|تحریر: داؤ فیشیانگ، ترجمہ: ولید خان، یار یوسفزئی|
پچھلے دو ماہ میں چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کے سخت اقدامات نے پورے سماج کو حیران کر دیا ہے اور افواہوں کا بازار گرم ہو چکا ہے۔ ریاست نے کئی بڑی نجی کمپنیوں پر سخت نظم و ضبط لاگو کر دیا ہے اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری پر بھی وسیع ضابطوں کا اطلاق کر دیا ہے۔ ان اقدامات کے پیچھے کارفرما وجوہات کا خوفناک احاطہ ایک گم نام بلاگ پوسٹ میں کیا گیا جسے تمام بڑے ریاستی میڈیا اداروں نے بہت زیادہ پھیلایا۔ ”ہر کوئی محسوس کر سکتا ہے کہ ایک گہری تبدیلی کا عمل جاری ہے!“۔ لیکن کیا واقعی سی سی پی ریاست ایک سماجی تبدیلی کی قیادت کر رہی ہے؟ یا پھر ان اقدامات کا مقصد چین میں سرمایہ داری کی بنیادوں کا تحفظ ہے؟
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سرمایہ داروں پر کوڑوں کی برسات
اس سال جولائی میں سی سی پی کی صد سالہ تاسیسی سالگرہ کے بعد چینی ریاست نے نجی سیکٹر اور وسیع پیمانے پر مختلف صنعتوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اگست کے وسط تک دی اکانومسٹ نے اندازہ لگایا کہ ”لاتعداد کمپنیوں کے خلاف چکرا دینے والے نام نہاد جرائم کے حوالے سے 50 سے زائد ضابطہ کار اقدامات کئے گئے جن میں عدم اعتماد قوانین سے لے کر ڈیٹا قوانین کی خلاف ورزی تک سب شامل ہے۔ حکومتی پابندیوں اور جرمانوں کے خطرے نے اسٹاک مارکیٹ پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں جہاں سرمایہ کاروں کو 1 ٹریلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے“۔
ان اقدامات کا زیادہ تر اثر ٹیکنالوجی سے جڑی صنعت پر ہوا ہے جو پچھلے کچھ عرصے تک چینی معیشت کے سر کا تاج تھی۔ جولائی میں ریاست نے دیوہیکل رائڈ شیئرنگ کمپنی ’دی دی‘ کی ”سائبر سیکورٹی اور عوامی فلاح کے حوالے سے تشویش“ کی تحقیقات کیں۔ اس کے فوری بعد ریاست نے حکم نامہ جاری کر دیا کہ پورے ملک کے تمام بڑے ایپ سٹورز سے ’دی دی‘ کی 25 ایپس ختم کر دی جائیں۔ یہ اقدامات امریکہ میں ’دی دی‘ کے پبلک ہونے کے فوری بعد اٹھائے گئے جس کے نتیجے میں تمام بڑی چینی نجی کمپنیوں کے اسٹاک گر گئے کیونکہ ڈر پیدا ہو گیا تھا کہ اب دیگر کمپنیوں کی باری ہے۔
لیکن سب سے زیادہ بھاری ہتھوڑا جیک ما پر گرا۔ پہلے ہی 2020ء کے اختتام کے قریب جیک ما کے کاروباروں اینٹ گروپ اور علی بابا پر ریاست نے شدید ضابطے لاگو کر کے سزا دی۔ اس سال اپریل میں علی بابا پر ایک مرتبہ پھر عدم اعتماد قانون کے تحت 18.2 بلین RMB (2.8 ارب ڈالر) جرمانہ کیا گیا۔ اس ماہ علی بابا کو ریاست نے واضح طور پر حکم دیا کہ اپنے پلیٹ فارم پر مخالفین کے انٹرنیٹ لنک بلاک کرنا بند کرے۔ 13 ستمبر کو فنانشل ٹائمز نے بیجنگ پلان کا پردہ فاش کیا کہ جیک ما کے اینٹ گروپ کی سپر ایپ علی پے کے کاروبار کو کمپنی کے کنٹرول سے علیحدہ کر کے اینٹ گروپ اور ژجیانگ ٹورازم انوسٹمنٹ گروپ کے برابر اور مشترکہ کنٹرول میں دے دیا جائے۔
جیک ما کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے ”عوامی ارب پتی“ سلیبرٹی امیج کو کم کرے اور اب وہ پبلک میں کچھ کم پذیرائی پروگراموں میں چند ایک مرتبہ ہی نمودار ہوا ہے تاکہ وہ ریاست کے عتاب سے بچا رہے۔ لیکن چار ماہ گمنامی کی زندگی گزارنے کے بعد ایک ڈیجیٹل فارم پر معصومانہ طور پر منظر عام پر آنے کے فوری بعد ریاست کے سنٹرل کمیشن فار ڈسپلن انسپیکشن نے شور مچا دیا کہ کس طرح اجارہ داریاں ”منصفانہ مقابلہ بازی کو برباد“ کرتی ہیں اور ”مشترکہ خوشحالی (کے ہدف) کے خلاف کام کرتی ہیں“۔ اس وقت جیک ما پر تابڑ توڑ حملے کرنا ریاست کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے۔
نجی شعبے میں سی سی پی کی مداخلت صرف ٹیکنالوجی کی دیوہیکل اجارہ داریوں تک محدود نہیں ہے۔ ریئل اسٹیٹ کے سیکٹر میں بھی طوفان برپا ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی ریئل اسٹیٹ کمپنیوں میں شمار ایور گراندے گروپ مرکزی ہدف بنا ہوا ہے۔ 19 جولائی کو ایک چینی عدالت نے قرضہ جات واپس ادا نہ کرنے کی سزا میں ایور گراندے گروپ کی مرکزی ذیلی کمپنی ہینگدا ریئل اسٹیٹ گروپ کا 132 ملین RMB (20 ملین ڈالر) ڈپازٹ منجمد کر دیا۔ 19 اگست کو پیپلز بینک آف چائینہ اور چوٹی کی ریگولیٹری ایجنسیوں نے ایور گرینڈ گروپ کے سربراہوں سے ملاقات کی اور انہیں حکم دیا کہ فوری طور پر کمپنی کا واجب الادا قرضہ ادا کیا جائے جو اس وقت 57 ارب RMB (8.9 ارب ڈالر) تک پہنچ چکا ہے۔ بلومبرگ کے مطابق بیجنگ نے گوانگ دونگ انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ کمپنی کے قرضہ جات کے مسائل کا حل نکالا جائے جس میں اثاثہ جات کے ممکنہ خریداروں کے ساتھ تعاون بھی شامل ہے۔
ٹیکنالوجی سیکٹر اور ریئل اسٹیٹ کے علاوہ اشیائے خورد و نوش کی دیوہیکل ڈلیوری کمپنی میتوان کو بھی حال ہی میں 100 ملین ڈالر عدم اعتماد قوانین کی خلاف ورزی کا جرمانہ کیا گیا ہے جبکہ نجی ٹیوٹر صنعت۔۔100 ارب ڈالر سالانہ مالیت۔۔کو بغیر منافعے کے کام کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے اور موسمِ گرما کی کلاسیں منعقد کرانے سے روک دیا گیا ہے۔
مندرجہ بالا اقدامات CCP کے لئے نئے نہیں ہیں۔ پچھلے دو سالوں سے وہ مسلسل ریگولیشنز متعارف کرا رہے ہیں تاکہ منڈی میں استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔ اب فرق یہ ہے کہ اس وقت اس طرح کے بڑھتے اقدامات کا عمل تیز تر اور وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ منڈی کو ریگولیٹ کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو رہی ہیں اور نتیجے میں پوری چینی معیشت عدم استحکام کا شکار ہو رہی ہے۔ اس لئے ریاست کو بار بار مداخلت کر کے آوارہ سرمایہ داروں کو ڈنڈے مار کر واپس نظم میں لانا پڑتا ہے۔
سلیبریٹیز کی سنسرشپ
چین میں نجی شعبے کو جھنجھوڑنے کے ساتھ چینی ریاست نے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری پر بھی حملہ کیا ہوا ہے۔ اگست میں کئی ہائی پروفائل سلیبریٹیز کو ”داغ دار ستارے“ کہا گیا اور ان پر بھاری جرمانے عائد کرنے سے لے کر کام کرنے کا حق تک چھین لیا گیا۔ آن لائن انٹرٹینمنٹ سائٹس اور سوشل نیٹ ورکس پر کئی نئی ریگولیشنز لاگو کر دی گئیں۔ پرستاروں کی کمیونٹیز پر لازم ہے کہ وہ سلیبرٹی منیجمنٹ کمپنیوں کے ساتھ رجسٹر ہوں اور ان کی نگرانی میں رہیں۔
ظاہر ہے کہ ریاست کوشش کر رہی ہے کہ ان کے خیال میں انٹرٹینمنٹ انڈسٹری نے جس شدید مادیت پسندی اور زہریلی تہذیب کو جنم دیا ہے اسے کنٹرول کیا جائے۔ یہ سچ ہے کہ چین میں پرستاروں کی تہذیب یا ”فانکوان“ ایک شدید زہریلا عنصر ہے۔ پاگل پرستاروں کو مقابلوں، پروگراموں اور دیگر سرگرمیوں میں متحرک کر کے فانکوان سے منسلک معیشت پرستاروں کے پیسوں سے لبا لب بھری ہوئی ہے۔ اندازوں کے مطابق 2019ء میں چینی تہذیبی اور انٹرٹینمنٹ صنعت کی کل آمدنی 152 ارب RMB رہی۔
انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی طرف سے کی جانے والی جارحانہ مارکیٹنگ کا مقصد خود منظم پرستار کلبوں کو انتہائی سرگرمیوں کی طرف راغب کرنا ہے۔ مثال کے طور پر ایک سلیبرٹی مقابلہ شو ”یوتھ وِد یو 3 (Youth With You 3)“ نے ووٹنگ کا ایک طریقہ کار متعارف کرایا کہ آپ مینگ نیو ڈیئری دودھ کے ڈھکنوں پر چھپے ٹکٹ اکٹھے کر کے اپنے محبوب سلیبرٹی کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بیسیوں ہزاروں پرستاروں نے دیو ہیکل پیسہ اکٹھا کیا (6 گھنٹوں میں کروڑہا RMB) جس کے ذریعے ہزاروں بوتلوں کے ڈھکن خریدے گئے اور غیر استعمال شدہ دودھ ضائع کر دیا گیا۔
ان حیران کن واقعات کے ساتھ وسیع پیمانے پر آن لائن بدمعاشی، ڈوکسنگ (کسی بھی شخص کی نشاندہی کے لئے اس کی تفصیل آن لائن شائع کر دینا جس کا مقصد تذلیل کرنا یا نقصان پہنچانا ہو) اور ”دشمنوں“ کی پلیٹ فارموں پر یا فانکوان کلچر میں موجود انتظامیہ کو مخبری کرنا معمول بن چکا ہے۔ اگر دو یا زیادہ سلیبریٹیز عوامی طور پرآپس میں الجھ پڑیں تو آن لائن کروڑوں پرستار اپنے دھرتی پر خدا کے دفاع میں ایک دوسرے کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ اس لئے یہ جاننا کوئی مشکل نہیں کہ سی سی پی کے سرکاری اعلامیے میں فانکوان کلچر کو ”ہنگامہ“ قرار دیا گیا ہے۔
اگرچہ ان وجوہات پر کئی عام انٹرنیٹ صارفین فانکوان کلچر پر ریاستی کریک ڈاؤن کا خیر مقدم کریں گے لیکن ہمیں دوسرے پہلوؤں پر بھی نظر رکھنی ہو گی کہ کس طرح چینی انٹرٹینمنٹ کلچر ریاست کے اولین ایجنڈہ یعنی سماجی استحکام اور سب سے بڑھ کر سی سی پی کی حاکمیت کے خلاف ہے۔
فانکوان کلبوں کے ترکیب شدہ تماشوں کے پیچھے پرستار حیران کن طور پر منظم ہیں۔ وہ دیو ہیکل پیمانے پر مرکزیت پر مبنی انتہائی منظم انداز میں سرگرمیاں کر چکے ہیں۔ اگرچہ یہ سرگرمیاں غیر سیاسی، غیر پیداواری یہاں تک کہ رجعتی بھی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ ریاست کی گرفت سے باہر ہیں اور یہی سب سے بڑا خطرہ ہے۔ سی سی پی کا ہدف چین میں زندگی کے ہر پہلو پر اپنی نظر اور اختیارات کو مضبوط تر کرنا ہے تاکہ طبقاتی جدوجہد کو دبایا جا سکے اور اس نے بہتر یہی سمجھا ہے کہ فانکوان کلبوں کی کڑی نگرانی کی جائے۔
سلیبریٹیز کی تطہیر کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سلیبریٹیز خود عوامی شعور میں ایک ترقی پسند کردار ادا کر رہے ہیں۔ یقینا وہ ایسا نہیں کرتے۔ لیکن ان کی پر آسائش زندگی اور سی سی پی ریاست کے کچھ سیاسی مخالفین کے ساتھ وقتاً فوقتاً قربت ایسے غم و غصے کو ابھار سکتی ہے جو سی سی پی کے قابو میں نہ ہو۔
مثال کے طور پر گائیک اور ٹی وی فنکار ’کرس وو‘ کو ایک مشہور زمانہ ریپ اسکینڈل اور کینیڈین پاسپورٹ رکھنے کے جرم میں ”داغ دار فنکار“ بنا دیا گیا۔ غیر ملکی پاسپورٹ رکھنے والا ایک کروڑ پتی سلیبریٹی، جو اپنی مرضی کا مالک ہو، کا خیال سطح کے نیچے بڑے پیمانے پر طبقاتی غصّے کو بھڑکانے کا سبب بن سکتا تھا۔ چنانچہ اس غصے کا اظہار ہونے سے پہلے پہلے ریاست نے قدم اٹھا کر ’وو‘ کو منظرِ عام سے ہٹا دیا۔
دوسری مثال ژاؤ وی کا زوال ہے، جو چینی دنیا کی سب سے معروف اداکاراؤں میں سے ایک ہے۔ اگست کے اواخر میں، ژاؤ کو تمام بڑے ویڈیو سٹریمنگ پلیٹ فارمز سے ہٹا دیا گیا۔ ژاؤ کی تطہیر کے حوالے سے کوئی بھی سرکاری وضاحت نہیں دی گئی۔ البتہ، اسی دن، ریاستی اخبار گلوبل ٹائمز نے ایک مضمون شائع کیا جس میں 2001ء سے لے کر اب تک ژاؤ کے مختلف ”چین مخالف“ سکینڈلز کا ذکر کرتے ہوئے اس کی سمندر پار مہنگی پراپرٹیوں پر بھی بات کی گئی۔ یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ ژاؤ اور اس کے شوہر ہوانگ یولونگ کے جیک ما کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، جبکہ یولونگ ’علی بابا پکچرز‘ کا دوسرا بڑا شیئر ہولڈر ہے۔ ممکن ہے کہ سی سی پی ریاست جیک ما کے خلاف جو اقدامات اٹھا رہی تھی، ژاؤ بھی اسی کی ضد میں آ گئی۔
چین کا پُر انتشار شوبز اور سلیبریٹی کلچر حتمی تجزیے میں سرمایہ داری کی بحالی کا نتیجہ ہے۔ اگرچہ یہ جدید چینی سماج کے دیگر پہلوؤں سے بہت کم ”قابلِ احترام“ اور ”مہذب“ معلوم ہوگا، مگر یہ بہرحال گہرے طور پر بیگانگی کے شکار معاشرے کا ایک فطری نتیجہ ہے، جس کے اندر لوگوں کی اکثریت انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کی بجائے مالکان کے لیے منافعے پیدا کرنے کی مشین بنے رہتے ہیں۔ ستاروں کے فینز اپنی ذاتی زندگی سے بہت توقعات نہیں رکھتے اور اسی لیے اپنی امیدوں اور خوابوں کو سلیبریٹیز سے وابستہ کر دیتے ہیں، تاکہ ان کے پاس زندگی سے لطف اٹھانے کی کوئی تو وجہ ہو۔
ان بے شمار پرستاروں کی بچگانہ حرکتیں شاید ہر کسی کو ٹھیک نہ لگتی ہوں، مگر ایک ایسے دور میں جب نوجوانوں کو اپنے مستقبل سے کوئی امید نہ ہو اور ”چینی خواب“ کے جھوٹے وعدوں پر یقین کرنے کی بجائے (لائی فلیٹ تحریک کے ذریعے) بے کار لیٹے رہنے کو ترجیح دیتے ہوں، وہ اپنی روزمرہ زندگی کی مایوسی کو دور کرنے کے لیے دیگر مواقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ فین کلبز اگرچہ الجھن کا شکار ہوتے ہیں، مگر کم از کم ان سے نوجوانوں کے بیچ برادری، یکجہتی اور مقصد کا وہ احساس زندہ رہتا ہے جس سے نام نہاد ”سوشلسٹ منڈی“ کی معیشت نے انہیں محروم کر دیا ہے۔ ریاست پرستاروں کے اوپر ایک حد تک حملے تو کر سکتی ہے، مگر وہ نوجوانوں کو موجودہ سے بہتر زندگی کی خواہش رکھنے کے حق سے محروم نہیں کر سکتی۔ جلد یا بدیر، یہی خواہش چینی نوجوانوں کی بڑی تعداد کے بیچ سیاسی شعور کے ابھار کا باعث بنے گی۔
ایک ”خالص انقلاب“ یا وہی پرانا نظام؟
پچھلے دو مہینوں کے اندر سی سی پی کی جانب سے لیے گئے سخت اقدامات کا جواز ایک بلاگ پوسٹ میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی، جسے تمام بڑے ریاستی میڈیا نے شائع کیا۔ اس کا عنوان تھا ”ہر کوئی محسوس کر سکتا ہے کہ ایک گہری تبدیلی کا عمل جاری ہے!“، جس سے وسیع پیمانے پر یہ سمجھا جانے لگا کہ یہ در حقیقت سی سی پی قیادت کا منشور ہے، اور شاید یہ ان کے بائیں جانب جھکاؤ کی نشانی ہے۔
پوسٹ میں وضاحت کی گئی کہ نجی سیکٹر اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے خلاف سی سی پی کے حالیہ اقدامات اس بات کو یقینی بنانے کی خاطر اٹھائے گئے ہیں کہ امریکی جارحیت کا سامنا ہوتے ہوئے چین کہیں سوویت یونین کی طرح منہدم نہ ہو جائے۔ پوسٹ میں ان پالیسیوں کو ”خالص انقلاب“ کا حصّہ قرار دیا گیا جو:
”’سرمایہ دار ٹولے‘ سے لوگوں کی جانب واپسی ہے، ’سرمایہ دارانہ مرکزیت‘ سے ’عوامی مرکزیت‘ کی جانب۔ چنانچہ یہ ایک سیاسی تبدیلی ہے جس کے باعث ایک دفعہ پھر عوام کو ترجیح دی جائے گی، اور اس عوامی مرکزیت کی راہ میں حائل ہونے والے تمام افراد کو سامنے سے ہٹا دیا جائے گا۔“
اس قسم کے لہجے نے، جو ماؤ کے دور کی یادگار ہے، بہت سے سرمایہ داروں سمیت مغربی ممالک کو بھی پریشان کر دیا۔ بیرونِ ملک چینی مخالفین کا کہنا ہے کہ ریاست ”دوسرے ثقافتی انقلاب“ کا آغاز کر رہی ہے۔ اگست میں ریاست کی جانب سے ”مشترکہ خوشحالی“ کا نعرہ دے کر کہا گیا تھا کہ ”سوشلزم میں عدم مساوات قائم نہیں رہ سکتی“، جس نے سرمایہ داروں کی پریشانی میں مزید اضافہ کیا۔
بہرحال، ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ کیا چین میں واقعی ایک ”خالص انقلاب“ رونما ہو رہا ہے۔ مارکس وادیوں کے نزدیک، انقلاب کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سیاسی نظم و ضبط اور سماجی و معاشی نظام کا تختہ مکمل طور پر الٹ دیا جائے۔ سوشلسٹ انقلاب وہ ہوتا ہے جس میں محنت کش طبقہ سرمایہ دار طبقے کا تختہ الٹ کر ایک منصوبہ بند اور جمہوری معیشت قائم کرتا ہے، جس کو پھر ملکی سرحدوں سے باہر پھیلانا ہوتا ہے۔
چین کے اندر فی الحال کوئی سیاسی انقلاب رونما نہیں ہو رہا، کیونکہ سی سی پی آمریت ابھی تک بر سرِ اقتدار ہے۔ البتہ ایک مناسب سوال جو بہت سے لوگ کر رہے ہیں، معاشی نوعیت کا ہے: ”کیا چین ماؤ کے دور کی طرح منصوبہ بند معیشت کی جانب لوٹ رہا ہے؟“
سی سی پی حکومت کی جانب سے حالیہ برسوں میں لیے گئے اقدامات یقیناً مغربی ممالک کے سرمایہ داروں کی نظر میں کافی سخت قسم کے ہیں۔ یقیناً مغربی ممالک اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ریاست کا ان اقدامات کے اہل ہونے کی پہلی وجہ یہ ہے کہ چین میں سرمایہ دار طبقہ پارٹی کی افسر شاہی کے ماتحت ہے، جبکہ اس کے برعکس مغربی سیاستدان سرمائے کے ماتحت ہوتے ہیں۔ مغربی ممالک اور چین کے کئی سرمایہ دار طاقتوں کے اس توازن سے کافی پریشان ہیں، جنہیں ڈر ہے کہ افسر شاہی کے غیر متوقع اقدامات ان کے منافعوں کے راستے میں رکاوٹ بنیں گے، حتیٰ کہ حکومت بعض سرمایہ داروں کی ملکیت پر قبضہ بھی کر سکتی ہے۔ پریشان جارج سوروس نے فنانشل ٹائمز میں لکھتے ہوئے خبردار کیا کہ شی ”ماؤ زے تنگ کی پارٹی کا اپڈیٹڈ ورژن مسلط کر رہا ہے۔“
البتہ، قریب سے معائنہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ان اقدامات میں سے کوئی بھی چینی معیشت کے اندر بنیادی تبدیلی نہیں لائے گا۔ ریاست کا مرکزی ہدف پُر انتشار منڈی کی معیشت کو جڑ سے اکھاڑنا نہیں بلکہ اس کی مرمت کرنا ہے۔ وہ امید کر رہے ہیں کہ ان سخت اصولوں اور نگرانی کے ذریعے عدم استحکام پیدا کرنے والے اور آوارہ سرمایہ داروں کو قابو میں رکھا جائے گا، تاکہ ”غیر جانبدار مقابلہ بازی“ اور ”صحت مند منڈی“ کو یقینی بنایا جا سکے۔ اسی لیے دیوہیکل جرمانے لگانے، کمپنیوں کی جبری ترتیبِ نو کرنے اور انفرادی کاروباری اشخاص کو ذلیل کرنے کے باوجود وہ معاشی بنیادیں جوں کے توں برقرار ہیں جس کے باعث یہ بڑی بڑی کمپنیاں پروان چڑھی تھیں۔ یقیناً، مختلف ”اینٹی ٹرسٹ“ اقدامات کے باوجود چینی معیشت میں ان سرمایہ داروں کا غالب کردار اب بھی برقرار ہے۔
حتمی تجزیے میں، سی سی پی کے اقدامات انقلابی نہیں بلکہ اصلاح پسند نوعیت کے ہیں۔ وہ امید کر رہے ہیں کہ ریاستی نگرانی کے ذریعے مزید قواعد و ضوابط متعارف کرانے سے اجارہ داری، پُر خطر سرمایہ کاری، بحران اور ان دیگر مسائل کے ”نقائص“ سے بچا جا سکے گا جس نے مغربی ممالک کی معیشتوں کو ڈبو دیا ہے۔ ان کے خیال میں، طاقتور اور منظم ریاستی مداخلت اور نگرانی کے ذریعے نجی ملکیت اور اجتماعی پیداوار کے بیچ موجود تضادات پر قابو پایا جا سکتا ہے، اور وقفہ بہ وقفہ آنے والے زائد پیداوار کے بحران سے نکلا جا سکتا ہے۔ اگر پارٹی کی افسر شاہی ایسا کرنے میں کامیاب ہوگی تو پھر عوام کے سامنے ”کمیونسٹ پارٹی“ کی آمریت کا جواز پیش کرنا ممکن ہوگا۔
بطورِ مارکس وادی، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ یوٹوپیائی خام خیالی ہے۔ منڈی کی معیشت میں منافعوں کی غرض سے فطری طور پر پُر خطر سرمایہ کاری، دھوکہ دہی، یا ”غیر ذمہ دارانہ کاروباری اقدامات“ پائے جاتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انفرادی طور پر کسی کو سزا دی جائے یا پابندیاں لگائی جائیں، سرمایہ داری کے ہوتے ہوئے آوارہ سرمایہ دار جنم لیتے رہیں گے۔ مزید برآں، سرمایہ داری ایک ایسا نظام ہے جو سماج کی طبقاتی تقسیم کی بنیادوں پر قائم ہے، جس میں اقلیتی حکمران طبقہ غالب رہ کر اکثریتی محنت کش طبقے کا استحصال کرتا ہے۔ جب تک سرمایہ داری کی بنیادیں برقرار رہیں گی۔۔۔یعنی نجی ملکیت، منڈی کا انتشار اور منافعوں کی دوڑ۔۔۔تب تک استحصال کرنے والے اور استحصال زدہ شخص کے درمیان برابری قائم نہیں کی جا سکتی۔ صرف یہی نہیں بلکہ سرمایہ داری ناگزیر طور پر وقفے وقفے سے زائد پیداوار کے بحران کو جنم دیتی ہے۔ کسی قسم کی پابندیاں اس کو روک نہیں سکتیں، جو آج چین میں بھی واضح ہے۔ اس نظام کے فطری تضادات کا خاتمہ کرنے کا واحد راستہ مزدور جمہوریت کے تحت ایک منصوبہ بند جمہوری معیشت کا قیام ہے۔ مگر ایسا کرنے میں سی سی پی کی کوئی دلچسپی نہیں۔
چنانچہ یہ اقدامات ”خالص انقلاب“ کے بالکل متضاد ہیں۔ یہ در حقیقت اس نظام کو محفوظ رکھنے کی کوشش ہے جو پچھلی دو دہائیوں سے چین میں قائم ہے۔ مذکورہ بالا بلاگ پوسٹ کی اشاعت کے بعد، شی جن پنگ نے بیجنگ میں ایک نئی سٹاک ایکسچینج کا افتتاح کیا، جبکہ سی سی پی کے معیشت دان ’لیو ہی‘ نے یقین دہانی کرائی کہ ”نجی سیکٹر کے حوالے سے پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے اور مستقبل میں بھی نہیں کی جائے گی۔“ ابھی ”مشترکہ خوشحالی“ کا نعرہ متعارف ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا جب پارٹی کی جانب سے سرمایہ دار طبقے کو یقین دہانی کروائی گئی کہ مشترکہ خوشحالی ”امیروں کو لوٹ کر“ نہیں حاصل کی جائے گی۔
ان حفاظتی اقدامات میں اضافہ محض اسی وجہ سے دیکھنے کو مل رہا ہے کیونکہ چینی سرمایہ دارانہ معیشت کو درپیش خطرات میں بڑے پیمانے پر شدت آئی ہے۔ امریکہ کی جانب سے بڑھتا ہوا دباؤ بھی سی سی پی ریاست کو مجبور کر رہا ہے کہ ان ملکی قوتوں کا خاتمہ کریں جو اس کے خلاف استعمال کیے جا سکتے ہیں، خاص کر طاقتور سرمایہ دار اور آن لائن منظم ہونے والے گروہ۔ شی اور سی سی پی کی بد قسمتی یہ ہے کہ ان پالیسیوں کے ذریعے چینی سماج میں پنپنے والے بحران کو روکا نہیں جا سکتا۔
بدلتا منظرنامہ
چینی معیشت اگرچہ مغربی ممالک کی نسبت وباء کے بعد بہتر طریقے سے بحال ہو رہی ہے، مگر اس کے باوجود اسے کرونا سے پہلے والے مسائل درپیش ہیں۔ 2021ء کے دوسرے نصف میں معاشی سست روی کے آثار تیزی کے ساتھ دکھائی دے رہے ہیں۔ اگست کے مہینے میں کھپت اور سرمایہ کاری کی شرحِ نمو پچھلے سال کی نسبت کم تھی۔
اہم بات یہ کہ یہ تحریر لکھتے وقت، قرضے کا دیوہیکل بم کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ رئیل اسٹیٹ کی مذکورہ بالا کمپنی ایور گرینڈ گروپ شدید بحران کا شکار ہے۔ 14 ستمبر کو، افواہیں گردش کرنے لگیں کہ ایور گرینڈ دیوالیہ ہونے کا اعلان کرنے جا رہی ہے۔ اسی دن، سرمایہ کاروں کی بڑی تعداد بیجنگ میں موجود ایور گرینڈ کے ہیڈکوارٹر سے اپنے پیسے واپس لینے کا مطالبہ کرنے لگی۔ 15 ستمبر کی صبح، چین کی ”منسٹری آف ہاؤسنگ اینڈ اربن رورل ڈیولپمنٹ“ نے ایور گرینڈ کی طرف سے اعلان کیا کہ وہ 20 ستمبر کو واجب الادا قرض کی شرحِ سود پورا نہیں کر پائے گی۔ کہا جا رہا ہے کہ ریاست حالات کو سنبھالنے کے لیے منتظمین کی ایک ٹیم ایور گرینڈ روانہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ یہ ابھی دیکھنا باقی ہے کہ قرض کا یہ بحران کس نوعیت کا ہوگا اور اس کے کیا ٹھوس اثرات مرتب ہوں گے، مگر ہر شعبے میں اس بحران کے امکانات کے حوالے سے واضح پریشانی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ بلومبرگ نے وضاحت کی کہ ایور گرینڈ کا دیوالیہ پن ”بینکوں اور سرمایہ کاروں کو اربوں ڈالر کا قرضدار بنا سکتا ہے۔“
چین کے اوپر ایور گرینڈ کے بحران کے خصوصی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، البتہ چین کافی عرصے سے قرض کے نہ رکنے والے بحران کے امکانات سے پریشان ہے۔ سرکاری شعبوں کو بھی قرض کے دیوہیکل مسائل کا سامنا ہے۔ پچھلے سال کے اواخر میں، مختلف صنعتوں کی متعدد ریاستی کمپنیاں قرض کے حوالے سے دیوالیہ پن کا شکار ہو گئی تھیں، جس نے منڈی میں ہنگامہ برپا کر دیا تھا۔ اس وقت ریاست بحران کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھ گئی تھی، مگر ریاستی مداخلت سے قرض کا بحران جادوئی طور پر ختم نہیں ہو جائے گا۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر دیوالیہ پن کا مسئلہ حل ہوتے ہوتے کئی سال لگائے گا، جو معیشت کو بارہا مشکلات سے دوچار کرتا رہے گا۔
چینی معیشت کی اصل حالت کی یہ چند واضح مثالیں ہیں، جن سے پوری صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں؛ چین ایک بڑے معاشی بحران کے دہانے پر ہے اور جلد یا بدیر کوئی بھی چیز اس کے لیے چنگاری بن سکتی ہے۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ ریاست کس طرح سے ان بحرانی لہروں کو روکنے کی کوشش کرے گی۔
مشکلات میں گھری ریاست
سرمایہ دار طبقے اور سی سی پی ریاست کو معاشی بحران درپیش ہونے سے پہلے ہی چینی سماج میں وسیع پیمانے پر بے چینی پائی جا رہی تھی۔ سیاسی عدم استحکام سی سی پی کی پریشانیوں میں پہلے نمبر پر ہے۔
سی سی پی اس حقیقت کو اچھالتی رہتی ہے کہ دیگر مغربی ممالک کی نسبت چین میں بہتر بحالی دیکھنے کو ملی ہے۔ یہ اگرچہ سچ ہے، مگر اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ چینی سماج کے اندر موجودہ سماجی تضادات دوبارہ سے پروان چڑھنا شروع ہو گئے ہیں۔
اس سے انٹرنیٹ پر اچانک ابھرنے والی بے چینی کی وضاحت ہو جاتی ہے، جس میں کسی ایک یا دوسری شکل میں حال سے بیزاری اور مستقبل سے نا امیدی کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ ایک نوجوان محنت کش جسے اجرت نہیں دی گئی تھی کی خودکشی، اور علی بابا کی اعلیٰ انتظامیہ کی جانب سے جنسی ہراسانی پر پردہ ڈالنے کی کوشش جیسے مختلف واقعات کے بارے میں انٹرنیٹ پر بحث مباحثے کیے جا رہے ہیں، جس کے اندر بجا طور پر نظام کے خلاف طبقاتی غصّہ پایا جا رہا ہے۔ اوقاتِ کار کے نفرت انگیز نظام ”996“ (ہفتے کے چھے دن صبح نو بجے سے رات نو بجے تک) کے خلاف ابھرنے والا غصّہ اس درجے کا تھا کہ ریاست قدم اٹھانے پر مجبور ہوئی۔ 27 اگست کو، سپریم کورٹ نے 996 نظام کو غیر قانونی قرار دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے گا یا نہیں۔
بہرحال ریاست کی جانب سے اس بے چینی کے خاتمے کے لیے محض رعایتوں کی پیشکش نہیں کی جا رہی۔ بلکہ وہ وحشیانہ جبر کے ذریعے بھی جواب دے رہی ہے۔ چین کے جرأت مند طبقاتی جنگجوؤں کو ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے جس طرح کی سزائیں دی جا رہی ہیں، وہ بڑی کمپنیوں پر لگائی جانے والی پابندیوں سے بہت زیادہ سخت ہیں۔ مارچ کے مہینے میں، ایک ڈیلیوری ورکر کو ہڑتال منظم کرنے کی کوشش کرنے اور سرکاری ٹریڈ یونینز سے الگ یونین بنانے کے باعث گرفتار کیا گیا۔ ستمبر کے اوائل میں ہانگ کانگ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ایک شخص، جو گوانگشی میں مزدور قوانین پڑھ رہا تھا، پر ”ریاستی اتھارٹی کو پسِ پشت ڈالنے“ کا الزام لگا کر گرفتار کیا گیا۔
اگرچہ سیاسی عدم استحکام کا خطرہ زیادہ تر سطح کے نیچے پایا جا رہا ہے، سی سی پی کے اندر ایک اور عنصر بھی ہے جو اس کی اوپری قیادت کے لیے مسئلہ بن سکتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے وضاحت کی ہے، سی سی پی کی صفوں میں بورژوازی کی موجودگی بڑھ رہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال جیک ما کی ہے، جو پارٹی کا رکن ہے۔ اگرچہ ابھی کے لیے وہ پارٹی کا اقتدار سنبھالنے یا شی جن پنگ کو للکارنے کے بارے میں نہیں سوچ سکتے، مگر وہ پھر بھی افسر شاہی کے بیچ اپنی حیثیت مزید مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے۔ حالیہ عرصے میں، ژجیانگ صوبے میں ہانگژو شہر کا پارٹی سیکرٹری ژو جیانگونگ کو عہدے سے ہٹا کر حراست میں لیا گیا۔ ہانگژو میں علی بابا کے ہیڈ کوارٹرز قائم ہیں، جبکہ ژو کے خاندان کی جیک ما کے ساتھ قریبی وابستگی ہے۔ مزید برآں، ژجیانگ کے 25 ہزار پارٹی کیڈرز کو حکم جاری کیا گیا کہ وہ اپنے غیر مناسب کاروباری تعلقات پر ’’خود احتسابی‘‘ کریں۔
اس صورت حال میں یہ واضح ہے کہ سی سی پی کا ایک اچھا خاصا حصہ براہ راست سرمایہ داروں سے تعلق میں ہونے کی وجہ سے مرکز میں موجود پارٹی کی قیادت کے برعکس ان کے دباؤ کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔ یہ پارٹی کی قیادت کے لیے ایک اور خطرہ بن سکتا ہے اگر وہ ان کے خلاف اقدامات اٹھاتی رہی۔
سی سی پی ریاست پر یہ واضح ہو جائے گا کہ جیسے جیسے معاشی تضادات شدت اختیار کرتے جائیں گے، اوپری اور نچلی سطح سے دباؤ میں بھی اضافہ ہوگا۔ شی جن پنگ اور سی سی پی اس کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتی کہ چینی طبقات کے بیچ احتیاط کے ساتھ بوناپارٹسٹ توازن قائم کرنے کی کوشش کرے، مگر پنپنے والے طاقتور معاشی بحرانوں کی وجہ سے ان کی یہ کوشش مزید پیچیدہ، نازک اور مشکل ہوتی جائے گی۔
سی سی پی کی جانب سے حالیہ سخت اقدامات کا سلسلہ تبدیلی کی جانب انقلابی سفر کا آغاز نہیں، بلکہ یہ ’سٹیٹس کو‘ برقرار رکھنے کی بیتاب کوشش ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کو پریشانی لاحق ہے کہ کہیں چین منصوبہ بند معیشت کی طرف لوٹ نہ جائے، مگر سی سی پی کے یہ اقدامات دراصل چین میں معاشی بحران کو روکنے کی کوششیں ہیں۔ اور اس سب میں چینی محنت کشوں اور نوجوانوں کے مفادات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس مرحلے پر سی سی پی انہیں ”مشترکہ خوشحالی“ کے جھوٹے نعروں کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتی۔
بہرحال، سی سی پی ریاست چاہے جتنی بھی طاقتور ہو جائے، وہ سرمایہ دارانہ تضادات کے ہاتھوں سماجی استحکام کو اُلٹنے سے روکنے کی اہل نہیں ہے۔ ایور گرینڈ کے قرض کا بحران آنے والے بحرانوں کے لیے چنگاری ثابت ہو سکتا ہے۔ مارکس وادیوں کو ان واقعات اور ان کے نتائج پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس مستقبل کی پیشگوئی کرنے کا کوئی جادوئی طریقہ موجود نہیں ہے۔ مگر ہم یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ چین کے اندر حکمران طبقے کی پریشانی کو ہر کوئی محسوس کر سکتا ہے۔