سٹیل ملز کے بعد ریل مزدوروں پر حملہ؛مزدور دشمن عدلیہ کے ریلوے ملازمین کی چھانٹیوں کے احکامات کی شدید مذمت کرتے ہیں

|منجانب: مرکزی بیورو ریڈ ورکرز فرنٹ|

فائل فوٹو

نااہل، کرپٹ اور مزدور قاتل ریاست اتنی کمزور اورقابلِ نفرت ہو چکی ہے کہ اپنا ہر کام عدلیہ کے ذریعے کروانے پر مجبور ہو چکی ہے۔ چند روز قبل ریلوے مزدوروں کی سروس مستقلی کے حوالے سے سپریم کورٹ میں دو رکنی بینچ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سماعت کر رہا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریلوے میں کیا ہو رہا ہے، انجن چل رہے ہیں نہ ڈبے، ناہل افراد بھرے پڑے ہیں اور محکمہ خسارے میں ہے۔ 76 ہزار ملازمین کیوں رکھے گئے ہیں جبکہ تمام فیکٹریاں اور کام بند پڑے ہوئے ہیں اور 10 ہزار ملازمین سے پورا ادارہ چلایا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ریلوے کی مکمل اوورہالنگ کی جائے اور ملازمین کی چھانٹیاں کی جائیں۔ لیکن حکم میں ادارے کی انتظامیہ اور وزارتِ ریلوے کی مکمل نااہلی اور کرپشن کے نتیجے میں ان کی چھانٹیوں سے متعلق کوئی حکم نہیں دیا۔ دیگر نااہل، کرپٹ اور عوامی خسارے کی وجہ اداروں پارلیمنٹ، سول اور عسکری بیوروکریسی، ٹیکس چور سرمایہ داروں، کھرب پتی ذخیرہ اندوزوں اور ملک کے بڑے مافیاؤں اور کارٹیلوں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔

پاکستان کی اس وقت خوفناک معاشی اور سماجی صورتحال ہے۔ پاکستانی معیشت دان ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق اس سال جی ڈی پی کی شرحِ نمو منفی 1.5-2.0 رہے گی، بجٹ خسارہ 4 ہزار ارب رہے گا جبکہ حکومت پچھلے دو سالوں میں قومی قرضے میں 11 ہزار ارب روپیہ اضافہ کر چکی ہے۔ آج بھی اشیاء خوردونوش میں افراطِ زر 25 فیصد جبکہ عمومی افراطِ زر 21 فیصد ہے۔ بیروزگاری کی شرح 17-20 فیصد رہے گی اور کرونا کی وجہ سے 70-75 لاکھ افراد بیروزگار ہوں گے جبکہ بیروزگاری کا عفریت سب سے زیادہ نوجوانوں کو نگل رہا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے مطابق بیروزگاری کی شرح 35-40 فیصد ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق معاشی بحران اور اب کرونا وائرس وباء کے اثرات کی وجوہات کے نتیجے میں جون2020ء تک 12 کروڑ 50 لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے ہوں گے یعنی کل آبادی کے نصف سے بھی زیادہ۔ لیکن یہ اعدادوشمار بھی حقیقی تصویر واضح نہیں کرتے۔

اس صورتحال میں ریلوے کے حوالے سے یہ سوال 76 ہزار خاندانوں کی زندگی اور موت کا سوال بن جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ریلوے خوفناک مسائل کا شکار ہے، ہر ہفتے دو حادثات اوسطاً ہو رہے ہیں اور نااہلی اور کرپشن کی شدید بھرمار ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ ان سب کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا وہ ملازمین جو بغیر کسی حفاظتی سامان کے حکومتی دباؤ میں اپنی جانوں پر کھیل کر ابھی بھی 43 ٹرینیں چلا رہے ہیں اور فیصلہ سازی میں کوئی حق اور مقام نہیں رکھتے یا وہ انتظامیہ اور وزارت جو تمام سیاہ و سفید کی مالک اور تمام فیصلوں پر قادر ہے؟ ان حالات میں اگر ریلوے کی تباہی و بربادی، کرپشن اور نااہلی کا کوئی ذمہ دار ہے تو وہ انتظامیہ، وزارت اور وفاقی وزیر ہیں جنہوں نے دہائیوں اس ادارے کو لوٹ کھسوٹ کر تباہ و برباد کر دیا ہے۔ اگر کسی قسم کی چھانٹیوں کو بااثر اور نتائج انگیز بنانا مقصد ہے تو وہ یہ حقیقی چھانٹیاں ہیں۔

ریلوے کا ادارہ برِ صغیر میں برطانوی سامراج نے بنایا اور اسے اپنی سامراجی لوٹ مار کے لئے کمالِ عروج پر پہنچاتے ہوئے ہوئے پورے خطے کو ریلوے لائینوں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک کر دیا۔ درحقیقت یہی ریلوے کی حقیقی اہمیت ہے، سستے عوامی سفر اور مال برداری کے ذریعے پورے ملک کو اکٹھا جوڑنا۔ اور اگر یہ ادارہ آج بھی کسی نہ کسی حالت میں فعال ہے اس کی وجہ مزدوروں کی نسلوں کا خون، پسینہ اور محنت ہیں۔ لیکن دہائیوں کی کرپشن، نااہلی اور خوفناک ریاستی کٹوتیوں نے یہ عوامی ادارہ برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ اربوں روپے کی ریلوے زمین پر پراپرٹی مافیا قبضے کر چکا ہے۔ ٹھیکوں میں خرد برد اور درآمدات میں حصے داری کے لالچ نے ادارہ جاتی مینوفیکچرنگ کو نیست و نابود کر دیا ہے۔ملازمین سالہا سال سے قلیل تنخواہوں پر زندہ رہنے پر مجبور ہیں اور اب ستم ظریفی یہ ہے کہ انہیں ملازمت سے برخاست کرنے کا شاہی فرمان بھی نازل ہو چکا ہے۔

درحقیقت، اگر چند دن پہلے اسٹیل ملز سے 9 ہزار ملازمین کی برخاستگی کے وفاقی کابینہ کے فیصلے اور پنجاب میں کرونا وباء کے دوران شعبہ صحت کی نجکاری کی کڑی کو ملا کر دیکھا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ یہ تمام پالیسیاں قومی اداروں کی نجکاری کا ہی سلسلہ ہیں۔ حکمران طبقے کی جہالت، مزدور دشمنی اور تاریخی نااہلی اور عالمی معاشی بحران کے تابڑ توڑ حملوں سے معیشت تباہ و برباد ہے۔ سامراجی قرضوں کی ادائیگی، عسکری شاہ خرچیوں، حکمران طبقے کی لوٹ مار اور معاشی خسارے کی وجہ سے نجکاری کی پالیسی اور بھی سفاک اور تیز تر ہو چکی ہے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ اس حکمنامے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے کہ وزارتِ ریلوے اور محکمہ ریلوے کے تمام کھاتے کھول کر عوام کے سامنے پیش کئے جائیں۔ انتظامیہ اور وزارت میں موجودتمام کرپٹ اور مزدور دشمن عناصر کی چھانٹی کی جائے اور سخت ترین سزائیں دی جائیں۔ تمام ریلوے ملازمین کو فوری طور پر مستقل کرتے ہوئے ان کی تنخواہوں میں کم از کم ایک تولہ سونے کے برابر اضافہ کیا جائے اور انہیں کورونا وائرس کے پیشِ نظر چھٹی پر گھر بھیج دیا جائے۔ جہاں ضروری مال برداری یا محدود سفری سہلویات دینا ناگزیر ہو وہاں بہترین اور جدید حفاظتی سامان کے ساتھ حفاظتی اقدامات کئے جائیں۔ اس کے ساتھ ہم ریلوے کے محنت کشوں سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ اس مزدور دشمن اقدام کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہو کر دیگر نجکاری کے شکار ادروں کے مزدوروں سے تیزی کے ساتھ رابطے بڑھائے جائیں اور ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر نجکاری کے حملوں کا مقابلہ کیا جائے۔ وزارتِ نجکاری اور شعبہ نجکاری کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام نجی ہاتھوں میں دیئے گئے قومی اداروں کو واپس قومیایا جائے۔

Comments are closed.