ایران کے ساتھ جنگ نامنظور! امریکی سامراج مردہ باد!

|تحریر: انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل|

ہفتہ کے دن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترتھ سوشل پر لکھا کہ ”امن کا یہی وقت ہے“۔ اسی دن امریکہ نے ایران پر جدید تاریخ کا سب سے بڑا عسکری حملہ کیا۔ یورپی قائدین نے ٹرمپ کی حمایت کی، جن میں اس کا ڈاؤننگ سٹریٹ کا وفادار غلام بھی شامل تھا۔ سب نے ایران پر دباؤ ڈالا کہ ”ضبط“ کا مظاہرہ کرو، ”اشتعال انگیزی ختم کرو“ اور مذاکرات کی میز پر واپس آ بیٹھو۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

برتولت بریخت نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ”جب قائدین امن کی بات کرنی شروع کر دیں تو عوام کو پتا چل جاتا ہے کہ جنگ ہونے والی ہے۔“ اس کا اشارہ ہر جنگ سے پہلے پھیلائے جانے والے شاطر پروپیگنڈہ کی طرف تھا۔ اس کا مقصد عوام کی نظروں میں جنگ کو درست، مدافعانہ اور پوری قوم کے مفاد میں لازمی دکھانا ہوتا ہے جبکہ حقیقت میں یہ مجرمانہ جنگ حکمران طبقہ کے مفاد میں لڑی جاتی ہے جس کی سب سے بھاری قیمت سماج کی غریب ترین پرتیں ادا کرتی ہیں۔

ہر جارحانہ قدم کو ایک دفاعی قدم بنا کر پیش کرنا ایک ایسا طریقہ کار ہے جسے طبقاتی جنگ کی تاریخ میں مسلسل تراش خراش کر عروجِ کمال پر پہنچا دیا گیا ہے۔ لیکن جس گھٹیا، کھلی نخوت کے ساتھ ایران پر جنگ مسلط کرنے کی آج کوشش کی جا رہی ہے، وہ حیران کن ہے۔ بریخت اگر زندہ ہوتا تو حیرانی سے اس کی آنکھیں پھر جاتیں۔ اگر ابھی تک کسی کو کچھ واضح نہیں ہوا ہے تو ہم ریکارڈ کو درست کر دیتے ہیں۔

اسرائیل نے ایران پر بلااشتعال ایک دیوہیکل عسکری حملہ کیا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو حکم دیا ہے کہ اس پاگل جوئے میں شامل ہو جائے۔ اس کا نتیجہ خطے اور دنیا کی عوام کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔

ایران سے اسرائیل یا امریکہ کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ CIA خود بتا رہی ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام کم از کم بھی ایک جوہری بم بنانے سے تین سال دور ہے۔ پھر ایرانی ریاست نے آج تک ایک جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی خواہش نہیں کی۔ اس کے برعکس انہوں نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اپنا جوہری پروگرام سویلین استعمال تک محدود رکھتے ہوئے مغربی پابندیوں کے خاتمے کے لیے ایک معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہی امریکہ ایران معاہدے کے بنیاد تھی جسے ٹرمپ نے 2018ء میں پھاڑ پھینکا تھا۔

اس لیے مغرب کی مذاکرات کی اپیلیں حقائق کے مکمل طور پر خلاف ہیں، ایران کو مذاکرات کی میز پر ”واپسی“ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس نے کبھی وہ میز چھوڑی ہی نہیں تھی۔ یہ بنیامین نیتن یاہو ہی تھا جس نے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا فیصلہ کیا اور امریکہ کا ”امن پسند صدر“ ساتھ شامل ہو گیا۔ اس طرح امریکی اور اسرائیلی سامراج نے ایک مرتبہ پھر پہلے سے شدید تناؤ کے شکار خطے کو اور زیادہ پرانتشار بنا دیا ہے۔

پچھلے دو سالوں میں اسرائیل نے غزہ، مغربی کنارے، لبنان، شام اور یمن پر حملے کرتے ہوئے کروڑوں افراد کی زندگیاں برباد کی ہیں۔ اس نے دھمکی دی ہے کہ وہ ہر اس انسان کو نیست و نابود کر دے گا جو اس کے خلاف کھڑے ہونے کی ہمت کرے۔ اس سارے عمل میں امریکہ اور مغرب نے اس کی مکمل مادی اور سیاسی حمایت کی ہے جس کی اپنی تاریخ مشرق وسطیٰ میں خونی مداخلتوں سے بھری پڑی ہے؛ یعنی عراق، افغانستان، شام، لیبیا اور یمن۔

اس نے موت اور تباہی و بربادی کی طویل داستان رقم کر رکھی ہے۔ خوبصورت ثقافت سے مالا مال پروقار اقوام کو ذلیل ترین بربریت میں دھکیلا جا چکا ہے۔ کسی قوت نے آج تک اتنی زندگیاں برباد نہیں کیں جتنی امریکی سامراج نے برباد کر دی ہیں۔

لیکن پھر بھی یہ ایران ہے جسے ”عدم استحکام کا عنصر“ بتا کر اس پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ ایرانی ریاست کا امریکی اور اسرائیلی سامراج کے خلاف اصل جرم یہ ہے کہ اس نے وہ صلاحیت پیدا کر لی ہے جس کے ذریعے وہ ان کی من موجی، تنگ نظر اور مفاد پرست چالوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔

ایک قابل ذکر عسکری اور سیاسی بنیاد بنانے کے بعد اب ایران کا مطالبہ ہے کہ اسے مشرق وسطیٰ کی طاقت تسلیم کرتے ہوئے میز پر بیٹھنے کی اجازت دی جائے۔ لیکن امریکہ اور اسرائیل کسی کے ساتھ اپنا کیک شیئر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ اصل حقیقت ہے۔

جمہوریت

حالیہ دنوں میں ایران میں جمہوریت کی کمی کے حوالے سے بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ اپنے مغربی حامیوں کے ساتھ کھڑے نیتن یاہو نے ایران کی عوام سے اپیل کی ہے کہ اس ”بری اور جابر ریاست“ سے ”آزادی“ چھین لیں۔

لیکن سب سے پہلے تو یہ سوال ہو گا کہ نیتن یاہو، ٹرمپ اور اس کے یورپی پالتو کتوں کے پاس کیا مینڈیٹ ہے۔ نیتن یاہو سے اسرائیل کی اکثریت عوام نفرت کرتی ہے۔ اس کی حکومت مسلسل بحران سے بحران تک کے گھن چکر میں پھنسی ہوئی ہے۔ محض دو ہفتے پہلے حکومت کا خاتمہ ہونے لگا تھا۔ یہ بات اسرائیل میں زبان زدِ عام ہے کہ نیتن یاہو ایک جنگ سے دوسری جنگ پہ اس لیے اچھل کود رہا ہے تاکہ اسرائیلی عوام کو مسلسل خوفزدہ رکھ کر اقتدار پر قابض رہ سکے۔ اس کی سب اہم کامیابی ایرانی جنگ میں امریکی سامراج کو گھسیٹنا ہے جس کی کوشش وہ 7 اکتوبر 2023ء سے کر رہا ہے۔

ٹرمپ نیتن یاہو کے جال میں پھنس چکا ہے حالانکہ وہ تمام جنگیں اور خاص طور پر مشرق وسطیٰ کی جنگیں ختم کرنے کے پروگرام پر منتخب ہوا ہے۔ امریکہ کی 60 فیصد آبادی ایران پر حملے کے خلاف ہے اور صرف 16 فیصد حق میں ہے! اب وہ بائیڈن کی میراث لے کر چل پڑا ہے۔

یورپی ریاستوں کی حمایت کے ساتھ ان لوگوں کے غیر ذمہ دار اقدامات پورے خطے میں ایک خوفناک جنگ چھڑنے کے درپے ہیں، جو ممکنہ طور پر عالمی معیشت کو ایک بحران میں دھکیل سکتی ہے جس کی قیمت کروڑوں لوگ ادا کریں گے۔ ان لوگوں کے حقوق کہاں ہیں؟

اس کے باوجود یہی خواتین و حضرات بندوق کی نوک پر ایرانی عوام کو جمہوریت کا سبق دے رہے ہیں! ایرانی عوام کو صرف عراق، افغانستان اور لیبیا کو ہی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کس قسم کی ”جمہوریت“ ان کا مقدر ہے۔

حقیقی جنگی عزائم

اس جنگ کا حقیقی مقصد استحکام، امن، جمہوریت یا جوہری ہتھیاروں کی تباہی نہیں ہے۔ یہ اسرائیلی حکمران طبقے اور اس کے مغربی حامیوں کا سوال ہے کہ ان کے پاس خطے میں بغیر کسی روک ٹوک، کسی کے ساتھ کسی بھی وقت بغیر کسی مدافعت کے، کچھ بھی کرنے کا حق حاصل ہو، یعنی بدمعاشی، بمباری اور فوج کشی کا حق۔

اسرائیل کی حمایت میں امریکی سامراج نے ایک مرتبہ پھر دنیا کی سب سے خوفناک، خونی اور انتشار کی قوت کے طور پر اپنا چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔ یہ رجعتیت کی آماجگاہ ہے جو اپنا زہر سیارے کے ہر کونے میں پھیلا رہا ہے۔ اس لیے یہ پوری دنیا کے محنت کش طبقے کا بنیادی دشمن ہے۔ ایرانی محنت کشوں اور غرباء کی حقیقی آزادی، ایرانی محنت کشوں اور غرباء کا اپنا فرض ہے۔ یہ کام مغربی سامراج سر انجام نہیں دے سکتا۔ اس کے برعکس، ان کی حقیقی آزادی کی جدوجہد امریکی سامراج کے خلاف جدوجہد سے مشروط ہے۔

سامراجی دہائیوں سے مشرق وسطیٰ کو تباہ و برباد اور لوٹ کھسوٹ رہے ہیں اور یہی جبر اور استحصال وہ مغرب میں محنت کشوں کا بھی کر رہے ہیں۔ اب وہ ہمیں بتا رہے ہیں کہ ایران ہمارے تحفظ اور سیکیورٹی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ لیکن ان کے ہاتھ دنیا میں کسی بھی ریاست سے زیادہ خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ یعنی بنیادی دشمن گھر پر ہے اور مظلوم اقوام کی آزادی کی جدوجہد مغرب میں سرمایہ دار طبقے کے خلاف جدوجہد سے مشروط ہے۔

ایران سے جنگ، مردہ باد!

امریکی سامراج، مردہ باد!

دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاؤ!

Comments are closed.