کرونا وبا میں امیروں اور غریبوں کے مابین کھلی جنگ کا آغاز

|تحریر: حمید علی زادے، ترجمہ: آصف لاشاری|

جیسے جیسے کرونا وبا تباہی مچاتی پھیلتی چلی جا رہی ہے، ہمیں بتایا جاتا ہے کہ، ”کرونا وائرس غریب اور امیر میں فرق نہیں کرتا اور ہم سب اس مسئلے میں ایک ساتھ ہیں“۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ مراعات یافتہ اشرافیہ، جسے نسبتاً تحفظ حاصل ہے، وہ محنت کشوں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ان کے منافعوں کو جاری رکھنے کے لیے انفیکشن کا خطرہ مول لیں۔ یہ وائرس سرمایہ دارانہ نظام کی غلیظ اور سنگدل فطرت کو ننگا کر رہا ہے، جس میں منافعوں کو انسانی زندگی پر زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کرونا وائرس کا شکار ہوا ہے۔ اسی طرح، برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس اور برطانوی فلم سٹار ادرث البا بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ کرونا وائرس کا شکا ر ہونے والے امرا اور مشہور شخصیات کی فہرست میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے مگر پریشان ہونے والی کوئی بات نہیں۔ انہیں علیحدہ رکھا جا رہا ہے اور ان کا ہر ممکن خیال کیا جا رہا ہے حتیٰ کہ ان میں تھوڑی سی علامات بھی ظاہر نہیں ہوئیں!

اسی لمحے برطانیہ میں، طبقاتی خلیج کے اُس پار ہمیں کائلہ ولیمز کھڑی نظر آتی ہے۔ وہ 36 سالہ خاتون تین بچوں کی ماں تھی جس کا شوہر صفائی کا کام کرتا تھا۔ ہفتے والے دن اس کا انتقال ہو گیا۔ اس میں وائرس کی تمام علامات موجود تھیں لیکن ایک روز قبل اس کا معائنہ کرنے والے پیرامیڈیکس کے مطابق وہ ”ترجیح“ نہیں رکھتی۔ نہ ہی اس کا ٹیسٹ کیا گیا اور نہ ہی علاج۔ دی گارڈین اخبار نے اس کے شوہر کے غمگین الفاظ یوں درج کیے ہیں:

”اس کے بعد میں نے کچھ نہیں سنا، وہ مجھے یہاں چھوڑ گئے اور کہا کہ میں اکیلا رہوں اس کے علاوہ، انہوں نے مجھے کچھ نہیں بتایا۔ میں شوگر کا مریض ہوں اور انسولین لیتا ہوں۔ مجھے صرف یہی پتہ ہے کہ مجھے اکیلے رہنا ہے۔ مجھے کسی نے نہیں بتایا کہ اس کی نعش کا ٹیسٹ کیا جا رہا ہے یا نہیں“۔

مسز ولیمز بچ سکتی تھیں اگر ان کی تشخیص کی جاتی اور علاج کیا جاتا۔ لیکن اس کے ذمہ دار پیرامیڈیکس یا NHS کا عملہ ہرگز نہیں بلکہ حکومت اس کی ذمہ دار ہے جس نے نام نہاد ’اجتماعی مدافعت‘ (Herd Immunity) حاصل کرنے کے چکر میں اس عالمی وبا کو روکنے کے لیے کسی قسم کی تیاری نہیں کی۔ جس وقت چین اور اٹلی میں تباہی و بربادی پھیل رہی تھی، برطانوی حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہوئی تھی اور کرونا وائرس کو آبادی میں پھیل جانے کا بھرپور موقع فراہم کر رہی تھی۔ اس نے تشخیصی کٹس، حفاظتی یا طبی آلات کی کوئی خریداری نہیں کی۔ اور نہ ہی نئے ہسپتال بنائے گئے یا صلاحیت کو بڑھانے کی کوشش کی گئی۔ کسی قسم کے نئے سٹاف کو بھرتی نہیں کیا گیا اور نہ ہی پہلے سے موجود سٹاف کو کسی قسم کی کوئی تربیت فراہم کی گئی۔ ہاں لیکن حکومت نے محنت کشوں کو یہ ضرور بتایا کہ وہ ”اپنے پیاروں کو کھو دینے“ کے لیے تیار ہو جائیں۔

برطانوی وزیر اعظم کرونا تشخیص ہونے کے بعد سیلف آیشولیشن میں ہے اور اسے علاج معالجے کی بہترین سہولیات میسر ہیں۔ مگر ہم سب کو ’’اپنے پیاروں کو کھونے کے لیے تیار رہنا ہوگا‘‘

وبا سے پہلے بھی نیشنل ہیلتھ سسٹم (NHS) بمشکل ہی سماج کی طبی ضروریات کو پورا کر پا رہا تھا۔ کٹوتیوں اور نجکاری کی پالیسیوں نے صحت عامہ کے نظام کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے اور عام لوگوں کو اپنا علاج خود کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔

امریکہ میں بھی لاکھوں لوگوں کو بنیادی طبی سہولیات حاصل نہیں ہیں۔ لنکاسٹر کیلفورنیا میں ایک سترہ سالہ نوجوان کو وائرس کی تمام علامات موجود ہونے کے باوجود ہسپتال سے واپس گھر بھیج دیا گیا کیونکہ اس کی انشورنس نہیں تھی اور وہ بعد میں اس بیماری سے کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گیا۔ اگر مناسب علاج معالجہ فراہم کیا جاتا تو اس بچے کی زندگی کو بچایا جا سکتا تھا۔ لاس اینجلس کے شعبہ صحت نے اس موت کو کرونا وائرس سے موت قرار دیا لیکن بعد میں اعلیٰ حکام کے دباؤ کے نتیجے میں اس فیصلے کو بدل دیا گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پچھلے ہفتے منظور کیا گیا ایک بل، سب کے لیے مفت ٹیسٹ کی سہولت فراہم کرتا ہے، اگرچہ ان ٹیسٹوں کا ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ لیکن علاج معالجہ تو ایک بالکل ہی مختلف معاملہ ہے۔

ایسے افراد جنہوں نے انشورنش نہیں کروا رکھی ان کو اس علاج کے لیے لگ بھگ 35 ہزار ڈالر تک ادا کرنے پڑسکتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایسے ملازمین جنہیں کمپنی انشورنس کی سہولت میسر ہے، ان کو بھی علاج کے لیے 1300 ڈالر یا اس سے زیادہ کے اخراجات اٹھانے پڑ سکتے ہیں۔

وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ کرونا وائرس طبقات میں امتیاز نہیں کرتا۔ ٹیلی گراف جریدے کی ایک سرخی کچھ یوں تھی، ”ہم سب اس میں اکٹھے ہیں“۔جبکہ حقیقت میں غریبوں کے لیے الگ اصول و ضوابط ہیں اور امیروں کے لیے الگ۔ زیادہ تر ممالک میں عام لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ بیماری کی تشخیص کے لیے درکار ٹیسٹ کے لیے وسائل موجود نہیں ہیں۔ علامات کے باوجود لوگوں کا ٹیسٹ نہیں کیا جاتا، جب تک کہ ان کی حالت انتہائی نازک نہ ہوجائے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ موت کے بعد بھی کائلہ ولیمز کا ٹیسٹ نہیں کیا گیا۔ اسی طرح، اس کے ذیابیطس کے مریض شوہر اور تین بچوں کی تشخیص بھی نہیں کی گئی۔ ان میں سے کوئی بھی (حکمرانوں کے نزدیک) قابلِ ترجیح نہیں۔ اس کی موت کو کرونا وائرس سے متعلقہ موت قرار نہیں دیا گیا۔ پتہ نہیں اس طرح کے اور کتنے کیسوں کو چھپایا جا رہا ہے۔

دوسری جانب، کاروباری افراد، شوبز ستاروں، سیاستدانوں اور شاہی گھرانوں کے افراد کو بغیر کسی علامت اور وجہ کے چیک کیا جاتا ہے اور ہر ممکن سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ امریکہ میں ٹیسٹنگ کٹس کی سنگین کمی موجود ہے اور ہزاروں افراد کو ٹیسٹ کے بغیر واپس بھیجا جا رہا ہے۔ لیکن ”یوٹاہ جاز“ باسکٹ بال کلب کے ایک لکھ پتی کھلاڑی میں کرونا وائرس کی تشخیص کے بعد ”اوکلاہاما سٹی تھنڈر“ اور ”یوٹاہ جاز“ کے درجنوں کھلاڑیوں اور ان سے وابستہ عملے کے فوری طور پر ٹیسٹ کیے گئے، جو حال ہی میں ایک دوسرے کے مخالف کھیل چکے تھے۔ دی اٹلانٹک جریدے کے مطابق، یہ اوکلاہاما ریاست کے پاس موجود کل ٹیسٹنگ کٹس کا 10 فیصد بنتا ہے۔

وہ امیر افراد، جو سرکاری ہسپتالوں میں ٹیسٹ کے لیے لگی لمبی قطاروں میں انتظار کا ”جوکھم“ نہیں اٹھا سکتے، وہ پرائیویٹ کلینکس پر اپنا ٹیسٹ کروا سکتے ہیں۔ لندن کے ایک پرائیویٹ ہارلے کلینک نے 375 پاؤنڈ فی ٹیسٹ کے حساب سے اپنے امیر گاہکوں کو ہزاروں ٹیسٹوں کی سہولت فراہم کی۔ ڈاکٹر مارک علی، جو اس کلینک کا ڈائریکٹر ہے، اس نے ’دی سن‘ جریدے کو بتایا کہ ”ہمارے پاس پرائیویٹ افراد آتے ہیں، جن میں کچھ بڑے نام بھی شامل ہیں اور ہم اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے معزز خواتین و حضرات کے ٹیسٹ کر رہے ہیں، حتیٰ کہ ان میں بیماری میں مبتلا ہونے کے خوف سے پریشان ڈاکٹر اور ڈینٹسٹ بھی شامل ہیں“۔

امریکہ میں سانٹا مونیکا نامی ایک بچوں کا ہسپتال ایک تشخیصی کٹ 250 ڈالر کے حساب سے بیچ رہا ہے۔ مہنگے پرائیویٹ میڈیکل کلینکس اور دیگر طبی سہولیات فراہم کرنے والے اداروں کی تو چاندی ہے۔ برطانیہ کے ایک پرائیویٹ طبی ادارے ’لینشر ہاف‘ کے مطابق مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے والی ان کی ایک دوا، جس کی قیمت تقریباً 300 پاؤنڈ ہے، کی مانگ میں اضافے ہوا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق کچھ امیر افراد تو وینٹی لیٹرز خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنے ذاتی آئی سی یوز بنا رہے ہیں کہ کہیں ہسپتالوں میں جگہ نہ کم پڑ جائے۔ دنیا بھر کے شوبز ستارے اپنی تصویریں سوشل میڈیا پر ڈال رہے ہیں جن میں وہ ماسک اور حفاظتی لباس پہنے ہوئے ہیں۔ کروڑ پتی اداکارہ نومی کیمپبل نے حفاظتی لباس اور خصوصی ماسک این 95 کے ساتھ انسٹاگرام پر شیخی بگھاری

جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کو بمشکل ہی یہ حفاظتی لباس دستیاب ہے۔ کئی کئی ہفتے گزر جانے کے بعد بھی نرسوں اور ڈاکٹروں کے ٹیسٹ نہیں کیے جاتے۔ ایک دلبرداشتہ ڈاکٹر نے گارڈین اخبار میں کچھ اس طرح سے لکھا:

”یہ میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ انہوں نے بیماری کی تشخیص اور انفیکشن کے پھیلاؤ کو جانچنا کیوں بند کردیا ہے۔ ہسپتال کے عملے کو کہا جا رہا ہے کہ ان کا ٹیسٹ نہیں کیا جا سکتا، اگر ان میں معمولی علامات ظاہر ہو رہی ہیں۔ یہ ناقابلِ یقین ہے۔ اگر ہمیں اپنی تشخیص کی اجازت نہیں ہے تو ہم یہ کیسے جان پائیں گے کہ ہم اور کتنے لوگوں یا مریضوں تک یہ انفیکشن پھیلا رہے ہیں۔ شاندار! کیا ہی شاندار منصوبہ ہے“۔

ہر جگہ حفاظتی آلات کی شدید کمی ہے۔ برطانیہ کے ہسپتالوں میں بنیادی ترین حفاظتی سامان کی بھی کمی ہے۔ مناسب حفاظتی سامان کی تجاویز و ہدایات کو جان بوجھ کر تبدیل کیا گیا اور این ایچ ایس کے محنت کشوں کو کہا گیا کہ وہ کرونا وائرس کا بھی علاج ایسے ہی کریں جیسے عام موسمی فلو کا علاج کیا جاتا ہے۔

سیلف آئسولیشن

ہمیں کہا جاتا ہے کہ گھر میں رہو اور ”اپنے پیاروں کو کھونے کے لیے تیار ہو جاؤ“ لیکن وہ خود اس بات پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق نجی طیاروں کے ذریعے عالمی پروازوں کا مطالبہ نو فیصد تک بڑھ گیا ہے۔ ائیر پورٹس پر امرا پرائیویٹ ٹرمینلز،داخلوں، کسٹمز اور سیکیورٹی کے لیے پیسے ادا کر رہے ہیں۔ برطانیہ میں بڑے دولت مند نامی گرامی رئیل اسٹیٹ ایجنٹوں کی طرف بھاگے جا رہے ہیں اور ان سے بنکروں والی بنگلوں، وسیع و عریض جاگیری حویلیوں اور غیر آباد جزیروں کی مانگ کر رہے ہیں۔

امریکی کروڑ پتی چارلس سٹیونسن نیویارک کے مضافات میں واقع ساؤتھپمٹن کے چھوٹے قصبے میں رہائش پذیر ہے۔ بلومبرگ جریدے سے بات کرتے ہوئے اس نے کہا کہ، ”ابھی اسے کسی قسم کی کوئی پریشانی لاحق نہیں۔ ابھی یہ (کرونا وائرس) یہاں نہیں پہنچا۔ اگر گاؤں میں کسی کو کرونا وائرس ہوا تو، میں یہاں سے نکل جاؤں گا“۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ اڈاہو چلا جائے گا اور اپنے آپ کو ایک کیبن میں بند کر لے گا جہاں اگر اس کی فیملی چاہے تو اس کے پاس آ سکے گی۔ ہم واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ وہ اس حقیقت سے کتنا دور ہے جس کاکروڑوں محنت کشوں کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔

نیویارک کے ہزاروں انتہائی دولتمند معززین مشرقی ہیمپٹن میں واقع اپنے محلوں کی طرف اڑان بھر رہے ہیں جہاں وہ خوراک اور ضرورت کا دیگر سامان بذریعہ ہیلی کاپٹر منگوا سکتے ہیں۔ لیکن محنت کش انسانوں کے پاس جان بچانے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ نیویارک اس عالمی وبا کا مرکز بننے جا رہا ہے۔ یہ عام محنت کشوں کے لیے ایک دنیاوی جہنم ہو گی جنہوں نے کئی عشروں سے اپنے حالات اور مقامی انفراسٹرکچر کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ لیکن سب اچھا ہے: اپنے ہاتھ دھوئیں، فاصلہ رکھیں اور آپ تندرست رہیں گے!

بلند فصیلوں کے پیچھے سے، ایک محفوظ فاصلے پر واقع اپنے نجی جزیروں یا وسیع و عریض جاگیروں پر تمام تر سہولیات اور آلات سے آراستہ ہو کر بیٹھے ان دولت مندوں کو محنت کشوں کو یہ حکم صادر کرتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی کہ وہ اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر ان کے منافعوں میں اضافہ کرتے رہیں، وہی محنت کش جنہوں نے یہ سب دولت پیدا کی تھی۔ اٹلی میں مالکان کی فیڈریشن نے فیکٹریوں کو کھلا رکھنے پر بضد ہے جن میں اسلحہ ساز اور یہاں تک کہ کش میک اپ کا سامان بنانے والی کمپنیاں بھی شامل ہیں، حالانکہ سماج کو چلائے رکھنے میں ان کا کوئی کردار نہیں۔ ان علاقوں میں جہاں فیکٹریاں کھلی ہیں، وہاں وائرس کا پھیلاؤ زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود مالکان کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ عالمی وبا کو کنٹرول میں لانے کے کسی امکان سے بھی پہلے ایسٹر تک امریکہ میں تمام پیداوار کو دوبار شروع کرنے کی ٹھان چکا ہے۔ اسے امریکی سرمایہ دار طبقے کے ایک بہت بڑے حصے کی حمایت حاصل ہے۔ امریکی ارب پتی ٹام گولیسانو نے بلومبرگ سے بات کرتے ہوئے کہا:

”معیشت کو اسی طرح سے بند رکھنے کے نقصانات چند مزید لوگوں کے مارے جانے سے بھی زیادہ برے ہو سکتے ہیں۔ مجھے بہت زیادہ فکر ہے کہ اگر کاروبار ایسے چلتے رہے جیسے چل رہے ہیں، تو بہت سے کاروباریوں کو اپنے کاروبار ٹھپ کرنے پڑ جائیں گے۔“

خدا نہ کرے کہ کہیں زندگیاں بچانے جیسے برے کام کے لیے کاروباروں کو ٹھپ ہونا پڑے! ایک اور سرمایہ دار ڈِک کوواسیوچ نے اسی آرٹیکل میں کہا:

”ہم آہستہ آہستہ ان لوگوں کو کام پر واپس لائیں گے اور دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے۔ ان میں سے کچھ بیمار ہو جائیں گے اور کیا پتہ کچھ مر بھی جائیں۔ کیا آپ معاشی طور پر زیادہ متاثر ہونا چاہتے ہیں یا کچھ خطرہ مول لینا چاہتے ہیں کہ آپ کو فلو جیسی علامات یا تجربے سے گزرنا پڑے؟ کیا آپ معیشت کا خطرہ مول لینا چاہتے ہیں یا صحت کا؟ ان میں سے ایک چننا پڑے گا“۔

یہ الفاظ سرمائے کی بے رحم منطق کو عیاں کرتے ہیں۔ کیا آپ اپنی نوکری کھو دینا چاہتے ہیں یا آپ مرنا چاہتے ہیں؟ فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔

برطانیہ میں سپورٹس ڈائریکٹ کے مالک مائیک ایشلے نے مطالبہ کیا کہ اس کے ملازم محنت کشوں کو کام پر جانے کی اجازت دی جائے۔ وہ اچھی طرح سے آگاہ ہے کہ وائرس اس کے ملازمین اور معاشرے کے لیے کتنا خطرناک ہے لیکن پھر بھی اس کا اصرار ہے کہ حکومت اس کی مصنوعات کو لازمی قرار دے تاکہ وہ اپنے سٹور کھلے رکھ سکے۔

ارب پتی رچرڈ پرینسن نے اپنے ملازموں سے ’درخواست‘ کی کہ وہ بنا اجرت رخصت پر چلے جائیں اور دوسری جانب اس نے حکومت سے اس کی ائیر لائن کو بیل آؤٹ دینے کا مطالبہ کیا۔

”ہر دلعزیز“ارب بتی رچرڈ برنسن محنت کشوں کی روزمرہ زندگی کے جھمیلوں سے کوسوں دور محفوظ فاصلے پر اپنے ذاتی جزیرے میں جلوہ افروز ہے۔ اس نے اربوں پاؤنڈ مالیت کی سلطنت کھڑی کر لی ہے جس کی بنیاد جزوی طور پر عوامی اداروں کی نجکاری کے معاہدوں پر استوار ہے۔ اس کی کمپنی ’ورجن کئیر‘ نجکاری کے پروگراموں میں حصہ لینے والی ان بڑی خون چوسنے والی کمپنیوں میں سے ایک ہے جنہوں نے این ایچ ایس کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ اپنی اس بے تحاشا دولت کے ساتھ وہ، اگر سالوں نہیں تو کئی مہینوں تک اپنے ملازمین کی روزی روٹی کا انتظام برداشت کرسکتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود، جب بحران آیا تو اس میں اتنی جرات تھی کہ اس نے اپنے محنت کشوں سے اجرت کے بغیر آٹھ ہفتوں کی چھٹی پر جانے کی ”درخواست“ کی۔ اور ساتھ ہی ساتھ، اس نے حکومت سے اپنی ائیر لائن کمپنی کو بیل آؤٹ کرنے کا مطالبہ بھی کر ڈالا۔ محنت کشوں کی جانب سے اس بے حسی پر آنے والے رد عمل کے بعد برینسن اور ایشلے، دونوں نے اپنا بیان واپس لے لیا۔ ظاہر ہے منافعوں کے لیے یہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ ایسا اسی وقت کرتے ہیں جب محنت کش حرکت میں آنے کی دھمکی دیں اور اس سے منافعوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔

آسٹریا میں ایشگل، ٹیرول میں واقع ایک اِسکی ریزورٹ کی انتظامیہ کو کم از کم نو دن سے اس جگہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا علم ہوچکا تھا۔ یہ مارچ کے ابتدائی دنوں کی بات ہے جب ابھی یورپ اس سے زیادہ متاثر نہیں ہوا تھا۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس تفریحی مقام کی ڈھلوانوں، مے خانوں اور ہوٹلوں کو منافعے میں نقصان کے خوف سے بند نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تفریحی مقام پورے خطے میں وائرس کے پھیلاؤ کا ایک بڑا مرکز بن گیا۔

اس ایک واقعے سے پوری دنیا کی حکومتوں کے ردِ عمل کی جھلک ملتی ہے۔ شروع میں چینی حکام نے بھی ووہان میں کرونا کی وبا کی موجودگی سے انکار کیا۔ انہوں نے نحیف و نزار چینی معیشت کو بچانے کے لیے اس کے بارے میں خبردار کرنے والے افراد اور صحافیوں کو سختی سے خاموش کروا دیا۔ انہوں نے اس وبا کو اس وقت تسلیم کیا جب بہت دیر ہو چکی تھی۔ ایران میں بھی قُم شہر کو کھلا رکھا گیا اور چین سے تعلقات کو برقرار رکھنے اور انتخابات میں زیادہ سے زیادہ شرکت کو یقینی بنانے کے لیے کئی ہفتوں تک وائرس کی موجودگی سے انکار کیا گیا۔ ہر جگہ حکمران طبقہ معیشت کو چلائے رکھنے کی پوری کوشش کرتا ہے جب تک کہ عوامی سماجی بے چینی کا خطرہ انہیں اقدامات کرنے پر مجبور نہ کر دے۔ اس کے باوجود بھی، جیسا کہ ہم اٹلی میں دیکھ سکتے ہیں کہ، منافعوں کو بچانے کے لیے کی جانی والی کوششیں، ان کوششوں کی افادیت کو کم کردیتی ہیں جو وائرس سے لڑنے کے لیے کی جا رہی ہوتی ہیں۔

اسی اثنا میں، لاکھوں افراد وہ کچھ کر رہے ہیں جو حکومتیں کبھی بھی نہیں کریں گی۔ برطانیہ میں لاکھوں افراد محلہ جاتی سطح پر اپنی مدد آپ بننے والی کمیٹیوں کا حصہ بن رہے ہیں تا کہ بیمار افراد، بزرگوں اور دوسرے کمزور گروہوں کی امداد کی جا سکے۔ حکومتی انکار کے بعد، ایران اور چین میں لوگوں نے لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے لیے خود ناکے لگانا شروع کر دئیے تھے۔ دنیا بھر میں لاکھوں افراد ہسپتالوں اور دیگر جگہوں پر رضاکارانہ طور پر کام کرنے کے لیے خود کو پیش کر رہے ہیں۔ یہ سب انسان کو فطرتی طور پر خود غرض ثابت کرنے کے لیے کافی ہے!!! جبکہ دوسری طرف ایوان اقتدار میں بیٹھے خواتین و حضرات پینترے بازیوں اور چالیں چلنے میں مصروف ہیں۔

یہ بس ایک عام زکام ہے!

کرونا وائرس کی شرحِ اموات کے بارے میں بہت زیادہ بات ہو رہی ہے۔ ہوم ڈپو نامی کمپنی کے شریک بانی ارب پتی کین لینگون کا بلومبرگ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا:

”اس بیماری کے حوالے سے میرے سے زیادہ قابل آدمیوں کی جانب سے مجھے جو بتایا گیا وہ یہ ہے کہ ابھی تک یہ بس ایک بُرا فلو ہے“۔ لیکن پھر سوال بنتا ہے کہ اٹلی جیسی جگہوں میں دس فیصد سے زائد شرح اموت کی وضاحت کیسے کی جا سکتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس کا دارومدار بھی اس پر ہے کہ آپ کا تعلق کس طبقے سے ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر زیادہ توجہ اور احتیاط کی جائے تو کرونا وائرس کی شرحِ اموات 1 فیصد سے بھی کم ہے۔ لیکن مناسب احتیاط اور اقدامات کے بغیر یہ شرح 5 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ پس جیسے ہی ہیلتھ کئیر کے نظام پر بوجھ زیادہ بڑھتا ہے، جیسا کہ اٹلی اور ایران میں ہوا، تو شرحِ اموات 5 فیصد یا اس سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ یا پھر آپ کے پاس بہتریں نجی علاج معالجے کی سہولت میسر ہو۔ کم آمدنی والے افراد میں پہلے سے کسی بیماری میں مبتلا ہونے کی شرح دوسروں کی نسبت 10 فیصد سے بھی زیادہ ہے جو اس وائرس کو ان کے لیے دس گنا زیادہ مہلک بنا دیتا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق یہ اعداد و شمار کرونا وائرس کو ”سماج کی نچلی پرتوں کے لیے دو گنا مہلک بنا دیتے ہیں“۔ سماج کی ان پرتوں میں کم عمری میں ہی زیادہ خطرناک صحت کے مسائل کا شکار ہونے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے جس کا مطلب ہے کہ کم عمر کے لوگ بھی کہیں زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں اگر ان کا تعلق غریب گھرانوں سے ہو۔

اس سب میں اس حقیقت کا بھی اضافہ کر لیں کہ کم آمدنی والے افراد ایک دوسرے کے زیادہ قریب رہتے ہیں اور انہیں امیر لوگوں کی نسبت زیادہ اکٹھے رہنا اور کام کرنا پڑتا ہے۔ وہ زیادہ خطرات مول لینے پر مجبور کیے جاتے ہیں اور اس لیے لمبے عرصے میں ان کے وائرس کا شکار ہونے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ جی ہاں یہ مسٹر لنگون اور اس کے دوستوں کے لیے فقط ایک ”برا فلو“ ہو سکتا ہے لیکن سٹورز میں دن رات سخت مشقت کرنے والے محنت کشوں کے لیے کہانی بالکل مختلف ہے۔

مظلوم اقوام

غریب ممالک میں صورتحال اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ کئی عشروں تک مغربی سامراج مظلوم اقوام کی دولت کو چوستے رہے ہیں۔ سامراجیت کے طوق نے افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ میں کئی ممالک کو پسماندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا۔ صحت کا نظام اور بنیادی انفراسٹرکچر تقریباً ہر جگہ نا پید ہے اور جہاں کہیں سرکاری سیکٹر موجود ہے اسے وہاں کے مقامی حکمرانوں نے، جو بس ملک کو بڑے لٹیروں کے ہاتھوں بیچ کر اپنی جیبیں بھرتے ہیں، برباد کر دیا ہے۔

دنیا بھر کے غریبوں کے لیے سیلف آئیسولیشن نامی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 1.8 ارب لوگ ناکافی گھروں یا بے گھری میں رہتے ہیں۔ تقریباً دنیا کی 40 فیصد آبادی کے پاس گھر میں صاف پانی اور صابن کی سہولت موجود نہیں ہے۔ ایسے میں صابن سے ہاتھوں کو متواتر دھونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کئی لوگ بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ اکٹھے رہتے ہیں اور سہولیات کا اشتراک کرتے ہیں۔ نیٹ ورک برائے گھریلو و زمینی حقوق کے مطابق انڈیا کے صرف شہری علاقوں میں تقریباً چالیس لاکھ بے گھر افراد موجود ہیں۔ سات کروڑ سے زیادہ بھارتی شہری جھونپڑ پٹیوں اور عارضی رہائشوں میں قیام پذیر ہیں۔ حقیقی اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ پوری دنیا میں یہی حالات موجود ہیں۔

ہندوستان کے وزیراعظم مودی نے ہر شہری سے طبی عملے کے لیے تالیاں بجانے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کی استدعا کی جو اس وقت عالمی وبا کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں۔ لیکن صحت کے نظام کو تالیوں سے کہیں زیادہ پیسے، عملے اور وسائل کی ضرورت ہے جس سے اس کو پچھلے کئی دہائیوں سے محروم رکھا گیا۔ بھارت میں 1700 افراد کے لیے صرف ایک ڈاکٹر ہے جبکہ اس پر دنیا کی بیماریوں کا 21 فیصد بوجھ موجود ہے۔ صحت کے نظام پر اخراجات جی ڈی پی کے تقریباً 1.28 فیصد کے برابر ہیں جبکہ دفاعی اخراجات جی ڈی پی کے 11 فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔ امیروں کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ ان کے لیے پرائیویٹ صحت کا نظام موجود ہے اور وہ اپنے مضبعط فصیلوں والے باغوں، حویلیوں، محلوں اور دیہات میں واقع عالیشان کوٹھیوں میں چھپ سکتے ہیں۔ ان ممالک میں بنیادی سہولیات سے محروم دنیا بھر کے کروڑوں محنت کشوں میں وائرس کے پھیلاؤ کے حالات پوری طرح سے تیار ہیں اور وہ اس سب میں اپنا کسی بھی قسم کا دفاع نہیں کر پائیں گے۔

نیچے ویڈیو میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پورا انڈیا ایک عام گلی میں رہنے والی آدمی سے لے کر ارب پتی صنعت کاروں جیسا کہ مکیش امبانی (جسے ویڈیو میں گھر والوں کے ساتھ دکھایا گیا ہے) تک کرونا وائرس کا سامنا کرنے کے لیے اکٹھے ہیں۔ لیکن مسٹر امبانی اپنے کئی منزلہ ٹاور نما محل میں کھڑا ہوا ہے جبکہ غریب گلیوں میں بے سروسامان بیٹھے ہیں۔ حقیقت میں یہ ویڈیو جو کچھ دکھاتی ہے وہ غریب اور امیر کے درمیان بڑھتا ہوا تفاوت ہے۔ یہ تفاوت جو کہ انڈیا کے زوال پذیر سرمایہ دار طبقے کی جانب سے بھارتی محنت کش عوام کے بے رحم استحصال کی پیداوار ہے اور یہ استحصال بلا مقابلہ ہمیشہ جاری رہنا ہے:

بھارت کے غریب عوام کے پاس جان بچا کر بھاگنے کے لیے کوئی جگہ موجود نہیں ہے۔ وائس نامی جریدے نے ایک پچاس سالہ خاتون پر ایک رپورٹ پیش کی جسے کرونا وائرس کی واضح علامات کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس لایا گیا۔یقیناً اس کا ٹیسٹ نہیں کیا گیا لیکن ڈاکٹروں نے سختی کے ساتھ اسے اکیلے رہنے کی تجویز ضرور دی جس پر اس عورت کی بیٹی نے کہا: ”ڈاکٹر صاحب آپ جو کہہ رہے ہیں وہ عملی نہیں ہے۔ ہمارا گھر ایک چھوٹا سا جھونپڑا ہے اور ہم چاروں ایک ہی کمرے میں رہتے ہیں۔ ہمارے پاس لیٹنے اور سونے کے لیے بھی بمشکل جگہ موجود ہے۔ ایک میٹر کا فاصلہ رکھنا مشکل ہے۔ ہم تین خواتین ہیں اور ہمارا باہر سونا محفوظ نہیں ہے اور باہر بچھوؤں اور سانپوں کا خطرہ بھی ہے“۔ وائس کے مطابق ڈاکٹروں نے اسے گھر سے کم سے کم نکلنے پر قائل کرنے کی پوری کوشش کی۔ لیکن اس کی بیٹی کا کہنا تھا کہ بارش ہو یا دھوپ، صحت مند ہو یا بیمار، اسے بکریوں کو چرانے کے لیے باہر ضرور جانا پڑتا ہے۔ یہ کہانیاں کروڑوں نہیں تو ہزاروں لاکھوں دفعہ بھارت اور اس جیسے دیگر کئی ممالک میں آنے والے عرصے میں سنائی جائیں گی۔

بیماری سے ہونے والے فوری مسائل کے علاوہ بھی ناقابلِ تصور معاشی دباؤ بھی عام عوام کے کاندھوں پر ڈالا جانا ہے۔ لوگ بہت بڑی تعداد میں لاک ڈاؤن سے متاثر ہو رہے ہیں جو ان سے ان کے روزگار کے وسائل چھین رہے ہیں۔ کروڑوں غریب چھابڑی فروش، دیہاڑی دار اور پھیری والے دہلی سے اپنے آبائی دیہاتوں میں لوٹ جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے پاس شہروں میں کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ بے گھروں کے لیے بنائی گئی پناہ گاہیں لوگوں سے بھر چکی ہیں۔ پولیس لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی پر ان پر وحشیانہ جبر کر رہی ہے۔

وہ اپنے دیہاتوں کی طرف سینکڑوں نہیں ہزاروں کلومیٹر پیدل جانے پر مجبور کر دیے گئے ہیں جہاں وہ اپنی مقامی فصلوں پر گزارہ کر سکتے ہیں۔ وائرس بھی ان کے ساتھ ساتھ جائے گا جو اس طرح ملک کے نئے حصوں کی طرف پھیلے گا جہاں صحت اور صفائی کے انتظامات پہلے ہی نا پید ہیں۔ وہ مکمل طور پر وائرس کے رحم و کرم پر ہوں گے اور یہ سب تو صرف آغاز ہے۔

بڑی دوا ساز کمپنیاں

اموات کی تعداد اوراس سب سے ہونے والی تباہی کو دیکھتے ہوئے، آپ اسی چیز کو ہی سب سے زیادہ تعقلی سمجھیں گے کہ میڈیکل کی تمام تر ریسرچ اور تمام دیگر آپشنز کو عالمی سطح کے اس بحران کو حل کرنے کے لیے مجتمع کیا جائے۔ لیکن سرمایہ داری کے قوانین کے مطابق ایسا نہیں ہوسکتا۔ یہاں پر منافعوں اور بے رحم طبقاتی مفادات کو زیادہ مقدم سمجھا جاتا ہے۔

ویکسین بنانے کی دوڑ کے راستے میں قومی حکمران طبقات کی مقابلے بازی سب سے بڑی رکاوٹ بن رہی ہے۔ امریکہ، یورپ اور چین سب ایک دوسرے سے پہلے ویکسین بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اس سے عالمی اثر و رسوخ کو بڑھایا جا سکے۔ یہ خبر بھی گردش کر رہی تھی کہ امریکی صدر جرمنی کی بائیوٹیک کمپنی CureVec کو،جو ایک بہت ہی اہم ویکسین پر کام کر رہی ہے، خریدنے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ اس کوشش کی ناکامی کے بعد، اس کمپنی نے مشکوک انداز میں یورپی یونین سے 8.5 کروڑ ڈالر کی گرانٹ حاصل کی۔

اموات کی تعداد اوراس سب سے ہونے والی تباہی کو دیکھتے ہوئے، آپ اسی چیز کو ہی سب سے زیادہ تعقلی سمجھیں گے کہ میڈیکل کی تمام تر ریسرچ اور تمام دیگر آپشنز کو عالمی سطح کے اس بحران کو حل کرنے کے لیے مجتمع کیا جائے۔ یہاں پر منافعوں اور بے رحم طبقاتی مفادات کو زیادہ مقدم سمجھا جاتا ہے۔

حتیٰ کہ ریلیف کے اقدامات میں بھی حکمران طبقہ رکاوٹ ڈالتا ہے۔ جرمنی اور دیگر یورپی ممالک نے وبا پھیلنے کے پہلے ہفتے میں جان بوجھ کر انتہائی کمینگی سے اٹلی جانے والے انتہائی اہم میڈیکل سامان کی بحری کھیپوں کو روکے رکھا۔ ذرا تصور کیجیے کہ کتنے لوگوں کو اس کی قیمت اپنی جان کی صورت میں ادا کرنی پڑی۔

سرمایہ دار عوام کے دکھوں پر دولت کمانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ وہ ادویات جو ممکنہ طور پر وائرس میں مبتلا لوگوں کا علاج کر سکتی ہیں، مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق، رائزنگ فارما سیوٹیکل کمپنی نے ملیریا کے علاج میں استعمال ہونے والی دوائی ’کلوروکوئین‘ جو ابھی کرونا کے علاج کے لیے آزمائی جارہی ہے، کی قیمت میں 98 فیصد تک اضافہ کر دیا۔عوامی غم و غصے کے اظہار کے بعد کمپنی نے بعد میں کہا کہ وہ اس کی قیمت کم کر دے گی۔ لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ ایسا ہوگا یا نہیں۔

انٹرسیپٹ کے مطابق ایک اور ممکنہ طور پر موثر دوائی ’ریمڈیسیور‘ جو کم از کم 7.9 کروڑ ڈالر کے عوامی فنڈ سے تیار کی گئی تھی، کو امریکی فوڈ اور ڈرگ اتھارٹی(FDA) نے چند دن پہلے ”یتیم“ کا درجہ دے دیا۔ یہ درجہ دیا جانا کسی صنعت کار کو اس دوائی کی تیاری پر اجارہ داری دے دیتا ہے، اگر وہ دوائی کچھ نایاب بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال ہونی مقصود ہو۔ لیکن ہم جانتے ہیں کرونا وائرس نایاب بیماری نہیں ہے۔ یہ درجہ فارما سیوٹیکل کمپنی کو اس دوائی کی قیمت اپنی مرضی کے مطابق بڑھانے کی اجازت دیتا ہے۔ اسی ایک رپورٹ کے مطابق 2018 ء میں اس درجے میں شامل کسی دوائی کا دوران علاج ایک سال کا اوسط خرچ 98500 ڈالر تھا جبکہ اس کے مقابلے میں دوسری ادویات جو اس درجے میں شامل نہیں ان کا خرچ 5000 ڈالر تھا۔ پس منافعوں کی ہوس ایک بار پھر ان ادویات تک عوامی پہنچ کو محدود کر دے گی جو ہزاروں عام لوگوں کی زندگیاں بچا سکتی ہیں۔ جس وقت بڑے فارما اور مختلف ملکوں کی قومی بورژوازی اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے بھاگ دوڑ کر رہی ہے، عوام نیچے سے اس بحران سے نپٹنے کے لیے بے پناہ اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک آکسیجن پروجیکٹ ہے، جو کہ بغیر کاپی رائٹ کے ایک ہارڈ وئیر پروجیکٹ ہے، جس کا مقصد کم ٹیکنالوجی والا کم قیمت مشینی وینٹی لیٹر ہے جسے کہیں پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی اس پروجیکٹ سے منافع نہیں کما رہا ہے لیکن ابھی بھی یہ کافی جدید ہے۔ یہ اس سب کے خلاف جاتا ہے جو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ کیسے منڈی اور سرمایہ داروں کی مقابلہ بازی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے بہترین انداز میں یقینی بناتی ہے۔ درحقیقت، ہماری ضرورت کے وقت میں ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت انسانیت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔

بند گلی میں پھنسا نظام

ہر قدم پر منافعوں کی فکر سماجی ضروریات اور محنت کشوں کی زندگیوں پر فوقیت حاصل کر لیتی ہے، جس کے نتیجے میں سینکڑوں ہزاروں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ مر سکتے ہیں۔ ایسا اس لیے نہیں کہ یہ سب ناگزیر ہوتا ہے، یا وبا پر قابو نہیں پایا جا سکتا یا انتہائی خطرے کی حالت میں موجود لوگوں کے لیے علاج موجود نہیں۔ بلکہ یہ سب اس لیے ہوتا ہے کیونکہ سرمایہ داری کے پہیوں کو چلائے رکھنا لازم ہے، کاروباروں کا چلتے رہنا اور منافعوں کی شرح برقرار رہنا زیادہ اہم ہے۔

کیا آپ صحت کی سہولیات حاصل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے؟ بہت بری بات ہے! کیا آپ کو انفیکشن لگنے کا اس لیے خطرہ ہے کیونکہ آپ کام بند نہیں کرسکتے؟ بہت بری بات ہے! کیا آپ کو علاج کی انتہائی شدید ضرورت ہے اور آپ اس کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے؟ بہت بری بات ہے۔ پس آپ ”قابل ترجیح“ نہیں ہیں۔ ایک سرمایہ دارانہ معاشرے میں آپ ترجیح نہیں رکھتے۔ منافع ہی سب سے اہم ترجیح ہے۔ یہ نظام ایسے ہی بنایا گیا ہے اور اسی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو کھو دیں گے، بچے اپنے والدین کو کھو دیں گے۔ آپ کے بھائی، بہنیں، دوست اور ساتھی مر جائیں گے۔ جیسا کہ بورس جانسن نے ہمیں بتایا، ”اپنے پیاروں کو کھو دینے کے لیے تیار ہو جاؤ“۔ سرمایہ داری کا حقیقی چہرہ، سوٹ بوٹ پہنے پڑھے لکھے خوش گفتار بد معاشوں کی حقیقی فطرت دیکھنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ جیسے ہی یہ سنہرا ماسک کھسکے گا، سرمائے کا گلا سڑا، غلیظ اور مردار چہرہ دیکھنے کے لیے تیار ہوجائیں۔

حکمران طبقے کے مفادات، بحیثیتِ مجموعی سماج کے مفادات کی مخالف سمت میں جا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ جب وہ کوئی اقدام اٹھاتے بھی ہیں تواس وقت بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہوتا ہے۔ اقدامات اس طرح اٹھائے جاتے ہیں کہ کاروبار سب سے پہلے اور سب سے زیادہ محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ ایسا کسی دوراندیشی یا سماج کے مفاد کے لیے نہیں کیا جاتا بلکہ محنت کش طبقے کی جانب سے درپیش کسی خطرے کو ٹالنے کے لیے کیا جاتا ہے، جس سے پورے سرمایہ دار طبقے کی حکمرانی کو خطرہ درپیش ہوسکتا ہے۔

آج ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے، انسانیت کے پاس ان کو حل کرنے کے لیے تمام تر علم اور پیداوری صلاحیت موجود ہے۔ ناقابل تصور تکنیکی صلاحیتوں سے مالامال بڑی بڑی فیکٹریاں موجود ہیں۔ دیوہیکل کمپیوٹنگ کی صلاحیت موجود ہے۔ روبوٹ ٹیکنالوجی ہے۔ سینکڑوں ہزاروں سائنسدان اور محنت کش اس وائرس کو روکنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔

لیکن جب تک ایک چھوٹا سا مراعات یافتہ طبقہ ذرائع پیداوار کی ملکیت رکھتا ہے، یہ سب کچھ ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ آج ہمیں صرف ایک عالمی وبا کا سامنا نہیں ہے۔ بلکہ سب سے بڑھ کر یہ پیداواری طاقتوں کا پیداواری تعلقات کے خلاف ایک بغاوت ہے۔ بنی نوعِ انسان نے پچھلے ایک ہزار سال میں جس دیوہیکل پیداواری صلاحیت کو حاصل کیا ہے وہ طبقاتی معاشرے کے ساتھ براہ راست تضاد میں ہے۔ سرمایہ داری ترقی کے راستے میں ایک رکاوٹ بن چکی ہے۔

سرمایہ دار طبقہ انسانی سماج کو لاحق کینسر ہے جو اس کو ترقی دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ اس کے برعکس محنت کش طبقہ، جو ساری دولت پیدا کرتا ہے، کا سماج کو آگے لے جانے کے علاوہ اور کوئی مفاد نہیں ہے۔ اس لیے ہمارا مطالبہ ہونا چاہیے: اگر حکمران طبقہ ہماری بہتری برداشت نہیں کر سکتا تو ہم بھی اسے برداشت نہیں کر سکتے۔ ان کو اکھاڑ پھینکا جائے اور ان کی تمام تر دولت اور جائیداد کو چھین لیا جائے۔

سرمایہ داری کی جگہ ایک نئے سماج کو تعمیر کرنا ہوگا، جس میں تمام تر پیداوار کی ملکیت اور کنٹرول محنت کشوں کو حاصل ہو۔ ایک ایسا معاشرہ جو چند مراعات یافتہ لوگوں کے مفاد کے لیے بلکہ پورے معاشرے کے مفاد کے لیے کام کرتا ہو۔

Comments are closed.