وینزویلا: مفاہمت یا انقلاب؟

|تحریر: جارج مارٹن، ترجمہ: ولید خان|

قومی انتخابی کونسل کی جانب سے وینزویلا میں اتوار کے دن منعقد ہونے والے آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کے نتائج کے اعلان سے قبل ہی حزب اختلاف اور مغربی سامراجیوں نے بڑے پیمانے پر دھاندلی کا شور مچانا شروع کردیا اور کہا کہ وہ اس اسمبلی کی قانونی حیثیت نہیں مانتے۔ اس کے بعد سے ان کی طرف سے ہر محاذ پر دباؤ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ کیا کیا جائے؟

to read this article in English, click here

یہ کوئی عام انتخابات نہیں تھے بلکہ اس جنگ کا ایک اہم حصہ تھے جو اشرافیہ اور مغربی سامراجیوں نے پچھلے چار مہینوں سے بولیوارین انقلاب کے خلاف شروع کر رکھی ہے۔ حزب اختلاف نے نہ صرف پہلے سے یہ اعلان کر دیا کہ وہ انتخابات کا بائیکاٹ کریں گے بلکہ انہوں نے بزور طاقت انتخابات کو رکوانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ 30جولائی اتوار کے دن لوگوں کی نقل و حرکت روکنے کیلئے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، پولنگ اسٹیشنوں پر حملے کئے گئے، پولنگ مشینوں اور مواد کو برباد کیا گیا، پولنگ اسٹیشنوں پر مسلح ہو کر دھاوے بولے گئے جس کے نتیجے میں لا گریٹا (میریدا) کے مقام پر ایک نیشنل گارڈ کو قتل کر دیا گیا، نیشنل گارڈ کے سپاہیوں پر بم حملے کئے گئے وغیرہ وغیرہ۔ دن کے اختتام تک ، بولیوار میں آئین ساز ا سمبلی کے ایک امیدوار سمیت 10-15 لوگ مارے جا چکے تھے۔

اس سب کے باوجود، اور کچھ جگہوں پر ان اقدامات کے رد عمل میں، لاکھوں لوگ ووٹ دینے کیلئے متحرک ہوئے۔ کراکس میں پولیدیرو سٹیڈیم میں ہزاروں لوگ ووٹ ڈالنے کیلئے کئی گھنٹے انتظار کرتے رہے۔سٹیڈیم کو ایک دیو ہیکل پولنگ سٹیشن میں تبدیل کر دیا گیا تھا تاکہ وہ لوگ جو مشرقی کراکس کے دائیں بازو کے حامی علاقوں میں رہتے ہیں، آسانی سے آ کر ووٹ ڈال سکیں کیونکہ ان کے لئے اپنے روایتی پولنگ اسٹیشنوں پر جا کر ووٹ ڈالنا ممکن نہیں تھا۔ تاچیرا میں پالو گوردو کے رہائشیوں کو حزب اختلاف کے حامی مسلح افراد کی طرف سے دھمکیاں ملتی رہیں۔ پھر بھی وہ ووٹ ڈالنے کیلئے نکلے اور دریاؤں اور پہاڑوں کو عبور کرتے ہوئے پولنگ اسٹیشن تک پہنچے۔ حزب اختلاف کا تشدد خاص طور پر تاچیرا، میریدا، بارکویسی میتو اور کراکس کے مشرق میں بہت شدید تھا۔

یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حزب اختلاف کے بائیکاٹ کا مطلب یہ تھا کہ حقیقی مقابلہ صرف افسر شاہی کے حمایت یافتہ سرکاری امیدواروں اور شاویستا لیفٹ کے دوسرے بے تحاشا اتحادوں اور گروہوں کے درمیان تھا۔ یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ ووٹروں کی اتنی بڑی تعداد سرگرم نظر آئی۔

انتخابات کی کوریج کے حوالے سے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کا کردار انتہائی گھٹیا اور اشتعال انگیز تھا۔ انہوں نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا کہ وہ صدر جو انتخابات کرائے، حقیقت میں ایک آمر ہے۔ صرف یہی نہیں، انہوں نے اخباروں کے پہلے صفحے پر بڑی بڑی سرخیاں نکالیں کہ حکومت کس طرح سے عوام پر تشدد کر رہی ہے۔ ان سرخیوں کے ساتھ ایک تصویر لگائی گئی جس میں نیشنل گارڈز کے ایک موٹر سائیکل سوار دستے کو شعلوں کی لپیٹ میں دکھایا گیا ہے جو کہ درحقیقت حزب اختلاف کی جانب سے سڑک کنارے نصب بم کا نتیجہ تھا!

ظاہر ہے دستور ساز اسمبلی کے نتائج کا مطلب یہ نہیں کہ رد انقلابی شورش ختم ہو گئی ہے۔ تقریباً ایک ساتھ ہی لاطینی امریکہ، واشنگٹن اور میڈرڈ کی دائیں بازو کی حکومتوں نے اعلان کر دیا کہ وہ ان انتخابات کو نہیں مانتے۔ وینزویلا کے سرمایہ دار طبقے نے دوبارہ سے لوگوں کو متحرک ہونے کی کال دے دی۔ پہلی مرتبہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مادورو کو ایک آمر کہا اور ا سے وینزویلا کے ان افراد کی فہرست میں شامل کیا جن پر واشنگٹن کی طرف سے پابندیاں عائد ہوئی ہیں۔

یکم اگست کو منگل کے دن قومی اسمبلی، جسے حزب اختلاف کنٹرول کرتی ہے، نے ایک غیر معمولی اجلاس بلایا جس میں آگے کے کالائحہ عمل اور دستور ساز اسمبلی کو غیر قانونی قرار دینے پر غور کیا گیا۔ انتہائی اشتعال انگیز حرکت کرتے ہوئے اسپین، فرانس، برطانیہ اور میکسیکو کے سفیروں نے اس اجلاس میں شرکت اور قومی اسمبلی کے قائدین سے ملاقات کی۔ یہ بیرونی سامراجیوں کی انتہائی شرمناک مداخلت ہے جن کے اپنے انسانی حقوق اور جمہوریت پسندی کے ریکارڈوں کا اگر مطالعہ کیا جائے تو انسانیت شرما جائے۔

سچائی یہ ہے کہ حزب اختلاف ایک مشترکہ لائحہ عمل پر متفق نہیں ہے۔ یہ واضح ہے کہ ایک دھڑا جس کی ترجمانی جولیو بورگس، راموس آلپ اور اور دوسرے پرانے سرمایہ دار کر رہے ہیں، انہیں یہ نظر آ رہا ہے کہ ان کی مہم کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔ انہیں یہ خطرہ بھی لاحق ہے کہ اگر مادورو کی حکومت کو گلیوں میں دندناتی پھرتی رد انقلابی قوتوں نے واقعی الٹا دیا تو اس کے بعد پیدا ہونے والے انتشار میں کیا ہو گا جبکہ اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ محنت کشوں اور کسانوں کی ایک خاطر خواہ تعداد بھرپور مزاحمت کی طرف جا سکتی ہے۔ وہ اس بات کا بھی حساب لگا رہے ہیں کہ اگر حکومت دباؤ سہہ کر بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر دسمبر میں علاقائی گورنروں کے انتخابات منعقد ہوں گے جن میں وہ حصہ لینا چاہتے ہیں۔ اس دھڑے میں لارا کے گورنر فالکون جیسے لوگ بھی شامل ہیں جن کا بنیادی مفاد یہ ہے کہ ان کے منصب قائم رہیں۔

ان کی خواہش یہ ہو گی کہ حکومت کے ساتھ مذکرات کر کے معاملات نبٹائے جائیں۔ اس سے اقتدار کی پر امن منتقلی یقینی بنائی جا سکتی ہے جس کی وجہ سے کم سے کم انتشار پیدا ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ متضاد سگنل دے رہا ہے۔ دستور ساز اسمبلی کے انتخابات کے نتیجے میں وینزویلا پر ’’تیز تر اور سخت ترین‘‘ پابندیوں کی دھمکی کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ مادورو کے خلاف پابندیاں لگانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ امریکہ میں تو اس کے کوئی اثاثے ہی موجود نہیں۔ واشنگٹن کو یہ فکر بھی کھائے جا رہی ہے کہ سخت معاشی پابندیاں لگنے کی وجہ سے مادورو بالکل ہی روس اور چین کی گود میں نہ جا بیٹھے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ان معاشی پابندیوں کا خود امریکہ کی معیشت پر کیا اثر پڑے گا۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وینزویلا امریکہ کو تیل فراہم کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے اور ریاستی تیل کمپنی PDVSA کے خلاف کسی بھی پابندی کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ میں موجود تیل کی ریفائنریاں فوری طور پر متاثر ہوں گی جو کہ پہلے ہی حکومت کے اس انتہائی قدم کے خلاف لابنگ کر رہی ہیں۔ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پیر کے دن صدر ٹرمپ کے اعلامیے کے بعد ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے جنوبی امریکہ مائیکل فٹز پیٹریک نے کہا ہے کہ امریکہ مادورو کی حکومت کے ساتھ ’’مذاکرات‘‘ چاہتا ہے اور حکومت کو آمرانہ تصور کرنے کے باوجود ’’ فی الحال ہم وینزویلا کی حکومت اور صدر مادورو کی عزت کرتے ہیں‘‘۔ 

ایسا لگتا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے تمام آپشن کھلے رکھے ہوئے ہیں: ’’وینزویلا کے حوالے سے ہمارا طریقہ کار یہی رہا ہے کہ ہم اتحادیوں کے ذریعے،OAS اور دیگر جو وینز ویلا کے مستقبل کے حوالے سے ہمارے ہم خیال ہیں، کام کریں۔۔۔ظاہر ہے کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ وینزویلا آئین کی پابندی کرے، وقت پر انتخابات کرائے، اور وینزویلا کی عوام کے حکومت میں رائے دہی کے حق کا تحفظ کیا جائے‘‘۔ اس نے مزید کہا کہ:’’ہم اپنے تمام پالیسی آپشنز پر غور کر رہے ہیں کہ کس طرح سے ہم ایسی صورتحال پیدا کر سکتے ہیں کہ جس میں مادورو یا تو یہ فیصلہ کر لے کہ اس کا کوئی مستقبل نہیں اور اپنی مرضی سے چلا جائے یا پھر ہم حکومتی نظام کو واپس ان کے آئین کے تابع کر دیں‘‘۔

حزب اختلاف میں موجود سخت گیر اپنی کامیابیوں کے نشے میں چور فوری طور پر وینزویلا میں حکومت کی تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے ماریا کورینا ماچادو نے بحث کی کہ ایسا طریقہ کار اپنایا جائے جس کے ذریعے ہر سطح پر متبادل ریاستی ادارے بنائے جائیں۔ اس نے کہا کہ قومی اسمبلی نہ صرف نئے سپریم کورٹ کے جج لگائے (پچھلے ہفتے یہ کام ہو چکا ہے) بلکہ قومی انتخابی کونسل کے ریکٹر، سفیر اور ایک نئی حکومت بھی وضع کرے۔ اس کی امید ہے کہ ان سب کو پھر سامراجی ریاستیں قبول کر لیں گی۔ پیر کے دن جب یہ تجاویز قومی اسمبلی میں فریڈی گویرا نے پیش کیں تو AD کے قائد راموس آلپ نے فوراً اس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ آلپ نے کہا کہ یہ تجاویز انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہیں اور بجا طور پر نشاندہی کی کہ قومی اسمبلی نے جن نئے ججوں کی تقرری کی تھی، ان کو یا تو گرفتار کیا جا چکا ہے یا پھر وہ چلی کے سفارت خانے میں پناہ گزین ہیں اور اس حوالے سے قومی اسمبلی کچھ بھی نہیں کر سکی۔ حتمی تجزیئے میں رد انقلاب کیلئے انتہائی اہم ہے کہ وہ ریاستی مشینری میں مسلح جتھوں کو کنٹرول کر سکے اور تاحال اس حوالے سے حزب اختلاف ناکامی کا شکار ہے۔ درحقیقت، راموس آلپ نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ اس کی AD پارٹی علاقائی انتخابات میں حصہ لے گی۔

پچھلے ہفتے’’آخری لمحے‘‘ اور ’’میرافلوریس کی طرف مارچ‘‘ کے تمام تر زبانی جمع خرچ کے باوجود حزب اختلاف بڑے پیمانے پر اپنے حمایتیوں کو متحرک نہیں کر سکی جس کی وجہ قیادت کا تذبذب اور متضاد بیانات ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بلند و بانگ دعووں اور شور شرابے کے باوجود وہ حکومت کے ساتھ سابق ہسپانوی صدر زپاتیروکی معاونت کے ساتھ خفیہ مذاکرات میں مصروف تھے۔ ان مذاکرات میں اس سال میں علاقائی انتخابات اور اگلے سال صدارتی انتخابات کیلئے ٹائم ٹیبل اور قومی اسمبلی کے تمام اختیارات کی بحالی شامل تھے (ایمازوناس میں تین ممبران اسمبلی کے منسوخ انتخابات کو دوبارہ منعقد کرنے کے بعد یہ ممکن ہو جائے گا)۔ 

اس اثنا میں مادورو کے پاس اور کوئی لائحہ عمل نہیں سوائے اس کے کہ حزب اختلاف کو مذاکرات کیلئے بلا کر سرمایہ داروں کو اور زیادہ رعایت دی جائے۔

دستور ساز اسمبلی کی منطق بھی اسی وقت سمجھ آتی ہے اگر اسے موجودہ بحران کو حل کرنے کیلئے استعمال کیا جائے جس کی جڑیں شدید معاشی بحران میں موجود ہیں۔ صرف ایک واضح انقلابی پروگرام کے ذریعے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ دستور ساز اسمبلی کے بائیں بازو کے ممبران کو مندرجہ ذیل تجاویز سامنے رکھنی چاہئیں:

دستور ساز اسمبلی کو تمام تر اختیارات منتقل کئے جائیں۔

بیرونی تجارت پر ریاستی اجارہ داری۔

تمام بیرونی قرضے کی منسوخی تاکہ اس پیسے سے اشیائے خوردونوش اور دوسری اہم ضروری اشیا درآمد کی جائیں۔

POLAR اور تمام اشیائے خوردونوش بنانے اور رسد کے انتظامات کو محنت کشوں اور کسانوں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے۔

قیمتوں کو فوری طور پر منجمد کر دیا جائے اور اجرتوں میں فوری اضافہ کیا جائے۔

نجی بینکوں اور بین الاقومی کمپنیوں کو قومی تحویل میں لے لیا جائے۔

پیداوار کیلئے ایک جمہوری طریقہ کار تشکیل دیا جائے تاکہ محنت کشوں کی ضروریات پوری کی جائیں۔

رد انقلابی تشدد کرنے والوں، حزب اختلاف کے سیاست دانوں اور سرمایہ دار طبقے میں موجود ان کے مالی معاونوں کو گرفتار کر کے ان پر انقلابی عدالتوں میں مقدمے چلائے جائیں۔

کرپشن میں ملوث تمام افسران کو گرفتار کیا جائے اور کرپشن کے ذریعے بنائے گئے تمام اثاثوں کو قبضے میں لیا جائے۔

10۔ تمام قومی کمپنیوں اور اداروں میں محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول کو متعارف کراکر افسر شاہی کا مقابلہ کیا جائے۔

یہ پروگرام عوام میں گرم جوشی بھر کر ان کو پھر سے بھرپور انداز میں متحرک کر دے گا کیونکہ اس پروگرام کے ذریعے معاشی بحران کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے کا عمل شروع ہو جائے گا۔ ایسے پروگرام کو ’پاپولر ڈیفنس بریگیڈز‘ کی طرح محنت کشوں اور غریب علاقوں کے لوگوں اور ان کے مسلح حفاظتی جتھوں کی انقلابی حمایت حاصل کرنا ہو گی۔ ساتھ ہی بولیوارین افواج کے ریزرو حصوں کو پوری طرح متحرک کر کے ان کو مسلح محنت کشوں اور کسانوں سے جوڑنا ہو گا۔

رد انقلاب کا مقابلہ صرف انقلابی طریقہ کار سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ محنت کش اور کسان صرف اپنی قوتوں پر ہی انحصار کر سکتے ہیں۔ بولیوارین انقلاب کی حاصلات کا دفاع کرو! اشرافیہ کو بے دخل کرو!

Comments are closed.