کتاب: ”ادب اور معروضی حقیقت“؛ مارکسی جمالیات میں ایک مطالعہ

|تحریر: آدم پال|

 

 

ابنِ حسن کی ادب اور جمالیات کے موضوع پر انتہائی اہم تحریریں اب کتاب کی شکل میں شائع ہو چکی ہیں اور خریداری کے لیے دستیاب ہیں۔

ادب اور جمالیات کسی بھی سماج کے تانے بانے کا حصہ ہوتے ہیں اور انہیں کسی بھی صورت الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ہزاروں سالوں کی انسانی تاریخ میں ہمیں ہر عہد میں ادب، موسیقی اور دیگر فنون لطیفہ لوگوں کو مسحور کرتے نظر آتے ہیں۔ درحقیقت آج یہ سماج جس شکل میں موجود ہے اس کو بنانے اور سنوارنے میں ادب اور فن کا اہم کردار ہے۔ کسی بھی عہد کے ادب اور فن کا مطالعہ جہاں اس عہدکی تاریخ سے روشناس کرواتا ہے وہاں اس دور میں رہنے والے افراد کے باہمی تعلقات، ان کے عقائد اور دیگر سماجی حالات کا تعین کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ہزاروں سال پہلے کہی گئیں بہت سی کہانیاں آج بھی زبان زد عام ہیں اور دیو مالائی قصوں سے لے کر موسیقی کی خوبصورت دھنوں تک بہت کچھ صدیوں کا سفر طے کر کے آج بھی لاکھوں انسانوں کو حظ اور خوشی عطا کر رہا ہے۔ اسی طرح نئی کہانیاں بُننے کا سلسلہ بھی رکا نہیں بلکہ جاری و ساری ہے جبکہ شاعری، فلم اور ڈرامے سے لے کر موسیقی اور مصوری تک مختلف شعبوں میں آج بھی دنیا بھر کے کروڑوں لوگ نہ صرف دلچسپی لیتے ہیں بلکہ ان سے لطف اٹھانے کے لیے تمام تر مصروفیت کے باوجود وقت ضرور نکالتے ہیں۔

ہم نے کئی دفعہ دیکھا ہے کہ کسی بھی سیاسی تقریر، خواہ کتنی ہی ولولہ انگیز یا آتشیں کیوں نہ ہو، کی نسبت شاعری سننے والوں پر کئی گنا زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ اسی طرح خوبصورت موسیقی کے امتزاج سے یہ شاعری لاکھوں دلوں کی دھڑکن بن جاتی ہے اور آنے والی کئی نسلیں نہ صرف اسے یاد رکھتی ہیں بلکہ اس سے جرات اور ہمت لینے کے ساتھ ساتھ اپنا پیغام آگے بھی پھیلاتی رہتی ہیں۔ اسی طرح کہانیوں اور کرداروں کو اگر خوبصورت انداز میں بیان کیا جائے تو یہ سننے والوں کے دلوں میں گھر کر جاتے ہیں۔ بہت سے افسانوی کردار تاریخی اہمیت کے حامل بن جاتے ہیں اور لاکھوں لوگ ان کرداروں جیسا بننے اور ان کی تقلید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری جانب تاریخ کی بہت سی عظیم ہستیاں جب ادیبوں اور فنکاروں کو متاثر کرتی ہیں تو ان فنکاروں کا ہنر ان ہستیوں کو افسانوی کرداروں کا روپ دے دیتا ہے جو پھر آنے والی کئی نسلوں کو اپنی عظمت سے سیراب کرتی رہتی ہیں۔

ادب اور جمالیات کے اسی طاقتور کردار کے باعث ہر عہد کا حکمران طبقہ اسے اپنے تابع رکھنے کی کوششیں کرتا آیا ہے اور اسے اپنی حکمرانی قائم رکھنے کے لیے ایک اوزار کے طور پرا ستعمال کرتا رہا ہے۔ دوسری جانب انقلابی قوتیں ہر عہد میں تمام تر رکاوٹوں اور پابندیوں کے باوجود سماج کے حقیقی تضادات کو اپنے فن کے ذریعے آشکار کرتی رہی ہیں اور ان کے ذریعے اپنے نظریات اور منشور عوام کی وسیع تر پرتوں تک پہنچاتی رہی ہیں۔ وقت کی ستم ظریفی ہے کہ آج صرف وہی ادب اور فن زندہ ہے جس نے اپنے عہد میں سماج کے حقیقی تضادات کو اجاگر کیا اور جو انقلابی قوتوں کی ترجمانی کرتا رہا ہے اور سماج کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ حکمرانوں کی کاسہ لیسی کرنے والا ہر ادب اور فن اپنی موت آپ مر چکا ہے۔

آج بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ سرمائے کی طاقت کے زور پر آج بھی دنیا بھر میں ایسا ادب اور فن مسلط کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جو محنت کش عوام کو مایوسی، بد گمانی اور بدظنی کی دلدل میں دھکیل دے۔ عالمی سطح پر جب سرمایہ دارانہ نظام زوال پذیر ہے اور دنیا بھر میں حکمران طبقہ اپنے بقا کی تگ و دو میں مصروف ہے وہاں ادب اور فن کے ذریعے سماج پر بھی خوف اور ڈر کے سائے مسلط کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔اسی مقصد کے لیے جمالیات کے شعبے میں عوام دشمن نظریات کو فروغ دیا جا رہا ہے اور انہیں تعلیمی اداروں، نامور دانشوروں اور میڈیا کے ذریعے پھیلایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ریاستی سرپرستی اور سامراجی طاقتوں کی معاونت سے ایسا ادب اور فن تخلیق کیا جا رہا ہے جو سماج کے حقیقی تضادات پر پردہ ڈال کر غیر حقیقی تصورات اور خیالات کو پروان چڑھائے۔ آج کے عہد میں جو گلوکار سب سے بے سرا ہے وہ سب سے زیادہ مقبول ہے اور جو شاعر اور ادیب سب سے زیادہ رجعتی اور پسماندہ نظریات سب سے بے ڈھنگے انداز میں بیان کرتا ہے وہ سب سے زیادہ معزز اور قابل تعریف گردانا جاتا ہے۔ دوسری جانب سماج کے حقیقی تضادات کو بیان کرنے والے اور اس انسان کے دشمن سماج کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کرنے والے زیر عتاب آتے ہیں اور ان کی کاوشوں کا گلا گھوٹنے کی ہر طرح سے کوششیں کی جاتی ہیں۔

ایسی صورتحال میں ابنِ حسن کی یہ کتاب انتہائی اہمیت کی حامل ہے جس میں جمالیات کے شعبے کا مارکسی نظریات کے تحت جائزہ لیا گیا ہے۔ اس نقطہ نظر سے ایسی کوئی بھی کتاب اردو میں پہلے موجود تھی نہ ہی ایسے موضوعات کا یہاں مارکسی نقطہ نظر سے پہلے کبھی جائزہ لیا گیا تھا۔ اردو ادب پر مارکسی تنقید کے حوالے سے اسے پہلی مستند کتاب کہا جا سکتا ہے اس کے علاوہ برصغیر کی موسیقی اور شاعری پر بھی پہلی دفعہ مارکسی نقطہ نظر سے ایک تجزیہ سامنے آیا ہے جس میں تاریخی مادیت کے ذریعے یہاں کی کلاسیکی اور فلمی موسیقی کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ اسی طرح فیض احمد فیض کی انقلابی شاعری اور کرشن چندر، منٹو اور دیگر کی تحریروں اور حقیقت نگاری کے فن کا جائزہ لیا گیا ہے جسے پڑھنا آج کے ادیبوں اور انقلابیوں کے لیے انتہائی اہم ہے۔

اس کتاب کا سب سے اہم پہلو اس کی فلسفیانہ گرفت اور گہری نظریاتی بنیادیں ہیں۔ فلسفے کے انتہائی دقیق موضوعات کو جس مہارت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور انہیں جمالیات پر تنقید کے ساتھ جیسے جوڑا گیا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ آج کل کے اکثر ادیب، شاعر اور فنکار فلسفے سے نابلد ہیں اور اسے انتہائی بیکار اور لغو علم گردانتے ہیں۔سرکاری فلسفوں اور تدریسی علوم کے حوالے سے یہ رویہ درست بھی ہے۔ لیکن یہ عمل مارکسی فلسفے اور سچائی سے دوری کا باعث بھی بنتا ہے۔ جمالیات پر تنقید کرنے والوں کے حوالے سے یہ زیادہ درست ہے اور ان کی اکثریت حقیقی فلسفے اور سچائی سے کوسوں دور ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر تنقید نگاروں کا مطالعہ بھی انتہائی محدود ہے۔ یہ صورتحال سماج کی عمومی گراوٹ اور موجودہ سماجی معاشی نظام کے زوال کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ ماضی کے تمام عظیم فنکار اور ادیب فلسفے کے علم سے نہ صرف گہرا لگاؤ رکھتے تھے بلکہ کسی حد تک اس پر عبور حاصل کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ اس کتاب میں قارئین کو انہی عظیم روایات کی جانب لوٹنے کی ترغیب بھی نظر آتی ہے۔ ایک طرف مصنف کا وسیع مطالعہ قارئین کو عالمی ادب اور ہیگل اور مارکس جیسے عظیم فلسفیوں کے مزید مطالعے کے لیے اکساتا ہے جبکہ دوسری جانب سماج کے حقیقی تضادات کا ادراک ان تضادات کو حل کرنے کی جدوجہد کی جانب مائل بھی کرتا ہے۔ کارل مارکس کے تاریخی الفاظ میں، ”فلسفیوں نے اب تک دنیا کی تشریح کی ہے، جبکہ اصل کام اس کو تبدیل کرنا ہے“۔ اس کتاب کا مطالعہ بھی دنیا کو تبدیل کرنے کی جدوجہد میں ادب اور فن کے کردار کو مزید اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔

قیمت: 4000 روپے، تعارفی قیمت: 2000 روپے

Comments are closed.