سانحہ بارکھان: سرداری نظام کی بربریت کو انقلاب ہی ختم کر سکتا ہے!

|تحریر: زلمی پاسون|

20 فروری 2023ء کو بلوچستان کے ضلع بارکھان کے علاقے حاجی کوٹ میں ایک کنویں سے پولیس نے تین لاشیں برآمد کیں، جن کی شناخت خان محمد مری کے دو جوان بیٹوں اور ایک بیٹی کے طور پر ہوئی۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف ویڈیوز اور تصاویر وائرل ہونے لگیں۔ جس میں بالخصوص ایک خاتون کی ویڈیو تھی جو قرآن ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے سردار عبدالرحمن کھیتران کی نجی جیل سے آزادی کی التجا کر رہی تھی۔ گو کہ یہ ویڈیو مذکورہ لاشوں کی برآمدگی سے بہت پہلے منظرعام پر آئی تھی مگر کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا تھا۔ لیکن لاشوں کی برآمدگی کے بعد خاتون کی ویڈیو اور پھر مغوی بچوں اور خواتین کی تصاویر وائرل ہونا شروع ہوئیں۔

سوشل میڈیا پر آوازیں اٹھنے کے بعد آل پاکستان مری قومی اتحاد کے زیر اہتمام کوئٹہ میں دھرنے کا آغاز ہوا۔ دھرنے میں شرکا کی تعداد بڑھتی گئی اور اس واقعے نے پاکستانی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سمیت انٹرنیشنل میڈیا میں بھی کوریج حاصل کر لی۔ اس کے بعد مظاہرین کی جانب سے دو اہم مطالبات سامنے آئے جن میں خان محمد مری کے اغوا شدہ خاندان کے 5 افراد کی بازیابی اور سردار عبدالرحمن کھیتران کی گرفتاری شامل تھی۔ احتجاجی دھرنے میں مختلف سیاسی تنظیموں، ٹریڈ یونینز، ایسوسی ایشنز اور مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ظلم اور بربریت کے اس واقعے کی مذمت کی اور دھرنے میں دل کھول کر شرکت کی۔

اس کے بعد ریاست اور ان کی دلال حکومت نے دباؤ میں آکر سردار کھیتران کی گرفتاری کی اور اس کے اگلے دن خان محمد مری کے خاندان کے 5 افراد کی بازیابی کے بجائے 6 افراد (چار بیٹے، بیٹی، اور بیوی) کی بازیابی ہوئی۔ جس نے مزید سوالات کو جنم دیا کہ اگر تین لاشوں میں دو لاشیں خان محمد مری کے جوان بیٹوں کی ہیں تو تیسری لاش کس کی ہے، جوکہ 18 سال کی لڑکی ہے جس کے ساتھ مبینہ زیادتی بھی کی گئی تھی اور پھر سر میں تین گولیاں مارتے ہوئے چہرے کو مسخ کرنے کے لیے تیزاب پھینک دیا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے اس لڑکی کی لاش اب تک ناقابل شناخت ہے اور تادم تحریر کوئی واضح ثبوت نہیں ملا ہے کہ یہ لڑکی کون ہے اور اس کو کیوں قتل کیا گیا تھا۔ جب کہ دھرنے کے اختتام کے بعد اس مذکورہ لاش کو ایدھی قبرستان میں لاوارث لاش کے طور پر دفنا دیا گیا۔

اس واقعے کی وجوہات اب تک زیادہ قابل بھروسہ نہیں ہیں، مگر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ایک بات واضح ہے کہ ایک وقت خان محمد مری سردار کھیتران کے تمام کالے کرتوتوں کا کرتا دھرتا تھا۔ سردار کھیتران کے اپنے بیٹے انعام کے ساتھ تعلقات میں خرابی کی وجہ سے خان محمد مری بھی ایک مہرے کی حیثیت سے استعمال ہوتا رہا جس کے بعد یہ صورتحال سامنے آئی۔ آپسی تضادات کی وجہ سے انعام شاہ نے ان تمام تر جرائم کا پردہ چاک کیا۔ مگر اس پورے واقعے میں سردار کے بیٹے کو بھی کلین چٹ نہیں دی جاسکتی کیونکہ اب تک کوئی واضح شواہد منظر عام پر نہیں آئے ہیں کہ حقیقت کیا ہے۔ جبکہ اس واقعے کی دوسری اہم وجہ سردار کھیتران اور ریاستی اداروں کے درمیان آپسی چپقلش بھی بتائی جاتی ہے جس میں سردار کے بیٹے کو حاصل ریاستی اداروں کی پشت پناہی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ خان محمد مری کے حوالے سے بھی اطلاعات ہیں کہ وہ مختلف جرائم میں ملوث رہا ہے۔ بہرحال قصہ مختصر کہ یہ انتہائی دلخراش واقعہ تھا جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور اس واقعہ میں ملوث تمام عناصر کو کیفرِ کردار تک پہنچانا عوامی مزاحمت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس تحریر میں ہم اس دلخراش واقعے کے بعد ہونے والے دھرنے، بلوچستان میں ریاستی پشت پناہی میں سرداری نظام، حالیہ دھرنے کے حاصلات، ریاستی جبر اور آگے کے لائحہ عمل کے حوالے سے مفصل بحث کریں گے۔

سانحہ بارکھان کے خلاف دھرنا

جیسے ہم نے تحریر کے آغاز میں ذکر کیا کہ اس دلخراش واقعے کے بعد کوئٹہ شہر کے ریڈزون میں آل پاکستان مری اتحاد کے زیر اہتمام جو احتجاجی دھرنا جاری تھا اس دھرنے کے آغاز سے لے کر اختتام تک دھرنے کی قیادت گومگو کی کیفیت سے دوچار تھی۔ جبکہ اس دھرنے میں سیاسی تنظیموں سے ہٹ کر مختلف ریاست نواز عناصر بھی دل کھول کر اپنی بات رکھتے تھے۔ جس کی بدولت اس دھرنے کے دو مطالبات کے حوالے سے بھی کوئی واضح لائحہ عمل نہیں تھا۔ اس دھرنے کی قیادت کرنے والے افراد کی نام نہاد قبائلی روایات پر مبنی غیر سیاسی اور مبہم پوزیشن کی وجہ سے دھرنے کے اختتام کے حوالے سے مذکورہ قومی اتحاد دو واضح حصوں میں تقسیم ہو گیا جس میں ایک دھڑے نے پرنس آغا عمر کے کہنے پر احتجاجی دھرنے کے پانچویں دن اختتام کا اعلان کیا جبکہ دوسرے نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے دھرنے کو جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ جس میں اس مخالف دھڑے کا موقف تھا کہ جب تک اس لاوارث لڑکی کی لاش کا پتہ نہیں چلتا اور نامعلوم افراد کے بجائے سردار کھیتران کے خلاف بلاواسطہ ایف آئی آر درج نہیں ہوتی تب تک ہم دھرنے کو جاری رکھیں گے۔ مگر ریاست نواز نوابوں اور سرداروں کی مداخلت کی وجہ سے دوسرے دھڑے نے بھی شکست تسلیم کرتے ہوئے 24 فروری یعنی دھرنے کے پانچویں دن دھرنے کو ختم کیا۔ یوں اس دھرنے کے اختتام پر خان محمد مری کے خاندان کے تمام افراد بازیاب ہوئے، جبکہ لاوارث لڑکی کی لاش سمیت خان محمد مری کے دونوں بیٹوں کی لاشوں کو دفنا دیا گیا۔ جبکہ دھرنے کے دوران ہی سردار کھیتران کی گرفتاری عمل میں آئی اور اسے 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا۔ مگر اس حوالے سے ہم نے شروع ہی میں کہا تھا کہ سردار کھیتران کی گرفتاری محض لوگوں کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کا ایک حربہ ہے اور سردار کھیتران راؤ انوار کی طرح ریاست کا پکا بندہ ہے جس کو حالات معمول پر آنے کے ساتھ ہی باعزت بری کیا جائے گا جس طرح ان کو مختلف مقدمات میں پہلے باعزت بری کیا جا چکا ہے۔

دھرنے کی سیاست کی حرکیات اور محدودیت

پاکستان میں اس وقت عوامی جدوجہد کے حوالے سے دھرنے کی سیاست اپنے عروج پر ہے۔ طلبہ، مزدور و دیگر سیاسی کارکنوں کی جدوجہد میں دھرنا ایک اہم اوزار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ دھرنا سیاست کی افادیت کا اظہار 2018ء میں اسلام آباد میں پشتون تحفظ موومنٹ کی داغ بیل ڈالنے والے دھرنے سے مزید ہونے لگا۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی دھرنے ہوتے تھے، مگر حالات کی تبدیلی کے ساتھ عوامی جدوجہد میں ایک نیا اضافہ بھی ہوا۔ جس کی وجہ سے دھرنا سیاست مزید اہمیت اختیار کر گئی۔

پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں محنت کشوں و ملازمین اور سیاسی جدوجہد کرنے والوں نے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے کئی دھرنے دیے، جن میں کئی ایک دھرنے کامیابی سے ہمکنار ہوئے جبکہ کچھ دھرنوں میں حکومت یا ریاست کی جانب سے محض جھوٹے لاروں یا طفل تسلیوں پر گزارا کرنا پڑا۔ گزشتہ تین سے چار سالوں میں محنت کشوں کی جانب سے اسلام آباد میں ایسے کامیاب دھرنے کیے گئے جہاں انہوں نے ڈی آر اے جیسی بنیادی ڈیمانڈ منوا لی۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں جبری گمشدگی، فیک انکاؤنٹرز کے خلاف اور محنت کشوں نے اپنے مطالبات کے حق میں بھی دھرنے دیئے۔ طلبہ کے دھرنے بھی اس ضمن میں قابل ذکر ہیں۔

مگر دھرنے کی سیاست پر بحث کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم دھرنے کی سیاست کے اثرات کیا ہیں اور اس کی محدودیت کا توڑ کیسے کیا جائے۔ باوجود اس کے کہ بعض دھرنوں میں عوام کی بڑی تعداد شرکت بھی کرتی ہے مگر ریاستی مظالم ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ اس سوال کا دو ٹوک اور سیدھا سادہ جواب یہی ہو سکتا ہے کہ دھرنے کی سیاست میں لوگ اکثر و بیشتر تھکاوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی نظریں ریاستی یا حکومتی اہلکاروں کی طرف ہوتی ہیں کہ اب کوئی آئے گا جوکہ ہماری بات مان کر ہمارا دھرنا یا احتجاج ختم کرا دے گا۔ گو کہ اس میں وقتی طور پر چند ایک کامیابیاں مل بھی جاتی ہیں مگر جہدِ مسلسل سے لوگ نظریں چرا کر ایک شارٹ کٹ کی تلاش میں ہوتے ہوئے اس طریقہ کار کو نجات کا راستہ سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ جو دھرنے کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں ان کو اپنے مطالبات کی مد میں جو نوٹیفیکیشن مل جاتا ہے اس نوٹیفیکیشن پر عملدرآمد کرنے کے لئے ایک اور دھرنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے جس کی کئی ساری مثالیں موجود ہیں۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ دھرنے کے شرکاء اکثر و بیشتر اوقات تھک ہارتے ہوئے دھرنے کے ختم ہونے کے انتظار میں لگ جاتے ہیں جس سے ایک بار پھر عوامی سیاسی جدوجہد سے لوگ کترانے لگے جاتے ہیں۔ آخری اور ثانوی وجہ دھرنے میں نظم و نسق کا فقدان اور اس کے بھاری بھرکم اخراجات کا ہونا بھی ہے جو کہ بالآخر دھرنے کے منتظمین کے لئے درد سر بن جاتے ہیں۔

ان تمام تر خامیوں کے باوجود بھی دھرنے کی سیاست کو مکمل طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ جدوجہد میں ایک آخری حربہ ہو سکتا ہے جہاں احتجاج کے مختلف طریقے مسدود ہو جاتے ہیں تب یہ راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ ایک بات تو طے ہے کہ عوامی جدوجہد کے ہر طریقہ کار کی اپنی حدود ہوتی ہیں اور ان کی افادیت زمان و مکاں کی مناسبت سے کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے اور ضرورت پڑنے پر عوامی جدوجہد نئے سے نئے راستے اور طریقے اختیار کرتی رہتی ہے۔

بلوچستان میں نام نہاد سرداری نظام اور ریاستی پشت پناہی

یوں تو یہ ایک لمبی اور تاریخی بحث ہے مگر موجودہ حالات میں بلوچستان میں صرف مکران ڈویژن سے ہٹ کر باقی پورا بلوچستان ریاستی سرداروں، نوابوں، وڈیروں، جاگیرداروں سے بھرا پڑا ہے۔ حالیہ واقعہ محض سردار فیملی کے اندرونی تضادات یا پھر ایک ریاستی مہرے کی افادیت ختم ہونے اور اس کی جگہ دوسرا مہرا لانے کے عمل کا شاخسانہ ہوسکتا ہے۔ حالانکہ اس طرح کے واقعات عموماً بلوچستان میں رونما ہوتے رہتے ہیں جن کو ریاستی پشت پناہی اور انتہائی پیشہ وارانہ طریقے سے چھپایا جاتا ہے۔ جس طرح سانحہ بارکھان سے پہلے اسی سردار نے ایک بلوچ جرنلسٹ کا بے دردی سے قتل کیا تھا مگر کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ جبکہ ساراوان، جھالاوان میں بھی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں، جن کے حوالے سے کوئی خبر سامنے نہیں آ سکی۔ بالخصوص بلوچستان کے گرین بیلٹ میں جاگیردار نوابوں کے ہاں جدید دور میں غلامی کی انتہائی پسماندہ شکلیں دیکھنے کو ملیں گی۔

لیکن ان واقعات کو کس طرح چھپایا جاتا ہے اس کی حالیہ مثال سندھ کے علاقے میں سوشل میڈیا ایکٹویسٹ ناظم جوکھیو کے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ریاستی دلال اور درندہ صفت وڈیرے کے ہاتھوں قتل کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

ان تمام تر واقعات میں ملوث سرداروں، نوابوں، اور جاگیرداروں کو مکمل ریاستی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے جہاں وہ نام نہاد صوبائی حکومت میں بھی براجمان ہوتے ہیں اور تمام ریاستی ادارے ان کے گھر کی لونڈیاں ہوتی ہیں۔

حالیہ سانحہ بارکھان میں تمام ریاستی ادارے جس طرح سردار کھیتران کی پشت پناہی کر رہے ہیں، اُس کا اظہار نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج، گرفتاری اور پھر عدالت میں پیشی اور دیگر اداروں کے دوغلے پن اور عوام دشمن کردار سے بخوبی ہوتا ہے۔ ان سرداروں یا نوابوں کو ریاستی پشت پناہی اس لیے بھی حاصل ہے کہ بلوچ حریت پسند سیاسی کارکنوں کو کسی بھی صورت میں ناقابل برداشت ٹھہرایا جائے اور ان کے لیے بلوچ سماج کو تنگ تر کیا جائے۔ جبکہ ریاستی پشت پناہی میں ڈیتھ سکواڈز چلانے کا کردار انہی ریاستی سرداروں، نوابوں، میر و معتبر کے ذریعے کروایا جاتا ہے جہاں ریاستی زندانوں سے بلوچ سیاسی کارکنان کو شدید اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔

ان جاگیرداروں اور سرداروں کی فرعونیت کی کہانیاں اب زبان زد عام ہو چکی ہیں۔ جہاں عوام کو رعایا سے بھی بدتر سمجھا جاتا ہے۔ ان سے ہاتھ ملانا بھی ان کے لیے ناقابل قبول ہوتا ہے۔ سیلابی کیفیت میں ایسی کئی ساری ویڈیوز منظر عام پر آئیں جہاں بڑے بڑے جاگیرداروں نے اپنی فصل کو سیلابی ریلوں سے بچانے کے لیے پانی کا رُخ عام مظلوم عوام کی آبادیوں کی طرف کرکے ان کے گاؤں کے گاؤں کو تباہ کر دیا۔ جبکہ جن نجی جیلوں کی بات اب منظر عام پر آ چکی ہے وہ تقریباً ہر بڑے جاگیردار، سردار اور میر و معتبر کے گھروں میں موجود ہیں۔ وقت آنے پر ان کی بھی ویڈیوز اور کالے کارناموں کے کرتوت سامنے آنے میں دیر نہیں لگے گی۔

سوال یہ ہے کہ اس جدید دور میں ان نام نہاد ریاستی سرداروں کی اتنی رعونت کیوں برقرار ہے؟ اس سوال کا صرف ایک ہی جواب ہے کہ پاکستانی ریاست کے حکمران طبقات کوئی بھی ترقی پسندانہ کردار ادا کرنے کے اہل نہیں ہیں اور انہیں اپنے سرمائے کے تسلط کے لیے انہی سرداروں سے ہاتھ ملانے پڑتے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان میں مسلح جدوجہد نے جس سیاسی خلا کو جنم دیا ہے اس کو پر کرنے کے لئے ان سرداروں اور نوابوں نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے قد کاٹھ میں ریاستی دلالی کے ذریعے خوب اضافہ کیا ہے۔ بالخصوص ریاستی پشت پناہی میں ڈیتھ سکواڈز کے لیے سرداروں کی ایک لائن لگا دی گئی ہے جو نام نہاد سردار کم بولی میں فروخت ہوا اس کو اپنی قیمت کے مطابق کام سونپا گیا۔

حالیہ دھرنے کی حاصلات و ثمرات

سانحہ بارکھان کے حوالے سے مختلف شکوک و شبہات سامنے آ رہے ہیں مگر عمومی طور پر ہم محنت کش عوام کے شعور کے اور سرداری نظام کے ننگا ہونے کے حوالے سے بات کریں گے۔ کیونکہ تضادات کی شکل کوئی بھی ہو اس کے عوامی شعور پر دیرپا اثرات پڑتے ہیں مثال کے طور پر اس وقت مملکت خداداد کا نام نہاد حکمران طبقہ بشمول فوجی اشرافیہ اپنی ذاتی و گروہی مفادات کی آڑ میں ایک دوسرے کو خوب ننگا کر رہے ہیں جن کا فائدہ حتمی تجزیے میں محنت کش عوام کے شعور پر پڑتا ہے جبکہ دوسری جانب محنت کش عوام کو اپنے دیگر معروضی حالات کے تجربات وہ سب کچھ سکھا دیتے ہیں جو کہ ایک دانشور ہزار کتاب پڑھنے کے بعد بھی حاصل نہیں کر سکتا۔ سانحہ بارکھان کے حوالے سے بھی یہی تضاد عوامی شعور کے اوپر اثرانداز ہوا ہے اور لوگوں نے جس انداز میں اپنے غم و غصے کا اظہار کیا وہ شاید بلوچستان میں پہلی بار نام نہاد سرداری نظام کے اوپر زبردست وار ہے۔ اس دھرنے کے حاصلات کو ہم پانچ اہم نکات کے اندر زیر بحث لا سکتے ہیں۔

1۔ ریاست اور سرداروں کی ملی بھگت کو اس واقعہ نے بالکل ننگا کر دیا ہے۔ جب پوری ریاستی مشینری اس واقعے کی آڑ میں خاموش تماشائی سے زیادہ سردار کے گھر کی لونڈی کی مانند کام کر رہی تھی۔ شواہد کو مٹانے سے لے کر نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج کرنا، اور پھر محض عوامی غم و غصے کو ٹھنڈا کرنے کیلئے سردار کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ جس طرح سردار عدالت میں پیش ہوئے ایسا لگا کہ کوئی آزادی کا عظیم لیڈر آرہا ہو۔ بغیر ہتھکڑیوں اور فتح کا نشان بناکر جس شان و شوکت سے وہ عدالت میں انٹری لے رہا تھا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سردار اور ریاست کا کیا تعلق ہے۔ اس واقعے سے ہٹ کر اسی سردار نے کچھ عرصہ پہلے ایک بلوچ جرنلسٹ کو قتل کروایا تھا جس کے تمام تر شواہد ختم کروا دیئے گئے تھے۔ متاثرہ خاندان کو دھمکیوں سے ڈراتے ہوئے ان کو خاموش کرایا گیا لیکن ریاستی مشینری نے اپنی غلامی کے حوالے سے خوب نمک حلالی کا حق ادا کیا۔

اس طرح کے اور بھی بے شمار واقعات رونما ہوئے ہیں مگر سانحہ بارکھان بہرحال اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اب بھی ریاستی مشینری بہت جلد سردار کھیتران کو باعزت بری کر تے ہوئے کلین چٹ دے گی اور یہی سردار اسی کرسی پر آکر براجمان ہو گا جہاں پر وہ تھا۔ آپ درندہ صفت حیوان نما ریاستی اہلکار راؤ انوار کی مثال لے سکتے ہیں جس نے 444 ماورائے عدالت قتل عام پر عدالت سے کلین چٹ حاصل کرلیا۔ جبکہ ناظم جوکھیو کے قاتل کو ریاست نے بری کردیا۔ یہ تمام واقعات ریاست کے حوالے سے مارکسی موقف کو درست ثابت کرتے ہیں کہ ریاست آخری تجزیے میں حاکم طبقے کے ہاتھ میں ایک اوزار ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ محکوم طبقے کو دباتا رہتا ہے۔

2۔ سانحہ بارکھان کے رونما ہونے نے ایک قوم کے اندر دو متحارب طبقات کے وجود کو کھل کر ثابت کیا۔ یعنی ایک ہی قوم سے تعلق رکھنے والے افراد کے حوالے سے نہ صرف ریاستی مشینری کا رویہ الگ ہے بلکہ بالعموم سماج میں انہی دو افراد کے مفادات و ترجیحات ایک دوسرے سے کیسے اور کیونکر الگ الگ ہیں۔ اس بات کو لے کر چند نادان دوست یہ بات کرتے ہیں کہ یہ سردار ریاستی پشت پناہی میں یہ سب کچھ کر رہا ہے اور اسی لیے ان کو کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ یہ بات درحقیقت آدھا سچ ہے۔ پورا سچ یہی ہے کہ کسی بھی قوم کے اندر دو متحارب طبقات کا ہونا ایک واضح اور دو ٹوک حقیقت ہے۔ اور موجودہ نظام کے اندر پسا ہوا طبقہ اکثریت کے باوجود محکوم ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ بلوچ قوم سے ہٹ کر دنیا بھر کی تمام ظالم و مظلوم اقوام میں شامل ہوتا ہے۔

اس طبقاتی سماج پر مارکسی موقف بالکل واضح اور دو ٹوک ہے کہ جب سے انسانی تہذیب کا آغاز ہوا ہے تب سے لے کر آج تک انسانی سماج دو متحارب طبقات میں موجود رہا ہے۔ غیر طبقاتی سماج کا ظہور صرف ایک مختصر عرصے کے لیے سوویت یونین کے قیام کی شکل میں رونما ہوا تھا جہاں ایک غیر طبقاتی سماج کی تعمیر کو ممکن بنایا گیا تھا۔ مگر سٹالنزم کی زوال پذیری نے اس غیر طبقاتی سماج کو افسر شاہی اور بیوروکریسی کی شکل میں تبدیل کر دیا تھا۔ دوسری جانب قومی جبر میں بھی سب سے زیادہ متاثر ہونے والا یہی محنت کش طبقہ ہوتا ہے جو کہ دوہرے یا تہرے جبر کا شکار ہوتا ہے۔ معاشی جبر، طبقاتی جبر اور تیسری جانب قومی جبر کے ضمرے میں سب سے تباہ کاری کا شکار یہی محکوم طبقہ ہوتا ہے۔ بعض ایسے شاذونادر واقعات سے ہٹ کر سماج یا کسی بھی قوم کے محکوم طبقے کو ہر حوالے سے جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سانحہ بارکھان کے کیس سے لے کر آج تک بلوچستان یا ملک کے کسی بھی کونے میں ریاستی مشینری کا طبقاتی کردار سب پر عیاں ہے۔ وہ حکمران طبقے اور محکوم طبقے سے کس طرح پیش آتے ہیں، سانحہ بارکھان کے واقعے کے ساتھ جڑا ہوا ایک کیس بلوچ خاتون ماہل بلوچ کو 17 فروری کو خودکش حملے کے شک میں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ مگر آٹھ دن بعد جس طریقے سے ان کو شدید جسمانی ٹارچر کے بعد عدالت میں نیم بے ہوشی کی حالت میں پیش کیا گیا، اس کا موازنہ ہم سردار کھیتران کے عدالت میں پیش ہونے کے ساتھ بھی کر سکتے ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایک قوم چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم کسی بھی صورت میں وہ طبقات سے عاری نہیں ہو سکتی۔

3۔ سانحہ بارکھان کے حوالے سے جیسے ہم نے اوپر بھی واضح کیا ہے کہ یہ واقعہ چاہے جس بھی نوعیت کا ہو لیکن اس نے جہاں سرداروں کی ریاستی پشت پناہی، طبقاتی فرق اور دیگر چیزوں کو واضح کر دیا مگر اس واقعے کی آڑ میں جو شعوری ترقی ہوئی وہ قابل ذکر ہے۔ بالخصوص سرداری نظام کی جڑ پر جو زبردست وار پڑا ہے اس نے ایک طرف اگر نام نہاد سرداری نظام کو ننگا کر دیا تو دوسری جانب سرداری نظام کے زیر عتاب محکوم عوام کو اب ان کے خلاف بولنے کی جرات عطا کی ہے۔ ابھی تو محض ٹریلر چلا ہے پکچر تو ابھی باقی ہے۔ جب پورے ملک کے کونے کونے سے نام نہاد سرداروں، وڈیروں، جاگیرداروں اور نوابوں کے گھروں میں نجی جیلوں کے انکشافات سمیت ان کی دیگر غیر انسانی اور غیر اخلاقی حرکتوں کی ویڈیوز منظر عام پر آ کر اس عوامی غصے کو مزید تیز اور شعور کو ترقی دیتے ہوئے عوامی بغاوت کا موجب بنیں گیں۔ اس کے علاوہ سانحہ بارکھان کے بعد سرداری نظام پر جس طرح وار ہوا ہے اس کے بعد اب ان کی جڑیں کمزور ہونے لگیں گی۔ اب پرانے معمول پر ان کی نام نہاد فرعونیت برقرار نہیں رہ سکتی۔ اسی لئے پرنس آغا عمر جان نے نام نہاد جرگہ بُلا کر نہ صرف سرداری نظام کی بچی کھچی ساکھ بچانے کی کوشش کی بلکہ لوگوں کو یہ پیغام دیا کہ سارے سردار ایک جیسے نہیں ہوتے اور اسی جرگے کی آڑ میں ریاست کا کام آسان کرنے میں بھی کردار ادا کیا۔

4۔ سانحہ بارکھان نے قبائلی روایات کو بھی خوب پامال کیا۔ جہاں لوگ یہ باتیں کرتے تھے کہ ہم بلوچ روایات کے حامل اور قبائلی لوگ ہیں اور جو عہد کرتے ہیں ان کو پورا کرتے ہیں۔ خواتین کے حوالے سے یہ نام نہاد قبائلی روایات کا پرچار کرنے والے ریاستی دلال پہلے ہی بک چکے تھے صرف عوامی غصے کو ٹھنڈا کرنے کے انتظار میں تھے۔ اس سانحے میں ہلاک ہونے والی خاتون کو لاوارث سمجھ کر ایدھی قبرستان میں دفنا دیا گیا۔ اس واقعے میں ان بے غیرت قبائلی سرداروں اور وڈیروں نے بلوچ روایات کی کوئی لاج نہیں رکھی۔ ہم جانتے ہیں کہ محکوم طبقے سے تعلق رکھنے والی بلوچ خاتون سے زیادتی، اسے قتل اور پھر تیزاب پھینک کر ناقابل شناخت بنانا نام نہاد سرداروں اور ریاست کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سٹیج پر جو بھی مقرر آتا تھا وہ بلوچ روایات اور بلوچیت سے کم ایک لفظ پر بھی بس نہیں کرتا تھا۔ مگر اس لاوارث لاش کو لاوارث سمجھ کر دفنا دینا ایک محکوم بلوچ خاتون کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ کیونکہ وہ بلوچ روایات تو محض بلوچ قوم کے ریاستی دلالوں، وڈیروں، سرداروں اور نوابوں کے لئے ہوتی ہیں۔ اس بحث کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ ہم بحیثیت مارکسوادی روایات کی قدر نہیں کرتے بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک طبقاتی سماج میں روایات اس طبقاتی حیثیت اور سوچ کا مظہر ہوتی ہیں۔ روایات میں چند ایسی مثبت چیزیں بھی موجود ہوتی ہیں جن کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس ضمن میں ہم جب غیر طبقاتی سماج کی تعمیر کی بات کرتے ہیں تو ہم جدلیاتی فلسفہ کے قانون ”نفی کی نفی“ لاگو کرتے ہوئے اس کو آگے لاتے ہیں اور جو روایات جو بلوچ قوم کے محکوم طبقہ کے لئے سہولت اور آسائش پیدا کریں، ان کو ہم بسر چشم نہ صرف قبول کریں گے بلکہ ان کو مزید ترقی دیں گے۔ لیکن حالیہ دھرنے کے اندر نام نہاد قبائلیت اور روایت کا ڈھونگ رچانے والے سارے بکاؤ مال اونے پونے داموں میں بک گئے۔ جس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جن روایات کے بارہا شوشے چھوڑے جاتے تھے وہ بلوچ قوم کے ریاستی دلالوں اور حاکم طبقے کی سہولت کار ہیں نہ کہ اس لاوارث لاش، جسے ایدھی قبرستان میں دفنایا گیا یا اور ان دو معصوم بیٹیوں کی ماں ماہل بلوچ کی جو کہ آج تک بغیر جرم کے ثابت ہونے پر ریاستی زندان میں مقید ہے۔

5۔ دھرنے کے آخری ماحصل پر بلوچ طلبہ تنظیموں، سیاسی پارٹیوں اور روایتوں کے احیاء کا ڈھونگ رچانے والوں کیلئے بھی یہ دھرنا کسی امتحان سے کم نہیں تھا۔ ہمیشہ کی طرح صرف یکجہتی تک خود کو محدود کرنا اور غیر سیاسی بلکہ ریاستی پشت پناہی سے بنے ہوئے الائنسز یا قومی اتحادوں کو اپنی کمزوری کی بنیاد پر ایسے دھرنوں کا اہتمام کروانا درحقیقت تمام سیاسی رجحانات کی زوال پذیری اور ہوا میں معلق ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ اس سے پہلے گوادر میں عوامی تحریک کی قیادت کا دائیں بازو کے ہاتھوں میں جانا یا پھر جبری گمشدگیوں اور بالعموم ریاستی جبر پر لواحقین کے ساتھ برائے نام یکجہتی کرنا ان تمام تر سیاسی رجحانات کے زوال پذیری کی مزید واضح مثالیں ہیں۔ عوامی بنیادیں کھونے کی اہم دو وجوہات ہیں؛ ایک وجہ یہ ہے کہ جن نظریات کی بنیاد پر وہ سیاست کر رہے ہیں ان نظریات کی افادیت اب ختم ہوچکی ہے، جبکہ دوسری جانب عوامی بنیادیں کھونے کی بدولت ان کی نظریں ریاست کی بیساکھیوں پر ہوتی ہیں اور ان بیساکھیوں پر انحصار کرنے سے وہ عوام اور عوامی شعور سے کوسوں دور ہوتے جارہے ہیں اور یہی صورتحال غیر سیاسی، مذہبی یا سماجی تنظیموں کو اس خلا کو پر کرنے کا موقع مہیا کر دیتی ہے۔

ان پارٹیوں کے طلبہ ونگ کی بھی یہی صورتحال ہے جو کہ پارٹیوں کی ہے۔ طلبہ سیاست میں ان طلبہ تنظیموں کے کردار میں وہ رمق اب نہیں رہی جو کہ آج سے کچھ عرصہ پہلے موجود ہوتی تھی، اس لئے طلبہ سیاست کا پورا محور ہاسٹل، داخلہ اور دیگر ایشوز کی بنیاد پر طلبہ کو مصنوعی طور پر اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش ہوتی ہے۔ جبکہ دوسری جانب چند ایسے نوجوان بھی ہیں جوکہ سیاسی روایتوں کو عقیدہ سمجھتے ہوئے ان کی احیاء کی بات کرتے ہیں۔ مختلف احتجاجوں کے اندر روایتوں کے نہ صرف احیاء بلکہ ان احتجاجوں میں روایتوں کو بنانے کی تگ و دو میں مصروف عمل ہوتے ہیں اور بیک وقت وہ بائیں بازو اور قوم پرستی کے نظریات کے چورن کے ساتھ میدان عمل میں خود کو مصروف رکھتے ہیں۔ جوکہ اپنے جوہر میں بائیں بازو اور قوم پرستی کے لیے خطرناک ہیں مگر ان سب باتوں کے برعکس بھی روایتوں کا احیاء ان کے لئے محض خواب ہی ثابت ہو گا کیونکہ روایتوں کا اس وقت عالمی و ملکی سطح پر جو حال ہے اس میں دنیا کی بڑی بڑی روایتی پارٹیاں اب تاریخ کا قصہ بن چکی ہیں۔ جبکہ ان رویوں کی وجہ سے بھی کچھ لوگ سیاست سے بدظن ہوتے جا رہے ہیں اور بلوچستان کے کونے کونے میں مختلف سول سوسائٹیز کے بینر تلے اپنا اظہار کرتے ہیں۔ گوکہ ان مسائل کی جڑ مسلح جدوجہد ہی ہے جس نے ان تمام فروعی اور مصنوعی سیاسی رجحانات کو جنم دیا ہے۔ بلوچستان کے مسئلے کا حل مسلح جدوجہد نہیں ہے بلکہ دیگر مظلوم اقوام کے ساتھ مل کر محنت کش طبقے کی قیادت میں سیاسی جدوجہد سے ہی اس نظام اور اس کی پروردہ جابر ریاست کو شکست فاش دے کر حق خود ارادیت کی عملی تفسیر پر مبنی ایک سوشلسٹ معاشرے کی تشکیل کی جدوجہد ہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

کیا واقعی کوئی راہ نجات ہے؟

بلوچستان میں اب عوامی جدوجہد کے لیے فضا بن چکی ہے جس کی کئی مثالیں ہیں مگر عوامی جدوجہد میں سماج کے انتہائی محدود پیمانے پر، بالخصوص مڈل کلاس سے متعلقہ لوگ سرگرم عمل ہیں۔ وہ بھی ریاستی جبر کے خوف سے اس طرح فعال نہیں ہیں جس طرح ہونا چاہیے تھا۔ اس غیر فعالیت کی بھی اپنی وجوہات ہیں۔ یہاں پر عوامی جدوجہد کے سوال کو مختلف طریقوں کے ذریعے مبہم بنایا جاتا ہے۔ بالخصوص قومی جبر کی آڑ میں اس وقت جتنی بھی تحریکیں موجود ہیں، یا احتجاج ہوتے ہیں ان کے حوالے سے یہی سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ابھی تو ہم پرامن سیاسی جدوجہد کر رہے ہیں اور اس میں عوام کی کثیر تعداد شرکت کرتی ہے مگر اس کے باوجود ہم کیوں کامیاب نہیں ہو پارہے ہیں؟ یہ سوال انتہائی اہم اور جواب طلب ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ جس عوامی جدوجہد کی بات ہم کر رہے ہیں، کہ کسی بھی عوامی جدوجہد میں سماجی پہیہ چلانے والے محنت کشوں کی شرکت کے بغیر وہ عوام الناس (Masses) کی عوامی تحریک نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ وہ درمیانے طبقے اور نچلے طبقے کی پچھڑی ہوئی پرتوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کا سماج کو چلانے میں کوئی اہم کردار نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اپنی اس سیاسی فعالیت کے ذریعے ریاست کو مفلوج کر سکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں پشتون تحفظ موومنٹ پشتون سماج میں سامراجی جنگ اور دہشت گردی مخالف جذبات کی ایک نمائندہ تحریک ہے، اور اس تحریک کو وقتاً فوقتاً بہت حمایت ملی ہے۔ لیکن وہ اپنے اہداف کو حاصل کرنے سے اب تلک کوسوں دور ہے۔ اس ضمن میں ہم ایک واضح اور دو ٹوک موقف کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان سمیت ملک بھر میں چند اہم نکات جن میں دہشت گردی، نام نہاد سرداری نظام اور جمہوری حقوق پر قدغن کے خلاف مشترکہ طور پر جدوجہد کی جا سکتی ہے اور اس ضمن میں ایک مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ ایسے مسائل ہیں جن کی وجہ سے سماج کی ہر لہر اور بالخصوص محنت کش عوام زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ان کے خاتمے کے لیے غیر ریاستی دلال سیاسی رجحانات، وکلاء برادری، ٹریڈ یونین، ملازمین ایسوسی ایشنز، طلبہ تنظیموں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور دیگر سماجی تنظیموں کو ایک پیج پر آنا ہوگا۔

جمہوری بنیادوں پر نہ صرف ایک الائنس تشکیل دیا جا سکتا ہے بلکہ اسی الائنس کے ذیلی ادارے اور کمیٹیاں جمہوری طریقے سے منتخب کی جاسکتی ہیں۔ اس الائنس کے نکات پہلے ہی سے طے شدہ ہونے چاہئیں کہ ہم کم از کم ان تین پوائنٹس یا نکات پر الائنس کو تشکیل دیتے ہوئے جدوجہد کو آگے بڑھائیں گے کیونکہ اس وقت سیاسی کارکنان کے ساتھ ساتھ مزدور طبقہ اور طلبہ سیاست پر اعلانیہ و غیر اعلانیہ پابندی ہے۔ دہشت گردی کی حالیہ نئی لہر کے خلاف بھی اسی طرح جمہوری طریقے سے منتخب عوامی کمیٹیوں کے ذریعے لڑا جا سکتا ہے۔ جمہوری حقوق پر قدغن کے حوالے سے صرف اس وقت بلوچستان میں 62 ٹریڈ یونینز پر پابندی ہے، پورے ملک میں طلبہ یونین پر پابندی ہے، جبکہ بلوچستان ہی میں محکمہ صحت اور محکمہ تعلیم میں لازمی سروس ایکٹ نافذ کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف محکموں میں احتجاج پر پابندی ہے جس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو نوکری سے برخاست کیا جاسکتا ہے جو کہ جمہوری حقوق پر قدغن کے مترادف ہے۔ ان تمام مشترکہ نکات کے اوپر یونائیٹڈ فرنٹ کو تشکیل دینا گوکہ ایک مشکل اور کٹھن کام ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔

ہمارا نظریاتی یقین کامل ہے کہ ظلم کی رات چاہے جتنی لمبی کیوں نہ ہو اس کا انجام سویرے کی شکل میں ہی ہوتا ہے۔ مگر اس سویرے کو لانے کے لئے جب تک سویرے کی کیفیت پر عوام الناس متفق نہ ہوں، تب تک یہ رات چلتی رہے گی کیونکہ جن نظریات اور سیاسی لائحہ عمل کے ذریعے اس رات کو سویرے میں بدلنے کی جدوجہد ہو رہی ہے وہ کیوں کر کامیاب نہیں ہو پاتے؟ اس پر بحث کئے بغیر اور نتیجتاً متبادل فکر کو قابل عمل بنائے بغیر رات کی لمبائی میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔ ہم مارکس وادی یہ سمجھتے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ مظلوم اقوام اور پسے ہوئے طبقات ان سائنسی نظریات سے روشناس ہوں اور ان انقلابی نظریات کے تحت عوامی جدوجہد کو منظم کرنے کی تگ و دو تیز تر کی جائے۔ ہم آخری تجزیے میں یہی سمجھتے ہیں کہ جبر کی ہر شکل اس وقت بلاواسطہ سرمایہ داری کے ساتھ پیوست ہے، اور سرمایہ داری میں رہتے ہوئے مسائل کا حل اور جبر کی ہر قسم سے نجات کا خواب دیکھنا محض اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنے کے مترادف ہے۔ سوشلسٹ انقلاب ہی ہمیں ریاستی اور قومی جبر سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نجات دلا سکتا ہے۔

Comments are closed.