طبقاتی نظام تعلیم

تحریر:عاطف جاوید:-
علم ایک ایسی دولت ہے جسے جتنابھی تقسیم کرو وہ کم نہیں ہوتی!
علم ایک ایسا خزانہ جسے چرایا نہیں جاسکتا!
آج بیٹھے بٹھائے چھٹی کلاس میں لکھے جانے والے مضمون کی یاد آنے لگی ہے۔جو” علم” کے عنوان سے لکھا جاتا تھا اورچھٹی کلاس سے لے کر بارہویں کلاس تک بغیر کسی لفظی اور فکری تغیر اور غیر معمولی تبدیلی کے جوں کے توں لکھا جاتا رہا۔وہ بڑے بڑے بھاری بھرکم الفاظ اور نظریات اور رٹے رٹائے تخلیات کتنی آسانی سے ہم کاغذ پر اتار دیا کرتے تھے۔کتنی آسانی سے ہم ان تاریخی باتوں کا یقین کر کے حصول علم کو بھی اتنا ہی آسان سمجھ بیٹھتے ہیں جتنا کہ کو ئی مضمون لکھنا اور اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ ڈگریوں کے حصول میں خرچ کر دیتے ہیں۔تعلیم کا معیار گو انسان کے ذاتی زندگی کے معیار کے ساتھ ساتھ اتار چڑھاؤ کا شکار رہتا ہے مگر اس ساری تغیر پذیری میں ایک قدر مشترک ہوتی ہے جو ہوش سنبھلنے سے لے کر تعلیم کے حصول کے بعد سے لے کر ساری زندگی تک قائم رہتی ہے وہ روزی روٹی کا حصول ہے۔بزنس مین کا بیٹا ہو یا کسی چھابڑی والے کا بیٹاسب کا مقصد تعلیم کے بعد ایک اچھی آمدنی یا اچھی نوکری ہوتا ہے۔ اس مقصد میں کون کس قدر کامیاب ہوتا ہے وہ تو اس شعر سے ظاہر ہے۔
کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لئے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو
ٍٍگو کہ یہ کسی شاعر کا ذاتی تخیل ہو سکتا ہے پر آج کے دور میں یہ شعر ایک حقیقت سا لگنے لگتا ہے۔لیکن تعلیم کے حصول اور اسکے بعد اچھی روزی کے حصو ل کے مقصد میں ناکامی کی سب سے بڑی وجہ تعلیم کا نظام تو نہیں بلکہ تعلیم کے ڈھیر سارے نظاموں کا آپس میں تضاد ہے جواس ریاست اور سسٹم کی سب سے بڑی خباثت ہے۔ہم روز ٹی وی،اخباراور ہر فورم پہ چند گلا پھاڑتی ایسی صدائیں سن رہے ہوتے ہیں جو ہم سے کہہ رہی ہوتی ہیں کہ تعلیم کا میعار بہتر بناناہوگا،ترقی کا راز معیاری تعلیم میں ہی مضمر ہے وغیرہ وغیرہ۔ اب سوچنے والی بات یہ کہ تعلیم کا کوئی ایک ہی معیار ہے یا بہت سے معیار موجودہیں اور جب میعار کی بہتری کی بات کی جا رہی ہوتی ہے تو کون سے والے معیار کی بہتری کی بات کی جا رہی ہوتی ہے اور کس معیار کے لوگوں کے لئے ہو رہی ہوتی ہے؟شاید جس معیار کی بات کی جارہی ہے وہ وہی تو نہیں جہاں ایسے سکول کا ذکر ہے جس کے خوبصورت بڑے گیٹ کو دیکھ کر یہ احساس خود بخود جاگ اٹھتا ہے کہ اس گیٹ کے دوسری طرف موجود دنیا میں قدم رکھنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں۔اس گیٹ کے پیچھے محل نما سکول ہے جس میں مختلف ریاستوں کے شہزادے اور شہزادیاں اپنے اپنے درجات کے مطابق غلام اور کنیزوں کی خدمات سے فیض یاب ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے بنائے گئے تعلیم کے نظام سے وابستہ باقی تمام تعیشات کا مزہ لے رہے ہیں۔وہاں ائیر کنڈیشنڈ بھی لگے ہونگے جن کی ٹھنڈی ہوا امپورٹڈ اورجسم کو راحت دینے والی کرسیوں پر بیٹھے شہزادے اور شہزادیوں کو گرمی کا احساس تک نہیں ہونے دیتے۔تاکہ وہ پوری دلجوئی اور لگن کے ساتھ اپنے تدریسی عمل کو جاری رکھ سکیں۔اگر کوئی شہزادہ یا شہزادی اپنی عمر کے اس حصے میں ہے جہاں احساسات ابھی پوری طرح پروان نہیں چڑھے ہوتے اور دیکھ بھا ل کے لئے کسی اپنے کی ضرورت پڑتی ہے تو بھی کوئی باعث تشویش بات نہیں ہے۔ معلموں کے ساتھ ساتھ اس طرح کے ننھے منے شہزادوں کو خیال رکھنے کے لئے ایکسٹرا کنیزیں بھی موجود ہیں جو ان کی ہر شاہانہ مگر چھوٹی چھوٹی ضد کو پورا کرنے پر معمور ہیں تا کہ ان شہزادو ں کو مامتا کی کمی کا احساس بھی نہ ہو۔جب اس تعلیمی محل کی گھنٹی بجے تو تمام شہزادے اور شہزادیاں اپنے اپنے اڑن کھٹولوں میں بیٹھ کراپنے محلات کی طرف روانہ ہو جائیں گی۔اگر کوئی شہزادہ یا شہزادی علم کی دولت سے مزید سر شار ہونا چاہیں تو وہ تدریسی ذمہ داری کی ادائیگی کرنے والے ان غلاموں کے اپنے اپنے محلات میں بلوا کر چند انعامات و اکرامات کے عوض تعلیمی تسکین کو پورا کر سکتے ہیں۔تعلیم کے حصول سے فراغت پانے کے بعد اپنے رعب اور سلطنت کے دبدبے کے بل بوتے پر کسی اعلی عہدے پر فائز ہوں گے یا پھر اپنی ہی جاگیروں کو سنبھال لیں گے اور اپنے پہلے سے 200%بہتر میعار کو مزید بہتر بنانے کا واویلا مچائیں گے اور دنیا کو اپنی سادہ دلی اور سخاوت کے جلوے دکھانے کے لئے چند حلقوں میں دان اور خیرات کی پالیسی کو اپنائیں گے ۔
اب تعلیم کے دوسرے رنگ کو بھی اپنی بصارت سے فیض یاب کریں۔جہا ں بہت سے محل موجود ہیں وہیں پر گھپ اندھیر اور سیاہ رنگت کھنڈر بھی موجود ہیں۔اس کھنڈر کا کو چھوٹا سا دروازہ ہے جیسے کسی جیل کے مین گیٹ میں ایک چھوٹی سی کھڑکی ہوتی ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ چھوٹی سے چار دیواری جس پر کئی ایک کمپنیز کے تشہیری بینرز چسپاں ہیں جن کے نیچے وہ سارے اقوال زریں دفن ہیں جو اس کھنڈر کی اس وقت کی یاد دلائیں گے جب کبھی یہ عمارت ہوا کرتا ہوگا۔اور چار دیواری کی اہمیت صرف اتنی سی ہوگی جس سے یہ اندازہ ہو جائے کہ ہماری حد یہ ہے۔ باہر سے دیکھنے پر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اندر بہت سے قیدی کسی گناہ کبیرہ کی سزا پا رہے ہیں اور وہ گناہ کبیرہ غربت ہے۔ ہاتھوں میں بید لئے بہت سے داروغہ ان تمام قیدیوں کو وہ سب کچھ سکھانے اور پڑھانے پر تلے ہوئے ہیں جو یہ نظام چاہتا ہے۔اس قید خانے میں کوئی ائیر کنڈیشنڈ موجود نہیں ہے پر یہاں اتنی سی سہولت دی گئی ہے کہ ہر بیرک میں چند پنکھے نصب ہیں جو اپنی پوری طاقت لگانے کے باوجود بھی بمشکل ایک مکھی اڑا پاتے ہیں۔جالی والی کھڑکی میں کوئی جالی موجود نہیں ہے اور اس طرح کھڑکی آتی ہوئی سرد یا گرم ہوا ان کی اس سزا کو اوربھی اذیت ناک بنا دیتی ہے۔فرش کچا ہے یا پکااس فرق کو سمجھنا بہت مشکل ہے اور اسی فرش پر بجائے امپورٹڈ کرسیو ں کے کٹے پھٹے ٹاٹ بچھے ہوئے ہیں اور ان پر بیٹھے ہوئے تمام قیدی د اروغہ کے احکامات کو بے دلی اور بے چینی کے عالم میں سنا ان سنا کر رہے ہیں۔اور جوں ہی اس چند گھنٹوں کی سزا کے خاتمے کے لئے دیو ہیکل لوہے کے گارڈر نماگھنٹی پر چوٹ پڑتی ہے تو تمام قیدی اس طرح اس چھوٹے گیٹ کی طرف بھاگتے ہیں جیسے عمر قید سے رہائی پائی ہو۔اور اپنی اگلی قید کی طرف روانہ ہونے سے قبل ملنے والے چند لمحوں کو اچھی طرح سے گزارنا چاہتے ہیں۔وہ اگلی قید باپ کے ساتھ کھیت میں کام کروانا، گھر کا خرچ چلانے کے لئے کسی کار یا موٹر سائیکل کی ورکشاپ پر چند سکوں کے عوض کی جانے والی غلامی بھی ہو سکتی ہے۔یہ تمام قیدی جتنا بھی زور لگا لیں مگر کسی بھی غلام کو اپنے گھر پر بلا کر اس سے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے ۔
ان محلوں اور کھنڈروں کی آپسی دوریوں نے نہ صرف طبقاتی نظام تعلیم کو جنم دیا ہے بلکہ ایک ہی آنگن میں رہنے والے نوجوان نسل کے مابین اتنی بڑی خلیج قائم کردی ہے جس کو مٹانا اس سسٹم کے بس کے بات نہیں ہے ۔ایک طرف تو انتہائی اعلی معیارکی پرائیویٹائز تعلیم موجود ہے جس میں ہر آ سائش اور سہولت موجود ہے اور دوسری طرف ایک ایسا گلا سڑا سٹرکچر موجود ہے جس میں بنیادی تقاضوں کو پورا کرنے کی بھی سکت نہیں ہے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے پانچویں کلاس میں فیس معافی کی درخواست کے ٹیسٹ میں کلاس میں فرسٹ آنے پر مجھے کس قدر خوشی ہوئی تھی پر نویں کلاس میں مجھے جب حقیقتاًاپنی فیس کو معاف کروانے کے لئے درخواست دینی پڑی تو میں پورے کپڑوں میں اپنے آپ کو برہنہ محسوس کر رہا تھا۔جس مستقبل نے آگے چل کر اپنے کندھوں پر ریاستی اور ذاتی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا تھا اس پر ایک چھوٹی عمر میں ہی احسانات کا بوجھ ڈال دیا گیا تھااور اس کی خودداری کو خیرات اور صدقات کے عوض بیچ دیا گیا تھا۔اس دن معلوم ہو ا کہ کلاس اور زندگی کے اصل ٹیسٹ میں کتنا فرق ہو تا ہے۔
جہاں تعلیمی نظام کے معیار کی بہتری کے لئے بڑے بڑے فتوے اور دعوے موجود ہیں وہیں دوسری طرف اتنی ہی بڑی رکاوٹیں موجود ہیں۔5000/روپے میں ایک تعلیمی نظام اور 50000/روپے میں ایک اور نظام ۔اس دوہرے معیار نے ہماری آنے والی نسل کو اتنا دور کر دیا ہے جس کا خاتمہ ممکن نہیں لگتا۔تا وقتیکہ آج کی گلو بلائز دنیا میں رہنے والا نو جوان ایک طبقاتی سوچ کے تحت سوشلسٹ نظریات کو مشعل راہ بناتے ہوئے شعوری مداخلت کرکے اس سسٹم کو تہس نہ کردیں ۔بظاہر یہ ایک نا ممکن کام لگتا ہے کیوں کہ سرمایہ دار طبقے کی سیاست اور گھٹیا تعلیمی نظام نے نو جوان کو اتنا متنفر کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینا اپنی توہین سمجھتا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ کسی متبادل کا نہ ہونا ہے اس وقت ہم سوشلسٹوں کی سب سے بڑی ذمہ داری بنتی ہے کہ نوجوانوں کو اس طبقاتی جنگ کے لئے تیار کریں اور آغاز موجودہ تعلیمی نظام میں موجود طبقاتی فرق کو ان سامنے رکھ کر کیا جانا چاہیے۔ایک اعلی معیار کی تعلیم حاصل کرنے والا نو جوان اس قدر status conciousہو گیا ہے کہ وہ اپنے سے کم درجہ رکھنے والے کسی شخص کو منہ لگانا پسند نہیں کرتا۔اس ڈھابے، ٹھیلے اور گدھا گاڑی والے کلچر کی موجودگی میں اسے فائیو سٹار ہوٹل اور مرسیڈیز بینز کے خواب دکھائے جاتے ہیں اور جب وہ اپنی یہ پختہ سوچ لے کر سماج میں نکلتا ہے اپنے ارد گرد موجود ہر چیز کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔کیونکہ اسے جو کچھ سکھایاگیا وہ تو صرف چند خاندانوں کا وطیرہ ہے باقی سارا سماج تو گندگی اور غلاظت کی اتھا ہ گہرائیوں میں زندتی گزارنے پر مجبور ہے۔اسی طرح ایک عام طبقے کا نوجوان جب سماج کا حصہ بنتا ہے تو وہ زندگی کی ہر نعمت کو اپنے سے دور محسوس کرتا ہے اور دوہرے معیار کا شکار ہو کر ہر اس شخص کو ڈاکو سمجھنے لگتا ہے جو اس سے معاشی لحاظ سے بہتر ہو۔وہ جانتا ہے کہ اس کی اس حالت کے ذمہ دار کون ہیں پر وہ کچھ کر نہیں سکتا کیوں کے اس کے سسٹم نے اس کو ہمیشہ گزارہ کرنے اور رضا پر راضی رہنے کا درس دیا ہے۔ہر امیر گھرانے کا بچہ ہر غریب کے بچے سے تعلیمی لحاظ سے اتنا ہی آگے ہے جتنا کہ چاندزمین سے دور ہے۔بے روزگاری اور جامع راہنمائی نہ ہونے کہ وجہ سے طالبعلم کو ساری زندگی پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کرنا کیا چاہتا ہے اور کر کیا رہا ہے۔کامرس میں زیادہ مواقع ہیں،نہیںFSCٹھیک رہے گی، نہیں یار Engineeringکرلینی چاہئے اس کا scopeکافی ہے لیکن یارآج کل تو IT کا دور ہے کیوں نہ کمپیوٹر میں ماسٹرز کیا جائے۔یہ وہ تمام مباحثے ہیں جو حکمت عملی کے فقدان اور اچھے روزگار کی ضمانت نہ ہونے کیوجہ سے جنم لیتے ہیں۔اسی بے راہروی کا فائدہ اٹھا کر پرائیویٹ سیکٹر اس نظام کو مزید بگاڑنے اور اپنے منافع میں ہوشربا اضافہ کی غرض سے کروڑوں جھونک دیتا ہے۔ان کو اعلی تعلیم اور بہترین روزگار کی ضمانت دے کر ان کے مستقبل سے کھیلتے ہیں اور جب جی چاہے بغیر کسی وجہ کے ان کو استعمال کرتے ہیں۔ اکیڈمیاں پرائیویٹ کوچنگ،خلاصہ جات، نوٹس اور پتہ نہیں کتنے ہی جھوٹ اس سسٹم کے بچانے اور دولت کمانے کی غرض سے رچ لئے جاتے ہیں۔

سرکاری نظام تعلیم کو جان بوجھ کر تباہ کیا جا رہا ہے تا کہ نجکاری کے اس مگر مچھ کو مزید صحت اورطاقت فراہم کی جا سکے۔رزلٹ میں غلطیاں، اسناد کا غائب ہو جانا، رول نمبرسلپ کا غلط پرنٹ ہو جانا تو مانو ہمارے سرکاری اداروں کی معمول کی بات بن گئی ہے۔اساتذہ کو ہم نے کچھ دینا نہیں ہے جس سے وہ اپنے حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر لوگوں کے گھروں میں جاکر 2000یا 3000روپے ماہانہ پر ٹیوشن پڑھانے پر مجبور ہیں اور وہ استاد جتنا بھی زور لگا لے وہ اس سٹوڈنٹ کو اپنی مرضی سے نہیں پڑھا سکتا کیوں کہ اس کو معلوم ہے کہ میرے رزق کی ضمانت اس وقت اسی طالب علم کے ہاتھ میں ہے اور اگر میں نے ذرا بھی سختی کی تو مجھے کوئی بھی بہانہ بنا کر یا میرے پڑھانے کے طریقہء کارکا شکوہ کر کے نوکری سے نکال باہر کیا جائیگا۔دوسری طرف وہ خود غرض اساتذہ موجود ہیں جو سرکاری اداروں میں اس لئے آتے ہیں تا کہ پنشن مل سکے اور بغیر کسی کام کے معاوضہ بھی۔میڈیکل لیو لے لیں گے سکولوں سے ،ساز باز کر کے حاضریاں لگواتے رہیں گے سکول لیکن نہیں آئیں گے یہاں تک کہ طالبعلم انکی شکل تک بھو ل جائیں۔مگر اپنی پرائیویٹ اکیڈمی سے ایک دن کے لئے بھی غائب نہیں ہوں گے کیوں کہ وہاں مسئلہ 5یا 10ہزار کی تنخواہ کا نہیں بلکہ اس لاکھوں کی آمدنی کا ہے جو علم کی دولت کو بیچ کر حاصل ہوتی ہے۔
کیا آپ لوگوں کی سمجھ میں آ ج تک یہ بات آئی ہے کہ تعلیم کا کوئی معیار ہوتا ہے۔تعلیم صرف تعلیم ہونی چاہیے اور بہترین ہونی چاہیے۔مگر یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کے ان محلوں اور کھنڈروں کے کلچر کو ختم کر کے ایک یکساں نظام کو رائج نہیں کرتے۔چاہے آپ میرٹ کی بنیاد پر کچھ بھی بانٹتے پھریں‘ چاہے آپ عقل و دانش سے بھرے سکول بناتے پھریں،چاہے آپ مساوات کا الاپ اونچے سروں میں گاتے پھریں کچھ نہیں ہونے والا۔ضرورت اس پرائیویٹ مافیا کو ختم کرنے کی ہے جو اپنے منا فعوں کو بڑھانے کی غرض اور دولت کی اندھی ہوس کے جذبے سے اس قدر سر شار ہو چکے ہیں کہ وہ اپنا تن ، من، دھن اس ملک کے تعلیمی نظام کی دھجیاں اڑانے میں لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔اور معیار تعلیم کی بہتری کے کھو کھلے حکومتی نعرے کیا تبدیلی لائیں گے جبکہ وہ خود اس کاروبا کا حصہ ہیں،کہیں کسی فوجی افسر کا کالج پراجیکٹ تو کہیں کسی ایم این اے یا ایم پی اے کے کسی پرائیویٹ سکول کی پورے ملک میں پھیلی ہوئی شاخیں۔کہیں کسی وزیر مشیر کے آشیر باد سے چلنے والے نا جائز اور جعلی ادارے یہ سب اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتے جب تک ہمارا معاشرہ اس فرق کو اپنا مقدر ماننا چھوڑ نہیں دیتا اور اس سسٹم کو تبدیل کرنے میں کوئی شعوری مداخلت نہیں کرتا۔جب تک ہم سکوں کی جھنکار میں بکنے والی طبقاتی تعلیم کا خاتمہ نہیں کرتے تب تک ترقی صرف ایک خواب ہے۔ ۔بظاہر یہ بہت مشکل لگتا ہے پر نا ممکن نہیں۔اگرنوجوان طبقہ ان باتوں کو سمجھ کر شعوری مداخلت کرے تو یہ فرسودہ بٹوارے کا نظام ختم ہو سکتا ہے اور ایک برابری پر انحصار کرنے والا معاشرہ جنم لے سکتا ہے۔کیا ہوگا یا کچھ بھی نہیں ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا پر یہ تاریخ ساز بات کہ”علم ایک ایسا خزانہ ہے جسے چرایا نہیں جا سکتا”غلط ثابت ہو چکی ہے کیوں کہ اس نظام کے مالک علم کی دولت چرا بھی چکے، بیچ بھی چکے اور اپنے خزانوں میں اضافہ بھی کر چکے۔
لیکن ہار مان لینا سوشلسٹوں کے نظریات کے خلاف ہے۔ وہ دن دور نہیں جب اس نظام کو تہس نہس کر کے ایک غیر طبقاتی نظام کی بنیادڈالی جائے گی جہاں امیر، غریب،سردار اور مزارع نہیں صرف اور صرف انسان ہوں گے جوطبقاتی نظام تعلیم کی کشمکش سے آزاد ہوکے انسانیت کے لئے تسخیر کائنات کے خواب کو حقیقت بنائیں گے۔

Comments are closed.