|تحریر: ولید خان|
پاکستان گورکھ دھندوں کی منڈی ہے جس میں حکمران طبقہ اور اس کے دلال نوسر باز ہر روز ایک نیا تماشہ لگا کر دن گزار رہے ہیں۔ چند دنوں میں عوام کے ساتھ دھوکے بازی اور فریب کا ایک نیا بازار بجٹ کے نام پر گرم ہو گا۔ ابھی سے میڈیا اور ”ذرائع“ سے خبریں لیک کروائی جا رہی ہیں کہ حکومت عوام کے لئے دن رات پریشان ہے اور شدید محنت کر رہی ہے کہ عوام دوست اور غریب پروربجٹ پیش کیا جائے۔ ساتھ ہی معیشت کی بدحالی، حالات کی ستم ظریفی، عالمی معاشی بحران، سابق حکومت کی نااہلی اور عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ کا واویلا بھی مچایا جا رہا ہے۔ چند دن دھواں دار تقریروں، جگتوں اور الزام تراشی کا ڈرامہ ہو گا اور پھر عالمی مالیاتی اداروں اور سامراجی آقاؤں کی خواہشات کے عین مطابق بجٹ منظور ہو گا جس میں حکمرانوں کی جانب سے سرمایہ داروں کے تحفظ اور ریاستی اشرافیہ کی عیاشیوں اور لوٹ مار کو یقینی بنایا جائے گا جبکہ عوام کے لئے بھاری ٹیکس، فلاحی اخراجات میں کٹوتیوں، بدترین استحصال، مزید بیروزگاری، مہنگائی، غربت اور موت کا پروانہ جاری ہو گا۔
اس ریاست کے خصی پن کا یہ عالم ہے کہ قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے میں چند دن رہ گئے ہیں لیکن ابھی تک کوئی مستند تحقیق، تجزیہ یا رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی ہے۔ جو چند ایک اطلاعات خود لیک کی جا رہی ہیں ان کے مطابق 14.6 ٹریلین روپے کا بجٹ پیش کیا جا رہا ہے جس کا آدھا حصہ اندرونی اور بیرونی قرضوں اور ان کے سود کی واپسی کے لئے مختص کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ آئی ایم ایف کی مختلف شرائط پر عمل کرتے ہوئے 680 ارب روپے کا ٹیکسوں کا نیا پہاڑ عوام کے کندھوں پر لادا جائے گا۔ بجٹ میں ٹیکس آمدن کا ہدف 9.2 ٹریلین روپیہ رکھا گیا ہے جس کا بھاری حصہ ہمیشہ کی طرح غریب عوام ادا کرے گی۔ ترقیاتی بجٹ کی مد میں 700-900 ارب روپیہ مختص کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ اگر ہم اوپری حد یعنی 900 ارب روپیہ کو بھی سچ مان لیں تو اس کا مطلب24 کروڑ عوام کے لئے فی کس خرچہ 3750 روپیہ ہے۔”غیر ضروری اخراجات“ یعنی شعبہ صحت، تعلیم، فلاحی و دیگر عوامی اخراجات اور عوامی اداروں کے بجٹ میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں کی جا رہی ہیں جبکہ ہمیشہ کی طرح اشرافیہ کی سبسڈیوں، ٹیکس چھوٹ، برآمدات اور درآمدات میں مالیاتی سہولت اور دیگر مراعات کو برقرار رکھنے یا پھر بڑھانے کی کوششیں کی جا ئے گی۔ دفاعی بجٹ 1.5 ٹریلین روپیہ سے بڑھا کر 1.7 ٹریلین سے زیادہ کیا جا رہا ہے گوکہ اس میں بہت سے دیگر ذرائع سے دفاع کی مد میں خرچ کی جانے والی سینکڑوں ارب کی رقم شامل نہیں۔ آنے والے دنوں میں مزید تفصیلات سامنے آئیں گی اور بجٹ رونمائی پر اس کی عوام دشمنی کا حقیقی اندازہ ہو گا لیکن خبروں کے مطابق ”یہ بجٹ پاکستان کی تاریخ کا سخت ترین بجٹ ہو گا“ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بجٹ اور آنے والے تمام منی بجٹوں میں محنت کش عوام پر تابڑ توڑ تاریخی حملے کئے جائیں گے۔
پسماندہ طفیلیہ معیشت
اس وقت ملک اپنی تاریخ کے بدترین سیاسی، معاشی اور سماجی بحران کا شکار ہے۔ تمام ریاستی ادارے اور سیاسی پارٹیاں اقتدار اور لوٹ مار کی دھینگا مشتی میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں۔ اس عمل میں تمام ایک دوسرے کو ننگا کرنے کے ساتھ لہولہان بھی کر رہے ہیں اور صورتحال اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ عوام مکمل طور پر ریاست اور اس کے دلالوں پر اعتماد کھو چکی ہے۔ سماج میں حمایت ختم ہونے کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ جس سامراجی آقا یعنی امریکہ نے اس ریاست کو خطے میں عوام دشمنی اور سامراجی دلالی کے بدلے 75 سال اپنی گود میں بٹھا کر دودھ پلایا،وہ اب اس ریاست میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ اس کی دھوکہ بازیوں اور ڈبل گیمز پر شدید نالاں ہے۔ بٹوارے کے پہلے تیس سال ریاست انتہائی سستے سامراجی وظیفوں،امداد اور قرضوں پر پلتی رہی اور پھر 1978ء میں افغانستان میں سامراجی مداخلت کے لئے جنگی خدمات کے عوض اس گماشتگی کو ایک معیاری جست لگی۔ اب معیشت کا دارومدار سستے قرضوں، افغانستان میں مسلسل جنگ، مشرق وسطیٰ میں سامراجی خدمات اور منشیات اسمگلنگ اور انتہا پسندی کی برآمد پر ہونے لگا۔ اس کے ساتھ باہر گئے مزدوروں اور تارکین وطن کی اپنے خاندانوں کو واپس بھیجی جانے والی رقوم پر انحصار بڑھتا رہا۔ اندرون ملک کسی سنجیدہ صنعت کاری یا معاشی پلاننگ کے برعکس پراپرٹی، سروسز سیکٹر اور دیگر غیر پیداواری ذرائع کو معیشت چلانے کا ذریعہ بنا دیا گیا۔ رہی سہی کسر مسلسل فلاحی اخراجات میں کٹوتیوں اور ریاستی اداروں کی نجکاری نے پوری کر دی۔ پاکستانی سرمایہ دار طبقے کے بانجھ پن اور تاریخی متروکیت پر اس سے بڑی کوئی چارج شیٹ نہیں ہو سکتی۔
وقت گزرنے کے ساتھ صورتحال اور بھی گھمبیر ہوتی رہی کیونکہ امریکی آقا کے ساتھ ریاست نے لوٹ مار میں مزید اضافے اور معیشت کا پہیہ جاری رکھنے کے لئے دوسرے عالمی اور علاقائی سامراجیوں کی گماشتگی بھی شروع کر دی جن میں چین، سعودی عرب، عرب امارات وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ مفادات کی مسلسل تقسیم، استحصال پر قبضہ رکھنے کی باہمی لڑائیوں، سامراجیوں کی چاکری اور کالے دھن میں حصہ داری کی لڑائی نے ریاست کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے اور اب یہ کوئی بھی متفقہ فیصلہ کرنے یا اس پر عمل کرانے کے قابل نہیں رہی۔ اس صورتحال پر کبھی کبھی ریاستی نمائندے بھی بلک اٹھتے ہیں اور ”سیاست نہیں ریاست بچاؤ!“ اور ”معاشی انتشار کی وجہ سیاسی انتشار ہے“ جیسی بھونڈی اور متضاد توجیہات پیش کرتے ہیں۔ درحقیقت پسماندہ بحران زدہ معیشت، سامراجی آقاؤں کی عدم دلچسپی اور عالمی معاشی بحران وہ عناصر ہیں جو ملکی سیاست میں انتشار پیدا کر رہے ہیں، جو پھر واپس پلٹ کر معیشت پر بھی بہرحال اثر انداز ہورہا ہے۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تباہ کن بیروزگاری، جہالت، غربت، لاعلاجی، خودکشیاں، قتل و غارت، خواتین اور بچوں پر جبر سماج کا پردہ چاک کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے کسی بڑے تجزیہ کار، دانشور جغادری، سیاسی پارٹی یا معیشت دان کے پاس کوئی حل موجود نہیں۔ صرف نام نہاد ”دوست ممالک“ کی خیرات اور آئی ایم ایف کے پروگرام کو زندگی کی ضمانت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی بھی وجہ یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح یہ ریاست اور اس کی غلیظ معیشت قائم رہے تاکہ لوٹ مار اور استحصال کا کاروبار جاری رہے۔
اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ
مالی سال 2023-24ء کے بجٹ کی تیاریوں کے دوران مسلسل خبریں آ رہی ہیں کہ ادارہ شماریات اور دیگر محکموں پر شدید دباؤ ہے کہ اعدادوشمار کو ”مثبت“ بنا کر پیش کیا جائے۔ جس ملک میں ایک متفقہ مردم شماری نہیں ہو سکتی کہ کتنی آبادی کو کیا سہولیات فراہم کرنی ہیں، کاروباروں کی ٹیکس رجسٹریشن ناممکن ہے اور اشرافیہ خود ہر غیر قانونی طریقہ کار سے دولت لوٹنے میں مشغول ہے وہاں درست اعداد و شمار کا پتہ چلنا تقریباً ناممکن ہی ہے۔ لیکن پھر بھی جو اعداد و شمار موجود ہیں ان سے معیشت کی موجودہ صورتحال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ رواں مالی سال میں پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں اپنی 60 فیصد قدر کھو چکا ہے اور اس وقت اوپن مارکیٹ میں 316 روپے میں ایک ڈالر مل رہا ہے اگرچہ ڈالر منڈی سے ہی غائب ہے۔ غیر ملکی کرنسی کا ایک بہت بڑا ذریعہ بیرون ملک اور تارکین وطن کی بھیجی گئی رقوم ہیں جن میں پچھلے ایک سال میں 13 فیصد گراوٹ آئی ہے کیونکہ حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے اوپن مارکیٹ ریٹ مل جاتا ہے جبکہ سرکاری بینک ریٹ 285-287 روپے ہے۔ آئی ایم ایف کا دباؤ ہے کہ کرنسی کی قدر میں مزید گراوٹ لائی جائے اور بینک ریٹ کو اوپن مارکیٹ کے برابر کیا جائے۔
اس کے علاوہ عالمی معاشی بحران میں اضافے اور افراط زر نے بھی ترسیلات میں کمی میں ایک کردار ادا کیا ہے۔ ایک تولہ سونے کی قیمت 2 لاکھ 35 ہزار روپے کے آس پاس ہے۔ بجٹ تیاری میں تمام تر ہیرا پھیری کے باوجود مالی سال 2022-23ء میں حکومتی دعوؤں کے مطابق شرح نمو 0.3 فیصد رہی جبکہ کئی سنجیدہ بورژوا معاشی تجزیہ کاروں کی جانب سے حقیقی شرح نمو منفی 0.5 سے منفی ایک فیصد تک بتائی جا رہی ہے۔ غیر ملکی ذخائر 4 ارب ڈالر تک گر چکے ہیں جو ایک مہینے کی کنٹرولڈ درآمد کے لیے بھی بمشکل کافی ہیں۔ GDP (کل قومی پیداوار) میں مالی سال 2021-22ء کے مقابلے میں تقریباً 33 ارب ڈالر کی کمی واقع ہو چکی ہے اور قومی پیداوار 375 ارب ڈالر سے سکڑ کر 342 ارب ڈالر ہو چکی ہے۔ کل بیرونی قرضہ 126 ارب ڈالر ہے جبکہ اس مالیاتی سال کے اختتام 30 جون تک پاکستان کو 3.7 ارب ڈالر بیرونی قرضہ واپس کرنا ہے۔ افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لئے اسٹیٹ بینک نے شرح سود21 فیصد کر دی ہے یعنی کاروباروں اور خود حکومت کے لئے داخلی قرضے انتہائی گراں قدر ہو چکے ہیں اور قرضوں کی واپسی ناممکن ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود افراط زر ایک ایسا عفریت بن چکا ہے جو کسی طرح قابو میں نہیں آ رہا۔ اس کے ساتھ یاد رہے کہ بے قابو کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے اور فاریکس ذخائر میں مسلسل کمی کو روکنے کے لئے پچھلے ایک سال سے خام مال اور دیگر ضروریات کے لیے درآمدات پر بندشیں ہیں اور صرف پیٹرولیم، کیمیا جات اور ٹیکسٹائل کے لئے کچھ درآمدات کی اجازت ہے۔ پاکستان ایک عمومی درآمدی ملک ہے جس میں تمام صنعتوں کے خام مال سے لے کر اشیائے خورد و نوش، ادویات، مشینری، انجن وغیرہ اور دیگر اہم ضروریات زندگی درآمد کی جاتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب بھی صنعتی پیداوار اور برآمدات بڑھتی ہیں تو ناگزیر طور پر درآمدات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
APTMA (آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن) نے حال ہی میں ایک خط اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو لکھا ہے جس کے مطابق پاکستانی معیشت کا سب سے بڑا صنعتی سیکٹر اس وقت 50 فیصد سے کم پیداواری صلاحیت پر کام کر رہا ہے جبکہ اس شعبے سے منسلک 70 لاکھ افراد بیروزگار ہو چکے ہیں۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ اگر صورتحال ایسے ہی جاری رہی تو بڑے پیمانے پر دیوالیہ ہونے کا خدشہ ہے اور شعبے سے منسلک ایک کروڑ افراد بیروزگار ہو جائیں گے۔ یہ کورونا وبا کے دوران پچھلے دو سالوں میں ڈھائی کروڑ بیروزگاروں کے علاوہ ہے۔ کارساز صنعت اس وقت 70 فیصد بند ہے کیونکہ باہر سے درکار سامان کی درآمد پر پابندی ہے جبکہ کاروں کی فروخت تاریخ کی کم ترین سطح پر گر چکی ہے۔ PPMA (پاکستان فارما سوٹیکل مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن (کے مطابق خام مال کی درآمد پر پابندی کے نتیجے میں ملک بھر میں ادویات کی قلت شروع ہو چکی ہے۔ ایسوسی ایشن نے تمام ادویات کی قیمت میں کم از کم 38 فیصد اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ پچھلے چند سالوں میں ادویات کی قیمتوں میں کئی سو فیصد اضافے کے علاوہ ہے۔ بڑی صنعتوں سے لے کر درمیانی اور چھوٹی صنعتوں تک تمام کی پیداوار میں بہت بڑی گراوٹ آئی ہے جس کے ساتھ بیروزگاری میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اعداد و شمار میں مسلسل گھپلوں سے فی الحال وثوق سے حتمی اعداد نہیں دیے جا سکتے۔ آنے والے کچھ دنوں میں اس حوالے سے صورتحال مزید واضح ہو گی لیکن اعتماد سے دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ تاریخی گراوٹ ہی رپورٹ ہو گی۔ اس کے علاوہ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق سالانہ افراطِ زر کی عمومی شرح 36 فیصد جبکہ اشیائے خورد و نوش میں افراط زر کی عمومی شرح 50 فیصد کے قریب ہے۔ تمام مالیاتی اداروں نے خطرے کی گھنٹی بجا رکھی ہے اور دیوالیہ ہونے والے ملکوں کی فہرست میں سری لنکا کے بعد اب پاکستان کا نمبر لگا رکھا ہے۔ حالیہ مہینوں میں موڈیز اور فیچ مالیاتی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی ریٹنگ ”انتہائی تشویش ناک اور دیوالیہ کے بلند امکانات“ کر دی ہے۔ پچھلے ایک سال میں بیرونی سرمایہ کاری میں 44 فیصد کمی آئی ہے اور بیرونی قرضوں کا حصول ملکی معیشت کی دگرگوں حالت اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں کھٹائی کی وجہ سے ناممکن بنا ہوا ہے۔ بجلی، پانی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل ہوشربا اضافہ اس کے علاوہ ہے۔
یہ پاکستانی معیشت کی ایک مختصر کہانی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معیشت تباہ و برباد ہو چکی ہے اور عوام مہنگائی اور بیروزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں جبکہ افراطِ زر کے تناسب سے پچھلے کئی سالوں میں تنخواہوں میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ہے۔ اضافہ تو دور کی بات ہے حکومت کی اپنی اعلان کردہ کم ازکم 25 ہزار روپیہ ماہانہ اجرت کا چند ایک جگہوں کو چھوڑ کر کہیں اطلاق نہیں ہے۔ لیکن اس ساری صورتحال میں پراپرٹی مافیا، فوجی کاروبار، چینی اور گندم کارٹیل، دیگر اشرافیہ اور عالمی اجارہ داریاں ہوشربا منافعے کما رہی ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے مالی سال میں پاکستان کا مجموعی کارپوریٹ اور صنعتی منافع 900 ارب روپیہ تھا!
کیا پاکستان دیوالیہ ہو سکتا ہے؟
پچھلے کئی مہینوں سے ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا اور اخباروں میں پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اندرون اور بیرون ملک سنجیدہ تجزیہ نگار اور معیشت دان مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ معاشی صورتحال اتنی ابتر ہو چکی ہے اور سیاست اتنی پرانتشار کہ ملک کسی وقت بھی دیوالیہ ہو سکتا ہے۔ کیا یہ صرف سیاسی لفاظی ہے یا اس میں کوئی حقیقت بھی ہے، یہ جاننے کے لئے پاکستان کی موجودہ مالیاتی حالت کا مختصر جائزہ لازمی ہے۔ پاکستان کا کل قومی قرضہ 64 ٹریلین روپیہ ہو چکاہے جو کل GDP کا 78 فیصد ہے۔ قرضہ جات جب 60 فیصد سے بڑھ جائیں تو ملک قرضوں کے حصول اور ادائیگی کے ایسے گھن چکر میں پھنس جاتا ہے جس میں تمام جمع شدہ ٹیکسوں اور نئے قرضوں کا دیوہیکل حصہ پرانے قرضے اتارنے میں لگ جاتا ہے جبکہ مسلسل ابتر ہوتی معاشی صورتحال میں ہر نیا حاصل کردہ قرضہ پہلے سے زیادہ بلند شرح سود پر حاصل کرنا پڑتا ہے۔ یعنی یہ ایک ایسا عذاب مسلسل ہے جس سے سرمایہ دارانہ بنیادوں پر باہر نکلا ہی نہیں جا سکتا۔ ان قرضہ جات میں 126 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے بھی شامل ہیں۔ جس میں 5.7 ارب ڈالر کے کمرشل قرضے، 7.8 ارب ڈالر کے یورو اور سکوک بانڈز، 37 ارب ڈالر کے ملٹی لیٹرل قرضے (ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اسلامی ترقیاتی بینک وغیرہ)، 17.6 ارب ڈالر کے بائی لیٹرل قرضے (امریکہ، چین، سعودیہ عرب، عرب امارات وغیرہ)، 8.7 ارب ڈالر پیرس کلب قرضے (یورپی ممالک اور جنوبی کوریا کا قرضہ جاری کرنے والا اکٹھ)، 7.4 ارب ڈالر آئی ایم ایف، 11 ارب ڈالر غیر ملکی ایکسچینج کی مد میں اور 590 ملین ڈالر دیگر واجب الادا قرضہ جات شامل ہیں۔ کل قرضہ جات میں سے 30 ارب ڈالر قرضہ سی پیک اور دیگر مد میں چین کو واجب الادا ہے۔ پاکستان کے غیر ملکی ذخائر 4 ارب ڈالر ہیں۔ اگلے تین مالی سالوں میں پاکستان نے ان میں سے سالانہ 25 ارب ڈالر قرضے واپس کرنے ہیں جو مجموعی 75 ارب ڈالر بنتا ہے۔ پھر درآمدی کنٹرول کو تھوڑا سا بھی ڈھیلا کرنے کے نتیجے میں کرنٹ اکاونٹ خسارہ بھی ہو گا، جس کے لئے مزید نئے قرضوں کی ضرورت پڑی گی۔ پاکستان کا بجلی کا گردشی قرضہ 2.6 ٹریلین روپیہ ہے جس کی فوری ادائیگی کا آئی ایم ایف مطالبہ کر رہا ہے۔ ان قرضہ جات میں چین، سعودی عرب اور عرب امارات کے 12 ارب ڈالر قرضوں پر تاخیری ادائیگی اور تقریباً 5 ارب ڈالر کے نئے ڈپازٹ متوقع ہیں۔ لیکن ملٹی لیٹرل قرضوں اور خصوصاً بانڈز پر کسی قسم کی چھوٹ نہیں ہو سکتی۔ اگر اس تمام صورتحال پر تھوڑا بھی غوروفکر کیا جائے تو واضح ہے کہ پاکستان کے پاس نہ وہ معاشی قوت ہے اور نہ قرضوں کے حصول کی امید جن کے ذریعے اپنی تمام اندرونی اور بیرونی قرضہ جاتی ذمہ داریاں پوری کی جا سکیں۔
عملی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان پہلے ہی دیوالیہ ہو چکا ہے جسے مصنوعی طور پر زندہ رکھا ہوا ہے۔ پچھلے ایک سال سے سوائے چند ایک سیکٹروں کے درآمدات بند ہیں، قرضے واپس کرنے کے لئے اکاؤنٹ میں پیسے موجود نہیں جبکہ اندرون ملک تمام تعمیری اور عوامی اخراجات کو سختی سے روکا ہوا ہے۔ اعلانیہ ڈیفالٹ کے بعدپاکستان میں مزید خوفناک معاشی اور سماجی حالات بنیں گے۔ سب سے پہلے روپیہ ہوا میں معلق ہو جائے گا اور اس کی گراوٹ کا کوئی شمار نہیں ہو گا۔ آج اگر 310 روپے کا ایک ڈالر اوپن مارکیٹ ریٹ ہے تو دیوالیہ ہونے کے بعد یہ کسی بھی انتہا تک جا سکتا ہے۔ یہ کوئی انہونی نہیں کیونکہ ہم نے لبنان جیسے ممالک میں ایسا ہوتے دیکھا ہے جہاں صرف اس ایک سال میں لبنانی کرنسی کی ڈالر کے مقابلے میں قدر 900 فیصد کم ہوئی۔ اس وقت ملکی بینکوں کا 56 فیصد قرضہ حکومتی بانڈز اور سیکیورٹیز پر مشتمل ہے جس کی عدم ادائیگی کے بعد کئی بینک دیوالیہ ہوں گے جو معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دیں گے۔ تمام اہم اشیاء جیسے ڈیزل، خوردنی تیل، ادویات، مشینری، خام مال، کھاد، کیمیا جات، اشیاء خوردونوش وغیرہ کی درآمدتقریباً ناممکن اور قلت خوفناک ہو جائے گی۔ تجارت کا پہیہ رک جائے گا اور دیگر ممالک کے ٹیکسٹائل کے لئے آرڈر منسوخ ہو جائیں گے۔ اندرون ملک ضروری اشیا کی قلت کے ساتھ بجلی، گیس، پانی وغیرہ کی لوڈ شیڈنگ گھنٹوں سے دنوں اور ہفتوں میں تبدیل ہو جائے گی۔ GDP میں دیوہیکل گراوٹ آئے گی، کاروباروں اور معاشی سیکٹروں کے دیوالیہ پن کا ایک طوفان امڈ آئے گا جس کے بعد کئی سیکٹر ہمیشہ کے لئے ناکارہ ہو جائیں گے۔ بیرونی ممالک اور بینکوں سے قرضہ جات کا حصول انتہائی مشکل اور گراں قدر ہو جائے گا جس کے ساتھ تباہ کن شرائط بھی منسلک ہوں گی۔ ان شرائط میں تمام عوامی اداروں کی نجکاری، ریاستی املاک کو گروی رکھوانا، دیوہیکل ٹیکس، سماجی اور ترقیاتی اخراجات میں شدید کمی، پینشن کا خاتمہ، نوکریوں سے جبری برخاستگی اور دیگر خوفناک مزدور اور عوام دشمن اقدامات شامل ہوں گے۔ بیروزگاری اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی عوام پر بجلی بن کر گرے گی۔ جرائم، اسمگلنگ اور کالی معیشت کا طوفان برپا ہو گا۔ ریاستی ادارے جو پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں معاشی تباہی کے نتیجے میں تیزی سے منہدم ہوں گے اور کرپشن کے نئے تاریخی ریکارڈ بنیں گے۔
حکمران طبقے کی تاریخی نااہلی اور عالمی مالیاتی ادارے
پچھلے 75 سالوں میں پاکستان کے حکمران طبقے نے ثابت کیا ہے کہ اس میں نہ اہلیت ہے نہ قابلیت کہ اس ملک کو جدید معاشی تقاضوں پر پروان چڑھا سکے۔ حکمران طبقے نے محض سامراجی آقاؤں، عالمی مالیاتی اداروں اور اجارہ داریوں کی براہ راست لوٹ مار کی دلالی کی ہے اور اپنا حصہ وصول کیا ہے۔ درحقیقت اس ملک کی معیشت ہمیشہ امریکہ اور آئی ایم ایف نے ہی چلائی ہے جس کا نتیجہ اب یہ ہے کہ سامراجی آقاؤں کی عدم دلچسپی میں یہ ریاست اور اس کے نظریات معاشی بحران کی حدت میں دم توڑ رہے ہیں۔ یہاں حکمران طبقے کے پاس ایک ہی حل موجود ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام لاگو کر کے عوام کے خون سے بھرے جام غٹاغٹ چڑھائے جائیں۔ آئی ایم ایف کی تمام سخت شرائط ماننے کے باوجود آئی ایم ایف کے مطالبات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ یہ 23واں پروگرام ہے جو اس سال 30 جون کو مکمل ہو گا لیکن یہ امکان بھی موجود ہے کہ یہ نامکمل ہی رہے اور اسے ایسے ہی ختم کر دیا جائے۔ ابھی سے اس سال ستمبر میں ایک نئے پروگرام کا عندیہ سنا دیا گیا ہے لیکن نئے پروگرام کا معاہدہ آسان نہیں ہوگا۔ آئی ایم ایف کے موجودہ قرض پروگرام کی آخری 1.6 ارب ڈالر کی قسط ابھی تک تعطل کا شکار ہے جس کی وجہ سے دیگر ممالک اور مالیاتی ادارے پاکستان کو پیسہ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ویسے بھی ایک ڈوبتے ملک کو کوئی پیسہ کیوں دے گا جب اس کی واپسی کی امید کم ہی ہو۔
نیا بجٹ بھی آئی ایم ایف کی شرائط پر ہی تیار کیا جا رہا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بیان دیا ہے کہ ”ہم بجٹ کی تمام تفصیل ان کے ساتھ شیئر کریں گے اور ہم دیگر اقدامات کرنے کو بھی تیار ہیں“۔ اس کے بعد آخری قسط اگر جاری ہوتی ہے، نام نہاد ”دوست ممالک“ اپنے واجب الادا قرضہ جات کی ادائیگی کے لئے کچھ وقت دینے پر رضامند ہو جاتے ہیں اور باہر سے دیگر ذرائع سے بھی قرضے ملتے ہیں تو بھی دیوالیہ کا خطرہ چند مہینوں کے لئے ہی ٹلے گا اور پاکستان ایک مرتبہ پھر آج سے زیادہ گھمبیر حالات کا شکار ہو گا جس میں حکمران طبقہ ”ملک کے وسیع تر مفاد میں مشکل فیصلے“ کرتے ہوئے یہاں کی بدحال عوام کی ہڈیوں کو مزید سرما بنائے گا۔ چند مہینوں پہلے تو آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کریسٹالینا جارجیوا کو بھی کہنا پڑ گیا تھا کہ پاکستانی اشرافیہ عوام کا خون مزید چوسنا بند کرے اور کچھ سختیاں خود بھی برداشت کرے! لیکن یہ صرف خیالی پلاؤ ہے اور ایسا ہونے کا کوئی امکان موجود نہیں۔ حکمران طبقہ پوری کوششیں کر رہا ہے کہ سرمایہ داروں کی سبسڈیوں، ریاستی حکام کی عیاشیوں اور دیگر مراعات کا بھرپور تحفظ کیا جا سکے۔ ایسے حالات میں حکمران طبقے سے کوئی بھی امید لگانا بیوقوفی ہی نہیں خودکشی ہے۔
عوامی بجٹ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے!
محنت کش طبقے کی ایک وسیع تحریک کی عدم موجودگی میں ان بھیڑیے نما حکمرانوں سے ریلیف کی کوئی امید نہیں۔ اربوں کھربوں پتی سرمایہ داروں کے لئے یہ قرضہ جات لئے گئے ہیں لیکن استحصال کی انتہا یہ ہے کہ کچھ مہینوں پہلے SECP (سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن) کی اپنی رپورٹ کے مطابق تمام کمپنیاں، فیکٹریاں اور اجارہ داریاں صرف2-2.5 فیصد کارپوریٹ پرافٹ ٹیکس ادا کرتی ہیں، وہ بھی اپنے ہی جاری کردہ پروڈکشن اور منافع کے اعداد و شمار کے مطابق، جبکہ ان پر قانونی ٹیکس کی شرح 29 فیصد ہے! سبسڈیاں، ٹیکس چھوٹ اور مراعات کی مد میں 2700 ارب روپے کا سالانہ خرچہ اس کے علاوہ ہے۔ عوام پر لاگو تمام بالواسطہ ٹیکسوں (ٹیکس آمدن کا دو تہائی) کا خاتمہ کرتے ہوئے براہ راست ان حریص بھیڑیوں سے ٹیکس وصولی ہونی چاہیے، ان کے لئے لیا ہوا اور ان پر خرچ ہونے والا قرضہ ہے تو ان کی ذمہ داری ہے کہ یہ قرضہ واپس ہو۔ جس قدر دیوہیکل منافع لوٹا جا رہا ہے اس کے کچھ حصے سے ہی تمام مزدوروں کے لئے کم از کم اجرت ایک تولہ سونا کے برابر دی جا سکتی ہے۔ دفاع کے نام پر دیوہیکل ضیاع اور لوٹ مار کو ختم کر کے صحت، تعلیم، رہائش اور دیگر عوامی فلاحی کاموں پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔ جرنیلوں، ججوں، بیوروکریٹوں اور دیگر ریاستی اشرافیہ کی اربوں روپوں کی تنخواہوں اور پرتعیش مراعات کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ ناکام کمپنیوں اور دیوالیہ فیکٹریوں کو ریاست اپنی تحویل میں لے کر پیداواری سرگرمیوں کو بڑھا سکتی ہے۔ عوامی اداروں کو ترجیحی بنیادوں پر معاشی مواقع اور حکومتی ٹھیکے دیے جا سکتے ہیں جبکہ نجی کمپنیوں کو منڈی میں مسابقت کے لئے مجبور کیا جا سکتا ہے۔ وسائل کا رخ رئیل اسٹیٹ جیسے شعبوں سے زراعت کی جانب موڑا جا سکتا ہے۔ لیکن آج سرمایہ داری اپنی تاریخی متروکیت کے جس مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اس میں یہ چند اقدامات اٹھانا بھی حکمران طبقے کے بس میں نہیں ہے۔ بحیثیت مجموعی عالمی اور مقامی سرمایہ دار متفق ہیں کہ معاشی نظام کے بحران کی ہر گھناؤنی اور تکلیف دہ قیمت محنت کش طبقہ ہی ادا کرے گا۔
سرمایہ دارانہ نظام میں سب سے بڑا ظلم و جبر یہ ہے کہ پیداوار کا عمل سماجی ہے یعنی محنت کش طبقہ پورے سماج میں تمام اشیاء کی پیداوار کر رہا ہے اور سروسز دے رہا ہے جبکہ ملکیت اور منافع نجی ہے یعنی مٹھی بھر اشرافیہ معاشرے کی تمام ملکیت اور اس سے پیدا کردہ دولت پر قابض ہے۔ اسی طرح اس معیشت کی حدود میں ایک اور ناقابل حل مسئلہ اجرت اور منافعے کا تضاد ہے کہ محنت کش طبقے کی اجرتیں جتنی کم رکھی جائیں گی اتنا ہی مٹھی بھر اشرافیہ کے منافعے میں اضافہ ہو گا۔ منافع اور سرمائے کا حرص حکمران طبقے کو جابر اور مزدور دشمن بناتا ہے۔ اسی طبقے کی تابع ریاست منافعوں کے حصول کے لئے عوامی فلاحی کاموں کو روکتی اور عوامی اداروں کو فالج زدہ کر کے اونے پونے داموں پھر اسی طبقے کو بیچ دیتی ہے۔ اس لئے اس طبقے سے کسی قسم کی خیر کی توقع کرنا خود فریبی ہے۔ ان تضادات کو ختم کر کے ہی عوامی فلاح و بہبود اور خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اپنے معاشی قتل کو بند کرنے کے لئے عوام کو خود آگے بڑھ اپنی تقدیر کے فیصلے اپنے ہاتھوں میں لینا ہوں گے اور اس پرانتشار معیشت کی جگہ ایک منصوبہ بند معیشت تعمیر کرنا ہو گی جس کا مقصد منافع خوری کے بجائے عوامی فلاح و بہبود کے لئے پیداوار ہو۔ ایسا صرف ایک مزدور ریاست کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ لیکن محنت کش طبقے کو اس تمام جدوجہد اور ازسر نو منصوبہ بند تعمیر کے لئے ایک انقلابی سیاسی پارٹی کی ضرورت ہے جو سوشلزم کے انقلابی پروگرام اور مارکسی نظریات سے لیس ہو۔ ایک ایسی پارٹی جس کی قیادت میں محنت کش طبقہ معیشت کے تمام کلیدی سیکٹروں کو اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لے۔ تمام بینک، صنعتیں، معدنیات، قدرتی وسائل وغیرہ اجتماعی ملکیت میں ہوں اور تمام درآمدات اور برآمدات پر مزدور ریاست کی اجارہ داری ہو۔ تمام اندرونی اور بیرونی قرضہ جات کو فوری ضبط کیا جائے اور مزید ادائیگیوں سے انکار کر دیا جائے۔ اشرافیہ کی تمام ملکیت پر اجتماعی قبضہ کر لیا جائے اور نجی ملکیت کا خاتمہ کر دیا جائے۔ پھر ہی ایک ایسی منصوبہ بند معیشت تعمیر ہو سکتی ہے جس میں مربوط پلاننگ ہو کہ کس شعبے میں کس قسم کی تکنیکی مہارت اور پیداوار کے لئے کتنے وسائل مختص کرنے ہیں۔ تمام افراد کو روزگار، صحت، تعلیم، رہائش، ٹرانسپورٹ اور تفریح وغیرہ کی مفت سہولیات میسر ہوں۔ پھر ہی ایک بھرپور زندگی اور حقیقی انسانی سماج کو تخلیق کیا جا سکتا ہے۔عالمی مارکسی رجحان ایک ایسی ہی انقلابی پارٹی کی تعمیر اور فیصلہ کن جنگ کے لئے جدوجہد کر رہا ہے اور ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ اس تاریخی کام میں ہمارے ساتھ شامل ہوں۔