد پر 70 فیصد آبادی کو ویکسینیٹ کرنے کے لئے 15 سے 16 کروڑ ڈوز درکار ہوں گی۔ اتنے بڑے پیمانے ویکسینیشن کرنے کی صلاحیت اور سوچ ہی پاکستان کے حکمران طبقے میں موجود نہیں ہے۔ اس بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں وبا کے مستقبل میں خاتمے، پوری آبادی کو ویکسین فراہم کرنے اور اس مسئلے سے مکمل چھٹکارا حاصل کرنے کا مستقبل قریب میں کوئی امکان موجود نہیں ہے۔ حکمران طبقہ خود ایک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے جو ابھی تک کسی بھی مسئلے پر کوئی کامیاب، موثر اور بروقت ردعمل کرنے میں ناکام اور بے صلاحیت ثابت ہوتا نظر آیا ہے۔ عوام کی صحت اور علاج تو سرے سے حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں مگر اپنے منافعوں کی خاطر معیشت کا پہیہ چالو رکھنے کے لیے بھی ان میں اتنا بڑا اقدام کرنے کی طاقت موجود نہیں ہے۔ صحت پر سالانہ بجٹ کا دو فیصد سے کم خرچ کیا جاتا ہے باقی علاج اور صحت کے شعبے میں پرائیویٹ ہسپتالوں اور دوا ساز کمپنیوں کو لوٹ مار اور منافع خوری کیلئے کھلم کھلا چھوٹ دے دی جاتی ہے اور ان جونکوں کے منافعوں کے دفاع میں ہی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ مختصر یہ کہ موجودہ نظام میں مجموعی طور پر شعبہ صحت میں کوئی بہتری لانے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

عوام کو بہتر معیاری اور سائنسی علاج دینے کی ضمانت دینا، اجتماعی کوششوں اور سائنسی ذرائع کے ذریعے وباؤں پر قابو پانا اور ادویات کی منافع خور کمپنیوں کی لوٹ مار کو ختم کرنا صرف اور صرف ایک سوشلسٹ نظام میں ممکن ہو سکتا ہے جہاں منافع سے پہلے انسانی زندگی کو اہمیت دی جائے گی۔

Comments are closed.