عورتوں پر بڑھتا جبر اور پنپتی بغاوت؛ انقلابی سوشلزم ہی راہ نجات

|تحریر: انعم خان|

گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں بھی خواتین کی آزادی کے متعلق بحث کا آغاز ہوا ہے۔ موٹروے، مینار پاکستان اور اس جیسے روزمرہ بنیادوں پر ہونے والے سینکڑوں سانحات کا سوشل میڈیا اور پھر اسی کے دباؤ کے تحت مین سٹریم میڈیا میں آنے کے عمل نے یہاں کے خلیل الرحمن قمر جیسے بدترین اخلاقی مبغلین کو بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور کردیا کہ معاشرہ حیوانی سطح سے بھی نیچے گر چکا ہے۔ اس کے علاوہ پچھلے عرصے میں ہونے والے عورت مارچوں کے گرد ہونے والی بحثوں کے تنازعے بھی معاشرے کی گلی تھلی تک عورت کے حالات اوراس کی آزادی کے سوال کولے کر جانے کا موجب بنے ہیں۔ خواتین کے صنفی جبر اور معاشی بدحالی کی مسلسل ابتر ہوتی کیفیت ایک معمول کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ لیکن گزشتہ عرصے میں اس کے خلاف جنم لینے والا غصہ اور مباحث شعور میں غیر معمولی تبدیلی کی عکاسی کر رہے ہیں۔

خواتین پر جبر سے انکاری مولوی صاحبان اور ان کے برعکس جبر کی مخالفت کرنے والوں کی تمام تر بحثوں میں جس ایک چیز کی واضح کمی نظر آرہی ہے وہ محنت کش طبقے کی خواتین کے حالات اورمسائل ہیں، جنہیں ایک طرف تو بطور طبقہ ہی غیر اہم، مقدر کے مارے سمجھتے ہوئے نظرانداز کیا جاتا ہے تو دوسری جانب دانشور مافیا سرے سے ہی اس طبقے کے وجود سے انکاری ہے، تاکہ مارکس کے طبقاتی تضاد اور جدوجہد کی معروضی حقیقت سے ہی انکار کیا جا سکے۔ الیکٹرانک و پرنٹ اور سوشل میڈیا پر حاوی مڈل کلاس اوران کے مالکان کے نزدیک محنت کشوں، غریبوں اور محکوموں کے انتہائی ابتر حالات اورسانحات ویسے بھی کوئی غیر معمولی خبر نہیں ہوتے اور اسی لیے میڈیاکی منڈی میں بکتے بھی کم ہی ہیں۔

ایشین ڈیویلپمنٹ بنک کے مطابق پاکستان کی کل لیبر فورس کا 25 فیصد خواتین پر مشتمل ہے جو کہ پہلے کی نسبت اضافہ ہونے کے باوجود بھی عالمی معیار سے بہت کم ہے۔ سماجی اور ثقافتی مسائل کے سبب یہاں خواتین کی اکثریت اب بھی گھریلو محنت مشقت تک محدود ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق ڈگری یافتہ خواتین میں بھی محض 25 فیصد ہی محنت کی منڈی کا حصہ بن پاتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی پاکستان میں اس شرح میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ عرصے میں اس شرح میں دو فیصد اضافہ ہوا ہے۔

یہ ملک جہاں پہلے ہی معیشت کا بڑا حصہ سرکاری حساب کتاب سے باہر ہے، کیونکہ اس کے لیے نیت اور وسائل دونوں ہی موجود نہیں ہیں، وہاں پر گھروں سے باہر کام یعنی روزی روٹی کی دوڑ کا حصہ بننے والی خواتین کی بڑی تعداد کو اس پچیس فیصد شرح میں شامل ہی نہیں کیا جاتا۔ سرکاری حساب کتاب سے باہر موجود معیشت کااندازہ اس ایک مثال سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں خود سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پینتیس سے چالیس لاکھ تاجر موجود ہیں، جن میں سے صرف 3 لاکھ 13 ہزار نے ٹیکس ریٹرنز جمع کروائے۔ ان تاجروں سے سالانہ 900 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا جا سکتا ہے لیکن صرف 39 ارب روپے اکٹھے کیے گئے۔ اسی طرح محنت کشوں کی موجودہ تعداد کے حوالے سے بھی یہی صورتحال دیکھی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں موجود صنعتوں کی اکثریت میں مزدور براہ راست مالکان/ادارے کی بجائے ٹھیکیدار کے تحت دہاڑی پر کام کرتے ہیں تاکہ پانی، بجلی، گیس اور ٹیکس چوری کرنے والے صنعتکاروں کو مزدوروں کو بونس، سوشل سیکورٹی، ای او بی آئی اور پنشن جیسی سہولیات نہ دینا پڑیں۔ اس کے علاوہ اگر براہ راست ادارے میں کام کیا جاتا ہے تو اکثریتی چھوٹے صنعتی اداروں کی دو نمبری کے سبب انہیں ایمپلائی کارڈ جاری نہیں کئے جاتے کہ جن سے ان کی متعلقہ ادارے کا ملازم ہونے کی پہچان ہو سکے۔ صنعتی شعبے میں سب سے بڑا سیکٹر ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کا ہے جس میں تقریبا 60 سے 70 فیصد خواتین کام کرتی ہیں۔ صنعت کے علاوہ غیر رسمی شعبوں اور زراعت میں بھی خواتین محنت کشوں کا بہت بڑا حصہ کام کرتا ہے۔ محنت کش خواتین کے اس بڑھتے ہوئے حجم کا سبب معاشرے کے کوئی مثبت ثقافتی حالات نہیں ہیں بلکہ اس کے برعکس اس کی بنیادی وجہ خاندانی یونٹس پر دن بہ دن بڑھتا ہوا معاشی دباؤ ہے جو کہ خواتین کوگھروں کی چار دیواری میں مقید رکھنے اور وہی ان کا حقیقی مقام ہونے کی پسماندہ ثقافتی قدروں کے باوجود بھی انہیں کمانے کے لیے گھر سے باہر نکلنے کے لیے مجبور کررہا ہے۔

موٹروے، مینار پاکستان اور اس جیسے روزمرہ بنیادوں پر ہونے والے سینکڑوں سانحات کا سوشل میڈیا اور پھر اسی کے دباؤ کے تحت مین سٹریم میڈیا میں آنے کے عمل نے یہاں کے خلیل الرحمن قمر جیسے بدترین اخلاقی مبغلین کو بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور کردیا کہ معاشرہ حیوانی سطح سے بھی نیچے گر چکا ہے۔

سرکاری اور نجی شعبے میں کام کرنے والی ان محنت کش خواتین (بطور مزدور اور خاتون دونوں حوالوں سے) کے مسائل کی فہرست بہت لمبی اور تکلیف دہ ہے جسے کسی ایک تحریر میں سمیٹ پانا تو ناممکن ہے، لیکن جن کا ذکر بھی عورت کی آزادی کے متعلق ہونے والی سبھی بحثوں اور مارچوں میں کہیں نظر نہیں آتا۔ ان محنت کش خواتین کو روزی روٹی کمانے کی پہلی شرط کے طور پر خودداری کا استعفیٰ دائر کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر ہراسمنٹ کا مسئلہ ہی اٹھا لیں، تو ایک پرائیویٹ سکول میں تین سے چار ہزار روپے کے عوض پڑھانے پر معاشی طورپر مجبور کوئی لڑکی کیا وہاں ہونے والی ہراسمنٹ کو رپورٹ کرکے اپنی نہ ہونے کے برابر آمدن گنوانے کا رسک لے سکتی ہے، یا اپنا گھر چلانے کے لیے فیکٹری میں 18 ہزار ماہانہ اجرت پر کام کرنے والی تین چار بچوں کی ماں ایسا کچھ کر سکتی ہے؟ بالکل بھی نہیں! ان کے ادارے ان کے لیے مسلسل اور منظم ہراسمنٹ کی آماجگاہیں ہیں جو انہیں ہر صورت برداشت کرنی ہے۔ تمام فیکٹریوں کے محنت کشوں کو بشمول خواتین کے ہر صورت میں اوور ٹائم کرنا پڑتا ہے جس کے بغیر ان کے گھروں کے چولہے نہیں جل سکتے۔ اس کے علاوہ موسموں کی ہر طرح کی شدت میں بھی یہ محنت کش چھٹی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ مہنگائی کے ہر دن چڑھتے طوفانوں کے ہاتھوں ان کی آمدن پہلے ہی حقیر ہوتی چلی جارہی ہے۔ کام کے ان غیر انسانی حالات اور اوقات کار، جن میں رات گیارہ بجے تک بھی خواتین محنت کشوں سے اوور ٹائم لیاجاتا ہے اور اس کے بعد واپسی پر گھر داری کے کام اور بچوں و بوڑھوں کی نگہداشت کا کام بھی سر انجام دینا ہوتا ہے۔ انتہائی مجبوری کے سبب ہوئی غیر حاضری تو دور، بلکہ مقررہ چھٹی کرنے پر بھی سرزنش اور دیہاڑی کی کٹوتی کے خوف کے سبب زیادہ تر مرد و خواتین محنت کش بیماری اور گھر میں شدید ایمرجنسی کی کیفیت میں بھی کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، جس کے سبب ان کی جسمانی و ذہنی صحت مسلسل خراب ہوتی رہتی ہے۔ محنت کشوں کو اپنے مفادات کے لیے منظم کرنے والا اوزاریعنی مزدور یونینز پر غیر اعلانیہ پابندی کے سبب ان کی غیر موجودگی کی صورتحال جلتی پر تیل کا کردار ادا کر رہی ہے۔ محنت کشوں کے برداشت کرنے کے وسیع و عریض ظرف کو ان کی کمزوری سمجھ کر ان پر لعن طعن کرنے والی دانشور اشرافیہ کے مسکرانے کے دن اب ختم ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

انہی کٹھن حالات کے خلاف اب گاہے بگاہے احتجاج اور ہڑتالیں بھی کی جارہی ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی مرکز کراچی میں گزشتہ ایک سال میں ہڑتالوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا ہے جس میں محنت کش خواتین صف اول میں لڑتی نظر آئی ہیں۔ اجرتوں میں اضافے، مینیجرز و مالکان کی بد معاشیوں، بونس اور واجبات کی ادائیگیوں جیسے معاملات پر ایک کے بعددوسری فیکٹری میں ہڑتالوں کے سلسلے کا آغاز ہوچکاہے۔ ان ہڑتالوں میں محنت کشوں کی لڑاکا پرتوں کی قابل تحسین جرات مندی کے باوجود بھی پہلے سے ہڑتال اوراحتجاج کی شعوری تیاری کی غیر موجودگی کا عنصر واضح کمزوری کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس کے باعث مطلوبہ مطالبات کے حصول میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ لیکن ایک بار ہڑتال جیسے طاقتور اوزار کا استعمال کرنے والے محنت کش اس عمل سے گزرنے کے بعد جو تجربات حاصل کررہے ہیں، وہ انہیں جلد ہی دوبارہ اور بہتر پیمانے پر جدوجہد کا آغاز کرنے پر بھی تیار کر رہے ہیں۔

دوسری جانب سرکاری اداروں میں بھی بڑی تعداد میں محنت کش خواتین کام کررہی ہیں۔ جن میں خاص کر صحت اور تعلیم کا شعبہ سر فہرست ہے۔ سکیل اپ گریڈیشن، الاؤنسز، ٹائم سکیل، مستقلی کے اہم مطالبات کے حصول کے لیے نرسز، ڈاکٹرز، پیرامیڈکس سمیت لیڈی ہیلتھ ورکرزاور ویکسینیٹرز گزشتہ کئی سالوں سے بار بار احتجاجی دھرنے اور ہڑتالیں کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف کیٹیگری میں کام کرنے والے اساتذہ جن کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہے، اپنے مطالبات کے لیے بارہا سڑکوں پر لڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہاں بھی یونینز اور ایسوسی ایشنز کی قیادتیں حکمرانوں اور شعبہ جاتی افسران کے جھوٹے وعدوں اور یہاں تک کہ جھوٹے نوٹیفیکیشنز کے جھانسے میں آکر ان کے احتجاج ختم کروانے کی چال کا شکار ہوجاتے ہیں۔

سرکاری اداروں اور صنعتی شعبہ جات کے محنت کشوں کے متواتر بڑھتے ہوئے احتجاج جلد ہی وسیع پیمانے کی مزدور تحریک کے ابھرنے کا واضح اشارہ دے رہے ہیں۔ جس میں تحریک کی موجودہ صورتحال کے تجربات، مالکان و حکمرانوں کے تاخیری حربے اور یہاں تک کہ موجودہ مرحلے کی ناکامیاں بھی اہم اسباق کے طور پر محنت کشوں کے شعور میں مجتمع ہو رہی ہیں۔ اس سب عمل میں جس ایک عنصر کی واضح کمی دیکھی جارہی ہے وہ مزدور نظریات سے لیس قیادت ہے۔ جس کی موجودگی پر آنے والی مزدور تحریک کی کامیابی کا دارومدار ہے۔ کیونکہ محض گزشتہ تجربے کی بنیاد پرلڑائی لڑی تو جاسکتی ہے لیکن لڑائی جیتنے کے لیے مستقبل کو بہتر کرنے کی صلاحیت، پروگرام اور طریقہ کار پر عبور رکھنے والے مزدور نظریات سے مسلح قیادت ہونا لاز می ہے۔ یہ مزدور نظریہ سوشلزم ہے جو کہ معاشرے کی اکثریت، یعنی محنت کشوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، بلکہ آبادی کی اس اکثریت کے مفادات کے تحت دنیا کو ڈھالنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں قائم کردہ منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ہی خواتین سمیت معاشرے کے تمام محکوموں کی محرومیوں کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ روزمرہ کے گرد بننے والی تمام موجودہ لڑائیوں کو اپنے ڈیپارٹمنٹس، سیکٹرز، صنعت، اداروں سے نکال کر دوسرے محنت کشوں کی جدوجہد کے ساتھ جوڑتے ہوئے، ایک ملک گیر عام ہڑتال کا آغاز کیا جا سکتا ہے جو کہ محنت کشوں کو انہی کی طاقت کا احساس دلاتے ہوئے، انہیں اپنے لیے ایک طبقہ بنا سکتا ہے۔ سرکاری اداروں کے محنت کش اس وقت جدوجہد کے مرحلے اور تجربے میں صنعتی مزدوروں سے آگے ضرور کھڑے ہیں، وفاقی اداروں کے ملازمین کی اکثریت پر مبنی اگیگا کے زیر اہتمام ایک بار پھر احتجاجی تحریک کا آغاز ہونے جارہا ہے جس کی تیاری کا آغازاوراس کی قیادت میں صف اول پر لیڈی ہیلتھ ورکرز کی صورت میں محنت کش خواتین موجود ہیں، جو کہ 10 فروری کو گزشتہ سال کے اعلان پر عملدرآ مد کے لیے وفاقی دارالحکومت میں احتجاجی دھرنے کا آغاز کرنے جارہے ہیں۔ لیکن گزشتہ سال کی شاندار جدوجہد نے ہمارے سامنے اسباق رکھے ہیں کہ ملک بھرسے محنت کشوں کو حکمرانوں کے شہر اکٹھا کرنا، ایک بہترین عمل ہے لیکن اس سے زیادہ موثر طریقہ ان محنت کشوں کو اپنے اپنے شہروں میں اداروں میں رہتے ہوئے مکمل کام چھوڑ ہڑتال کا آغاز کرنا ہے جو دنوں میں نہیں بلکہ گھنٹوں کے اندر ہی ان حکمرانوں کو محنت کشوں کے وجود کا احساس دلا دے گا۔ ایک ہی وقت میں ریلوے، پی آئی اے، پوسٹل سروسز، اساتذہ، ہیلتھ ورکرز، واپڈاسمیت تما م بڑے اداروں کے محنت کشوں کی مکمل کام چھوڑ ہڑتال کچھ ہی دیر میں ملک کے سیاسی و عسکری حکمرانوں اور ان کی ریاست کو مفلوج کرکے رکھ دے گی۔ اس میں اگر صنعتی محنت کشوں کو بھی شامل ہونے کی دعوت دی جائے تو یہ عام ہڑتال کی صورت اختیار کرتے ہوئے جلد ہی حکمرانوں کی حاکمیت کا پول کھول کر رکھ دے گی۔ اسی عمل سے ہی یہاں سرمائے کی حاکمیت کا خاتمہ کرتے ہوئے، مزدور حکومت کا قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے اور مزدور جمہوریت و منصوبہ بند معیشت کے ذریعے پاکستان کے محنت کشوں، غریب عوام، کسانوں کو اس بربریت سے نجات دلاتے ہوئے، خطے کے دیگر ممالک کے محنت کشوں کو مزدور انقلاب کا حصہ بننے کی دعوت دی جاسکتی ہے۔

دنیا کے پہلے مزدور انقلاب کا آغاز بھی روس میں محنت کش خواتین نے خواتین کے عالمی دن سے ہڑتالوں کا آغاز کر کے کیا تھا۔ اس مرتبہ کا محنت کش خواتین کا عالمی دن بھی ایک ایسے موقع پر ہورہا ہے جب خواتین پر جبر انتہاؤں کو پہنچ چکا ہے اور وہ اس کے خلاف پوری شدت سے اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے کے مواقع تلاش کر رہی ہیں۔ ایسے ہی حالات میں یوم خواتین ایک بار پھر اپنے آغاز کی طرح بطور محنت کش خواتین کے عالمی دن کے طور پرمنوائے اور جتائے گا۔ اسی عرصے میں بھارت کے دارالحکومت دہلی میں آنگن وادی محنت کش خواتین کی ہڑتال، بھارتی محنت کشوں کی فروری میں ہونے والی دو روزہ ملک گیر ہڑتال اور ایرانی محنت کشوں کی احتجاجی تحریک کے ساتھ جوڑتے ہوئے اسی خطے سے عالمی مزدور انقلاب کے آغاز کے امکانات بھی روشن ہوتے جا رہے ہیں۔ دنیا سے سرمایہ دارانہ نظام کی نہ صرف معاشی بلکہ ثقافتی، اخلاقی، نفسیاتی، خاندانی وسماجی پراگندگیوں اور بیگانگی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرتے ہوئے ایک ایسے حقیقی انسا نی معاشرے کی بنیاد ڈالی جا سکتی ہے جہاں دوسروں کو کچل کر آگے بڑھنے، مصنوعی انائیں، احساس کمتری سے جنم لینے والی دوسروں کو کم ترو حقیر ثابت کرنے کی ٹوہ میں رہنے کی ذہنی بیماری سمیت ایسے تمام سماجی مصائب کو جنم دینے والے عناصر کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔ ایک ایسا معاشرہ تعمیر کیا جائے گا جہاں نہ صرف عورت کو ملکیتی نفسیات سے چھٹکارا ملے گا بلکہ مرد کو بھی انسان بننے کے مواقع میسرکیے جاسکیں گے۔

Comments are closed.