کوہستان: ہیلی کاپٹر کی عدم دستیابی کے باعث پانچ بھائی سیلابی ریلے میں بہہ گئے؛ قاتل کون؟

|تحریر: ولید خان|

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟

آج صبح سے دوبیر وادی، کوہستان، خیبر پختونخواہ کی ایک دلخراش اور ہولناک ویڈیو سوشل میڈیا پر چل رہی ہے۔ ویڈیو میں پانچ بھائیوں کو دیکھا جا سکتا ہے جو اچانک نمودار ہونے والے سیلابی ریلے کی زد میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سیلابی ریلے میں ایک پتھر پر پھنسے یہ پانچ بھائی مدد کے لئے چلاتے رہے اور کناروں پر کھڑے لوگ پانچ گھنٹے اپنی لاچارگی کو کوستے رہے۔ کئی ایک نے مقامی حکومت کی منتیں کیں کہ انہیں بچایا جا سکتا ہے لیکن اس کے لئے ہیلی کاپٹر درکار ہے لیکن سرمایہ داروں کی دلال سنگدل حکومت کے کانوں میں جوں تک نہ رینگی۔ جب سیلابی ریلا بہت زیادہ بڑھ گیا تو آخری کوشش میں کنارے پر کھڑے لوگوں نے ایک رسی کی مدد سے بھائیوں کو بچانے کی کوشش کی لیکن اگلے ہی لمحے سیلابی ریلا سب کو بہا کر لے گیا۔ اس حوالے سے متضاد رپورٹیں ہیں کہ ایک کی شائد بچت ہو گئی ہے لیکن دیگر ذرائع کے مطابق یہ درست نہیں۔ اس واقعے کی ہولناکی دیکھنے والے کے رونگٹے کھڑے کر دیتی ہے اور کوئی بھی حساس شخص یہ ویڈیو دیکھنے کے بعد اپنے دل پر قابو نہیں رکھ سکتا۔ انسانی بے بسی اور قدرتی آفت کے سامنے لاچارگی کے ساتھ ساتھ حکمران طبقے کی بے حسی، نااہلی اور عوام دشمنی کی جتنی بھی مذمت کی جائے اتنی ہی کم ہے۔ ریاستی اداروں کی بر وقت مداخلت سے ان قیمتی جانوں کو یقینی طور پر بچایا جا سکتا تھا۔ اگر مناسب حفاظتی اقدامات موجود ہوتے یا تربیت یافتہ عملہ یا ضروری سامان وہاں مہیا کیا جاسکتا تو اس دلخراش واقعے کا بہت ہی بہتر انجام ہو سکتا تھا۔ لیکن اس ملک کے سفاک اور بھیڑیے نما حکمرانوں سے ایسی کوئی بھی توقع رکھنا بیوقوفی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ واقعہ کوئی اکلوتا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس طرح کے درجنوں واقعات حالیہ دنوں میں رونما ہو چکے ہیں اور ان میں سے کچھ کی ویڈیوز بھی وائرل ہوئی ہیں لیکن کسی بھی حکمران کی جانب سے کوئی مذمتی بیان سامنے نہیں آیا اور نہ ہی میڈیا مالکان نے ان واقعات کو رپورٹ کرنا ضروری سمجھا ہے۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ کوئی آخری واقعہ نہیں اور انفراسٹرکچر کی بربادی اور تباہی آنے والے دنوں میں اس سے بھی بڑے حادثوں اور سانحوں کو جنم دے گی اور حکمران طبقہ اسے کسی نہ کسی جھوٹی دلیل یا بہانے کے ذریعے نظر انداز کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔ اس عمل میں تمام سیاسی پارٹیوں کی قیادتیں اور ریاستی اداروں کے سربراہان شامل ہیں اور یہ سب مل کر عوام کا کون پینے اور گوشت نوچنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ ان کے اپنے خاندان بیرونی ممالک میں پر تعیش زندگیاں گزار رہے ہیں۔

یہ ویڈیو اس وقت پورے پاکستان میں پھیلی تباہی و بربادی اور حکمرانوں کی سفاکی کی ایک جھلک ہے۔ اس وقت سندھ، بلوچستان، جنوبی پنجاب، خیبر پختونخواہ، کشمیر اور گلگت کے متعدد علاقے تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔ کوئٹہ سمیت بہت سے اہم شہر وں میں بھی لوگ بھی مضافات کی طرز پر ٹینٹ اور امدادی چھپروں کے نیچے جان بچائے بیٹھے ہیں۔ کوئٹہ شہر میں دو روز سے مسلسل بارش جاری ہے اور بڑے پیمانے پر مکانات کے گرنے کا خطرہ موجود ہے۔ حکومت کی جانب سے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ شہر بھر میں لوگوں کو گھر خالی کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند ہو چکی ہے۔ اسی طرح رپورٹوں کے مطابق ملک بھر میں تقریباً 8 لاکھ ایکڑ زرعی زمین، 11 لاکھ سے زائد مویشی، لاکھوں مرغیاں، لاکھوں ایکٹر پھلوں کے باغات، لاکھوں گھر، سینکڑوں دیہات اور قصبے ختم ہو چکے ہیں۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق اب تک ایک ہزار کے قریب اموات ہوئی ہیں جبکہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ لاکھوں مرد، عورتیں، بوڑھے اور بچے کھلے آسمان کے نیچے بھوکے پیاسے وبائی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ لاکھوں لوگ بے سروسامانی کی حالت میں دربدر ہو رہے ہیں۔ صوبوں کے آپسی اور اندرونی راستے تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔ ریاست ان کی مدد کو آ نہیں رہی اور عام لوگوں کیلئے امدادی سامان و کاروائیاں کرنا ممکن نہیں رہا۔ بہت سے بند، پل، سڑکیں اور راستے تباہ ہو چکے ہیں۔ یہاں تک کہ متاثرہ علاقوں میں ہر قسم کا موبائل اور مواصلاتی رابطہ منقطع ہو چکا ہے جس سے ملک کے وسیع علاقوں کی درست صورتحال بھی حاصل ہونے میں دشواری ہو رہی ہے۔

مون سون کی ان تباہ کن بارشوں کی پیش گوئی کئی مہینوں سے جاری تھی جبکہ موسم کے آغاز سے ہی ہر جگہ سے بارشوں کے طوفانوں کی خبریں آ رہی تھیں۔ لیکن سرکاری و نجی ٹی وی اور اخبارات میں کہیں کوئی خبر نہیں آئی، کوئی سنجیدہ بحث مباحثہ نہ ہوا اور نہ ہی ریاست کی کوئی حکمت عملی پر پریس کانفرنس ہوئی۔ ہاں، لیکن سارا دن سفاک ریاست کے دلالوں، حکمران طبقے کی سیاسی پارٹیوں کے کتوں اور میڈیا پر بیٹھے ان کے تلوے چاٹ غلاموں نیباہمی فروعی لڑائی کا ایک طوفانِ بدتمیزی چمکائے رکھا تاکہ ملک کو درپیش حقیقی مسائل پر کوئی گفتگو نہ ہو۔ عوام کو میڈیا کے ذریعے صبح شام صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ کسی جرنیل کی تقررییا تعیناتی اہم ہے، موت کا سوداگر کونسا جج اب اہم فیصلہ کرنے والا ہے، عوام کے خون پسینے کی کمائی پر پلنے والے کونسے سانڈ بیوروکریٹ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور کس سیاسی پارٹی کا کونسا سامراجی بوٹ چاٹ دلال کرسی پر براجمانی کی کوشش کر رہا ہے۔ پہلے ہی ملک کی عوام خوفناک مہنگائی، بیروزگاری، بھوک و ننگ، لاعلاجی، جہالت، خودکشیوں، قتل و غارت گری، دہشت گردی اور تباہ حال سماج میں پس رہی تھی اور اب رہی سہی کثر پورے ملک میں سیلاب پوری کر رہے ہیں جو درحقیقت حکمران طبقے کی نااہلی، غفلت اور عوام دشمنی کا نتیجہ ہے۔

سوشل میڈیا پر روازنہ تباہ حال خاندانوں اور برباد علاقوں کی ویڈیوز پچھلے ایک مہینے سے چل رہی ہیں لیکن مجال ہے کہ اس سفاک خون کی پیاسی ریاست کے ماتھے پر بل آیا ہو۔ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (NDMA)، صوبائی و وفاقی حکومتیں صرف لوٹ کا مال بٹورنے میں مصروف ہیں۔ گوکہ اب سیلاب کی شدت اور انفراسٹرکچر کی تباہی اتنی شدید ہو چکی ہے اور عوامی بغاوت کا خوف اتنا بڑھ چکا ہے کہ مجبوراً ٹی وی اور اخبارات میں کچھ نہ کچھ ذکر کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن سارا ملبہ قدرتی آفات، موسمیاتی تبدیلیوں اور ”جاہل عوام“ کی غیر سائنسی طرزِ زندگی پر ڈالا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار دنیا میں سب سے زیادہ متاثر ہ علاقہ برِ صغیر ہے لیکن یہ بات پچھلی کئی دہائیوں اور خاص طور پر پچھلے چند سالوں سے ریاست کو معلوم تھی۔ اس حوالے سے کوئی پیشگی پلاننگ، کوئی وسائل کی تعمیر یا عوام کی آگاہی اور حفاظتی اقدامات کے لیے ٹریننگ نہیں کی گئی نہ ہی ریاست نے اس کے لیے وسائل اور افرادی قوت مہیا کیے ہیں۔ اس ریاست نے جس قسم کی لوٹ کھسوٹ کرونا وبا میں کی اس سے اندازہ ہو چکا تھا کہ یہ اب عوام کی نعشوں کا ریٹ لگوا کر پیسے ہی بٹور سکتی ہے۔

اس جرم میں حکمران طبقے کے سب حصے شامل ہیں۔ کوئی سیاسی پارٹی ایسی نہیں جو صوبائی حکومت میں نہ ہو، کوئی بیوروکریٹ ایسا نہیں جو کسی تحصیل یا ڈسٹرکٹ میں حصہ وصولی نہ کر رہا ہو، کوئی سرمایہ دار ایسا نہیں جس نے اربوں کھربوں کی ٹیکس چوریاں کر کے ملکی وسائل پر نقب نہ لگائی ہو اور کوئی جج اور جرنیل نہیں جو کرپشن اور عوام دشمن پالیسیوں میں شریک کار نہ ہو۔ بلکہ چند ایک تباہ حال مقامات پر نام نہاد غلاظت میں ڈوبے سیاست دانوں نے عوامی گناہوں اور اعمال کو سیلابوں اور تباہ کاریوں کی وجہ بنا دیا!

اس تمام صورتحال میں حکومت سمیت تمام ریاستی اداروں کی اولین ترجیح عوام کو ریلیف دینے کی بجائے اپنی پبلسٹی کرنا ہے جس کے لیے اشتہار بازی پر کروڑوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں جبکہ امدادی سامان متاثرین تک پہنچانے کا کام صرف چند مقامی افراد یا درد دل رکھنے والے رضاکار کر رہے ہیں۔ لیکن جس بڑے پیمانے پر تباہی پھیل چکی ہے اس میں ان افراد کی کاوشیں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں جس کے باعث ایسے افراد مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امدادی کام کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کیخلاف احتجاجی تحریک بھی منظم کی جائے اور تمام سرکاری وسائل کو امدادی کام کے لیے فوری طور پر مہیا کیے جانے کامطالبہ کیا جائے۔ حکمران طبقہ اس حوالے سے روایتی ہٹ دھرمی اور بے حسی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اس کے لیے یہ قدرتی آفت بیرونی ممالک سے لوٹ مار کے لیے ڈالر اکٹھا کرنے کا ایک سنہری موقع ہے جسے وہ بالکل بھی ضائع نہیں کرنا چاہتے لیکن دوسری جانب عوام تک کوئی بھی ریلیف یا حفاظتی انتظامات نہیں پہنچ پا رہے۔ متاثرہ علاقوں میں وبائیں پھوٹنے سمیت دیگر امراض اور معاشی تباہی کے پھیلنے کے امکانات ہیں لیکن اس حوالے سے کوئی بھی حکومتی پالیسی موجود نہیں۔ اسی طرح جتنے بڑے پیمانے پر زرعی زمینیں متاثر ہوئی ہیں اور کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں اس سے ملک میں خوراک کی قلت کا ایک بحران جنم لینے والا ہے جو پھرذخیرہ اندوزوں، آڑھتیوں اور حکمران طبقے کے افراد کی دولت میں اضافے کا باعث بنے گا جبکہ لاکھوں لوگ بھوک اور قحط سالی کے ہاتھوں موت کا شکار بنیں گے۔

اگر سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنا ہے اور عوام کی فوری طور پر داد رسی کرنی ہے تو اس کے لئے مندرجہ ذیل فوری اقدامات کرنے ہونگے:

1۔ فوری طور پر ملکی ایمرجنسی کا اعلان کر کے تمام بینکوں، مالیاتی اداروں، نجی انفراسٹرکچر جیسے موبائل سروسز، ٹرانسپورٹ وغیرہ فوری طور پر ریاستی قبضے میں لے لیا جائے اور ان وسائل کو امدادی کاروائیوں کے لئے استعمال کیا جائے۔

2۔ نجی صنعتوں اور فیکٹریوں کو ریاستی تحویل میں لے کر فوری طور پر ٹیکسٹائل انڈسٹری، اشیائے خوردونوش انڈسٹری وغیرہ کی پیداوار کو امدادی کاروائیوں پر مرکوز کیا جائے۔

3۔ سرمایہ دار طبقے کو دی جانے والی تمام سبسڈیاں، ٹیکس چھوٹ، مراعات وغیرہ کو فوری طور پر ختم کیا جائے اور ان کے تمام وسائل اور دولت کو سرکاری تحویل میں لیا جائے۔

4۔ تمام سرکاری ہسپتالوں کے بجٹ میں فوری طور پر 15 فیصد اضافہ کیا جائے، نجی ہسپتالوں کو سرکاری تحویل میں لے کر عوامی علاج معالجے کے لئے منظم کیا جائے، دوا ساز صنعت کو سرکاری تحویل میں لے کر متحرک کیا جائے، متاثرہ علاقوں میں فوری طور پر ہیلتھ ٹیمیں بھیج کر فیلڈ ہسپتال بنائے جائیں اور ہر سطح پر ٹیسٹ اور علاج مفت کیا جائے۔

5۔ متاثرہ علاقوں میں فوری طور پر فیلڈ سکولوں کا انتظام کیا جائے اور اس ضمن میں اساتذہ کو متحرک کرتے ہوئے پورے ملک میں ہر سطح پر تعلیم مفت کرتے ہوئے بجٹ کا 15 فیصد مختص کیا جائے۔

7۔ تمام ممبر پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلی، جرنیلوں، ججوں، بیوروکیٹوں، پولیس اشرافیہ، دیگر سیکورٹی اداروں وغیرہ میں موجود تمام منیجمنٹ کی تنخواہ فوری طور پر ایک مزدور کے بر ابر کر کے تمام مراعات بند کی جائیں۔

8۔ متاثرین کو فوری طور پر قریبی شہروں میں منتقل کر کے وہاں تمام خالی گھر جن کی سب سے زیادہ تعداد متمول علاقوں میں ہے، کو سرکاری تحویل میں لے کر افراد اور خاندانوں کو مفت چھت فراہم کی جائے۔

9۔ پاکستانی افواج، پیراملٹری، پولیس و دیگر کے تمام وسائل، ہیلی کاپٹر، فیلڈ ڈاکٹروں وغیرہ کو امدادی کاروائیوں میں متحرک کیا جائے نیز لاکھوں ریزرو سیکورٹی اہلکاروں کو بھی امدادی کاروائی کے لئے بروئے کار لایا جائے۔

10۔ تمام امدادی کاروائیاں مقامی عوام کی نمائندہ کمیٹیوں کے ساتھ ہم آہنگ کی جائیں۔

Comments are closed.