زیارت: سانحہ مانگی ڈیم کے خلاف ’زیارت کراس‘ پر دھرنا دسویں روز میں داخل

|رپورٹ: ریڈورکر فرنٹ، بلوچستان|

کوئٹہ سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر’زیارت کراس‘ پر ہرنائی اور زیارت سمیت بلوچستان بھر سے آئے ہوئے عوام کا لاشوں کے ہمراہ دھرنا پچھلے آٹھ دن سے جاری ہے۔ اس دھرنے میں ہر عمر کے لوگ بڑی تعداد میں ہرنائی اور زیارت سے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے مختلف اضلاع سے سیاسی کارکنان بھی اس احتجاجی دھرنے سے یکجہتی کیلئے روزانہ کی بنیاد پر آتے رہتے ہیں۔ یہ احتجاجی مظاہرین ’زیارت کراس‘ پر ضروری لوازمات کے ساتھ خیمہ زن ہیں اور پچھلے آٹھ دن سے کھلے آسمان تلے راتیں گزار کر وقت کے جابر حکمرانوں سے اپنے جائز اور قانونی مطالبات منوانے کیلئے سراپا احتجاج ہیں۔ اس احتجاجی دھرنے کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ فرنٹیر کور کی سیکیورٹی فورسز (ایف سی) کو زیارت اور ہرنائی سے فوری طور پر ہٹایا جائے اور اس کی جگہ پر مقامی فورسز کو مسلح کرکے اس کو سیکیورٹی اور دفاع کے اختیارات دیے جائیں۔ اس کے علاوہ دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ ہرنائی کے ڈسٹرکٹ کمشنر کو ہٹایا جائے اور تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ تین مقتول لیویز اہلکاروں کے قاتلوں کا سراغ لگایا جائے اور ان کو سزا دی جائے۔

کچھ دن پہلے ہرنائی میں موجود مانگی ڈیم پر تین لیویز اہلکاروں کی لینڈ مائنز سے ہلاکت وہ فوری وجہ تھی جس نے ہرنائی اور زیارت کے عوام کو مجبور کردیا کہ وہ کوئٹہ اور ژوب کے مرکزی ہائی وے پر آکر لاشوں کے ہمراہ احتجاجی دھرنا دیں۔ یہ احتجاجی مظاہرہ تا حال جاری ہے۔ حکومت کی طرف سے لواحقین کے خاندانوں کو پیسے دینے کی پیشکش بھی کی گئی مگر انہوں نے اسے مسترد کر دیا۔ اس کے علاوہ احتجاج کو ختم کرانے کیلئے وقتی طور پر ڈی سی کو بھی بر طرف کر دیا گیا ہے، مگر احتجاجی مظاہرین کا کہنا ہے کہ جب تک ایف سی کو نہیں ہٹایا جاتا وہ احتجاجی مظاہرہ جاری رکھیں گے۔

یاد رہے کہ مانگی ڈیم کوئٹہ کینٹ کو پینے کا صاف پانی سپلائی کرنے کیلئے بنایا جارہا ہے۔ ڈیم کی سیکیورٹی بنیادی طور پر ایف سی کے پاس ہے اور 128 فرنٹیر کور کے اہلکاروں پر مشتمل پوری پلٹون اس ڈیم کی سیکیورٹی کیلئے مختص کی گئی ہے۔

لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس بھاری سیکیورٹی کے باوجود اس ڈیم پر کام کرنے والے چار مزدوروں کو اغواء کیا گیا۔ جب اس اغواء کاری کی اطلاع لوکل انتظامیہ کو دی گئی تو لوکل انتظامیہ نے ایف سی کو اطلاع دی کہ اس ڈیم کی سیکیورٹی آپ لوگوں کے دائرہ اختیار میں ہے لہٰذا آپ لوگ کاروائی کرکے ان مزدوں کو اغواکاروں سے آزاد کروائیں۔ جس پر فرنٹیر کور کے ذمہ دار اہلکاروں نے کہا کہ ہمیں آرڈر نہیں ہے لہٰذا آپ اپنی بساط کے مطابق کاروائی کریں۔ اس پر ہرنائی کی سخت گرمی میں اپنے دفتر میں اے سی کی ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہونے والے ڈپٹی کمشنر نے تین لیویز اہلکار، جن کی بندوقوں میں دو دو گولیاں تھیں اور بندوقیں بھی کسی قدیم زمانے کی تھیں، کو اس خطرناک مشن پر بھیج دیا۔ عینی شاہدین و لواحقین کے مطابق لیویز اہلکاروں نے پہلے دن کامیاب کاروائی کرتے ہوئے چار میں سے دو مزدوروں کو بازیاب کرایا، جبکہ دیگر دو مزدوروں کی بازیابی کے لیے اگلے دن پھر کاروائی کرنے جارہے تھے اور ان تین لیویز اہلکاروں کی گاڑی جوں ہی ڈیم کے قریب پہنچی تو پہلے سے نصب زیر زمین بم سے ان کی گاڑی ٹکرا گئی اور بہت زور دار دھماکے سے ان تین لیویز اہلکاروں کے چیتھڑے اڑ گئے اور ان کی لاشیں دھماکے کے بارود سے جل کر راکھ ہو گئیں۔

ان دونوں واقعات کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ دونوں واقعات کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی (BLA) نے قبول کی ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان نے اپنے بیان میں ڈیم سے مزدوروں کی اغواء کاری اور لینڈ مائن سے لیویز اہلکاروں کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس کو بہت بڑا انقلابی کارنامہ قرار دیا۔ اس سے پہلے بھی بلوچ لبریشن آرمی اور دوسری مسلح آزادی پسند تنظیموں نے مختلف قومیتوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والوں محنت کشوں کی ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

ہرنائی تاریخی طور پر قدرتی وسائل سے مالامال اور زراعت کے حوالے سے بہت زرخیز علاقہ ہے۔ انگریز سامراج نے اپنے جنگی اور سٹرٹیجک عزائم اور ہرنائی سے کوئلہ نکالنے کیلئے کوئٹہ سے ہرنائی اور سبی تک ریلوے لائن بنائی تھی تاکہ اپنے سامراجی مقاصد کو پورا کرسکے۔ اس ریلوے لائن کا سامراجی کردار ہونے کے باوجود ہرنائی کے کسانوں کو اس سے بہت فائدہ ہوا۔ ہرنائی کے کسان اپنی زراعت کی پیداوار کو کوئٹہ اور سبی تک بہت آسانی کے ساتھ پہنچاتے تھے اور اس طرح ان کی زندگی کا پہیہ چلتا تھا۔ لیکن پچھلے عرصے سے ہرنائی کے اس ریلوے ٹریک کو بند کر دیا گیا ہے اور لمبے عرصے سے کوئٹہ و سبی سے کوئی بھی ٹرین ہرنائی نہیں جارہی ہے۔ جس سے ہرنائی کے کسانوں پر تباہ کن اثرات پڑے ہیں اور وہ مسلسل مطالبہ کررہے ہیں کہ ہرنائی ریلوے لائن کو بحال کیا جائے لیکن حکمران ٹس سے مس نہیں ہورہے۔ حالانکہ ریلوے حکام کے مطابق ریلوے کی جانب سے تیاری بالکل مکمل ہے مگر ہرنائی کے عوام کے اس دیرینہ مطالبے پر وہ بہت حیران کن جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ اس ریلوے ٹریک پر چونکہ مسلسل بلوچ مسلح تنظمیں حملے کررہی ہیں لہٰذا اس حالت میں اس ریلوے لائن کی سیکیورٹی ہمارے بس سے باہر ہے۔ ریاست اور حکومت کے اس جواز کو ہرنائی کے عوام نے مسترد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں کہ ریلوے لائن کو سیکیورٹی فراہم نہیں کرسکتے بلکہ آپ لوگ بھی اس سارے کھیل میں ملوث ہیں تاکہ سیکیورٹی کے نام پر ہرنائی کے وسائل کی لوٹ مار کو جاری رکھیں۔ جبکہ دوسری جانب مصدقہ ذرائع کے مطابق ایف سی اس ریلوے ٹریک کی بحالی کے لیے سیکیورٹی کے نام پر بھاری رقم کا مطالبہ کر رہی ہے، کہ ہمیں ریلوے کو سیکیورٹی دینے کے ضمن میں الگ سے پیسے دیے جائیں۔

ہرنائی سے روزانہ ہزاروں ٹن کا کوئلہ نکل کر لاریوں کے ذریعے ملک کے دوسرے حصوں میں جاتاہے۔ ہرنائی کی ان بے شمار کول مائنز میں نام نہاد سیکیورٹی اور حفاظت کے نام پر ماہانہ کروڑوں روپے غیرقانونی طور پر فرنٹیر کور کو دیے جاتے ہیں۔ ہر ایک ٹن پر 250 روپے کے قریب غیرقانونی طور پر فرنٹیر کور کو دیے جاتے ہیں جبکہ ان کول مائنز کے اندر کام کرنے والے محنت کش دوزخ کے باسیوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ جہاں پر ان محنت کشوں کیلئے کوئی حفاظتی آلات میسر ہیں اور نہ صحت کی دوسری بنیادی سہولیات، بلکہ پاکستان کے آئین کے تحت کول مائنز کے محنت کشوں کو جو سہولیات میسر ہونی چاہئیں اور جس کو نافذ کرنے کی ذمہ داری یہاں کی صوبائی حکومت اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کی ہے، وہ بھی نہیں مل رہیں۔ لیکن یہاں پر تو حکومت خود ان ٹھیکیداروں پر مشتمل ہے اور لیبر ڈیپارٹمنٹ ان ٹھیکیداروں کے دلال کے طور پر کام کرتا ہے جس نے محنت کشوں کو انتہائی خوفناک حالات میں ان مائنز کے اندر کام کرنے پر مجبور کیا ہے۔

دھرنے میں موجود ہرنائی سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بلوچستان سے ورکرنامہ کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ”اس فرنٹیر کور نے ہماری زندگی عذاب بنا رکھی ہے۔ ان کی فائرنگ کی وجہ سے ہم سکون سے سو بھی نہیں سکتے۔ چھاپے کے نام پر روز ہماری چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کیا جاتا ہے۔ اس فرنٹیر کور کو کوئلے کے ہر ٹن پر 250 روپے کے قریب غیرقانونی طور پر دیے جاتے ہیں جو کہ مہینے کے حساب سے کروڑوں روپے بنتے ہیں۔ لیکن یہ پھر بھی ہمیں سیکیورٹی دینے سے قاصر ہیں۔ روزانہ بلوچ آزادی پسند تنظیموں کے نام پر لوگ آجاتے ہیں ہمیں اپنا نمبر دے کر کہتے ہیں کہ اتنے پیسے فلاں جگہ پہنچا دیں۔ ہم حیران ہیں کہ کچھ فاصلے پر فرنٹیر کور کا اہلکار کھڑا یہ سب تماشا دیکھ رہا ہوتا ہے۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ یہ تو بھتہ مانگ رہا ہے، آپ اس کو کیوں نہیں روکتے تو وہ جواب میں کہتا ہے کہ ہمیں آرڈر نہیں ہے۔ لہٰذا اب ہرنائی کے عوام جان چکے ہیں کہ اس سارے کھیل کے پیچھے فرنٹیر کور کا ادارہ موجود ہے۔ اس لیے ہم دھرنے پر بیٹھے ہیں اور ہمارا بنیادی مطالبہ ہے کہ ایف سی کو ہرنائی اور زیارت سے فوری طور پر نکال دیا جائے اور ہم فرنٹیر کور کو ایک بیرونی اور قابض قوت کے طور پر دیکھتے ہیں“۔

ریڈورکرزفرنٹ زیارت کراس پر بیٹھے احتجاجی مظاہرین کے تمام مطالبات کی حمایت کرتا ہے اور ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہے۔ ہم جہاں اس ریاستی ادارے کے جبر، لوٹ مار اور ظلم کی مخالفت کرتے ہیں وہیں بلوچ لبریشن آرمی کی طرف سے مزدوروں کی اغواء کاری، عام لوگوں سے بھتہ خوری اور ریلوے ٹریک پر حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے طریقہ کار سے آزادی کی حمایت کبھی بھی نہیں بن سکتی بلکہ اس طرح کے طریقہ کار سے آپ یہاں پر قوموں سے نفرت کی سیاست کرنے والوں کو جواز پیش کرتے ہیں اور بلوچستان میں محنت کشوں کو تقسیم کرنے کا موجب بنتے ہیں۔

اسی طرح ہرنائی اور زیارت کے عوام کی بے پناہ جرات کو سلام پیش کرتے ہیں اور یہ واضح کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی تحریکوں کی قیادت تحریک کے اندر سے منتخب کمیٹیوں کو دینی چاہئیے اور اپنی قیادت کو توانا کرتے ہوئے وقت کے حکمرانوں سے مطالبات منوانے چاہئیں۔

Comments are closed.