انقلابِ روس کی حاصلات

|تحریر: ولید خان|

کسی بھی عہد میں حکمران طبقہ نہ صرف وسائل اور ریاست پر قابض ہوتا ہے بلکہ اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق تاریخ کو بھی مستقل مسخ کرتا رہتا ہے تاکہ ظلم و جبر اور استحصال کے شکار عوام کے ذہن سے ان کی اصل تاریخ ختم کر دی جائے۔ اس گھناؤنے جرم کے لئے تعلیمی اداروں سے لے کر ذرائع ابلاغ، سماج میں ہونے والی بحثوں، یہاں تک کہ روز مرہ زندگی کے طور طریقوں کو بھی بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے دو مقاصد ہوتے ہیں، اول تو یہ کہ اپنی حکمرانی کو ابدی اور دائمی ثابت کرتے ہوئے اسے اخلاقی و قانونی جواز فراہم کیا جائے اور دوم کہ پسے ہوئے طبقات میں بغاوت و انقلاب کی چنگاری کو بجھا دیا جائے۔ پوری دنیا کے حکمران طبقات اس جرم میں ملوث ہیں لیکن پاکستان جیسے ملک میں اس کا خاص اہتمام کیا گیا ہے اور جہاں ایک طرف 69-1968ء کی انقلابی تحریک کی یادیں برباد کر دی گئی ہیں وہیں خاص طور پر 1917ء میں روسی مزدوروں کے تاریخ ساز انقلاب کا ذکر کرنا ہی جرم بنا دیا گیا ہے۔ اکتوبر 1917ء میں ہونے والے اس سوشلسٹ انقلاب نے دنیا کی تاریخ کو ہمیشہ کے لئے بدل کر رکھ دیا۔ روس کے محنت کش طبقے نے بالشویک پارٹی کی سربراہی میں غریب کسانوں،نوجوانوں اور محکوم قومیتوں کی قیادت کرتے ہوئے دنیا کی پہلی باقاعدہ مزدور ریاست تخلیق کی۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ عوام نے ثابت کیا کہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، ساہوکاروں،بینکاروں،پادریوں،ججوں،جرنیلوں اور افسر شاہی وغیرہ کے بغیر بھی نہ صرف ایک سماج کو منظم کیا جا سکتا ہے اور چلایا جا سکتا ہے بلکہ سرمایہ داری کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہو کر نسلِ انسانی کو ترقی اور خوشحالی کی ان دیکھی منزلوں تک بھی پہنچایا جا سکتا ہے۔

انقلاب سے پہلے کا روس

اگر انقلاب سے پہلے کے روس کا آج کے پاکستان سے موازنہ کیا جائے تو بہت سارے بنیادی فرق کے باوجود کئی مماثلتیں بھی موجود ہیں۔ روس میں مطلق العنان بادشاہت زار شاہی موجود تھی جس کی ریاست اور عوام کی زندگی پر دربار اور افسر شاہی کے ذریعے خوفناک گرفت موجود تھی۔ پارلیمنٹ ایک ربڑ اسٹیمپ تھی جس میں موجود سرمایہ دار اور جاگیردار زار شاہی اور اپنے طبقاتی مفادات کے وفادار تھے۔ روسی کلیساء ریاست کا کلیدی ستون تھا جس کی انسانی زندگی میں مداخلت سماجی زندگی سے لے کر بیڈ روم تک موجود تھی۔ تمام عدالتیں اور تعلیمی ادارے زار شاہی دربار کے ملازم تھے جن کا کام زار کو ”عظیم باپ“ اور ”روحانی پیشوا“ ثابت کرنا تھا۔ تکنیک اور اسلحے کے حوالے سے انتہائی پسماندہ مگر حجم میں دیو ہیکل فوج موجود تھی جس کا کام زار شاہی،سرمایہ داروں،جاگیرداروں اور فوجی اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔ پسماندگی کا یہ عالم تھا کہ 15 کروڑ آبادی کے ملک میں صرف 1.5 کروڑ مزدور تھے، یعنی زار شاہی روس آج کے پاکستان سے بھی صدیوں پیچھے تھا۔ لکڑی کا ہل چلانے والاکسان بڑے جاگیرداروں کا غلام تھا یا اگر اس کے پاس اپنی زمین تھی تو صرف اتنی کہ اس کا خاندان اناج اگا کر بمشکل زندہ رہ سکے۔ ناخواندگی کی شرح 70فیصد تھی۔ آبادی کی اوسط عمر 30 سال تھی۔ بجلی صرف دو چار بڑے شہروں میں امراء کے علاقوں میں موجود تھی جبکہ باقی ملک تاریکی اور انفرسٹرکچر کی عدم موجودگی میں غرق تھا۔ خواتین نہ صرف بدترین سماجی استحصال کا شکار تھیں بلکہ ان کی خاندان میں حیثیت بھیڑ بکریوں کی تھی۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ خواتین کو جائیداد میں حصہ نہیں ملتا تھا جبکہ خاوند کو قانونی طور پر مار پیٹ کا حق حاصل تھا! روسی سرمایہ داری انتہائی کمزور، محدود اور طفیلیہ تھی جس کی سانسیں فرانسیسی، برطانوی، جرمن، بلجیئم اور دیگر مغربی سامراجیوں کے مرہونِ منت تھیں۔ روسی کانکنی کا 90 فیصد، کیمیائی صنعت کا 50 فیصد، انجنیئرنگ کا 40 فیصد اور بینکاری کا 40 فیصد سامراجیوں کے قبضے میں تھا۔

1914ء میں شروع ہونے والی پہلی عالمی جنگ نے سماج اور معیشت کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ پہلی عالمی جنگ میں 90لاکھ افراد مارے گئے تھے جن کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ جنگ میں کسانوں اور مزدوروں دونوں کو بے دریغ کھپایا گیا تھا جبکہ ان کے خاندانوں اور عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔ ملک بھوک، بیماری، موت، سامراجی قرضوں اور قلتِ اشیاء میں ڈوب چکا تھا۔ لیکن اشرافیہ اور دربار کی عیاشیوں میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ان کے تھیٹر زیادہ بے لگام، شراب کی محفلیں زیادہ بے شرم، کھانوں کی محفلیں زیادہ پرتپاک اور جنگی ہولناکیوں میں عوامی گوشت و ہڈیوں پر کاروبار کرتے ہوئے منافعے پہلے سے زیادہ ہوشربا تھے۔

روس‘ انقلاب کی لپیٹ میں

فروری انقلاب کے دوران پوٹیلوف کے محنت کش سڑکوں پر۔ بایاں بینر: ’’محافظوں(فوجیوں) کے بچوں کو کھانا دو‘‘ دایاں بینر: ’’فوجیوں کے خاندانوں کو معاوضوں کی ادائیگی بڑھائی جائے-آزادی اور امنِ عالم کے محافظ‘‘

 

فروری 1917ء تک روس عملی طور پر جنگ ہار چکا تھا۔ سماج تار تار تھا، فوج بھگوڑی ہو چکی تھی اور عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔حکمران طبقات اور ان کے تنخواہ دار دانشوروں کی تمام تر بہتان تراشیوں کے باوجود انقلاب مٹھی بھر افراد کی مہم جوئی نہیں تھا بلکہ یہ روسی سماج اور معیشت کی تباہ کن حالت تھی جس نے عوام کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کیا۔ اور اس میں پہل خواتین نے کی۔

23 فروری 1917ء (نئے کیلنڈر کے مطابق8 مارچ) کو خواتین نے بھوک اور اپنے پیاروں کی موت اور گمشدگی سے تنگ آ کر سینٹ پیٹرز برگ میں احتجاج شروع کیا جس میں انہوں نے ہر فیکٹری میں جا کر مزدوروں سے احتجاج کی اپیل کی۔ باوثوق ذرائع کے مطابق شام تک احتجاج میں شرکاء کی تعداد 1 لاکھ تک پہنچ گئی۔ ریاستی جبر کے نتیجے میں ہونے والی اموات پر عوام بپھر گئی اور احتجاج شروع ہونے کے محض 6 دن بعد زار کو تخت سے سبکدوش ہونا پڑا اور یوں انقلاب کا پہلا شکار سینکڑوں سال پرانی زار شاہی ثابت ہوئی۔ تاریخ میں اس کو ’فروری انقلاب‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

عوام کو کنٹرول کرنے اور انقلاب کو زائل کرنے کے لئے پارلیمنٹ میں موجود اشرافیہ نے ایک عبوری حکومت کا اعلان کر دیا جس کے مقاصد میں بیان بازی کی حد تک عوامی مسائل کا حل اور سماج میں استحکام لانا شامل تھا۔ لیکن عملی طور پر طاقت عوام کے پاس موجود تھی۔ عوامی سوویتیں (پنچایت) ہر گلی، محلے، فیکٹریوں، دیہات اور فوج میں منظم ہو رہی تھیں جن کے اوپر سب سے بڑی سوویت شہری یا علاقائی تھیں جس میں تمام نچلی سوویتوں کی نمائندگی موجود تھی۔ مسئلہ یہ تھا کہ سوویتوں میں بالشویک انقلابی قیادت کے اقلیت میں ہونے کی وجہ سے اقتدار فوری طور پر عوام کو منتقل نہیں ہو سکا۔ لیکن جولائی میں ردِ انقلاب کے خوفناک حملے نے عوام پر عیاں کر دیا کہ انہیں ”امن، زمین اور روٹی“ کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مزید آگے بڑھنا پڑے گا۔ اس دوران روس میں موجود واحد حقیقی انقلابی پارٹی، بالشویک پارٹی نے اپریل میں ہی نعرہ پیش کیا تھا کہ ”تمام اقتدار سوویتوں کو منتقل کرو!“

25 اکتوبر 1917ء (نئے کیلنڈر کے مطابق7 نومبر) میں سوویتوں کے اکثریتی فیصلے کی روشنی میں عوام کی قیادت کرتے ہوئے بالشویک پارٹی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اسی وجہ سے اس انقلاب کو ’اکتوبر انقلاب‘ بھی کہا جاتا ہے۔

انقلاب اور ردِ انقلاب کے درمیان کشمکش میں ثابت ہو گیا کہ ملک میں طاقت کی دوئی موجود ہے جس میں پارلیمنٹ میں موجود اشرافیہ اور سرمایہ دار طبقہ ریاستی جبر کے آلے (فوج) کی بڑی تعداد کی حمایت کھو کر خصی ہو چکے ہیں جبکہ تمام حقیقی فیصلے عوامی سوویتوں میں ہو رہے ہیں۔ سوویت میں بھی مختلف سماجی پرتوں کی نمائندہ پارٹیاں موجود تھیں لیکن اپنے ٹھوس مدلل عوامی پروگرام، انقلابی نظریات اور زندہ حالات کے ٹھوس تجزئیے کے نتیجے میں اکتوبر تک لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں بالشویک پارٹی سوویتوں میں اکثریت حاصل کر چکی تھی۔ 25 اکتوبر 1917ء (نئے کیلنڈر کے مطابق7 نومبر) میں سوویتوں کے اکثریتی فیصلے کی روشنی میں عوام کی قیادت کرتے ہوئے بالشویک پارٹی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اسی وجہ سے اس انقلاب کو ’اکتوبر انقلاب‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جھوٹے اور غلیظ پروپیگنڈہ کے برعکس مارچ سے اکتوبر تک کے انقلابی عمل میں جتنی بھی عوامی اموات ہوئیں وہ ریاستی جبر کے نتیجے میں ہوئیں جبکہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے دوران صرف 9 اموات واقع ہوئیں جس کی ایک بار پھر وجہ ریاستی جبر ہی تھا۔ اس سارے عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام کی اکثریتی حمایت کے نتیجے میں سماج میں انقلاب سے زیادہ جمہوری عمل اور کوئی نہیں ہوتا۔

انقلاب کی حاصلات

سب سے پہلے نجی ملکیت اور منافع خوری کو ختم کر کے سرمایہ داری کو دفن کر دیا گیا۔ اسی طرح جاگیر داری کی باقیات کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام جاگیریں غریب کسانوں میں تقسیم کر دی گئیں۔

انقلاب کامیاب ہو چکا تھا۔ پرانی زار شاہی ریاست کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکا جا چکا تھا۔ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ عام عوام اقتدار پر قابض تھی جن کی قیادت ایک حقیقی انقلابی پارٹی کر رہی تھی۔ پورے سماج اور معیشت کو سوشلسٹ بنیادوں پر از سرِ نو تعمیر کیا گیا۔ سب سے پہلے نجی ملکیت اور منافع خوری کو ختم کر کے سرمایہ داری کو دفن کر دیا گیا۔ اسی طرح جاگیر داری کی باقیات کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام جاگیریں غریب کسانوں میں تقسیم کر دی گئیں۔ تمام قدرتی وسائل، بڑی صنعتیں، بینکاری اور مالیاتی اثاثے محنت کش عوام کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لے لئے گئے جس کی بنیاد پر ایک منصوبہ بند معیشت تعمیر کی گئی اور ان دیو ہیکل وسائل کو منافع خوری کے بجائے عوامی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کیا گیا۔ 8 گھنٹے کام کے اوقات کار قانونی کر دیے گئے۔ تمام سکولوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم مفت کر دی گئی اور بڑے پیمانے پر سکول اور یونیورسٹیاں بنائی گئیں۔ مفت اور معیاری علاج ہر فرد کا بنیادی حق قرار پایا اور گلے، محلے اور ہر گاؤں تک علاج کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا۔ رہائش کے لئے تمام بیکار اور خالی پراپرٹیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کے دروازے عوام کے لئے کھول دیئے گئے جبکہ بڑے پیمانے پر نئے رہائشی اپارٹمنٹ بھی تعمیر کئے گئے۔ 1930ء کی دہائی تک پورے روس میں بجلی پہنچائی جا چکی تھی، ناخواندگی کا خاتمہ ہو چکا تھا، طاقتور صنعت نئی منازل طے کر رہی تھی جبکہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں نئی ایجادات کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔اوسط عمر کی شرح 1970ء کی دہائی تک 74 تک جا پہنچی تھی جبکہ نومولود اموات میں 90 فیصد کمی آ چکی تھی۔

یہاں صرف ناخواندگی کو ختم کرنے کی حیرت انگیز اصلاحات کا ذکر کیا جائے تو 26 دسمبر 1919ء سے شروع ہونے والے اصلاحات میں 50-8 سال کی عمر کے تمام افراد، مرد یا عورت کے لئے پڑھائی لکھائی کو لازمی قرار دیا گیا۔ تمام شہروں اور دیہات میں ناخواندگی ختم کرنے کے سنٹر بنائے گئے جہاں تمام افراد کو بنیادی پڑھائی، لکھائی اور ابتدائی گنتی کی تعلیم دی جانے لگی۔ بہتری آنے کے ساتھ ساتھ پڑھائے جانے والے مضامین میں بھی اضافہ کیا گیا۔ پڑھائی کے لئے مطالعہ کو فروغ دیا گیا جبکہ تمام مزدوروں کے اوقات کار میں دو گھنٹہ یومیہ تنخواہ کے ساتھ کمی کی گئی تاکہ وہ ان تدریسی سنٹروں میں باقاعدگی سے شمولیت کر سکیں۔گرامر سکھانے کے لئے حیران کن تعداد میں پوسٹرز، بینرز، پمفلٹ اور اخبار چھاپے گئے۔ صرف پہلے 20 سالوں میں 5 کروڑ افراد کو گرامر سکھائی گئی۔ 1940ء کی دہائی تک تقریباً 90 فیصد عوام کو بنیادی مطالعہ اور لکھت پڑھت پر عبور حاصل تھا۔

انقلاب کے بعد نجی ملکیت کی جکڑ بندیوں، گھر کی غلامی کے خاتمے اور اجرت میں مساوات کے ذریعے آزادیِ نسواں کو عملی جامہ پہنایا گیا۔

سب سے حیران کن اصلاحات خواتین کے حوالے سے کی گئیں۔ انہیں صرف قانونی نہیں بلکہ معاشی اور سماجی برابری کا حق بھی دیا گیا۔ نجی ملکیت کی جکڑ بندیوں، گھر کی غلامی کے خاتمے اور اجرت میں مساوات کے ذریعے آزادیِ نسواں کو عملی جامہ پہنایا گیا۔ 1918ء میں خواتین کو ووٹ کا حق دیا گیا جس پر مغربی ممالک میں سالوں اور دہائیوں بعد عمل ہوا(برطانیہ 1928ء، فرانس اور اٹلی 1947ء)۔شادی اور طلاق کے پیچیدہ عمل کو آسان ترین بنایا گیا جبکہ اسقاطِ حمل کا حق فوری منظور کیا گیا۔ خواتین کو گھریلو غلامی سے آزاد کر کے سماجی زندگی میں شامل کرنے کے لئے عوامی لانڈریاں، ریسٹورنٹ، بچوں کے دیکھ بھال سنٹروغیرہ بنائے گئے۔ 1960ء میں اطفال سنٹروں کی تعداد 5 لاکھ تھی جو 1971ء تک 50 لاکھ تک پہنچ گئی۔خواتین کے لئے معیشت اور سیاست کے تمام شعبے کھول دیے گئے۔ اعلی تدریسی شعبوں میں خواتین کی شرح 1927ء میں 28 فیصد، 1960ء میں 43 فیصد اور 1970ء میں 49 فیصد ہو گئی۔ 1950ء میں 600 خواتین کے پاس ڈاکٹریٹ ڈگری تھی جو 1984ء تک 5 ہزار چھ سو تک جا پہنچی۔زچگی سے پہلے 56 دن اور زچگی کے بعد 56 دن کی بمع تنخواہ چھٹی کو یقینی بنایا گیا۔

انقلاب کے فوری بعد 21 ممالک کی انقلاب کا گلا گھونٹنے کے لئے فوج کشی، مغربی سامراجی ممالک کی حمایت سے پرانی ریاست اور اشرافیہ کی طرف سے مسلط کردہ خانہ جنگی، سامراجیوں،جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی معاشی اور اناج ناکہ بندی کی وجہ سے تباہ کن قحط سالی اور قلت، 45-1939ء کے دوران دوسری عالمی جنگ جس میں 2 کروڑ 70 لاکھ روسی مارے گئے اور ملک ایک مرتبہ پھر تباہ و برباد ہو گیا، ان تمام تر مشکلات کے باوجو محض 30 سالوں میں روس ایک پسماندہ اور رجعتی ترین سماج سے دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور فوجی طاقت بن چکا تھا۔ 50 سالوں میں روس کا GDP نو گنا بڑھ چکا تھا۔ 1979ء تک یہ امریکہ کے GDP کے 58 فیصد تک جا پہنچا تھا۔ امریکہ کے بعد روس دنیا کا دوسرا بڑا صنعتی ملک بن چکا تھا جو تیل، اسٹیل، سیمنٹ، اسبیسٹوس، ٹریکٹر اور کئی مشینی آلات کا سب سے بڑا پیدا کار بن چکا تھا۔

سائنس اور ٹیکنالوجی میں فتوحات کا اعلان 1957ء میں پہلا مصنوعی خلائی سیارچہ، 1961ء میں پہلا خلا باز اور 1963ء میں پہلی مرتبہ خاتون خلا باز بھیج کر کیا گیا۔

سوویت معیشت کی مضبوطی اور طاقت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں ہٹلر پورے یورپ کے وسائل بروئے کار لاتے ہوئے سوویت یونین پر چڑھ دوڑا لیکن سوویت یونین نے تنِ تنہا مقابلہ کرتے ہوئے نہ صرف ہٹلر کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا بلکہ انسانی تاریخ کی تیز ترین فوجی پیش قدمی کرتے ہوئے مشرقی یورپ کو آزاد کراتے ہوئے جرمنی تک جا پہنچا! سائنس اور ٹیکنالوجی میں فتوحات کا اعلان 1957ء میں پہلا مصنوعی خلائی سیارچہ، 1961ء میں پہلا خلا باز اور 1963ء میں پہلی مرتبہ خاتون خلا باز بھیج کر کیا گیا۔ آج بھی صحت اور جراحی کے شعبے میں متعدد آپریشن اور تحقیقیں سوویت دور کی ہیں جبکہ نام نہاد ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کے زیادہ تر خلائی سیارچے آج بھی سوویت دور میں ڈیزائن کئے گئے راکٹوں پر خلا میں بھیجے جاتے ہیں۔

1934ء تک بیروزگاری رجسٹریشن محکمہ بند کیا جا چکا تھا کیونکہ پورے ملک میں کوئی بیروزگار ہی موجود نہیں تھا! گوشت اور ڈیری کی قیمتیں آخری مرتبہ 1962ء میں بڑھائی گئیں جبکہ روٹی، چینی اور اشیائے خور دو نوش کی آخری مرتبہ قیمت 1955ء میں بڑھیں۔ روس کا بجٹ ہمیشہ متناسب رہا، یہاں تک کہ ہر سال سرپلس میں ہوتا تھا۔ 1980ء کی دہائی میں سوویت روس میں امریکہ، جاپان، برطانیہ اور جرمنی کو ملا کر بھی زیادہ سائنس دان تھے جس کی عکاسی نوبل انعامات کی تقسیم میں بھی ہوتی ہے۔

عوام کی ثقافتی اور جسمانی تفریح کے لئے متعدد لائبریریاں، باغات، تفریحی مقامات، جیمنیزیم، سینما گھر، تھیٹر، کمیونٹی سینٹر وغیرہ بنائے گئے۔ 1990ء تک عالمی اولمپک کھیلوں میں سب سے زیادہ میڈل حاصل کرنے والا ملک روس تھا۔ روزمرہ عوامی سفری سہولیات کے لئے شہروں اور پورے ملک میں بسوں، ٹراموں اور ٹرینوں کا جال بچھایا گیا جو ہر فرد کی دسترس میں تھا۔

یہ تمام تر ہوشربا ترقی اور سماجی خوشحالی افراطِ زر، بحرانی ادوار اور بیروزگاری کی لعنت کے بغیر حاصل کی گئی۔

سوویت یونین کا انہدام اور نئے انقلاب کی ضرورت

ترقی اور خوشحالی کی اس شاندار فہرست کو پڑھنے اور سننے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سب کچھ اتنا دلفریب تھا تو پھر انقلاب ناکام کیوں ہوا اور سوویت یونین کا شیرازہ کیوں بکھر گیا؟ دراصل انقلاب کے وقت تکنیکی،صنعتی اور ثقافتی اعتبار سے ایک نہایت پسماندہ ملک تھا لہذا انقلابی تعمیر کے کام کو آغاز سے ہی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ رہی سہی کسر پہلی عالمی جنگ، خانہ جنگی، سرمایہ دارانہ ناکہ بندی نے پوری کر دی تھی۔لیکن سب سے اہم یہ کہ ترقی یافتہ ممالک میں انقلابات کی ناکامی سے سوویت یونین دنیا میں بالکل تنہا رہ گیا تھا۔اس تمام معروضی صورتحال سے پیدا ہونے والی زبردست قلت نے ابتدائی چند صحت مند سالوں کے بعد انقلاب پر ناگزیر طور پر افسر شاہی کو مسلط کر دیا۔ گو کہ نجی ملکیت اور منافع خوری کا خاتمہ ہو چکا تھا جس کی وجہ سے سوویت یونین نے حیرت انگیز ترقی کی منازل طے کیں لیکن ذرائع پیداوار اور معیشت پر عوام کے جمہوری کنٹرول کی عدم موجودگی میں افسر شاہی کی بے پناہ عیاشیوں اور وسائل کے ضیاع نے معیشت اور سماج کو گھن کی طرح چاٹ لیا۔ خود انقلاب کے اپنے قائدین نے اس صورتحال کی عدم تبدیلی کی صورت میں سرمایہ داری کی بحالی کے خطرے کی نشاندہی کی تھی۔

لیکن مایوسی کے بجائے اکتوبر انقلاب کا اصل سبق یہ ہے کہ نجی ملکیت کے خاتمے، منصوبہ بند معیشت کی تعمیر اور منافع خوری کے خاتمے کے نتیجے میں نسلِ انسانی ترقی اور آسودگی کی کیا منزلیں طے کر سکتی ہے۔ آج سرمایہ داری اپنے نامیاتی بحران کی وجہ سے اس خوبصورت دنیا اور نوع انسان کو تباہ و برباد کر رہی ہے۔ جنگ و جدل، بھوک، ننگ، افلاس، بیماری، تباہی و بربادی اور ناامیدی ہمارا مقدر نہیں۔ ایک نئی دنیا اور ایک خوبصورت دنیا آج تعمیر کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس امید افزا مقصد کے لئے مزدور انقلاب، انقلابی قیادت اور سوشلسٹ انقلابی نظریات بنیادی ضرورت ہیں۔

Comments are closed.