بلوچستان:مزدور دشمن صوبائی حکومت کی جانب سے بیوگا قیادت کے خلاف انتقامی کاروائیاں۔۔۔مردہ باد!

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کوئٹہ|

بلوچستان کی نااہل صوبائی حکومت کی جانب سے بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس (بیوگا) کی مرکزی قیادت کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ روز بیوگا کی مرکزی قیادت کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا جس میں مندرجہ ذیل بے بنیاد الزامات لگائے گئے۔ ان الزامات کی بنیاد پر بیوگا کے قائدین کے خلاف قانونی کاروائی کا حکم دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اس شوکاز نوٹس میں کُل دس الزامات کا جواب طلب کیا گیا ہے، اور اس نوٹس میں ایک شق یہ بھی شامل ہے کہ اگر تین دن کے اندر جواب جمع نہ کرایا گیا تو انہیں نوکری سے فارغ کر دیا جائے گا۔

الزامات

1۔ آپ نے حکومت اور حکومت کی پالیسی پر تنقید کی۔

2۔ آپ نے حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے دھرنا دیا۔

3۔ آپ نے ملازمین کو حکومت کے خلاف ورغلایا۔

4۔ آپ نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی اور آپ کی وجہ سے کوئٹہ میں کرونا وائرس پھیلا۔

5۔ 29 مارچ سے آپ ڈیوٹی سے غیر حاضر رہے۔

6۔ آپ نے سول سیکرٹریٹ کو زبردستی بند کر کے عوام کو تکلیف پہنچائی۔

7۔ آپ نے لاء اینڈ آرڈر خراب کیا۔

8۔ آپ کے دھرنے کی سیکورٹی پر آنے والے بے تحاشہ اخراجات حکومت کو برداشت کرنے پڑے۔

9۔ آپ نے کرونا ایس او پیز کی خلاف ورزی کی۔

10۔ آپ نے تنخواہیں بڑھانے کا غیر قانونی مطالبہ کیا اور ہڑتال کی۔

اس کے علاوہ بیوگا کے کنوینر عبدلمالک کاکڑ و ڈپٹی کنوینر عبدالخالق بلوچ اور بیوگا کے دیگر رہنماؤں کے خلاف فوجداری مقدمہ بھی درج کرنے کا حکم دیا گیا۔ جبکہ شوکاز نوٹس دیر سے جاری کرنے پر چیف سیکرٹری اور سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی کی سخت سرزنش کی گئی۔

ریڈ ورکرز فرنٹ سب سے پہلے نااہل و بے حس صوبائی حکومت کے اس عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ملازمین کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے سے اس طرح کے گھٹیا اور اوچھے ہتھکنڈوں سے ڈرایا نہیں جاسکتا۔ حکمران محنت کشوں کو ہمیشہ ہی مختلف حربوں سے دبانے کی کوشش کرتے ہیں، جس میں ریاستی مشینری کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ بالخصوص انتظامیہ، نام نہاد عدلیہ اور مقننہ کا کردار واضح طور پر مزدور دشمن ہوتا ہے جو محنت کش طبقے کی تحریک کو بے بنیاد الزامات اور جھوٹے پروپیگنڈوں کے ذریعے سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بلوچستان کی صوبائی حکومت روز اول سے ہی بیساکھیوں پر کھڑی ہے اور اپنی لوٹ مار جاری رکھنے اور سول و ملٹری اشرافیہ کی عیاشیوں کو برقرار رکھنے کیلئے پے در پے مزدور دشمن اقدامات کرتے ہوئے ان کے جائز اخراجات پر کٹوتیاں لاگو کر رہی ہے۔

ملک بھر کے محنت کشوں کی طرح بلوچستان کے محنت کشوں نے بھی جدوجہد کے ذریعے اپنی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ وفاقی حکومت سے تسلیم کروا لیا ہے، مگر اب صوبائی حکومت کی جانب سے اس فیصلے پر عمل درآمد میں کوئی پیش قدمی نہیں کی جارہی اور یہ کہا جا رہا ہے کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ البتہ یہاں یہ واضح رہے کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت کوئی خود مختار حکومت نہیں ہے بلکہ وفاقی فیصلوں کو من و عن لاگو کرتی ہے، یعنی کہ تنخواہیں جاری نہ کرنے کا فیصلہ مرکزی حکومت کا ہی فیصلہ ہے، ہاں البتہ اس مزدور دشمن فیصلے کے ساتھ صوبائی حکومت بالکل متفق ہے۔ عین بجٹ پیش ہونے سے چند دن پہلے گرینڈ الائنس کی مرکزی قیادت کے خلاف انتقامی کاروائیوں کا سلسلہ بھی اسی کا تسلسل ہے، جو کہ قابل مذمت ہے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ یہ سمجھتا ہے کہ ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے فی الفور اضافہ کیا جائے اور گرینڈ الائنس کے 19 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پر فی الفور عمل درآمد کیا جائے۔

واضح رہے کہ بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کی جانب سے 12 روزہ احتجاجی دھرنے کو ختم کرنے کے لیے نااہل صوبائی حکومت نے نام نہاد عدالت عالیہ کا سہارا لیا جس نے اسی طرح کے الزامات کے تحت گرینڈ الائنس کی قیادت کو بارہا عدالتی کمروں کے اندر ہراساں کیا، اور بالآخر جھوٹی تسلیاں دے کر احتجاجی دھرنے کو ختم کرانے میں کامیاب ہوئی۔ جس سے نام نہاد عدالت کا کردار واضح ہوتا ہے کہ وہ حکمران طبقے کے مفادات کی محافظ ہے۔ اب مستقبل میں اگر ملازمین کو کچھ ملے گا بھی تو وہ سب ان کی انتھک جدوجہد کا نتیجہ ہوگا نہ کہ عدالت عالیہ کا تحفہ۔

گو کہ احتجاجی دھرنے کے محدودیت کی وجہ سے محنت کش طبقہ تھکاوٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور قیادت کے پاس متبادل راستہ نہ ہونے کی صورت میں مذاکرات ہی پھر آخری آپشن سمجھا جاتا ہے۔ چند لوگوں نے عدلیہ کے کردار کو بھی کافی بڑھا چڑھا کر پیش کیا، جس کا بنیادی مقصد محنت کش طبقے کو عدلیہ سے ڈرانا بھی تھا اور عدالت پر جھوٹی امیدیں بھی قائم کرانا تھا۔ لہٰذا توہین عدالت کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے انہوں نے محنت کش طبقے کی صفوں میں عدلیہ کے خلاف بات کرنے کو شجر ممنوع قرار دے دیا اور عدلیہ کی جانب سے آئین و قانون کی بالادستی قائم کرنے کی مثالیں بھی سنائی گئیں۔ جبکہ زمینی حقائق اس کے بالکل برخلاف ہیں اور محنت کش طبقہ عدلیہ کے کردار کو اپنی عملی جدوجہد کے اندر کافی حد تک جان چکا ہے۔ بہر حال قیادت کی جانب سے عدلیہ کے اوپر کوئی واضح اور دو ٹوک تنقید ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے۔ مگر اس کے باوجود بیوگا کی قیادت نے زبردست جدوجہد کرتے ہوئے صوبے بھر کے اندر محنت کش طبقے کی آواز کو ایک لمبے عرصے کے بعد نہ صرف ان دلال اور بے حس حکمرانوں کے ایوانوں تک پہنچایا بلکہ پورے صوبے کے اندر محنت کش طبقے کی اس تحریک نے پورے صوبے کے محنت کش عوام کے شعور میں بھی معیاری جست لگائی ہے۔ اب اگر دوسری بار بلوچستان کے اندر اس طرح کا کوئی احتجاج ہوتا ہے تو اس میں محنت کش طبقے کے پاس بڑے پیمانے پر تجربات موجود ہوں گے جس سے وہ اپنی آنے والی احتجاجی تحریکوں میں بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ مگر ساتھ ساتھ قیادت کو احتجاجی دھرنے کی محدودیت کا کڑا تنقیدی جائزہ بھی لینا ہوگا تاکہ مستقبل میں اگر دوبارہ احتجاجی تحریک چلانے کی نوبت آتی ہے تو دوبارہ احتجاجی دھرنوں تک محدود رہنے کی وہی غلطی نہ دہرائی جائے۔ بلکہ اس کی بجائے صوبہ بھر میں موجود محنت کشوں کی تمام تنظیموں کو قائل کر کے ساتھ شامل کرتے ہوئے صوبے کی سطح پر عام ہڑتال کی کال دی جائے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ صوبے بھر میں ہونے والی ایک عام ہڑتال پورے ملک اور خطے کے محنت کشوں کو بے تحاشہ حوصلہ فراہم کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ محنت کش طبقے کی جڑت اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لڑائی میں بھی بہت اہم پیش رفت ہوگی۔

Comments are closed.