کراچی: پاکستان اسٹیل ملز، تباہی و بربادی کی عیاں داستان

|خصوصی رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ|

پاکستان اسٹیل مل پاکستان میں اسٹیل کی مصنوعات اور خام لوہے سے خالص لوہا نکالنے کی صلاحیت رکھنے والا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس کی پیداواری صلاحیت کو اگر ہندسوں میں پیش کیا جائے تو 11لاکھ ٹن لوہا پیدا کرنے کے علاوہ ایک ہی وقت 55لاکھ ٹن لوہے کی مختلف شکلوں میں ڈھلائی کی گئی مصنوعات پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہ ادارہ صرف اسٹیل مصنوعات ہی نہیں بنا سکتا بلکہ اس کی بدولت چھوٹی بڑی مزید فیکٹریاں لگائی جا سکتی ہیں۔

پاکستان اسٹیل ملز میں موجود سوویت یونین کی بنی ایک مشین

1970ء میں اس ادارے کی تعمیر سوویت یونین کے تعاون سے اس وقت کی گئی جب پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت قائم تھی۔ جبکہ اس کا تعمیری معاہدہ اس سے قبل یحییٰ خان کے مارشل لا کے دوران طے پایا تھا۔ یہ ادارہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا ادارہ ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی چند بڑی اسٹیل ملز میں شمار ہوتا ہے جبکہ اس کی تعمیر کے وقت اس مل کو مزید توسیع دینے کے لیے پہلے سے ہی اسے اس طرح تعمیر کیا گیا تھا کہ وقت آنے پر اس کی پیداواری صلاحیت کو دوگنا کیا جا سکے۔ منصوبہ بند معیشت سے پاکستان میں خاطر خواہ فائدہ تو نہیں لیا گیا مگر ملکی پیداوار کو بڑھانے کی غرض سے پیٹرول اور گیس کی طرح اسٹیل کی مصنوعات کے لیے بھی ملکی سرمایہ داروں اور تاجروں کو پابند کیا گیا کہ وہ پاکستان اسٹیل مل سے ہی مصنوعات خرید کریں۔ اس ادارے کی پیداواری صلاحیت کو مکمل بروئے کار لانے کے بعد بھی اگر طلب بچ جائے تو پاکستان اسٹیل مل سے NOCحاصل کرنے کے بعد ہی کوئی تاجر یا کمپنی لوہے کی مصنوعات بیرون ملک سے درآمد کر سکے۔ ان تمام شرائط اور اس ادارے کی پیداواری صلاحیت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا تقریباً نا ممکن نظر آتا ہے کہ یہ ادارہ خسارے میں جا سکتا تھا۔

پرانی کہاوت ہے کہ جنگل میں آگ لگی اور بندرکے پاؤں جلنے لگے تو اس نے اپنے بچوں کو اپنے پیروں تلے دے کر آگ سے بچنے کی کوشش کی مگر آگ بڑھی تو نہ بندر بچا نہ بندر کے بچے۔ ایسا ہی کچھ پاکستان کے سرمایہ دار حکمرانوں کے ساتھ ہوا ہے۔ پاکستان میں ویسے تو تمام بر سر اقتدار آنے والے افراد کا تعلق سرمایہ دار یا جاگیر دار گھرانوں سے تھا جن میں سے کچھ نے عوام دوست یا سوشلسٹ ہونے کا ناٹک بھی کیا مگر ان سب کا ایک ہی منصوبہ رہا کہ کسی طرح سرمایہ دار طبقے کو تحفظ فراہم کیا جائے جو اب گراوٹ کا شکار ہو کر یا تو بڑی مقدار میں سرمایہ سمیٹے جانے کی شکل اختیار کر گیا ہے یا پھر IMF، ورلڈ بنک اور آج کل چینی سرمایہ داروں کی خوشنودی حاصل کرنے میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ان سرمائے کے دلالوں کو پاکستان اسٹیل ملز ایک سونے کی چڑیا نظر آرہی تھی جبکہ پاکستان سے باہر موجود اسٹیل کی پیداوار کرنے والے سرمایہ داروں کی آنکھ کا کانٹا۔ پاکستان اسٹیل ملز پاکستان جیسی بڑی منڈی میں عالمی سرمایہ داروں کی فولادی مصنوعات کی فروخت کے راستے کی سب سے بڑی دیوار تھی جس کو ہٹانے کا کام پرویز مشرف کے دور میں شروع کیا گیا۔ مشرف دور میں پاکستان اسٹیل ملز پر جو پہلا حملہ کیا گیا وہ اس کی مصنوعات کی لازمی فروخت کے حوالے سے تھا یعنی پاکستان میں فولاد کی مصنوعات کی خرید کے سلسلے میں پاکستان اسٹیل ملز سے لازمی اجازت کا قانون ختم کرتے ہوئے منڈی کو سرمایہ دارانہ مقابلے کے لیے کھول دیا گیا۔ جس سے ایک طرف تو اس کی مصنوعات کی فروخت میں کمی واقع ہوئی دوسرا اس کی مصنوعات کو انتہائی سستے داموں فروخت کرتے ہوئے پاکستان کے سرمایہ داروں اور تاجروں کو بے پناہ منافع کمانے کا موقع دیا گیا۔ اس عمل سے پاکستان اسٹیل مل کی معاشی کارکردگی یعنی منافع کم ہونے لگا۔ اور منافع کی کمی کو اعداد کے گھن چکر میں نقصان بنا کر پیش کرتے ہوئے اسے فروخت کر دیا گیا۔ جس کے خلاف محنت کشوں نے تحریک چلائی اور نجکاری کو غیر موثر کرتے ہوئے اسے واپس قومی ملکیت میں لیے جانے پر زور دیا۔ پاکستان اسٹیل ملز کے محنت کشوں کی تحریک کو باقی محنت کش طبقے سے چھپانے کی غرض سے سارے عمل کو عدالتوں کے دروازوں سے گزارا گیا اور چیف جسٹس افتخار چوہدری کو پاکستان اسٹیل ملز کا دفاع کرنے والا ہیرو بنانے کی کوشش کی گئی۔ اسٹیل ملز کو جس قیمت پر فروخت کردیا گیا تھا اس مالیت سے زائد قیمت کا اس کے مختلف گوداموں میں کباڑ پڑا ہوا تھا۔ لیکن پرویز مشرف نے جن عالمی مالیاتی اداروں سے بھاری قرضہ حاصل کیا تھا ان کے احکامات بجا لانے کی جلدی میں وہ محنت کش طبقے کو بھول گیا تھا۔ لیکن تحریک چلا کر محنت کش طبقے نے نہ صرف اپنے ہونے کا بلکہ سب سے طاقتور فریق ہونے کا ثبوت دیا۔

ستمبر 2016 میں پاکستان اسٹیل ملز کے محنت کشوں کے احتجاج کا ایک منظر-فوٹو رائٹرز

اسٹیل مل کی نجکاری کا فیصلہ تو واپس لے لیا گیا مگر اس ادارے کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔ ایک تو اس ادارے کو ہر صورت میں فروخت کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے دوسرا پرویز مشرف سے اب تک برسر اقتدار آنے والے حکمران بھلے لفظوں میں ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہوں مگر ان سب کے منصوبے نہ صرف ایک ہیں بلکہ یہ ایک دوسرے کے ادھورے کاموں کو پورا کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ پرویز مشرف کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت آ گئی مگر ان سب نے حسب توفیق اس ادارے کی پیداواری صلاحیت کو تباہ کرنے میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز کو جب مشرف کے دور اقتدار میں پہلی بار فروخت کرنے کی کوشش کی گئی تھی اس وقت اس کی پیداواری صلاحیت کو سو فیصد بروئے کار لایا جا رہا تھا۔ جبکہ اس کے بعد کے دس سالوں میں اس کی پیداوار ی صلاحیت کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا اور اس وقت پیداواری عمل مکمل طور پر بند ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے ٹھیک دو سال بعد اپریل 2010ء میں پہلی بار پاکستان اسٹیل مل کے محنت کشوں کی تنخواہوں میں تعطل آنا شروع ہوا۔ اس سے قبل تنخواہوں میں تعطل کا کوئی وجود نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے اسٹیل ملز کے پاس ایک اندازے کے مطابق 10ارب کا خام مال، 12ارب تک کیش اور8ارب کی تیار مصنوعات موجود تھیں۔ لیکن ان تما م اشیا اور رقم کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا یہ راز آج تک راز ہی ہے۔ ادارے کی پیداوار میں کمی کو مد نظر رکھتے ہوئے 42ارب کا بیل آؤٹ پیکج بھی دیا گیا جو شاید کاغذوں میں ہی تھا کیونکہ اتنی خطیر رقم کے با وجود مل میں پیداوار کا عمل شروع نہیں ہو سکا۔ اسٹیل مل کے محنت کشوں کے حالات بد سے بد تر ہونے لگے۔ بعض محنت کشوں نے تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے اسٹیل مل کی نوکری کے بعد پارٹ ٹائم نوکریاں کرنا شروع کر دیں۔ لیکن انہیں امید تھی کہ ایک دن یہ مل چل پڑے گی اور ان کے حالات پھر سے پہلے جیسے ہو جائیں گے۔ زرداری کا اقتدار ختم ہوا اور نواز شریف نے کرسئ اقتدار سنبھالی۔ نواز شریف نے آتے ہی 75ارب کا حساب طلب کیا یعنی 30ارب اس خام مال، تیار مصنوعات اور کیش جو اسٹیل مل کے پاس موجود تھا اور وہ 45ارب جو اس ادارے کو چلانے کے نام پر جاری کیا گیا تھا۔ حساب نہ دے پانے کی بنا پر چند افسران کو گرفتار کرنے کے بعد ایک اور بیل آؤٹ پیکج دیا گیا جس کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان اسٹیل ملز نے اپنی پیداواری صلاحیت کا 30فیصد بروئے کار لانا شروع کر دیا۔ یہ ایک اہم نکتہ تھا جہاں اس ادارے کے محنت کشوں نے ثابت کیا کہ وہ اس ادارے کو نہ صرف صرف چلا سکتے ہیں بلکہ ان کی اتنی تکنیکی صلاحیت موجود ہے کہ وہ ایک مردہ ادارے میں جان ڈال سکتے ہیں۔ پیداواری صلاحیت میں جان پڑنے کے بعد محنت کشوں کے حوصلے بلند ہونے لگے جو کہ نجکاری کرنے والے سرمایہ داروں کے پیشہ ور دلالوں اور بیرونی اور اندرونی سرمایہ داروں کے لیے خطرناک تھا۔ اسی لیے جب پیداواری صلاحیت کو 30فیصد تک پہنچایا گیا اسی وقت یعنی جون 2015ء میں گیس سپلائی کرنے والے سرکاری ادارے نے پاکستان اسٹیل مل کو گیس کی فراہمی منقطع کر دی۔ جس کے نتیجے میں اس ادارے کی کارکردگی پھر سے صفر پر آگئی۔

اسٹیل مل کے ورکرز اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ایسا کیوں کیا گیا اور اس ادارے کی بندش سے کس کو فائدہ ہونے والا ہے۔ پاکستان اسٹیل مل ایک تو وسیع اراضی پر مشتمل ہے جسے پراپرٹی کے بڑے ڈیلرز للچائی ہوئی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ دوسری طرف اس ادارے کو مختلف بیرونی سرمایہ کار اونے پونے خریدنے میں کافی دلچسپی رکھتے ہیں جس کا اعلان کھل کر میڈیا پر کیا جا چکا ہے۔ جس کے مطابق پاکستان اسٹیل مل کو 30سال کے لیے لیز پر دئیے جانے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ جبکہ لیز پر دینے کے لیے بھی ادارے سے 5000محنت کشوں کو برطرف کر دیا جائے گا۔ اسی طرح سے 2008سے اب تک ریٹائر ہونے والے محنت کشوں میں سے 2000سے زائد ایسے ہیں جن کو گریجوئیٹی کی رقم ادا نہیں کی گئی۔ اور نہ ہی پنشن دی جا رہی ہے۔ اس وقت بھی حکومت کی طرف پاکستان اسٹیل ملز کے محنت کشوں کی تین ماہ کی تنخواہیں باقی ہیں۔ لیکن اگر ہم ماضی کے تجربات سے سیکھیں تو ہم آسانی سے اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ نجکاری کیخلاف لڑائی کو اکیلے نہیں جیتا جا سکتا۔ پاکستان اسٹیل ملز کے محنت کشوں سمیت سارے محنت کشوں کو ایک طاقت بننا ہوگا۔ محنت کشوں کا ملکی اور عالمی سطح پر ایک ہو جانا ہی ان کے محفوظ مستقبل کی ضمانت بن سکتا ہے۔ محنت کش نہ تو کمزور ہیں اور نہ ہی حکمرانوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ انہیں صرف ایک قدم بڑھانا ہے تمام تعصبات کو تفریقوں کو مٹاتے ہوئے اتحاد کی جانب۔ اور پھر متحد ہو کر محنت کش طبقے کے اقتدار کی جانب یعنی سوشلسٹ انقلاب کی جانب۔

Comments are closed.