بلوچستان: ینگ ڈاکٹرز، پیرامیڈیکس اور نرسز کا احتجاج اور مذاکرات۔۔۔ نتائج و اسباق

|منجانب: ریڈ ورکرز فرنٹ، کوئٹہ|

کرونا وبا سے مقابلے کے لیے حفاظتی کٹس کی فراہمی اور مستقل روزگار کے حصول کے لئے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بلوچستان اور پیرامیڈیکس سٹاف کی احتجاجی تحریک کے دوران 7 اپریل کی رات کو مذاکرات ہوئے تھے جس میں حکومت بلوچستان کے وفد نے 48 گھنٹوں کے اندر مطالبات کو حل کرنے کا وعدہ کیا تھا جس کے بعد ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اور پیرامیڈیکس سٹاف نے طبی ملازمین پر بہیمانہ ریاستی تشدد اور گرفتاریوں کے بعد کی جانے والی ہڑتال کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔

مگر 8 اپریل کی رات کو ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اور پیرا میڈیکل اسٹاف فیڈریشن کے ساتھیوں نے سول ہسپتال کوئٹہ سے سی ایم ہاؤس تک احتجاجی شمع بردار ریلی نکالی، جو کہ رات گئے تک احتجاجی دھرنے کی شکل میں جاری رہی۔ اس احتجاجی ریلی کی وجوہات یہ تھیں کہ حکومت کے ساتھ 7 اپریل کی رات کو مذاکرات میں یہ طے پایا تھا کہ 8 اپریل کو حکومت کی طرف سے بنائے گئی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ اجلاس ہوگا۔ مذاکراتی کمیٹی کی جانب سے اجلاس کے حوالے سے کوئی رابطہ نہیں ہوا جبکہ ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن نے بارہا رابطہ کرنے کی کوشش کی، مگر اس کے باوجود بھی متعلقہ مذاکراتی کمیٹی کی جانب سے اجلاس کے لیے کوئی رسپانس نہیں ملا، اس کے علاوہ گزشتہ روز کی یقین دہانی کے باوجود طبی عملے کو معیاری حفاظتی لباس فراہم کرنے کی بجائے انہیں کاغذی میٹیریل کے بنے ہوئے عام ماسکس پر ہی ٹرخا دیا گیا۔ اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن بلوچستان اور پیرامیڈیکل سٹاف فیڈریشن کے ساتھیوں نے درست فیصلہ کرتے ہوئے حکومت کی مجرمانہ نااہلی اور بے حسی کو شمع بردار احتجاجی ریلی کے ذریعے عوام کے سامنے لانے کا فیصلہ کیااور یہ احتجاجی ریلی ایک احتجاجی دھرنے میں تبدیل ہوگئی۔ اس دھرنے نے موقع پر ہی دو اہم کامیابیاں حاصل کیں، جب رات کے چار بجے دو نوٹیفکیشنز کا اجراء ہوا۔

پہلا نوٹیفکیشن ینگ ڈاکٹرز کی ایڈہاک پر تعیناتی کے فیصلے کو مسترد کرنے کے حوالے سے تھا، جبکہ دوسرا نوٹیفیکیشن 6 اپریل کو ڈاکٹرز، پیرامیڈکس اور سیاسی کارکنوں پر پولیس کے تشدد اور غنڈہ گردی کے حوالے سے بنائی گئی کمیٹی کا تھا۔ اس کے علاوہ اس دھرنے میں حکومت کی طرف سے 7 اپریل کو بنائی گئی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ اجلاس کی یقین دہانی بھی کرائی گئی جس کا پہلا اجلاس 9 اپریل کو منعقد ہوا۔ جبکہ مذاکرات کا دوسرا اور تیسرا راؤنڈ 10 اپریل کو منعقد ہوا۔

ان اجلاسوں میں حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے ینگ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکس کے مطالبات کو جائز مانتے ہوئے ان کی حل کے حوالے سے سول بیوروکریسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یقین دہانی کرائی ہے جس میں یہ طے پایا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر 1500 حفاظتی کٹس اور دیگر حفاظتی آلات فراہم کیے جائیں گے۔ جبکہ ان تمام حفاظتی کٹس کو خریدنے والی سرکاری کمیٹی میں ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن کا نمائندہ بھی شامل ہوگا۔ مزید برآں، ینگ ڈاکٹرز کے لیے موجودہ 1200 خالی اسامیوں کو پبلک سروس کمیشن کے ذریعے مشتہر کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ یہ خالی آسامیاں پچھلے پانچ، چھ سالوں سے مشتہر نہیں کی گئی ہیں، جو کہ موجودہ حکمرانوں اور اپوزیشن پارٹیوں دونوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ تیسرا مطالبہ پیرامیڈکس سٹاف فیڈریشن کی جانب سے منظور شدہ سمری پر عمل درآمد کے حوالے سے نوٹیفکیشن کا اجراء تھا اس حوالے سے بھی پیرا میڈیکس نے کامیابی حاصل کی اور عرصہ چھ سال سے ہیلتھ رسک الاؤنس اور ہیلتھ پروفیشنل الاؤنس کی منظور شدہ سمری پر بھی بالآخر عملدر آمد ہوگیا اور اس حوالے سے بھی نوٹیفکیشن جاری ہوچکے ہیں۔

واضح رہے کہ 6 اپریل بروز سوموار کوئٹہ میں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن،پیرا میڈیکس اور نرسز کے زیراہتمام، وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے احتجاجی دھرنا ہو تھا۔ دھرنے پر پولیس کی غنڈہ گردی اور تشدد کے حوالے سے ہم پہلے مفصل رپورٹ لکھ چکے ہیں کہ کس طرح منافقت پر مبنی ریاستی پراپیگنڈہ بے نقاب ہوا کہ کچھ دن پہلے طبی عملے کو مسیحا قرار دے کر ان کو سلامی دی جا رہی تھی مگر یہی مسیحا جب اپنی اور عوام کی حفاظت کے لیے نااہل حکمرانوں سے حفاظتی کٹس کی فراہمی کا مطالبہ کر رہے تھے تو ان پر زبر دست ریاستی تشدد کیا گیا۔ لیکن یہاں پر ضروری ہے کہ ہم احتجاج سے لے کر مذاکرات تک کے پورے عمل کا جائزہ لیں۔

بلوچستان سمیت ملک بھر میں کرونا وائرس کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑنے والے ینگ ڈاکٹرز سمیت دیگر طبی عملہ حفاظتی کٹس کی شدید کمی کا سامنا کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ملک بھر میں طبی عملے کی ایک قابل ذکر تعداد کرونا وائرس سے متاثر ہوچکی ہے اور اس میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے مگر ملک کا نااہل اور بے حس حکمران طبقہ اور ریاستی اشرافیہ اپنی نااہلی کو چھپانے کے لئے مختلف حیلے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔

بلوچستان میں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اور دیگر طبی محنت کشوں نے کرونا وائرس وبا کے خلاف لڑائی کے دوران ریاستی نااہلی، بے حسی، غفلت اور کرپشن کو نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر ایکسپوز کیا ہے۔ شعبہ صحت کے محنت کشوں نے زبردست اتحاد اور ولولے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک نہایت ہی جرأت مندانہ لڑائی لڑی جس پر بلاشبہ وہ خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔ بیک وقت حکومت، افسر شاہی، عدلیہ، میڈیا، خفیہ اداروں اور تحریک کے اندر موجود ان کے دلالوں کی سازشوں، حملوں، پروپیگنڈے اور دباؤ کا مقابلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔

مگر یہاں پر چند اہم نکات کی طرف توجہ مبذول کرانا ناگزیر ہے جس میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اس وقت پورے ملک کے اندر (فرنٹ لائن سولجرز) یعنی طبی محنت کش حفاظتی آلات کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں جس کا اظہارہم ملک بھر کے اندر کئی ایک واقعات میں دیکھ چکے ہیں اور شعبہ صحت کے عملے میں کرونا وائرس کے متاثرہ افراد کی ملک گیر تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ایسے وقت میں جب بلوچستان کے ینگ ڈاکٹرز، پیرامیڈکس اور دیگر طبی عملہ حفاظتی کٹس کی فراہمی کے حوالے سے احتجاج پر تھے تو ملک بھر کی ینگ ڈاکٹرز، پیرامیڈکس اور نرسز کی ایسوسی ایشنز اور دیگر نمائندہ تنظیمیں اس احتجاج کو ملک گیر سطح پر احتجاج میں تبدیل کر سکتی تھیں جس کے نتیجے میں ایک طرف نہ صرف شعبہ صحت بلکہ باقی تمام محنت کشوں کو بھی اپنی طبقاتی طاقت کا ادراک ہوتا بلکہ اس ملکی سطح کے احتجاج کے ذریعے حفاظتی کٹس کی عدم فراہمی کے مسئلے کو بھی بہت حد تک حل کیا جا سکتا تھا۔ اس سلسلے میں ینگ ڈاکٹرز ایسو سی ایشن پنجاب اور پختونخوا کا اہم کردار بنتا تھا کیونکہ ان دونوں تنظیموں نے گزشتہ سال میں شاندار نجکاری مخالف احتجاجی تحریک چلائی تھی اور گرینڈ ہیلتھ الائنس کی بنیاد ڈالی تھی۔ مگر ان تنظیموں کی قیادتیں بھی اب روایتی ٹریڈ یونین اشرفیہ کے طور پر اپنا کردار بنانے میں مگن ہیں اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکی ہیں۔ پنجاب اور پختونخوا میں گرینڈ ہیلتھ الائنس کے ڈھانچے اب بھی موجود ہیں جن کو اس ملک احتجاج کے لئے باآسانی بروئے کار لایا جا سکتا تھا لیکن قیادتوں کی موقع پرستی اور کوتاہ نظری کے باعث ایسا نہیں کیا گیا اور صرف کالی پٹیاں باندھنے پر ہی اکتفا کیا گیا حالانکہ اس وقت جو صورتحال بنی ہوئی ہے اس میں شاید صرف ایک ملک گیر احتجاج کی دھمکی ہی حکومت کے اوسان خطا کرنے کے لئے کافی ہوتی۔

دوسری طرف بلوچستان کے ینگ ڈاکٹرز، پیرامیڈکس اور دیگر طبی عملے کی اس شاندار جدوجہد کے خلاف بد ترین حکومتی پراپیگنڈہ بھی کیا گیا، جس میں حکومت نے اس انتہائی جائز احتجاجی تحریک کو اپوزیشن پارٹیوں سے جوڑنے کی غلیظ کوشش کی جس کو ینگ ڈاکٹرز، پیرامیڈکس اور دیگر طبی عملے نے فی الفور مسترد کر دیاکیونکہ ان پارٹیوں کے کردار سے بلوچستان کے طبی محنت کش بخوبی واقف ہے۔ اسی طرح، جب اور کچھ نہیں بن پڑا تو جام کمال نے اس احتجاج کے قلابے پی ٹی ایم سے ملانے کی بھی ناکام کوشش کی۔ اس حکومتی پراپیگنڈے کا حصہ بننے والے چند تنگ نظر لبرل اور قوم پرست خواتین و حضرات نے بھی اپنی نظریاتی پراگندگی کا بھر پور اظہار کرتے ہوئے اس شاندار جدوجہد کو ”گڑبڑ“ اور”حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی“ کے نام سے متعارف کرانے کی غلیظ حرکت کی۔ ہر وقت اینٹی اسٹیبلشمنٹ لفاظیوں کی جگالی کرنے والے ان تمام لبرل و تنگ نظر قوم پرست خواتین و حضرات کی خمیر میں یہ چیز شامل ہے کہ جب بھی محنت کش طبقہ اٹھتا ہے تو یہ اس کی تحریک کیخلاف کئے جانے والے سرکاری پراپیگنڈے پرفوراً سے ایمان لے آتے ہیں اور ایک منٹ میں اسٹیبلشمنٹ کے نام نہاد ناقدوں سے نیم سرکاری ماؤتھ پیس بن جاتے ہیں۔

ینگ ڈاکٹرز، پیرامیڈیکس اور دیگر طبی عملے کی احتجاجی تحریک کے دوران حکومت کی طرف سے ایک اور مکارانہ پروپیگنڈے کا بخوبی استعمال کیا گیا اور کہا گیا کہ ینگ ڈاکٹرز ایک سالہ کنٹریکٹ ختم ہونے کے بعد پبلک سروس کمیشن پاس کیے بغیر بطور میڈیکل آفیسرز تعیناتی کے لیے احتجاج پر ہیں جس کی وضاحت اور تردید ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بلوچستان کے ترجمان نے بارہا کی اور واضح کیا کہ اس معاملے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی کے مطابق ینگ ڈاکٹرز اپنی تعیناتی چاہتے ہیں جس میں یہ کہا گیا ہے کہ 1سالہ کنٹریکٹ پورا ہونے کے بعد ینگ ڈاکٹرز کو پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ریگولر کیا جائے گا مگر حکومت بلوچستان اپنی نااہلی، بے حسی، غفلت اور کرپشن کو چھپانے کے لئے ایسے پراپیگنڈوں کا سہارا لے رہی ہے اور پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ملازمتوں کی مستقلی کی بجائے کنٹریکٹ پر ہی کام چلانا چاہتی ہے جو کہ صریحاً عدالتی احکامات کی خلاف ورزی بھی ہے۔

ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملے کی کمی اور صحت کے حوالے سے بلوچستان میں صورتحال مزید سنگین ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ اس وقت بلوچستان میں ڈاکٹرز کی تعداد پورے ملک کی نسبت بہت کم ہے۔ ایک سروے کے مطابق 7,300 افراد پر ایک ڈاکٹر اس وقت بلوچستان میں اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ اس وقت بلوچستان میں بولان میڈیکل یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ینگ ڈاکٹر کے تقریبا سات بیچز بیروزگار ہیں۔ دو سال پہلے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق حکومت بلوچستان نے 1 سالہ کنٹریکٹ پر صوبہ کے دور افتادہ علاقوں میں ینگ ڈاکٹر کو تعینات کیا تھا جس میں یہ واضح تھا کہ ایک سال سروس کرنے کے بعد ان تمام ڈاکٹرز کو پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ریگولر کیا جائے گا۔ مگر ینگ ڈاکٹرز کا ایک سال جاب پورا کرنے کے بعد نہ تو ان کے کنٹریکٹ میں توسیع کی گئی ہے، گوکہ توسیع کرنے کے فیصلے کو ینگ ڈاکٹر پہلے ہی سے مسترد کر چکے تھے، اور نہ ہی ان تقرریوں کو عدالتی احکامات کے مطابق پبلک سروس کمیشن کے ذریعے مستقل کیا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ یہ سلسلہ پچھلے آٹھ سالوں سے مسلسل جاری ہے جس میں صوبے کی تمام اپوزیشن پارٹیاں بھی ملوث ہیں۔ 2016ء میں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بلوچستان اور پیرامیڈکس فیڈریشن نے احتجاجی تحریک چلائی تھی جس میں قوم پرست صوبائی حکومت نے وقتی طور پر تمام ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکس کے مطالبات کو تسلیم کیا تھا۔ مگر ان مطالبات پر عملدرآمد صوبائی حکومت، افسر شاہی اور نام نہاد عدلیہ کی ملی بھگت کی نذر ہوگیا، جس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے مطالبات پورے کرنے کے لئے تین دن کی مہلت پر سول ہسپتال کوئٹہ میں ینگ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف فیڈریشن کے احتجاجی کیمپ کو ختم کرایا تھا مگر وہ تین دن تین سالوں میں تبدیل ہوگئے۔ جبکہ آج ینگ ڈاکٹرز، پیرامیڈکس اور دیگر طبی عملے کی موجودہ احتجاج کے ساتھ نام نہاد اظہار یکجہتی کر کے اپوزیشن پارٹیاں اپنی نااہلی اور عوام دشمنی کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

کرونا کی وبا نے پاکستان کی سامراجی گماشتہ سکیورٹی اسٹیٹ اور تاریخی نااہلی کے شکار ایک خصی مگر انتہائی ظالم سرمایہ دار حکمران طبقے کے محنت کش عوام کی صحت اور انہیں علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی کے متعلق انتہائی بے حسی اور مجرمانہ لاپرواہی پر مبنی رویے کو بھی پوری طرح آشکار کیا ہے۔

پچھلے73 سالوں سے یہاں کا سرمایہ دار حکمران طبقہ اور ریاستی اشرافیہ عالمی بورژوازی، ملٹی نیشنل کمپنیوں، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی مالیاتی اداروں کی گماشتگی کرتا آیا ہے اور انہیں اس ملک کے درماندہ عوام کو لوٹنے کی کھلی چھوٹ دینے کے بدلے میں اپنی تجوریاں بھی بھرتا رہا ہے۔ کرونا کی عالمی وباء کی وجہ سے پیدا ہونے والی بحرانی کیفیت میں ریاست مدینہ کے حکمران، فوجی اشرافیہ، افسر شاہی اور سرمایہ دار اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے بدستور اپنی تجوریاں بھرنے میں دل کھول کر مصروف ہیں، جس کا اظہار ہمیں بیرونی امداد میں موصول ہونے والی حفاظتی کٹس اور دیگر طبی سامان کے معاملے کرپشن کی شکل میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جہاں ایک طرف ان تمام حفاظتی آلات کی عدم فراہمی کے حوالے سے ملک بھر کا طبی عملہ شدید پریشانی کا شکار ہے وہیں دوسری طرف ان حفاظتی آلات کو کرپشن اور مال بنانے کی غرض سے حکمرانوں، فوجی اشرفیہ، اور بیوروکریسی نے آگے بلیک میں بکنے کے لئے میڈیکل سامان کے بڑے تاجروں کے ہاتھ بیچ دیا ہے۔ اس وقت ملک بھر کے بڑے بڑے میڈیکل سپلائی چینز پر N95 ماسک 350 روپے کی عمومی قیمت کے بجائے 4500 روپے تک کا مل رہا ہے۔ طبی عملے کے علاوہ اس وقت دیگر شعبوں میں کام کرنے والے محنت کش بھی کرونا وائرس کا شکار ہورہے جس میں پی آئی اے سٹاف کے پانچ افراد بھی شامل ہیں۔ جبکہ پی آئی اے کے محنت کشوں نے حفاظتی کٹس کی وصولی کے لئے کامیاب احتجاج کیا جس کے لئے انہوں نے جہازوں کو اڑانے سے انکار کر دیا تھا۔ اس صورتحال میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ حفاظتی کٹس اور دیگر آلات اس وقت ریاست کی مقتدر قوتوں کے پاس موجود ہیں، مگر وہ اس سامان کو کسی احتجاج کے دباؤ میں آ کر ہی دیتے ہیں۔

واضح رہے کہ ریڈ ورکرز فرنٹ بلوچستان کے کارکنان نے طبی محنت کشوں کی حالیہ احتجاجی تحریک میں بھر پور حصہ لیتے ہوئے اپنی عددی بساط کے مطابق ایک شاندار کردار ادا کیا اور کافی حد تک تحریک کے فیصلہ جات میں بھرپور اور درست مداخلت کرتے ہوئے تحریک کی قیادت کو ڈٹ جانے کی شکتی فراہم کی۔ مگر ساتھ ہی ساتھ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں حوصلہ مندی اور سیاسی دانش کے ساتھ اس تمام تر لڑائی کو آگے لے جانا ہوگا۔ اس مقصد کے لئے صرف حفاظتی کٹس اور مستقل روزگار کے مطالبے تک ہی محدود رہنا تنگ نظری ہو گی۔قیادت کو چاہئے کہ وہ جرات مندی کے ساتھ صوبائی اور وفاقی حکومت سے اس طبی بحران کا تمام تر مالی بوجھ سرمایہ دار طبقے پر ڈالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے صحت کے سرکاری بجٹ کو جی ڈی پی کے دس فیصد تک بڑھانے کا مطالبہ کرے۔آئی ایم ایف،ورلڈ بینک اور نجی ملکی بینکوں سے حاصل کردہ قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی کی کم از کم ایک سال کے لئے معطلی اور اس رقم کا شعبہ صحت پر خرچ کیا جانا بھی ایک نہایت اہم مطالبہ ہے۔اسی طرح بحران کی مدت کے لئے تمام نجی ہسپتالوں،لیبارٹریوں اور نجی دوا ساز کمپنیوں کو بھی ریاستی کنٹرول میں لینا ضروری ہے۔مزید برآں بڑے نجی ہوٹلوں،پلازوں اور پوش رہائشی علاقوں میں خالی پڑے بڑے بڑے محل نما گھروں کو بھی عارضی ریاستی تحویل میں لیتے ہوئے قرنطینہ مراکز میں بدلا جا سکتا ہے۔اسی طرح عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے بننے والے بڑے بڑے سرکاری ایوان بھی اس مقصد کے لئے استعمال میں لائے جا سکتے ہیں۔ یہ اور ان جیسے دیگر عبوری مطالبات سامنے رکھتے ہوئے ہی طبی محنت کش نہ صرف اپنی تحریک کو آگے لیجا سکتے ہیں بلکہ پورے ملک کے محنت کش طبقے کے لئے مشعل راہ بھی بن سکتے ہیں۔

Comments are closed.