’’آزاد‘‘ کشمیر: 5 فروری کو بجلی بلوں کے خلاف عوامی ایکشن کمیٹی کا کشمیر بھر میں پہیہ جام و شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کشمیر|

نام نہاد آزادکشمیر میں تقریباً 6 ماہ سے مہنگائی کے خلاف محنت کش عوام کی تحریک طویل ترین ہونے کے علاوہ دیگرکئی حوالوں سے منفرد تاریخی اہمیت حاصل کر چکی ہے۔ سات دہائیوں میں پہلی بار پورے نام نہاد آزاد کشمیر کے عوام کسی ایشو پر ایک ساتھ تینوں ڈویژنز کے اندر سڑکوں پر نکلے ہیں اور بارہا کامیاب ہڑتالیں کی ہیں۔ طلبہ، تاجران، ٹرانسپورٹرز اور وکلاء سمیت معاشرے کی ہر وہ پرت تحریک کے ساتھ بھرپور قوت کے ساتھ کھڑی ہوئی جو مہنگائی اور معاشی بد حالی سے بری طرح متاثر ہو رہی تھی۔ اجتمائی شعور معیاری طور پر تبدیل ہو کر سڑکوں اور چوکوں چوراہوں پر بغاوت پر اتر آیاہے، لیکن 10 اکتوبر کو آزاد کشمیر بھر میں ایکشن کمیٹی کی کال پر خواتین نے مزاحمتی جدوجہد کی وہ مثال قائم کی جواس خطے کی انقلابی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی اور باعثِ تقلید رہے گی۔ پہلی بار خطے بھر کے عوام کی نمائندہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی طرز کے فورم کی تشکیل اور اس کی کال پر متعدد کامیاب ہڑتالیں مزاحمتی جدوجہد کے نقطہ نظر سے آگے کا ایک قدم ہے۔

مجموعی طور پر لاکھوں کی تعداد میں پسے ہوئے محنت کش عوام اس تحریک میں سرگرمِ عمل رہے ہیں۔ اگرچہ ریاستی حکمران اور ان کی دلال سیاسی پارٹیاں اور قیادتیں تحریک میں متحرک کارکنان اور قیادت کو انتشار پسند اوربیرونی ایجنٹ قرار دے رہے تھے۔ وسیع تر عوام کی شدت پکڑتی تحریک نے بے حس حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ مزاکرات کے عمل کا آغاز ہوا، جائز مطالبات تسلیم کرتے ہوئے حل کرانے کی منافقانہ یقین دہانی کرائی گئی، ساتھ کٹھ پتلیوں کی بے بسی اور بے اختیاری کا رونا رویا گیا۔

تقریباً 2 ماہ سے جاری مزاکراتی عمل میں کوئی واضح پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ مزاکراتی عمل کی طوالت اور حکومت کے طرزِ عمل سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ حکومت تاخیری حربے استعمال کرتے ہوئے تحریک کی شدت کم کرنا چاہتی ہے۔ 30 نومبر کو ایک طرف مذاکراتی عمل جاری تھا دوسری طرف مختلف اضلاع میں لوگوں کے بجلی کے کنکشنز کاٹے گئے جو عوام نے مرکزی شاہراہیں بند کر کے بحال کرائے۔ ابھی تک تحریکی کارکنان پر قائم مقدمات پوری طرح ختم نہیں کئے گئے بلکہ پونچھ ایکشن کمیٹی کے ایک رہنما پر غیر قانونی بجلی استعمال کرنے کا بے بنیاد مقدمہ قائم کر لیاگیا ہے جو مذاکرات میں طے شدہ شرائط کی صریحاً خلاف ورزی اور مذاکراتی عمل کو ثبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔

حکومت بجلی بلات کے بائیکاٹ سے بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور کسی طرح ریکوریز کو بہتر بنانے کیلئے بے چین ہے۔ انتظامیہ کی دھونس اور اب علماء سے بجلی بلات جمع کرانے کیلئے فتوے جاری کرائے جا رہے ہیں جس سے یہ صاف لگ رہا ہے کہ مذاکراتی عمل محض دکھاوا اور وقت گزاری کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے پیداواری لاگت پر بجلی کی فراہمی کے مطالبے پر حکومتی جھوٹ اور منافقت سب پر عیاں ہے کیونکہ وزیر اعظم آزادکشمیرخود بار ہا مختلف فورمز پر وفاق سے پیداواری لاگت 2.59 روپے فی یونٹ بجلی فراہم کئے جانے کی درخواست کر چکے ہیں۔

اب حکومت کی طرف سے پیداواری لاگت کو کئی گنا بڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے اور ابھی تک کوئی قابلِ ذکر ریلیف کی پیشکش نہیں کی جا رہی ہے۔ اسی طرح چارٹر آف ڈیمانڈ میں شامل ایک مطالبے حکمران اشرافیہ کی مراعات میں کمی کے باکل الٹ حکومت نے اسی ہفتہ ہاؤس رینٹ کی مد میں ممبران اسمبلی کیلئے ماہانہ 40 ہزار روپے کا اضافہ کر دیا ہے۔ 10 دسمبر کو مذاکرات کے تیسرے مرحلے میں بھی کسی پیش رفت کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ حکومت عوامی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی۔ عالمی مالیاتی اداروں کے قرض پروگرام جاری رکھنے کیلئے بنیادی شرط کٹوتیوں اور نجکاری وغیرہ کے عوام دشمن عمل کو جاری رکھنا ہے۔ گزشتہ ماہ گلگت بلتستان کے عوام نے آٹے پر مثالی جدوجہد کے بعد سبسڈی حاصل کی تھی اسے بھی ٹارگیٹڈ سبسڈی کے نام پر ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے، جس کے خلاف دوبارہ عظیم الشان احتجاجی تحریک شروع ہو چکی ہے۔

عوام آٹے پر مناسب سبسڈی کی مانگ کر رہے ہیں جبکہ حکومت مالیاتی بحران کے باعث پاسکو کی مقروض ہوتی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں حکومت کو آئے روز گندم سپلائی کی بندش کا بھی سامنا کرنا پڑتاہے۔ پہلے ہی آبادی کی ضروریات کے مطابق سرکاری آٹے کی مقدار (ایلوکیشن) میں اضافے کے بجائے کمی کر دی گئی ہے جس کے نتیجے میں ہر علاقے میں عوام کو آٹے کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب تحریک ابھی جاری ہے۔ اگر کبھی تحریک کمزور یا پسپا ہو گئی تو حکومت کی جانب سے معاشی و انتقامی حملے اس شدت سے کئے جائیں گے جس کا ابھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

اگرچہ مذاکراتی عمل میں شامل ہونا ایکشن کمیٹی کا درست عمل تھا لیکن حکومت پر دباؤ بنائے رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ ساتھ ساتھ موثر انداز میں احتجاجی تحریک کے اگلے اور سنجیدہ مرحلے کی تیاری بھی کی جائے۔ طوالت پر مبنی مذاکراتی عمل میں پرجوش عوامی تحرک کو قائم رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ بجلی بلوں کے بائیکاٹ کی مہم اگرچہ ابھی تک حکومت کے لئے ایک چیلنج ضرور ہے لیکن سماج کی تمام پرتوں کا ہمیشہ ایک ہی شعوری سطح پر مستقل مزاجی سے قائم رہنا آسان نہیں ہوتا جبکہ ان کے مخالف طبقات تحریک کو کمزور اور تقسیم کرنے کے درپے ہیں۔

عوام نے اپنے حصے کا کردار بھرپور انداز میں ادا کیا ہے اور اگر درست طریقے سے لڑائی کو آگے بڑھایا گیا تو آئندہ کیلئے بھی پر عزم ہیں۔ اب اصل امتحان مرکزی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا ہے کہ وقت وحالات کا درست تجزیہ کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔ مذاکراتی عمل کو فیصلہ کن بنانے کیلئے حکومت پر دباؤ بڑھائیں۔ یقیناً مذاکراتی ٹیبل پر اپنا کیس موثر انداز میں پیش کرنا اور اس پر لڑنا اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے لیکن اصل میدان جدوجہد کا میدان ہے جہاں عوام نے اپنی طاقت کی بنیاد پر حکمرانوں کو مجبور کیا کہ وہ مطالبات کو درست اور مسائل کو حل طلب تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس سے پہلے کہ عوام مایوسی اور تھکاوٹ کا شکار ہوں اب قیادت کو عوام کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ بجلی بلوں کے بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ کشمیر بھر میں عوامی کمیٹیوں کی ذیلی سطح پر تشکیل کے بغیر تحریک کو ٹوٹ پھوٹ سے زیادہ دیر تک بچانا آسان نہیں ہوگا۔

کوئی بھی تحریک لامتناہی طور پر ایک ہی سطح پر نہیں چل سکتی۔ سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں موجود لاکھوں کی تعدادمیں موجود محنت کشوں کو تحریک کے ساتھ ابھی تک نہ جوڑ پانا تحریک کی سب سے بڑی کمزوری ثابت ہوئی ہے۔ اگرچہ سرکاری ملازمین کی عملی شمولیت ایک مشکل فریضہ ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے کیونکہ جن ایشوز کے گرد تحریک بنی ہے ان مسائل کا سامنا چھوٹے ملازمین کو بھی ہے۔ اور وہ تحریک سے ہمدردانہ جذبات رکھتے ہیں، احتجاجات میں شامل ہوتے ہیں۔ ملازمین ایسوسی ایشنز کی حمایت جیتنے کیلئے ابھی تک سنجیدہ کاوش کا بھی فقدان رہا ہے۔ تحریک کی ٹھوس حاصلات کیلئے فیصلہ کن اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔ عوام ایک بار نہیں کئی بار پوری طاقت سے اپنی عملی حمایت ثابت کر چکے ہیں، وقت اور پیسے کی قربانی دے چکے ہیں، ریاستی جبر کا سامنا کر چکے ہیں اور اگر انہیں مایوس کیا گیا تو یقینی طور پر وہ حساب بھی لیں گے۔

ایسے میں آگے بڑھنے کیلئے زیادہ جرات اوراپنی طاقتوں پر اعتماد کرنے کی ضرورت ہے۔ تاحال حکومت کی جانب سے کوئی بھی نتیجہ خیز اقدامات نہیں اٹھائے گئے، اس کے خلاف 5 فروری کو کشمیر بھر میں ایک روزہ پہیہ جام و شٹر ڈاؤ ہڑتال ہوگی۔

Comments are closed.