خیبر پختونخوا سیلاب اور شدید بارشوں کی زد میں؛ حکمران گروہی لڑائیوں میں مصروف

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، خیبر پختونخوا|

اس وقت پورا مکمل سیلاب میں ڈوب چکا ہے۔ بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا، گلگت اور جنوبی پنجاب میں لاکھوں گھر تباہ ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔ لاکھوں مال مویشی بھی مر چکے ہیں۔ پُل اور سڑکیں ٹوٹ گئی ہیں۔ بجلی کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے۔ لوگوں کے پاس کھانے کیلئے راشن ختم ہوگیا ہے اور بوڑھے اور بچے بھوک کا شکار ہیں۔ یہاں تک کہ پینے کیلئے صاف پانی تک محنت کش عوام کو دستیاب نہیں۔ لوگ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں جبکہ علاج کا کوئی انتظام موجود نہیں۔

خیبرپختونخوا میں گزشتہ تین دن سے مسلسل موسلا دھار بارش برس رہی ہے جس کے نتیجے میں سیلابی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ اس وقت دریائے سوات، دریائے پنجکوڑہ، دریائے کابل اور مختلف دوسرے دریاؤں اور برساتی نالوں میں اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ جس کی وجہ سے کئی مکانات اور ہوٹل تباہ ہو چکے ہیں۔ سڑکیں بہہ گئی ہیں، پل ٹوٹ چکے ہیں، برساتی نالوں اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے ہزاروں مسافر مختلف جگہوں پر پھنس چکے ہیں۔ کئی گاڑیاں سیلابی پانی میں بہہ چکی ہیں اور کئی اموات واقع ہوچکی ہیں۔

یہ سیلابی پانی پختونخواہ کے میدانی علاقوں میں داخل ہونے والا ہے جس سے وہاں پر زیادہ تباہی ہوگی۔

اس تمام صورتحال میں حکومت اور ریاست کہیں پر نظر نہیں آرہی۔ حکومت کی طرف سے کوئی امدادی کاروائی نہیں کی جا رہی۔ کوہستان میں پانچ بھائی سیلابی ریلے میں پھنس گئے اور کئی گھنٹے تک انتظار کی باوجود حکومت کی طرف سے کوئی امداد نہ ملنے کی وجہ سے پانی میں ڈوب کر مر گئے، جس کچھ اطلاعات یہ آ رہی ہیں کہ ان میں ایک کو بچایا جا چکا ہے البتہ یہ بھی کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے۔

ایک طرف حکمران طبقے کے عیاشیوں، الیکشن کمپئین اور ذاتی استعمال کیلئے سرکاری ہیلی کاپٹروں کا بے دریغ استعمال کیا جا تا ہے جبکہ دوسری طرف لوگوں کی قیمتی زندگیوں کو بچانے کیلئے حکمرانوں کے پاس وسائل نہیں۔ ایسے میں عام عوام اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کاروائیاں کر رہے ہیں اور کئی قیمتی جانیں خود بچائیں ہیں۔ اگر حکومتی وسائل عام لوگوں کو دستیاب ہوتے تو عام عوام بہتر طریقے سے سیلاب کی تباہ کاریوں سے اپنے آپ کو بچا سکتے تھے۔

حکمران طبقہ سیلابی تباہی پر دل ہی دل میں خوش ہو رہا ہیں اور اس انتظار میں ہے کہ اب باہر سے کتنے ڈالر امداد کی مد میں ملیں گے۔ اسی لیے ہم نے دیکھا کہ تب حکومت نے کوئی ایکشن نہیں لیا جب تک باہر سے امداد کی یقین دہانیاں نہیں شروع ہوئیں۔

خیبرپختونخوا میں یہ پہلا سیلاب نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی سیلاب آچکے ہیں۔ 2010ء میں پختونخوا میں ایک خطرناک سیلاب آیا تھا جس سے بھاری نقصان ہوا تھا۔ لیکن اس کے بعد بھی حکومت کی طرف سے سیلاب سے نمٹنے کیلئے کوئی حکمت عملی نہیں بنائی گئی۔ اس بار پھر وہی صورتحال ہے۔ یہاں کے حکمران نا اہل تو ہیں ہی مگر اس سے بھی بڑھ کر انتہائی بے حس بھی ہیں۔ انہیں اس بات کی رتی برابر بھی پرواہ نہیں کہ سینکڑوں لوگ مر رہے ہیں۔

ایسے میں دریاؤں کے کنارے اثر و رسوخ رکھنے والے افراد نے غیر قانونی طور پر ہوٹل اور مارکیٹیں بنائی ہوئی ہیں۔ انہوں نے دریاؤں کی زیادہ تر زمین گھیری ہوئی ہے۔ لہٰذا جب سیلاب آتا ہے تو اِن عمارتوں کو تو نقصان پہنچتا ہی ہے لیکن اس کی وجہ سے پانی کا بہاؤ آبادی کی طرف ہو جاتا ہے اور عام عوام کا زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ دریاؤں کے کنارے اس غیر قانونی کنسٹرکشن کے خلاف انتظامیہ کچھ نہیں کرتی بلکہ اکثر رشوت وغیرہ لے کر اس کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ ان عمارتوں کے مالک سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے سرمایہ دار ہوتے ہیں جن کا مختلف سیاسی پارٹیوں کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اور اکثر وزراء خود اس میں حصہ دار ہوتے ہیں۔ سوات میں اس وقت مختلف ہوٹلوں کے سیلاب میں بہہ جانے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں ان ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ عمارتیں زیادہ تر دریاؤں کی زمین پر ہی بنی ہوئی ہیں۔

پچھلے کچھ عرصے کے دوران بارشوں، برفانی طوفانوں، خشکی، گرمی اور سردیوں میں غیر معمولی اضافہ دراصل موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ موسمیاتی تبدیلیاں سرمائے کی ہوس پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے اور اس سے بچنے کیلئے اس نظام کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔ سرمایہ داری کا متبادل سوشلسٹ نظام ہی وہ واحد نظام ہے جس میں سماج کی ساری دولت مزدور یاست کے کنٹرول میں ہوتی ہے اور تمام انسانوں کی فلاح کیلئے استعمال کی جاتی ہے نہ کہ مٹھی بھر سرمایہ داروں کے منافعوں کیلئے۔ لہٰذا صرف سوشلزم میں ہی موسمیاتی تبدیلیوں کا مستقل حل نکالا جا سکتا ہے۔

Comments are closed.