مادیت پسندی کے دفاع میں ایک بحث

|تحریر: صبغت وائیں |

جیسا کہ ہمیں نظر آتا ہے ہوبہو ویسا نہیں ہے۔ یعنی سائنس والے محض فلسفے کے پیچھے ڈانگ لے کر نہیں دوڑتے، بلکہ ایسا کرنے والے تمام لوگ صرف ”مادیت پسندی“ اور خاص طور پر ”جدلیاتی مادیت“ کو غلط ثابت کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ لیکن اب وہ فلسفہ دان یا منطق دان تو ہیں نہیں کہ کوئی بامعنی بات کر سکیں۔ دوسرے ان کا ادبی ذوق بھی نہ ہونے کے برابر ہی ہے یا پھر اگر ہے بھی تو اتنا کہ اگر یہ وائلن بھی بجائیں تو بھی آئن سٹائن کی طرح کلاسیکی موسیقی نہیں بجائیں گے بلکہ ان کی دھن زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتی ہے، ”بلو بگے بلیاں دا کیہ کریں گی“؟

تو ان حالات میں ان کو یہی کام آسان لگتا ہے کہ اگر یہ سرے سے ”مادے“ ہی کا انکار کر دیں تو شاید کوئی کام بن جائے۔

ہم کہتے ہیں کہ ہماری مادے کی تعریف وہی ہے جو ہزارہا سال پہلے ”لوکا یاتا“ یا ”چار واک“ (ہندوستانی مادیت پسند فلسفے 500 قبل مسیح، تفصیل کے لیے ہماری اسی ویب سائٹ ”لال سلام“ پر ہی ”انسان اور فلسفہ“ نام کا مضمون ملاحظہ کیجیے) نے کی ہے، یا جو یونانی فلسفی ڈیموکریٹسؔ (400 قبل مسیح) نے کی تھی۔ کہ ”جو کچھ بھی سوچ سے آزاد ہمارے ذہن سے آزاد اور ہماری سوچ سے باہر موجود ہے، جس کے بارے میں ہم سوچتے ہیں، سوچ سکتے ہیں، اور جو ہماری سوچ پر نشان چھوڑتا ہے اس کو مادہ کہا جا سکتا ہے۔ اور یاد رہے کہ اس ”مادے“ کے مختلف زبانوں میں مختلف نام ہیں۔ چینی فلسفی لاؤ تزےؔ (600 قبل مسیح) اور ھسن تزوؔ (500 قبل مسیح) بھی مادیت پسند ہی تھا اور یہ دونوں بھی مادے کی تقریباً اسی طرح کی تعریف کرتے ہیں، کہ ہمارے خارج میں چیزیں موجود ہیں۔ یہ بس اتنی سی ہی بات ہے۔ لکھوکھا سال سے تمام انسان، تمام فلسفے اور تمام فطرتی سائنسیں اور کارآمد فنون دنیا اور اشیا کو اپنے گرد مان کر ہی ان پر کام کر کے ان کو اپنے استعمال کے قابل بناتے رہے ہیں، اور پھر ایسا کرتے ہوئے سیکھتے رہے ہیں، اور اس عمل کو بطور سماجی ورثے کے آگے تعلیم کے ذریعے منتقل کرتے رہے ہیں۔ اگر ایسا نہ مانا جاتا تو نہ کوئی فلسفہ ہوتا، نہ فطرتی یا طبیعی سائنس، نہ کوئی کارآمد آرٹ، نہ کوئی سماجی سائنس اور نہ ہی کوئی تخلیقی یا لطیف آرٹ۔

اب آپ کسی بڑے سائنس دان سے پوچھیں، یا کسی عام انسان سے، وہ ایک ہی بات کرے گا کہ ہمارے گردا گرد دنیا اور چیزیں موجود ہیں۔ اور یہ ان گنت یا بے شمار چیزیں ہیں۔ جو کہ کسی ”چیز“ سے بنی ہوتی ہیں۔ یہ جس ”چیز“ سے بنی ہیں ہم ”اسی چیز“ کو مادہ کہتے ہیں۔

اب آپ کسی بڑے سائنس دان سے پوچھیں، یا کسی عام انسان سے، وہ ایک ہی بات کرے گا کہ ہمارے گردا گرد دنیا اور چیزیں موجود ہیں۔ اور یہ ان گنت یا بے شمار چیزیں ہیں۔ جو کہ کسی ”چیز“ سے بنی ہوتی ہیں۔ یہ جس ”چیز“ سے بنی ہیں ہم ”اسی چیز“ کو مادہ کہتے ہیں۔

آگے بحث پر جانے سے پہلے اگر کسی نے سائنس سے اس کی مثال لینی ہے، تو وہ صرف کیمسٹری کے پیریاڈک ٹیبل کو دیکھ لیں، اکیلا ایک پیریاڈک ٹیبل تمام کانٹ پرستوں اور کانٹ پرستی کی موت ہے۔ کیوں کہ یہ تجربے یا حواس کی بنیاد پر نہیں ہے، اس کا ”تجربیت پسندی“ (Empiricism) کی بجائے تعقل سے، منطق سے، ریزن سے یا پیش گوئی کی صلاحیت سے تعلق ہے۔ کہ اگر ہمارے ذہنوں کے باہر کوئی آزاد دنیا ہے، اور ”جانی جا سکتی ہے“ تو وہ آگے اس طرح کی ہو گی۔ کہ ڈیڑھ سو سال پہلے چھوڑے گئے خالی خانے 2020 میں مکمل ہو رہے ہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے، کہ دنیا اور مادہ ہمارے گرد موجود ہے۔ اور وہ نہ صرف جانا جا سکتا ہے، بلکہ اس بارے پیش گوئی بھی کی جا سکتی ہے، جو معلوم ہو گیا وہ تو اس طرح کا ہے، اور باقی اس طرح کا ہو گا۔ یہی چیز پوسٹ ماڈرنزم کے جھوٹ کا پردہ بھی فاش کر دیتی ہے۔ جو کہتے ہیں کہ کسی بھی قسم کے یونیورسل کا یا ایسی سچائی کا وجود نہیں ہے، جو دیکھنے یا سننے والوں سے خارج میں (یعنی معروضی سچائی) موجود ہے۔ ہر ناظر، قاری یا سامع کی اپنی اپنی سچائی ہے، جیسے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ”حسن دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے“۔ یہاں دنیا کے متعدد سائنس دانوں نے پیریاڈک ٹیبل کی تکمیل میں حصہ ڈالا ہے، اور چوں کہ مادے پر، اور معروضیت پر کام تھا، اس لیے ان سب کے نتائج یونیورسل، ایک جیسے اور ہم آہنگ ثابت ہوئے۔

اب یہاں مادے کی مخالفت کرنے والے ”سائنس والوں“ کے پاس اپنے تنخواہ دینے والے آقاؤں کے حکم کی تعمیل میں ”مادے کے خاتمے“ کا صرف ایک ہی طریقہ بچتا ہے، جو کہ بالکل وہی ہے، جس کو ان کے آقا عوام کو دھوکا دینے کے لیے مسلسل برتا کرتے ہیں۔ کہ جس چیز کی مخالفت کرنی ہو اس کی تعریف کو سِرے ہی سے تبدیل کر کے رکھ دیا جائے۔ جیسے انہوں نے ”مادیت پسندی“ کے انسان دوست اور محنت کش طبقات کے نمائندہ فلسفیانہ مکتب کو ”مادہ پرستی“ جیسی گھناؤنی اصطلاح میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ جس کا مطلب دنیا پرستی، عیش طلبی، مال و زر کے پیچھے بھاگنا اور دولت پرست کے مترادف ہے۔ اور عینیت پرستی یا آئیڈیلزم جیسے انسان دشمن اور حکمران طبقوں کے تلوے چاٹنے والے سفلے غلام فلسفے کو ایک حسین و جمیل لفظ کی صورت پیش کیا گیا ہے۔ کہ خوبصورتی، اچھائی، بڑائی اور نیکی کا خواستگار یا چاہنے والا ہونا۔

تو یہاں ان سائنس والوں نے پہلے تو خود سے مادے کی ایک نئی تعریف پکڑی۔ جو کہ فزکس کے محدود دائرے کے اندر یقیناً کارآمد ہی تھی کہ جو چیز جگہ گھیرتی ہے، اور وزن رکھتی ہے، ”مادہ“ ہے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ تعریف مادے کی ”وہ“ تعریف نہیں تھی جو کہ ہزارہا سال سے چلی آ رہی تھی، بلکہ یہ اسی مادے کی فزکس نے اپنا کام چلانے کے لیے اپنے مطابق ایک تعریف کر دی تھی۔ جو کہ اپنی محدودیت کی بنا پر بعد ازاں سائنس دانوں میں شاید کچھ اختلافات کا باعث بنی ہو گی، جب توانائی، اور کچھ ایسے ذرات کے متعلق مباحث سامنے آئے ہوں گے، جو کہ بالکل اسی طرح سے اس زیادہ یونیورسل تعریف سے مطابقت رکھنے میں سائنس دانوں کو مسئلہ کرتے رہے ہوں گے۔ تو اس طرح انرجی، ماس، اور بہت سے دیگر اشیا کا ذکر کیا جانے لگا جس کو ہمارے چارہ گر نہایت ہی چالاکی سے مادے کے وجود ہی کے یکسر غائب ہو جانے کے مترادف قرار دینے پر تُلے ہوئے ہیں۔ کمیت اور توانائی کی بحث چھیڑ کر اعلان فرما دیا گیا ہے کہ مادہ تو (اس تعریف کے مطابق جو فزکس نے خود سے کچھ ہی عرصہ قبل کی تھی) ہے ہی نہیں، جو بھی ہے، وہ توانائی ہی ہے، جس کی ایک جامد قسم کمیت ہے۔ تو اس طرح سے مادہ جس کو لے کر مادیت پسند فلسفی (خاص طور پر جدلیاتی مادیت پسند) یا پھر مارکسسٹ نظریہ دان بات کرتے ہیں، بحث ہی سے خارج ہے۔

اس صورت حال میں جب بھی ہمارا ان سے سامنا ہوتا ہے تو ہمارا ان سے بس ایک ہی سوال ہوتا ہے، کہ یہ توانائی (جس کا جزو آپ کمیت کو بھی بتاتے ہیں) یا اس کو بھی ایک جانب کر دیں تو کیا ’ٹائم سپیس‘ جدید ترین اور آخری (اب تک کی) سچائی کے مطابق محض ہمارے خیالوں کی دنیا میں موجود ہے، جس پر فزکس اور کیمسٹری وغیرہ کے سائنس دان تحقیقات کر رہے ہیں، یا پھر اس کا وجود نہ صرف یہ کہ ہماری سوچ سے آزاد اور باہر موجود ہے؟ اور یہ کہ کیا یہ انرجی اور ماس وغیرہ کا وجود ہماری سوچ سے آزاد اور خیال سے باہر ہے یا نہیں؟ بلکہ ہم خود بھی اسی سے بنے ہیں یا نہیں؟ اور ہم میں سے ہر ایک، اور ظاہر ہے کہ باقی کے سب لوگ ’ایک سوچنے والے‘ کی سوچ سے آزاد اور اس کی سوچ سے باہر موجود ہیں یا نہیں؟ کیا یہ ساری دنیا صرف اسی لیے ہے، کہ میں اس کو سوچتا ہوں؟ یا اس کا کوئی وجود ہے؟

اگر آپ سب یہ مانتے ہیں کہ یہ توانائی یا کمیت یا دونوں محض سوچ کی یا خیال کی پیداوار نہیں ہیں۔ اور ہمارے ارد گرد کائنات موجود ہے، تو یہی ہمارا بھی کہنا ہے، کہ ایسا ہی ہے۔ اب آپ اس کا نام مادہ رکھیں، یا کچھ بھی اور رکھ ڈالیں، اس سے کسی قسم کا کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ ہمارا یہی کہنا ہے، کہ فطرت، دنیا، خارجی حقیقت، ارد گرد، چیزیں، کائنات، مظہرات، عوامل وغیرہ ہمارے گرد نہ صرف موجود ہیں، بلکہ ہم خود بھی اسی کا حصہ ہیں، یہی کچھ ہیں۔

یہاں ہم سے کوئی یہ سوال ضرور پوچھ سکتا ہے کہ بھیا مادے کو ماننے یا نہ ماننے پر آپ مارکسسٹ یا جدلیاتی مادیت پسند اتنی ضد کیوں لگاتے ہو؟ تو ہمیں ان کو بتانا پڑتا ہے کہ ہم محض بحث برائے بحث یا موُشگافیوں کے لیے، یا محض کج بحثی کے لیے، یا اپنی علمیت دکھانے کے لیے ایسا نہیں کرتے بلکہ ہمارے طبقے یعنی محنت کش طبقے کی زندگی اور بقا کا مسئلہ اس بات سے جڑا ہے، کہ مادی دنیا کا وجود ہے یا نہیں ہے۔

باقی مادے کو نہ ماننے سے کیا ہوتا ہے۔ یہ نکتہ یقیناً دل چسپی کا حامل ہونے سے خالی نہیں ہے۔

یہ (مادی) دنیا عارضی ہے، فانی ہے، دھوکا ہے، سراب ہے، فریب ہے، مایا ہے، چھل ہے۔۔۔ہم میں سے کون ہے ایسا جس نے یہ معروف صوفیانہ اور تقدیس آمیز دینداری پر مبنی ریاکارانہ مسکراہٹ سے مرصع جملے نہ سنے ہوں گے؟ اگر کوئی کہے کہ اس نے نہیں سنے، تو واقعی ہماری حیرت کا کہیں ٹھکانہ نہیں ہو گا۔

لیکن جو مرضی کہہ لیا جائے، مولانا طارق جمیل، خدا ان کے دینی اور دنیاوی مال میں مزید ترقی عطا فرمائے، کے تازے ”مولانا طارق جمیل برانڈ“ نے سامنے آ کر عملاً اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت دیا ہے، کہ اصلی اور حقیقی دنیا، یہی والی زمینی اور مادی دنیا ہی ہے جو کہ ہمارے ارد گرد موجود ہے۔ اور اصلی جمع کرنے کی چیز یہی دنیاوی مال و زر ہی ہے۔ بلکہ اور تو اور، اس پر ٹیکس بچانے کا وہ بہترین طریقہ جس کو مارک زکر برگ اور بل گیٹس نے بھی اپنایا ہے، دولت جمع کرنے کے نشے کو دو آتشہ کر دیتا ہے۔ کہ جائداد کو ٹرسٹوں اور مدرسوں کے نام پر جمع کرو، ٹیکس فری آمدنی اکٹھی کرو، ٹرسٹ اور مدرسے نہ صرف خود اپنی ملکیت میں رکھو، بلکہ ایدھی جیسے نیک بزرگ کی ہی طرح اس کی ملکیت اپنے بیٹے کے سپرد کر کے جاؤ۔۔۔جو ایک کروڑ کی خطیر رقم کو ہاتھ کا میل سمجھ کر عمران خان جیسے عیاش بھکاری کو دے آتا ہے۔

ہمارے گرد موجود زمینی اور مادی دنیا کے حقیقی اور لازمی ہونے کا ایک ہیگیلیئن ثبوت یہ بھی ہے کہ آدمی کا اگلی دنیا میں ”کچھ پانے“ کے لیے ”اس دنیا میں“ پیدا ہونا ضروری ہے۔ جو انسان پیدا نہیں ہوتا اس کو ”اُس“ دائمی، حتمی، ابدی، مکمل، نہ ختم ہونے والی اور نہ تبدیل ہونے والی دنیا میں کچھ بھی نہیں ملے گا، جنت نہ جہنم۔ جنت یا جہنم پانے کے لیے لازم ہے، کہ ”اِس“ عارضی، فانی، دھوکے، فریب، چھل کپٹ اور مایا جال والی دنیا میں قدم رنجہ فرمایا جائے۔ ورنہ کچھ نہ ملے گا۔

ان دولت کے دلالوں کے آقا ان کو اسی بات کے پیسے دیتے ہیں کہ یہ ”اس مادی دنیا“ کو یا ”مادے“ کو، جو کہ ”ہے“، ”ثابت کر دیں“ کہ یہ ”نہیں ہے“۔ تاکہ یہ سرمایہ دار اور اس کے گماشتے مادے کو، مادی دنیا کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹ کر، زندگی بھر موج ماریں اور آگے اپنے وارثوں کو ”جائز“ اور ”قانونی“طریقے سے منتقل کر دیں، اور محنت کش سے کہیں، یہاں کچھ نہیں ہے، جو تمہارے پاس ”ہے“، جو مادہ ہے، دنیا کا عارضی و فانی مال بچ گیا ہے، لا کر ہمارے حوالے کر دو۔

یہ تھا ہم مادیت پسندوں کا مقدمہ، اور اس کی مختصر سی روئیداد۔ ہم مادیت پسند محنت کش طبقات کی فطرت پر اور مادے پر کی گئی محنت کو جانتے اور مانتے ہیں، اور فطرت کو انسان کے لیے کارآمد بنانے کے لیے اس کی شکل تبدیل کرنے والے کو نہ ملنے والے اس حق کے حصول کی خاطر جدوجہد کرتے ہیں، جس کو اس مادی دنیا کو چھل فریب، عارضی و فانی اور دھوکا و سراب بتا کر ان کے پاس جو ہے، وہ بھی مختلف ہتھکنڈوں سے ہتھیانے کے لیے حکمران طبقہ اور ان کے مختلف شکلوں کے گماشتے ہر وقت مصروف عمل رہتے ہیں۔ ہم محنت کش سے دھوکا دے کر اس کی چھین لی گئی محنت کے حصول کی جدوجہد کرتے ہیں۔ اس کو بتاتے ہیں، کہ تمہاری محنت مادی دنیا پر کی گئی ہے۔ تمہاری مادے پر کی گئی محنت سے یہ سرمایہ دار، یہ جاگیر دار، یہ ملا، یہ پنڈت، یہ چودھری، وڈیرے، جج، پولیس اور ریاست کے تمام ادارے اور اہلکار اللے تللے کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے محنت کش عوام اپنی پیدا کی گئی وہ تمام مادی دولت ان حکمرانوں سے چھین لے، اور تمام کام کرنے والے انسانوں کو جینے کا برابر موقع ملے، سب کو باعزت روزگار ملے، مفت تعلیم ملے، مفت علاج ملے، مفت ادویات ملیں، کام کرنے کے اوقات کم ہوں۔ کھانے پینے کو صاف ستھری خوراک، صاف پانی اور اعلیٰ پھل سبزیاں دستیاب ہوں۔ قدرت کے ذرائع کو منافعے بڑھانے کی ہوس میں ضائع نہ کیا جائے بلکہ ان کا ضرورت کے مطابق منصوبہ بند معیشت سے استعمال کیا جائے۔ غور کریں تو یہ سب مادیت پسندی ہی سے متعلق نتائج ہیں۔ اسی لیے ہم یہی سمجھتے ہیں، یہی مانتے ہیں، کہ محنت کش عوام جس طرح سے جدلیاتی مادیت کا مادی ہتھیار ہیں، اسی طرح سے صرف اور صرف جدلیاتی مادیت پسند فلسفہ ہی محنت کش عوام کا نظریاتی ہتھیار ہے۔ جس کو اپنا کر اور ہر طرح کے اس فلسفے کو رد کر کے ہی یہ جنگ جیتی جا سکتی ہے، جو کہ مادے کو عارضی، فانی، بے کار، بے معنی یا چھل، فریب، سراب وغیرہ بتائے۔ اس جدوجہد میں ہماری تنظیم عالمی مارکسی رجحان میں شمولیت اختیار کر کے ہمارا ساتھ دیں تاکہ محنت کش عوام اپنا حق جلد سے جلد حاصل کر سکے۔ (شمولیت کیلئے یہاں کلک کریں)

Comments are closed.