’’آزاد‘‘ کشمیر: عوامی تحریک کی طبقاتی ساخت

|تحریر: یاسر ارشاد|

گزشتہ پانچ ماہ کے دوران نام نہاد آزاد کشمیر میں سماج کی مکمل کایا پلٹ گئی ہے۔ مہنگی بجلی اور مہنگے آٹے کے خلاف شروع ہونے والی احتجاجی تحریک ایک عوامی بغاوت میں تبدیل ہو چکی ہے۔ کشمیر کے طول و عرض میں عوامی ایکشن کمیٹیوں میں منظم عوام نے دو ماہ سے بجلی کے بل جمع کرانے بند کر دیے ہیں اور ماہ اکتوبر میں بلوں کے بائیکاٹ کی مہم کو سو فیصد تک لے جانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ دور افتادہ دیہاتوں سے لے کر کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد تک تحریک کی شدت کم و بیش ایک جیسی ہے جس میں لاکھوں لوگ احتجاجوں میں شریک ہوتے رہے اور یہ اس خطے کی پوری تاریخ میں پہلی ایسی تحریک ہے جس میں عوام اپنے بنیادی حقوق کی مانگ لے کر بغاوت کر چکے ہیں۔ یہ بغاوت سماج کے ہر رگ و ریشے میں سرائیت کر چکی ہے اور سماج کی سب سے کچلی ہوئی اور غیر سرگرم پرتیں بھی اب تحریک کا متحرک حصہ بنتی جا رہی ہیں۔

10 اکتوبر کو کشمیر کی تاریخ کے غیر معمولی واقعات رونما ہوئے جب نام نہاد آزاد کشمیر کے ہر دیہی اور شہری مرکز میں ہزاروں خواتین نے احتجاجی ریلیاں منعقد کیں۔ رجعت پسندوں، ریاست اور دیگر غیرت و ناموس کے نام نہاد ٹھیکیداروں کی بھرپور مخالفت کے باوجود خواتین نے صدیوں کی غلامی کی ہر بیڑی کو توڑ کر چوکوں اور چوراہوں میں فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے اعلان بغاوت کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ ہزاروں خواتین کے احتجاجوں نے حکومت کو تحریک کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور پانچ ماہ سے جو حکومت اس تحریک کو سازشی عناصر کی کارستانی قرار دے رہی تھی وہی حکومت اب جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کا اعلان کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔

برصغیر کے بٹوارے کے بعد پون صدی کی تاریخ اس خطے کی پاک و ہند سے آزادی حاصل کرنے کے لیے چلنے والی تحریکوں اور ان تحریکوں کو کچلنے کے لیے پاک وہند کی سامراجی ریاستوں، بالخصوص ہندوستانی ریاست کی جانب سے کیے جانے والے خونریز اور وحشیانہ جبر سے بھری پڑی ہے اور یہی تحریکیں اور جبر کی داستانیں اس خطے کی ایک پہچان بن چکی تھیں۔ دونوں سامراجی ریاستوں کے حکمران اور ذرائع ابلاغ اپنے مخالف کے زیر قبضہ خطے میں ابھرنے والی تحریکوں اور احتجاجوں کی تشہیر کے ذریعے اپنے اپنے عوام کے شعور پر ایک مصنوعی دشمنی مسلط کرتے رہے اور مسئلہ کشمیر کو اپنی لوٹ مار اور استحصال جاری رکھنے کے ایک خارجی اوزار کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں۔ لیکن موجودہ تحریک کا کردار ماضی کی تحریکوں سے یکسر مختلف ہے اسی لیے اس تحریک کی جانب ان سامراجی ریاستوں کے ذرائع ابلاغ کا رویہ بھی تبدیل ہو چکا ہے۔

نام نہاد آزاد کشمیر کی یہ پہلی عوامی بغاوت ہے جس پر ہندوستانی ذرائع ابلاغ بھی مکمل خاموش ہیں اور پاکستانی ذرائع ابلاغ نے ایک مجرمانہ بلیک آؤٹ کر رکھا ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں پہلے تو اس عظیم عوامی تحریک کی کوئی خبر ہی نہیں دی جاتی اور اگر سوشل میڈیا کے ذریعے بے پناہ تشہیر سے مجبور ہو کر خبر دینے پر مجبور ہو جائیں تو اس تحریک کو توڑ مروڑ کر اور مسخ کر کے حکمرانوں کے ایک حصے کے خلاف اور دوسرے حصے کے حق میں ایک احتجاج بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ حکمرانوں کا یہ گماشتہ میڈیا اپنے آقاؤں کی دلالی کرتے ہوئے اس تحریک کو پاک و ہند کے محنت کشوں سے چھپانا چاہتا ہے کیونکہ اس تحریک کے مطالبات صرف کشمیر کے غریب عوام کے مطالبات نہیں ہیں بلکہ پورے بر صغیر کے غریب عوام بھی اسی قسم کے مسائل کا شکار ہیں۔ حکمرانوں کو درست طور پر یہ خوف لاحق ہے کہ زندگی کے حقیقی بنیادی مسائل کے گرد ابھرنے والی یہ تحریک کہیں وہ چنگاری نہ بن جائے جو پورے بر صغیر میں حکمرانوں کی لوٹ مار کے اس نظام کو جلا کر راکھ کر دے۔ اس عوامی تحریک کے تبدیل شدہ کردار کے باعث ہی نہ صرف حکمرانوں اور ان کے گماشتہ ذرائع ابلاغ کا اس تحریک کے حوالے سے رویہ مختلف ہے بلکہ سیاسی کارکنان اور بالخصوص بائیں بازو کے اندر بھی کشمیر کی تحریک کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کے حوالے سے دلچسپی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

کمیونسٹ مینی فیسٹو میں مارکس نے یہ وضاحت بھی لکھی ہے کہ ماضی میں قابل قدر سمجھے جانے والے ڈاکٹر، اساتذہ، شعرا، سائنسدان، پادری اور وکالت جیسے پیشوں کو بھی سرمایہ داری نے اپنے اجرتی مزدوروں میں تبدیل کر دیا ہے۔

کشمیر کے سماج کی عمومی ساخت، ہیت ترکیبی، سماج میں طبقات کی نوعیت اور طبقاتی تقسیم و تفریق، طرز پیداوار، مختلف طبقات کے وجود اور ان کے کردار کے ساتھ موجودہ تحریک کی طبقاتی نوعیت جیسے بے شمار سوالات موضوع بحث بنتے جا رہے ہیں۔بائیں بازو کے مختلف رحجانات میں اس تحریک اور بالعموم کشمیر کے سماج میں محنت کش طبقے کے وجود اور اس کی عددی طاقت کا سوال زیادہ اہم ہے چونکہ اسی کی بنیاد پر کشمیر کی تحریک کے عمومی کردار کے حوالے سے مختلف موقف اپنائے جاتے ہیں۔

زیادہ تر بائیں بازو کے رحجانات جب مارکس کی پرولتاریہ کی تعریف کا کشمیری سماج پر اطلاق کرتے ہیں تو وہ اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ نام نہاد آزاد کشمیر میں آج تک کوئی صنعت نہیں لگائی گئی اس لیے یہاں تو پرولتاریہ کا وجود ہی نہیں ہے۔ اگر سکہ بند انداز میں صنعتی پرولتاریہ کے پیمانے پر پرکھا جائے تو یہ بات درست ہے کہ کشمیر میں نہ تو صنعت اور نہ ہی صنعتی پرولتاریہ کا کوئی وجود ہے۔مارکس نے پرولتاریہ کی تعریف ایک ایسے طبقے کے طور پر کی تھی جس کے پاس بیچنے کے لیے اپنی قوت محنت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتا یعنی ایک ایسا اجرتی مزدور جس کی زندگی کا دارومدار قوت محنت کے بدلے ملنے والی اجرت پر ہوتا ہے۔

کمیونسٹ مینی فیسٹو میں مارکس نے یہ وضاحت بھی لکھی ہے کہ ماضی میں قابل قدر سمجھے جانے والے ڈاکٹر، اساتذہ، شعرا، سائنسدان، پادری اور وکالت جیسے پیشوں کو بھی سرمایہ داری نے اپنے اجرتی مزدوروں میں تبدیل کر دیا ہے۔ مارکس کی اس تعریف کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو کوئی بھی الجھن باقی نہیں رہتی۔ ہر وہ فرد جس کو اپنے گزر بسر کے لیے اپنی قوت محنت اجرت کے عوض بیچنی پڑتی ہے اور اس کے پاس ایسی کوئی ملکیت (نقد سرمایہ، زمین، تجارتی عمارت، فیکٹری یا کارخانہ وغیرہ) نہیں ہے جو اس کی ضروریات پوری کرنے یا اس سے زائد آمدن کا ذریعہ بن سکے وہ پرولتاریہ ہی کہلائے گا۔ اس پیمانے پر پرکھیں تو کشمیر کی غالب اکثریت پرولتاریہ کے زمرے میں آتی ہے۔

یہ درست ہے کہ کشمیر میں نہ تو کوئی صنعت اور نہ ہی صنعتی پرولتاریہ ہے مگر کشمیری محنت کشوں کی بھاری اکثریت پاکستان سمیت دنیا بھر کی صنعتوں میں بطور صنعتی مزدور ہی کام کرتی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ کشمیر میں آبادی کی بھاری اکثریت کے پاس تھوڑی بہت زمین کی ملکیت موجود ہے مگر اس کے باوجود یہ زمین نہ تو خوراک کی کلی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے اور نہ اس سے کوئی مزید آمدن حاصل ہوتی ہے جو بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے درکار ہے اسی لیے ہر فرد کو اپنی قوت محنت بیچنے کے لیے محنت مزدوری کرنی پڑتی ہے۔ چند ایک بڑے تجارتی مراکز کی زمینوں اور عمارات کے علاوہ زیادہ تر دیہی علاقوں میں چھوٹے بازاروں کی تجارتی زمینیں اور عمارات بھی اتنی آمدن فراہم نہیں کرتیں کہ ان مالکان کو کوئی کاروبار یا محنت مزدوری نہ کرنی پڑے۔ محض صنعت اور اسی باعث صنعتی پرولتاریہ نہ ہونے کی وجہ سے کشمیر کے غریب عوام کی وسیع اکثریت کی طبقاتی حیثیت تبدیل نہیں ہو جاتی اور نہ ہی اس بنیاد پر ان کو کسی دوسرے طبقے میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

کشمیر کے نہ صرف غریب عوام کی اکثریت کا تعلق محنت کش طبقے سے ہے بلکہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے تاجروں کا معیار زندگی بھی محنت کشوں جیسا ہی ہے اسی لیے ان مسائل کا یکساں طور پر شکار ہونے کے باعث تاجران کی بڑی اکثریت ان عوامی مسائل کے حل کی ہر تحریک میں شمولیت اختیار کر لیتی ہے۔ کشمیر کے بازار وں اور تجارتی مراکز کا پھیلاؤ کسی صنعت یا کارخانے کی پیداواری سرگرمی کی بنیاد پر نہیں ہوا بلکہ یہ محض ریاست کے انتظامی ڈھانچے اور خدمات کے شعبوں کے مراکز کے گرد پھلے پھولے ہیں اسی لیے عمومی طور پر تاجران کی انجمنیں ہی عوامی تحریکوں کا ایک مرکز بن جاتی ہیں۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ دیہی آبادی کی غالب اکثریت پر مبنی محنت کش عوام کے لیے ان شہری مراکز میں دوسرا کوئی مرکز وجود ہی نہیں رکھتا۔ انہی شہری مراکز میں ریاست کے انتظامی شعبوں اور بالخصوص خدمات کے، شعبہ صحت، تعمیرات عامہ، شعبہ تعلیم، محکمہ برقیات اور بلدیہ جیسے دیگر اداروں میں کام کرنے والے محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو نہ صرف یونینز اور ایسوسی ایشنز میں منظم ہے بلکہ وقتاً فوقتاً اپنے مطالبات منوانے کے لیے انتہائی شاندار اور کامیاب ہڑتالیں بھی کرتے رہتے ہیں۔ تحریک کے فیصلہ کن مراحل میں عوام کی قیادت یہی منظم محنت کش طبقہ کرے گا لیکن موجودہ مرحلے میں یہ محنت کش طبقہ باقاعدہ اس تحریک کا حصہ نہیں ہے اسی لیے تحریک کی طبقاتی ساخت اور کردار بھی دھندلایا ہوا ہے۔ موجودہ تحریک کا درست تجزیہ کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کی قیادت کے نیچے موجود اس کی حقیقی طاقت یعنی محنت کش عوام کی متحرک پرتوں کا جائزہ لیا جائے۔ اس تحریک کی اصل قوت محرکہ وہ غریب محنت کش عوام ہیں جنہوں نے اس معاشی بحران سے نکلنے کی جدوجہد کے پہلے قدم کے طور پر مفت بجلی اور آٹے پر سبسڈی جیسے مطالبات کے لیے مروجہ قوانین کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے بل جمع کرانے سے انکار کر دیا ہے۔یہ وہی محنت کش گھرانے ہیں جن کا ذریعہ معاش اجرتی محنت ہے جن میں کشمیر کے اندر خدمات اور دیگر شعبوں میں ملازمت کرنے والے، تعمیرات کی صنعت سے وابستہ ہنر مند کاریگر، چھوٹے کاروباری اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنی قوت محنت بیچنے والے محنت کش ہیں۔

کشمیر میں صنعت فروغ نہ پانے کی دو بنیادی وجوہات رہی ہیں۔ اول برصغیر میں اوپر سے مسلط کی جانے والی نا ہموار اور مشترکہ طرز ترقی کی حامل گماشتہ سرمایہ داری جو پورے بر صغیر میں کہیں بھی ترقی پسندانہ طور پر سماج کو تبدیل نہیں کر سکی۔ برصغیر پاک و ہند میں انگریز سامراج کی چھتر چھایہ میں جس گماشتہ طرز کی سرمایہ داری نے فروغ پایا اور اس کے ساتھ جس سرمایہ دار طبقے کی نشوونما ہوئی وہ اپنے جنم سے ہی ان سماجوں میں یورپ طرز کا ایک مکمل سرمایہ دارانہ انقلاب برپا کرنے کی اہلیت سے مکمل طور پر محروم تھا۔ سامراجی لوٹ مار پر مبنی سرمایہ داری کی اس طرز کو نام نہاد براہ راست سامراجی غلامی سے آزادی کے بعد بھی تبدیل نہیں کیا جا سکا اور آج بھی یہ سماج تاریخی مادیت کے ایک عجائب گھر کا نمونہ پیش کرتے ہیں جہاں جدید طرز کے میٹروپولیٹن شہروں کے پہلو بہ پہلو نیم قبائلی اور قبائلی طرز کی پچھڑی ہوئی آبادیاں بھی وجود رکھتی ہیں۔ کشمیر میں صنعت نہ لگنے کی اس کے ساتھ دوسری اہم وجہ کشمیر کے خطے کا پاک و ہند کی غاصب ریاستوں کے مابین ایک متنازعہ مسئلہ ہونا بھی تھا۔ پاکستان کے زیر قبضہ نام نہاد آزادکشمیر کی چھوٹی سی پٹی سابقہ شاہی ریاست کے ایک پسماندہ علاقے پر مشتمل ہے جہاں تقسیم ہند سے قبل بھی بے پناہ پسماندگی موجود تھی۔ پاکستان کی ریاست نے متنازعہ ہونے کے جواز کی بنیاد پر اس خطے میں کبھی کوئی صنعت لگانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ لیکن اس کے باوجود اس خطے میں سرمایہ داری کی سرائیت نے قبل از تقسیم کی گھریلو زراعت کو رفتہ رفتہ مٹا دیا اور اس پورے خطے کو ایک صارفین کی منڈی میں تبدیل کردیا۔ صنعت کی عدم موجودگی میں روزگار کے حصول کی خاطر کشمیری محنت کشوں کو معاشی جلاوطنی اختیار کرنا پڑی اور آج یہ حالت ہے کہ کشمیر کے مردوں کی کل آبادی کا چالیس سے پینتالیس فیصد بسلسلہ روزگار پاکستان سمیت دیگر ممالک میں مقیم ہے۔

ایک تیسری وجہ بھی ہے جس کا تعلق عالمی سرمایہ داری سے ہے اور جسے بائیں بازو کے زیادہ تر حلقوں میں سب سے زیادہ غیر اہم سمجھا جاتا ہے۔ مارکس اور بعد ازاں لینن نے اپنی تحریروں میں سرمایہ داری کے سامراجیت کی شکل اختیار کرنے کے عمل کی بہت ہی تفصیلی سائنسی وضاحت لکھی تھی۔سرمایہ داری کے موجودہ عالمگیر غلبے کو سمجھنے کے لیے ان تحریروں کا مطالعہ بے حد ضروری ہے لیکن ہم تحریر کی طوالت سے اجتناب کے لیے موجودہ عہد کے محض ایک پہلو کی وضاحت تک خود کو محدود رکھتے ہیں۔ مارکس کے عہد میں سرمایہ داری کے اندر آنے والے زیادہ تر بحرانوں کی بنیادی وجہ زائد پیداوار کا بحران ہوتا تھا جس سے نکلنے کے لیے ایک جانب نئی منڈیوں پر قبضے کیے جاتے تھے اور دوسری جانب تیار مال کو بڑے پیمانے پر ضائع کیا جاتا تھا۔ لینن نے جب اپنی شاہکار تصنیف ”سامراج سرمایہ داری کی آخری منزل“ لکھی تھی تب تک بڑی سامراجی طاقتوں کے مابین دنیا بھر کی منڈیوں کی تقسیم کا عمل پایہ تکمیل کو پہنچ چکا تھا (لینن نے یہ وضاحت کی تھی کہ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ منڈیوں کی از سر نو تقسیم نہیں ہو سکتی بلکہ نئی منڈیوں پر قبضے یا ان کی از سر نو تقسیم کا عمل بھیانک حد تک خونریز ہو چکا تھا جیسا کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کی صورت میں ہوا) لیکن اس وقت تک بھی پیداواری صلاحیت میں وہ معیاری تبدیلی نہیں آئی تھی جو ہمارے عہد کا خاصہ ہے۔

ایک عنصر جس کی تشکیل کا آغاز بعد از دوسری عالمی جنگ کے عرصے میں ہوا اور سوویت یونین کے انہدام اور چین میں سرمایہ داری کی استواری نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا وہ سرمایہ داری کے تحت ذرائع پیداوار میں ہونے والی ترقی میں معیاری تبدیلی کا عنصر تھا۔ سابقہ ادوار میں جو زائد پیداوار کا بحران ہوتا تھا وہ ہمارے عہد میں زائد پیداواری صلاحیت کا بحران بن چکا ہے۔ آسان الفاظ میں اس مظہر کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ سرمایہ داری کے تحت تکنیک کی بڑھوتری یعنی ذرائع پیداوار کی ترقی کا عمل مسلسل پھلتی پھولتی منڈیوں کی ضروریات اور سرمایہ داروں کے باہمی مقابلے کے باعث مسلسل فروغ پاتا رہا اور آج تکنیک کی جدت اس معیار کو پہنچ چکی ہے جہاں انسانی ضرورت کی ہر شے پیدا کرنے والی صنعت کی پیداواری صلاحیت اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ دنیا میں موجود تمام انسانوں کی ضروریات سے کئی گنا زائد اشیا با آسانی پیدا کی جا سکتی ہیں۔

یہ صنعتی ڈھانچہ ماضی کی قومی صنعت کے ڈھانچے سے بھی یکسر مختلف ہے اور اس کی اساس قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے۔ کوئی بھی ایک شے جیسے موبائل یا کوئی گاڑی کسی ایک ملک کی سرحدوں کے اندر لگی مختلف فیکٹریوں میں بننے والے پرزوں کے ذریعے مکمل نہیں ہوتی بلکہ ایک موبائل جیسی چھوٹی سی شے کو بنانے میں درجنوں ملکوں میں لگی فیکٹریوں میں بننے والے پرزے درکار ہوتے ہیں۔ یہی ہمارے عہد کی سب سے منفرد خصوصیت ہے جو اس عہد میں دنیا کے ہر خطے میں ابھرنے والی تحریکوں کے کردار کو متعین کرنے میں فیصلہ کن اہمیت کی حامل ہے۔

دنیا کے بیشتر نام نہاد تیسری دنیا کے ممالک میں موجود قومی صنعتوں کی تباہی اور ان کی جگہ عالمی سامراجی کمپنیوں کے مال کی ان منڈیوں میں کھپت کا بڑھتا ہوا سلسلہ اسی مظہر کا اظہار کر رہا ہے۔ عالمی سطح پر زائد پیداواری صلاحیت کا بحران سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے نئی صنعتوں کے لگائے جانے کی ضرورت کا خاتمہ کرتا جا رہا ہے۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ کشمیر جیسے دیگر پسماندہ ممالک میں صنعتی ڈھانچے کو ترقی دینے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ داری نظام خود کسی بھی پسماندہ خطے میں صنعتی ڈھانچے کے فروغ کے راستے کی سب سے دیوہیکل رکاوٹ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ کشمیر جیسے پچھڑے ہوئے سماجوں میں صنعت کے فروغ کا عمل انگلستان یا فرانس کے صنعتی ارتقا کی طرز سے معیاری طور پر مختلف ہوگا۔ انگلستان یا فرانس جیسے دیگر ممالک میں جاگیر داری کے بطن میں پیداوار کے گلڈ نظام کی صورت میں سرمایہ دارانہ ذرائع پیداوار کے ابتدائی عناصر کی نشوونما ہوئی جو مینو فیکچرنگ کے مرحلے سے گزرتے ہوئے بھاپ سے چلنے والی بڑی فیکٹریوں میں تبدیل ہوئے۔ یورپ میں پرولتاریہ کی نشوونما بھی صنعت کے انہی مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے ہوئی اور صنعتی ترقی کے ان مختلف مراحل کے دوران پرولتاریہ کی سیاسی جدوجہدوں کا کردار بھی مختلف رہا۔ لیکن تاریخ کا یہ عہد ماضی کا حصہ بن چکا ہے اور اب ہم صنعت اور اس کے ساتھ پرولتاریہ کی نشوونما کے ان تاریخی مراحل کے اس کر ہ ارض کے کسی بھی حصے میں دوہرائے جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

صنعتی طور پر پسماندہ اور پچھڑے ہوئے ممالک جس بھی عہد میں اس عالمی منڈی کا حصہ بنتے گئے انہوں نے صنعتی ترقی کے تمام سابقہ مراحل کو نہیں دوہرایا بلکہ ماضی کے کئی مراحل کو پھلانگتے ہوئے اس خاص عہد میں رائج ہوچکی تکنیک اور ذرائع پیداوار کے سب سے جدید معیار کو اپناتے ہوئے ہی صنعتی ترقی کے عمل کا آغاز کیا۔ نہ صرف سب سے جدید تکنیک اور ذرائع پیداوار کو بنیاد بنایا گیا بلکہ کئی ممالک میں پیداوار کی سرمایہ دارانہ تنظیم کو اکھاڑ پھینکتے ہوئے سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کو ترقی کا ذریعہ بنایا گیا جیسا کہ روس، چین سمت تمام سابقہ سٹالنسٹ ریاستوں میں ہوا۔ ان ممالک میں سرمایہ دارانہ پیداواری رشتوں کا مکمل خاتمہ اس لیے نہیں ممکن ہوا کہ یہ ممالک سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کے لیے معروضی طور پر مکمل تیار ہو چکے تھے بلکہ ان ممالک میں سرمایہ داری کا تختہ اس لیے الٹ دیا گیا کہ عالمی منڈی کے زیر تسلط ان ممالک میں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر صنعتی ترقی کی گنجائش بہت کم تھی۔ اس لیے ہم جس عہد میں زندہ ہیں اس عہد کی بنیادی خصوصیات کی درست تفہیم مستقبل کی راہ متعین کرنے کے حوالے سے کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔

کشمیر جیسے سماج میں نہ تو جاگیرداری نظام ہے اور نہ ہی یہاں قومی تشکیل کا عمل کسی سرمایہ دارانہ جمہوری انقلاب کا متقاضی ہے۔ یہ سماج اپنی تمام تر پسماندگی کے باوجود عہد حاضر کی زوال پذیر سامراجی سرمایہ داری نظام کا ایک ناقابل علیحدگی جزو ہے۔ اسی بنیاد پر ہم اس خطے کی سماجی ہیت ترکیبی اور مختلف طبقات کی ساخت کی وضاحت کرتے ہوئے مستقبل کی راہیں متعین کر سکتے ہیں۔ کشمیر سمیت نام نہاد تیسری دنیا کے سماجوں کا تجزیہ مارکسی اساتذہ کی تعلیمات اور تعریفوں کے میکانیکی اطلاق سے ممکن نہیں ہو پاتابلکہ اس سے الٹا الجھاؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ تمام تر سٹالنسٹ، ماؤ اسٹ گروپوں اور پارٹیوں کا یہی تاریخی المیہ ہے کہ مارکسزم کی سٹالنسٹ وضاحتوں کی بنیاد پر قائم ہونے کے باعث ایک صدی گزرنے کے بعد بھی کسی صنعتی طور پر پسماندہ ملک میں سوشلسٹ انقلاب کا موقف نہیں اپنا پائے۔

براہ راست سامراجی غلامی سے آزادی حاصل کرنے والے ممالک میں یہ جمہوری مرحلے کی تکمیل کے نام پر بورژوازی کے دم چھلہ بن چکے ہیں جبکہ قومی غلامی کا شکار خطوں میں سٹالنسٹ قومی جمہوری انقلاب کے یوٹوپیا کی پرستش کر رہے ہیں۔

کشمیر کی موجودہ تحریک نے ہر طرح کی قوم پرستی کے نظریات کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا ہے۔ یہ تحریک مارکس وادیوں کے تناظر کے عین مطابق اس بات کا اعلان ہے کہ آج کے عہد میں قومی آزادی کی جدوجہد کا حقیقی مافیہا اور حتیٰ کہ اس کی بنتر بھی واضح طور پر طبقاتی ہے۔ کشمیر میں کلاسیکل محنت کش طبقے کی تلاش میں ناکامی کے بعد ان گروپوں نے قومی آزادی کی جدوجہد کے لیے مختلف طبقات کے اتحاد کا جو فارمولا ماؤ سے مستعار لیا تھا موجودہ تحریک نے اس فارمولے کا بوسیدہ پن بھی آشکار کر دیا ہے۔ جس طرح کوئی ماہر نباتات کسی ایک خطے کی مخصوص آب و ہوا میں اُگنے والے پودے کے بارے میں یہ عام ادراک رکھتا ہے کہ اگر اسی پودے کو کسی دوسری قسم کی آب و ہوا والے خطے میں اگایا جائے گا تو اس کی خصوصیات ویسی نہیں رہیں گے بلکہ آب و ہوا کی تبدیلی اپنا اثر دکھائے گی اور آب و ہوا میں تبدیلی کا ایک ایسا معیار بھی ہوتا ہے جس کے بعد اس پودے کا اگنا ہی ناممکن ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ہر مارکسی کو کم از کم اتنی سمجھ بوجھ ضرور ہونی چاہیے کہ سولہویں یا سترہویں صدی میں جاگیرداری کے خلاف برپا ہونے والے سرمایہ دارانہ انقلابات کی خصوصیات کیوں اور کیسے بیسویں صدی کے سرمایہ دارنہ انقلابات سے یکسر اور معیاری طور پر مختلف تھیں اور موجودہ عہد کی سامراجی زوال پذیر سرمایہ دارنہ عالمی منڈی کے تباہ کن غلبے نے کیوں کر سرمایہ داری کے خاتمے کو ناگزیر بنا دیا ہے۔

ٹراٹسکی نے ناہموار ترقی کے مشترکہ پن کے پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے ہی یہ سائنسی نتائج اخذ کیے تھے کہ کس طرح یہ مشترکہ پن پچھڑے ہوئے سماجوں میں سوشلسٹ انقلاب کو ناگزیر بنا دیتا ہے۔

مارکسزم کی اساس بین الاقوامیت ہے اور ہر دور میں مارکس وادیوں کے لیے عالمی انقلاب کے امکانات کی وضاحت اور اس کی تیاری اولین فریضہ رہا ہے۔ کشمیر میں ابھرنے والی تحریک عالمی سرمایہ داری کے خلاف دنیا بھر میں انقلابی بغاوتوں کے نئے عہد کا ہی ایک جزو ہے۔ اس تحریک کو اس بین الاقوامی عمل سے کاٹ کر دیکھنے کے لیے کٹر تنگ نظر قوم پرست ہونا ضروری ہے۔ قوم پرستی کے نقطہ نظر سے اس سارے عمل کو دیکھنے والے کشمیر ی اس صورتحال سے یہ نتائج اخذ کر رہے ہیں کہ کشمیر کی تحریک کے حق میں پاکستان میں تحریک نہیں ابھر رہی اس لیے ان کا یہ موقف درست ہے کہ کشمیر کی قومی آزادی کی تحریک کا پاکستان کے محنت کش طبقے سے کوئی تعلق نہیں۔ کشمیریوں کو اپنی آزادی کی لڑائی خود اپنی طاقت کے بلبوتے پر ہی لڑنی پڑے گی وغیرہ وغیرہ۔ دوسری جانب پاکستان کا نام نہاد بایاں بازو بھی اپنے قومی سوشلزم(سٹالنزم کی مختلف شکلوں) کی بنیاد پر اسی سے ملتے جلتے نتائج اخذ کر رہا ہے اور کشمیر کی تحریک نے اسے حیرت زدہ کردیا ہے۔ درحقیقت کشمیر کی تحریک بالخصوص پاکستان اور بالعموم پورے خطے میں ایک نئے انقلابی عہد کے آغاز کا واشگاف اعلان ہے۔

کشمیر کی تحریک اس بات کا اعلان ہے کہ پاکستان کی سرمایہ دارانہ ریاست کے استحصال اور جبر کو اس ملک کے محنت کش اب مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ محنت کشوں کی برداشت کی حد ختم ہوچکی ہے اور اس کا پہلا اظہار کشمیر کے محنت کشوں کی عوامی تحریک کی صورت میں ہوا ہے لیکن ساتھ پنجاب میں اساتذہ اور دیگر اداروں کے محنت کشوں کی تحریک بھی اسی جانب اشارہ کر رہی ہے۔ آنے والے عرصے میں تحریکوں کا سلسلہ مزید وسعت اختیار کرتا جائے گا اور ایک خاص مرحلے پر یہ ایک کے بعد دوسری بکھری ہوئی ابھرنے والی تحریکوں کا عمل ناگزیر طور پر ایک ملک گیر تحریک کو جنم دے گا۔

کشمیر کی تحریک کو پاکستان سے کاٹ کر دیکھنے والوں کی عقل پر ماتم یا افسوس کرنا بھی وقت کا ضیاع ہی ہوگا۔ کشمیر اور پاکستان کی دو الگ الگ تحریکیں اور دو الگ الگ انقلابات نہیں ہو سکتے بلکہ یہ ایک ہی تحریک ہے، حتیٰ کہ بھارت کی مزدور تحریک بھی اس سے یکسرکٹی ہوئی نہیں ہے۔ انقلاب شروع کہیں سے بھی ہو، یہ ایک ہی انقلاب ہو گا اور ان کے تحرک میں موجودہ فرق محض اس تاریخی عمل کی لازمیت کو واضح کر رہا ہے۔ دنیا کے ہر خطے میں انقلابی تحریکوں کے ابھرنے کا عمل کم و بیش ایسے ہی آگے بڑھتا ہے کہ کچھ علاقوں کے محنت کش اس عمل میں پہلے کود جاتے ہیں اور بعض علاقوں کے محنت کش کچھ تاخیر کے ساتھ اس عمل کا حصہ بنتے ہیں۔

تاریخ میں بارہا ایسا ہو چکا ہے کہ سماج کے سب سے پسماندہ حصے سب سے پہلے انقلابی بغاوتوں کا حصہ بنتے یا ان کی پہل کرتے ہیں اور محنت کشوں کی سب سے منظم اور باشعور پرتیں کچھ تاخیر کے ساتھ ان بغاوتوں کا حصہ بنتی ہیں اور یہی عمل الٹ ترتیب کے ساتھ بھی وقوع پذیر ہو تاہے۔ انقلابی عمل کی پیش رفت کے ان ناگزیر تاریخی مراحل کی سمجھ بوجھ سے عاری سیاسی کارکنان جلد بازی میں اکثر غلط اور بعض اوقات انتہائی متعصبانہ نتائج بھی اخذ کر لیتے ہیں۔ ہمیں ایک انقلابی تحریک کی پیش رفت کے تمام مراحل اور اتار چڑھاؤ کے عمل کا درست سائنسی ادراک حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

سرمایہ داری نظام کی پیدا کردہ سماجی اور مادی نا ہمواری ہمیشہ انقلابی تحریکوں کے ابھرنے کے ادوار میں ثقافتی اور شعوری نا ہمواری میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ سماج اور حتیٰ کہ محنت کشوں کے مختلف حصے بھی مختلف وقتوں میں مختلف نتائج اخذ کر تے ہیں لیکن انقلابی عمل کی پیش رفت جلد یا بدیر اس نا ہمواری کے دوسرے متضاد پہلو یعنی نا ہمواریت کے ساتھ نشوونما پانے والے مشترکہ پن کو پوری طاقت کے ساتھ سامنے لے آتی ہے۔ ٹراٹسکی نے ناہموار ترقی کے مشترکہ پن کے پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے ہی یہ سائنسی نتائج اخذ کیے تھے کہ کس طرح یہ مشترکہ پن پچھڑے ہوئے سماجوں میں سوشلسٹ انقلاب کو ناگزیر بنا دیتا ہے۔ اسی طرح تحریکوں کے آغاز میں سماج اور محنت کش طبقے کی مختلف پرتوں کی حرکت ایک دم یکسانیت کی حامل نہیں ہو جاتی بلکہ تحریکوں کی بڑھوتری کا عمل ایک خاص معیار پر پہنچنے کے بعد ہی محنت کش طبقے کے ساتھ سماج کی سبھی مظلوم و محکوم پرتوں کو ایک ہم آہنگ انقلابی تحریک میں یکجا کرتا ہے۔ یہ عمل یکطرفہ معروضی عوامل کے ذریعے ہی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتا بلکہ اس پیش رفت کے دوران موضوعی عنصر کی بڑھوتری، اس کی ان تھک جدوجہد، نظریات کی ترویج وپھیلاؤ یعنی مختصراً انقلابی پارٹی کا شعوری کردار بھی اس یکسانیت اور ایکتا کی تکمیل میں فیصلہ کن کردار اد اکرتا ہے۔ کشمیر کی تحریک نے ایک نئے عہد کے آغاز کا اعلان کردیا ہے جس میں آنے والے ماہ و سال اس خطے میں محنت کشوں کی ملک گیر تحریکوں اور انقلابی سرکشیوں کے ابھرنے اور انہیں کامیابی سے ہمکنار کرنے کے تمام امکانات سے بھرپور ہوں گے۔ معروضی عمل کی درست سائنسی تفہیم کا واحد ذریعہ مارکسزم کے سائنسی نظریات ہیں اور ان نظریات سے لیس انقلابی ہی تاریخ کے عائد کردہ انقلابی فرائض ادا کرنے کی اہلیت حاصل کر پائیں گے۔

Comments are closed.