افسانہ: تبدیلی!

|تحریر:آفتاب اشرف|

قائد اعظم کالونی کی دیواروں پر ان دنوں رنگ برنگے پوسٹروں اور بینروں کی بھر مار تھی۔ 

چیتے کو ووٹ دیں۔۔ اب کی بار،ہاکی پر نشان۔۔ آپکے ووٹ کا حقدار، صرف کھمبا۔۔ انشاء اللہ ایم این اے۔۔عوام کا خادم،فلاں فلاں۔

آپ درست سمجھے، ملک میں الیکشن ہونے والا تھا۔ شہر کے جنوب مشرق میں واقع یہ کالونی درحقیقت ماضی میں ایک جھونپڑ پٹی تھی جو’ ترقی‘ کر کے اب ایک کچی پکی بستی کا روپ دھار چکی تھی۔ اونچی نیچی سولنگ والی گلیاں، کچرے کے بدبودار ڈھیر،جا بجا کھڑا گندا پانی،چھوٹے چھوٹے نیم پختہ بد نما گھر،ہر گھر کے دروازے پر لٹکتا میلا پردہ اور باہر کھیلتے ننگ دھڑنگ بچے۔ یہ بستی ویسی ہی تھی جیسی غریبوں کی کوئی بھی بستی ہوتی ہے بس کسی کم بخت نے اس کا نام قائد اعظم کالونی رکھ دیا تھا۔

یہاں کون لوگ رہتے تھے؟اس سوال کا جواب کوئی بھی شخص دے سکتا تھا بشرطیکہ وہ کسی یونیورسٹی میں سماجی علوم کا پروفیسر نہ ہو۔ آس پاس کی فیکٹریوں کے مزدور،دیہاڑی پر مشقت کرنے والے،چھوٹی موٹی نو کریوں والے، گھریلو ملازم، چھابڑی والے،ٹھیلے والے، ریڑھی بان ،بیروز گار،نشئی،معمولی چور اچکے اور سستی کسبیاں وغیرہ۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ یہاں خدا کی اور مخلوق بھی بکثرت پائی جاتی تھی۔ جیسا کہ مکھیاں ،مچھر، کوے،چوہے،بلیاں اور آوارہ کتے۔

بستی والوں کی زندگی ہلدی کی طرح پھیکی تھی۔جن کے پاس روز گار تھا وہ روزانہ سویرے کام پر جاتے اور شام ڈھلے واپس آتے۔جو بیروزگار تھے،ان کی حالت قبر میں پڑے مردے جیسی تھی۔جس کے پاس دنیا جہان کا سارا وقت ہوتا ہے لیکن وہ کچھ کر نہیں سکتا۔یہاں کے لوگوں کی واحد عیاشی دن میں ایک بار کسی سستے چائے خانے پر بیٹھ کر ہندی فلم کے چند گانے دیکھنااور ساتھ میں شیرا نما چائے پینا تھی۔ہاں ،کبھی کسی کی جیب میں چار پیسے زیادہ آ جاتے تو وہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتاجب تک کہ وہ پیسے نشہ آور گولیاں ملی دیسی شراب بیچنے والے یا کسی مقامی کسبی کی جیب میں نہ چلے جاتے۔ ایسے میں انتخابی مہم کی رنگا رنگی بستی والوں کے لئے یوں ہی تھی جیسے روز بلیک اینڈ وائیٹ فلم دیکھنے والے کو چند روز کے لئے کلر پکچر دیکھنے کا موقع مل جائے۔

اصغر کام سے گھر واپس آ رہا تھا۔راستے میں اس کی نظر بار بار ارد گرد لگے پوسٹروں پر پڑ رہی تھی۔وہ حیران تھا کہ اس ملک میں غریبوں کے اتنے ہمدرد موجود ہیں۔اسی بے دھیانی میں اس کا پیرغلاظت بھرے کیچڑ پر پڑ گیا۔’’اوہ تیری۔۔۔‘‘اس نے کیچڑ میں دھنسی اپنی چپل نکالی اور زمین پر گرے ایک پوسٹر سے اسے صاف کرنے لگا۔اچانک اس کی نظر پوسٹر پر لکھی عبارت پر پڑی۔

’’حلقے میں ہونے والے ترقیاتی کام ،میری گواہی۔۔ایک بار پھر خدمت کا موقع دیں۔۔‘‘

وہ پوسٹر ہاتھ میں لئے کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر گھر جانے کی بجائے گلی کے نکڑ پر واقع ایک ڈھابے کی طرف چل دیا۔بستی کے باقی مردوں کی طرح وہ چائے خانوں پر بیٹھنے کا شوقین نہ تھا لیکن آج اس کے ذہن میں کچھ کھلبلی سی مچی ہوئی تھی۔وہ شہر کے پوش علاقے میں ایک گھر پر بطور خانساماں کام کرتا تھا۔اس کا صاحب کسی بڑی کمپنی میں اعلیٰ افسر تھا۔آج اس نے اپنے دوستوں کو بیگمات سمیت گھر کھانے پر مدعو کر رکھا تھا۔ انتخابات کا موسم تھا۔ لہٰذا کھانے کی میز پر بھی گرما گرم سیاسی بحث ہوتی رہی۔ آتے جاتے چند الفاظ اصغر کو بھی سن جاتے تھے۔ ایک نئی سیاسی پارٹی تھی جس کا لیڈر نیا پاکستان بنانے کا دعویدار تھا۔ وہ کہتا تھا کہ بر سر اقتدار آ کر ملک کی کایا پلٹ دے گا۔ پڑھے لکھے لوگوں میں وہ بہت مقبول تھا۔ صاحب اور اس کے سارے دوست بھی اسی لیڈر کے حمایتی تھے۔ اصغر نے اس پارٹی اور اسکے لیڈر کا نام تو سن رکھا تھا لیکن وہ اس سب کے متعلق کچھ خاص نہیں جانتا تھا۔ کھانے پر ہونے والی گفتگو سے اسے پہلی دفعہ اندازہ ہواکہ یہ نیا لیڈرکیا باتیں کرتا ہے۔ ملکی ترقی۔۔معاشی بہتری۔۔کرپشن کا خاتمہ۔۔میرٹ کا بول بالا۔ میز پر ایک نئی ڈش رکھتے ہوئے وہ ان تمام الفاظ کے معانی سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ اچانک صاحب نے اس سے پوچھا۔

’’ہاں بھئی اصغر،تم کسے ووٹ دو گے؟‘‘

اس اچانک حملہ نما سوال سے وہ گھبرا گیا اور منہ کھول کر سب کے سوالیہ چہروں کی طرف دیکھنے لگا۔کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا جواب دے۔ وہ صاحب کے تقریباً سبھی دوستوں کو جانتا تھا۔ کوئی شہر کا مشہور ڈاکٹر تھا تو کوئی نامی گرامی وکیل۔ کوئی بڑا سرکاری افسر تھاتو کوئی ولایت کا پڑھا ہوا پروفیسر۔ اسے ڈر تھا کہ اگر وہ کوئی غلط جواب دے بیٹھا تو صاحب اس سے کہیں ناراض ہی نہ ہو جائیں۔ وہ اسی شش وپنج میں تھا کہ ڈاکٹر صاحب بے صبری سے تنک کر بولے۔

’’ارے اسے کیا پتا۔انہی لوگوں کی جہالت کی وجہ سے ہی تو آج ملک کا یہ حال ہے۔‘‘

’’صحیح کہہ رہے ہیں آپ۔ ان لوگوں کے ساتھ جتنا مرضی سر کھپا لیں،ووٹ پھر یہ اسی کو دیں گے جو یا تو انہیں ایک پلیٹ بریانی کھلا دے گا یا پھر ان کی جیب میں پانچ سو روپیہ ٹھونس دے ۔‘‘وکیل صاحب بولے۔

’’ملکی بہتری تو دور کی بات ہے۔ان لوگوں کو تو یہ تک نہیں پتا کہ ان کے اپنے لئے کیا ٹھیک ہے اور کیا نہیں‘‘۔پروفیسر صاحب نے بھی گفتگو میں اپنا حصہ ڈالا۔

اصغر نے بیچارگی سے اپنے صاحب کی طرف دیکھااور سر جھکا لیا۔ اپنے ملازم کی درگت بنتی دیکھ کر شائد صاحب کی حس ملکیت کو کچھ ٹھیس پہنچی تھی۔ وہ فوراً بولے۔

’’نہیں بھئی،ہمارا اصغر تو بہت سمجھدار لڑکا ہے۔باقیوں کی طرح جاہل نہیں ہے۔یہ اس مرتبہ ہاکی کو ہی ووٹ ڈالے گا۔ کیوں اصغر،ایسا ہی ہے نا؟‘‘

’’جی صاحب۔‘‘ اصغر نے آہستگی سے جواب دیا اور جاں خلاصی ہونے پر خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کچن کی طرف پلٹا۔ محفل برخاست ہونے کے بعد جب سب رخصت ہو رہے تھے تو ایک مرتبہ پھر اصغر کی شامت آ گئی۔ سب نے باری باری اسے یاد دہانی کرائی کہ وہ اپنے چھوٹے دماغ کا استعمال نہ کرے اور ویسا ہی کرے جیسا کہ ان جیسے پڑھے لکھے سمجھدار لوگ کہہ رہے ہیں۔ بیگمات نے بھی ہمدردی بھر ے لہجے میں اسے تلقین کی کہ وہ آنے والی نسلوں کے متعلق سوچے اور نئے لیڈر کو نہ صرف خود ووٹ دے بلکہ اپنے گھر کی عورتوں کا ووٹ بھی ڈلوائے۔ان سب باتوں کے جواب میں اصغر بس اندھا دھند’’جی۔۔جی،جی‘‘ کہتا رہا۔ اس کے صاحب کے ہونٹوں پر ایک فاخرانہ مسکراہٹ تھی جیسے کہہ رہے ہوں ’’آخر ملازم کس کا ہے‘‘۔ اصغر کے لئے اس وقت یہ مسکراہٹ آنے والی نسلوں کی بہتری سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔آخر اس کی نوکری کا سوال تھا۔گھر واپسی پر بھی وہ یہی سب باتیں سوچ رہا تھا۔اس کا ذہن بہت الجھا ہوا تھا۔اسے ’جاہل‘،’چھوٹا دماغ‘ جیسے القابات ملنے کا دکھ تھالیکن بیچ میں ہی وہ یہ بھی سوچتا تھاکہ اتنے پڑھے لکھے صاحب لوگ غلط کیسے ہو سکتے ہیں۔ ضرور اس نئے لیڈر میں کچھ تو خاص ہو گاجو ابھی وہ اور اس جیسے دیگر لوگ سمجھ نہیں پا رہے تھے۔ اسی کشمکش میں وہ چائے کے ڈھابے تک پہنچ گیا۔

چائے خانے پر حسب معمول شام کی گہماگہمی اپنے جوبن پر تھی۔ سب کی نظریں ٹی وی سکرین پر تھرکتی ہیروئین پر جمی ہوئی تھیں۔بچے ،بوڑھے ،جوان ،سبھی محظوظ ہو رہے تھے کہ اچانک بجلی چلی گئی۔ اپنی پسندیدہ تفریح سے محروم ہونا یقیناًسب کے لئے بد مزگی کا باعث تھالیکن یہ غریب لوگ بھی عجیب ہوتے ہیں۔ کبھی ہمت نہیں ہارتے،حالات جیسے بھی ہوں اپنے لئے کوئی نہ کوئی سامان تفریح پیدا کر ہی لیتے ہیں۔جلدی گھر جانے کے موڈ میں کوئی بھی نہیں تھا۔ وقت گزاری کے لئے گپ شپ کا سلسلہ شروع ہواجو کچھ ہی دیر بعد انتخابات پر مر تکز ہو گیا۔ اس محفل کی جان بخشو چاچا تھا۔ اس کا اصل نام خدا بخش تھا۔ اصغر کے گھر سے دو گلیاں چھوڑ کر رہتا تھا۔ اپنی ستر سالہ زندگی میں اس نے گنڈیریاں بیچنے اور رکشہ چلانے سے لیکر فیکٹریوں میں مزدوری کرنے تک کم وبیش ہر نوعیت کا کام کیا تھا۔ چاچا اس بستی کے سب سے پرانے باسیوں میں سے ایک تھا۔ چاچے کی دو خصوصیات ایسی تھیں جو اسے اپنے ارد گرد کے لوگوں سے ممتاز کرتی تھیں۔ ایک عمر کے لحاظ سے اس کی قابل رشک صحت اور دوسری حس مزاح۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جن پر افتاد زمانہ کا کچھ خاص اثر نہیں ہوتا۔ چاچا بڑے شاہانہ انداز سے بیٹھا ملکی حالات پر تبصرہ کر رہا تھاکہ کسی نے پوچھا۔

’’ساری باتیں چھوڑو چاچا۔یہ بتاؤ کہ ووٹ کس کو دو گے؟‘‘اس سوال نے خاموشی سے چائے پیتے اصغر کے کان کھڑے کر دئیے۔

’’اکڑ بکڑ بمبے بو سے جس کی باری آئی، اس پر ٹھپہ لگا دیں گے۔ لیکن بریانی سب سے کھائیں گے۔‘‘چاچے کے برجستہ جواب پر سب کھلکھلا کر ہنس پڑے۔لیکن اصغر کے چہرے سے بد مزگی واضح تھی۔آخر اس سے رہا نہ گیا۔

’’تو اس کا مطلب ہے کہ وہ لوگ ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ ہم جاہل ہیں اور ہمیں اچھے برے کی تمیز نہیں۔‘‘
اصغر کے تند لہجے نے اچانک سب کو خاموش کرا دیا۔ چاچے نے اسے حیرت سے گھورا اور پھر نرم لہجے میں بولا۔

’’کون سے لوگوں کی بات کر رہا ہے تو؟‘‘

’’میرے صاحب اور ان کے دوست۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ جو نیا لیڈر ہے،یہی ہاکی کے نشان والا،یہ ایک دم زبر دست ہے۔ جیت گیا تو ہر چیز ٹھیک کر دے گا۔سب کے مزے ہو جائیں گے۔لیکن ہمارے جیسے جاہل لوگوں کو اتنی عقل ہی نہیں ہے کہ ہم اسے سمجھیں اور ووٹ دیں۔‘‘

’’اچھا ۔۔ویسے کیا کیا کرے گا یہ نیا لیڈر جیت کر؟‘‘چاچے نے بچوں کو پچکارنے کے سے انداز میں پوچھا۔

اصغر نے صاحب کے گھر سنے مشکل مشکل الفاظ کو دہرانا چاہا لیکن اسے کچھ یاد نہیں آیا۔ بالآخر وہ بولا۔

’’سب کو نوکری ملے گی۔تنخواہیں بڑھ جائیں گی۔ ہسپتال بنیں گے غریبوں کے لئے۔ ہمارے بچے سکول جا سکیں گے۔پولیس ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔‘‘

چاچا تھوڑی دیر اصغر کو خاموشی سے دیکھتا رہا اور پھر قہقہہ مار کر ہنس دیا۔اس کے ساتھ ہی باقی سب بھی ہنسنے لگے۔

’’اچھا،تو یہ سب کرے گا تمہارے صاحب کا نیا لیڈر۔۔۔ہاہاہاہا۔پکی بات ہے؟‘‘چاچے نے ہنستے ہوئے کہا۔

اصغر کو یوں لگا کہ سب اس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔اس سے وہ اپنے موقف پر اور پکا ہو گیا۔

’’ہاں بالکل۔میرا صاحب اور ان کے دوست بہت پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ہم سے زیادہ سمجھ رکھتے ہیں۔وہ بھلا غلط بات کیوں کریں گے۔‘‘

’’ یہ پڑھے لکھے لوگ۔۔یہ صاحب لوگ۔‘‘چاچا خلا میں گھورتے ہوئے آہستگی سے بولا۔اس کی ہنسی غائب ہو چکی تھی۔

’’کیا تجھے واقعی یقین ہے کہ تیرا صاحب ٹھیک کہتا ہے؟‘‘چاچے نے پوچھا۔

’’ہاں۔۔‘‘اصغر نے کہا لیکن اس کا لہجہ اس کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔

’’ایسا نہیں ہے پتر۔ غلط فہمی ہے تیری۔ ہمارے حالات کا غذ پر لگے کسی ٹھپے سے کبھی بھی نہیں بدلنے والے۔‘‘
’’مگر کیوں۔۔تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو چاچا؟‘‘اصغر بولا۔

’’اصغر، پترمیں نے زندگی گزاری ہے۔بڑا زمانہ دیکھا ہے۔ووٹوں والی حکومتیں بھی دیکھی ہیں اور وردی والی بھی۔ سب کے کرتوت جانتا ہوں۔سب شروع شروع میں ایسی ہی اچھی باتیں کرتے ہیں۔حکومت ملتے ہی بدل جاتے ہیں۔ اسی لئے تو ہمارے حالات آج تک نہیں بدلے۔ میں بھی جوانی میں تیری طرح ہی تھا۔ لیکن وقت نے مجھے سکھایا کہ غریب کا یہاں کوئی ہمدرد نہیں ہے۔ سب نے ہمیں دھوکا ہی دیا ہے۔‘‘چاچے کی بات پر سب ہی اثبات میں سر ہلانے لگے لیکن اصغر ہار ماننے کو تیار نہ تھا۔

’’لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ نیا لیڈر باقیوں سے مختلف ہو‘‘۔

’’ارے کیسے مختلف ہو سکتا ہے؟‘‘چاچا تند لہجے میں بولا۔’’یہ بھی تو باقی سب کی طرح ایک محل میں ہی رہتا ہے۔ہوائی جہاز میں گھومتا ہے۔امیروں میں اٹھتا بیٹھتا ہے۔دنیا جہان کے لٹیرے اس کی پارٹی میں ہیں۔ یہ ہمارے حلقے سے اس کے امیدوار کو ہی دیکھ لو۔ سیٹھ آدمی ہے ۔پہلے فوج کی حکومت کے ساتھ تھا۔پھر چیتے کے نشان پر الیکشن لڑتا رہا اور اب ہاکی پر امیدوار بنا بیٹھا ہے۔ یہ الیکشن ولیکشن امیروں کے کھیل ہیں۔ کوئی بھی حکومت ہو ،یہ اقتدار میں ہی ہوتے ہیں۔ اگر خود نہ بھی ہوں تو انہی کا کوئی بھائی بندہ حکومت میں آ جاتا ہے۔ اسی ہاکی والے امیدوار کا سگا چھوٹا بھائی چیتے کے نشان پر الیکشن لڑ رہا ہے۔ ان امیروں کا کوئی لیڈر غریبوں کا ہمدرد کیسے ہو سکتا ہے۔‘‘

’’لیکن صاحب بتا رہے تھے کہ اس نئے لیڈر نے کئی جگہوں پر عام لوگوں کو بھی ٹکٹ دیا ہے‘‘۔

’’ہاں،بچوں کو خوش کرنے کے لئے تھوڑا بہت بندر تماشا تو کرنا ہی پڑتا ہے۔‘‘چاچے نے شفقت بھری مسکراہٹ کے ساتھ اصغر کو دیکھتے ہوئے کہا۔باقی سب زور سے ہنس دیے۔

’’لیکن میرا صاحب تو بہت پڑھا لکھا آدمی ہے۔وہ غلط کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘اصغر کی سوئی وہیں پھنسی ہوئی تھی۔

’’او یہ پڑھے لکھے لوگ تو ہوتے ہی بے وقوف ہیں۔ ہر دوسرے دن کسی نئے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ انہیں زندگی کے بارے میں کیا پتا۔ دیکھ،یہ لوگ سیکھتے ہیں کتابوں سے۔ پتہ نہیں ان میں کیا الٹا سیدھا لکھا ہوتا ہے۔ ہم سیکھتے ہیں سڑکوں پر جوتیاں گھسا کر۔ تو خود ہی بتا،کون سا علم سچا ہو گا؟وہ جو کسی کتاب میں لکھا ہے یا وہ جو حیاتی مار مار کر سکھاتی ہے۔‘‘چاچے کی باتوں میں وزن تھا لیکن بات تھی ذرا مشکل۔

’’تو کہنا کیاچاہتا ہے چاچا؟‘‘بنچ کے دائیں کنارے پر بیٹھا ایک شخص بولا۔

’’میں تمہیں سمجھاتا ہوں۔‘‘چاچا قمیص کی آستینیں چڑھاتا ہوا سیدھا ہو گیا۔’’یہ اصغر کا صاحب نرا کھوتا ہی ہے۔ کہتا ہے کہ اس کا لیڈر حکومت میں آ کر مزدوروں کی تنخواہ بڑھا دے گا۔ کوئی اس یہ پوچھے کہ اس کے لیڈر کا ہر دوسرا امیدوار تو کوئی مل مالک ہے۔ وہ بڑھانے دیتے ہیں اس کو مزدور کی تنخواہ۔اور ایسے کاغذ پر ٹھپے لگا نے سے کبھی بڑھی ہے مزدوروں کی تنخواہ۔او جھورے،او بتا ان سب کوکیا ہوا تھا تیری فیکٹری میں۔‘‘

’’مزدوروں نے دیہاڑی بڑھوانے کے لئے ہڑتال کی تھی۔ مالکوں نے پولیس بلوا کر سیدھی گولیاں چلوا دیں ہم پر۔ تین بندے مارے گئے۔میں خود بھی زخمی ہوا تھا۔اوپر سے یونین لیڈروں پر جھوٹے کیس کروا کر انہیں سات سات سال کے لئے اندر بھی کروا دیا۔‘‘جھورے کا لہجہ نفرت سے بھرا ہوا تھا۔

’’جھورے،اب تو ہی بتا کہ کیا کاغذ پر لگے کسی ٹھپے سے غریب کی دیہاڑی بڑھ سکتی ہے؟‘‘چاچے نے پوچھا۔

’’ہو ہی نہیں سکتا۔اس کے لئے تو لڑائی لڑنی پڑتی ہے۔قربانی دینی پڑتی ہے۔‘‘

’’ٹھیک۔۔،اور یہ جو نیا لیڈر کہتا ہے کہ میں پولیس کو ٹھیک کر دوں گا،عدالت کو ٹھیک کر دوں گا۔ایسا ہو سکتا ہے بھلا؟‘‘چاچے نے نیا سوال داغا۔

’’ارے پولیس کا تو کام ہی غریبوں کو ڈنڈے مارنا ہے۔ اگر پولیس یہ نہ کرے تو ان موٹے پیٹ والے سیٹھوں کو ہم سے کون بچائے گا۔ اور عدالت تو نری ہی دو نمبری ہے۔بڑا چور ہمیشہ بچ جاتا ہے اور چھوٹا ہمیشہ پھنس جاتا ہے۔‘‘

’’جیلوں میں آدھے سے زیادہ تو بے گناہ غریب تاڑے ہوئے ہیں ان عدالتوں نے۔‘‘ایک اور شخص نے جھورے کی بات میں لقمہ دیا۔

’’لے بھئی اصغر سن لے۔ اب اس جھورے نے کون سے کالج سے سولہ جماعتیں پڑھی ہوئی ہیں۔ لیکن اس نے زندگی کی مار کھائی ہے۔اسی لئے وہ حقیقتیں جانتا ہے جن کا تیرے اس پڑھے لکھے صاحب کو کچھ پتا نہیں۔‘‘چاچے نے سینہ پھلا کر کہا۔

’’تو پھر کیا سارے پڑھے لکھے ہی بیوقوف ہوتے ہیں اور ساری کتابیں ہی غلط ہوتی ہیں؟‘‘اصغر نے معصومیت سے پوچھا۔

’’آآآ۔۔نہیں ۔اتنا اندھیر بھی نہیں ہے۔ جوانی میں جب میں ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا تو وہاں قریب کے کالج کے کچھ لڑکے ہر ہفتے ہمارے پاس آیا کرتے تھے۔ ان کے پاس کتابیں ہوا کرتی تھیں۔کورس کی نہیں ،دوسری کتابیں۔ ایمان سے بڑی سچی باتیں لکھی تھیں ان میں۔ سیٹھوں کی لوٹ مار کی باتیں۔ مزدوروں کی جدوجہد کی باتیں۔ ایک ملک روس کے قصے،جہاں مزدوروں نے اپنی حکومت بنا لی تھی۔بڑا مزہ آتا تھا سن کر۔‘‘

’’واہ چاچا،یہ ساری باتیں تو نے پہلے تو کبھی نہیں بتائیں۔‘‘جھورے کے ساتھ بیٹھا فضلو نام کا مزدور بولا۔

’’او کم بختو،اپنا سارا فارغ وقت تو تم لوگ ٹی وی پر ٹھمکے دیکھنے میں گزار دیتے ہو۔ کسی سیانے بیانے کی بات سننے کا ٹائم کہاں ہے تمہارے پاس۔‘‘چاچے نے مصنوعی غصے سے کہا لیکن سوال پوچھنے والا پھر بھی کھسیاناہو کر رہ گیا۔

’’چاچا،وہ کالج والے لڑکے اب کہاں ہیں؟‘‘اصغر نے تجسس سے پوچھا۔

’’آہ۔۔ہا۔ ایک کو تو فیکٹری مالک نے اپنے غنڈٖوں کے ہاتھوں مروا دیا، دو سرے کوفوجی حکومت میں لمبی قید کی سزا ہو گئی۔ وہ جیل ہی میں مر گیا۔ تیسرا بڑی مشکل سے اپنی جان بچا کر کسی باہر کے ملک چلا گیا۔سنا تھا کہ وہیں کہیں پر دیس میں اس نے خود اپنی جان لے لی۔‘‘

’’پتر اصغر،سچا علم رکھنے والی کتابیں کبھی کالجوں میں نہیں پڑھائی جاتیں۔ اور جو سچا علم رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں نا،وہ کبھی تمہارے صاحب کی طرح بڑے افسر نہیں بنتے۔ ان کا مقدر یا تو جیل ہوتی ہے یا پھر موت۔‘‘ہر کوئی خاموشی سے چاچے کی بات سن رہا تھا۔بجلی آ گئی تھی۔ٹی وی چل رہا تھا۔لیکن کسی کو پروا نہیں تھی۔

’’ یہ دنیا ہمارے خون پسینے سے چلتی ہے۔ہماری مشقت سے سیٹھوں کے محل بنتے ہیں۔ہم مرتے ہیں تو یہ امیر لوگ جیتے ہیں۔انہوں نے اسی دنیا کو اپنے لئے جنت بنایا ہوا ہے اور ہمارے لئے جہنم۔وہ یہ کیسے برداشت کر سکتے ہیں کہ ان کی عیاشیوں کا خاتمہ ہو جائے۔او کوئی اپنی عقل کو ہاتھ مارو۔ یہ ووٹ ڈالنے سے اگر کوئی تبدیلی آتی توان الیکشنوں پر پابندی ہوتی۔یہ تو ناٹک ہے ہمیں بے وقوف بنانے کے لئے۔‘‘ 

’’ہاں بھئی۔ تو پھرکیا فیصلہ کیا ہے تو نے؟کس کو ووٹ دے گا؟‘‘چاچے نے آنکھیں پونچھتے ہوئے مسکرا کر اصغر سے پوچھا۔

’’مذاق مت کرو چاچا۔مجھے کچھ کچھ سمجھ آ گئی ہے۔لیکن اگر ایسا ہے تو پھر ہمارے حالات کیسے بدلیں گے۔اور کبھی بدلیں گے بھی یا نہیں؟‘‘

’’ارے کچھ بھی ایک سا سدا تو نہیں رہتا۔ بدلتا تو سب کچھ ہے۔آئے گی ۔ تبدیلی بھی آئے گی۔لیکن کاغذ پر ٹھپے لگانے سے نہیں۔‘‘چاچے نے بڑے عالمانہ انداز سے کہا۔

’’تو پھر کیسے چاچا؟‘‘

’’دیکھ پتر،مجھے زیادہ تو نہیں پتا لیکن زندگی سے اتنا ضرور سیکھا ہے کہ انسان کا مقدر اس کے اپنے ہاتھ میں ہی ہوتا ہے۔ جب ہم غریبوں کو روٹی کمانے کے لئے زمانے سے روز خود لڑنا پڑتا ہے تو پھر تبدیلی بھی کوئی بڑا لیڈر پلیٹ میں رکھ کر ہمیں نہیں دے گا۔ اس کے لئے بھی ہمیں خود ہی لڑنا ہو گا۔میرے جیسوں کی تو جیسے تیسے عمر گزر گئی لیکن تم جوان ہو۔ تمہاری تو پوری زندگی پڑی ہے۔یہ فیصلہ تم نے اور تمہارے ساتھ کے جوانوں نے کرنا ہے کہ تمہیں مل کر اپنے حالات بدلنے کے لئے لڑنا ہے یا پھر ساری عمر کاغذوں پر ٹھپے لگاتے ہی گزار دینی ہے۔‘‘یہ کہہ کر چاچے نے ٹھنڈی ہو کر شربت بنی چائے کا آخری گھونٹ بھرا اور جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔
گھر واپس آ کراصغر دیر تک انہی باتوں کے متعلق سوچتا رہا اور نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔پوری رات اسے عجیب وغریب خواب ستاتے رہے۔ کبھی ہاکی سے اس کا سر پھاڑا جاتا تو کبھی چیتا اس پر حملہ آور ہوتا۔ وہ ان دونوں سے بچتا ہی پھر رہا تھا کہ کھمبے سے اسے زور کا کرنٹ لگا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔صبح کی اذان ہو رہی تھی۔وہ کمرے سے باہر نکل کر صحن میں آ گیااور آسمان پر چھائے گہرے سیاہ بادلوں کو دیکھنے لگا۔

’’کئی دنوں سے بہت گرمی تھی۔ ہوا بھی بالکل بند تھی۔ سانس لینا مشکل ہو گیا تھا۔شکر ہے آج بارش ہو گی تو کچھ سکون ملے گا۔‘‘اسے اپنی ماں کی آواز سنائی دی۔

’’ہاں اماں۔ٹھیک کہہ رہی ہو۔جتنی گھٹن ہے، صرف بارش ہی نہیں ،طوفان آئے گا۔ اور ہر چیز کو دھو کر بالکل نیا کر دے گا۔‘‘اس نے مسکرا کر کہا اور ماں سے پیار لینے کے لئے سر جھکا دیا۔ 

Tags: × × ×

Comments are closed.