بڑھتا ہوا افراطِ زر اور سرمایہ داروں کے بے اثر حربے

|تحریر: ایلیساندرو گیاردیلو، ترجمہ: یار یوسفزئی|

کرونا وباء کے اثرات نے 2008ء میں شروع ہونے والے زائد پیداوار کے بحران کو شدید تر کر دیا ہے، جس کے باعث سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات میں بھی شدت آئی ہے۔ نتیجتاً، بڑے سامراجی ممالک کی پالیسیوں کے اندر بڑی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ آسٹیریٹی (حکومتی اخراجات میں کٹوتی اور ٹیکس میں اضافہ) کی معاشی پالیسی، جو پچھلے کچھ سالوں سے جاری تھی، کو عارضی طور پر روک دیا گیا ہے۔ موجودہ حالات کے تحت آسٹیریٹی کی پالیسیاں جاری رکھنا معاشی و سیاسی لحاظ سے عدم استحکام کا سبب بنتا۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

بورژوازی کی توجہ راتوں رات ریاستی اور سرکاری اخراجات پر مرکوز ہو گئی ہے۔ سرکاری پیسوں کو دیوہیکل مقدار میں لڑکھڑاتے ہوئے اس سرمایہ دارانہ نظام کو سنبھالنے کے لیے خرچ کیا جا رہا ہے، جس کی خونخوار فطرت اس سے پہلے اتنی زیادہ بے نقاب نہیں ہوئی۔ آج سرمایہ دارانہ نظام نا قابلِ برداشت مظالم کی تصویر کشی کر رہا ہے، جس کو پیداوار اور تقسیم کی شدید نا اہلیت نے مزید بد تر بنا دیا ہے۔

نام نہاد معاشی ’ماہرین‘ محض الجھن کا ہی شکار نہیں، بلکہ وہ حقیقی معنوں میں اندھیرے میں تیر چلا رہے ہیں۔ حالیہ عرصے میں عالمی سطح پر سرمائے کے نمائندگان کی جانب سے لیے گئے فیصلے اس بات کا ثبوت ہیں۔

بحران کی گہرائی کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمام اقدامات جو کبھی حکمران طبقے کو معقول معلوم ہوتے تھے، اب اپنا اثر کھو بیٹھے ہیں۔ ہم دھوکوں اور فریبوں کے نئے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ آج ان کی جانب سے پیش کیے جانے والے ”حل“ انتہائی غیر معقول ہیں۔ وہ خیالی دنیا میں تو لاگو کیے جا سکتے ہیں مگر حقیقی دنیا میں نہیں۔

بائیڈن کا منصوبہ

بائیڈن کا بڑے پیمانے پر اخراجات کا منصوبہ اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ یہ کم از کم پچھلے چالیس سالوں کے اندر کینشین پالیسیوں کو بڑے پیمانے پر نافذ کرنے کی پہلی کوشش ہے۔ فنانشل لیوریج (قرض کے ذریعے اثاثے خریدنا) کا استعمال اور مرکزی بینکوں کا مقداری آسانی کے ذریعے پیسے چھاپنا الگ چیز ہے، جو پچھلے دس سالوں کے دوران دیکھنے کو ملا ہے۔ البتہ اس پیسے کے ذریعے محنت کش طبقے اور پیٹی بورژوازی کو نسبتاً رعایتیں فراہم کرنا بالکل مختلف چیز ہے، جو بائیڈن کا منصوبہ ہے۔

Biden Image Adam Schultz

بائیڈن کا منصوبہ پچھلے 40 سال کا سب سے بڑا کینشین تجربہ ہے۔

کافی واضح ہے کہ یہ عارضی اقدامات ہیں، جن کو لمبے عرصے کے لیے بالکل جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس منصوبے کو کامل انداز میں لاگو کیا جائے گا یا نہیں، خصوصاً دولت کی تقسیم کے حوالے سے پیش کیے گئے نکات کو۔ بہرحال، ابھی سے اس اعلان کے گہرے سیاسی اثرات مرتب ہونا شروع ہو چکے ہیں۔

کیا اصلاح پسندی اور سماجی امن کا ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے، جیسا کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد دیکھا گیا تھا؟ اس بات کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ آج کے حالات مکمل طور پر مختلف ہیں۔ ماضی کے اندر جنگ نے، پیداواری قوتوں اور زائد سرمائے کو براہِ راست تباہ کرتے ہوئے، سرمایہ دارانہ جمود کے عہد کا خاتمہ کر کے سرمایہ دارانہ توسیع کے لیے نئے سرے سے راہ ہموار کرنے میں کردار ادا کیا تھا۔ اس کے برعکس، آج کے معاشی منظر نامے میں بڑھتی ہوئی ریاستی مداخلت فرضی سرمائے اور غیر استعمال شدہ پیداواری صلاحیت کے مسئلے کو مزید بگاڑنے کا باعث بنے گی۔ مستقبل میں معاشی ترقی کے کوئی امکانات نہیں؛ بلکہ بار بار بحالی اور بحران کا سلسلہ چلتا رہے گا، جو پیداوار میں گہرے انہدام، جیسا کہ کرونا وباء کی وجہ سے ہوا، کا منطقی اور فطری نتیجہ ہے۔

یہ کمیونسٹ اور سوشلسٹ کارکنان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل بات ہے کہ ان پالیسیوں کے جو اثرات مزدور تحریک کی افسر شاہی، اور امریکی اور عالمی آبادی کی سوچ کے اوپر مرتب ہو رہے ہیں، ان سے الجھن کا شکار نہ ہوں۔

لولا دا سِلوا، جو ممکنہ طور پر برازیل کے اگلے صدارتی انتخابات میں ورکرز پارٹی کا نمائندہ ہوگا، کا بائیڈن کے منصوبے کے حوالے سے کہنا تھا کہ یہ ”دنیا کے لیے جمہوریت کی لہر ہے“۔ امریکی ریاست کے ریپبلکنز اس سے بھی دو قدم آگے چل دیے۔ انہوں نے بائیڈن کے منصوبے کو ”سوشلزم کی جانب موڑ“ قرار دیا۔ کانگریس کے اندر، بائیڈن نے خود اپنی تجویز کو ”امریکہ کو تعمیر کرنے کا محنت کشوں کیلئے خصوصی منصوبہ“ قرار دیا۔ البتہ حقیقت اس سے یکسر مختلف ہے۔

Inflation Image In defence of Marxism

بحران کے حالیہ عرصے میں سرمایہ داروں کی جانب سے لیے گئے اقدامات کے نتیجے میں اس وقت عالمی قرضہ جی ڈی پی کے 350 فیصد پر پہنچ چکا ہے۔

دوسری جنگِ عظیم کے بعد کینشین پالیسیاں لاگو کرنا ایک الگ چیز تھی، جو بے مثال معاشی بحالی کے حالات میں کیا گیا۔ آج کے دور میں کم شرحِ سود پر پیسوں کا بہاؤ کافی مختلف چیز ہے، ایک ایسے وقت میں جب امریکی ریاست کا وفاقی قرضہ حد سے تجاوز کر گیا ہے۔ ٹرمپ کی صدارت کے دوران، حکومتی خسارے میں محض چار سال کے اندر 7 ٹریلین ڈالر اضافہ ہوا، جو مجموعی طور پر 21.6 ٹریلین کو پہنچ گیا، یعنی جی ڈی پی کے 100 فیصد سے زیادہ۔ ریاستی قرض کے معاملے میں امریکی معیشت اب یونان اور اٹلی کے برابر آ چکی ہے۔

مزید برآں، مجموعی عالمی قرض (یعنی گھریلو، کارپوریٹ اور ریاستی قرض) اب عالمی جی ڈی پی کے 350 فیصد سے زائد پر کھڑا ہے۔ حتیٰ کہ چین جیسے ممالک، جن کی معیشت ظاہری طور پر زیادہ ثابت قدم محسوس ہوتی ہے، نے چند سالوں کے مختصر عرصے میں اتنا قرضہ لیا ہے جو تاریخی سامراجی ممالک نے تیس سال کے عرصے میں لیا تھا۔

ان پالیسیوں کی محرک مکمل نا امیدی ہے۔ بہرحال، ان میں اپنا اندرونی منطق پایا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ حکمران طبقے کی جانب سے سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات پر قابو پانے کی ایک کوشش ہے مگر مستقبل میں اس کے نتائج ان تضادات کو مزید شدید کرنے کی صورت میں نکلیں گے۔ جس کے نتیجے میں اس بات کے بے تحاشہ امکانات موجود ہیں کہ صورت حال مکمل طور پر قابو سے باہر ہو جائے۔

کیا افراطِ زر لوٹ آیا ہے؟

حکمران طبقے کے سنجیدہ نمائندگان کو حالات کا ادراک ہو رہا ہے۔ مائیکل بَری، جس نے (2008ء کے بحران کے لیے راہ ہموار کرنے والے) 2007ء کے نام نہاد سب پرائم مارٹگیج بحران کی پیش گوئی کی تھی (اور جس نے بڑے پیمانے پر اس سے ذاتی منافع کمایا تھا)، آج دعویٰ کر رہا ہے کہ ”بالکل وایمار (1920ء کی دہائی کی جرمن ریاست) کے طرز پر دیوہیکل افراطِ زر“ پروان چڑھ رہا ہے۔ بَری اگرچہ مبالغہ آرائی کرتا رہتا ہے، مگر یہ قابلِ غور بات ہے کہ حکمران طبقے کے دوسرے نمائندوں میں بھی اس قسم کے خیالات پائے جا رہے ہیں۔ مائیکل ہارٹنیٹ، سرمایہ کاری کے حوالے سے بینک آف امریکہ کے چیف مدبّر نے ’بزنس انسائیڈر اٹالیا‘ کی ایک حالیہ رپورٹ میں ”امریکی ریاست میں آنے والے افراطِ زر کی حرکیات، سرکاری خزانوں پر قرض کا بوجھ، وباء کے حوالے سے وفاقی سٹیمولس پیکج اور فیڈرل ریزرو کی ماہانہ خریداری“ پر تشویش کا اظہار کیا۔ ہارٹنیٹ بھی بَری کے اخذ شدہ نتائج پر پہنچا، جس کا کہنا تھا کہ جرمنی کے دور میں جو کچھ ہوا وہ ”جنگ کے بعد خرید و فروخت میں کمی، اور کرنسی اور انتظامیہ کے اوپر اعتماد میں کمی کی وجہ سے بہت بڑے پیمانے پر افراطِ زر کے ابھار“ کا اظہار تھا۔

منڈی میں پریشانی کی لہر کو روکنے کے لیے بائیڈن کی وزیرِ خزانہ جینیٹ ییلن نے اس مسئلے کو معمولی ظاہر کرتے ہوئے مئی کے مہینے میں کہا تھا: ”ہو سکتا ہے کہ افراطِ زر کی بڑھوتری روکنے کے لیے شرحِ سود میں کسی حد تک اضافہ کرنا پڑے“۔ البتہ، محض چند گھنٹے بعد ہی اس نے اپنے اس بیان کے متضاد بیان دیتے ہوئے کہا کہ اس کے نزدیک ”افراطِ زر کا مسئلہ“ موجود نہیں۔

دیگر معاشی تجزیہ نگاروں نے ییلن کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔ البتہ، امریکی ریاست میں مارچ، اپریل اور مئی کے مہینوں میں افراطِ زر کے اندر (بالترتیب 2.6، 4.2 اور 5 فیصد) اضافے کی وجہ سے اب اس حوالے سے پریشانی پائی جانے لگی ہے، اور عالمی سطح پر بھی یہی حالات ہے (خصوصاً جرمنی میں)۔

در حقیقت، فیڈرل ریزرو بینک نے افراطِ زر کے مطابق اپنا پرانا مؤقف تبدیل کر دیا ہے۔ افراطِ زر کو 2 فیصد سے کم رکھنے کی حکمتِ عملی، جس کا پچھلے کچھ سالوں سے ورد کیا جا رہا تھا، کو اب ترک کر دیا گیا ہے اور فیڈرل ریزرو بینک اب اس سطح سے ”تھوڑا زیادہ بڑھ جانے کو برداشت کرنے“ کی توقع کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاویل (فیڈرل ریزرو کا سربراہ) شرحِ سود کو کم رکھنے اور ہر مہینے 120 ارب ڈالر کے ”جنک بانڈز“ (جس میں نقصان کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے) کی خریداری جاری رکھنے کا پختہ ارادہ رکھتا ہے۔ اس سے افراطِ زر میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملے گا، جبکہ یہ سنجیدہ خدشہ موجود رہے گا کہ فیڈرل ریزرو قیمتوں میں اضافے پر ردعمل تب ہی دے گا جب صورتحال قابو سے باہر ہو گی۔

بائیڈن کے منصوبے سے مزید 6 ٹریلین ڈالر گردش میں آ جائیں گے، جس میں 2 ٹریلین ڈالر لاک ڈاؤن کے پیشِ نظر معاشی امداد، 2.2 ٹریلین ڈالر انفراسٹرکچر، اور 1.8 ٹریلین ڈالر خاندانوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار یورپی یونین کی جانب سے بحالی کے لیے تجویز کردہ منصوبے سے سات گنا بڑھ کر ہیں۔ کرونا لاک ڈاؤن کے باعث ”جمع شدہ“ مانگ کے حرکت میں آنے سے بھی اس صورتحال میں مزید بگاڑ آئے گا۔

امریکی آبادی، جو روایتی طور پر کفایت شعاری کے حوالے سے برے واقع ہوئے ہیں، نے پچھلے سال میں کرونا کی پابندیوں کے باعث 1.8 ٹریلین ڈالر ذخیرہ کیا ہے۔ اب جبکہ لاک ڈاؤن کی پابندیاں ختم کی جا رہی ہیں، معیشت میں 8 ٹریلین ڈالر کی مانگ شامل ہو رہی ہے۔ یورپ کے اندر بھی یہی کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ مثال کے طور پر اٹلی میں، گھریلو بچت 1980ء کی دہائی کے مقابلے میں 29 فیصد سے کم ہو کر 2019ء میں 8 فیصد تک گر چکی تھی۔ مگر پچھلے سال کے اندر یہ 15 فیصد تک پہنچ گئی۔ یہ سب یقینی طور پر افراطِ زر میں اضافے کا سبب بنے گا۔ اس حوالے سے بے شمار عناصر متحرک ہیں۔ البتہ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اس میں بہت بڑے پیمانے پر اضافہ آئے گا۔

وباء کے نتیجے میں منڈی کے اندر سپلائی میں خلل پڑ جانے سے اشیاء کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ بلومبرگ کموڈیٹی انڈیکس اپریل 2020ء کے اواخر میں 60.24 کی کم سطح سے بڑھ کر اپریل 2021ء کے اواخر میں 90.36 تک پہنچ گیا۔ مختلف ممالک کی ذخیرہ اندوزی معدنیات کی قلت کو شدید کر رہی ہے، جیسا کہ چین، جو اب مستقبل میں سپلائی کی قلت کے باعث پیداواری عمل میں آنے والی رکاوٹوں کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ، سیمی کنڈکٹر مواد (جو برقی آلات تیار کرنے میں کام آتے ہیں) کی بھی قلت پائی جا رہی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس سے رخصتی نے تحفظاتی پالیسیاں ختم نہیں کیں۔ اس کے برعکس، وہ دنیا بھر میں شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں، جہاں سیارے کے ہر کونے میں ٹیرف (درآمدات و برآمدات کے ٹیکس) کو بڑھایا جا رہا ہے۔ امریکہ کا بڑا تصادم چین سے ہے۔ مگر ہر جگہ پر لاک ڈاؤن، اور ممالک اور کسٹم ڈیوٹیز کے بیچ جھڑپوں کی وجہ سے عالمی تجارت بحران کا شکار ہو رہی ہے (یہی صورتحال کم از کم 2009ء سے جاری ہے)۔ نام نہاد ”عالمگیریت“ اب ماضی کی دھندلی یاد بن چکی ہے۔

قومی ریاست کی واپسی

جیسا کہ لینن نے اپنی کتاب ’سامراج: سرمایہ داری کی انتہائی منزل‘ میں پیش گوئی کی تھی کہ اس قسم کی صورتحال میں قومی ریاست کے معاشی کردار کو مضبوط کرنے کا عمومی رجحان پایا جاتا ہے۔ اس سے ایک دفعہ پھر نیو کاؤتسکائیت (کارل کاؤتسکی سے منسوب) خیالات کے کھوکھلے پن کا اظہار ہوتا ہے، جو ”عالمگیریت“ کے سالوں کے دوران انتونیو نیگری اور مائیکل ہارت جیسے کچھ اصلاح پسندوں اور سابقہ مزدور دوستوں میں مقبول ہوئے تھے۔

مرکزی سامراجی تصادم امریکی ریاست اور چین کے درمیان ہے۔ یورپی یونین تیسری پارٹی کا کردار ادا کر رہی ہے، جو دو مرکزی حریفوں کے بیچ خود کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ البتہ، قوی امکانات یہ ہیں کہ یورپی یونین ان دونوں کے درمیان کچلی جائے گی۔

یہ جھڑپ ہر ایک ریاست کے اندر طاقت کی مرکزیت کی ایک وجہ بن کر سامنے آ رہی ہے۔ ’دی اکانومسٹ‘ وضاحت کرتا ہے کہ ”وباء کے دوران خاص کر مرکزی بینکوں اور وزارتِ خزانہ کے بیچ تعلقات مضبوط ہوئے ہیں“، اور دنیا کے بہت سے خطوں میں مرکزی بینک کا آزادانہ کردار ختم ہونے کی طرف گیا ہے۔ ریاستی مشینریاں آپسی تفریقات پسِ پشت ڈال کر اجتماعی فیصلے لے رہی ہیں اور منصوبہ بند پالیسیاں اپنا رہی ہیں، جیسا کہ تاریخی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے تمام مشکل مراحل میں ہوتا رہا ہے۔

اس نسبتاً نئے عمل کے ساتھ دیگر طویل مدتی عوامل بھی شامل ہوئے ہیں۔ حالیہ برسوں میں، کئی لوگ حیرت میں مبتلا ہوئے کہ مقداری آسانی کی پالیسیاں، جس سے بڑے پیمانے پر زر کے ذخیرے میں اضافہ ہوا، افراطِ زر کا سبب کیوں نہیں بنیں؟

حقیقت یہ ہے کہ بیک وقت کئی ”متضاد“ عناصر بھی مخالف سمت میں وقوع پذیر ہوتے رہے۔ جو عناصر ماضی کے اندر قیمتوں میں کمی کی وجہ بنتے رہے ہیں، ان میں عالمی تجارت کی بڑھوتری سمیت نئی ٹیکنالوجی (انٹرنیٹ، سائبر نیٹکس، آرٹیفیشل انٹیلی جینس وغیرہ) اور نام نہاد ”تیسری دنیا“ کے ممالک میں میّسر سستی محنت شامل تھے۔ البتہ، 30 سالوں تک طاقتور کردار نبھانے کے بعد حالیہ عرصے میں ان عناصر کے اثرات میں کمی آئی ہے۔ نئی ٹیکنالوجی متعارف کروانے کا عمل، جو پیداوری قیمتوں میں بڑے پیمانے پر کمی لانے کا باعث بنا تھا، مزید اس طرح سے چلنے کے قابل نہیں رہا۔ برازیل، چین یا ترکی جیسے ممالک کے اندر اجرتوں میں مسلسل بڑھوتری اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ آج ساؤ پاؤلو یا گوانگڈونگ میں کام کرنے والے محنت کش اور جنوبی اٹلی کے کارخانوں، یا یونان، پرتگال یا سپین کے محنت کشوں کی تنخواہوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں رہا۔

Lenin Image public domain

جیسا کہ لینن نے اپنی کتاب ’سامراج: سرمایہ داری کی انتہائی منزل‘ میں پیش گوئی کی تھی کہ اس قسم کی صورتحال میں قومی ریاست کے معاشی کردار کو مضبوط کرنے کا عمومی رجحان پایا جاتا ہے۔ یہی کچھ آج ہم ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔

یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ عالمی تجارت کے تمام اعداد و شمار میں ’ری شورنگ‘ کا رجحان نمایاں ہے؛ یعنی بیرونِ ملک منتقل کی جانی والی پیداوار کی اپنے ملک کی سرحدوں میں دوبارہ واپسی۔ اس قسم کے رجحان کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کی حکمتِ عملیوں کے ذریعے عمل میں لایا جاتا رہا ہے، البتہ اس کو ٹرمپ اور دیگر سامراجی حکومتوں کی تحفظاتی پالیسیوں نے بھی پروان چڑھانے میں مدد کی ہے۔

بہرحال، 2008ء کے بحران کے بعد شروع کی جانے والی مقداری آسانی آسٹیریٹی کا شکار ریاستوں میں پیسوں کی بڑھوتری کا اظہار تھا اور آج کی پالیسیوں کی نسبت اس کا کردار کافی مختلف تھا۔ پرانی پالیسی کا بنیادی مقصد سرمائے کا تحفظ تھا۔ جو بینک، انشورنس کمپنیاں اور کاروبار دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچے ہوتے، پیسوں کے ذریعے ان کے سرمائے دوبارہ بحال ہو جایا کرتے تھے۔ اس پیسے کو منافع خوری کی غرض سے سٹاک ایکسچینج اور پراپرٹی کی خریداری میں بھی استعمال کیا جاتا۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ اس سارے عمل کے دوران عوام کی جانب سے خرید و فروخت میں کوئی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو نہیں ملا۔

پیسوں کی مقدار بڑھ جانے سے بنیادی طور پر سٹاک مارکیٹ کی رونق میں اضافہ ہوا۔ یعنی خوش فہمیوں کے بلبلوں میں غیر معمولی بڑھوتری ہوئی، جبکہ سٹاک اور رئیل اسٹیٹ کی قدر حقیقی معیشت سے بالکل بیگانہ ہو تی گئی۔ مگر اشیاء کی قیمتوں پر کچھ زیادہ اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ انہیں کساد بازاری اور آسٹیریٹی کی وجہ سے کم سطح پر برقرار رکھا گیا۔

آج صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔ یہ تمام نئے رجحانات افراطِ زر کی واپسی کی جانب اشارہ کر رہے ہیں، اور بہت سے انتہائی سنجیدہ مسائل درپیش ہیں، وہ مسائل جن کے بارے میں حکمران طبقے کی اولین صفوں میں بھی گفتگو جاری ہے۔

اگر افراطِ زر حکومتی بانڈز کی قدر سے تجاوز کر گیا تو کیا ہوگا؟ سب سے اہم بات یہ کہ اگر مرکزی بینکوں نے شرحِ سود بڑھا کر منڈی سے جنک بانڈز (پُر خطر بانڈز، جو ایسی کمپنیوں کی جانب سے جاری کیے جائیں جو دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں) خریدنے بند کر دیے تو کیا ہوگا؟

یہ بحث 23 مارچ 2020ء کو شروع ہوئی تھی، جب منڈیوں نے قیمتوں میں کمی کے حوالے سے پریشان ہونا چھوڑ دیا اور انہیں معلوم پڑا کہ افراطِ زر آنے والا ہے۔ اس دن فیڈرل ریزرو نے صارفین اور کاروباروں دونوں کے لیے لا محدود مالیاتی سٹیمولس دینے کا وعدہ کیا، اور ڈالر کی قدر گرنے لگی۔

قرض کی بہتات

بے تحاشا قرضوں کا مسئلہ ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔ اگرچہ 2015ء اور 2019ء کے درمیانے عرصے میں اس میں کچھ حد تک کمی آئی تھی البتہ اب یہ پوری شدت کے ساتھ سر اٹھا رہا ہے، نہ صرف امریکی ریاست کے اندر بلکہ یورپی یونین کے اندر بھی۔ ہم کریڈیٹ کرنچ (قرض کی دستیابی میں اچانک کمی) کے ایک نئے عرصے میں داخل ہو رہے ہیں، جہاں بعض بین الاقوامی بینک انتہائی مقروض ہیں، جن میں جرمن بینک، فرانسیسی بینک سوسیتے ژنرال اور کریدیت ایگریکول شامل ہیں۔ ان کے ساتھ اطالوی بینک بھی شامل ہیں جن کی حالت، کم از کم یورپی یونین میں، سب سے بد تر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں کمرشل بینک بہت بڑے پیمانے پر مقروض ہیں۔ آج بینکاری نظام کا بحران 2008-09ء کے لیہمن برادرز والے بحران سے کئی گنا زیادہ شدید ہوگا۔ یہ بڑے پیمانے پر مالیاتی اثاثہ جات کے بحران کا پہلا مرحلہ ثابت ہوگا۔ نتیجتاً، یہ ڈالر کی قوتِ خرید میں کمی لاتا رہے گا، جس کے استحکام کا انحصار امریکی منڈی کے اوپر اعتماد پر ہوتا ہے۔ مزید برآں، ڈالر کی قسمت خود سے منسلک تمام کرنسیوں کے مستقبل کا تعین کرے گی۔

یورپی یونین میں ”افراطِ زر کی پریشانی“ یورپی مرکزی بینک (ای سی بی) پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ اٹلی اور سپین کے حوالے سے دوبارہ نسبتاً سخت پالیسیاں نافذ کرنے کی جانب لوٹے۔ جرمن اخبار ’فرانکفورتر‘ نے ای سی بی سے اپیل کی کہ اپنا ”بے لوث سخی پن“ چھوڑ دے، یعنی ان دیوہیکل امدادی منصوبوں اور بحالی فنڈ کا خاتمہ کرے جس نے حالیہ برسوں میں یورپی یونین کو زندہ رکھا ہے۔ البتہ، ان آراء پر عمل درآمد کرنا مشکل ہے۔ اگر ایسا کیا گیا تو اس کا ناگزیر نتیجہ یورپی یونین کے ٹھوٹ پھوٹ اور تحلیل ہونے کی صورت میں نکلے گا، جس کی قیمت چکانے کے لیے جرمن بورژوازی فی الحال تیار نہیں ہے، خاص کر جب اسے چینی سرمائے کے خطرے کا سامنا کرنے کے لیے مدد درکار ہے۔

یورپ جس معاشی پالیسی کو اپنا رہا ہے، وہ در حقیقت کافی مخالف سمت کی جانب گامزن ہے۔ انفراسٹرکچر کے منصوبوں، قابلِ تجدید انرجی اور گرین اکانومی کو بڑے پیمانے پر امداد فراہم کرنے کے منصوبوں کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ حتیٰ کہ پیسے چھاپ کر انہیں براہِ راست شہریوں کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں، جیسا کہ بائیڈن نے کیا ہے۔

یہ اقدامات یقینا کینز سے بھی آگے کا قدم ہیں۔ کینشین ازم تصور کرتا ہے کہ ریاست بانڈز جاری کر کے قرض میں اضافہ کرے گا۔ آج جس حوالے سے بحث جاری ہے وہ اس سے آگے کی معیاری جست ہے؛ یعنی ’ماڈرن مانیٹری تھیوری‘ (ایم ایم ٹی) کی احمقانہ تجاویز پر عمل درآمد۔ جس کا مطلب ہے، پیسوں کو لا محدود طور پر چھاپنا۔

البتہ، اپنی تمام تر جنونیت کے باوجود، ان پالیسیوں کی اپنی منطق ہے۔ افراطِ زر اور قیمتوں میں اضافے کا مطلب ہے کہ سرکاری قرضوں میں کمی ہوگی۔ مثال کے طور پر محنت کشوں نے 70ء اور 80ء کی دہائیوں میں اپنی اجرتوں کے اضافے کے حوالے سے جو فتوحات حاصل کی تھیں، بورژوازی نے افراطِ زر کے ذریعے ان پر دوبارہ قابو پا لیا ہے۔ یہ وہ ہتھیار ہے جس کو ماضی میں استعمال کیا جاتا رہا ہے، اور، تمام امکانات کے مطابق، وہ اسے دوبارہ استعمال کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ دی اکانومسٹ نے اپنے ہفتہ وار جریدے کے سرِ ورق پر اس مضمون کا موضوع لکھا تھا جس میں وضاحت کی گئی تھی کہ حکومتیں اور مرکزی بینک افراطِ زر کو برداشت کرتے جا رہے ہیں۔ در حقیقت وہ بلا وجہ اسے برداشت نہیں کر رہے، بلکہ انہوں نے اسے اپنے تمام مسائل حل کرنے کا ذریعہ سمجھنا شروع کر دیا ہے۔

ایم ایم ٹی بھی قابلِ غور ہے۔ یہ ایک ایسی تھیوری ہے جس کے امریکی ریاست اور دیگر ممالک میں فخریہ حامی پائے جاتے ہیں۔ سٹیفنی کیلٹن، اس تھیوری کے بڑے مبلغین میں سے ایک اور برنی سینڈرز کی سابقہ معاشی مشیر، اب امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے بجٹ کی چیف معیشت دان ہے، اور در حقیقت بائیڈن کی اکنامک ٹاسک فورس کی سربراہ ہے۔

دنیا بھر کے اصلاح پسند ایم ایم ٹی کی جانب کافی جھکاؤ رکھتے ہیں۔ یہ بظاہر ان کے اس خیال کو نظریاتی بنیادیں فراہم کرتی ہے، جس کے مطابق مرکزی بینکوں سے پیسے جاری کر کے مالیاتی اخراجات کی پالیسیاں نافذ کرنی چاہئیں۔ مزید برآں، یہ اس خیال کا پرچار کرتا ہے کہ سرکاری قرضوں کو مزید سرکاری اخراجات کے ذریعے قابو کیا جا سکتا ہے، یعنی انفراسٹرکچر اور صنعتی منصوبوں، اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے ذریعے۔

البتہ، جیسا کہ مارکس نے وضاحت کی تھی، اشیاء کے تبادلے اور پیداوار کی مادی بنیادوں کے بغیر پیسے کو تخلیق نہیں کیا جا سکتا۔ حکومتیں اور مرکزی بینک پیسوں کا ذخیرہ بڑھا کر زائد پیداوار کے بحران پر قابو نہیں پا سکتیں۔ در اصل، مقداری آسانی نے مرکزی بینکوں کے پیسوں میں ڈرامائی اضافہ تو کر دیا ہے، مگر بینکوں کے پاس قرض دینے کے لیے دستیاب کریڈیٹ میں اضافہ نہیں ہوا اور نہ ہی حقیقی جی ڈی پی میں۔ مارکس کے مطابق، زر قدر کی نمائندگی کرتا ہے، جس سے قدرِ زائد کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ یہ پیدوار کے لیے سماجی طور پر لازمی وقتِ محن کا مالیاتی اظہار ہے۔ ریاست کرنسی کی شکل کا تعین تو کر سکتی ہے، مگر وہ ہوا میں سے پیسے تخلیق نہیں کر سکتی۔

جب کسی ریاست کو دیوالیہ پن کا خطرہ درپیش آتا ہے، قومی کرنسی کی قدر گرنے لگ جاتی ہے، اور مانگ کا رُخ سونے جیسی حقیقی اشیاء کی جانب مڑ جاتا ہے۔ در حقیقت، حالیہ برسوں میں سونے کی قیمتیں آسمان چھونے کی طرف گئی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ حکمران طبقے کے خیال میں وہ سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ میں زائد پیداوار کے بد ترین بحران کو، جیسا کہ مارکس نے کہا، ”گردش کے فریبوں“ سے روک سکتے ہیں۔

آج ایم ایم ٹی جیسی مکمل غیر معقول تھیوری کو مقبولیت حاصل ہو رہی ہے، حتیٰ کہ یہ دنیا کی بڑی سامراجی قوتوں کے معاشی اقدامات کا تعین کر رہی ہے، جو سرمایہ دارانہ نظام کے بحران میں معیاری جست کی حقیقت کا اظہار ہے!

امریکی ریاست سے لے کر باقی دنیا تک

بہرحال یہ عمل محض امریکی ریاست تک محدود نہیں ہے۔ یہ اب پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ حالیہ عرصے میں بینک آف جاپان (بی او جے) کے سابقہ نائب گورنر کیکو ایواتا کا کہنا تھا کہ جاپان کو مرکزی بینک کے ذریعے قرض میں امداد فراہم کر کے مالیاتی اخراجات بڑھانے کی ضرورت ہے۔ جاپان وباء سے پہلے بھی طویل مدتی جمود (سیکولر سٹیگ نیشن) کا شکار تھا۔ 80ء کی دہائی کے اواخر سے لے کر اب تک جی ڈی پی کی اوسط شرحِ نمو 1 سے 2 فیصد کے درمیان رہی ہے۔

بڑے پیمانے پر بینک آف جاپان کی بانڈ خریداری کا منصوبہ دراصل ایواتا نے پیش کیا تھا، جس کو ”مقداری و معیاری آسانی“ (کیو کیو ای) کا نام دیا گیا تھا۔ کیو کیو ای کا مقصد دیوہیکل مقدار میں پیسہ گردش میں لانے کے ذریعے معیشت کو متحرک کرنا تھا۔ البتہ، اس کے باوجود کہ جاپان نے سرکاری بجٹ میں بڑھتے ہوئے خسارے کا راستہ چنا (آج قرض جی ڈی پی کے 253 فیصد تک پہنچ چکا ہے)، یہ طریقہ معاشی بڑھوتری لانے میں کردار ادا نہیں کر پایا، نہ ہی خاندانوں کی حقیقی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔

ایواتا کے نزدیک جاپان کے طویل مدتی جمود کا جواب حکومتی خسارے اور اخراجات کو جاری رکھنا ہے، مگر اس دفعہ بانڈز جاری کرنے کی بجائے پیسہ چھاپ کر امداد کرنی چاہئیے: ”فِسکل (اخراجات اور ٹیکس سے متعلق) اور مانیٹری (پیسے چھاپنے سے متعلق) پالیسیوں کو ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ فسکل اقدامات پر زیادہ پیسہ خرچ کیا جا سکے اور نتیجتاً معیشت میں آنے والے مجموعی پیسے کی تعداد بڑھ سکے۔۔۔ہمیں ایک ایسے طریقہ کار کی ضرورت ہے جہاں معیشت میں براہِ راست اور مستقل طور پر پیسہ داخل ہوتا رہے۔۔بی او جے کی بانڈ خریداری کار آمد ثابت نہیں ہو رہی، کیونکہ بینک پیسے کو ذخیرہ کر رہے ہیں اور قرض نہیں دے رہے۔ اس مسئلے کا حل نکالنا لازمی ہے۔“

”ہیلی کاپٹر ڈراپ منی“ کی اس تجویز کو کم شرحِ نمو کا حل بتایا جا رہا ہے اور یہ اس خیال پر مبنی ہے کہ زیادہ پیسے چھاپ کر مانگ کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ ایم ایم ٹی کا بھی بالکل یہی دعویٰ ہے۔ حتیٰ کہ اطالوی وزیراعظم ماریو دراغی نے بھی 2016ء میں اس پالیسی کو سراہا تھا، جب وہ ای سی بی کا صدر تھا۔

اس کے علاوہ چین کی ریاستی سرمایہ داری بیجنگ حکومت کو انتہائی تسلسل کے ساتھ اپنی کمپنیوں (سرکاری و نجی دونوں) کی امداد کرنے کی اجازت دیتی رہتی ہے۔

سرمایہ داری کے لیے عالمی سطح پر یہ رجحان سامنے آ رہا ہے، اور یہ وہ پیمانہ ہوگا جس پر آنے والے عرصے میں سماجی تضادات کی نمائش کی جائے گی۔

طبقاتی جدوجہد کی شدت

انقلابی کردار کی حامل تحریکیں، جیسا کہ فلسطین، میانمار، کولمبیا اور دیگر ممالک میں دیکھی گئی ہیں، آنے والے عرصے میں ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کے اندر بھی دیکھنے کو ملیں گی۔ محنت کش طبقہ، جس نے لڑائی کے لیے تیار ہونے کا اظہار کیا ہے، عملی میدان میں اتر آئے گا۔ اگر صرف مارچ اور اپریل 2020ء کی ہی بات کی جائے، جب وباء اپنے عروج پر تھی، تب بھی اٹلی، سپین، فرانس، امریکی ریاست اور کینیڈا کے اندر اہم تحریکیں دیکھنے کو ملی تھیں۔

آج کی صورتحال 2008ء اور 2009ء سے انتہائی مختلف ہے۔ تب محنت کش، بحران اور اس کے نتیجے میں معاشی ترتیبِ نو کی توقع نہیں کر رہے تھے، جس کے باعث مزدور تحریک جمود کا شکار رہی، جو کئی سالوں تک دبی رہی۔

بحران کے ابتدائی اثرات کا سامنا کرنے کے بعد، آج محنت کش طبقہ زیادہ پُر اعتماد ہے کہ جدوجہد کے ذریعے ٹھوس حاصلات جیتی جا سکتی ہیں، جو اس کے اندر ماضی کی نسبت شرکت کی زیادہ خواہش رکھتے ہیں۔ معیشتوں کے دوبارہ کھلنے سے اس عمل کو تقویت ملے گی، جس میں وباء کے دوران اخذ شدہ تجربات بھی کرداد ادا کریں گے جب سماج میں ضروری نوعیت کے کام کرنے والے محنت کشوں کے کردار کا واضح اظہار ہوا تھا (خصوصاً شعبہ صحت، پبلک ٹرانسپورٹ، تجارت اور صنعت کے اندر)۔

کرونا وباء کے خلاف لڑائی میں محنت کشوں نے، اموات اور قربانیوں کے حوالے سے، انتہائی بڑی قیمت چکائی ہے۔ نتیجتاً، آج وہ اس کردار سے کافی حد تک واقفیت رکھتے ہیں جو ان کو سماج کے اندر بطورِ طبقہ حاصل ہے۔ یہ طبقاتی شعور کے پروان چڑھنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔

May 68 Poster Image Steven Libcom

سرمایہ داروں کے تمام حربے عارضی ہیں اور ناکام ہوں گے۔ ایک نیا ”مئی 68ء“ اور ”گرم موسمِ خزاں“ آنے والا ہے، مگر اس دفعہ عالمی سطح پر۔

ظاہر ہے کہ ٹریڈ یونین افسر شاہی غدارانہ کرداد نبھا کر مزدور جدوجہد کے رستے میں رکاوٹیں ثابت ہوتی رہی ہیں، اور حالیہ برسوں میں وہ مزید دائیں جانب جھک گئی ہیں۔ مگر اس رکاوٹ کی اپنی محدودیت ہے، آج وہ مزدور تحریک کو ماضی کی نسبت قابو میں رکھنے کے اہل نہیں رہے ہیں۔ ان کی حیثیت ماضی میں کبھی اتنی کم نہیں ہوئی تھی جتنی آج ہے۔

بورژوازی طبقاتی جدوجہد کو دبانے کے لیے ان کو استعمال کرنے کی کوشش کرے گی، جس کے ساتھ ساتھ وہ کھلے عام شدید جابرانہ اقدامات لینے کی طرف بھی جائی گی۔ ممکن ہے کہ سیارے کے ہر کونے میں ہڑتال مخالف قوانین لاگو کیے جائیں۔ البتہ، تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ ان طریقوں سے اس عمل کو تاخیر کا شکار تو کیا جا سکتا ہے، مگر یہ تحریکوں کی شدت بڑھانے کا سبب بنے گا جب مستقبل میں ناگزیر طور پر وہ دوبارہ سر اٹھائیں گی۔

آنے والی تحریکیں، جن کے اندر آغاز میں اگرچہ معاشی عنصر بھاری رہے گا، رفتہ رفتہ، حالیہ برسوں میں بحران کی گہرائی اور بڑے پیمانے پر جمع شدہ مایوسی کے باعث، ناگزیر طور پر انقلابی رجحان اپنائیں گی اور ان کے اوپر سیاسی عنصر غلبہ پاتا رہے گا۔ ایک نیا ”مئی 68ء“ اور ”گرم موسمِ خزاں“ آنے والا ہے، مگر اس دفعہ عالمی سطح پر۔

اس تناظر میں، افراطِ زر تحریک کو دبانے کی بجائے اسے مزید اشتعال دینے کا سبب بنے گا۔ محنت کش بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے اجرتوں میں اضافے کے لیے لڑیں گے۔ ٹریڈ یونینز کے اندر پہلے سے زیادہ بے باکی دیکھنے کو ملے گی، جو نہ صرف کام کی بہتر شرائط کے لیے جدوجہد کریں گی بلکہ سیاسی محاذ پر بھی لڑائی لڑیں گے۔ مزدوروں کے اختیارات اور قومیانے کا سوال دوبارہ ابھرے گا، جو معروضی طور پر محنت کشوں کے اقتدار اور سماج میں ان کے کرداد کا سوال سامنے رکھے گا۔

وباء نے کروڑوں محنت کشوں کو دکھا دیا ہے کہ پیٹنٹ کا خاتمہ کر کے، دوا ساز کمپنیوں کو قومیا کر اور عالمی سطح پر عوامی شعبہ صحت اور ویکسی نیشن کا نظام تعمیر کر کے ہی کرونا وائرس کے خلاف با اثر لڑائی لڑی جا سکتی ہے، اور اسی طریقے سے ہی لاکھوں لوگوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔

عالمی سطح پر محنت کش طبقے کی اکثریت عموماً کم تنخواہوں پر گزر بسر کر رہی ہے جبکہ حالیہ برسوں میں بہت بڑے پیمانے پر استحصال کے ذریعے محنت کو سرمائے میں تبدیل کیا جاتا رہا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بڑھتا ہوا افراطِ زر نا گزیر طور پر محنت کشوں کو بڑھتے ہوئے جوش و جذبے کے ساتھ لڑائی لڑنے پر مجبور کرے گا۔ یونین افسر شاہی کو محنت کشوں کی جدوجہد کی حمایت کرنے یا اپنی حیثیت مکمل طور پر کھو دینے میں سے کسی ایک کو چننا پڑے گا۔

بہرحال، محنت کش طبقہ کسی نہ کسی شکل میں حکمران طبقے سے حساب طلب کرے گا۔ یہی وہ وقت ہوگا جب مارکس وادی اصلاح پسندوں سے مزدور تحریک کی قیادت چھیننے کی جدوجہد کرنے کے اہل ہوں گے۔ ایک دفعہ جب محنت کشوں کے ہاتھ ایسی قیادت لگ جائے گی جو واقعتاً ان کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہو، پھر ایسی کوئی قوت نہیں بچے گی جو سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کے راستے میں حائل ہو۔ پھر سرمایہ داری کو ماضی کا حصّہ بننا پڑے گا۔

Comments are closed.