امریکہ، روس، چین کشیدگی اور عالمی سطح پر نئے بلاکس کا اُبھار

|تحریر: حمید علی زادے، بین کری، ترجمہ: ولید خان|

سرمایہ داری کا بحران سویت یونین کے انہدام کے بعد بننے والے عالمی نظم کا بھی بحران ہے جس کی بنیاد امریکی سامراج کا عالمی تسلط تھا۔ چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوت بن چکا ہے، روس کی سرکشی بڑھتی جا رہی ہے اور امریکہ ماضی کی طرح عالمی طور پر عسکری مداخلت کرنے کے قابل نہیں رہا۔ اب عالمی تھانیدار کا ماضی کی طرح رعب و دبدبہ ہے اور نہ حکم تعمیل کی ضمانت۔ عالمی سٹیج پر طاقتوں کے توازن پر اس ساری صورتحال کے دور رس نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

امریکہ کو عراق، افغانستان اور شام میں شکست فاش ہوئی۔ لیبیا میں اس کی ایک نہ چلی۔ اس دوران ثانوی حیثیت کی عالمی قوتوں، جن میں امریکہ کے دیرینہ اتحادی بھی شامل ہیں، اور واشنگٹن کے مفادات میں خلیج بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔

یوکرین جنگ میں امریکیوں نے سمجھا کہ اپنے سب سے طاقتور حریف چین کے اتحادی روس کو کمزور کرنے کا ایک اچھا موقع ہاتھ لگا ہے۔ لیکن دلدل میں دھنسے انسان کی خیر نہیں ہوتی۔ امریکی سامراج کی ساکھ بحال کرنے کے برعکس اس جنگ نے عالمی تعلقات میں تضادات کو مزید گھمبیر کرتے ہوئے امریکی اتھارٹی کو اور زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔

اس ساری صورتحال کا ناگزیر نتیجہ ایک نیا دور ہے جس کا خاصہ ممالک کے درمیان مسلسل بڑھتا عدم استحکام اور تفاوت ہے۔ کمیونسٹوں کے لئے اس کا مطلب سرمایہ داری کا بانجھ پن اور سوشلزم کے لئے عالمی طور پر ایک طبقاتی بنیادوں پر ثابت قدم جدوجہد ہے۔

یوکرین جنگ۔۔۔جلتی پر تیل

امریکی سامراج اور روس کے درمیان یوکرین میں پراکسی جنگ کے آغاز سے مغربی پریس میں پراپیگنڈہ مشینری نے مسلسل ایک منظر کشی کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ایک طرف روس ذلیل و خوار اور تنہاء کھڑا ہے جبکہ دوسری طرف امریکی قیادت میں پوری دنیا کھڑی ہے جو کریملن میں موجود جابر کی شدید مذمت کر رہی ہے۔

اگر اس ہوشیار منظر کشی کی سطح کو تھوڑا کھرچ کر دیکھا جائے تو ہمیں کچھ اور ہی صورتحال نظر آتی ہے۔ یوکرین جنگ میں مخصوص امریکی اہداف تھے۔۔۔اپنے حریف روس کو تنہاء کر کے اپاہج بنانا اور روس اور یورپ کے درمیان تعلقات کو کمزور کرنا تاکہ یورپ پر اپنی گرفت مزید مضبوط کی جا سکے۔ مغربی سیاست دان ایک دوسرے کو خوشی خوشی بتا رہے تھے کہ ”روس کو ایک دلدل میں کھینچ لاتے ہیں“۔

حال ہی میں سابق ری پبلیکن صدارتی امیدوار مٹ رومنے نے لکھا ہے کہ ”پیوٹن کا روس ہمارا دوست نہیں ہے اور چین کا سب سے طاقتور اتحادی ہے۔ یوکرین کی حمایت ہمارے ایک دشمن کو کمزور کرتی ہے، ہماری قومی سیکورٹی کو تقویت پہنچاتی ہے اور اس کے لئے امریکی خون بہانے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے“۔

Ukraine military base Image Anton Holoborodko Wikimedia Commons

امریکہ کی قیادت میں مغرب نے یوکرین کو بے تحاشہ اسلحہ فراہم کیا ہے۔

اس منصوبے کے ساتھ امریکہ کی قیادت میں مغرب نے یوکرین کو بے تحاشہ اسلحہ فراہم کیا ہے اور براہ راست گراں قدر عسکری، معاشی اور انٹیلی جنس امداد فراہم کی ہے۔ اس دوران انہوں نے روس پر پابندیاں بھی عائد کی ہیں جو دوسری عالمی جنگ کے بعد کسی بھی ملک پر لگائی گئی سخت ترین پابندیاں ہیں۔

روس کو مغربی سرمایہ کاری سے کاٹ دیا گیا ہے، جدید ٹیکنالوجی تک رسائی روک دی گئی ہے اور SWIFT (سوسائٹی فار ورلڈ وائڈ انٹربینک فنانشل ٹیلی کمیونی کیشن۔ مترجم) الیکٹرانک بینکاری نظام سے خارج کر دیا گیا ہے۔ روسی مرکزی بینک کے 400 ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں اور ایک مہم مسلسل جاری ہے جس کے ذریعے یورپ کی گیس سپلائی کاٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

لیکن ہم تفصیلی بتائیں گے کہ یہ پالیسیاں کیسے الٹا نقصان پہنچا رہی ہیں اور امریکی حکمران طبقے کو اب لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ بلومبرگ کے ساتھ ایک انٹرویو میں سابق سیکرٹری خزانہ (وزیر خزانہ۔ مترجم) لیری سمرز نے کہا کہ:

”تقسیم کی قبولیت بڑھتی جا رہی ہے اور۔۔۔شائد زیادہ پریشان کن۔۔۔میرے خیال میں ایک سوچ بڑھ رہی ہے کہ شائد ہماری تقسیم میں شامل ہونا سب سے اچھا نہیں ہو گا۔ ہم تاریخ کی درست جانب کھڑے ہیں۔۔۔ہمارا جمہوریت کا عزم، روسی جارحیت کے خلاف ہماری مزاہمت۔۔۔لیکن تاریخ کی درست جانب کچھ تنہائی کا احساس ہو رہا ہے کیونکہ جو تاریخ کی درست جانب کھڑے نظر نہیں آ رہے وہ مسلسل مختلف ڈھانچوں میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ رہے ہیں“۔

”تاریخ کی درست جانب“ کی دوغلی لفاظی سے قطع نظر مندرجہ بالا اظہار میں ہمیں سرمایہ دارانہ نظام کے ایک سنجیدہ نمائندے کی جانب سے ایک سنجیدہ خطرے کی نشاندہی نظر آ رہی ہے۔

اگرچہ میدان جنگ میں ابھی کوئی فیصلہ کن مرحلہ نہیں آیا کہ فاتح کون ہے اور مفتوح کون، لیکن عالمی سٹیج پر سیاسی حقیقت امریکی سامراج کے جنگی اہداف سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

یہ واضح ہے کہ مغرب اور جاپان سے باہر پوری دنیا میں مختلف اقوام کے حکمران طبقات کی اگر اکثریت نہیں تو ایک قابل ذکر حصے کو یوکرین جنگ میں مغربی حمایت میں سینگ پھنسانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

درحقیقت روس کو تنہاء کرنے کے برعکس امریکہ کے اقدامات نے عالمی تعلقات میں موجود تضادات کو مزید گہرا کیا ہے، امریکی طاقت کی محدودیت کو آشکار کیا ہے اور اس کی اتھارٹی کو مزید کمزور کیا ہے۔

پابندیوں کا الٹا اثر

برطانوی دائیں بازو کے دی سپیک ٹیٹر میگزین کے ایک حالیہ مضمون کے مطابق:

”پوری دنیا میں مغرب نے پابندیوں کی جنگ اپنے اثر و رسوخ کے حوالے سے ایک مخصوص گھمنڈ میں شروع کی۔ اب ہمیں پتہ چلا ہے کہ غیر مغربی ممالک کے پاس وہ قوت ارادی موجود نہیں جس کے ذریعے وہ روس یا اس کے اولیگارشوں (بے پناہ امیر سرمایہ دار جس کا بے تحاشہ سیاسی اثرورسوخ ہو اور اس نے ریاستی اداروں کی اونے پونے داموں نجکاری سے دیوہیکل فائدہ اٹھایا ہو۔ یہ اصطلاح خاص طور پر سابق سویت یونین میں ابھرے نئے سرمایہ داروں کے حوالے سے استعمال ہوتی ہے۔ مترجم) پر پابندیاں عائد کی جائیں۔ اس غلطی کے نتائج سب کے سامنے واضح ہیں۔

پچھلے سال اپریل میں IMF نے پیش گوئی کی تھی کہ روسی معیشت 2022ء میں 8.5 فیصد سکڑے گی اور اس سال اس میں 2.3 فیصد مزید کمی واقع ہو گی۔ اب پتہ چل رہا ہے کہ پچھلے سال جی ڈی پی (کل قومی پیداوار۔ مترجم) میں محض 2.1 فیصد کمی ہوئی اور اس سال IMF پیش گوئی کر رہا ہے کہ اس میں 0.7 فیصد کا معمولی اضافہ ہو گا۔ اور یہ سب ایسے حالات میں ہو رہا ہے جب پچھلے سال فروری میں یوکرین جنگ سے متعلق توقعات سے جنگی صورتحال زیادہ خراب ہے۔

روسی معیشت تباہ نہیں ہوئی ہے۔ اسے محض نئی ترتیب دے کر مغرب کے برعکس مشرقی اور جنوبی سمت میں موڑ دیا گیا ہے“۔

اگرچہ یہ درست ہے کہ روسی معیشت کے کچھ سیکٹروں کو نقصان ہوا ہے اور مخصوص جدید اجزاء کی قلت ہے لیکن پابندیوں کا وہ اثر نہیں ہوا جس کی مغرب کو امید تھی کہ معیشت کو اس حد تک اپاہج ہو جائے کہ روس کیلئے یوکرین جنگ جاری رکھنا ناممکن ہو جائے۔

ہائیڈرو کاربن (ڈیزل، پیٹرول وغیرہ) کی بڑھتی قیمتوں اور ان کی چین اور انڈیا کے راستے برآمدات نے روسی معیشت کو فعال رکھا ہوا ہے۔ اور روس کی چین، ترکی اور مشرق وسطیٰ ممالک کے ذریعے جدید ٹیکنالوجی تک رسائی بھی جاری ہے۔

چینی صدر شی جن پنگ کا حالیہ روسی دورہ ایک بہت ہائی پروفائل عوامی ڈرامہ تھا جس کے ذریعے پیوٹن کی حمایت دکھاتے ہوئے اسے تنہاء کرنے کی امریکی سامراجی کوششوں کو کھلے عام رد کر دیا گیا۔ میڈیا صبح شام واویلا مچا رہا تھا کہ روس مکمل تنہائی کا شکار ہے اور اس دورے نے اس غبارے میں سے ہوا نکال دی۔ پچھلے ایک سال میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ واضح طور پر روس یوکرین جنگ جاری نہیں رکھ سکتا تھا اگر چین اس کی حمایت میں کھل سامنے نہ آتا۔

ابھی تک چین نے روس کو یوکرین جنگ میں کوئی ہتھیار سپلائی نہیں کئے۔۔۔کم از کم عوامی تاثر تو یہی ہے۔ لیکن اب وہ یورپ سے زیادہ روسی خام تیل درآمد کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ وہ روس کے لئے پابندیوں سے بچتے ہوئے انتہائی اہم اجناس جیسے انٹی گریٹڈ سرکٹس کا ذریعہ بن چکا ہے۔

روس کو تنہاء کرتے ہوئے اپنے مرکزی حریف پر تمام توجہ مرکوز کرنے کے برعکس واشنگٹن کے اقدامات نے روس کو چین کے ساتھ کھڑا کر دیا ہے۔۔۔ایک ایسا اتحاد جو امریکہ کے لئے مسلسل درد سر بنتا جا رہا ہے۔

باقی دنیا پریشان ہے

باقی دنیا میں بھی امریکہ کی کوئی اچھی حالت نہیں ہے۔

پچھلے سال اکتوبر میں اقوام متحدہ نے یوکرین میں اپنے زیر تسلط علاقوں میں ریفرنڈم کرانے پر روس کے خلاف ایک مذمتی قرارداد 143 حق میں اور 5 مخالفت میں ووٹ کے ساتھ منظور کی۔ مغرب میں اس کا بڑا چرچا کیا گیا کہ ”دیکھا؟ روس کیسے عالمی سٹیج پر تنہاء کھڑا ہے“۔

لیکن ٹائم میگزین بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ اقوام متحدہ میں ”روس اتنا تنہاء نہیں ہے جتنا مغرب سوچ رہا ہے“ کیونکہ چین اور انڈیا سمیت 35 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ یہ آدھی دنیا کی آبادی بنتی ہے۔ اجتناب کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود مسئلہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی تمام قراردادیں محض الفاظ ہیں۔ لیکن سیاست میں عمل اور صرف عمل کی اہمیت ہے۔

جب ہم عمل کو دیکھتے ہیں تو کہانی مختلف ہے۔

دی اکانومسٹ میگزین میں ایک دلچسپ مضمون ”سپر پاوروں کی تقسیم میں کیسے زندہ رہا جائے“ عنوان سے چھپا ہے جس کے مطابق صرف 52 ممالک (جنہیں ”مغرب اور اس کے دوست“ بتایا گیا ہے) ”روسی سرگرمیوں کی سرزنش اور سزا“ دینے کو تیار ہیں۔ اس دوران 127 ممالک نے وضاحت کے ساتھ ایک یا دوسری جانب کھڑے ہونے سے اجتناب کیا ہے اور روس پر پابندیوں کی تکالیف کم کرنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔

ایک اہم NATO (نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن۔ مترجم) اتحادی ترکی نے خاص طور پر پابندیوں کو بائی پاس کرنے میں روس کی کلیدی مدد کی ہے۔

Erdogan Image Recep Tayyip Erdoğan Twitter

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے روس کے ساتھ ”خاص تعلق داری“ کا حوالہ دیتے ہوئے ماسکو پر مغربی پابندیاں لاگو کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے روس کے ساتھ ”خاص تعلق داری“ کا حوالہ دیتے ہوئے ماسکو پر مغربی پابندیاں لاگو کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ روسی فوج کشی کے پہلے چھ مہینوں میں روس کی ترکی میں برآمدادات میں 45 فیصد اضافہ ہوا جبکہ وہاں سے درآمدادات میں 125 فیصد اضافہ ہوا۔

امریکہ کے ایک اور روایتی اتحادی سعودی عرب نے بھی مغربی سامراجیوں سے منہ پھیرتے ہوئے روس کے ساتھ ایک معاہدہ کر لیا جس کے مطابق تیل کی پیداوار میں 5 فیصد کٹوتی کر دی گئی جس سے عالمی معاشی تنزلی کے باوجود تیل اور گیس کی قیمتیں برقرار رہی ہیں۔ واشنگٹن نے اس پر شدید غصے کا اظہار کیا اور ریاض نے کندھے اچک کر جواب دے دیا۔

مشرق وسطیٰ میں امریکی سامراج کی مرکزی چوکی اسرائیل نے بھی یوکرین جنگ کے حوالے سے غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے یوکرین کو ہتھیار بیچے ہیں اور نہ ہی پابندیاں لاگو کی ہیں۔

لاطینی امریکہ میں برازیل، ارجنٹینا، میکسیکو، چلی یہاں تک کہ امریکہ کے دیرینہ اتحادی کولمبیا نے بھی اپنے طاقتور ہمسائے کا دباؤ برداشت کرتے ہوئے یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

اپریل میں چینی دورے کے بعد برازیلی صدر لولا نے یوکرین کو مزید ہتھیار بھیج کر جنگ کو طوالت دینے پر مغرب کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ:

”[امریکہ کو] جنگ کی حوصلہ افزائی ترک کرتے ہوئے امن کی بات کرنی چاہیے، یورپی یونین کو امن کی بات کرنی چاہیے تاکہ ہم پیوٹن اور زیلنسکی کو قائل کریں کہ امن سب کا مفاد ہے اور جنگ صرف ان دو کا ہی مفاد ہے“۔

پھر، انڈیا نے روسیوں کی تیل اور گیس کی فروخت کی تقریباً مکمل بحالی میں مدد کی ہے۔ روس کے ساتھ دوستانہ تعلقات جاری رکھنے میں انڈیا کے اپنے مفادات ہیں۔ لیکن عالمی منڈی میں قیمتوں سے کم قیمتوں پر روسی گیس اور تیل کی فراہمی نے یقینا معاہدے میں اور بھی رس گھول دیا ہے۔ جنگ شروع ہونے کے بعد روس کی تیل درآمداد میں 22 گنا اضافہ ہوا ہے۔ درحقیقت انڈیا اس میں سے کچھ کو ریفائن کر کے یورپی مارکیٹوں میں بھی برآمد کر رہا ہے!

انڈیا کا سب سے بڑا اسلحہ سپلائر روس ہے اور اب اس سپلائی میں مزید وسعت کے ساتھ نئے ہتھیاروں اور جدید ترین روسی ائر ڈیفنس سسٹم فراہم کرنے کی بھی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔

جنوبی افریقی حکومت نے بھی فروری میں چین اور روس کے ساتھ مشرقی ساحل پر مشترکہ بحری فوجی مشقوں پر امریکی احتجاج کو مسترد کر دیا ہے۔ ابھی انہوں نے پیوٹن کو جنوبی افریقہ میں BRICS (برازیل، انڈیا، روس، چین، جنوبی افریقہ) سربراہی کانفرنس کے لئے سفارتی استثناء بھی فراہم کر دی ہے۔ یہ پیوٹن کے لئے جاری کردہ ICC (انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس) کے ایک گرفتاری وارنٹ کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

یوکرین جنگ نے تیل، گیس، اشیائے خوردونوش اور کھاد کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کر دیا ہے۔ غریب ممالک میں یہ اشیاء بہت حساس نوعیت کی ہیں جہاں کروڑوں افراد عالمی معاشی بحران کی وجہ سے مفلسی کا شکار ہو رہے ہیں۔ افریقہ اور لاطینی امریکہ میں بھی روسی گندم اور کھاد کی درآمداد بڑھ رہی ہیں۔

سماجی انتشار سے بچنے کے لئے کئی ممالک پابندیاں لگا کر افراط زر میں مزید اضافہ کرنے کے برعکس روس سے معاملات بنانا پسند کریں گے جو ان اجناس کی منڈی سے کم قیمتوں پر سپلائی یقینی بنا سکتا ہے۔

اس حوالے سے اور بھی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ عالمی معیشت کھائی کے کنارے کھڑی ہے اور ہر جگہ تناؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس صورتحال میں امریکہ کی ایک اور تباہ کن جنگ میں اندھی تقلید اتنی بڑی قیمت ہے کہ بیشتر ممالک اسے ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

یورپ

کاغذوں پر صرف مغربی یورپ ہی ایسا خطہ رہ گیا ہے جو ابھی بھی امریکی سامراج کے احکامات کی فرمانبرداری کر رہا ہے۔ لیکن یہاں بھی ایک خوشگورا، متحد ”مغربی اتحاد“ کی خوبصورت منظر کشی میں انتشار مسلسل بڑھ رہا ہے۔

یوکرین جنگ نے خاص طور پر یورپی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب کئے ہیں جس میں کلیدی کردار سستی روسی گیس سپلائی کی بندش ہے۔ اس سے یورپی اور خاص طور پر جرمنی اور فرانس کی عالمی منڈی میں مسابقت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اس لئے اہم یورپی ممالک پر جب بھی یوکرین کو مزید ہتھیار سپلائی یا روس پر مزید پابندیاں لگانے کے لئے دباؤ پڑتا ہے تو وہ لیت و لعل سے کام لیتے ہیں۔

اس دوران امریکہ نے انفلیشن ریڈکشن ایکٹ منظور کیا ہے، ایک 400 ارب ڈالر کا پیکج جس کا مقصد امریکی کمپنیوں کی معاونت اور یورپی سرمایہ داروں کی مسابقت مزید متاثر کرنا ہے۔ واشنگٹن یورپ کو چین کے ساتھ لڑائی میں بھی مزید گھسیٹنے کی کوشش کر رہا ہے جو یورپ کا مرکزی تجارتی شراکت دار ہے۔

Scholz G7 Image Bundeskanzler Olaf Scholz Twitter

کاغذوں پر صرف مغربی یورپ ہی ایسا خطہ رہ گیا ہے جو ابھی بھی امریکی سامراج کے احکامات کی فرمانبرداری کر رہا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی تمام تر تنقید کے باوجود بائیڈن حکومت درحقیقت ٹرمپ کی ”سب سے پہلے امریکہ“ پالیسی کو بڑھاتے ہوئے اپنے روایتی اتحادیوں میں مایوسی پھیلا رہی ہے۔

آزادی کا تاثر دینے کے لئے پچھلے سال نومبر میں جرمن چانسلر اولاف شولز نے چین کا دورہ کیا۔ اس دورے کی بڑی چرچا رہی اور حکومت تقریباً ختم ہو گئی تھی کیونکہ جنگ کے حق میں شعلہ بیانی کرنے والی گرین پارٹی سے منسلک وزیر خارجہ بیئرباک نے امریکی سامراج کے براہ راست ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہوئے اتحادی حکومت سے استعفے کی دھمکی دے دی۔

شولز کے دورے کے بعد اس موسم بہار میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے بیجنگ کا ہائی پروفائل دورہ کیا۔ ان اقدامات سے واضح طور پر امریکہ اور اس کے اہم یورپی اتحادیوں میں تناؤ مزید بڑھ گیا۔

امریکہ پر اشارتاً طنز کرتے ہوئے میکرون نے کہا کہ اگر یورپ ایسے بحران میں پھنس جاتا ہے جو اس کا پیداکردہ نہیں ہے تو یہ ”یورپ کے لئے ایک جال ہو گا“ اور اس طرح کی کوئی بھی صورتحال یورپی ممالک کو عملاً ”باجگزار“ بنا دے گی۔ میکرون کی باتوں کا تعلق امریکہ اور چین کے درمیان لڑائی سے متعلق تھا لیکن یقینا اس کی ایک آنکھ یوکرین مسئلے پر بھی تھی۔

اس دورے پر میکرون کے ساتھ کئی کاروباری شخصیات بھی تھیں جس سے چین کے ساتھ فرانسیسی تجارت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کیونکہ اسے کئی کاروباری معاہدے کرنے کی امید بھی تھی۔

امریکی سامراجیوں کے لئے سب سے زیادہ باعثِ ناراضگی فرانس اور یورپی ملکیت میں ائربس کا معاہدہ تھا جس کے تحت چین کو 200 مسافر طیاروں کی فراہمی ہو گی، ایک ہیلی کاپٹر معاہدہ ہے اور تیان جن میں ایک نئی ائربس فیکٹری بھی لگے گی۔ چین تجارتی جہازوں کی سب سے بڑی عالمی منڈی ہے اور یہ معاہدہ امریکی کمپنی بوئنگ کے مفادات کے لئے براہ راست نقصان ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ ٹیکنالوجی منتقلی کا عمل بھی ہو گا جس کی امریکی سامراج شدت سے مخالفت کر رہا ہے۔

عالمی سٹیج پر فرانسیسی حکمران طبقے کے ہمیشہ اپنے مفادات رہے ہیں اور وہ ایک زیادہ آزادانہ کردار کا خواہش مند ہے۔ مثال کے طور پر اس کے جوہری ہتھیار NATO کنٹرول سے باہر ہیں۔ پھر فرانسیسی سامراج کے خاص طور پر افریقہ میں اپنے مخصوص مفادات ہیں۔ عالمی تعلقات میں محدود وزن کے باوجود فرانس، امریکہ اور چین کے درمیان توازن رکھ کر اپنے لئے کچھ مخصوص آزادی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ظاہر ہے اس دوران چینی ریاست امریکہ اور یورپی یونین کے درمیان تضادات کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے میں گہری دلچسپی رکھتی ہے۔

اگرچہ میکرون کے دورے کا ایک اہم پہلو اندرون ملک پنشن اصلاحات کے خلاف شدت اختیار کرتی عوامی تحریک سے دھیان ہٹانا بھی تھا لیکن اس کے اپنے الفاظ واضح طور پر مغربی یورپی بورژوازی کے ایک دھڑے کی نمائندگی کر رہے ہیں جو عالمی سٹیج پر واشنگٹن کی اندھی تقلید میں فائدہ کم اور نقصان زیادہ اٹھائے گی۔

یورپی یونین کی بنیادی وجہ ہی یہ تھی کہ ان اقوام کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا جائے جو عالمی سٹیج پر ایک آزادانہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ آج ممبر ریاستوں کے درمیان تضادات نے اسے مفلوج کر دیا ہے۔۔۔تضادات جنہیں بڑے سامراجی مسلسل استعمال کر رہے ہیں۔

بکھرتا شیرازہ

دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک طویل دور میں تعلقات قدرے مستحکم تھے کیونکہ دو عالمی طاقتوں کے درمیان ایک توازن (اور جوہری ہتھیار) برقرار تھا۔ اس عمومی استحکام کا 1989-91ء میں سٹالنسٹ افسر شاہانہ ریاست کے انہدام کے ساتھ خاتمہ ہو گیا۔

سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ پورے کرہ ارض پر واحد سپر پاور بن گیا۔ لیکن جس طرح یونانی دیومالا میں اکارُس اڑ کر سورج کے بہت نزدیک پہنچ گیا تھا اسی طرح امریکہ پر بھی یہ گھمنڈ سوار ہو گیا کہ اس کی طاقت لامحدود ہے۔ وہ یکے بعد دیگرے ممالک میں گھستا چلا گیا اور کسی مزاہمت کا سامنا کئے بغیر نافرمانی کی ہولناک سزائیں دیتا گیا۔ مثال کے طور پر 1991ء میں پہلی گلف جنگ میں چین اور روس نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں عراق کے خلاف طاقت کے استعمال پر پیش ہونے والی قرارداد میں محض ووٹ ڈالنے سے اجتناب کیا۔ یہاں تک کہ روس کو NATO میں شمولیت کی دعوت دینے پر بھی چہ مگوئیاں ہوتی رہیں۔ 1999ء میں کوسووو میں پریستینا ایئرپورٹ واقعے پر نیٹو کی جانب سے روس کو شدید رسوا کیا گیا۔

لیکن اس صدی کے آغاز اور عراق اور افغانستان میں جنگ سے صورتحال تبدیل ہونے لگی۔ ان دو جنگوں میں شکستوں نے دنیا کی سب سے بڑی طاقت کی کمزوریاں واضح کر دیں۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکی محنت کش طبقے میں مزید کسی عسکری مہم جوئی کی مخالفت شدت اختیار کر گئی۔

اس کے بعد سے امریکہ مزید کسی بڑی جنگ میں مداخلت کرتے ہوئے افواج تعینات نہیں کر سکا ہے۔ یہاں تک کہ 2014ء میں اوبامہ کانگریس سے شام میں اسد حکومت پر محدود بمباری کی اجازت بھی حاصل نہیں کر سکا تھا۔

210821-M-GQ845-1035 HAMID KARZAI INTERNATIONAL AIRPORT, Afghanistan (August 21, 2021) Evacuees load on to a U.S. Air Force Boeing C-17 Globemaster III during an evacuation at Hamid Karzai International Airport, Kabul, Afghanistan, Aug. 21. U.S. service members are assisting the Department of State with an orderly drawdown of designated personnel in Afghanistan. (U.S. Marine Corps photo by Sgt. Samuel Ruiz).

عراق اور افغانستان کی جنگوں میں شکستوں نے دنیا کی سب سے بڑی طاقت کی کمزوریاں واضح کر دیں۔

اس کمزوری نے امریکہ کو طاقت کے استعمال میں قابل ذکر حد تک محدود کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر شام میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح روس اور ایران نے امریکی قیادت میں اتحاد کو شکست فاش دی۔ لیبیا میں بھی مغربی قوتوں کو روسی سرپرستی میں اور ترکی کی طرف مائل ملیشیاوں نے مکمل طور پر میدان جنگ سے فارغ کر دیا۔

عراق میں مکمل شکست اور افغانستان سے شرمناک پسپائی نے امریکی اتھارٹی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
اس کے متوازی ایک عمل معاشی اور سفارتی میدانوں میں بھی کارفرما ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے فوری بعد امریکی جی ڈی پی کل عالمی پیداوار کا 40 فیصد تھی۔ اس بنیاد پر اور ”آزاد تجارت“ کے مرکزی نعرے کے ساتھ واشنگٹن نے تجارتی بندشوں کو اکھاڑ پھینکا اور پوری دنیا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے امریکی اداروں کے تسلط میں تجارت کے لئے کھول دی۔ ڈالر کو عالمی تجارت کے لئے مستحکم کرنسی بنا دیا گیا جس کے بعد اس کے حجم میں دیوہیکل اضافہ ہوا۔

لیکن آج عالمی پیداوار میں امریکہ کا حصہ 24 فیصد ہے جبکہ چین کا حصہ 18 فیصد ہو چکا ہے۔ معاشی میدان میں چین ابھی امریکہ سے کوسوں دور ہے۔ لیکن اس کی اٹھان کا مطلب عالمی معیشت میں امریکی وزن کا کم ہونا ہے۔

اس دوران عالمی معاشی بحران نے ممالک کے درمیان تناؤ کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اس لئے اپنی پوزیشن کے دفاع میں امریکی سرمایہ داری آزاد تجارت کے سب سے بڑے داعی سے تحفظاتی پالیسیوں کا سب سے بڑا محافظ بن چکا ہے۔

چین سے ٹرمپ حکومت کی شروع کی گئی تجارتی جنگ بائیڈن حکومت میں جاری ہے۔ امریکہ اندرون ملک پیداوار کی حفاظت کے لئے بھی اقدامات اٹھا رہا ہے۔ اس دوران ڈالر اور ڈالر کی بنیاد پر قائم مالیاتی نظام جیسے SWIFT کو مسلح کر کے نافرمانی کی جرات کرنے والوں کے خلاف بے رحمی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔

ان اقدامات نے سوویت یونین منہدم ہونے کے بعد منظم ہونے والے نظام میں اعتماد کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ اگر ایک دن میں روسی اثاثے منجمد کئے جا سکتے ہیں تو کل کس کی باری ہے؟

ٹراٹسکی نے ایک مرتبہ تبصرہ کیا تھا کہ برطانوی سامراج اپنے عروج پر صدیوں اور براعظموں کے لحاظ سے منصوبہ بندی کرتا تھا۔ امریکی سامراج نے بھی اپنی اٹھان کے دور میں کم از کم عمل سے پہلے غور و فکر کی حکمت عملی اپنا رکھی تھی۔

لیکن آج امریکی بورژوازی شدید تنگ نظری اور بیوقوفی کا شکار ہے۔ یہ خود سرمایہ داری کے نامیاتی بحران اور مالیاتی سرمائے اور سٹاک مارکیٹ کے تسلط کا اظہار ہے جو نئے سٹہ بازی کے بلبلے یا زیادہ سے زیادہ اگلی سہہ ماہی رپورٹ سے آگے دیکھنے سے قاصر ہے۔

عمومی سرمایہ دارانہ بحران کے دور میں سٹیٹس کو کو قائم رکھنا ہی سب سے بہترین راستہ ہے۔ لیکن سٹیٹس کو قائم رکھنا ناممکن ہو چکا ہے۔

اس لئے امریکہ ایک بدمست ہاتھی کی مانند عالمی سٹیج پر کسی مربوط منصوبہ بندی کے بغیر ٹکریں مارتا پھر رہا ہے۔ اس سے عالمی نظام کمزور ہو رہا ہے جس کی بنیاد سوویت یونین منہدم ہونے کے بعد اس کا اپنا مکمل عالمی تسلط تھا۔ یوکرین جنگ اور روس پر پابندیاں اس عمل میں عمل انگیز کا کردار ادا کر رہی ہے۔

کوئی شک نہیں کہ اس وقت پوری دنیا میں کوئی ایسی طاقت موجود نہیں ہے جو امریکہ کو معاشی یا عسکری میدانوں میں چیلنج کر سکے۔ امریکہ میں لیبر کی پیداواری قوت ابھی بھی چین سے بہت آگے ہے (اگرچہ یہ فاصلہ کم ہو رہا ہے)۔ امریکی عسکری اخراجات اگلے دس ممالک کے مشترکہ اخراجات سے زیادہ ہیں اور کل عالمی عسکری اخراجات کا 39 فیصد ہیں۔ لیکن امریکی تسلط میں عالمی نظم میں دراڑیں پیدا ہو رہی ہیں۔۔۔ان دراڑوں میں چھوٹی طاقتیں جیسے چین اور کچھ حد تک روس گھس کر موجودہ عدم استحکام کو مزید بڑھاوا دے رہی ہیں۔

چین اور برکس (BRICS)

چین نے بڑی کامیابی کے ساتھ عالمی تعلقات میں بڑھتے عدم استحکام کو استعمال کیا ہے۔ ماسکو دورے پر شی جن پنگ نے روس کو عسکری معاونت فراہم کرنے پر ”ریڈ لائن“ کی دھمکی کو نظرانداز کر دیا بلکہ وہ ایک امن منصوبے سے لیس ہو کر دورہ کرنے پہنچا۔

اس کی کامیابی کے امکانات صفر ہیں لیکن اصل مقصد کامیابی نہیں تھا۔ اصل مقصد دنیا کے باقی ممالک کو پیغام دینا تھا کہ ”امریکہ سے بغل گیر ہو کر تمہیں عدم استحکام اور جنگ کے علاوہ کیا ملا ہے؟ ہم سے ہاتھ ملاؤ اور تمہیں امن، استحکام اور تجارت ملیں گے“۔

یہ پیغام کامیابی کے ساتھ پوری دنیا میں روایتی امریکی حلیفوں اور حریفوں کو لاحق شدید پریشانی میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔

مارچ میں چین نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ایک معاہدہ کروایا جو کئی سالوں سے مشرق وسطیٰ میں بالادستی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ امریکی ساکھ پر کاری ضرب تھی جو دہائیوں سے مشرق وسطیٰ میں واحد سامراج اور سعودی ریاست کا سرپرست اعلیٰ تھا۔

Xi at BRICS Image GovernmentZA Flickr

نام نہاد BRICS گروپ عرصہ دراز سے ایک نیم سرکاری بلاک کا کردار ادا کر رہا ہے۔

سعودی عرب کو SCO (شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن)۔۔۔ایک سیاسی اور معاشی تنظیم جس کی سربراہی چین اور ثانوی طور پر روس کر رہے ہیں۔۔۔میں مذاکراتی شراکت داری کا سٹیٹس دے دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ایک سعودی تجزیہ کار علی شیہابی کا کہنا ہے کہ:

”امریکہ کے ساتھ روایتی یک زوجگی تعلق اب ختم ہو چکا ہے۔ اور ہم اب زیادہ کھلے تعلقات میں چلے گئے ہیں؛ امریکہ کے ساتھ مضبوط تعلق لیکن اس کے مساوی چین، انڈیا، برطانیہ، فرانس اور دیگر کے ساتھ بھی اتنا ہی مظبوط تعلق“۔

کئی ثانوی طاقتیں بڑی طاقتوں کے درمیان تقسیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جارحانہ کردار اپنا رہی ہیں۔ برازیلی صدر لولا ڈا سیلوا نے اپنے بیجنگ دورے کے دوران کہا کہ وہ امریکہ اور چین کے ساتھ کام کرتے ہوئے ”عالمی جغرافیائی سیاست میں توازن“ پیدا کرنے کے خواہش مند ہیں۔

”توازن“ ایک اچھا لفظ ہے۔ برازیلی حکمران طبقہ امریکہ سے مکمل طور پر منہ نہیں پھیر سکتا۔ لیکن وہ امریکی حکومت کی تمام خواہشات پوری کرنے کو بھی تیار نہیں ہے جیسے ہم نے یوکرین کو اسلحہ فراہمی سے انکار پر دیکھا ہے۔ اسی طرح چین میں لولا اتنا جرات مند تھا کہ اس نے دورے کے دوران ہواوے فیکٹری کا دورہ کیا جس کی 5G مشینری پر امریکہ نے پابندی لگا رکھی ہے۔ برازیل کا دیوہیکل زرعی کاروبار روسی کھاد پر بھی منحصر ہے۔

برازیل، جنوبی افریقہ اور انڈیا جیسے ممالک عرصہ دراز سے اتنے بڑے اور طاقتور تھے کہ وہ کچھ مسائل پر مغربی سامراج سے مکمل قطع تعلقی کے بغیر نیم آزادانہ پوزیشن لے سکیں۔

یقینا نام نہاد BRICS گروپ عرصہ دراز سے ایک نیم سرکاری بلاک کا کردار ادا کر رہا ہے جو اعلانیہ مغربی G7 گروپ کا متوازی ہے۔ اس گروپ کی بنیاد برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ نے رکھی ہے۔

لیکن جنوبی افریقی وزیر خارجہ کے مطابق کم از کم 12 ممالک نے اس وقت ایسوسی ایشن میں شمولیت کی درخواست دے رکھی ہے۔ ان میں سے دروازہ کھٹکھٹانے والے کئی ممالک جیسے سعودی عرب، عرب امارات اور مصر دہائیوں امریکی سامراج کے کتے بنے رہے ہیں۔

چین کی اٹھان یقینا پوری دنیا کے مختلف خطوں میں امریکی گرفت کمزور کر رہی ہے۔ لیکن یہ سمجھنا غلط ہو گا کہ چین امریکہ کی عالمی حیثیت کو ختم کرنے یا اس کی برابری کرنے کی طرف گامزن ہے۔

اگر عسکری پہلو کو ہی دیکھا جائے تو دونوں ممالک کے درمیان دیوہیکل خلیج موجود ہے۔ پھر امریکی معیشت کئی گنا زیادہ بڑی اور جدید ہے۔ اور ابھی بھی عالمی معیشت کی کلیدی چابیاں امریکہ کے پاس ہی ہیں۔

یہ بھی واضح ہے کہ چین خود ایک تاریخی معاشی بحران کی جانب گامزن ہے۔۔۔اور اس کے ساتھ دیوہیکل سماجی اکھاڑ پچھاڑ کا دور جڑا ہوا ہے جو پچھلے عرصے میں بننے والی ملکی اٹھان کو کاٹ کر رکھ دے گا۔

سامراج کے خلاف جدوجہد اور کمیونسٹوں کے فرائض

1928ء میں امریکی سامراج اپنی وسعت کے دور میں تھا اور ٹراٹسکی نے امریکہ پر لکھا کہ:

”۔۔۔یہ امریکہ کی عالمی طاقت اور اس سے پیدا ہونے والی ناقابل مزاہمت وسعت ہی ہے جو اسے پوری دنیا کا بارود اپنی بنیادوں میں مجتمع کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ یعنی مشرق اور مغرب کے تمام تضادات، پرانے یورپ میں طبقاتی جدوجہد، نوآبادیاتی عوام کی بغاوتیں اور تمام جنگیں اور انقلابات۔

ایک طرف اس عمل میں شمالی امریکی سرمایہ داری اس جدید عہد میں بنیادی رد انقلابی قوت میں تبدیل ہو رہی ہے، جس کی دنیا کے ہر کونے میں ”نظم“ قائم رکھنے میں دلچسپی مسلسل بڑھ رہی ہے، اور دوسری طرف یہی عمل پہلے ہی تسلط حاصل کر چکی اور مزید وسعت حاصل کرتی عالمی سامراجی قوت میں دیوہیکل انقلابی دھماکے کی بنیادیں تعمیر کر رہی ہے“۔

یہ الفاظ اپنے لکھے جانے کے دہائیوں بعد اور بھی زیادہ درست ثابت ہو چکے ہیں۔ امریکی سامراج دنیا کی سب سے رجعتی قوت ہے۔ اس کی گہری معاشی، عسکری، سفارتی اور ثقافتی جڑیں تقریباً ہر ملک میں موجود ہیں۔ اور جہاں بھی محنت کش طبقہ متحرک ہو کر انقلاب کی جانب فیصلہ کن قدم اٹھاتا ہے تو یہی قوت سب سے بڑا خطرہ بن جاتی ہے۔

اس دوران امریکی سرمایہ داری کی اٹھان نے دنیا کے سب سے طاقتور محنت کش طبقے کو جنم دیا ہے جو تاریخ کا دھارا موڑنے کی پوری اہلیت سے لیس ہے۔ سامراج کے خلاف جدوجہد محنت کش طبقے کی سوشلزم کی جدوجہد کا اہم جزو ہے۔

امریکہ میں نام نہاد پاکس امیریکانا (امریکی امن۔۔۔دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ کے لئے استعمال ہونے والی اصطلاح جس کے مطابق دیگر ممالک کے مقابلے میں امریکی معاشی اور عسکری قوت نے مغربی ممالک اور پھر پوری دنیا میں امن و استحکام قائم رکھا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد مغربی یورپی ممالک کی تعمیر نو کے لئے امریکی سرمایہ کاری کو ”پاکس امیریکانا“ کا آغاز سمجھا جاتا ہے۔ مترجم) اور ”امریکی صدی“ کے طاقتور پراپیگنڈے کا امریکی حکمران طبقے نے بے دریغ استعمال کرتے ہوئے طبقاتی جدوجہد کو کاٹنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن آج سفاک جھوٹ کہ امریکی ”اچھے لوگ“ پوری دنیا میں ”جمہوریت“ پھیلانے کے خواہش مند ہیں، مجروح ہو چکا ہے اور نام نہاد ”امریکی خواب“ کی طرح ننگا ہو چکا ہے۔

امریکی سامراج کی ہر پسپائی اور شکست کے ساتھ حکمران طبقہ اپنے گھر میں مسلسل کزور ہو رہا ہے جس سے محنت کش طبقہ مستفید ہو رہا ہے۔

ہر مرحلے پر کمیونسٹوں کا فرض محنت کشوں کی ایک آزادانہ پوزیشن کو تعمیر کرنا ہے۔ ہمیں ہر لمحہ ”جمہوریت“ اور پیوٹن جیسے ”بدمعاشوں کے خلاف مزاہمت“ جیسے اسٹیبلشمنٹ کے دوغلے اور سفاک فریب کو بے نقاب کرنا ہے کہ یہ سرمایہ داروں کے تنگ نظر مفادات کے لئے ایک لبادے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

پچھلی چند دہائیوں میں مشرق وسطیٰ کی جنگوں میں کروڑوں افراد کی اموات، یوگوسلاویہ کی خونی تقسیم، 1990ء کی دہائی میں روس اور مشرقی یورپ کی بے دریغ لوٹ مار، افریقہ پر مغربی تسلط، اسلامی انتہا پسندی کے عفریت کو پروان چڑھانا، حکومتوں کی تبدیلی، کروڑوں زندگیوں کی قیمت پر فوجی بغاوتوں، خونی آمروں اور رد انقلابات کی سرپرستی، لاطینی امریکہ میں ترقی پسند حکومتوں کا تختہ الٹنا وغیرہ وغیرہ۔ مغربی سامراج کے جرائم کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس کا احاطہ کرنے کے لئے درجنوں کتابیں لکھنا بھی کم ہیں۔

پچھلی ایک صدی میں مغربی طاقتوں کے ان قاتل جرائم نے نو آبادیات، نیم نوآبادیات اور سابق نوآبادیات میں سامراج کے خلاف شدید نفرت بھر رکھی ہے۔

پیوٹن کی رجعتی حکومت کا خاتمہ روسی محنت کشوں کا فرض ہے۔ امریکی محنت کش طبقے کا فرض اپنے حکمران طبقے کے خلاف جدوجہد ہے جو پچھلی کئی دہائیوں سے پوری دنیا میں ہر حقیقی انقلابی تحریک کا سب سے بڑا جانی دشمن ہے۔ اس کے بغیر محنت کش طبقے کے ایک حقیقی عالمی اتحاد کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

ملٹی پولر دنیا (Multi-polar world)

کچھ ایسے افراد بھی موجود ہیں جن کا نکتہ نظر یہ ہے کہ کیونکہ ہم مغربی سامراج کے مخالف ہیں اس لئے ہمیں ان کے حریفوں کی حمایت کرنی چاہیے۔

Samir Amin Image Rosa Luxemburg Stiftung

کچھ ایسے افراد بھی موجود ہیں جن کا نکتہ نظر یہ ہے کہ کیونکہ ہم مغربی سامراج کے مخالف ہیں اس لئے ہمیں ان کے حریفوں کی حمایت کرنی چاہیے۔

نام نہاد ملٹی پولر دنیا نظریے کی کئی شکلیں اور قسمیں ہیں جس کے مطابق ہمیں ایک ایسی دنیا کی جدوجہد کرنی چاہیے جس میں کئی سامراجی طاقتیں ہوں جن کی موجودگی میں ایک مخصوص توازن پیدا ہو۔ یہ موجودہ واحد دیوہیکل سامراج کے متبادل میں ماڈل پیش کیا جاتا ہے۔

سمیر امین نے 2006ء میں اپنی کتاب ”امریکی تسلط سے آگے؟ ایک ملٹی پولر دنیا کے امکانات“ میں لکھا کہ:

”(میں) ایک ملٹی پولر دنیا کی تعمیر دیکھنا چاہتا ہوں اور اس کا واضح مطلب واشنگٹن کے اکیلے پوری دنیا پر عسکری کنٹرول اور تسلط کے منصوبے کا خاتمہ ہے۔ میری نظر میں یہ ایک انتہائی مغرور منصوبہ ہے، اس کی خصلت مجرمانہ ہے جو دنیا کو نہ رکنے والی جنگوں میں گھسیٹ رہا ہے اور ہر سماجی اور جمہوری ترقی کی امید کا گلا گھونٹ رہا ہے، نہ صرف جنوبی ممالک میں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ایک کم تر درجے پر شمالی ممالک میں بھی“۔

آج عالمی طور پر کچھ بائیں بازو کے رجحانات میں اس نظریے میں دلچسپی ایک مرتبہ پھر بڑھ رہی ہے جو سمجھتے ہیں کہ ہمیں چین کی اٹھان اور عالمی سٹیج پر روس کی بطور ایک طاقت دوبارہ داخلے کی حمایت کرنی چاہیے۔

بحث یہ بنائی جاتی ہے کہ ایک ایسی ملٹی پولر دنیا میں چینی اور روسی سامراج اور شائد کچھ دیگر ممالک جیسے انڈیا اور برازیل امریکی سلطنت کی مزاہمت کر تے ہوئے دنیا کو زیادہ پر امن اور مساوی بنا سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ طاقتیں کیوں امریکہ سے زیادہ امن اور ”مساوات“ میں دلچسپی لیں گی، اس سوال کا کبھی جواب نہیں دیا جاتا۔

درحقیقت یہ پاپولر فرنٹ (ایک عالمی سطح پر) کے پرانے نظریے کا نچوڑ شدہ عرق ہے جس کا ایک زمانے میں سٹالنسٹ پرچار کیا کرتے تھے۔

محنت کشوں اور سرمایہ داروں کے درمیان طبقاتی تضادات کو واضح کرنے کے برعکس یہ پوزیشن طبقاتی بنیادوں کو مدہم کرتے ہوئے محنت کش طبقے کو ایک سامراجی اکٹھ کے خلاف دوسرے قدرے کمزور سامراجی بلاک کا دم چھلہ بنانے کی کوشش کرتی ہے۔

سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کو بڑھانے کے برعکس یہ موجودہ نظام کی حدودوقیود میں ایک ممکنہ حل کا پرفریب جال ہے۔

روس اور چین امریکہ سے چھوٹی طاقتیں ہوں گی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پیوٹن یا شی میں ترقی پسندی کی کوئی ایک رمق بھی موجود ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ ریاستیں ہیں جن کی بنیاد محنت کش طبقے کا استحصال ہے۔ یہ محنت کشوں اور غربا کے دشمن ہیں۔

اگرچہ ان کے خاتمے کا فرض مغربی پرولتاریہ کے ذمے نہیں ہے لیکن یہ روسی اور چینی محنت کشوں کا فرض ضرور ہے۔ اس کے علاوہ ان کے لئے سرمایہ داری کی تنگ حدود میں ایک قدم آگے بڑھنے کا راستہ موجود نہیں ہے۔

طبقاتی جدوجہد کو کاٹنے اور عوام سے حمایت حاصل کرنے کے لئے شی اور پیوٹن دونوں امریکی سامراج سے موجود خطرے اور روسی اور چینی محنت کشوں کے سامراج مخالف جذبات کو شعلہ بیانی کے ذریعے بنیاد بناتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں امریکی سامراج کے خطرے کو استعمال کرتے ہوئے روسی اور چینی محنت کشوں کو مطیع رکھا جاتا ہے۔

ان ریاستوں سے کسی قسم کی کوئی امید قائم کرنے کے برعکس کمیونسٹوں کا فرض اس شعلہ بیانی کو بے نقاب کرتے ہوئے یہ ثابت کرنا ہے کہ کس طرح ان ریاستوں کے مفادات محنت کشوں اور غربا کے مفادات سے مکمل طور پر متضاد ہیں۔

بائیں بازو میں ہمارے ”ملٹی پولر“ دوستوں کی خوش قسمتی ہے کہ ولادیمیر پیوٹن اور شی جن پنگ نے ماسکو میں اپنی حالیہ ملاقات میں ان کے خیالات کی ترجمانی بھی کر دی ہے۔ اس ملاقات میں انہوں نے ”ایک مالٹی پولر عالمی نظم کی ترویج، معاشی عالمگیریت اور عالمی تعلقات میں جمہوریت“ اور ”عالمی حکمرانی کو زیادہ مساوی اور منطقی انداز میں تعمیر کرنے کی حوصلہ افزائی“ کے حوالے سے اپنے عزائم کا اظہار کیا ہے۔

مغربی سامراج کے ساتھ ان کی لڑائی کا طبقاتی کردار مکمل طور پر عوام کی سامراج دشمنی سے مختلف ہے۔

Putin Xi Image The Presidential Press and Information Office Wikimedia Commons

روس اور چین امریکہ سے چھوٹی طاقتیں ہوں گی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پیوٹن یا شی میں ترقی پسندی کی کوئی ایک رمق بھی موجود ہے۔

جب شی اور پیوٹن ”معاشی عالمگیریت اور عالمی تعلقات میں جمہوریت“ کی بات کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد سامراجیت اور قومی جبر کا خاتمہ ہر گز نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب نئی بنیادوں پر عالمی تعلقات کو استوار کرنا ہے جس میں ان کے حکمران طبقات کو عالمی لوٹ مار میں زیادہ بڑا حصہ ملے گا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ساری لوٹ مار مغرب کے حصے میں چلی جاتی ہے۔

چین کی دلچسپی سرمایہ کاری، خام مال کے وسائل اور توانائی، اور تجارتی راستوں پر کنٹرول ہے۔۔۔یہ سب چینی سرمایہ داروں کا مفاد ہے۔ یہ سامراجیت کے خلاف حقیقی جنگ نہیں ہے۔ یہ ایک سامراج کی دوسرے سے تبادلے کی پیشکش ہے۔

روسی اور چینی عوام کو اگر حقیقی بنیادوں پر سامراجیت کے خلاف جدوجہد کرنی ہے تو سب سے پہلے انہیں اقتدار پر قبضہ کرنا ہو گا اور اپنی جدوجہد کو مغرب کے محنت کشوں کے ساتھ جوڑنا ہو گا۔ صرف ایسی صورتحال میں ہی ایک حقیقی، عالمگیر اور سامراج مخالف جدوجہد کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔

دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاؤ!

اکیسویں صدی کو نئی امریکی صدی کا نام دیا گیا۔ جب امریکہ آواز لگاتا ”چھلانگ لگاؤ!“ تو دنیا یک زبان ہو کر جواب دیتی ”کتنی اونچی؟“ لیکن اب ماضی والی یک زبانی کا زمانہ ختم ہو چکا ہے۔

نئی عالمی طاقتوں کے ظہور اور امریکی طاقت کی محدودیت واضح ہونے کے ساتھ علاقائی طاقتیں اب اپنا حلقہ اثرورسوخ بڑھانے کی کوششیں کرتے ہوئے زیادہ آزادانہ رویہ اختیار کر رہی ہیں۔ اب امریکیوں کو سمجھ آ رہی ہے کہ پرانے اتحادی اب سمجھتے ہیں کہ وہ ایک طرف امریکہ اور دوسری طرف چین اور روس میں توازن برقرار رکھتے ہوئے اپنے مفادات کا بہترین تحفظ کر سکتے ہیں۔

طاقتوں کے اس نئے توازن میں امریکہ کی اتھارٹی برباد ہو رہی ہے لیکن بطور عالمی معاشی اور عسکری قوت فی الحال اس کا کوئی سنجیدہ حریف موجود نہیں ہے اس لئے ہم مسلسل نئی لڑائیاں جنم لیتے دیکھیں گے۔

امن کے دور کے برعکس، اس نئی ”ملٹی پولر“ دنیا میں ثانوی سامراجی طاقتوں کے درمیان زور آزمائی سے مسابقت شدت اختیار کرتی جائے گی۔

ان لڑائیوں میں چھوٹی اقوام سیاسی اور معاشی طور پر تباہ و برباد ہوں جائیں گی۔۔۔جیسے لیبیا اور شام اور عسکری طور پر یوکرین۔

یہ دور شدید پُرانتشار ہو گا جہاں ”چھوٹی“ جنگیں اور پراکسی لڑائیاں سرمایہ دارانہ نظام کے عمومی بحران کو تقویت دیتے ہوئے اس میں شامل ہوتی جائیں گی۔

اس لئے اس دم توڑتے نظام کا خاتمہ کرنے کے لئے ایک عالمی جدوجہد کی ضرورت لازم ہو چکی ہے تاکہ ایک عالمی سوشلسٹ نظام قائم ہو جس میں منافعے کی ہوس اور قومی ریاست کی دم گھونٹتی بندشیں موجود نہ ہوں۔

عالمی مارکسی رجحان پوری دنیا میں 40 سے زیادہ ممالک میں جدوجہد کرنے والی ایک انقلابی کمیونسٹ تنظیم ہے۔ اپنے ملک اور پوری دنیا میں ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کے لئے ہمارے ساتھ شامل ہوں!

Comments are closed.