مزدور کی پیدا کی ہوئی دولت سرمایہ دار کیسے لوٹتے ہیں؟ قدر زائد کیا ہے؟

|تحریر: یاسر ارشاد|

سرمایہ داری نظام کے تحت تمام تر پیداوار کے عملی نتائج ہمیشہ ہی مزدوروں کی نیم فاقہ کشی کے حالات زندگی اور مالکان کے لیے اربوں بلکہ کھربوں کے منافعوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ پیداوار کے اس خفیہ راز کو جاننا اور سمجھنا ضروری ہے کہ کیوں اس کے تحت سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کی ہر نسل کی دولت پچھلی نسل کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ جاتی ہے جبکہ مزدوروں کی ہر نسل جان توڑ مشقت کے باوجود پچھلی نسل کے مقابلے میں زیادہ بد حال ہو جاتی ہے۔ ہم ذیل میں درج چند بنیادی حقائق، جن کی مارکس نے تفصیلی وضاحت کی تھی، کے مختصر ذکر کی بنیاد پر اس پیداواری عمل کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ اس پیداواری عمل کے دوران نئی دولت کیسے اور کس ذریعے سے تخلیق ہوتی ہے؟ اور کس طرح اس تخلیق شدہ دولت کی سرمایہ دار اور مزدور کے مابین تقسیم ہوتی ہے؟ جس کا نتیجہ چند سرمایہ داروں کی بے پناہ امارت اور مزدوروں کی وسیع اکثریت کی بے پناہ غربت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔

1: سرمایہ داری نظام میں تمام دولت پیدا کرنے کے ذرائع (فیکٹریاں، زمینیں، مشینری، ذرائع آمد رفت وغیرہ) سرمایہ داروں کی ملکیت ہوتے ہیں۔ ذرائع پیداوار کی اس ملکیت کی بنیاد پر سرمایہ دار منافعوں کے حصول کی غرض سے منڈی میں بیچی جانے والی اشیا پیدا کرتے ہیں یعنی سرمایہ دارانہ پیدا وار کی بنیاد اشیا، جنہیں کموڈیٹی کہا جاتا ہے، کی پیداوار پر مبنی ہے۔

2: اس کموڈیٹی میں دو قسم کی قدر موجود ہوتی ہے، ایک، یہ انسان کی کسی نہ کسی ضرورت کو پورا کرتی ہے جسے قدر استعمال کہا جاتا ہے اوردوسری، اس کا دیگر اشیا کے ساتھ تبادلہ کیا جا سکتا ہے جسے قدر تبادلہ کہا جاتا ہے۔

3: اس سماج میں موجود ہر شے انسانی محنت کے ذریعے پیدا ہوتی ہے اور یہ انسانی محنت ہی ہے جو فطرت میں موجود خام مال کو انسانی ضرورت کی تکمیل کی اشیا میں تبدیل کر تی ہے اور ساتھ ہی اسی محنت کے نتیجے میں ان اشیا میں وہ خصو صیت یعنی قدر(value) پیدا ہوتی ہے جس کی بنیاد پر ان تمام اشیا کا ایک دوسرے سے تبادلہ ممکن ہوتا ہے۔

قدر کا قانون

4: کسی شے کی قدر تبادلہ حقیقت میں از خود کوئی قدر نہیں ہوتی بلکہ تبادلے کے عمل میں کسی شے کی حقیقی قدر، قدر تبادلہ کے ذریعے اپنا اظہار کرتی ہے۔ ہر شے کی اس حقیقی قدر کا تعین کسی بھی دیے گئے وقت کے عمومی معیارات (تکنیکی ترقی اور ہنر مندی) کے مطابق اس شے کی پیداوار میں صرف ہونے والے لازمی سماجی وقت محن کی مقدار سے ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی شے کی حقیقی قدر، جس کا اظہار تبادلے کے عمل کے دوران اس کی قدر تبادلہ میں ہوتا ہے، کا تعین اس کی پیداوار پر صرف ہونے والے لازمی سماجی وقت محن کی مقدار سے ہوتا ہے۔ جس چیز کے لیے درکار لازمی سماجی محنت کی مقدار کم ہو گی اس کی حقیقی قدر (اور نتیجتاً قدر تبادلہ) بھی کم ہو گی اور اسی طرح جس شے کے لیے درکار لازمی سماجی محنت کی مقدار زیادہ ہوگی اس کی حقیقی قدر (اور نتیجتاً قدر تبادلہ) بھی زیادہ ہو گی۔

5: منڈی میں کسی شے کی قدر تبادلہ کا اظہار اس کی قیمت کے ذریعے ہوتا ہے لیکن اس پر منڈی میں تجارت کا طلب و رسد کا عمومی قانون بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ اس قانون کے زیر اثر ڈیمانڈ بڑھنے اور سپلائی کم ہونے کی صورت میں شے کی قیمت بعض اوقات اس کی قدر سے کچھ زیادہ ہو جاتی ہے اور پھر سپلائی بڑھنے اور ڈیمانڈ کم ہونے کی صورت میں اس کی قیمت اس کی قدر سے کچھ کم بھی ہوجاتی ہے لیکن اس تمام اتار چڑھاؤ کے ذریعے ایک لمبے عرصے میں عمومی طور پر ہر شے ہمیشہ اوسطاً اپنی حقیقی قدر کے برابر قیمت پر ہی فروخت ہوتی ہے۔

کسی بھی سرمایہ دار کو اپنی دولت میں اضافہ کرنے کے لیے جن بنیادی لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے ان میں اولین چیز اس کے پاس موجود وہ سرمایہ ہے جس سے وہ کوئی صنعت لگانے کے لیے عمارت کی تعمیر، مشینوں اور خام مال وغیرہ کی خریداری اور مزدوروں کی اجرت کی ادائیگی کے اخراجات اٹھاتا ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں زندہ ہیں جہاں ایک چھوٹی سی اقلیت کے پاس بے پناہ سرمایہ موجود ہے جبکہ سماج کی وسیع اکثریت ہر قسم کے سرمائے اور وسائل سے محروم ہے۔ سرمائے کا چند ہاتھوں میں اجتماع ایک تاریخی عمل کے ذریعے ممکن ہوا ہے جس میں سرمایہ دار طبقے کا لوٹ مار اور خونریزی سے لتھڑا ایک ہولناک ماضی ہے۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد سرمایہ دار طبقے نے ایسے قوانین تشکیل دیے اور ایسا نظام وجود میں آیا کہ اس تقسیم کو مسلسل جاری رکھا گیا ہے۔ دوسری طرف وسائل اور سرمائے سے محروم سماج کی وسیع اکثریت اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک یا دوسرے سرمایہ دار کے پاس اجرت کے عوض کام کرنے پر مجبور ہے۔ یوں سرمایہ داری نظام کا بنیادی پیداواری سائیکل صنعتوں میں مشینوں، خام مال اور ان پر کام کرنے والے مزدوروں کی محنت پر مبنی ہوتا ہے جہاں مزدور نئی اشیا پیدا کرتے ہیں جنہیں سرمایہ دار منڈی میں بیچ کر منافع کماتا ہے۔ آئیے اب صنعتی پیداوار کے تمام تر عمل کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ مشینوں، خام مال وغیرہ اور مزدور کی محنت کا اس میں کیا کردار ہوتا ہے اور ان میں سے کون سا عنصر سرمایہ دار کے لیے منافع پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔

ایک سفید جھوٹ کو آغاز میں ہی رد کر دینا ضروری ہے کہ سرمایہ دار مختلف تشہیری یا دیگر حربوں سے گاہکوں کو پھنسا کر زیادہ قیمت پر مال بیچ کر منافع کما لیتا ہے۔ ہم قدر کے قانون کا ذکر کر چکے ہیں جس کے ذریعے ہر شے کی قدر اور حتمی تجزئیے میں اس کی قیمت کا تعین اس پر صرف ہونے والے لازمی سماجی وقت محن کی مقدار سے ہوتا ہے اس لیے زیادہ قیمت پر مال بیچ کر منافع کمانے جیسی بکواس کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں بچتی بلکہ اس کے بر عکس پیداواری عمل کے دوران تخلیق ہونے والی کسی بھی شے کی حقیقی قدر کے اندر ہی سرمایہ داروں کے مختلف حصوں میں تقسیم ہونے والا منافع موجود ہوتا ہے اور ہم اپنے تجزیے کے ذریعے اس عمل کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ یہ کہاں سے اور کیسے آتا ہے۔

اگر کسی علاقے میں لوہے کے ذخائر موجود ہیں تو زمین کے اندر موجود ان ذخائر کی قیمت نکالے جا چکے خام لوہے یا اس سے تیار شدہ سٹیل کی قیمت کے مقابلے میں نہایت کم ہو گی۔ زمین سے خام حالت میں لوہا نکالنے کے عمل کے دوران کانکن مزدوروں کی محنت صرف ہونے کے بعد اس کی قدر یا قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اسی طرح اس خام لوہے کوبھٹیوں میں پگھلا کر فاضل مواد سے پاک کر کے جب سٹیل تیار کی جاتی ہے تو اس کی قدر یا قیمت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ لوہے کو زمین سے نکالنے اور اس سے سٹیل کی تیاری کے ہر مرحلے پر اس کی قدر میں ہونے والا اضافہ درحقیقت ہر مرحلے کے دوران اس پر صرف ہونے والی لازمی سماجی محنت کی مقدار کے اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔ یوں بظاہر خام مال سے شے کی تیاری کے دوران ہر مرحلے پر، اگر ہم لوہے کی ہی بات کریں، تو اس کی قدر بڑھ جاتی ہے اور قدر میں یہ اضافہ اس شے میں مجتمع ہونے والی انسانی محنت کی مقدار کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی طرح سرمایہ دار کی فیکٹری میں لگی ہوئی مشینیں بھی ان کو بنانے کے عمل میں صرف ہونے والی انسانی محنت کی ایک خاص مقدار کو ظاہر کرتی ہیں۔ یوں کسی بھی شے کی پیداوار کے دوران جو خام مال استعمال ہوتا ہے اس کی اپنی قدر بھی اس شے کی قدر میں شامل ہوتی ہے اور دوسری جانب مشین بھی اپنی گھسائی کی صورت میں اس شے میں اپنے حصے کی قدر ڈالتی ہے۔ لیکن خام مال اور مشین کوئی بھی نئی قدر پیدا نہیں کرتے بلکہ خام مال اپنی اسی قدر کو برقرار رکھتے ہوئے نئی بننے والی شے میں ڈھل جاتا ہے جبکہ مشین اپنے اندر مجتمع شدہ قدر کا کچھ حصہ نئی بننے والی شے میں منتقل کرتی ہے۔ اسی لیے مارکس نے مشینوں اور خام مال وغیرہ کو جامد یا مردہ سرمایہ جبکہ انسانی محنت کو زندہ یا تغیر پذیر سر مایہ قرار دیا تھا اور یہ بھی کہ یہ جامد سرمایہ اپنی حرکت اور زندگی کے لیے اس زندہ سرمائے یعنی محنت پر انحصار کرتا ہے۔ اگر کسی مشین اور خام مال کو انسانی محنت میسر نہ آئے تو یہ خود اپنے تئیں نہ حرکت میں آ سکتا ہے، نہ کوئی نئی شے پیدا ہو سکتی ہے بلکہ یہ خام مال گلنا سڑنا شروع ہو جائے گا جبکہ مشینوں کو بھی زنگ کھا جائے گا۔

فرض کریں ایک کپڑا بنانے کی فیکٹری میں دس گز کپڑا بنانے کے لیے سرمایہ دار کو سو روپے کا دھاگہ خریدنا پڑتا ہے اور دس گز کپڑے کی قیمت میں سرمایہ دار دس روپے مشین کی گھسائی کے شامل کرتا ہے تو دس گز کپڑے پر ہونے والے یہ اخراجات وہی ہیں جو سرمایہ دار پہلے سے ادا کر چکا ہے اور کپڑا بنانے کے عمل میں یہ اخراجات اتنی ہی مقدار میں کپڑے کی قیمت میں شامل ہو جاتے ہیں اور ان کی قدر پہلے سے زیادہ نہیں ہو جاتی۔ لیکن دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ دس گز کپڑے کی قیمت دھاگے اور مشین کی گھسائی کے خرچے کے برابر نہیں رہتی بلکہ وہ اس سے زیادہ ہوتی ہے۔ فرض کریں دس گز تیار کپڑے کی قیمت دو سو روپے ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تیاری کے عمل کے دوران کپڑے کی قیمت میں نوے روپے کی قدر کا اضافہ ہو ا ہے۔ اب اگر فرض کریں کہ کپڑا بنانے والی فیکٹری کا مزدور دن کے چھے گھنٹے میں دس گز کپڑا تیار کرتا ہے اور اس کی روزانہ کی اجرت نوے روپے ہے تودس گز کپڑا اپنے اوپر ہونے والے تمام اخراجات، جن میں خام مال کی قیمت، مشین کی گھسائی اور مزدور کی اجرت، کے برابر قیمت پر فروخت ہوگا تو سرمایہ دار کو تو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ اس نے تو جو اخراجات کیے تھے پیداواری عمل کے تمام مراحل سے گزرنے کے بعد اس کو حاصل ہونے والی رقم اتنی ہے ہے جو اس نے خرچ کی تھی۔ اگر تمام پیداواری عمل اسی قسم کے نتائج پر مبنی ہو تو کوئی بھی سرمایہ دار کبھی بھی اس قسم کے پیداواری عمل کا حصہ نہیں بنے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا بلکہ ہر سرمایہ دار اشیا بنانے پر جو اخراجات کرتا ہے وہ اس رقم کے ساتھ کچھ منافع بھی حاصل کرتا ہے۔ مگر کیسے؟ ہم نے دیکھا ہے کہ کپڑا بنانے والے مزدور نے دن کے صرف چھے گھنٹے میں دس گز کپڑا تیار کیا ہے اور اگر بالفرض سماج میں ورکنگ ڈے بارہ گھنٹے کا ہے تو مزدور نے باقی کے چھے گھنٹے بھی کام کرنا ہے کیونکہ سرمایہ دار نے اس کی چھے گھنٹے کی محنت نہیں بلکہ پورے دن کی قوت محنت خریدی ہے۔ لہٰذا یہ مزدور اگلے چھے گھنٹے میں بھی دس گز کپڑا تیار کرتا ہے اور اس کی قیمت بھی دو سو روپے ہے۔ یوں مزدور دن کے پہلے نصف کے دوران جو اشیا تیار کرتا ہے ان میں وہ اتنی نئی قدر پیدا کرتا ہے جو اس کے پورے دن کی اجرت کے برابر ہے لیکن دن کے دوسرے نصف میں جو دو سو روپے کا کپڑا اس نے تیار کیا ہے اس میں سے اگر ایک سو دس روپے دھاگے اور مشین کی گھسائی کے اخراجات نکال لئے جائیں تو باقی بچنے والے نوے روپے سرمایہ دار کو حاصل ہونے والی قدر زائد ہے جو منڈی میں فروخت کے بعد اس کا منافع کہلاتی ہے۔ یوں اگر بارہ گھنٹوں پر مشتمل پورے ورکنگ ڈے کی پیداواری سر گرمی کا جائزہ لیا جائے تو مزدور نے پورے دن میں 180 روپے کی نئی قدر پیدا کی ہے جس میں سے اسے صرف نوے روپے اجرت کی صورت میں وصول ہوئے ہیں جبکہ سرمایہ دار کو ملنے والے نوے روپے مزدور کی غیر ادا کردہ اجرت یا قدر زائد ہے۔ یوں سرمایہ دار نے کل 310 روپے پیداواری عمل میں خرچ کر کے 400 روپے کی رقم واپس حاصل کی ہے۔

لیکن سرمایہ داروں کا تو دعوی ہے اور بظاہر ایسا ہی دکھائی دیتا ہے کہ مزدور بھی اپنی محنت کی پوری اجرت وصول کر لیتا ہے۔ بظاہر دکھائی دینے والے اس مظہر کی حقیقت ایسی نہیں ہے اور مارکس اسی گتھی کو سلجھا کر سرمایہ داروں کے تمام منافعوں کے اصل ذریعے کو سامنے لایا تھا۔ مارکس نے یہ وضاحت کی تھی کہ مزدور سرمایہ دار کے ہاتھ اپنی محنت نہیں بلکہ قوت محنت بیچتا ہے۔ بظاہر محنت اور قوت محنت کا فرق شاید بہت معمولی دکھائی دیتا ہو لیکن حقیقت میں یہ وہ کنجی ہے جس کی دریافت کے ذریعے مارکس نے جدید سماج کے تمام قوانین اور اخلاقیات کے مطابق جائز قرار دیے جانے والے اس وحشیانہ استحصال کا راز فاش کیا، جس کی بنیاد پر سرمایہ دار تمام تر دولت کماتے ہیں۔ سرمایہ دار کبھی بھی مزدور کو اس کی محنت کا معاوضہ نہیں دیتا بلکہ جس طرح وہ خام مال کی ایک خاص مقدار، کوئی مشین یا اس کو چلانے کے لیے ایندھن یا توانائی کی کوئی خاص شکل خرید لیتا ہے اسی طرح وہ مزدور کی قوت محنت بھی ایک مخصوص دورانیے (مثلاً ایک دن) کے لیے خرید لیتا ہے۔ مزدور کی اجرت یعنی کسی مخصوص دورانیے کے لئے اس کی قوت محنت کی قیمت کا تعین بھی قدر کے اسی قانون کے مطابق ہوتا ہے یعنی کسی شے کی پیداوار کے لیے درکار ضروری سماجی محنت کی مقدار سے۔ اب ایک مزدور کو خود زندہ رہنے اور روزانہ کام کرنے کے لیے اپنی توانائی دوبارہ بحال کرنے کے ساتھ سرمایہ داروں کی اگلی نسل کے لیے مزدوروں کی نئی نسل پیدا کرنے کے لیے کسی بھی ملک کے کم سے کم سماجی معیار کے مطابق جتنے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے ایک مزدور کی کم از کم اجرت بھی اتنی ہی ہوتی ہے۔ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ سرمایہ دار مزدور کی محنت کا معاوضہ طے شدہ اجرت کی صورت میں نہیں دیتا بلکہ وہ ایک طے شدہ اجرت کی رقم کے عوض مزدور کی قوت محنت کا ایک خاص وقت کے لیے استعمال کا حق خرید لیتا ہے۔ قوت محنت کسی بھی مزدور کی ایک مخصوص وقت کے لیے محنت کرنے کی صلاحیت یعنی اس کے پٹھوں اور دماغ کی توانائی اور اس کے ہنر کی صلاحیت ہوتی ہے۔ جبکہ محنت وہ عملی کام ہے جو مزدور آٹھ، دس یا بارہ گھنٹے کے ورکنگ ڈے میں کرتا ہے۔ ہم نے جو مثال لکھی ہے اس کے مطابق ایک مزدور نوے روپے روزانہ (جو اس کی ایک دن کی قوت محنت کی قیمت ہے) کی اجرت کے عوض اپنی قوت محنت پورے دن کے لئے سرمایہ دار کے ہاتھ فروخت کر دیتا ہے جو پھر سماج میں رائج ورکنگ ڈے کی لمبائی کی مناسبت سے اس سے بارہ گھنٹے کام لیتا ہے۔ اب اگر وہ چھے گھنٹے میں ہی اتنی اشیا پیدا کرلیتا ہے جن کی منڈی میں قیمت دو سو روپے، یعنی خام مال، مشین کی گھسائی اور مزدور کی اجرت کے اخراجات کے برابر ہے تو وہ سرمایہ دار کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے جتنی اجرت لی ہے اس مالیت کے برابر نئی قدر وہ اشیا میں پیدا کر چکا ہے لہٰذا وہ مزید کام نہیں کرے گا۔ چونکہ اس نے اشیا کی مخصوص مقدار پیدا کرنے کا معاہدہ نہیں کیا ہوا بلکہ ایک دن کی قوت محنت بیچی ہے لہٰذا سرمایہ دار کا حق ہے کہ وہ اس سے رائج الوقت ورکنگ ڈے یعنی بارہ گھنٹے کام کرائے اور مزدور اس بات کا پا بند ہے کہ وہ بارہ گھنٹے کام پورا کرے۔ اب اگر مزدور چھے گھنٹے میں اپنی اجرت کی رقم کے برابر نئی قدر تیار اشیا میں ڈال دیتا ہے تو باقی چھے گھنٹے کام کے دوران وہ جو نئی قدر پیدا کرتا ہے، اس کا اسے کوئی معاوضہ نہیں ملتا اور یہ قدر زائد کہلاتی ہے اور یہ قدر زائد ہی سرمایہ دار کے منافعوں کا باعث بنتی ہے۔ پیداواری عمل کے دوران استعمال ہونے والے دیگر عناصر یعنی مشینوں کی گھسائی، خام مال یا توانائی کا استعمال وغیرہ وہ اخراجات ہیں جو محض اپنی قدر کے برابر قدر نئی شے میں منتقل کرتے ہیں اور ان میں ایسا کوئی مخفی حصہ نہیں ہوتا جو سرمایہ دار کے منافعوں کا باعث بن سکے۔ مارکس نے یہ واضح کیا تھا کہ انسان کی قوت محنت وہ واحد کموڈیٹی یا شے ہے کہ جسے جب پیداواری استعمال میں لایا جاتا ہے تو وہ اپنی لاگت یعنی حقیقی قدر سے زائد قدر پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ سرمایہ داری نظام میں مزدور کی قوت محنت ہی وہ واحد شے ہے جو اپنی لاگت سے زیادہ قدر پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے کے باعث سرمایہ داروں کی تمام دولت کا بنیادی ماخذ ہے اور اسی قوت محنت کے استحصال کے ذریعے سرمایہ دار منافع کماتے ہیں۔ اپنے اسی تجزیے کی بنیاد پر ہی مارکس نے یہ کہا تھا کہ سرمایہ داروں کی تجوریوں اور بینکوں میں پڑا تمام سرمایہ در حقیقت مزدور کی غیر ادا شدہ اجرت ہے۔

یوں قدر کے قانون کے مطابق تمام اشیا اوسطاً اپنی اصل قدر کے برابر قیمت پر ہی بکتی ہیں لیکن اس کے باوجود سرمایہ داروں کو منافع حاصل ہوتا ہے کیونکہ منافع کا بنیادی ماخذ تبادلے کے عمل کے دوران سپلائی اینڈ ڈیمانڈ کے اثرات کے تحت قیمتوں میں ہونے والا اتار چڑھاؤ نہیں بلکہ یہ منافع قدر زائد کی صورت میں پیداواری عمل کے دوران ہی ان اشیا میں شامل ہوتا ہے اور خرید و فروخت کے ذریعے اس کو صرف عملی طور حاصل کیا جاتا ہے۔ اسی لیے ہمیں عمومی طور پر یہ دکھائی دیتا ہے کہ اپنے منافعوں کو بڑھانے کے لیے، مشینوں میں جدت لانے سے لے کر مزدوروں کے اوقات کا ر بڑھانے یا مزدوروں کی اجرتوں میں کمی سے لے کر اپنی فیکٹریوں کو کسی ایسے علاقے میں منتقل کرنے تک جہاں سستی قوت محنت موجود ہو، ایک سرمایہ دار جتنے بھی اقدامات کرتا ہے ان کے پیچھے ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کس طرح انسانی محنت کے استحصال کو بڑھایا جا سکے۔ انسانی محنت کا استحصال اور قدر زائد کی لوٹ ہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے سرمایہ دار امیر سے امیر تر ہوتے جاتے ہیں جبکہ محنت کشوں کی اکثریت نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور رہتی ہے۔

چونکہ کسی شے کی پیداوار کے دوران جو نئی قدر انسانی محنت کے ذریعے پیدا ہوتی ہے اسی کا ایک حصہ مزدور کی اجرت جبکہ دوسرا حصہ قدر زائد کی صورت میں سرمایہ داروں کے منافعوں کا باعث بنتا ہے اسی لیے ہمیں عمومی طور پر مزدوروں اور سرمایہ داروں کے درمیان اس قدر زائد میں اپنا اپنا حصہ بڑھانے کے لیے کشمکش نظر آتی ہے۔ ایک جانب مزدور اپنی اجرتوں میں اضافے اور اوقات کار میں کمی کے لئے جدوجہد کرتے رہتے ہیں جبکہ دوسری جانب سرمایہ دار مزدوروں کی اجرتوں کو کم کرکے یا ان کے اوقات کار کو بڑھا کر اپنے منافعوں کی شرح میں اضافے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ جب تک سرمایہ دارانہ نظام رہے گا تب تک مزدوروں کی محنت کا استحصال کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتا۔ ہمارے زیادہ تر مزدور قائدین کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ اجرتوں میں تھوڑا تھوڑا اضافہ کرانے یا اوقات کار میں تھوڑی بہت کمی کرانے کی جدوجہد ہی مزدوروں کی اصل جدوجہد ہے لیکن وہ درحقیقت غلطی پر ہیں۔ مارکس نے یہ واضح کیا تھا کہ سرمایہ داری میں مزدور کی قوت محنت بھی ایک شے یا کموڈیٹی ہے جس کی قیمت یعنی اجرت کا تعین قدر کے قانون کے مطابق ہوتا ہے۔ اس لیے دیگر اشیا کی طرح ہی کبھی بھی قوت محنت کی قیمت اس کی تخلیق پر صرف ہونے والے لازمی سماجی وقت محن سے زیادہ مختلف نہیں ہو سکتی۔ یوں مزدور کی اجرت ہمیشہ اتنی ہی رہے گی کہ وہ سماج میں بمشکل زندہ رہے، اور مزدوروں کی نئی نسل پیدا کر سکے۔

مارکس نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ مزدوروں کی اجرت اور سرمایہ داروں کا منافع درحقیقت مزدوروں کی محنت کے ذریعے نئی پیدا ہونے والی قدر سے ہی آتا ہے اور ان دونوں کا باہمی تعلق اس نوعیت کا ہوتا ہے کہ اگر ایک بڑھتا ہے تو دوسرا لازمی کم ہوگا۔ اگر مزدوروں کی جدوجہد کے نتیجے میں اجرتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو سرمایہ دار کے منافعوں میں کمی ہوگی اور اگر سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافہ ہوگا تو اجرتوں میں لازمی کمی ہوگی۔ مزدوروں اور سرمایہ داروں کے بیچ قدر زائد کا زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کرنے کی یہی کشمکش سرمایہ داروں اور محنت کشوں کے درمیان طبقاتی لڑائی میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ لیکن سرمایہ داری نظام کے اندر رہتے ہوئے اس کشمکش کے نتائج زیادہ تر سرمایہ داروں کے حق میں ہی رہتے ہیں۔ اگر کبھی مزدور جدوجہد کے ذریعے اپنی اجرتوں میں اضافہ کرانے میں کامیاب بھی ہو جائیں تو یہ کامیابی عارضی نوعیت کی ہی رہتی ہے اور سرمایہ دار عموماً دیگر حربوں (مشینوں کی جدت، کام کے اوقات کار میں اضافے وغیرہ) کے ذریعے دوبارہ اپنے منافعوں کی شرح بڑھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس لیے مزدوروں کو اپنی حتمی نجات کے لیے لازمی طور پر اجرتوں یا کسی بونس جیسی چھوٹی موٹی مراعات کے حصول کی جدوجہد کو وسیع تر سیاسی جدوجہد میں تبدیل کرتے ہوئے انقلاب کے ذریعے مزدور راج کے قیام کی جانب بڑھنا پڑتا ہے۔ جب تک محنت کش دولت پیدا کرنے والے ذرائع کو سرمایہ دار وں کی نجی ملکیت سے نکال کر اپنے اجتماعی کنٹرول اور ملکیت میں نہیں لیتے تب تک سرمایہ داروں کے ہاتھوں مزدوروں کی محنت کے استحصال کا خاتمہ ممکن نہیں۔

Comments are closed.