پشتون تحفظ تحریک: نئی سیاست کا جنم!
اس تحریک کی نظریاتی بنیادوں کو وسعت دینے کی ضرورت ہے اور تنگ نظر قوم پرستی کے حملوں کو شکست دیتے ہوئے اسے محنت کش طبقے کے وسیع تر مطالبات کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے
اس تحریک کی نظریاتی بنیادوں کو وسعت دینے کی ضرورت ہے اور تنگ نظر قوم پرستی کے حملوں کو شکست دیتے ہوئے اسے محنت کش طبقے کے وسیع تر مطالبات کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے
|تحریر: پارس جان| مملکت خداداد میں گزشتہ عشرے میں کئی نام نہاد ’انقلابی تحریکیں ‘ عوامی شعور پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی مگر ہر بار پالیسی سازوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ سلسلہ پرویز مشرف کے اقتدار کے اختتام کے دنوں سے شروع ہوا تھا جب […]
|تحریر: خالد مندوخیل| پشتون تحفظ تحریک جو گزشتہ دو ماہ سے منظر عام پر آئی ہے، اس وقت اپنے عروج پر ہے۔ کراچی میں نوجوان نقیب محسود کے ماورائے عدالت قتل نے فاٹا کے عوام میں ایک طویل وقت سے پلنے والے غم و غصے میں ایک نیا ابال پیدا […]
عوام کی جانب سے ان تاریخی استقبال اور جلسوں کو دیکھ کر ریاستی ادارے انتہائی بو کھلا ہٹ کا شکار ہوگئے۔ سیکیورٹی اداروں نے ان جلسوں کو ناکام کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا لیکن ان کو منہ کی کھانی پڑی
پاکستان میں جاری پشتونوں سمیت تمام مظلوم قومیتوں پر جبر کا خاتمہ کرنے کے لیے اس سرمایہ دارانہ ریاست اور اس کے تمام اداروں کو اکھاڑنا پڑے گا جو صرف محنت کش طبقے کے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے
یہ تمام واقعات اور لوگوں کا یہ ابھار محض نقیب کے قتل کے واقع کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ پچھلے 40 سال سے فاٹا میں جاری پراکسی قتل و غارت اور ریاست کے جبر کا نتیجہ ہے
|تحریر: کریم پرہر| اسلام آباد کے اندر گزشتہ آٹھ روز سے فاٹا کے قبائلی اور دیگر پشتون عوام نقیب محسود کے ماورائے عدالت قتل کے واقعے کے بعد احتجاجی دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ نقیب شہید کو ریاستی مشینری کے غنڈے راؤ انوار نے کراچی میں ایک جعلی پولیس مقابلے میں […]
نقیب اللہ محسود کے ریاستی غنڈے ایس ایس پی راؤ انوار کے ہاتھوں جعلی پولیس مقابلے میں قتل کے خلاف اور انصاف کے حصول کے لئے پختونخوا اور فاٹاسے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کل سے اسلام آباد میں دھرنا دئیے بیٹھے ہیں۔ ان میں بچے، بوڑھے اور جوان شامل […]
سال 2017ء کے آخری ماہ میں گلگت بلتستان کونسل کی جانب سے مسلط کیے جانے والے براہ راست ٹیکسوں کیخلاف ایک تحریک نے جنم لیا جو ابھی تک جاری ہے۔ اس سے قبل بھی گلگت بلتستان کے عوام ان براہ راست ٹیکسوں کے خلاف سراپا احتجاج تھے
|تحریر: بلاول بلوچ| 17دسمبر 2017ء کا دن اس ملک میں ایک ’نئے‘ یوم سیاہ کے طور پر یاد کیا جائے گا مگر مملکت خداداد کی تاریخ میں کوئی بھی دن یہاں کے عام عوام کے لیے خوشی کا دن نہیں رہا۔ تین سال پہلے 16دسمبر کو آرمی پبلک سکول پشاور […]
جہاں تک سماجی تحریک کا تعلق ہے تو ایسا ہرگز نہیں کہ فاٹا اور خیبر پختونخوا ہ آج ایک انقلابی کیفیت میں ہے۔ لیکن ایسا بھی قطعاً نہیں ہے کہ حالات معمول کے مطابق ہیں۔ خیبر پختونخوا میں ڈاکٹرز، اساتذہ، نرسز، کسان، صنعتی مزدور اور طلبا کی بہت بڑی تعداد نہ صرف اس بوسیدہ نظام سے اکتا گئے ہیں بلکہ اس کے خلاف آواز بھی بلند کر رہے ہیں
اصل میں ہم جس میں رہتے ہیں وہ ایک نہیں دو پاکستان ہیں۔ ایک امیروں کا پاکستان اور دوسرا غریبوں کا پاکستان۔ ایک جاگیرداروں کا پاکستان اور دوسرا ہاریوں اور کسانوں کا پاکستان۔ ایک سرمایہ داروں کا پاکستان اور دوسرا محنت کشوں کا پاکستان۔ ایک بیوروکریٹوں، جرنیلوں، ججوں اور میڈیا مالکان کا پاکستان اور دوسرا نہتے، لاچاروں، بیماروں اور مسکینوں کا پاکستان۔
پچھلے سال 8 اگست کو کوئٹہ میں دن دیہاڑے ایک خودکش حملے میں وکلا کی ایک بڑی پرت کو مارا گیا تھا۔ لیکن ریاستی اداروں کی طرف سے اس گھناؤنے حملے پر جو ردِعمل آیا اس نے بلوچستان کے لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے اس بدبخت صوبے کے گھاؤ اور بھی گہرے کر دیئے
’’آزادی‘‘ کے نعروں کی گونج وادی سے ابھر کر ایک بار پھر پورے کشمیر میں پھیل چکی ہے۔ تحریک تھمنے کی بجائے بار بار مزید شدت سے ابل پڑتی ہے۔ بہیمانہ بھارتی ریاستی جبر اپنی انتہاؤں کے باوجود تحریک کو پسپا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا