|تحریر: حمید علی زادے، ترجمہ: علی عیسیٰ|
شام کی حکومت کا تختہ الٹ چکا ہے۔ بشار الاسد ملک سے فرار ہو گیا ہے۔ اس کی فوج نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ یعنی شامی حکومت کو شکست فاش ہو چکی ہے۔ جیلوں پر قبضہ کر کے ہزاروں قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔ جبکہ شام کی سڑکوں پر ہزاروں کی تعداد میں عوام جشن مناتے ہوئے نظر آئے ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
ملک کے مختلف علاقوں پر قابض مقامی فوجی جتھوں اور جنگی لارڈز نے اختیارات اپنے ہاتھوں میں لے لیے ہیں۔ دروز (اسماعیلی) کی فوج کی جانب سے سویڈا اور جنوبی علاقوں پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ امریکی پشت پناہی میں سرگرم فوجی جتھے التنف (Al Tanf) سے ملک کے مرکزی حصے کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں اور ایرانی فوجی جتھے دیر الزور (Deir Ezzor) سے پیچھے ہٹ چکے ہیں۔ اس علاقے کا کنٹرول کردش ایس ڈی ایف فورسز کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ جبکہ روسی افواج بشمول شامی فوج، مغربی ساحلی علاقوں کو چھوڑ چکی ہیں۔
تاہم، عبوری حکومت کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور یہ حقیقت ناقابل انکار ہوچکی ہے کہ اسلامی بنیاد پسند تنظیم حیات تحریر الشام (HTS) شام میں بطور غالب قوت ابھر کر سامنے آئی ہے۔ اس تنظیم کی جانب سے حلب کے دیہی علاقوں سے شروع ہونے والے محدود فوجی آپریشن تیزی سے شام کی فوج اور ریاست کے مکمل خاتمے میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ بلاشبہ یہ کامیابی انقرہ میں براجمان اس کے حامیوں سمیت خود تنظیم کے لیے بھی حیران کن ہے کہ ان اسلامی بنیاد پرستوں کے حملے مختلف شامی علاقوں میں باآسانی کامیاب کیسے ہو گئے۔
فی الحال، مشرق وسطیٰ میں جذبات بے قابو ہیں۔ کہیں لوگ اسد کے زوال پر خوشیوں کا اظہار کر رہے ہیں تو کہیں لوگ اسلامی رجعت پسندوں کی واپسی پر مزید عدم استحکام کے امکانات پر تشویش و ماتم کی صفیں بھی بچھائے بیٹھے ہیں۔ لیکن بطور انقلابی کمیونسٹ ہمارا فریضہ ہے کہ سپائنوزا کے الفاظ دہرائیں کہ ہمیں نہ ہنسنا ہے اور نہ رونا، بلکہ سمجھنا ہے۔
ملک پر قابض اسلامی بنیاد پرست پچھلے چودہ سالوں سے حکومت کے خلاف لڑنے کے باجود کامیابی حاصل نہیں کر پائے۔ جبکہ اب صرف دس دنوں میں کامیاب ہو گئے۔ کوئی بھی اس کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ یہ اس وضاحت کا تقاضا کرتا ہے کہ شام کی ریاست کے انہدام کے پیچھے کون سی قوتیں کار فرما تھیں؟
ایک نظر شام کے ”باغیوں“ پر
شامی تنازع پر مغربی میڈیا کی خبریں قابل تضحیک ہیں۔ یہی میڈیا ایک وقت پر باقاعدگی سے حماس اور حزب اللہ کی ”بربریت“ پر ماتم و مذمت کی سرخیاں لگانے میں مصروف تھا اور عین اسی وقت اسرائیل کی خون آلود وحشی حکومت کو مشرق وسطیٰ کی بطور ”واحد جمہوریت“ ہونے پر سراہنے جیسے بے ہودہ کام کا سہرا بھی اسی میڈیا کے سر جاتا ہے۔ اسی منافقانہ روایت کو جاری رکھتے ہوئے حیات تحریر الشام (HTS) اور اس کے اتحادیوں کو معزز، عزت دار القابات سے نوازتے ہوئے ”باغی“ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
مغرب کی جانب سے ان ”باغیوں“ کو ”معتدل باغی“ بھی کہا جاتا رہا ہے۔ ہم نے کئی بار یہ سوال اٹھایا ہے کہ ”یہ معتدل کس کے مقابلے میں ہیں؟“ تاحال اس کا کوئی جواب مل نہیں پایا ہے۔ یعنی یہ اسلامی بنیاد پرست جہادی ٹولا، داعش کی جانب سے عراق و شام میں مسلط کردہ بربریت و پاگل پن سے نسبتاً ”زیادہ معتدل“ تصور کیے جاتے ہیں۔
حقیقتاً ایچ ٹی ایس (HTS) کی جڑیں بھی وہیں ملتی ہیں جہاں داعش اور القاعدہ جیسے کٹر اسلامی بنیاد پرستوں کی بنیادیں پیوست ہیں۔ ان کے داعش سے محض حکمت عملی کے معاملات پر اختلافات ہیں جبکہ تمام بنیادی و اصولی سوالات پر یہ انہی رجعت پسند نظریات کے حامل ہیں۔ یہ اسلامی بنیاد پرستوں کا وہی گروہ ہے جو امریکہ، ترکی، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کی مسلح اور مالی امداد کی فراہمی کے سبب 2012ء کی آٹھ سالہ خانہ جنگی کے نتیجے میں پروان چڑھا۔
حیات تحریر الشام اور اس کے رہنما ابو محمد الجولانی، تمام اسلامی بنیاد پرستوں کی حقیقی اپوزیشن کو کچلتے ہوئے شمال مغربی صوبے ادلب (Idlib) پر قابض ہو گئے، جہاں یہ تحریک اسد کی افواج اور ان کے اتحادیوں کے ہاتھوں محصور ہو چکی تھی۔ یہاں اس کی بقا صرف ترک فوجی تحفظ اور اقتصادی مدد کے باعث ہی ممکن ہوئی ہے۔
تاہم، اسرائیل کی جانب سے غزہ اور لبنان میں جنگ کے سبب ایرانی اور حزب اللہ کے وسائل کا بڑا حصہ زیرِ استعمال رہا۔ یوکرین کی جنگ نے روس کی توجہ بھی ہٹا دی، جس کے سبب اسلامی بنیاد پرستوں کو مزید علاقوں پر قبضہ کرنے کا موقع مل گیا۔ ترک صدر اردگان نے اسے اپنے دیرینہ عزائم کی تکمیل کا موقع جانتے ہوئے شام میں اپنے اثر و رسوخ بڑھانے کی تگ و دو شروع کردی۔
اردگان طویل عرصے سے دوبارہ سلطنتِ عثمانیہ قائم کرنے کی غرض سے کے شام و شمالی عراق پر غلبہ پانے کے خواب دیکھتا آ رہا ہے۔ وہ شمال مشرقی شام پر قابض کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) سے منسلک کرد فوج کا بھی شدید مخالف ہے، جس میں اسے امریکہ اور اسد حکومت کی معاونت حاصل رہی ہے۔ عین اسی وقت اردگان کو اپنے ہی ملک میں بھی شدید بحران کا سامنا ہے اور وہ ان لاکھوں شامی مہاجرین کو واپس بھیجنا چاہتا ہے جنہیں اسد حکومت قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ لہٰذا روسی اور ایرانی ریاستوں کی دیگر معاملات میں مصروفیات کو غنیمت جان کر اس نے حیات تحریر الشام کو گرین سگنل دیا۔
البتہ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ سی آئی اے (CIA) اور موساد (Mossad) نہ صرف ان حملوں کی جانکاری رکھتے ہوں گے بلکہ ان کو خاموش یا فعال حمایت بھی فراہم کی ہو گی۔ ”کوئی بھی یہ نہیں سوچ رہا تھا کہ شام پر حالیہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں ایران اور شامی ریاست اتنی کمزور ہو جائے گی کہ ہم واپس آ کر زمینوں اور ملک کو آزاد کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔“ یہ بیان ایچ ٹی ایس (HTS) کے ذرائع کی جانب سے اسرائیلی میڈیا کو فراہم کیا گیا۔ ایران اور خطے میں اس کے اتحادیوں پر مسلسل عسکری و معاشی حملوں کے بغیر گزشتہ دو ہفتوں کے واقعات کا وقوع پذیر ہونا ممکن نہیں تھا۔
سامراجی مداخلت
اسلامی بنیاد پرستوں کی جانب سے 2011ء کے شام کے انقلاب کو سبوتاژ کیا گیا، یہی وہ بنیاد تھی جس نے شام کی حکومت کو بچایا۔ اسلامی بنیاد پرستی کے خوف سے شام کے عوام نے بشار الاسد کی حمایت کی جسے ایرانی حمایت یافتہ فوجی جتھوں اور روسی فضائیہ نے سہارا دیا۔ اب انہی جہادی طاقتوں کو آبادی کے بڑے حصوں کی جانب سے نہ صرف سراہا گیا بلکہ ان کا خیر مقدم بھی کیا گیا۔ ایسا کیوں ہوا؟
جیسا کہ ہم نے پہلے وضاحت کی تھی کہ شام مشرق وسطیٰ میں اب تک کے سب سے ترقی یافتہ ملکوں میں سے ایک تھا۔ 1970ء کی دہائی میں غیر معمولی واقعات کے ذریعے سرمایہ داری کو جڑ سے اکھاڑ پھینک کر بلند سطح پر صنعت کاری اور جدیدیت کو فروغ دیا گیا، نیز تمام تر ہمسایہ ممالک کی نسبت ثقافت اور فلاح و بہبود کے اعلیٰ معیار میں بھی شام نے اپنا ایک ممتاز مقام حاصل کیا۔
1990ء میں منڈی کی معیشت کے متعارف ہونے سے ہی غربت اور بیروزگاری دوبارہ سماج کے تانے بانے میں سرایت کرنے لگی۔ عرب بہار نے اپنے بیرونی اثرات مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ شام کے 2011ء کے انقلاب کے لیے سماجی و معاشی بنیادیں بھی فراہم کیں۔
مغرب کی مسلط کردہ جہادی مسلح کاروائیوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی خانہ جنگی نے صورتحال کو بدترین بنا دیا۔ لاکھوں افراد ہلاک ہوئے اور ملک کی آبادی کا 21 ملین پر مشتمل آبادی کا حصہ جو جنگ سے پہلے یہاں مقیم تھے، انہیں اپنے گھروں کو چھوڑ کر دوسرے علاقوں یا پڑوسی ممالک کی طرف ہجرت کرنی پڑی۔ مختصراً ایک پوری نسل کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔
دریں اثنا، صنعت سمیت اہم انفراسٹرکچر تباہ ہوا، شام کو مختلف سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں تقسیم کر کے اس پر کنٹرول حاصل کیا گیا اور سابقہ زرعی زمینوں سمیت تیل کے ذخائر بھی حکومتی کنٹرول سے کاٹ دیے گئے۔ شام کا جی ڈی پی 2010ء سے 2020ء کے درمیان نصف سے بھی کم رہ گیا۔ معیشت کا عدم استحکام ایک تباہ کن صورتحال اختیار کر گیا۔
جنگ کے بعد مغربی سامراج کا دباؤ
مجموعی طور پر مغربی سامراج نے خانہ جنگی میں شکست حاصل کی ہے۔ جہادی ٹولہ ملک کے شمال مغربی کونے میں محض ترکی سامراج کے رحم و کرم میں تن تنہا رہ گیا تھا۔ امریکہ نے جنوب میں التنف (Al Tanf) میں ایک کمزور فوجی اڈہ قائم رکھا اور شمال مشرق میں کرد فورسز پر قبضہ کیا۔ لیکن تمام بڑے شہر اور صنعتی علاقے بشار الاسد کے کنٹرول میں ہی رہے۔
تاہم، شام کو ایرانی حمایت یافتہ دشمن قرار دیتے ہوئے مغرب نے اس کی تعمیری منصوبہ بندی پر بے رحم پابندیاں عائد کر دیں۔ اسلحہ کے علاوہ توانائی کی درآمدات، انفراسٹرکچر کی تعمیر اور مالیاتی لین دین سمیت معیشت کے بنیادی ستونوں پر بھی سخت پابندی عائد کی گئیں۔ جیسا کہ مارچ 2022ء میں شام دنیا میں سب سے زیادہ پابندیوں کا شکار تیسرا ملک بن چکا تھا۔
دریں اثنا، شام میں مصائب کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری رہا، پہلے لبنان میں بینکاری کا بحران جو جزوی طور پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے پیش آیا، اس کے بعد پھر کرونا وبا، تباہ کن قحط اور 2023ء میں حلب میں آنے والا زبردست زلزلہ۔
عالمی بینک کی ایک رپورٹ اس صورت حال کا منظر نامہ کچھ یوں پیش کرتی ہے:
”شام کی معیشت 2023ء میں مزید بحران کی زد میں آ گئی تھی۔ معاشی سرگرمی میں ہر سال 1.2 فیصد کی شرح سے کمی واقع ہوئی، جس میں بالخصوص شام کے مغربی سرحدی علاقوں میں تجارتی لین دین کی کمی شامل ہے۔ (رات کے وقت گیس کے شعلوں سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کے مطابق) تیل کی پیداوار میں 5.5 فیصد کی سالانہ کمی آئی ہے جس کی ایک جزوی وجہ زلزلہ اور تنازعات سے متعلق انفراسٹرکچر کی تباہی بھی ہے۔ 2023ء میں موسمی حالات میں بہتری کی وجہ سے زرعی پیداوار میں بہتری آئی (جو 2022ء کی نسبت تاریخ کی کم ترین سطح پر تھی)، مگر تنازعہ کی وجہ سے زراعت کا شعبہ شدید متاثر ہوا، کسانوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی، انفراسٹرکچر اور آبپاشی کے نظام کی تباہی سے فصلوں کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ تنازعاتی مسائل نے غیر ملکی تجارت کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ملکی صنعت اور زرعی پیداوار میں کمی نے شام کو درآمدات پر زیادہ انحصار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اگرچہ 2011ء سے قبل بھی خوراک کی درآمدات ایک مسئلہ تھا لیکن تنازعے کے باعث اب یہ مزید شدت اختیار کر چکا ہے۔ 2023ء میں، شام کا پاؤنڈ امریکی ڈالر کے مقابلے میں 141 فیصد تک کمزور ہوا، جبکہ صارف قیمتوں میں افراط زر کا تخمینہ 93 فیصد کے قریب تک لگایا جا رہا تھا، جو حکومت کی جانب سے سبسڈیوں میں کٹوتیوں کے باعث مزید بڑھ گیا ہے۔ معیشت کی سست روی کے سبب مالیاتی آمدنی میں بھی کمی آ رہی ہے۔ اس کے رد عمل میں حکام نے اخراجات میں مزید کمی کی ہے، بالخصوص سرمایہ کاری کے اخراجات میں تیز کٹوتیوں سمیت عوامی سبسڈی میں خاتمے جیسے پروگراموں میں مزید سختی سے عملدر آمد کیا جا رہا ہے۔“
ان اعداد و شمار کی پشت میں ایک ایسے سماج کا عکس چھپا ہے جہاں مہذب زندگی کی بنیادیں ناپید ہو چکی ہیں۔ شام کے عوام ایک عبرتناک اور مفلسی پر مبنی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں سے نصف سے زیادہ بے روزگار اور 90 فیصد سے زائد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، جو 2009ء کی نسبت دو ڈالر کی روزانہ آمدنی سے بھی کم پر گزر بسر کر رہے ہیں۔ 2023ء کے ایک سروے کے مطابق، حلب کے علاقے میں تقریباً 11 فیصد خاندانوں سے منسلک بچے گھریلو آمدنی کو پورا کرنے کی غرض سے محنت مزدوری کرنے میں مصروف ہیں۔
سامراج کے خونی پنجوں سے پورا ملک خون آلود ہے۔ شام کے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو تباہی کے دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے اور یہی خونی کھیل خطے کے دیگر حصوں میں بھی جاری ہے۔
بشار الاسد اور اس کے آقا
شام میں سرمایہ داری ان تباہ کن حالات کے لیے کسی بھی قسم کا حل فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ ایرانی اور روسی فوج کے بل بوتے پر کھڑی شام کی ریاست کرپشن اور زوال پذیری کے عمارتوں کو چھو رہی تھی۔ سپاہی تنخواہوں سے محروم تھے، افسران وفاداری سے نہیں بلکہ سازشوں سے معمول چلاتے اور ریاستی حکام بے نیازی سے وسائل کی لوٹ مار میں مصروف تھے۔ ایک دہائی سے جاری مسلسل خانہ جنگی کے بعد جب عوام شام کی حکومت کی حاصلات پر نظر ثانی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو سوائے افسوس کرنے کے کچھ نہیں ملتا۔ جیسا کہ شام سے ہمارے ایک کامریڈ بتا رہے تھے: ”لوگ مایوس تھے اور کوئی بھی بشار الاسد کا تختہ الٹنے پر افسوس نہیں کر رہا تھا۔“
اسلامی بنیاد پرستوں کی فتح در حقیقت ان کی طاقت کا نہیں بلکہ بشار الاسد کی حکومت کی شدید گراوٹ اور کمزوری کا نتیجہ تھی۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسا ایک گلا سڑا سیب ہلکی سی جنبش سے گر پڑتا ہے۔
ہمارے سامنے یہ ایک مثال ہے کہ سرمایہ داری کی حدود و قیود میں رہ کر سامراج مخالف جدوجہد کا کیا نتیجہ ہوتا ہے۔ یقینا امریکی سامراج کے خونی عزائم کو شام میں شکست ہو گئی تھی۔ لیکن شام کا سرمایہ دار طبقہ ملکی مسائل حل کرنے کی اہلیت سے قاصر تھا۔ اس کے برعکس انہوں نے سماجی ترقی اور معیارِ زندگی کو بہتر کرنے کی بجائے عوامی وسائل کی بے دریغ لوٹ مار کو اپنے لیے منافع بخش سمجھا۔ یہ ناکامی حکومت کی بدنیتی یا نااہلی کی وجہ سے ہی نہیں ہوئی؛ موجودہ عہد میں سرمایہ داری کی فطرت ہی یہی ہے۔
روس اور ایران جو خود کو سامراج مخالفت اور سیکولر شام کا حامی ظاہر کرتے ہیں، اس صورتحال میں بغیر کسی مزاحمت کے پسپائی اختیار کرتے ہوئے نظر آئے۔ روسی افواج ساحل کی طرف پیچھے ہٹ گئیں تاکہ اپنی نیول بیسز (Naval Bases) اور فوجی تنصیبات کا دفاع کر سکیں۔ ایران کے فوجی جتھے عراق کی طرف واپس چلے گئے۔
یہ روس کی عالمی طاقت کے طور پر محدودیت کا واضح ثبوت ہے، جو بیک وقت دو محاذوں یعنی یوکرین اور شام پر لڑنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ اسی طرح ایران بھی اسرائیل اور مغرب کے ساتھ ایک سالہ جنگ کے بعد واضح طور پر نقصانات سے دو چار رہا ہے۔ مزید برآں، شام میں حکومت مخالف ماحول کے پیش نظر مسلح قوت کے ذریعے کنٹرول کی کوشش دونوں ممالک کے لیے مزید خطرات کا باعث بن سکتی تھی۔ مختصراً انہیں ایک نئی اور زیادہ طاقتور بغاوت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
آخر کار، لارڈ پامرسن (Lord Palmerston) کا پرانا قول سچ ثابت ہوا: ”ملکوں کے نہ مستقل اتحادی ہوتے ہیں، نہ مستقل دشمن، صرف مستقل مفادات ہوتے ہیں۔“ شام میں ایران اور روس کے مفادات در حقیقت ان کے متعلقہ سرمایہ دار طبقات کے مفادات تھے نہ کہ شام کی عوام یا مشرق وسطیٰ کے مفادات تھے۔
سامراج کے خلاف جدوجہد
اب شام اور پورے خطے کی دوبارہ تقسیم کے لیے ایک نئے خونی کھیل کا آغاز کیا جا چکا ہے۔ مغربی پشت پناہی میں اسرائیل کی غزہ اور لبنان میں مسلط کردہ جنگ پہلے ہی مشرق وسطیٰ میں نازک صورتحال پیدا کر چکی ہے۔ مختلف قوتوں کے توازن یا سمت کا تعین کرنا تاحال نا ممکن نظر آتا ہے۔
بہرحال یہ واضح طور نظر پر آرہا ہے کہ ترکی مضبوط جبکہ ایران اور روس کمزور ہوئے ہیں۔ یقینا عراق و لبنان میں جہاں صورتحال غیر مستحکم ہے وہاں ایران مخالف قوتوں کو حوصلہ ملے گا۔ اردن، خلیج اور مصر میں بھی آتش گیر مواد موجود ہے جو کسی بھی چنگاری کے سبب کبھی بھی بھڑک سکتا ہے۔
یہ سامراجی قوتوں کی غلیظ چالبازی کی غمازی ہے کہ وہ فقط اپنا تسلط برقرار رکھنے کی خاطر پورے خطے کو بربریت کی آگ میں جھونکنے کو پسند کریں گے۔ لہٰذا جب تک کرہ ارض سے سامراج نامی رجعتی ترین طاقت کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، تب تک یہ مشرق وسطیٰ اور پوری دنیا کو آگ میں دھکیلنے کی کوشش کرتی رہے گی۔
شام کے عوام کے لیے اس سب میں یہ سبق ہے کہ سامراج کے خلاف عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے کسی بھی سرمایہ دارانہ حکومت پر انحصار کرنا نری حماقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ فقط اپنی قوتِ بازو سمیت خطے اور اس سے باہر موجود لاکھوں محنت کش عوام کی طاقت پر انحصار کرنے سے ہی ممکن ہے۔ ہر ملک کے محنت کش عوام آج سرمایہ داری کے بحران کی زد میں ہیں، وہ سرمایہ دارانہ نظام جو آج سماج کی ترقی کے رستے میں مکمل رکاوٹ بن چکا ہے۔ مگر مستقبل میں انہیں اس سبق کی بڑی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
غربت، محرومی پسماندگی اور سامراج کے خلاف جدوجہد کی کامیابی فقط سرمایہ دار طبقے اور اس کے پورے نظام کے خاتمے سے ہی ممکن ہے۔ شام اور مشرق وسطیٰ کا انقلاب صرف مزدوروں اور کسانوں کی قیادت میں سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی فتح حاصل کر سکتا ہے، بصورتِ دیگر یہ فتح سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔