کانٹ کا فلسفہ کیا ہے؟ یہ سرمایہ داری کا مرغوب ترین فلسفہ کیوں ہے؟ (حصہ چہارم)

تحریر: |صبغت وائیں|

فلسفہ سچائی سے محبت کا نام ہے۔
فلسفہ سچائی کو جاننے کا نام ہے۔
فلسفہ ہر چیز کی سچائی کو جاننے کا نام ہے۔
فلسفہ کسی بھی سچائی کی تلاش کا نام ہے۔
اور یقیناً فلسفہ کسی بھی سچائی کو جاننے کے طریقے کا نام ہے۔
یا ایسے طریقے تلاش کرنے کا نام ہے جن سے سچائی کو جانا جا سکے۔
لیکن ’’تعقل عدم تعقل بن چکا ہے‘‘ یا عقلمندی حماقت بن چکی ہے۔
ایسا ہی کہا تھا ہیگل نے۔

<<حصہ اول>> << حصہ دوم>> <<حصہ سوم>>

جس کا ترجمہ اردو والوں نے ’’ریزن‘‘ کو دلیل بنا کر ’’دلیل بے دلیلی بن گئی ہے‘‘ کر کے اصل سے دور کر دیا ہے۔ آج چیزیں اپنے الٹ میں ایسے تبدیل ہوئیں کہ فلسفے کو سچائی سے نفرت دلانے، سچائی سے دور کرنے، سچائی کو بھول جانے اور ان تمام طریقوں سے دور کرنے کو استعمال کیا جاتا ہے جن سے سچائی جانی جا سکے یا اس کے قریب ہوا جا سکے۔ اسی چیز پر ہماری بحث جاری ہے اور اسی کھوج کو انسانوں تک پہنچانا ہی میری انسانی ذمہ داری ہے۔ اور یہی کر رہا ہوں کہ کیا چیز انسان کے لئے درست ہے اور کیا غلط اس کو میں نے پچھلے وقتوں کے انسانوں سے ہی سیکھا ہے اور اپنے وقت کے انسانوں کو واپس لوٹانا ہی میرا مقصد بھی ہے اور فرض بھی۔ اور یہی کر رہا ہوں۔

کانٹ نیک نیت تھا۔ اس کا مقصد انسان کو دھوکے میں رکھنا نہیں تھا۔ لیکن اس کے فلسفے کو اس کام کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سب سے بڑا دھوکا یہی ہے کہ چیزوں کو فلسفے نے اور سائنس نے جانا ہے لیکن کہا یہ جا رہا ہے کہ ایسا ہونا یا ایسا کرنا ناممکن ہے۔ کانٹ کے وقت تک بہت کچھ جان لیا گیا تھا۔ اور فلسفہ بھی اپنی معراج پر پہنچنے کے قریب تھا۔ کانٹ نے بھی ڈیکارٹ کی طرح فلسفے کو دوبارہ سے ترتیب دینا ہی بہتر سمجھا۔ اس نے تمام علم کو تجربے سے شروع ہونا قرار دیا۔ اور عقل کے اصولوں کی بھی بات کی۔ اس سے پہلے تجربی یا امپیریسسٹ الگ تھے اور عقلیت پسند یا ریشنلسٹ الگ۔ تجربی عقل کو خالی بتاتے کہ عقل میں ہر چیز تو تجربے سے جاتی ہے، اور عقلیت پسند تجربے کو دغاباز اور گمراہ کْن بتاتے تھے۔
کانٹ کی عظمت یہ تھی کہ اس نے دونوں کو غلط قرار دیتے ہوئے دونوں کو درست قرار دیا۔ کہ دونوں غلط ہیں کیوں کہ یہ ایک چیز کو بنیاد بنا رہے ہیں۔ اور یہ دونوں ہی درست ہیں کیوں کہ علم دونوں کے اعمال کا ہی نتیجہ ہے۔ کانٹ نے اپنے وقت کے حساب سے فلسفے کے وہ سوال اٹھائے جو کہ پہلے کبھی نہیں اٹھے تھے۔ لیکن اس وقت ہمارا موضوع کچھ اور ہے۔ اس لئے ہم صرف کانٹ کے نتیجے تک خود کو محدود کرتے ہیں کہ ہم اشیاء کی یا مادی دنیا کی حقیقت کو نہیں جان سکتے۔ اور جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ کانٹ کے پیرو وہی ہیں جو کہتے ہیں کہ چیزوں کو جانا نہیں جا سکتا۔ انہیں ہیگل کے بعد اور خاص طور پر مارکس کے بعد یہ مسئلہ پیش آیا کہ ان کو ’’نئے‘‘ فلسفے سامنے لانے کی ضرورت محسوس ہوئی تاکہ مارکسی فلسفے کو رد کیا جا سکے۔ اس کے لئے انہوں نے جان توڑ کوشش کر لی لیکن ان کا گھڑا ہوا ہر فلسفہ بری طرح سے رد کر دیا جاتا۔ اکثر فلسفے تو ہفتے دو ہفتے کی مار نکلے۔ اب انہوں نے کچھ تو دینا ہی تھا اور دیا بھی۔
ان لوگوں نے فلسفے بھی دینے تھے اور یہ بھی ثابت کرنا تھا کہ چیزوں کو جانا نہیں جا سکتا۔ اسی کے ساتھ ساتھ دوسری طرف پروڈکشن بھی اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ سائنس نے بھی خود کو اس طرح سے ثابت کر دیا تھا کہ سائنس کی ہیبت سے یہ فلسفیوں کے نقال اپنے بلوں میں گھْسے بھی کانپا کرتے تھے۔ پھر انہوں نے نیا گْر سیکھ لیا۔ جس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ مادہ تو ختم ہو چکا۔ یا مادہ تو ہے ہی نہیں۔ اور جو چیز ہے اور نا کبھی تھی، اس کو جاننے کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے؟ لینن نے اس کے خلاف 1908ء میں ان کے پیراگراف در پیراگراف لگا کر ان سے ٹھیک 198 سال پہلے 1710ء کی شائع شدہ کتاب بارکلے کے مکالمات میں سے پیرے لگا کر یہ ثابت کر دیا کہ ماخ وغیرہ کا ’’نیا‘‘ فلسفہ جس کے پیچھے آئن سٹائن بھی پاگل ہو رہا جس پر بعد ازاں اس نے شرمندگی کا بھی اظہار کیا تھا، دو سو سال پرانا ہے اور لفظ بلفظ ہو بہو وہی باتیں اور وہی دلائل۔ بلکہ بارکلے کے دلائل ماخیئنز سے قدرے بہتر ہی تھے۔۔۔۔
اس طرح یہ ہتھکنڈہ ابھی تک اتنا پرانا نہیں ہوا کہ اسے ترک کر دیا جائے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ بے شمار نئے ہتھکنڈے بھی آزمائے گئے۔ ماخ کی جزوی ’’کامیابی‘‘ کے بعد کہ انہوں نے بہت سے لوگوں کو بھٹکا دیا، حکمران طبقے نے سائنس پر اپنی توجہ خصوصی طور پر مرکوز کر دی۔ اب سائنس انسان کو عقل و شعور عطا کرنے کی بجائے گمراہ کرنے والا علم بننے والا تھا۔ ساری کی ساری بیسویں صدی سائنس کی عظیم ترین خدمات و عجائبات کے ساتھ ساتھ سائنس ہی سے انسان کو گمراہ کرنے کی بدترین صدی بھی ثابت ہونے والی تھی۔ اور ایسا ہوا۔ ببانگِ دْہل ہوا۔ جس علم سے انسان کو سب سے زیادہ جہالت میں دھکیلا گیا وہ فطرتی سائنس تھا۔
’’یہ سب مجھے پاگل کہتے ہیں، لیکن مجھے جانتا کوئی نہیں‘‘
پاگل آدمی کی ڈائری۔۔۔ لو شون
نیچرل سائنس پر چلنا، آبجیکٹیویٹی کو ملحوظ رکھنا اور غیر جانبدار رہنا بہت ہی خوش آئند باتیں لگتی ہیں۔ اسی سوچ کو پکڑ کر اسی سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کئے گئے۔ کس طرح سے نفسیات میں کوئی پندرہ قسم کے فلسفے آزمائے گئے اور ان سے رویوں کو ’’کنٹرول کرنے‘‘ کا مشکل کام انجام دیا گیا۔ اس پر ہم نے اپنی ڈسلیکسیا یا اکتسابی معذوری والی تحریر میں تفصیل سے لکھا ہے۔
افلاطون کے سب سے زیادہ فلسفیانہ مکالمے ’’فیڈو‘‘ میں سقراط انکساغورث کی کتاب کا ذکر کرتا ہے جو سائنس پر ہے اور دنیا کی ہر چیز کے بارے میں بتانے کا دعویٰ کرتی ہے۔ سقراط کہتا ہے کہ میں بہت خوش ہوا کہ مجھے ہر چیز کا علم ہو جائے گا اس لئے میں نے وہ کتاب حاصل کر کے جلدی جلدی پڑھی۔ یہ باتیں سقراط قید خانے میں کر رہا ہے۔ اور یہ یاد رہے کہ اس مکالمے کے ختم ہونے پر اس نے زہر کا پیالہ پی کر مر جانا ہے۔ اب سقراط یوں بتاتا ہے کہ جب اس نے یہ کتاب پڑھی تو اسے سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ مثال دیتا ہے کہ اگر انکسا غورث میرے یہاں بیٹھنے کو بیان کرے تو وہ کہے گا کہ میری ریڈھ کی ہڈی میری پیلوِس کی ہڈی سے اتنے درجے کا زاویہ بنا رہی ہے۔ میری رانوں کے فلاں فلاں پٹھے کنٹریکشن کر رہے ہیں فلاں فلاں ریلیکس کر رہے ہیں اور۔۔۔ لیکن یہ سب کیا ہے؟ مجھے تو عدالت سے سزا ملی ہے۔۔۔ اور میں تو اپنی سزائے موت کا انتظار کر رہا ہوں جس سے میری ہڈیاں میگارا کو بھیج دی جائیں گی۔
اس ڈائلاگ کو پڑھ کرہنسی بھی آتی ہے۔ لیکن افلاطون نے آج کی بحث کو بڑے ہی آرٹسٹک انداز میں سمیٹا ہے۔ جس میں بائیولوجی، فزکس اور جیومیٹری سے سقراط کے بیٹھنے کا مذاق اڑا کر بتایا گیا ہے کہ یہ چیزیں ان اسباب کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں جن کی بنا پر اسے سزا دی گئی۔ ورنہ وہ قید خانے میں بیٹھنا کبھی پسند نہ کرتا۔ خاص طور پر یہ ان لوگوں کو جواب ہے جو کہ سائنس کو اخلاقی مسائل سونپنے کی بات کر رہے ہیں۔
ہمیں بھی آج کی بحثیں دیکھ کر ہنسی ہی آتی ہے۔ آپ کو جی اے ڈی ہے۔ جنرل اینگزائٹی ڈس آرڈر۔ آپ یہ دوائی لیں۔ یا آپ یہ ایکسرسائز کریں۔ پازیٹیو سوچیں۔ یہ آپ کے دماغ میں فلاں فلاں ہارمون کی یا فلاں فلاں مادے کے بیلنس کے خراب ہو جانے کی وجہ سے ہے۔ آپ نفرت کرتے ہیں۔ یہ فلاں مادے کی وجہ سے ہے۔ خوشی؟؟ یہ فلاں ہمارشارمون دیتا ہے۔ یہ سرشاری کی کیفیت دیتا ہے۔ اس سے محبت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔۔۔ ایک لمبی لسٹ ہے۔ میں نے ایسے دعوے بھی پڑھے ہیں کہ نفرت، محبت اور خوشی یا غم جیسے جذبات انجکشن سے پیدا اور ختم کئے جا سکتے ہیں۔ میں فطرتی سائنس کے خلاف نہیں ہوں۔ فطرتی سائنس ہی کو راہنما مانتا ہوں۔ اپنے مسائل بھی اسی سے حل کروں گا۔ لیکن جو چیزیں اس کے دائرے میں ہیں ان کو جاننا ہو گا۔
آپ نے دوائیاں دے کر ایک بندے کے جذبات یا اس کی تشویش تو دور کر دی۔ لیکن اس کے قرض کا اور قرض خواہ کا کیا کریں گے جو وہیں ہے؟ اس کی محبوبہ کا کیا کریں گے جو کسی زیادہ آمدنی والے کے ساتھ بیاہی جانے والی ہے؟ وغیرہ۔۔۔؟ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ غم اور خوش سے ھارمون پیدا ہوتے ہیں جو ہمارے دماغ میں فزیکل تبدیلیاں لاتے ہیں جن سے ان کے اثرات برے ہوں یا اچھے ظاہر ہوتے ہیں۔ ہر طرح کے سماجی رویوں سے اثرات دماغ اور حرام مغز اور معدے پر پڑتے ہوں گے۔ ان کا علاج بھی ہو گا لیکن صرف اور صرف آبجیکٹیو ہو کر خود کو انہی فزیکل اثرات تک محدود کر لینا اور انہی میں وجوھات اور علاج تلاش کرنا بالکل وہی نیچرلزم ہے جو کہ آرٹ میں ہے جس کی ہم مخالفت کرتے ہیں کہ اس میں انسان کو یا موضوعیت کو ختم کر دیا گیا ہے۔
ان کے یہ باتیں اور غور سے پڑھیں۔ یہ کہتے ہیں کہ لفظ بھی دماغ پر نشان چھوڑتے ہیں۔ ان کی سٹڈی تو ہو رہی ہے۔ لیکن تحریر سے جو سیدھا مطلب ملتا ہے، جسے عام انسان ان سائنسدانوں سے زیادہ اچھی طرح سمجھتا ہے، اسے چھوڑا جا رہا ہے۔ آپ علت و معلول کے سماجی مظہر کو چھوڑ کر فطرتی سائنس میں اسے ڈھونڈنے نکل جائیں۔ بہت کچھ ایسا ملے گا جو نیا ہو گا۔ اور ملتا ہی چلا جائے گا۔ اور آپ گْم ہو جائیں گے۔ لیکن اس سے کسی کا قرض ادا نہیں ہو گا۔ اور نہ ہی کسی کی محبوبہ واپس آئے گی۔ میں نے خود ایک امریکن ایجوکیشنل سائکالوجی کی کتاب میں پڑھا ہے کہ بچے کی نالائقی یا تعلیم سے جی اچاٹ ہو جانے کو کبھی سماج سے یا کسی سماجی محرومی سے جوڑ کر نہ دیکھیں بلکہ اس کی وجوہات دماغ اور حرام مغز میں ہونے والی تبدیلیوں میں تلاش کریں۔ آج کی ساری کلینیکل سائیکالوجی انہی بنیادوں پر کھڑی ہے۔
ہمارا ان باتوں سے اتنا ہی تعلق ہے کہ اگر کوئی ان وجوہات کو ’’جاننے‘‘ کے لئے نکلتا ہے تو وہ حقیقت سے دور تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اگر وہ آسان لفظوں میں کچھ جاننا چاہے تو اسے ایک ہی جواب ملے گا کہ حقیقت کو جانا نہیں جا سکتا۔ اور یہ درست ہو گا۔ کیوں کہ وہ آبجیکٹیو ہو چکا ہے اور وہ سماج کی بجائے فزکس، کیمسٹری میں چلا گیا ہے۔ یہ سارے کے سارے فلسفے جن میں آج کی منطقی ثبوتیت پیش پیش ہے، اتنے ہی ’’سائنسی‘‘ ہیں جتنے میں نے بتائے ہیں۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ ہی ہیں فکر نہ کریں۔ اور یہ سب کچھ پچھلی صدی میں ہوا ہے۔
اب ہم ان لوگوں کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان فلسفوں کو مانتے بھی ہیں اور پھیلاتے بھی ہیں۔ یہ لوگ کیا کرتے ہیں؟ انہیں دیکھنے کے لئے ان کی تحریرں دیکھیں۔ سب میں ایک بات مشترک ملے گی۔
کیا؟ان کی سمجھ کسی کو نہیں آتی۔ آپ دنیا میں کسی سے پوچھ کر دیکھ لیں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔ پوسٹ ماڈرنزم کیا ہے؟ وغیرہ۔۔۔ یہ نشانیات کیا ہے؟ کچھ بھی پوچھیں وہ تفصیل سے جواب دیں گے۔ بلکہ اتنی تفصیل سے دیں گے کہ اگر کچھ معلوم ہونا بھی ہوا تو بھول جائے گا۔ اگر میں سچ کہہ رہا ہوں، تو یہ جاننا ضروری ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ غور کریں ان کا کہنا یہی ہے کہ کسی بھی بات کو جانا نہیں جا سکتا۔ اگر جان لیا گیا تو کانٹ کے پیرو کار جھوٹے ہو جائیں گے۔ کانٹ کے وہ سارے پیرو کا جو آج ساڑھے تین سو فلسفوں کے مکھوٹوں کے پیچھے اس طرح چھپے بیٹھے ہیں کہ الگ الگ دکھائی دیں۔ یہ لوگ پوری کوشش کر کے اس طرح سے لکھتے ہیں کہ کسی کو کچھ سجھائی نہ دے۔
یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ بادئی النظر میں تو شاید سچ بولنا آسان اور جھوٹ بولنا ہی مشکل لگے گا۔ کہ آپ موٹر سائیکل کو موٹر سائیکل ثابت کریں تو آسان ہے اور اسے گھوڑا گاڑی ثابت کرنا بہت مشکل ہو گا۔ لیکن جب پریکٹیکلی دیکھیں تو چیزوں کا درست تجزیہ کرنا انتہائی مشکل ہے اور ان کے متعلق کچھ بھی بکواس کر دینا انتہائی آسان ہے۔ ایسی بات کرنا جو کسی پیچیدہ معاملے کو، جیسے ہم نے پہلے دیکھا ہے کہ سادہ ترین موضوعات پر بات کرنا پیچیدہ تر ہوتا جاتا ہے، سلجھا دے بذات خود پیچیدہ اور مشکل کام ہے اور ایسے کام کا بیڑا اٹھانے والا وہ ساری کی ساری پیچیدگی خود اپنے کندھوں پر اٹھاتا ہے جسے وہ عام فہم کرنے جا رہا ہے۔ وہ بیک وقت دو کام تو کر ہی رہا ہے ایک پیچیدہ کی تفہیم اور دوسرے یہ کہ اس کو سادہ تر کرتے ہوئے عام فہم کرنا۔
لیکن کسی ایسی بات کو جو پیچیدہ ہو، جو سمجھ میں نہ آ سکتی ہو، یا مشکل سے سمجھ میں آتی ہو، اسے ویسے ہی کر دینا کیا کام ہوا؟ سچے اور انسان دوست فلسفے کتنے ہی پیچیدہ اور مشکل کیوں نہ ہوں بالآخر سمجھ میں آنے لگتے ہیں۔ اور وہ سب ایسے ہی ہیں کہ ہر ایک کو سمجھائے جا سکتے ہیں۔ ایسے نہیں ہے جیسے یہ پوسٹ ماڈرنسٹ مانتے ہیں کہ فلسفہ عام آدمی کے لئے ہے ہی نہیں۔ ہماری ساری گفتگو میں ہم یہی بات لے کر چل رہے ہیں کہ عام آدمی دنیا کے عظیم ترین اور سچے ترین فلسفے کے نزدیک ترین ہی رہتا ہے۔ یہ بات یاد رہے۔
اب تھوڑا آگے چلتے ہیں۔ ایک عام فہم بات کو لے کر اس طرح سے کر دینا کہ اس کی سمجھ آنی مشکل ہو جائے یا اس کی سمجھ نہ آئے کیا مشکل ہو گا؟ میں کسی بھی بات میں الجھاؤ ڈال دیتا ہوں وہ سمجھ میں آنی مشکل ہو جائے گی۔ جیسا کہ شاید پیچھے میں نے ایک فقرے میں ایسا کر کے دکھایا بھی تھا۔
’’آپ عقلمند ہیں‘‘ آسان سی بات ہے۔
’’میں کب اس بات سے انکاری نہیں ہوں کہ آپ کو نامعقول کہنا زبردست قسم کی غیر سنجیدہ حرکت نہیں تھی۔‘‘
اس دوسرے جملے میں بھی میں نے وہی بات کہی ہے۔ لیکن تھوڑا سا پیچیدہ کر دیا ہے۔ پھر بھی اس بات میں معنی موجود ہے۔ کسی بھی تحریر میں سے پنکچوایشن ختم کر دیں ناقابل فہم ہو جائے گی۔ بہت سے مشکل اور متروک الفاظ ڈال دیں جنہیں لوگ اپنی علمیت دکھانے کے لئے برتتے ہیں تحریر مشکل ہو جائے گی۔ بہت سی باتیں ایک ساتھ کر دیں تحریر بے معنی ہو جائے گی۔ بار بار موضوع تبدیل کرتے چلے جائیں لایعنیت تشکیل پا جائے گی۔ کتنی آسانی سے کانٹ کو زندہ کرنے والوں کا مقصد پورا ہو جائے گا؟ ظاہر ہے وہ یہی کریں گے۔ اگر ان کی تحریر سمجھ میں آنے لگ جائے تو ان کو فلسفی کون مانے گا؟ اور ان کی تحریر کو ’’فلسفہ‘‘ کون کہے گا؟ ان کا مقصد تو ’’بات کو عوام تک پہنچانا‘‘ ہے ہی نہیں۔ یہ مقصد تو مارکسیوں کا ہے کہ بات عوام تک پہنچے۔ عوام تک کچھ بھی نہ پہنچے حکمران طبقے کا مقصد ہے۔
جو ٹیم زیادہ گول کر چکی ہو وقت کو ضائع کرنا اسی کے مفاد میں جایا کرتا ہے۔ اگر کچھ بھی جانا نہ جائے تو کچھ بھی تبدیل نہیں ہو گا۔ اور کچھ بھی تبدیل نہ ہونا انہی کے مفاد میں جائے گا جن کے پاس چیزوں کے قبضے ہیں اور جو حکمران ہیں۔ ان کے دو مقصد ہمیں نظر آ سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ خوب دھول اڑانا اور گمراہی پھیلانا کہ کچھ بھی جاننا ناممکن ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ چند لوگ ہیں جو ’’بہت کچھ‘‘ ’’جانتے ہیں‘‘۔ لیکن یہ جاننا خود ان کی اپنی بات کے تضاد میں ہے۔ کہ چیزیں تو جانی ہی نہیں جا سکتیں آپ کیسے جانتے ہیں؟ یا تو سقراط والی بات کہیں کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں جانتے۔ اور اپنے فلسفے کو دقیانوسی مان لیں۔ لیکن اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی سب کچھ ختم نہیں ہو سکا۔
انسان کی عقل نے یہ تسلیم نہیں کیا کہ چیزوں میں معنی ہیں ہی نہیں اور وہ جانی نہیں جا سکتیں۔ اس پر انہوں نے آرٹ کو بطور ٹول کے بطور ہتھیار کے استعمال کیا۔ اور ایسا آرٹ سامنے لائے جس میں معنی کو ختم کرنے کی ’’شعوری‘‘ کوششیں کی گئیں۔ اور ایسے آرٹ اور ایسے ادب پاروں پر انعام و کرام کی بارشیں کی گئیں جن میں معنی نہیں تھا۔ اب حکمران طبقے نے آرٹ کو بھی نہیں بخشا۔ اس غلام سے بھی اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کا کام لینا تھا۔

Comments are closed.