چاغی (بلوچستان): دالبندین میں ڈی سی آفس کے سامنے انٹری سسٹم (ٹوکن سسٹم) کے خلاف محنت کشوں کا احتجاجی دھرنا

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان|

بلوچستان کے ضلع چاغی کے ہیڈ کوارٹر دالبندین میں ڈی سی آفس کے سامنے انٹری سسٹم (ٹوکن سسٹم) کے خلاف پھلے تین دن سے محنت کشوں کا احتجاجی دھرنا جاری ہے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ اس احتجاجی دھرنے کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور نااہل حکمرانوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بارڈر ٹریڈ سے منسلک محنت کشوں کے مطالبات کو فی الفور حل کریں۔ ہم احتجاجی دھرنے کے شرکا کے ساتھ ان کی اس جدوجہد میں ہر فورم پر ہراول دستے کا کردار ادا کریں گے۔

چاغی انٹری سسٹم (ٹوکن سسٹم) اور محنت کشوں کی پریشانیاں

واضح رہے کہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے ہیڈ کوارٹر دالبندین میں چند مہینے پہلے بارڈر ٹریڈ سے منسلک محنت کشوں، جن میں زامیاد ڈرائیورز اور گاڑی مالکان شامل تھے، نے ڈی سی آفس کے سامنے کئی دنوں تک دھرنا دیا تھا۔ ان کا ایک مطالبہ تھا کہ ایرانی بارڈر سے منسلک کاروبار میں انٹری سسٹم کو ختم کیا جائے یا ان کی انٹریز (ٹوکن) کو قبول کیا جائے تاکہ وہ بھی ایک دو مہینوں میں ایک زامیاد لوڈ ایرانی پٹرول لاکر اپنے گھر کے چولہے جلا سکیں۔ لیکن انتظامیہ نے جھوٹے وعدے کرکے اس دھرنے کو ختم کرنے پر محنت کشوں کو منالیا۔ مگر آج تک انٹری سسٹم ختم ہوا ہے اور نہ ہی ان کے ٹوکن کا مسئلہ حل کیا گیا ہے۔ اس لیے ایک دفعہ پھر بارڈر ٹریڈ سے منسلک محنت کشوں نے ڈی سی کمپلیکس کے سامنے دھرنے کا باقاعدہ آغاز کردیا ہے جوکہ تاحال جاری ہے۔

انٹری سسٹم کیا ہے؟

پہلے چاغی میں پاک ایران بارڈر پر ایک کراسنگ پوائنٹ سے پٹرول لوڈنگ ہوا کرتی تھی جسے جودر کہا جاتا تھا۔ بعد میں جودر کو بند کرکے روتک(جگہ کا نام) سے ٹوکن سسٹم متعارف کراکر پٹرول لوڈنگ شروع کی گئی۔ ٹوکن سسٹم یا انٹری سسٹم سب سے پہلے روتک کراسنگ پوائنٹ پر متعارف ہوا، تو جو لوگ پہلے سے جانتے تھے کہ جودر پوائنٹ بند ہوگا اور آگے جاکر صرف روتک سے لوڈنگ ہوسکے گی اور وہ بھی انٹری سسٹم سے، انہوں نے اپنے لیے انٹری بنالی۔ ایک دو نہیں بلکہ ہر بندہ جس کے پاس جتنے زیادہ زامیاد تھے اس نے اتنے ہی مختلف شناختی کارڈز پر انٹریز یعنی ٹوکن بنا کر رکھ لیے۔ جن لوگوں کو اس چیز کا علم نہیں تھا کہ آگے جاکر ایسا کوئی بارڈر کھلے گا تو ان لوگوں نے نہیں بنایا۔

جب یہ بارڈر کھلا تو سب لوگ جودر بند ہونے کی وجہ سے بے روزگار ہوگئے۔ بعد میں ان کو پتہ چلا اور ان لوگوں نے احتجاج کیا کہ ہم بھی چاغی والے ہیں ہمیں یہ انٹری ٹوکن دیا جائے۔ ان کے زیادہ احتجاج اور مظاہرے کو مدنظر رکھ کر انتظامیہ نے مزید انٹریز بنانے کا سوچا اور ہزاروں افراد نے پھر سے اپنے لیے انٹریز بنائیں اور پھر انٹریز زیادہ ہوگئیں۔ پہلے جو بندا مہینے میں کبھی ایک چکر یا دو چکر انٹری پر جاتا اب وہی انٹری دو ڈھائی مہینے تک جاتا تھا اور گاڑیوں کے رش کی وجہ سے روتک میں لوڈ (تیل) ملنا بند ہوگیا۔

پہلے جہاں روتک کے منڈی والے(تیل ڈیلرز) پاؤں پڑتے تھے کہ ادھر سے لوڈنگ کرو اب وہی منڈی والے گاڑی والوں کو بھگارہے تھے اور رش کی وجہ سے ایف سی بھی اس پر کنٹرول نہیں پا رہی تھی۔ ایسے میں کمانڈنٹ نے رش کش، گاڑیوں کے ہفتوں ہفتوں وہاں رہ جانے اور کئی ایسے مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے پرانی انٹریز کو ختم کردیا۔ اس طرح پھر انٹریز تین قسم کی بنیں۔ایک وہی پرانی انٹری، دوسری زرد سٹیکر اور تیسری ان سے بھی بعد میں کچھ گاڑیاں انٹری ہوئی جنہیں یہاں کے لوکل آلو والا کہتے ہیں۔

ابھی یہ احتجاج رزد سٹیکر اور آلو والے ٹوکن مالکان کررہے ہیں۔ انکا الزام یہ ہے کہ سارا کام کمیٹی کا کیا دھراہے، کیونکہ کمیٹی والوں کی انٹریز زیادہ ہیں۔ ابھی ان کی ڈیمانڈ یہ ہے کہ ہمیں بھی بارڈر پر جانے کی اجازت دی جائے اور کمیٹی کو ختم کیا جائے۔

انٹری سسٹم میں سرداروں و نوابوں کی انٹری

محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے کئی لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ کام دراصل ان غریب اور پسے ہوئے طبقات کیلئے ہے جو صرف دو وقت کی روٹی کیلئے کام کرتے ہیں۔ لیکن اس سسٹم میں تمام سیاسی پینلز(خان پینل، بابائے چاغی پینل، حسنی پینل) سے تعلق رکھنے والے سرمایہ داروں نے بھی کئی انٹریاں اپنے نام کی ہے۔ جو ہر مہینے کئی بار لوڈنگ کرکے آجاتے ہیں اور غریب عوام کو دو ڈھائی مہینے میں ایک بار بھی لوڈنگ کرنے کیلئے اجازت نامہ ڈی سی کی طرف سے نہیں دیا جارہا۔

سینیٹر سردار عمر گورگیج (جس کے دو بیٹے اور ایک داماد ایم پی اے ہیں) کے چار بیٹوں کے نام بھی انٹری سسٹم میں شامل ہیں جو سوشل میڈیا پر کافی تنقید کا نشانہ بن رہا ہے۔

موجودہ دھرنا کیوں دیا جارہا ہے؟

ہزاروں ایسی گاڑیاں بھی ہیں جن کو ٹوکن بعد میں جاری کیے گئے ہیں لیکن تاحال ان تمام زامیاد گاڑیوں کو لوڈنگ کرنے کیلئے جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ اجازت نامہ ڈپٹی کمشنر کی طرف سے جاری کیا جاتا ہے لیکن ڈی سی چاغی ابھی تک اس معاملے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے اور محنت کشوں کی کوئی سنوائی نہیں ہورہی۔

دالبندین کہاں واقع ہے اور ایرانی پٹرول پر اتنا زیادہ زور کیوں دیا جاتا ہے؟

دالبندین ضلع چاغی کا ہیڈکوارٹر ہے۔چاغی واحد ضلع ہے جس کے بیک وقت دو ملکوں کے ساتھ بارڈرز لگتے ہیں، افغانستان اور ایران۔

یہاں زراعت اور انڈسٹریز کانام و نشان تک نہیں۔ پورے ضلع میں صرف ایک سیندک پروجیکٹ کاانڈسٹریل زون ہے۔ سیاہ آب (دریاؤں اور جھیلوں) کانظام نہ ہونے کی وجہ سے ایگریکلچر سسٹم بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ لہٰذا لوگوں کاذریعہ معاش ایرانی پٹرول اور ہول سیل کے کاروبار سے منسلک ہے۔

لٹریسی ریٹ صرف ستائس فیصد اور تعلیمی نظام کی زبوں حالی کی وجہ سے لوگوں کا سرکاری جاب حاصل کرنا بھی محال ہے۔ دوسری طرف اقربا پروری اور بندربانٹ کی وجہ سے محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے غریب لوگ روزگار حاصل کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔

Comments are closed.