انقلاب روس کے 106 سال: کیا آج انقلاب کے علاوہ کوئی حل موجود ہے؟

|تحریر: آدم پال|

1917ء کے انقلاب روس کو 106 سال بیت چکے ہیں۔ یہ انقلاب بلاشبہ انسانی تاریخ کا عظیم ترین واقعہ تھا۔ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں برپا ہونے والے اس انقلاب کے بعد امیر اور غریب پر مبنی طبقاتی نظام کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔سب کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان مزدور ریاست کی جانب سے مفت فراہم کیا گیا تھا۔ علاج اور تعلیم سمیت تمام بنیادی ضروریات مفت کر دی گئیں تھیں۔ کسان زمینوں کے مالک بن گئے تھے اور مزدور اپنی صنعتوں کے جمہوری انداز میں خود مالک تھے۔ قومی اور مذہبی جبر مکمل طور پر ختم ہو گیا تھا۔ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک اور جبر ختم کر دیا گیا تھا اور انہیں تمام حقوق فراہم کیے گئے تھے۔ خواتین کی گھریلو غلامی کا خاتمہ ہوا تھا اور برتن دھونے، کپڑے دھونے، کھانا پکانے ور بچوں کی نگہداشت کی ذمہ داری ریاست نے لے لی تھی۔

مزدور ریاست میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں تیز ترین ترقی اور تاریخ میں پہلی دفعہ خلا میں انسان کا پہنچنا اسی انقلاب کی بدولت ممکن ہوا۔ انسان کی آزادی کے سفر کا صحیح معنوں میں آغاز ہوا تھا۔ اس انقلاب کو پوری دنیا کے محنت کشوں کی حمایت ملی تھی۔

لیکن دوسری جانب پوری دنیا کے حکمران اور سرمایہ دار اسے ختم کرنے کی پوری کوشش کرتے رہے۔ اس دوران لینن کی وفات کے بعد انقلاب کی زوال پذیری کا عمل شروع ہوا جو 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام پر ختم ہوا۔ اس زوال پذیری کی بنیادی وجہ سٹالنزم کی غداریاں تھیں جس نے اس عظیم انقلاب کے سفر کو محدود کر دیا اور سوویت یونین کے انہدام کا باعث بنا۔

اس انقلاب اور اس کی بنیاد میں موجود کمیونزم کے نظریات پر آج بھی پوری دنیا میں بحث موجود ہے اور اس کی پسندیدگی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ خاص طور پر نوجوانوں کی اکثریت کمیونزم کی جانب راغب ہو رہی ہے۔ جبکہ سرمایہ دار طبقے اور سامراجی طاقتوں کے پراپیگنڈے کے نتیجے میں یہ سوچ مسلط کی گئی ہے کہ آج انقلاب کی ضرورت نہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے ہی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جتنا یہ نظریہ مسلط کیا جا رہا ہے اتنا ہی سرمایہ داری کا بحران گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہ بحران چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ اس نظام کو اکھاڑ پھینک کر ایک نئے نظام کو لانے کی ضرورت ہے۔

لیکن دنیا بھر میں دانشوروں، تجزیہ نگاروں، پروفیسروں اور مقبول سیاستدانوں کی اکثریت انقلاب کو غیر ضروری قرار دیتی ہے اور نتیجتاً سرمایہ دار طبقے کے وفادار گماشتے کا کردار کرتی ہے۔ اس گماشتگی میں نام نہاد بائیں بازو کے قائدین کی اکثریت بھی شامل ہے اور وہ بھی انقلاب کے لفظ سے الرجک ہو چکے ہیں۔ ان کے سامنے اگر کوئی غلطی سے انقلاب کا لفظ بھی بول دے تو یہ غصے میں آ جاتے ہیں، کپکپانا شروع کر دیتے ہیں اور ان کے منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہو جاتی ہے۔ درحقیقت انقلاب کا لفظ ان کی چھیڑ بن چکا ہے۔

سرکاری دانشوروں، تجریہ نگاروں اور پروفیسروں کی حالت بھی مختلف نہیں۔کسی بھی یونیورسٹی، کالج یا سکول کا نصاب اٹھا لیں، لیکچر سن لیں یا سیاست، معیشت اور سماجیات پر کوئی تحریر پڑھ لیں کہیں بھی انقلاب کا دور دور تک ذکر بھی نظر نہیں آئے گا۔ کسی اخباری کالم یا ٹی وی ٹاک شو کو دیکھ لیں انقلاب کے علاوہ دنیا جہاں کی گفتگو اور دلائل سننے کو ملیں گے۔ کہیں ہلکا سا امکان بھی نظر نہیں آئے گا کہ یہاں انقلاب بھی آ سکتا ہے اور لوگ اپنے حق کے لیے باہر نکل کر حکمرانوں کا اکھاڑ پھینک بھی سکتے ہیں۔ انقلاب کے امکانات کو رد کرنے کے لیے جھوٹی تاریخ بھی گھڑی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ تاریخ میں کبھی بھی ایسا ہواہی نہیں۔ جبکہ حقیقت میں آج کی دنیا ماضی کے بہت سے انقلابات کے نتیجے میں ہی ترتیب پائی ہے۔ اور آج کے حالات بھی ایک نئے انقلاب کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

جب کسی نظریے، سوچ اور سیاست سے انقلاب کا امکان مصنوعی طور پر ختم کر دیا جاتا ہے تو وہ حکمران طبقے اور رجعتی قوتوں کا آلہ کار بن جاتا ہے۔ درحقیقت سرمایہ داری کا جنم بھی انقلابات کی بدولت ہوا تھا۔ انگلینڈ، فرانس، جرمنی سمیت تمام یورپی ممالک میں انقلابات کے ذریعے ہی جاگیرداری اور بادشاہتوں کو اکھاڑا گیا اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کو نافذ کیا گیا۔ بادشاہوں کے سر قلم ہوئے، جاگیرداروں کو تختہ دار پر لٹکایا گیا اور عوام کی انقلابی سرگرمی سے ہی سماج کو تبدیل کیا گیا۔ آج مغربی ممالک میں محنت کشوں کو حاصلات حاصل ہیں اور وہاں پر کسی حد تک جمہوری حقوق میسر ہیں تو اس کی وجہ وہاں پر برپا ہونے والے عظیم انقلابات ہی ہیں۔

پسماندہ ممالک سے ترقی یافتہ ممالک میں ہجرت کرنے والے اکثر وہاں کی چکا چوند دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں اور وہاں کی صفائی، ڈسپلن اور دیگر بنیادی حقوق کی دستیابی کو وہاں کے حکمران طبقے کی نوازش سمجھ کر اپنے آپ کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں ان ممالک کے عوام نے انقلابات کر کے حکمرانوں کا تختہ الٹا تھا اور بہت سی جنگوں، تباہ کاریوں اور ان سے ابھرنے والی انقلابی تحریکوں اور محنت کشوں کی بغاوتوں کی بدلوت ہی وہاں کا سماج ترتیب پایا ہے۔

آج کا حکمران طبقہ ماضی کی تمام حاصلات پر حملہ آور ہے اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے ان حملوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اب دوبارہ نوجوان نسل حکمران طبقے کے خلاف بغاوتوں اور انقلابی تحریکوں کے لیے تیار ہو رہی ہے اور کمیونزم کے نظریات دوبارہ پورے یورپ اور امریکہ و کینیڈا میں بے پناہ مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔دوسری جانب آج سرمایہ داری کے آقا اور اس کے آلہ کار انقلاب کے عمل سے ہی یکسر انکار کرتے ہیں اور ایسے بیہودہ نظریات کا پرچار کرتے ہیں جن میں انقلابی تبدیلی کا ذرہ بھی موجود نہ ہو۔ وہ اپنی ہی انقلابی تاریخ سے یکسر انکار کر چکے ہیں اور آج انقلاب کے سب سے بڑے دشمن بن چکے ہیں۔

ان حکمرانوں کے ایما پر یہی نظریات یونیورسٹیوں، میڈیا اور دیگر ذرائع سے سماج میں سرایت کرتے ہیں اور وظیفہ خوار دانشوروں کو متاثر کرتے ہیں۔ دوسری جانب ایک انقلابی حل اور محنت کش طبقے کی طاقت پر یقین حکمران طبقات کے خلاف حقیقی جدوجہد کی بنیاد بنتا ہے۔آج اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔

فلسطین کی آزادی اور انقلابی حل

آج کسی بھی دانشور کے پاس فلسطین کے مسئلے کا کوئی واضح حل موجود نہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں غزہ میں جاری اسرائیل کے حملے کی مذمت کی جارہی ہے اور جنگ بندی کے لیے مختلف کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس میں سب سے اہم کردار مغربی ممالک میں لاکھوں افراد کے احتجاجی مظاہروں اور وہاں کی مزدور یونینوں کی ہڑتالوں نے ادا کیا ہے۔ لیکن اس مسئلے کا حل کیا ہے اس پر کہیں سے بھی کوئی واضح مؤقف نظر نہیں آرہا۔

دوسری جانب کمیونسٹ ایک طویل عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل کے فلسطین پر غاصبانہ قبضے اور جارحیت کا خاتمہ بھی صرف ایک انقلاب کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس مسئلے کا کوئی بھی دوسرا حل موجود نہیں۔کمیونسٹ ایک طویل عرصے سے فلسطین کی آزادی کی تحریک کو سوشلسٹ انقلاب کی منزل سے جوڑنے کا پروگرام پیش کر رہے تھے۔ لیکن سوشلزم کے نظریات اور انقلابی حل پر یقین نہ ہونے کے باعث فلسطین کی قیادت نے اسی نظام کے اندر ہی حل تلاش کرنے کی کوشش کی۔ انتفادہ سمیت تمام تحریکیں فلسطینی عوام کی ایک انقلابی متبادل کی خواہش کا اظہار تھیں لیکن قیادت سرمایہ دارانہ نظام کی حدود کو قبول کر چکی تھی۔ آج اس کی ناکامی نوشتہ دیوار ہے۔ دو ریاستی حل اور اوسلو معاہدہ اپنی موت مر چکا ہے اور واضح ہو چکا ہے کہ اسرائیل کی سامراجی ریاست اور سرمایہ دارانہ نظام کے ہوتے ہوئے فلسطین کی الگ ریاست اور آزادی ممکن نہیں۔

اسی طرح اسرائیلی ریاست کو سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے مکمل طور پر ختم کرنا اور پھر وہاں امن اور مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنا بھی ممکن نہیں۔ اسرائیل کی ریاست کی بنیاد ہی سامراجی گماشتگی، مذہبی منافرت، قومی تعصب اور نسل پرستی کے فروغ کے لیے رکھی گئی تھی اور جب تک یہ ریاست قائم ہے یہ اسی ایجنڈے پر چلتی رہے گی۔ اس کو صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے اور یہ انقلاب نہ صرف فلسطین کی آزادی کے حصول کا باعث بنے گا بلکہ پورے خطے سے مذہبی منافرت، قومی تعصب اور سامراجی تسلط کا خاتمہ کر دے گا۔ اس پورے خطے سمیت عالمی سامراجی طاقتیں اسی لیے سوشلسٹ نظریات کے خلاف ہیں کیونکہ ان کی حاکمیت کی بنیاد ہی مذہبی منافرت، قومی جبر اور دیگر تعصبات ہیں جن کے ذریعے محنت کشوں کو تقسیم کر کے ان پر یہ اپنی حاکمیت جاری رکھتے ہیں۔

فلسطین کی آزادی اور خطے میں امن کے حصول کے لیے ایک انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کو ختم کر کے ایک سوشلسٹ فیڈریشن قائم کرنی ہو گی۔ اس کے بعد ہی تمام مذاہب اور اقوام کے لوگ امن و آشتی سے رہ سکیں گے۔سوشلسٹ انقلاب کے بعد سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی سے پنپنے والی مذہبی منافرت کا خاتمہ ہو جائے گا اور منافع خوری کے لیے بیگناہوں کی قتل وغارت بند ہو جائے گی۔

اسی طرح تمام عرب ممالک کے سامراجی گماشتہ حکمرانوں کو ختم کرنے کے لیے بھی ان ممالک میں سوشلسٹ انقلاب برپا کر کے مشرق وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ عرب ممالک سے لے کر ایران تک ابھرنے والی عوامی تحریکیں اسی انقلابی تبدیلی کی ضرورت کا اظہار ہیں۔

پاکستان اور انقلاب کی ضرورت

انقلاب کی سب سے زیادہ ضرورت فلسطین کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی موجود ہے لیکن تمام دانشوروں سے لے کر سیاستدان، قوم پرست اور نام نہاد بائیں بازو تک تمام لوگ اپنی سوچوں کو تالے لگا چکے ہیں اور انقلاب کا ذکر بھی انہیں خوفزدہ کر دیتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف عوام کے دلوں اور دماغوں میں انقلاب کے لیے تڑپ بڑھتی جا رہی ہے۔ آج یہاں کے مالیاتی بحران اور دیوالیہ پن کا واحد حل ایک انقلابی تبدیلی ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی بنائی گئی پالیسیوں نے ہی پہلے عوام کو غربت اور بیروزگاری کی کھانی میں دھکیلا ہے۔ آئندہ بھی ان پالیسیوں سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔

یہاں کے تمام معیشت دان، بینکار اور سیاست دان کبھی بھی عالمی سامراجی طاقتوں کی مفادات سے نہیں ٹکرا سکتے بلکہ یہ سب ان کے ہی دلال ہیں۔ صرف ایک انقلاب کے بعد ہی آئی پی پیز سے چھٹکارا مل سکتا ہے اور بجلی مفت فراہم کی جاسکتی ہے، آئی ایم ایف کے چنگل سے نجات مل سکتی ہے، فوج کا بجٹ کم اور جرنیلوں کی لوٹ مار ختم ہو سکتی ہے۔

انقلاب کے بعد ہی بینکوں میں موجود تمام دولت ضبط کرکے عوام کے مفاد کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔اس کے علاوہ اس نظام میں رہتے ہوئے معاشی بحران کا کوئی حل نہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری نے پہلے بھی یہاں پر غربت ہی پھیلائی ہے خواہ وہ سی پیک کے لیے چین سے آئی ہو یا کسی مغربی سامراجی ملک اور خلیجی ممالک سے۔ اس نظام میں آئندہ بھی یہی کچھ ہو گا۔

افغان مہاجرین سمیت دیگر تمام مظلوم قومیتوں پر ریاست کا جبر بھی ایک سوشلسٹ انقلاب کے بعد ہی ختم ہو سکتا ہے۔ لیکن قوم پرست اور نام نہاد بایاں بازو یہ سمجھنے سے قاصر ہے۔ وہ اپنی تمام سیاست اس نظام کے زیر تحت لا چکے ہیں اور ان کا مقصد حکمران طبقے کی گماشتگی کر کے اپنے ذاتی حصے اور لوٹ مار میں اضافہ کروانا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے قومی جبرکے خاتمے سے لے کر بیروزگاری اور مہنگائی کا حل تلاش کرنے کی کوشش میں بہت سے قوم پرست آج کل افغان مہاجرین کو تمام مسائل کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ اس عمل میں وہ اس سامراجی ریاست کے آلہ کار بن چکے ہیں جو ریاست قومی تعصب کو فروغ دے کر عوامی تحریکوں کو کچلنا چاہتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں کسی بھی مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوششیں انہی نتائج کی حامل ہو سکتی ہیں۔

افغان مہاجرین سمیت دیگر تمام مظلوم قومیتوں پر ریاست کا جبر بھی ایک سوشلسٹ انقلاب کے بعد ہی ختم ہو سکتا ہے۔

اس نظام کے اندر رہتے ہوئے ہی ڈیموگرافی میں تبدیلی کا خوف پیدا کر کے قومی تعصب کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اگر انقلاب کے نظریے پر یقین ہو تو واضح ہے کہ تمام مظلوم قومیتوں کے محنت کشوں کو مل کر سرمایہ دار طبقے کے خلاف جدوجہد کرنی ہو گی۔ ایک مظلوم قوم کے محنت کشوں کے دشمن دوسری قوم کے محنت کش نہیں ہیں۔ بلکہ تمام محنت کشوں کے مشترکہ دشمن سرمایہ دار، بینکار، ملٹی نیشنل کمپنیاں اور سامراجی طاقتیں ہیں۔ اور ان کو شکست دے کر ہی قومی جبر کا مکمل خاتمہ ہو سکتا ہے۔

سوشلسٹ انقلاب کے بعد ڈیموگرافی میں تبدیلی کا خطرہ ہی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ وسائل کی بہتات اور ان پر اجتماعی کنٹرول اس خوف کی بنیاد کو ہی ختم کر دے گا۔ جبکہ سرمایہ داری میں رہتے ہوئے ہمیشہ قلت کی نفسیات حاوی رہے گی اور ایک گلی اور ایک محلے میں رہنے والے محنت کشوں کو بھی زیادہ سے زیادہ کے حصول کی لڑائی میں ایک دوسرے سے مقابلہ بازی پر مجبور کرے گی۔ اس نظام کے اندر معیشت کو بحران سے نکالنے کے تجزیے آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر ہی عمل کرنے پر ختم ہوں گے۔

ایسے ہی اس قسم کے سیاسی تجزیے کبھی نواز شریف کو مصنوعی طور پر جمہوریت کا چیمپئین اور جرنیلوں کا مخالف بنا کر پیش کرتے ہیں اور کبھی عمران خان جیسے انا پرست بوزنے کو حقیقی تبدیلی کا علمبردار بناتے ہیں۔ ایسے ہی عقل کے دشمن کبھی زرداری اور بلاول جیسے عوام دشمن اور کرپٹ افراد کو عوام کا نجات دہندہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ان تمام تجزیوں اور سیاست کی بنیاد صرف ایک ہے اور وہ انقلاب کا خوف اور عوام دشمنی ہے۔ لیکن حکمرانوں اور نام نہاد دانشوروں کی خواہشات کے بر عکس محنت کش طبقہ انقلابی تحریکوں کے دور کی جانب بڑھ رہا ہے۔

اس وقت کشمیر میں بجلی کے بلوں کے خلاف ایک عوامی تحریک موجود ہے جس میں لاکھوں افراد بشمول خواتین نے سول نافرمانی کا آغاز کر دیا ہے۔ انہوں نے تین ماہ سے بجلی کے بل جمع نہیں کروائے اور فری بجلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس تحریک کا سنجیدہ تجزیہ صرف کمیونسٹوں نے ہی کیا ہے۔ جس کی وجہ ہمارا انقلاب کے عمل اور تناظر پر یقین ہے۔ ہمارے علاوہ کوئی بھی اس تحریک کی پیش گوئی نہیں کر سکا تھا اور نہ ہی اس تحریک کو آگے کا رستہ دکھا سکا ہے۔ درحقیقت اس تھریک کی روح رواں اور قیادت کرنے والی عوامی ایکشن کمیٹیوں کی تعمیر کا آغاز بھی مارکسی نظریات سے لیس انقلابیوں نے ہی کیا تھا جبکہ دیگر تمام سیاسی قوتیں ان کی مخالفت کر رہی تھیں۔ انقلاب سے خوفزدہ لوگ تو اس تحریک کا آج بھی ذکر کرنے سے بھی گھبراتے ہیں۔ لیکن درست تجزیے اور تناظر کی بنیاد پرہی وہاں محدود قوتوں کے ساتھ عوامی ایکشن کمیٹیاں تعمیر کی گئیں جو آج پورے آزاد کشمیر میں ایک زندہ حقیقت بن چکی ہیں۔

اسی طرح اس تحریک کے دوران پورے ”آزاد“ کشمیر میں دیگر تمام سیاسی پارٹیاں رد ہو چکی ہیں اور ان کی حمایت ختم ہونے کے بعد وہ ہوا میں معلق ہیں۔ پنجاب میں اساتذہ اور سرکاری ملازمین کی تحریک بھی عوامی تحریک کی قوت کا ہلکا سا نمونہ تھی جس نے حکمرانوں کے تمام منصوبوں کو بڑا دھچکا لگایا۔ اسی طرح گلگت میں قراقرم یونیورسٹی کے طلبہ کی تحریک سے لے کر گوادر کے ماہی گیروں کی تحریک تک ہر جانب تحریکیں ابھر رہی ہیں اور معروض تبدیل ہو رہا ہے۔

اس وقت ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔ انقلابی پارٹی کی تعمیر صرف درست نظریات اور تناظر پر ہی کی جا سکتی ہے۔ سب سے پہلے وہ جرات اور ہمت چاہیے جو موجودہ زوال پذیر نظام کی حدود سے باہر سوچنے کی طاقت دے۔ انقلاب کے عمل میں حصہ لینے سے پہلے اپنی سوچ اور خیالات میں انقلاب پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ یقین پیدا کرنا کہ اس دھرتی پر انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ یہ یقین ہونا کہ بظاہر طاقتور اور حاوی نظر آنے والے حکمرانوں کو ختم بھی کیا جا سکتا ہے۔ دولت کی چمک دمک، اقتدار کی رعونت اور ظلم کرنے والوں کے رعب اور دبدبے سے مرعوب ہونے والے کبھی انقلاب برپا نہیں کر سکتے۔ وہ آخری تجزیے میں مفاد پرستی کا شکار ہو جاتے ہیں اور اسی نظام کے اندر رہ کر حل تلاش کرتے ہیں اور غربت میں کمی کرنے کی بیکار انفرادی یا گروہی کوششیں کرتے ہیں۔ ان بزدلوں اور مفاد پرستوں کا ایک نظریہ اصلاح پسندی بھی ہوتا ہے۔

اصلاح پسندی کا بیہودہ نظریہ

اصلاح پسند یا ریفارمسٹ سمجھتے ہیں کہ اس نظام کے اندر اصلاحات کی گنجائش موجود ہے اور اس طرح چھوٹی سطح پر کچھ مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ بہت زیادہ کوششوں سے کچھ افراد کا چند اصلاحات کے ذریعے ایک چھوٹا سا مسئلہ حل کرنا وقتی طور پر ممکن بھی ہے۔ لیکن یہ ایک تو دیرپا نہیں ہوتا اور دوسرا اس کی گنجائش بھی وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتی جارہی ہے۔ لیکن اصلاحات یا ریفارمز کا مطالبہ کرنا اور اصلاح پسندی یا ریفارم ازم کو ایک نظریے کے طور پر اپنا لینا بالکل مختلف عمل ہے۔ اصلاح پسندی یا ریفارم ازم کے نظریے کے مطابق چھوٹی چھوٹی اصلاحات کے ذریعے بتدریج تمام مسائل حل کیے جا سکتے ہیں اور سرمایہ داری جیسے ظالمانہ اور استحصالی نظام کو بھی عوام کے لیے رہنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔

ان کے فرسودہ نظریے کے مطابق اس نظام میں رہتے ہوئے ہی غربت اور بیروزگاری ختم ہو سکتی ہے یا اس میں کمی ہو سکتی ہے، جمہوریت کا بول بالا ہو سکتا ہے، فوج کی سیاست میں مداخلت ختم ہو سکتی ہے، امیروں پر ٹیکس لگائے جا سکتے ہیں اور یہاں تک کہ قومی جبر بھی ختم ہو سکتا ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ سرمایہ دارانہ نظام میں ممکن نہیں اور اس نظام کی بنیاد ہی ظلم، نا انصافی اور استحصال پر ہے۔ اس نظام میں اگر ہزار لوگوں کو روزگار ملتا ہے تو لاکھوں مزید بیروزگار ہو جاتے ہیں، تنخواہوں میں کچھ اضافہ ہوتا ہے تو مہنگائی کی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح جنگوں، قحط سالیوں، قدرتی آفات اور دیگر مسائل سے بہت سی چھوٹی چھوٹی اصلاحات اچانک ہی غرق ہو جاتی ہیں اور محنت کشوں کی تمام عمر کی دن رات کی کمائی ایک لمحے میں ہی ختم ہو جاتی ہے۔ حالیہ افراط زر کے ہی سیلاب کو دیکھ لیں۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کی حالیہ تیز ترین گراوٹ کو ہی دیکھ لیں۔ جن لوگوں نے دہائیوں کی محنت سے چند لاکھ یا حتیٰ کہ کروڑ روپے بھی اکٹھے کیے تھے وہ ایک ہی جھٹکے میں کوڑیوں میں بدل چکے ہیں اور تمام چھوٹی اور درمیانی سرمایہ کاریاں ڈوب چکی ہیں۔ اسی طرح کسی نے دن رات کی مشقت سے اپنی اجرتوں میں اضافہ کروایا تھا تو مہنگائی کے حملے نے اسے واپس تیس یا چالیس سال پیچھے دھکیل دیا ہے اور اس کا تمام کیرئیر زیرو پر آ چکا ہے۔

اسی طرح اصلاح پسندانہ سوچ کی ناکامی سیاست میں واضح طور پر بھی نظر آتی ہے۔ جو لوگ یہ سوچتے تھے کہ عمران خان اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے کرپشن ختم کرے گا وہ لوگ آج کل شدید ہیجان کا شکار ہیں اور خود عمران خان کی کرپشن کے قصوں کو ہونقوں کی طرح دیکھ رہے ہیں۔ وہ اس سب کو حقیقت ماننے سے ہی انکار کر رہے ہیں اور ہر وقت خیالی دنیا میں بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کے نزدیک سیہ سب سازش ہوئی ہے اور عمران خان واقعی حقیقی تبدیلی لانا چاہتا تھا لیکن اسے ٹیم اچھی نہیں ملی۔ لیکن پہلے یہی لوگ کہتے تھے کہ اوپر کپتان اچھا ہو تو نیچے سب کچھ خود ہی ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اسی طرح نواز شریف کے ذریعے جرنیلوں کی سیاست میں مداخلت ختم کرنے کا خواب دیکھنے والے بھی سر اور منہ میں مٹی ڈال کر سڑکوں پر بھاگنے کے خواب دیکھتے ہیں۔ اگر وہ اس امید پر کچھ عرصہ مزید قائم رہے تو یہ خواب حقیقت میں بھی بدل سکتا ہے۔ موجودہ سیاسی پارٹیوں یا پارلیمانی نظام کے ذریعے کسی بھی اصلاح پسندی کی امید رکھنا ہی بیوقوفی ہے۔ ایک وقت میں ایک سیاسی پارٹی چند جرنیلوں کی مخالفت کرتی ہے تو دوسروں کی حمایت سے پھر اقتدار میں آ جاتی ہے۔ اسی طرح مظلوم قومیتوں کو ترقی اور خوشحالی کے خواب دکھا کر سامراجی لوٹ مار تیز کر دی جاتی ہے۔

یہیں ہم اصلاح پسندی کے نظریے کا جنازہ نکلتے دیکھتے ہیں۔ اصلاح پسند پہلے یورپ کی ترقی کی مثال زور و شور سے دیتے تھے لیکن اب وہاں بھی سرمایہ داری کا اصل بھیانک چہرہ نظر آ رہا ہے اور جمہوری حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔وہاں بھی امیر اور غریب کا فرق بڑھ رہا ہے اور ظلم اور انصافی کا دور دورہ ہے۔ ایسے میں پسماندہ ممالک میں اصلاح پسندی کا نظریہ اپنی موت مر رہا ہے۔

دوسری جانب جب انقلابی کسی جمہوری مطالبے کی حمایت کرتے ہیں تو وہ لازمی طور پر اسے انقلاب کی حتمی منزل کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ انقلابیوں کی ہر جدوجہد کی بنیاد میں یہ نظریہ موجود ہوتا ہے کہ اس نظام میں حتمی طور پر عوام کا کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا اور اس کے لیے اس نظام کو ختم کرنا پڑے گا۔ 1917ء میں بالشویک پارٹی نے اسی نظریے کی بنیاد پر زار کی انتہائی جابر اور ظالم ریاست کا خاتمہ کیا تھا۔ اس سے چند ماہ قبل تک کوئی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دنیا کی اتنی طاقتور ریاست اور صدیوں سے قائم زار کی بادشاہت کو کوئی انقلاب شکست بھی دے سکتا ہے۔ لیکن سوشلزم کے انقلابی نظریات کی بدولت یہ ممکن ہوا۔ بظاہر ناممکن نظر آنے والے عمل کا جب آغاز ہوا تو عوام کی طاقت کے سامنے زار کی طاقتور ترین ریاست تنکوں کا ڈھیر ثابت ہوئی۔ اس کے بعد کی پوری ایک صدی انقلابات اور عوامی بغاوتوں کی تاریخ ہے جن کی تفصیل بیان کرنا یہاں ممکن نہیں۔

سری لنکا میں ہم پچھلے سال یہی کچھ دیکھ چکے ہیں لیکن وہاں لینن، ٹراٹسکی اور بالشویک پارٹی جیسی انقلابی قیادت نہ ہونے کی وجہ سے سرمایہ داری کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ آنے والے عرصے میں یہاں بھی سری لنکا جیسی عوامی تحریک ابھرے گی۔ مارکس اور اینگلز کے الفاظ میں جو کچھ ٹھوس ہے ہوا میں تحلیل ہو جائے گا اور جو کچھ مقدس ہے ناپاک ہو جائے گا۔ انقلاب سماج کی ترتیب الٹ دے گا۔

سب سے پچھڑے اور کچلے ہوئے اقتدار حاصل کریں گے اور آج کے حکمران برباد ہو جائیں گے۔ تخت گرائے جائیں گے اور تاج اچھالے جائیں گے۔ ہم لازمی طور پر یہ سب ہوتا ہوا دیکھیں گے۔ لیکن اس نظام کو ختم کرنے کے لیے ایک انقلابی پارٹی کی ضرورت ہو گی۔ ہم اسی پارٹی کی تعمیر کر رہے ہیں۔ اگر آپ اس کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو ہم سے رابطے کریں اور اس انقلابی کاروان کا حصہ بنیں۔

سچے جذبوں کی قسم جیت ہماری ہی ہو گی!

Comments are closed.