فریڈرک اینگلز کی وفات پرلینن کی تحریر
کیا عقل کا چراغ تھا خاموش ہو گیا۔ ۔ ۔ کیا دل تھا، دھڑکنوں کے تلاطم میں سو گیا
کیا عقل کا چراغ تھا خاموش ہو گیا۔ ۔ ۔ کیا دل تھا، دھڑکنوں کے تلاطم میں سو گیا
[تحریر: پارس جان] ’’بہت سے قارئین نے ٹراٹسکی کی جوانی کی تصویر کو کئی بار شائع ہوتے ہوئے دیکھا ہو گا۔ اس وقت بھی اس کی کشادہ پیشانی کے نیچے خیالات اور تصورات کا ایسا طوفانی بہاؤ دکھائی دیتا تھا جو اسے تاریخ کی شاہراہ سے دھکیل کر ذرا پرے […]
ٹیڈ گرانٹ کی کتاب ’’روس انقلاب سے رد انقلاب تک‘‘ سے اقتباس
20 جون 1858ء وہ تاریخ ہے جب مئی 1857ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی راج کے خلاف شروع ہونے والی ہندوستانی سپاہیوں اور عوام کی تحریک حتمی شکست سے دو چار ہوئی۔
تحریر : ایلن ووڈز:۔ (ترجمہ : آدم پال) تغیر کا دور ’’مارکس سروینٹیز اور بالزاک کو باقی تمام ناول نگاروں سے زیادہ پسند کرتا تھا۔ ڈان کیخوٹے میں اسے پرانی رسمی شجاعت آخری سانسیں لیتی ہوئی نظر آئی جس کا ابھرتے ہوئے بورژوا سماج میں مذاق اْڑایا جاتا تھا۔‘‘
تحریر : ایلن ووڈز:- (ترجمہ : آدم پال) اس سال ڈان کیخوٹے،اسپین کے ادب کی عظیم ترین تخلیق، کی پہلی اشاعت کو 400برس ہو گئے ہیں۔محنت کش طبقہ، یعنی وہ طبقہ جو ثقافت کے تحفظ میں سب سے زیادہ دلچسپی رکھتا ہے، اسے اس سالگرہ کوجوش وخروش سے منانا چاہیے۔
تحریر: ابن حسن:- ریڈیکل ہونے کا مطلب ہے چیزوں کو جڑ سے پکڑنا؛ تاہم انسانیت کی جڑ خود انسان ہے (مارکس)
تحریر ۔البرٹ آئن سٹائن:- کیا یہ اس شخص کے لیے سوشلزم کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہارکرنامعقول بات ہے جو معاشی اور سماجی مسائل کاماہر نہیں، ؟ میرے نزدیک اس کی وجوہات یہ ہیں۔
تحریر: لیون ٹراٹسکی:- انقلاب کا قطعی وقت آپہنچا تھا۔سمولنی (مجلس عاملہ کا دفتر) کو ایک قلعے میں تبدیل کیا جارہا تھا۔ اس کی چھتوں پر دو درجن مشین گن نصب کر دی گئی تھیں۔