فلسطین: جنین پر اسرائیلی جارحیت، ایک انقلاب ہی امن کا ضامن بن سکتا ہے!

|تحریر: رابرٹ سارتی، ترجمہ: سلمیٰ نذر|

3 جولائی کو نیم شب کے وقت فلسطین میں جنین کے مہاجرین کے کیمپ پر ایک طوفان برپا ہوا، جو 48 گھنٹے جاری رہا۔ اس طوفان نے ایسے اثرات مرتب کیے جو کرہ ارض پر جہنم کی تشبیہ کرتے تھے۔ یہ طوفان اسرائیلی فوج کے ایک حملے سے متحرک ہوا۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

بیک وقت ہوائی اور زمینی حملوں کے ساتھ ساتھ بڑے ملٹری بلڈوزروں کے ذریعے مہاجرین کے کیمپ پر چڑھائی کی گئی۔ ان بلڈوزروں کا استعمال اس لیے کیا گیا تا کہ ان کے رستے میں آنے والی ہر چیز کو نیست و نابود کیا جا سکے: جیسے کہ سڑکوں، پانی اور نکاسی کے سسٹم، گاڑیوں کو تباہ کرنے اور عمارتوں کو نقصان پہنچانے کے لیے۔ اسرائیلی فوج نے دہشت گردوں کے ”خاتمے کے لیے“ کئی بار مقامی ہسپتالوں پر سرِ عام گولیاں اور آنسو گیس چلائیں۔

یہ وہ مناظر ہیں جو جنین نے 20 سال سے زیادہ عرصہ سے پہلے 2002ء کے فوجی محاصرے میں بھی نہیں دیکھے، جب مہاجرین کے کیمپ کا آدھا حصہ اسرائیل کے آپریشن ’وال آف ڈیفینس‘ میں تباہ ہو گیا تھا۔

جب اسرائیلی فوج 5 جولائی 2023ء کی صبح کو جنین سے نکلیں، اس وقت جنین 2021ء میں اسرائیلی جارحیت پر مبنی غزہ کی سرزمین کا منظر پیش کر رہا تھا جس کی گلیاں میزائلوں اور بمب دھماکوں سے مٹی کے ملبے میں تبدیل ہو گئی تھیں۔

فلسطین اتھارٹی (پی اے) کے صحت کے وزیر کے مطابق 13 لوگ جاں بحق ہوئے تھے (جن میں گیارہ لوگ 16 سے 23 سال کے تھے) اور تقریباً 150 لوگ زخمی ہوئے تھے۔ مہاجرین کے کیمپ میں رہنے والے 16 ہزار لوگوں میں سے 3 ہزار لوگوں کو اپنا گھر چھوڑنا پڑا جو کہ خاصے تباہ ہو چکے تھے۔

اس خوفناک المیے میں اسرائیلی فوج نے اس قتلِ عام کو ”آپریشن ہوم اینڈ گارڈن“ کا رمزی نام دیا ہے۔ یہاں ہمیں حقیقی جنگی جرائم کا سامنا ہے۔ لیکن اس تمام صورتِ حال میں مغربی میڈیا کی ظلم و جبر کی چیخ و پکار کہاں ہے؟

یورپی کمیشن کے صدر وان ڈر لئین یا نیٹو کے سیکریٹری جنرل سٹولٹن برگ کی جانب سے اس اندھا دھند بمباری کی مذمت میں کوئی پریس کانفرنس نہیں کی گئی۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ نے بھی اسرائیل کو موردِ الزام ٹھہرانے کی جرات نہیں کی۔ بلکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے خود کو اپنے ’گہرے صدمے‘ کا اظہار کرنے تک محدود رکھتے ہوئے کہا کہ ”تمام جنگی آپریشنز عالمی انسان دوست قانون کو مدِنظر رکھتے ہوئے چلائے جائیں“۔

آہ، اقوام متحدہ اسے ایک جنگی عمل قرار نہیں دے رہا۔ اس کے برعکس اسے ایک ”ملٹری آپریشن“ کہا جا رہا ہے، ایسا ملٹری آپریشن جو نوجوانوں کا قتل کرنے میں نہیں ہچکچاتا! یہی اقوام متحدہ کا حقیقی منافقانہ چہرہ ہے!!

یہ سفاکیت مغربی میڈیا کی منافقت کو روزِ روشن کی طرح عیاں کرتی ہے۔ جب روسی صدر پیوٹن یوکرائن پر حملے کو ”جنگ“ کہنے کی بجائے ”ایک خاص ملٹری آپریشن“ کہتا ہے تو یہ لوگ دھاڑیں مار کر روتے ہیں، مگر اسرائیل کو معزز جانتے ہوئے یہ رضاکارانہ طور پر بالکل وہی طرزِ بیان نتن یاہو کی حکومت کے لیے برتتے ہیں۔

ہم پورے یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہیگ شہر (انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس اور انٹرنیشل کریمینل کورٹ اسی شہر میں ہیں) میں کوئی بھی عدالت ایسی نہیں ہو گی جو اسرائیل کے ان جنگی جرائم کی کبھی بھی مذمت کرے۔

فلسطینی مزاحمت کا گڑھ

جنین، مغربی کنارے کے شمال میں واقع ہے، جو فلسطینیوں کی مزاحمت کا ایک روایتی گڑھ ہے۔ یہی شہر تھا جہاں گزشتہ برس فلسطینی صحافی شیرین ابو اکلیح کا قتل ہوا تھا۔ اور پھر جنین ہی میں، اِس جنوری کے مہینے میں اسرائیلی فوج نے ایک اور حملے میں 10 لوگ مارے تھے۔

Rubble Image Issa Amro Twitter

حال ہی میں ہونے والے حملے کی ہفتوں سے تیاریاں کی گئی تھیں

حال ہی میں ہونے والے حملے کی ہفتوں سے تیاریاں کی گئی تھیں اور جس کی پیش روی اسرائیل کی تاریخ میں سب سے زیادہ دائیں بازو کی حکومت کی جانب سے انتہائی شور و غوغا مچانے والے میڈیا نے کی۔

25 جون کو، اسرائیل کے ’سیکورٹی‘ کے وزیر اِتامر بن گویر نے مغربی کنارے میں ایک وسیع عسکری حملے کا اعلان کیا: ”اسرائیل کی سرزمین کو نو آبادی بنا دیا جائے (اور) ایک فوجی محاز کھولا جائے۔ عمارتوں کو مسمار کرو، دہشت گردوں کو ختم کرو۔ صرف ایک یا دو نہیں، بلکہ دسیوں اور سینکڑوں، حتیٰ کہ ضرورت پڑنے پر ہزاروں بھی۔

بلکہ صیہونی بیان بازی میں، ہر فلسطینی، بشمول خواتین اور بچے، ایک ’دہشت گرد‘ ہے۔

فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف پراپیگنڈا کرنے سے ایک طرف تو ان بنیاد پرست عناصر کو خوش کیا جاتا ہے تو دوسری طرف اسرائیلی عوام کی توجہ بھی مبذول کرائی جاتی ہے۔

نتن یاہو کو اپنی عوام دشمن اصلاحات کے خلاف مہینوں پر محیط عوامی تحریک کا سامنا رہا ہے۔ گلی محلوں میں احتجاجوں میں اضافے کے خوف سے اپریل کے آخر میں قانون پر بحث کو عارضی بنیادوں پر ملتوی کرنے کے بعد، اس نے مئی میں دوبارہ اس بحث کا آغاز کرنے کی تجویز کی۔ لیکن اس بات سے احتجاج پھر سے شروع ہو گئے۔ اس تحریک کے رہنماء اشرافیہ کے ہی سیاستدان ہیں، جو کہ فلسطین کے معاملے میں نتن یاہو کے ساتھ مشترکہ نقطہ نظر رکھتے ہیں۔

یہ قیادت احتجاجوں کی بنیادی کمزوریوں میں سے ایک کمزوری ہے، جس نے اسرائیلی حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کی نمائندگی سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔

مغربی کنارے میں فلسطینی مزاحمت کو کمزور کرنے کی کوشش

اسرائیلی لائحہ عمل واضح ہے: وہ مغربی کنارے کو الگ الگ چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر کے فلسطینیوں کی مزاحمت کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسرائیلی ریاست کی نظر میں، جنین، نابلس اور رملہ کو ایک دوسرے سے الگ کیا جانا چاہیے، تاکہ اسرائیلی فوج اپنی مرضی سے آ اور جا سکے، اور کم سے کم مزاحمت کے ساتھ وہ زیادہ سے زیادہ تشدد کر سکے۔

اس مقصد کے لیے وہ ان سات لاکھ انتہائی رجعتی نو آباد کاروں کا سہارا لے رہے ہیں جو مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے مقبوضہ خطوں میں مقیم ہیں۔ جون کے آخر میں حکومت نے مزید 5 ہزار اسرائیلیوں کو غیر قانونی قیام کی اجازت دی تھی۔ یہ نو آبادیات مختلف عالمی معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی ہے، یعنی کہ قانون کے آگے سب برابر نہیں ہیں، ہاں اگر آپ سامراج کے دوست ہیں تو پھر آپ قانون کی نظر میں دوسروں سے ”زیادہ برابر“ ہیں۔

فوج ان نو آبادکاروں کو بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔ یہ نو آبادکار مسلسل فلسطینی آبادی کے خلاف کھلے عام دہشت گرد حملے کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ فلسطینی جب اپنا دفاع کرنے کیلئے کچھ کرتے ہیں تو اسے بہانا بنا کر اسرائیلی فوج گاؤں اور مہاجر کیمپوں میں گھس جاتی ہے۔

Mahmoud Abbas Image Пресс служба Президента России Wikimedia Commons

فلسطینی صدر محمود عباس (جو ابو میزن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے)، ضعیف اور بیمار آدمی ہے، جو عوام کی نظر میں بالکل غیر مقبول ہو چکا ہے۔

مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کے بڑھتے حملوں کی وجہ فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کا گہرا بحران ہے۔ اوسلو کے معاہدے میں تقریباً 30 سال پہلے مئی 1994ء میں دستخط کیے گئے تھے، جس میں پی اے کا منصوبہ بالکل واضح تھا کہ فلسطینیوں پر نظر رکھی جائے اور کسی بھی عوامی بغاوت کو ابھرنے سے روکا جائے۔ اب پی اے یہ ذمہ داری نبھانے سے قاصر ہے۔

فلسطینی صدر محمود عباس (جو ابو میزن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے)، فتح چیئرمین اور فلسطینی نیشنل اتھارٹی کا صدر، ضعیف اور بیمار آدمی ہے، جو عوام کی نظر میں بالکل غیر مقبول ہو چکا ہے۔ 2006ء سے مغربی کنارے میں انتخابات منعقد نہیں ہوئے۔ اس کی حکومت صرف اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے دیے جانے والے پیسوں کی بدولت ہی چل رہی ہے۔

تاہم، اسرائیل کی سیاسی اور فوجی قیادت کے لیے یہ سوال ابھی بھی جواب طلب ہے کہ پی اے کا کیا کرنا ہے۔ حکمران طبقے کا ایک دھڑا، جس میں نتن یاہو بھی شامل ہے، پی اے کو قائم رکھنا چاہتا ہے، کیونکہ اس سے استحکام کا تاثُر قائم رہتا ہے، یہ کہ اس سے لاکھوں فلسطینیوں کو نوکریاں اور عوامی خدمات میسر ہونے کی ضمانت ملتی ہے۔

دوسروں نے یہ سوال پوچھنا شروع کر دیا ہے کہ: ”پی اے کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے، اسے ایک مسئلے کے طور پر لیا جائے یا ایک حل کے طور پر؟“ میئر بِن شبات، نیشنل سیکورٹی کے سابقہ حکومتی مشیر نے جنین پر حملے کر بارے میں بات کرتے ہوئے کہا: ”اگر اس آپریشن کا مقصد علاقے کو آزاد کروانا اور اسے فلسطینی اتھارٹی کو سونپ دینا ہے، تو پھر اتنے بڑے آپریشن سے منسلک خطرات کے پیش نظر اس کا کوئی جواز نہیں۔“ اس کی وجہ بہت سادہ ہے کہ فلسطینی ہتھیار بند جتھوں سے لڑنے کے لیے پی اے کی قابلیت پر بالکل بھی یقین باقی نہیں بچا۔

ان مسلح جتھوں کا ابھار، جن میں جنین بریگیڈ اور نابلس میں لاینز ڈین شامل ہیں، فلسطین کی صورتحال میں حقیقی بدلاؤ ہے۔ حتیٰ کہ جنین بریگیڈ جیسے گروہ، جو فلسطینی اسلامی جہاد (حماس کا مسلح بازو) کے شروع ہونے پر بنے، بھی دوسرے سیاسی گروہوں کے ممبران اور ان تمام نوجوانوں کے لیے کھلے ہیں جو اس تسلط کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں۔

ان گروہوں کی وسیع حمایت موجود ہے۔ فلسطینی سنٹر فار پالیسی اینڈ سروے ریسرچ کی جانب سے ایک رائے عامہ کے مطابق، ”68 فیصد لوگ ’لائنز ڈین‘ جیسے مسلح گروہوں کے بننے کے حمایتی ہیں، اور 87 فیصد لوگ اس بات کو مانتے ہیں کہ پی اے ان گروہوں کے ممبران کو گرفتار کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتی۔“

اس رائے عامہ میں یہ بات قابلِ غور ہے کہ ”61 فیصد لوگ ایک تیسری مسلح بغاوت کے پھٹنے کی توقع رکھتے ہیں“ اور عملی طور پر اسی شرح کے مطابق لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پی اے اس میں شامل نہیں ہو گی۔

اس عوامی حمایت کا مطلب ہے کہ، اسرائیلی فوج کی بھاری بھرکم جنگی قوت کے باوجود، مغربی کنارے سے مسلح مزاحمت کو مکمل طور پر ختم کرنے کا ان کا مقصد بمشکل پورا ہو گا۔

ایک نئے انتفادہ (بغاوت) کی جانب بڑھو!

ان پرتوں کی بنیاد میں ایک اہم قدم 2021ء میں غزہ میں ہونے والی بمباری کے نتیجے میں ابھرنے والی عوامی تحریک تھی، جس نے اسی سال 18 مئی کو عام ہڑتال کو جنم دیا۔

نوجوانوں کی ایک پوری نسل ہے جو اوسلو معاہدے کے بعد اور یہاں تک کہ 2004ء میں یاسر عرفات کی موت کے بعد بھی پیدا ہوئی تھی۔ ان کے لیے، فتح ایک ایسی تنظیم نہیں ہے جیسا کہ ان کے باپ دادا اس کے بارے میں جانتے تھے۔ ان کی نظر میں یہ تنظیم تسلط کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بالکل بھی نہیں ہے۔ بلکہ، فتح ایک ایسی تنظیم کے طور پر جانی جاتی ہے جو رملہ میں حکومت کی رہنمائی کرتی ہے، جس میں اسرائیل کے ساتھ ملوث بدعنوان سیاست دان شامل ہیں جو ان کی جدوجہد کو دباتے ہیں۔ انہیں پی اے بنانے کے نام نہاد فوائد نظر نہیں آتے، جس نے صرف فلسطینی اشرافیہ کی ہی مدد کی ہے۔ بلکہ، پی اے مسلسل بڑھ رہی مفلسی، نجکاری اور نا امیدی کی ہی نمائندگی کرتی ہے۔

مختصر یہ کہ، فلسطینی اتھارٹی کی نوجوانوں میں بالکل بھی حمایت موجود نہیں۔ ال مینی فیسٹو کے مطابق:

”جب محمود العالول، فتح کا دوسرا اہم رہنما، کل مہاجر کیمپ میں آیا اور چبوترے سے مقامیوں کو یکجہتی اور حمایت کا پیغام دینے کی کوشش کی، تو اس کی بہت تذلیل ہوئی۔ سینکڑوں لوگوں نے ’نکل جاؤ، نکل جاؤ!‘ کے نعرے کے ساتھ اس کا تعاقب کیا۔‘‘

تحریک کے لیے، اتحاد کی تلاش اور پی اے کا غیر مقبول ہونا، دونوں اقدام بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ بہر حال، مسلح مزاحمت اسرائیلی فوج کو اکیلے شکست فاش نہیں دے سکتی۔ صرف محنت کش طبقے اور پسے ہوئے عوام کی تحریک، ایک نیا انتفادہ ہی اس کام کو سر انجام دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

جس چیز کی ضرورت ہے وہ ایک انقلابی پروگرام ہے، جو فلسطینیوں کی آزادی کی جدوجہد کو اشرافیہ کے خلاف جدوجہد کے ساتھ جوڑ سکے، چاہے وہ عرب ہو یا اسرائیل۔

محض طبقاتی بنیادوں پر محیط اپیل ہی صیہونی اتحاد کو پاش پاش کر سکتی ہے، جو اس جھوٹ پر مبنی ہے کہ اسرائیلی محنت کش اور مالکان یہودی ہونے کی وجہ سے یکساں مفادات رکھتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں صرف ایک سوشلسٹ فیڈریشن ہی خطے کے لوگوں کے لیے آزادی اور حقیقی خود مختاری کی ضامن ہو سکتی ہے۔

Comments are closed.