افغانستان: وحشت اور بربریت کے نئے دور کے خلاف پنپتی عوامی نفرت

|تحریر: زلمی پاسون|

گزشتہ دنوں پاکستان اور افغانستان کے مابین دوبارہ تناؤ کی کیفیت پیدا ہوئی جب پاکستان کی جانب سے افغانستان کے سرحدی علاقوں خوست اور کنڑ میں بمباری کی گئی جس میں اب تک 47 افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ اس بمباری کے بعد ہونے والی ہلاکتوں پر پورے علاقے میں پاکستان کے خلاف غم وغصے اور نفرت کا اظہار نظر آیا اور خوست میں بڑے پیمانے پر احتجاج بھی ہوئے جس میں پاکستان کے سامراجی کردار کی شدید مذمت کی گئی۔ دوسری جانب پاکستان کے حکمران طبقات اسے تحریک طالبان پاکستان کے ٹھکانوں کے خلاف کاروائی کے طور پر پیش کر رہے ہیں لیکن ابھی تک تفصیلات پیش نہیں کی گئیں کہ کن لوگوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے اور اس میں سرحد کے پار بمباری کی ضرورت کیوں پیش آئی جس میں ان بے گناہ بوڑھے اور بچوں کو بے دردی سے قتل کیا گیاجو ایسے ہی فوجی آپریشنوں کے نتیجے میں بے گھر ہوئے تھے اور وہاں کیمپوں میں انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔

افغانستان میں گزشتہ چند ماہ میں بہت بڑی تبدیلیاں آئی ہیں جس سے ملک میں رہنے والے چار کروڑ افراد انتہائی بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور معاشی دیوالیہ پن اور سماجی برباد ی انتہاؤں تک پہنچ گئی ہے۔ ایک طویل عرصے سے امریکہ کی سامراجی مداخلت اور جنگ، اور اس کے گماشتے مختلف شکلوں میں افغانستان پر مسلط ہیں اور اس سماج کو برباد کر چکے ہیں۔ امریکی سامراج اور اشرف غنی کے دم دبا کر بھاگنے کے بعد وہاں پر طالبان کی شکل میں ایک وحشت اور بربریت مسلط کی جا چکی ہے جو سماج کو مزید بربادی اور تباہی میں غرق کر رہی ہے۔ دوسری جانب پاکستان اور خطے کی دوسری طاقتوں کی سامراجی مداخلت بھی افغان عوام کے لیے زہر قاتل ہے جس میں اپنے سٹریٹجک مفادات کے لیے اس سرزمین کو استعمال کیا جاتا ہے لیکن جب افغانستان کے عوام کی مدد کا معاملہ آتا ہے تو سرد مہری، سرحدی پابندیاں اور شدید دھوکے بازی اور فریب نظر آتے ہیں۔ ان تمام طاقتوں کے لیے افغانستان کے عوام ان کی سامراجی پالیسیوں کے لیے خام مال سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے اور وہ ان کے خون کی ہولی کھیلنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس سارے عمل میں افغانستان میں جاری تبدیلیوں اور گہرے ہوتے تضادات کا جائز لینا ضروری ہے۔

طالبان حکومت کی عورت دشمنی

طالبان کے اقتدار میں آنے پر پورے افغانستان میں ایک شدید غم و غصہ اور نفرت تھی اور عوام میں ان کی انسان دشمن ذہنیت کے باعث کسی بھی قسم کی بہتری کی امید موجود نہیں تھی۔ امریکی سامراج کی مسلط کردہ جنگ اور اس دوران تعمیر ہونے والی کٹھ پتلی ریاست نے بھی عوام کا جینا دوبھر کر رکھا تھا اور کرپشن، لوٹ مار اور ریاستی مظالم کا سلسلہ پورے زور و شور سے جاری تھا، لیکن طالبان کے آنے کے بعد اس میں اضافہ ہی ہوا ہے اور عوام کے لیے زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کے خلاف جہاں ہزارہ سمیت تمام مظلوم قومیتیں سراپا احتجاج تھیں وہیں خواتین نے انتہائی جرات اور دلیری کے ساتھ اس خون آشام قوت کے خلاف احتجاجوں کی قیادت کی اور اپنی زندگیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مزاحمت کا نعرہ بلند کیا۔ اس سارے عمل میں کوئی بھی ایسی منظم سیاسی قوت نہیں تھی جو عوام دوست نظریات پر اس ساری تحریک کو منظم کرتی۔ نام نہاد بائیں بازو سمیت تمام لبرل امریکی سامراج کی گود میں بیٹھ کر عوام دشمن سامراجی قوتوں کا حصہ بن چکے تھے اور کرپشن اور لوٹ مار کی گنگا میں نہا رہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان سامراجی کٹھ پتلیوں کے لیے بھی عوامی حمایت موجود نہیں تھی اور طالبان کے خلاف ابھرنے والی احتجاجی تحریک منظم سیاسی شکل اختیار نہیں کر سکی۔

اسی دوران طالبان نے عوام پر اپنے مظالم اور خونریزی کا بھی آغاز کر دیا جن میں سماج کی تمام مظلوم پرتیں شامل تھیں اور خواتین پر جبر سب سے زیادہ تھا۔ ایک طرف تمام تر متعصب قبائلی روایات اور پسماندہ رسوم کو مذہب کے پردے میں دوبارہ مسلط کیا گیا وہیں خواتین کی تعلیم پر بھی مکمل پابندی عائد کر دی گئی۔ طالبان کا معاشی اورانتظامی معاملات میں امریکی سامراج اور سرمایہ دارانہ نظام سے کوئی اختلاف نہیں اور وہ امریکہ کے ہی بنائے ہوئے بینکوں اور سودی نظام کو جاری رکھنے کی نہ صرف کوششیں کر رہے ہیں بلکہ پوری دنیا کے بینکوں سے سودی قرضوں کی بھیک مانگ رہے ہیں جبکہ سرمایہ داری کے عالمی مالیاتی نظام سے جڑنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح ریاستی اداروں پر بھی صرف مذہب کے نام کی ملمع کاری کی گئی ہے جبکہ اس کا کردار سرمایہ دارانہ ریاست والا ہی ہے۔ کابل میں پولیس سمیت دیگر ریاستی اداروں کو اسی طرز پر چلایا جا رہا ہے لیکن اس تمام تر سرمایہ دارانہ نظام کو پسماندگی اور رجعتیت کے پردے میں لپیٹ کر مزید خونخواری اور وحشت مسلط کی جا رہی ہے تاکہ اپنا اقتدار اس جبر کے ذریعے مستحکم کیا جا سکے۔ اسی کے تحت طالبان نے آتے ہی خواتین کے لیے تعلیم کے دروازے مکمل طور پر بند کر دیے اور انہیں گھروں میں قید کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔ لیکن عالمی سطح پر رحم کی اپیلوں کے خارج ہونے کے بعددباؤ کے تحت اس فیصلے پر نظر ثانی کی گئی اور بچیوں کو سکولوں میں جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن اس کے بعد طالبان کے اندر موجود پھوٹ مزید شدت اختیار کر گئی اور آپسی لڑائیوں اور سازشوں میں پھر سے شدت آ گئی جوان کے اقتدار کے پہلے دن سے جاری ہیں۔

23 مارچ کو نام نہاد امارت اسلامی نے عالمی سامراجی ممالک سے کیے گئے وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لڑکیوں کے سکول جانے پر غیر معینہ مدت کے لئے ایک بار پھر پابندی عائد کر دی۔ واضح رہے کہ ساتویں جماعت سے بارہویں جماعت تک لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی طالبان کے اقتدار پر مسلط ہونے سے شروع ہوئی جس کے بارے میں نام نہاد امارت اسلامی سے یہ بیانات سامنے آتے گئے کہ نئے سال کے آغاز تک تمام تر لوازمات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے لڑکیوں کے سکول جانے کا اعلان کیا جائے گا۔ مگر جونہی 23 مارچ کو لڑکیوں نے سکول کا رُخ کیا تو وہاں پر نام نہاد امارت کے وحشیوں نے انہیں زبردستی سکول سے نکال کر واپس گھروں کو روانہ کیا۔ جس کے بعد نہ صرف افغانستان بلکہ پوری دنیا سے سوشل میڈیا پر شدید ردعمل دیکھنے کو ملا۔ اس موقع پر سامراجی ممالک کی جانب سے بھی مگرمچھ کے آنسو بہائے گئے اور کہا گیا کہ طالبان اپنے وعدوں سے مکر رہے ہیں اور افغانستان کے عوام کے ساتھ طالبان کا یہ رویہ قابل مذمت ہے۔

معاشی بحران

اگست 2021ء میں امریکی سامراج کے انخلا اور طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان ایک مہلک انسانی بحران کا شکار ہے۔ غذائی قلت میں شدید اضافہ ہو رہا ہے، جہاں 95 فیصد گھرانوں کو خوراک کی ناکافی کھپت اور غذائی قلت کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق مارچ 2022ء کے اختتام تک 55 فیصد آبادی غذائی قلت کے بحران کے حوالے سے ہنگامی طور پر امداد کی منتظر رہے گی۔ عالمی انسانی حقوق کے اداروں نے افغانستان میں جاری بربریت کے حوالے سے بارہا انتباہ جاری کیے ہیں۔ بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی کے اعلامیے کے مطابق کے افغانستان میں جاری انسانی بحران بیس سال کی جنگ سے زیادہ اموات کا باعث بن سکتا ہے۔ ”سیو دی چلڈرن“ کے فروری 2022ء سروے کے مطابق اگست 2021ء کے بعدسے 82 فیصد افغان خاندانوں کا ذریعہ معاش ختم ہوگیاہے جبکہ 20 فیصد افغان بچے اس وقت گھر کا چولہا جلانے کے لیے محنت مزدوری کرتے ہیں اور 8 فیصد خاندانوں کا بھیک اور خیرات پر انحصار ہے۔ جب کہ افغانستان میں موجودہ بحران نے افراط زر اور مہنگائی کا ایسا طوفان برپا کیا ہے جو کہ عام مظلوم افغان عوام کو موت کے دہانے پر پہنچا چکاہے۔ اس وقت افغانستان کا بحران ایک معاشی بحران بھی ہے جہاں افغان عوام بازار میں کھانے کی اشیاء تو دیکھتے ہیں مگر ان کو خریدنے کی سکت نہیں رکھتے، محکمہ صحت سمیت تمام تر سرکاری شعبہ جات میں ملازمین اپنی خدمات سرانجام دیتے ہیں مگر ان کو فنڈز کی قلت اور بینکنگ سیکٹر پر پابندیوں کی وجہ سے تنخواہ نہیں ملتی۔ ایسا نہیں ہے کہ افغانستان میں غذائی اشیاء کی قلت ہے، ایک حد تک معمولی کمی ہو سکتی ہے مگر بنیادی سوال لوگوں کی قوت خرید کا ہے جو کہ اس وقت بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔

افغانستان کے معیشت کے حوالے سے مختصراً یہ کہنا درست ہوگا کہ امریکی سامراج گزشتہ بیس سال کی مداخلت کے دوران ایک کارآمد معاشی ڈھانچہ تعمیر نہیں کر سکا جو اس نظام اور سامراج کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ روز اول سے لے کر انخلاء تک افغانستان کی معیشت کو اپاہج بنایا گیا تھا جو کہ بیرونی امداد اور خیراتی اداروں کی خیرات پر چلتی تھی۔ یہ انحصار لگ بھگ 75 فیصد کے قریب تھا جبکہ باقی 25 فیصد میں بھی زیادہ حصہ کالے دھن پر مشتمل معیشت کا تھا۔ طالبان کے قبضے کے بعد اچانک تبدیلی رونما ہونے سے بیرونی امداد کے سارے دروازے بند ہوگئے جس کی وجہ سے اس وقت افغانستان ایک بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ بیرونی امدادی فنڈز سے نہ صرف ملک بھر میں ملازمین کی تنخواہیں ادا کی جاتی تھیں بلکہ افغانستان کی 80 فیصد بجلی جو کہ ہمسایہ ممالک سے درآمد کی جاتی تھی اس کے اخراجات کی ادائیگی، انفراسٹرکچر کی بحالی اور تعمیر کے شعبے کی سرگرمی جاری تھی۔ اس کے علاوہ افغانستان کی بیرونی زرمبادلہ کی رقم جوکہ 9 ارب ڈالر تھی، کو امریکی سامراج نے نہ صرف منجمد کیا بلکہ اس میں نصف حصہ سانحہ نائن الیون کے امریکی متاثرین کو دینے کا اعلان ہوا جس کی عالمی طور پر شدید مخالفت سامنے آئی۔

افغانستان کی آبادی چار کروڑ کے قریب ہے جس میں طالبان کے قبضے سے قبل ایک کروڑ چالیس لاکھ لیبر فورس موجود تھی، جس میں زراعت سے وابستہ لیبر فورس 44.3 فیصد، صنعت و حرفت 18.1 فیصد، خدمات کے شعبہ جات میں 37.6 فیصد شامل تھی۔ مگر اب یہ اعدادوشمار صحیح نہیں رہے کیونکہ طالبان کے قبضے کے بعد سارا منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان کا سالانہ جی ڈی پی 2020ء میں 19.81 ارب ڈالر تھا، جس کی اب طالبان کے زیر قبضہ کوئی معلومات نہیں۔ البتہ یہ واضح ہے کہ جس صورتحال سے افغان عوام گزر رہے ہیں شاید ایسے حالات 90ء کی خانہ جنگی میں بھی دیکھنے کو نہیں ملتے۔ بیروزگاری کا عفریت اس وقت افغان عوام بالخصوص نوجوانوں کے لیے ایک عذاب بن چکا ہے جس کی وجہ سے افغان نوجوانوں کا زیادہ تر رجحان بیرونی ممالک کی طرف ہے جس کی وجہ سے اکثر اوقات وہ جان لیوا حادثات میں جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی ساتھ بیرونی ممالک کے حالات اب وہ نہیں رہے جو ان نوجوانوں کے زخموں پر مرہم رکھ سکیں۔ اس کے علاوہ غربت میں بے تحاشہ اضافہ ہوچکا ہے، سوشل میڈیا پر ایسی کئی رپورٹس اور ویڈیوز وائرل ہیں جن میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ اپنی دو وقت کی روٹی یا علاج معالجے کی بنیادی ضروریات کے لئے بچیوں کی خرید و فروخت اور دیگر جسمانی اعضاء بالخصوص گردوں کی فروخت کرتے ہوئے نظر آئے ہیں۔ یہ صورتحال اُس وقت زیادہ سنگین ہوتی ہے، جب ان انسانی اعضاء کے بیچنے والے موجودہوں مگر خریدنے والے نہ ہوں۔ علاوہ ازیں کابل سمیت دیگر شہروں میں روٹی کی دکانوں کے سامنے خواتین کی قطاریں موجود ہوتی ہیں جہاں پر وہ صرف روٹی کے لئے بھیک مانگتی نظر آتی ہیں۔

اس ضمن میں طالبان کی جانب سے افیون کی کاشت کی اجازت دی گئی، مگر 3 اپریل کو واپس افیون سمیت ہر قسم کے نشہ آور مواد کی کاشت پر پابندی لگا دی گئی، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ طالبان کے پاس افغانستان کی معیشت کو چلانے کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حالیہ پابندی سے کیا افیون کی کاشت مکمل طور پر ختم ہوجائے گی، اس کا جواب نفی میں ہے۔ کیونکہ جہاں ایک طرف اگر افغانی معیشت کی اس کے علاوہ دیگر سنجیدہ بنیادیں نہیں ہیں وہیں دوسری طرف ایسے ڈرگ سمگلرز جن میں طالبان خود شامل ہیں، اس کی کاشت کو مکمل طور پر ختم کرنے کی حق میں نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے افیون سمیت دیگر منشیات کا افغان سماج سے خاتمہ ممکن نہیں۔

دوسری جانب نام نہاد مہذب مغربی دنیا بشمول امریکی سامراج، اس تمام بحران کا ذمہ دار طالبان کو ٹھہراتے ہیں اور مگر مچھ کی طرح آنسو بہا تے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ طالبان نے دوحہ معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔ درحقیقت جس طرح سرمایہ دارانہ نظام کے خصی پن اور زوال کا معیاری اظہار کرونا کی شکل میں ہوا تھا، بالکل اسی طرح افغانستان میں موجودہ بحران کا معیاری اظہار طالبان کی شکل میں ہوا ہے جو پچھلے بیس سالوں سے پنپ رہا تھا۔ یہ بحران نہ صرف سرمایہ دارانہ نظام کا بحران ہے بلکہ امریکی سامراج کے خصی پن اور زوال پذیری کا بھی اظہار ہے۔ مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ افغانستان پر طالبان کی قبضہ گیر حکومت نے ایک طرف افغانستان میں پنپنے والے بحران کو معیاری اظہار دیا جبکہ دوسری جانب امریکی سامراج اور نیٹو کی کمزوری اور ذلت آمیز شکست پر مہر ثبت کردی۔

سماجی بحران

کسی بھی سماج میں بحران کا بنیادی ماخذ معیشت ہی ہوتا ہے۔ یعنی جب بھی معاشی بدحالی ہوگی تو اس کا اظہار سماج کے ہر اس مظہر پر ہوتا ہے جو کہ سماج کی بنیادی اکائیوں میں سے ایک ہوتا ہے۔ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام پوری دنیا کے اندر اپنی زوال پذیر کیفیت سے گزر رہا ہے جس میں سماج کے اندر بورژوازی کا اہم ادارہ خاندان ٹوٹ کر بکھر رہا ہے۔ سماج کے اندر اس بنیادی اتھل پتھل سے رشتوں کے اندر موجودتعلق اپنے اُلٹ میں تبدیل ہو چکا ہے، جبکہ اخلاقیات کا پیمانہ یہاں تک گر چکا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں جھوٹے، مکار، چال باز، دھوکے باز، فراڈ کرنے والوں کو عقلمند سمجھا جاتا ہے۔ آج جنسی ہراسانی، ریپ، بچوں اور بچیوں سے زیادتی، اغوا برائے تاوان، غیرت کے نام پر قتل وغیرہ سرمایہ دارانہ سماج کا بنیادی خاصہ بن چکا ہے۔ اس طرح کے حالات افغانستان جیسے جنگ زدہ، پسماندہ اور رجعتی قوتوں کے ہاتھوں یرغمال سماج میں بربریت اور وحشت کے حوالے سے ابتر ترین کیفیت میں موجود ہیں۔ طالبان کی جانب سے حالیہ نافذ کردہ پابندیوں نے اس غم و غصے کو مزید تیز کر دیا ہے جہاں لوگوں میں طالبان مخالف جذبات میں شدت آرہی ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کے حوالے سے غیر انسانی رویہ بھی طالبان کے خلاف لوگوں میں سرایت کر رہا ہے۔ ایسے میں سماج کی حالت کیا ہو سکتی ہے جب سماج کو اپنے ارتقائی عمل سے کاٹ کر ایک دہشت گرد اور شدت پسند گروہ اپنی مرضی سے پسماندگی اور رجعت کے احکامات کے ذریعے سماج کے رُخ کا تعین کر رہا ہو۔ طالبان کے زیر سایہ سماج کی عمومی زندگی معطل ہو گئی ہے اور ایک غیر انسانی ماحول بنا کر سماج کو تباہی کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔

افغانستان میں سماج کے اندر قبائلی ڈھانچے ایک حد تک اب بھی موجود ہیں۔ ثور انقلاب کی صورت میں خلق پارٹی نے ان قبائلی ڈھانچوں کو توڑنے کی سنجیدہ کوشش کی تھی۔ جب نیم جاگیرداروں، نیم سرمایہ داروں اور سود خوروں کی نجی ملکیت کو قبضے میں لے کر قبائلی نظام کو توڑنے کی کوشش کی گئی۔ مگر چونکہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کا خلق دھڑا زیادہ دیر تک اقتدار میں نہیں رہا، اور سوویت یونین کی مداخلت پر اقتدار پر قبضہ کرنے والے پرچم دھڑے نے خلق پارٹی کی جانب سے کی گئی اصلاحات کو واپس لینا شروع کیا، تو قبائلی حوالے سے افغان سماج جوں کا توں ارتقاء کرتا رہا جس کے اکثریتی حصے پر اب طالبان کا کنٹرول ہو چکا ہے۔ اس ضمن میں افغان سماج کے موجودہ ڈھانچوں کے حوالے سے بحث کرنا بہت ضروری ہے۔ بالخصوص نائن الیون کے بعد نام نہاد وار آن ٹیرر کے بعد سے لے کر اب تک افغان سماج کے بنیادی ڈھانچوں میں ایک معیاری تبدیلی رونما ہو چکی ہے جس میں بے شمار عوامل سمیت اس سرمایہ دارانہ نظام کے ناہموار اور مشترکہ ترقی کے قانون کے تحت سماج میں اتھل پتھل قابل ذکر ہے۔ پچھلی دو دہائیوں سے افغان سماج کے ڈھانچوں میں امریکی سامراج کی سامراجی مداخلت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ امریکی سامراج کی جانب سے بھی اکثریتی علاقوں میں اپنے سامراجی تسلط کو برقرار رکھنے کیلئے قبائلی ڈھانچوں کو مسمار کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح طالبان کے گزشتہ دور سے لے کر اب تک ایک نئی نسل جوان ہو چکی ہے۔ تکنیکی ترقی نے بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کیا ہے جس سے قبائلی سماج کے پرانے ڈھانچے اگرچہ مسمار نہیں ہوئے ہیں مگر ان کی پرانی بنیادیں بھی نہیں رہیں۔ کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم اور بربریت کے نتیجے میں کئی معیاری تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں جن سے سماج میں انتشار جنم لے چکا ہے اور اس انتشار نے ایک ہی خاندان میں باپ اور بچوں کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والے فاصلے کو جنم دیا ہے۔ اس فاصلے کو نہ صرف طالبان کے لیے کنٹرول کرنا آسان نہیں ہے بلکہ اس انتشار کا حتمی اختتام بغاوت کی کسی بھی شکل میں ہو سکتا ہے۔ مختصرا ًہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان تمام سماجی تبدیلیوں کی وجہ سے اب طالبان کو 90ء کی دہائی سے مختلف حالات کا سامنا ہے۔ دوسری اہم بات کہ موجودہ بحرانی کیفیت میں ایسے بہت سارے سوالات ہیں جو کہ اس نظام کی زوال پذیری کے ساتھ ایک نئی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ نتیجتاًافغان سماج اب اس دہانے پر پہنچ چکا ہے جہاں ہر حوالے سے بحرانی کیفیت موجود ہے اور سماج میں کوئی بھی معمولی یا غیر معمولی واقعہ اُتھل پُتھل کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔

گو کہ طالبان کی قوت پشتون سماج کے رجعتی حصوں سے ہی بنی ہے جس میں افغانستان کی دیگر مظلوم قومیتوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ مگر یہاں اہم سوال یہ ہے کہ کیا طالبان میں پشتون شاونزم کے عزائم موجود ہیں؟ کیا دیگر قومیں طالبان کے ساتھ اختلاف کو پشتون شاونزم کی بنیاد پر اختلافی نقطے کے طور پر پیش کرتی ہیں؟ طالبان کی اکثریت کیونکہ پشتون سماج کے رجعتی حصوں سے آتی ہے اس لئے ان میں پشتون شاونزم کا عنصر شامل ہو تاہے اور وہ انتہائی رجعتی انداز میں انتہائی دائیں بازو سے پشتون قوم پرستی کا اظہار کرتے ہیں۔ بظاہر وہ مذہبی بنیاد پرستی کی بنیاد پر اس وقت افغانستان پر قابض ہیں لیکن افغانستان کی دیگر قومیتوں میں ان کی حمایت نہ ہونے کے برابرہے حالانکہ وہاں بھی مذہبی بنیاد پرست قوتیں ہی حاوی ہیں۔ اس کے علاوہ اقتدار میں آنے کے بعد سے جو بحران زدہ حالات بنے ہیں ان میں طالبان کی پشتون علاقوں میں بھی حمایت میں تیزی سے کمی آئی ہے اور ان کے خلاف عوامی غم و غصہ اور نفرت شدید ہوتا جارہا ہے۔ اس نفرت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طالبان کو پاکستانی ریاست کی کٹھ پتلی سمجھا جاتا ہے جبکہ طالبان اس تاثر کو تبدیل کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔

سیاسی بحران

افغانستان میں طالبان کی موجودہ قبضہ گیر حکومت گوکہ 90ء کی دہائی سے کافی حد تک مختلف ہے مگر طالبان کی کوشش ہے کہ وہ اپنی رِٹ کو قائم رکھنے کے لیے جبر کی ہر حد تک جائیں۔ کچھ دن پہلے قندھار میں طالبان کی سپریم کونسل کا اجلاس ہوا جس کے بعد چند ایسے اندوہناک اور جبری اقدامات جن کا پہلے ذکر ہوا، لاگو کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان اس صورت حال میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں افغانستان کے اندرونی اور بیرونی دونوں حالات کو سمجھنے سے ہم ایک مناسب نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں۔ طالبان کا عوام دشمن اقتداراس وقت عمومی طور دو محاذوں پر حملہ آورہے جن کا تفصیل سے ذکر کرنا ضروری ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان میں قبضہ گیر طالبان کو اندرونی طور پر دوطرح کے اختلافات کا سامنا ہے۔ سب سے پہلا اور اہم چیلنج اس وقت افغان عوام ہیں جو کہ اب 90ء کی دہائی والے نہیں رہے، بلکہ ہر حوالے سے ترقی کر چکے ہیں۔ افغان عوام میں طالبان کی کوئی سنجیدہ بنیادیں نہیں ہیں، بلکہ جو بھی بنیادیں موجود ہیں وہ محض خوف کی حد تک ہیں۔ جبکہ دوسری جانب افغان عوام کے جیتے جاگتے مسائل ہیں جن کو حل کرنے کے لیے طالبان کے پاس دینے کو کچھ نہیں سوائے جبر کے۔ جو سخت اقدامات لیے گئے ہیں ان کے دیگر بنیادی عوامل میں سے ایک عامل یہ بھی ہے کہ لوگوں کو اگر تھوڑی بہت جمہوری آزادیاں دے دی گئیں تو یہ مظلوم عوام کل کو اپنی دیگر ضروریات کے لئے بھی سڑکوں پر آسکتے ہیں۔ لہٰذا سماج کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے افغان عوام پر ظلم اورجبر کرنا طالبان کی ضرورتبن چکا ہے۔ مگر اس جبر کے نتیجے میں سماج وقتی طور پر خاموشی کا شکار ہو سکتا ہے لیکن جلد یا بدیر ایک دیوہیکل بغاوت ضرورپھوٹے گی۔ شدید ترین معاشی بحران کے نتیجے میں عام لوگوں کے معیار زندگی تباہ و برباد ہو جانے اور بنیادی ضروریات کے فقدان کی وجہ سے بھی خوفناک غم و غصہ پورے سماج میں موجود ہے۔ اس بحران کا حل سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے طالبان تو دور کی بات ہے طالبان کے آقا بھی حل کرنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔ لہٰذا مستقبل قریب میں یہ امکانات موجود ہیں کہ ایک دیوہیکل عوامی بغاوت جنم لے۔

طالبان کی جانب سے 90ء کی دہائی کی طرف لوٹنے والے فیصلہ جات یا اقدامات کے پیچھے طالبان کے اندرونی اختلافات بھی ہیں اور وہ آپسی لڑائیوں میں ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں۔ طالبان کے اندر بہت زیادہ گروہ بندی موجود ہے اور علاقائی اور قومی بنیادوں سے لے کر لوٹ کے مال پر مختلف لڑائیاں ہو رہی ہیں لیکن اس وقت تین قسم کے اہم گروہ موجود ہیں۔ ایک گروہ طالبان کے پرانے اور بوسیدہ سوچ کے مالک (جنہیں سخت گیر مؤقف رکھنے والے بھی کہہ سکتے ہیں) لوگوں پر مشتمل ہے۔ دوسرا گروہ طالبان میں موجود نرم مؤقف رکھنے والوں کا ہے جن کو مغرب نے نام نہاد مذاکراتی عمل کے دوران کافی حد تک ٹرین کیا ہے۔ جبکہ تیسرا اور اہم مخالف گروہ اس وقت حقانی نیٹ ورک ہے۔ ان تینوں مختلف گروہوں کے درمیان قبضہ گیری کے عمل کو طول دینے اور اقتدار کی ہوس کے لیے ایسے اقدامات کی نوبت آ رہی ہے جن کو عوام میں کوئی پذیرائی نہیں مل رہی۔ بلکہ ان تمام تر اقدامات کی شدت سے مخالفت دیکھنے کو مل رہی ہے، جس سے طالبان کا اقتدار پر قبضہ کمزور ہوتا جارہا ہے۔ بالخصوص خواتین کے حوالے سے جو ذلت آمیز رویہ اختیار کیا جا رہا ہے اس پر پہلے بھی کافی احتجاج ہوئے ہیں اور آئندہ بھی ہو سکتے ہیں۔

پچھلے سات مہینوں سے طالبان مختلف فورمز پر انٹرنیشنل کمیونٹی سے مختلف موضوعات پر ملاقاتیں اور کانفرنسز کر چکے ہیں، مگر ان ملاقاتوں اور کانفرنسز کے باوجود انہیں تاحال تسلیم نہیں کیا گیا۔ نام نہاد انٹرنیشنل کمیونٹی طالبان سے اپنی شرائط منوانا چاہتی ہے جن میں خواتین کے حقوق کی پاسداری اور افغانستان کی تمام قومیتوں پر مشتمل عبوری حکومت اور پھر انتخابات کا انعقاد شامل ہے۔ ان شرائط پر طالبان کی طرف سے انکار، بالخصوص خواتین کے حقوق کے حوالے سے محض اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ طالبان کے اندر اختلافات موجود ہیں اور اس دوران وہ اگر وہ مغربی لبرل سامراجی طاقتوں کی ہدایات کو تسلیم کرتے ہیں تو طالبان کی داخلی لڑائی مزید خونریزی اور شدت اختیار کر جائے گی۔ فی الوقت طالبان ایسا کوئی رسک نہیں لینا چاہ رہے جس سے ان کا اقتدار خطرے میں پڑے اور داخلی لڑائی کھل کر شروع ہو جائے۔

سامراجی طاقتوں سے اپنی حکومت تسلیم کروانے کی بھیک

کابل پر قبضہ کرنے والے طالبان کے موجودہ گروہ کا سب سے بڑا مسئلہ عالمی سطح پر تسلیم نہ کیا جانا ہے۔ اس ضمن میں طالبان کا موجودہ نیم آقا پاکستان بھی اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکامی سے دوچار ہوچکا ہے۔ پاکستانی ریاست کے موجودہ حالات کو بین الاقوامی صورتحال کے ساتھ جوڑنا بہت اہم ہے۔ اس ضمن میں طالبان اور پاکستان کے درمیان کشمکش کی نئی صورتحال پر بحث کرنا ناگزیر طور پر اس نئی صورتحال کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ طالبان اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے ہم پہلے بھی واضح کر چکے تھے کہ طالبان کے برسراقتدار آتے ہی وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات اس طرح برقرار نہیں رکھ سکیں گے جس طرح پہلے تھے۔ یہ بات واضح ہے کہ پاکستان اور طالبان کے درمیان تعلقات میں ابتری کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب ریاست پاکستان نے امریکی سامراج اور ان کے حواریوں سمیت طالبان کے ساتھ بھی ڈبل گیم کھیلنا شروع کی تھی۔ جس میں طالبان کے کئی سربراہوں کو قید کیا گیا اور کئی کو گوانتاناموبے جیل بھیج دیا گیا۔ مگر طالبان کے پاس پاکستانی ریاست کے علاوہ کوئی متبادل نہیں تھا جسے وہ افغانستان میں استعمال کر سکیں۔ تاریخی طور پر اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے اندر طالبان کی تمام اوپری قیادت کے خاندان، جائیدادیں اور کاروباری سرگرمیاں موجود رہی ہیں، جن میں حقانی نیٹ ورک سرفہرست ہے۔ بہر حال پاکستانی ریاست طالبان پر اپنا کنٹرول اس طرح سے برقرار نہیں رکھ پائی جس طرح ان کی خواہش تھی۔ ان تعلقات میں معیاری تبدیلی طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد آئی۔ اس کا اظہار بارڈر پر ہونے والی چپقلشوں میں ہو رہا ہے۔ اس میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی گروہی لڑائی کا بھی انتہائی اہم کردار ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ میں موجود دھڑے بھی اپنے مفادات کے تحت افغانستان کے حوالے سے نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ ایک دھڑے کی خواہش ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان کوئی باڑ نہ ہو، تاکہ افغانستان پانچویں صوبے کی مانند ہو اور دہشت گردی و دیگر تزویراتی گہرائی کی پالیسیوں کے لئے انہیں کسی رکاوٹ کا سامنا نہ ہو۔ جبکہ دوسرا دھڑا باڑ کی مکمل تعمیر چاہتا ہے تا کہ ان دہشت گردوں کا آنا جانا بند ہو۔ بلکہ وہ اس باڑ کے ذریعے ڈیورنڈ لائن کی سامراجی لکیر کو انٹرنیشنل بارڈر میں تبدیل کرنے کے متمنی ہیں جبکہ ساتھ ہی وہ افغانستان میں مداخلت کرنے سے گریز کرتے ہوئے افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کا خواہشمند ہے۔

طالبان کا پاکستان کے حوالے سے کیا مؤقف ہے اس کو بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ طالبان کو آج پاکستانی ریاست کی اتنی ضرورت نہیں رہی جتنی 90ء کی دہائی میں تھی۔ کیونکہ عالمی صورت حال کے تناظر میں خطے میں پاکستان آج وہ حیثیت نہیں رہی جو آج سے پانچ سال پہلے تھی۔ لہٰذا طالبان کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں یہ عنصر انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس بنیاد پر طالبان کو پاکستان کی نسبت خطے میں موجود دیگر ممالک سے تعلقات استوار کرنے میں اب کوئی مشکل درپیش نہیں۔ طالبان کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی سردمہری کے دوران پاکستان کی جانب سے بھی چند ایسے اقدامات دیکھنے کو ملے۔ مثلاً پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے نئے چیف کی ترکی میں طالبان مخالف شمالی اتحاد سے ملاقات ہوئی جسے بی بی سی فارسی نے رپورٹ کیا۔ مگر اس پر بھی دونوں اطراف سے اب تک خاموشی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان اور طالبان کے تعلقات میں ابتری کے حوالے سے ایک اہم عنصر حقانی نیٹ ورک کا بھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک بلاشبہ پاکستان کے زیر دست ایک دہشت گرد پراکسی ہے۔ طالبان کے ساتھ موجودہ قبضہ گیر حکومت میں حقانی نیٹ ورک برابر طور پر حصہ دار ہے۔ حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے درمیان اس وقت اندرونی اختلافات موجود ہیں اور ان اختلافات میں بہت سارے محرک کارفرما ہیں۔

طالبان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی سردمہری میں دو اور اہم عوامل ٹی ٹی پی اور بلوچ مسلح جدوجہد ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے تو طالبان کا مؤقف واضح ہے کہ ہم ٹی ٹی پی کے خلاف فی الحال کوئی کاروائی نہیں کر سکتے کیونکہ یہ امریکی سامراج کے خلاف جنگ میں ہمارے ساتھ تھے اور اب جب ہم برسراقتدار ہیں تو اگر ان کو اقتدار میں حصہ نہیں دے سکتے، تو ان کے خلاف کارروائی بھی نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی کرنے سے طالبان کے اندر موجود اندرونی اختلافات کو مزید ہوا مل سکتی ہے۔ طالبان نے اپنی قبضے کے آغاز میں ٹی ٹی پی کے ساتھ پاکستانی ریاست کو مذاکرات کی ٹیبل پر لا کر بٹھانے میں اپنا کردار ادا کیا مگر وہ مذاکرات بھی ناکام رہے۔ ٹی ٹی پی درحقیقت ریاست کی مرضی و منشا سے پاکستان میں موجود رہی۔ اس وقت پاکستانی حکمران ڈالروں کے حصول کیلئے بھی انہیں استعمال کرتے رہے۔ اسی طرح اس انسان دشمن قوت کو عوامی بغاوت کو روکنے کی غرض سے خوف قائم کرنے کیلئے بھی قائم رکھا گیا۔ اگرچہ اس میں افغان طالبان کا بھی کلیدی کردار رہا ہے، جس میں ٹی ٹی پی کو پاکستانی حکمرانوں پر کاؤنٹر چیک رکھنے کیلئے تیار کیا گیا۔ بہر حال ضرورت سے زیادہ پھیل جانے کے بعد بالآخر پاکستانی حکمرانوں کو ٹی ٹی پی کے خلاف 2004ء میں فوجی آپریشن شروع کرنا پڑا۔ مگر طالبان کے کابل پر قابض ہونے کے بعد اس پراکسی کو ایک بار پھر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے، جس کی اب کوئی بھی عوامی بنیادیں نہیں ہیں۔ جبکہ بلوچ مسلح جہد کاروں کے حوالے سے اب تک دونوں اطراف سے کوئی آفیشل موقف سامنے نہیں آیا ہے، مگر طالبان مسلح بلوچ جہد کاروں کو بھی بارگیننگ چیپ کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ مختصراًطالبان اور پاکستان کے تعلقات میں یہ مذکورہ اہم عوامل کار فرما ہیں جن کی بنیاد پر تعلقات کو دوبارہ استوار کرنے میں انہیں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

1996ء میں جب طالبان نے کابل پر قبضہ کرلیا تو پاکستان نے بغیر چوں وچراں کے اسے تسلیم کر لیا تھا مگر اس بار طالبان گزشتہ دور کی نسبت زیادہ بڑے پیمانے پر تقریباً پورے افغانستان پر قابض ہیں، مگر اس کے باوجود پاکستانی ریاست انہیں تسلیم کرنے سے کیوں کترا رہی ہے؟ اس سوال کا جواب ہم نے پہلے بھی لکھا ہے کہ خطے اور عالمی صورتحال کی تبدیلی کے ساتھ پاکستان کا کردار اب کافی حد تک محدود ہو چکا ہے اور اب خطے میں 90ء کی دہائی والے کردار سے کافی حد تک محروم ہو چکا ہے۔ اب بالخصوص انڈیا، چین اور ایران کے ساتھ طالبان کے تعلقات میں ایک نئی شفٹ آرہی ہے۔ ایران اور انڈیا میں طالبان کے حوالے سے اپنی پرانی روش کو تبدیل کرنے سے متعلق ایک سنجیدہ بحث موجود ہے۔ جس طرح انڈیا نے 50 ہزار ٹن گندم امدادی پیکج کے طور پر بھیج دی جبکہ طالبان نے انڈیا کو اپنے معطل شدہ پروجیکٹس پر دوبارہ کام شروع کرنے کے حوالے سے دعوت بھی دی۔ ایران کے ساتھ بھی طالبان کی ڈپلومیسی چل رہی ہے۔ رواں سال فروری کے مہینے میں طالبان نے ایران کا دورہ کیا تھا جس میں طالبان کے ساتھ تعلقات کو نئی شکل دینے اور ایرانی سربراہی میں شمالی اتحاد کے ساتھ بھی مذاکرات کرائے گئے جس میں ایران کی جانب سے سابق افغان نائب صدر امراللہ صالح کی موجودگی کو بھی ممکن بنانے کی بات سامنے آئی تھی۔

مگر یہ بات واضح ہے کہ افغانستان کے مظلوم عوام کو سامراجی ممالک نے اس نہج پر لا کر چھوڑ دیا جہاں اب وہ پتھر کے زمانے میں دھکیلے جا رہے ہیں۔ امریکی سامراج اور ان کے حواریوں کے بغیر چین اور دیگر ممالک افغانستان کو نہ صرف یہ کہ اپنے سامراجی عزائم کے لئے استعمال کریں گے بلکہ وہ افغانستان کے خرچوں کو برداشت ہی نہیں کر سکتے۔ کیونکہ امریکی سامراج کا انخلاء درحقیقت اس کی معاشی کمزوری تھی اور ایسے میں چین گوکہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے مگر وہ امریکہ سے کئی گنا پیچھے ہے۔ پاکستان کے حوالے سے چین کی محدودیت کا کھل کا اظہار ہوا جب پاکستان کو دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا اور طالبان کے پاس بھی چین و دیگر ممالک سے امداد لے کر افغانستان کو جمہوری طریقے سے چلانے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ اس وجہ سے طالبان کے پاس مظلوم عوام کو دینے کے لیے جبر، بربریت، وحشت اور ظلم کے علاوہ کچھ نہیں۔

تناظر

یہ بات واضح ہے کہ طالبان کیلئے افغانستان میں بدستور اپنی نام نہاد امارت اسلامی کی بنیاد پر حکومت کرنا بہت مشکل ہے اور اس مشکل کے پیچھے بہت سے عوامل کار فرما ہیں جن کا ہم مفصل ذکر بھی کر چکے ہیں۔ طالبان کے لڑکھڑاتے اور کمزور اقتدار میں اس موجودہ نظام کی عالمی سطح پر اور پورے خطے میں زوال پذیری بھی ایک اہم عنصر کے طور پر شامل ہے۔ کیونکہ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام اپنے نامیاتی بحران کا شکار ہو چکا ہے اور آئے روز محنت کشوں کے استحصال میں اضافہ کرتا جا رہا ہے جبکہ ان سے تمام تر بنیادی ضروریات چھین رہا ہے۔ افغانستان میں بھی اس وقت پوری دنیا کی طرح سرمایہ دارانہ نظام کے رشتے پیوست ہیں، گوکہ ناہموار اور مشترکہ ترقی کے قانون کے مطابق موجود ہیں، مگر سرمایہ دارانہ نظام کی ہی بالادستی قائم ہے۔ طالبان کے پاس کوئی متبادل پروگرام شروع ہی سے موجود نہیں تھا او ر نہ ہی وہ اپنے نام نہاد امارت اسلامی میں سرمایہ دارانہ نظام کے برعکس کوئی اقتصادی نظام لے کر آئے ہیں۔ بلکہ بدستور نام نہاد سامراجی ممالک سے بھیک مانگنے پر تلے ہوئے ہیں، مگر اس بھیک مانگنے اور بھیک ملنے کے پیچھے بھی ایسی شرائط کارفرما ہیں جو طالبان اب تک قبول کرنے سے بدستور قاصر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے افغان عوام میں مزید ہیجان کی کیفیت اور بے چینی کا عنصر فروغ پائے گا۔ نام نہاد بین الاقوامی خیراتی ادارے اور مختلف اقسام کی این جی اوز اس وقت افغانستان میں فعال ہیں جو لوگوں سے اس نظام کی غلاظت کو چھپانے کے لئے، اور بالواسطہ طالبان کی قبضہ گیر حکومت کو دوام دینے کی کوشش کر رہیہیں۔ حال ہی میں وال سٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان اب ان خیراتی اداروں اور این جی اوز پر اپنے زیر نگرانی کام کرنے کے لئے دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ رپورٹ میں یہ ذکر بھی موجود ہے کہ طالبان ان اداروں کے کام کے ساتھ ساتھ ان میں کام کرنے والے افغان باشندوں کی بھی جانچ پڑتال کریں گے۔ ان اداروں کو اپنے زیراثر لانے کے بعد طالبان عوام کو یہ باور کرائیں گے کہ ہم آپ لوگوں کے لئے بہت کچھ کر رہے ہیں، مگر عوام یہ جانتے ہیں کہ خیراتی اداروں سے کوئی بھی ملک نہیں چلتا بلکہ ایک ملک کو چلانے کے لیے منظم معیشت کی ضرورت ہوتی ہے جس کا طالبان کے پاس کوئی پروگرام نہیں۔

جہاں ایک طرف عالمی سطح پر طالبان کو تسلیم نہیں کیا جارہا وہیں دوسری طرف امریکی سامراج اور ان کے حواری ممالک میں محنت کش طبقے کے اندر شدید غم وغصہ بھی موجود ہے جو ان سامراجی ممالک کے لیے شدید بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ روس-یوکرائن تنازعہ پر ہم نے پوری دنیا میں محنت کش طبقے کا ردعمل دیکھا جس سے یہ معلوم ہوا کہ اس وقت عالمی طور پر محنت کش طبقہ جنگ اور بربریت کے خلاف ہے۔ حالیہ روس-یوکرائن تنازع میں سروے کیا گیا تھا جس میں صرف امریکہ کے اندر 63 فیصد کے قریب عوام نے جنگ کی مخالفت کی تھی اور یورپ کے دیگر ممالک میں بھی جنگ مخالف مظاہرے کیے گئے تھے۔

طالبان کا اس بار اقتدار گو کہ عوامی شعور کے نقطہ نظر سے گزشتہ دور سے مختلف ہے مگر طالبان میں ایسے عناصر موجود ہیں جو کہ 90ء کی دہائی کے خمار میں ہیں۔ مگر 90ء کی دہائی والے اقدامات انہیں نہ صرف عوامی نقطہ نظر سے جلد بے دخل کر سکتے ہیں بلکہ طالبان کے اندرونی تضادات بھی اس ضمن میں ان کے اقتدارکو کمزور کریں گے جو افغانستان کو کسی بھی وقت خانہ جنگی کی کیفیت کی جانب دھکیل سکتے ہیں۔ مگر عوام کے پاس پچھلے 44 سالوں کا ایک طویل تجربہ موجود ہے اور وہ حتمی طور پر علم بغاوت بلند کریں گے۔ مگر اب وہ پرانے جنگجو سرداروں کی جھولی میں اپنا وزن نہیں ڈالیں گے، جس طرح انہوں نے پچھلے سال کیا۔ اس کے علاوہ انہیں یاد ہے کہ اگست 2021ء میں جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو یہی جنگجو سردار انہیں اکیلا چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ یہ نئی تحریک اپنی نئی لڑاکا قیادت بھی خود ہی تراشے گی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت افغانستان میں عوامی جدوجہد یا منظم سیاسی جدوجہد موجود نہیں ہیں۔ ایک بار پھر ہم کہتے ہیں کہ افغانستان کے مقدر کا فیصلہ خطے کی محنت کش تحریک کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یہ جڑت اب کئی حوالوں سے ممکن نظر آ رہی ہے۔ سب سے پہلے سرمایہ دارانہ نظام کی زوال پذیری جو اس خطے میں پاکستان، ایران اور دیگر ہمسایہ ممالک کے محنت کش عوام کو مارنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس سوال کے گرد اتحاد بن سکتا ہے۔ کیونکہ اس وقت افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک میں محنت کش طبقے کی تحریک کا آغاز ہونے جارہا ہے جس کی ریہرسل مختلف احتجاجی تحریکوں کی شکل میں جاری ہے۔ محنت کش طبقے کی آواز پر افغان عوام لبیک کہیں گے مگر شرط یہ ہے کہ اس محنت کش طبقے کی تحریک کی قیادت ایک انقلابی قوت کے پاس ہو، تبھی یہ خواب حقیقت میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ لیکن حتمی اور فیصلہ کن سوال انقلابی قیادت کی تیاری کا ہے۔

Comments are closed.