کانٹ کا فلسفہ کیا ہے؟ یہ سرمایہ داری کا مرغوب ترین فلسفہ کیوں ہے؟ (حصہ اول)

تحریر: |صبغت وائیں|
کانٹ کی صرف ایک بات یورپ امریکہ کو پسند ہے وہ ہے اس کا نکالا ہوا نتیجہ۔ ورنہ اس کے میتھڈ کو یہ لوگ بھی اس طرح سے رد کرتے ہیں کہ اس کا میں نے آج تک ذکر کسی کی تحریر میں پڑھا نا کسی سے سنا۔ کانٹ نے ہمت دکھا کر معروض کو مانا۔ شے جو اپنا آپ دکھاتی ہے یعنی فنامینا، وہ ہماری حسیات ہماری ریزن یا عقل تک پہنچاتی ہیں۔ اور فنامینا حسیات سے ریزن کو بلیئرڈ کی بال کی طرح ٹھوکر مار دیتا ہے۔
اب یہ میٹافزکس کانٹ دیگر تمام فلسفیوں سے بڑھ کر جانتا ہے کہ اشیاء جو ہیں وہ نظر نہیں آتیں، اور جو نظر آتی ہیں وہ ہوتی نہیں۔ تو جو فینامینا ہمیں حسیات سے ملتا ہے وہ ریزن کو متحرک کر دیتا ہے۔ لیکن شے جو ہے، جو اس کی حقیقت ہے، جو کہ ظاہر نہیں ہو پاتی جسے کانٹ نومینا کہہ رہا ہے، وہ تو شئے نے پیش ہی نہیں کی، وہ تو اس کے اندر ہی ہے، تو ہم نے جانا کیا؟
kant-thinking-cap-cartoonکانٹ اپنے شاندار میتھڈ سے اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ہم اصل میں اپنی ریزن کے اندر موجود اصولوں کو اپنے ہی اندر موجود کیٹیگریوں سے جانتے ہیں اور یہ کیٹیگریاں ہمارے اندر پیدائش سے موجود ہیں۔ مثلاً ٹائم اور سپیس کی یا معیار اور مقدار کی یا لازمیت اور اتفاق وغیرہ کی کیٹیگریاں۔ تو ہم شئے کو نہیں بلکہ اپنی عقل کے اصولوں کو جان رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح اس نے بارکلی سے ھیوم سے اور لاک سے اور دیگر بہت سے یکطرفہ سوچ کے حامل تجربیت پسندوں اور عقلیت پسندوں سے آگے جا کر یہ بتایا کہ:
علم بہرحال حسیات سے حاصل ہوتا ہے یا اسی کے الفاظ میں کہیں کہ تجربے سے شروع ہوتا ہے۔ لیکن ہم جانتے اپنی عقل کے اصول ہیں۔ یعنی علم کے حصول میں تعقل کا کردار بھی مان لیا۔ اب کیا تھا؟
’’اشیاء ہیں مگر جانی نہیں جا سکتیں‘‘
ایسا اصول تھا جو سرمایہ داری کے لئے قابل قبول ترین تھا۔ کیوں کہ چیزوں کے وجود کو ماننا پروڈکشن اور سائنس کے لئے ضروری تھا۔ لیکن جانی جا سکتی ہیں ماننا سرمایہ داری کے استحصال کو جاننے کی طرف جاتا تھا۔ یہ فلسفہ محنت کش کو گمراہ رکھنے اور سرمایہ دار کو اس کا استحصال کرنے پر ہمیشہ قائم رکھتا ہے۔ اسی لئے مرغوب ترین ہے۔ ہیگل تھوڑا سا آگے گیا اور اس نے نہ صرف جان لیا بلکہ سب کو بتا دیا کہ چیزیں نا صرف یہ کہ موجود ہیں بلکہ ان کو جانا بھی جا سکتا ہے۔ لیکن اس نے چیزوں کو جاننے کے لئے کسی بھی چیز کو اسی کے اندر سے اسے جاننے کا کہا۔ اس نے بتایا کہ چیزوں کے اندر متضاد قوانین ہوتے ہیں۔ یعنی میٹھے کے اندر ہی غیر میٹھا ہو گا جس کی وجہ سے وہ دوسرے ذائقوں سے اور دوسرے میٹھوں سے ممیز کیا جا سکے گا۔ ہیگل نے حسیات کو مانا اور تعقل کو بھی مانا۔ اشیاء کو بھی مانا ان کے جوھر کو بھی مانا۔ حسیات سے ان کا ظاہر لے کر ذہن ان کو ٹکڑے کرتا ہے اور تجربے میں ذہن خود سے باہر آتا ہے پھر باہر سے تجربہ اور علم لے کر اپنے اندر جا کر انہیں جوڑتا ہے اسی طرح ذہن بار بار عمل کرتا ہے اور نوشن بناتا ہے۔ ہیگل نے یقیناً اس طرح سے بات نہیں کی لیکن ہیگل کو پڑھنے والا فوراً اس کے مادی نتیجوں پر جا پہنچتا ہے۔ یہ بات لینن بھی اپنی نوٹ بک میں لکھتا ہے کہ اس میں مادیت کے جراثیم ہیں۔
ہیگل کے بعد فیورباخ آ کر ہیگل کی عینیت پرستی کو رد کرتا ہے لیکن ہیگل کا یہ کہنا کہ فلسفے کی تاریخ میں ہر فلسفی کا اپنا کردار ہے جسے صرف رد نہیں کر دیا گیا بلکہ ’’جدلیاتی رد‘‘ ہے۔ یعنی جس فلسفی کا نام تاریخِ فلسفہ میں موجود ہے اس کا فلسفہ بھی موجود فلسفے میں موجود ہے۔ فلسفے میں ’’رد‘‘ سے مراد نابود ہونا نہیں ہے بلکہ پہلا ناگزیر محفوظ ہوا اور غیر ضروری نابود ہوا لیا جا سکتا ہے۔ اور اسی طرح سے لیں گے تو ہی فلسفہ سمجھ میں آئے گا۔ لیکن فیورباخ نے ہیگل کو قطعی طور پر رد کر دیا اور اینگلز کے الفاظ میں اسی وجہ سے خود بھی رد ہو گیا۔ ہیگل کی اوڑھی ہوئی دھوکے کی چادر یعنی عینیت کے اندر اس کا چھپا ہوا اب تک کا سب سے شاندار میتھڈ تھا جسے پیچھ کے ساتھ چاولوں کی طرح فیورباخ نے گٹر میں بہا دیا۔ مارکس اور اینگلز نے اس طرف توجہ کی اور ہیگل کے میتھڈ کو نہ صرف اپنایا بلکہ اسے استعمال بھی کیا۔
ہیگل کے بعد واضح طور پر فلسفہ دو حصوں میں بٹ گیا۔ ایک وہ جو ہیگل کا سسٹم یا نظام یا جو اس نے کہا تھا جسے ہم کونٹینٹ یا مافیہا بھی کہتے ہیں اس کی پیروی کرنے لگے (جیسا کہ ہمارے اردو میں فلسفے پر باتیں کرنے والے لوگ کر رہے ہیں۔ جہاں بھی ہیگل کی بات ہوئی یہی کہتے ہیں کہ ہیگل نے یوں نہیں یوں کہا ہے وغیرہ۔۔۔ ) دوسرے وہ جنہوں نے ہیگل میتھڈ یا منہاج یا طریق کار یا جس طور سے اس نے چیزوں کو ثابت کیا جسے ہم فارم یا بنتر یا ہیئت بھی کہتے ہیں کو اپنایا۔ اول الذکر لوگوں کو جو ہیگل کے کہے کو ’’مطلق‘‘ سمجھ کر چلتے ہیں انہیں رائٹ ہیگلیئن کہا جاتا ہے اور آخرالذکر جو ہیگل کے طریق کار کو اپناتے ہیں اور اسے استعمال کرتے ہیں لیفٹ ہیگلیئن کہتے ہیں جن میں کارل مارکس کا نام سب سے نمایاں ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہیگل کے بعد فلسفے آئے؟ ہمارا کہنا ہے کہ مارکس نے ہیگل کے ہی فلسفے کو سیدھا کرنے کی بات کی یعنی اس کے مابعدالطبیعاتی پہلو کو مادی میں تبدیل کر کے اس کے میتھڈ کو لیا۔ باقی وہی چلتا رہا۔ فلسفے جن کو نیا کہا جا رہا ہے ان کو غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہر ’’نیا‘‘ فلسفہ ایک ہی ’’حقیقت‘‘ کو سامنے لا رہا ہے کہ چیزوں کو جانا نہیں جا سکتا۔ اس میں خواہ آپ پریگمیٹزم اور لاجیکل پازیٹیوازم کے جدیدترین ’’سائنسی‘‘ فلسفے لے لیجئے یا پھر ’’پس ساختیات‘‘ اور ’’مابعد جدیدیت‘‘ یا ’’مابعدمابعدجدیدیت‘‘۔ بات ایک ہی نکلے گی کہ چیزوں کو جانا نہیں جا سکتا۔
میری بات پڑھنے والے۔۔۔ میں فرض کرتا ہوں کہ فلسفے سے بہت زیادہ واقف نہیں ہیں۔ کیوں کہ میں آسان زبان اور آسان انداز میں انہی کے لئے لکھ رہا ہوں۔۔۔ یوں کریں کہ کوئی بھی ہیگل کے بعد والا فلسفہ لیں اور دیکھیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے یا کیا کہنا چاہتا ہے؟
اگر تو کسی کے اندر شعور کا، انسانیت کا یا شرم و حیا کا رتی برابر مادہ بھی موجود ہو گا تو اسے یہ جان کر عجیب سی کوفت ہو گی کہ ہر ’’نیا فلسفہ‘‘ صرف ایک ہی چیز پر اپنا ’’خاتمہ‘‘ کرتا ہے۔۔۔ یا اس کا صرف ایک ہی مقصد نظر آئے گا۔۔۔ وہ یہ کہ کسی بھی شئے کا وجود ہی ممکن نہیں۔۔۔ وجود ہے تو جانا نہیں جا سکتا۔۔۔ جان بھی لیں تو آگے بتانا ممکن نہیں ہے۔