|تحریر: جول برگمین، ترجمہ: عبدالحئی|
کینیڈا کے حکمران طبقے کو سکھ کا سانس نصیب ہوا ہے۔ ان کے طبقے کا امیر بینکار، مارک کارنی، انتخابات جیت گیا ہے۔ لیکن یہ خوشی زیادہ وقت کے لیے نہیں ہو گی۔ کارنی کو سست رو معیشت اور امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ کی صورت میں ایک نہایت مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ یہ واضح ہے کہ عدم استحکام اور بحران سر پر ہیں اور ہمیں آنے والے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
لبرلز کو ٹرمپ نے بچا لیا
یہ انتخاب لبرل پارٹی کی قسمت میں ایک معجزانہ تبدیلی ہے۔ صرف چند ماہ پہلے، کنزرویٹو پارٹی 25 پوائنٹس کی برتری سے آگے تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ آنے والا انتخاب لبرلز کے لیے ایک تباہ کن شکست ثابت ہو گا۔
لیکن اب لبرل پارٹی نے 43.7 فیصد ووٹ حاصل کر لیے ہیں جو گزشتہ 40 سالوں میں کسی بھی جماعت کا عوامی ووٹوں میں سب سے بڑا حصہ ہے۔ تقریباً 85 لاکھ ووٹ، یہ ملک کی تاریخ میں کسی ایک جماعت کو ملنے والے سب سے زیادہ ووٹ ہیں۔ لبرلز نے اپنی نشستیں 152 سے بڑھا کر 169 کر لی ہیں جو اکثریت سے صرف تین نشستیں کم ہے۔
لیکن اس کامیابی کا مارک کارنی کی سیاسی صلاحیتوں اور اس کی پالیسیوں کے ساتھ تو کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ وہ ایک بے حد نکمی اور اکتاہٹ سے بھرپور شخصیت کا حامل ہے۔ بہت شور مچایا گیا کہ کارنی، پوئلیور سے بہت مختلف ہے جبکہ حقیقت میں ان کے پروگرام تقریباً ایک جیسے ہیں۔ انتخابات سے عین قبل، کارنی نے بطور وزیرِاعظم اپنی مختصر مدت کو استعمال کرتے ہوئے پوئلیور (Poilievre) کے تین انتخابی وعدے پورے کیے؛ کیپیٹل گینز ٹیکس میں کمی، کاربن ٹیکس میں کمی اور ترقیاتی منصوبوں پر وفاقی نگرانی کا خاتمہ، یہ سب بڑے کاروباری طبقے کے لیے تحفہ تھے۔
کارنی حکمران طبقے کا امیدوار تھا۔ اس کے ابھار کے تانے بانے بھی اس سے جڑے ہوئے ہیں کیونکہ اسٹیبلشمنٹ نے اسے اپنے نئے نجات دہندہ کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا۔ مارچ میں کرائے گئے ایک سروے کے مطابق 53 فیصد کاروباری لوگوں نے کارنی کی حمایت کی، جب کہ صرف 30 فیصد نے پوئلیور کی حمایت کی۔
پوئلیور کے بیشتر پروگرام سے متفق ہونے کے باوجود حکمران طبقہ اس پر کبھی بھی مکمل اعتماد نہیں کر سکا۔ وہ اس کی پاپولسٹ شکل کی محنت کش طبقے کو کی جانے والی جذباتی اپیلیں اور ”مالیاتی اشرافیہ“ پر تنقید کو پسند نہیں کرتے تھے۔
لیکن لبرل پارٹی کی کامیابی سب سے بڑھ کر ڈونلڈ ٹرمپ کی بدولت ہے۔ پچھلے سال کی سیاسی فضا میں ٹروڈو لبرلز کے خلاف معیارِ زندگی اور ہاؤسنگ جیسے مسائل کے سبب انتہائی نفرت موجود تھی۔ لیکن ٹرمپ کی دھمکیوں نے صورتحال کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔ کینیڈا کے الحاق اور اپنے محصولات کے بارے میں اس کی مسلسل بیان بازی نے اس نفرت بھری سیاسی فضا کو پلٹ دیا۔
اس کا خلاصہ کرتے ہوئے، پولنگ فرم ایباکس (Polling Firm Abacus) کے سربراہ ڈیوڈ کولیٹو (David Coletto) نے وضاحت کی: ”چند ہفتے پہلے لوگ مہنگائی اور زندگی کے اخراجات کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ اچانک، انہیں کینیڈا کے وجود کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا گیا۔“
اس نے مزید کہا: ”ٹرمپ نے قریباً ناممکن کام کیا ہے؛ 2024ء میں حکومت مخالف والے ایک بہت ہی پیچیدہ ماحول کو اس طرح بدل دیا کہ جہاں حکومت میں رہنا زیادہ فائدہ مند ہو گیا ہے۔ لوگ اب انقلاب کی بجائے استحکام کی تلاش میں ہیں۔“
اس کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے، مارک ایچ، جو دو بچوں کے والد ہیں، نے دی گارڈین کو بتایا: ”سب سے بری چیز جو میں اگلے انتخابات میں چاہتا تھا وہ جسٹن ٹروڈو تھا۔ بات یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ میں صرف احتجاجاً کنزرویٹو پارٹی کو ووٹ دینے کو تیار ہو گیا تھا، حالانکہ میں نے آج تک انہیں ووٹ نہیں دیا۔ اب ہمارے پاس ایک سابق سینٹرل بینکار ہے جو معاشی بحران کے بیچ میں ابھرا ہے۔ میں اسے ضرور موقع دینا چاہوں گا۔“
کارنی، ایک ایسے معزز بینکر کے طور پر جس کے پاس 2008ء کے سب پرائم مارگیج بحران (Subprime mortgage crisis) کے دوران کینیڈا کی قیادت کرنے اور بریگزٹ مذاکرات کے دوران برطانیہ کی رہنمائی کا تجربہ ہونے کے سبب خود کو ایک بہتر اور قابلِ اعتماد شخصیت کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ دوسری جانب، پوئلیور کے لیے یہ بھی نقصان دہ ثابت ہوا کہ بہت سے لوگ اسے ”کینیڈین ٹرمپ“ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
این ڈی پی کی سزا
لیکن لبرل پارٹی کی فتح کسی طور بھی بھاری اکثریت سے نہیں تھی۔ پوئلیور نے 80 لاکھ سے زائد ووٹ اور 41.3 فیصد ووٹ حاصل کیے جو 1988ء کے بعد کنزرویٹو پارٹی کا سب سے بہتر عوامی ووٹ شیئر ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے اس پیمانے کی حمایت کسی بھی جماعت کے لیے آسانی سے اکثریتی حکومت بنانے کے لیے کافی ہوتی تھی۔ لیکن کنزرویٹو پارٹی 144 نشستیں حاصل کر سکی، جو کہ ان کی پچھلی 120 نشستوں سے 24 زیادہ ہیں، مگر یہ نہ صرف حکومت بنانے کے لیے ناکافی ہیں بلکہ اکثریت سے بھی بہت دور ہیں۔
یہ سب کچھ نیو ڈیموکریٹک پارٹی کے زوال کی وجہ سے ممکن ہوا جو اِس انتخاب کی سب سے بڑی کہانی ہے۔ این ڈی پی 2021ء کے انتخابات میں حاصل کردہ 17.7 فیصد ووٹوں سے گر کر صرف 6.3 فیصد پر آ گئی جو اس کی تاریخ کا بدترین نتیجہ ہے۔ 24 نشستوں سے پارٹی اب صرف سات تک محدود ہو گئی ہے۔ پارٹی لیڈر جگمیت سنگھ بھی اپنی نشست ہار چکا ہے۔
یہ نتیجہ این ڈی پی کو اُن نشستوں کی حد سے نیچے لے آتا ہے جو کسی جماعت کو باضابطہ پارٹی کا درجہ حاصل کرنے کے لیے درکار ہوتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں پارٹی کئی مراعات سے محروم ہو جائے گی، جیسا کہ تحقیق کے لیے فنڈنگ اور سوال پوچھنے کے دورانیے (Question Period) میں سوال پوچھے کا حق وغیرہ۔
لیکن این ڈی پی کی ناکامی اور زوال تو نوشتہ دیوار تھا۔
این ڈی پی کی قیادت نے بہت پہلے سوشلسٹ جدوجہد کا دکھاوا تک چھوڑ دیا تھا۔ تب سے یہ جماعت ایک ایسی کشتی بن گئی ہے جس کا کوئی ناخدا نہیں، جسے ہوائیں جدھر چاہیں لے جاتی ہیں۔ وہ یہ واضح کرنے میں مکمل ناکام رہے ہیں کہ پارٹی لبرلز سے بنیادی طور پر کس طرح مختلف ہے۔
یہ رجحان این ڈی پی کے رہنما تھامس مُلکیر (Thomas Mulcair) کے دور میں اپنے عروج پر پہنچا، جب اس نے 2015ء میں پارٹی کی حکومت بنانے کی بہترین ممکنہ موقع کو ضائع کر دیا، کیونکہ وہ این ڈی پی کو سرمایہ دارانہ نظام کا ایک اچھا منتظم ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کے بعد پارٹی کے ارکان نے مُلکیر کو قیادت سے ہٹا دیا۔ پھر جگمیت سنگھ کو ایک سوچے سمجھے، ظاہری طور پر بائیں بازو کی علامت کے طور پر سامنے لایا گیا تاکہ پارٹی کے اندر کسی ممکنہ بغاوت کو روکا جا سکے۔ جیسا کہ برطانیہ میں اُس وقت ہوا تھا، جب جیرمی کوربن جیسے بائیں بازو کے رہنماء نے اچانک لیبر پارٹی کی قیادت سنبھال لی تھی۔
لیکن جگمیت بھی این ڈی پی کے اُسی پرانے بیوروکریٹک ٹولے کی پیداوار تھا جو مُلکیر کی چاکری کرتا تھا۔ فطری طور پر قدامت پسند، یہ پیشہ ور افسر شاہی کا گروہ، نام کے سوا مکمل طور پر لبرل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ہمیشہ پارٹی کو معتدل بنانے اور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے جھکنے کی طرف دھکیلتے رہے ہیں۔ اس رجحان کی انتہا 2022ء کا ”سپلائی اینڈ کانفیڈنس“ معاہدہ تھا، جس کے تحت این ڈی پی نے لبرل حکومت کو اُس وقت سہارا دیا جب ملک ایک نسل در نسل کے مہنگائی کے بدترین بحران سے گزر رہا تھا۔
لبرل اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ موجودہ بحران کے دور میں لوگ این ڈی پی کو ایک قابلِ عمل متبادل کے طور پر نہیں دیکھتے۔
نتائج سے کچھ سیکھے بغیر، جگمیت سنگھ نے کہا کہ اسے ”کسی بات کا پچھتاوا نہیں ہے۔“ ”کینیڈا پر این ڈی پی کو قربان کر دینے“ کا عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے سنگھ نے پچھلے سال لبرل حکومت کو سہارا دینے کو اس وجہ سے درست قرار دیا کیونکہ اس سے کنزرویٹو حکومت سے بچ پانا ممکن ہوا اور اسی انٹرویو میں سنگھ نے خبردار کیا کہ بغیر کسی منافقت کے وہی کارنی جسے منتخب کرانے میں اس کی مدد کی، 28 ارب ڈالر کی کٹوتیوں کی تیاری کر رہا ہے!
اس میں تعجب کی بات نہیں کہ ووٹرز بڑی تعداد میں این ڈی پی سے منہ موڑ گئے ہیں۔ اس دور میں، کسی بھی بائیں بازو کی جماعت کے لیے اصل کسوٹی یہ ہے کہ وہ طبقاتی بنیادوں پر ایک خودمختار پروگرام اور پرچم کا دفاع کرے یا دائیں بازو کے بارے میں خوف کی لبرل مہم کے آگے جھکے۔ دنیا بھر میں ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ ”کم تر برائی“ کی یہ حکمت عملی مسلسل ناکام ہوئی ہے۔
آبادی میں تبدیلی
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں مارک کارنی کو اس لیے ووٹ دینا پڑا تاکہ پیئر پوئلیور کی صورت میں کینیڈا کے ”چھوٹے ٹرمپ“ کو روکا جا سکے۔ لیکن دنیا بھر کی ہر مثال یہ ظاہر کرتی ہے کہ لبرلز کی حمایت کرنا ہی دراصل دائیں بازو کے پاپولسٹوں کی حمایت کی راہ ہموار کرتا ہے۔ امریکہ میں ہم اس ”کم تر برائی“ کی حکمت عملی کا نتیجہ دیکھ چکے ہیں۔ برنی سینڈرز اور دوسرے ”جمہوری سوشلسٹ“ مسلسل ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت کرتے رہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ٹرمپ کو ایک بڑے ناراض عوامی طبقے تک بائیں بازو کی کسی سنجیدہ مزاحمت کے بغیر رسائی حاصل ہو گئی۔
بالکل یہی کچھ کینیڈا میں بھی ہوا ہے۔ جہاں این ڈی پی لبرلز کو سہارا دے رہی تھی، تو محنت کش طبقے کے غصے کا ایک بڑا حصہ کنزرویٹو پارٹی نے سمیٹ لیا۔ پیئر پوئلیور نے اپنی دائیں بازو کی پاپولسٹ حکمت عملی ناراض محنت کشوں کو نشانہ بنانے کے لیے ترتیب دی۔ اس نے مالیاتی اشرافیہ کے خلاف آواز اٹھائی اور ”بے گھر عوام بمقابلہ بنگلوں کے مالکان“ اور ”محنت کش بمقابلہ اشرافیہ“ جیسے نعروں کے ذریعے محنت کش طبقے سے اپیل کی۔ نتیجہ یہ ہے کہ پوئلیور 35 سال سے کم عمر افراد اور ٹریڈ یونین ممبران میں پہلے نمبر پر آیا۔ یہ کنزرویٹو پارٹی کے لیے غیر معمولی بات ہے، جو عموماً خوشحال معمر افراد کی جماعت سمجھی جاتی ہے۔
اس آبادیاتی تبدیلی کے نتیجے میں، کینیڈا کا جھنڈا لہراتے بزرگ لبرلز کے گرد اکٹھے ہو گئے، جب کہ جنریشن زی اور ملینیئلز (Millennials) نے این ڈی پی کو چھوڑ کر پوئلیور کا ساتھ دیا۔
سٹوڈنٹ ووٹ ڈاٹ سی اے (Studentvote.ca) کے مطابق، اگر صرف 35 سال سے کم عمر افراد ووٹ دیتے، تو 2021ء کے انتخابات میں این ڈی پی کو 108 نشستیں ملتیں۔ لیکن اس انتخاب میں، اِسی عمر کے لوگوں نے این ڈی پی کو صرف 13 نشستیں دیں۔ کنزرویٹو پارٹی کو 165 اور لبرلز کو 145 نشستیں ملتیں۔ یہ حیران کن تبدیلی ہے، خاص طور پر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ صرف چند سال پہلے تک تجزیہ کار یہ کہتے تھے کہ معاشرے کی اصل تقسیم جنریشن کی بنیاد پر ہے، یعنی نوجوان بائیں بازو کے حامی ہیں اور بڑی عمر کے لوگ قدامت پسند!
نتائج کی بنیاد پر اگرچہ لبرلز نے انتخابات جیت لیے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کنزرویٹو پارٹی کمزور ہوئی ہے، بلکہ اس کے برعکس، وہ مزید مضبوط ہوئی ہے۔ اگرچہ پوئلیور نے اپنی نشست کھو دی، لیکن یہ عمومی رجحان سے ہٹ کر ایک استثنائی واقعہ معلوم ہوتا ہے، کیونکہ مجموعی طور پر پارٹی نے ملک بھر میں کئی محنت کش طبقے کے حلقوں میں نشستیں حاصل کی ہیں۔
مثال کے طور پر، کنزرویٹو پارٹی نے اونٹاریو (Ontario) کے ہملٹن اور ونڈسر (Hamilton and Windsor) کے صنعتی محنت کش علاقوں میں اہم نشستیں جیتی ہیں، جہاں این ڈی پی مکمل طور پر ختم ہو گئی ہے۔ جن حلقوں میں فیکٹری بند ہونے کے اعلانات ہوئے، وہاں این ڈی پی نہیں بلکہ کنزرویٹو پارٹی نے کامیابی حاصل کی، حالانکہ یہ روایتی طور پر این ڈی پی کے مضبوط گڑھ ہوا کرتے تھے۔ کنزرویٹو پارٹی نے ٹورنٹو کے گرد 905 کے علاقے میں بھی غیر معمولی کارکردگی دکھائی، جو بڑی حد تک محنت کش طبقے اور تارکین وطن پر مشتمل ہے۔
این ڈی پی کا زوال صرف اس وجہ سے نہیں تھا کہ این ڈی پی کے بہت سے ووٹرز مارک کارنی کے ساتھ جڑ گئے، بلکہ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ بہت سے محنت کش جو لبرلز سے جائز طور پر نفرت کرتے ہیں اور کارنی پر اعتماد نہیں رکھتے، انہوں نے کنزرویٹو پارٹی کو ووٹ دیا۔
بنیادی طور پر، دو اہم سوالات تھے اور این ڈی پی کو ان میں سے کسی بھی سوال پر ایک متبادل کے طور پر نہیں دیکھا گیا۔ کارنی کے ووٹرز عموماً ٹرمپ کی دھمکیوں کا مقابلہ کرنے کے بارے میں سب سے زیادہ فکر مند تھے۔ جنہوں نے پوئلیور کو ووٹ دیا وہ ووٹ مہنگائی، رہائش، روزگار کے مسائل اور لبرلز سے نفرت کی بنیاد پر تھا۔
لبرلز اور کنزرویٹو پارٹی نے 1950ء کی دہائی کے بعد پہلی بار 80 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ این ڈی پی کی قیادت کی ہار محنت کش طبقے کی جدوجہد کو ترک کرنے اور سرمایہ دارانہ نظام کو قبول کرنے کا نتیجہ ہے جس نے کینیڈا کی اشرافیہ کی دو بڑی جماعتوں کی طاقت میں اضافہ کیا ہے۔ این ڈی پی کی بیوروکریسی اب وہ فصل کاٹ رہی ہے جو انہوں نے خود بوئی تھی۔
افق پر موجود بحران اور عدم استحکام
یہ حکومت بحرانوں سے گھری ہوئی ہو گی۔ کارنی کے سامنے جو چیلنج ہے وہ انتہائی بھاری بھرکم ہے۔ تجارتی جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی کینیڈین معیشت کی حالت انتہائی خراب تھی۔ اب کینیڈین فیڈریشن آف انڈیپینڈنٹ بزنس (Canadian Federation of Independent Business) کی ایک رپورٹ کے مطابق، معیشت دوسری سہ ماہی میں سالانہ بنیاد پر 5.6 فیصد سکڑنے جا رہی ہے اور ابھی تک تجارتی جنگ کے تمام اثرات سامنے نہیں آئے۔
اور چونکہ کارنی کے پاس اکثریتی حکومت بنانے سے صرف تین نشستیں کم ہیں، اس کے پاس مکمل اختیارات کی آسائش نہیں ہو گی۔ یہ صورتحال پہلے سے موجود بحران میں عدم استحکام کی شدت کو مزید بڑھا دے گی۔ سوال یہ ہے: اب اس حکومت کا کون سہارا بنے گا؟
ممکن ہے کہ این ڈی پی کے ارکانِ پارلیمنٹ، ٹروڈو حکومت کا ساتھ دینے کی سزا بھگتنے کے بعد، دوبارہ لبرلز کا سہارا بننے کا خطرہ مول لیں گے۔ اگر پارٹی نے اپنی چند نشستوں کو لبرلز کو سہارا دینے کے لیے استعمال کیا، تو یہ ایک تباہ کن فیصلہ ہو گا، جو ممکنہ طور پر پارٹی کی مکمل بربادی کا باعث بن سکتا ہے۔ تاہم، یہ بھی سچ ہے کہ این ڈی پی کی قیادت کی بدترین ممکنہ پوزیشن اپنانے کی صلاحیت کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
جہاں تک بلاک کیوبیکوئیس (Bloc Québécois) کا تعلق ہے، اس کے رہنما ایو فرانسوا-بلانشیٹ (Yves François-Blanchet) نے کہا ہے کہ وہ کارنی کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے اور اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ”وفاق پرست جماعتوں کے ساتھ کام کرنا پڑے گا کیونکہ ہمیں ایک ایسا بحران درپیش ہے جسے کینیڈین حکومت ہی سنبھال رہی ہے۔“
یہ ایک خطرناک سیاسی کھیل ہے۔ بلاک ایک کیوبک قوم پرست جماعت ہے۔ پہلے ہی اس کے رہنما بلانشیٹ کو کارنی کے ساتھ مفاہمت کی کوشش پر پارٹی کیوبیکوئیس کے رہنما پال سینٹ-پیئر پلاموندون (Paul St-Pierre Plamondon) کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کیوبیک قوم پرست تحریک کی ایک دیرینہ روایت ہے کہ وہ کینیڈین پارلیمنٹ کے کام میں رکاوٹ بننے کو ترجیح دیتی ہے، نہ کہ ایک فعال شراکت دار بننے کو۔
اور ایسا اتحاد کارنی کے لیے بھی اتنا ہی خطرناک ہو گا۔ اس کے اہم انتخابی وعدوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ مغرب سے مشرق تک ایک ”توانائی راہداری“ بنائے گا تاکہ کینیڈا کے امریکہ پر انحصار کو کم کیا جا سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کیوبیک کے ذریعے ایک پائپ لائن بنائی جائے تاکہ البرٹا کا تیل نئی منڈیوں تک پہنچایا جا سکے۔
لیکن یہ سوال ہمیشہ سے اور آج بھی سیاسی طور پر ممنوع رہا ہے۔ یہ منصوبہ کیوبیک میں شدید مخالفت کو جنم دے گا، جہاں ایلبرٹا (Alberta) کا ”گندا تیل“ نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس سے بلاک کیوبیکوئیس پائپ لائنوں کے خلاف اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹ جائے گی یا کارنی ایسا معاہدہ کرے گا جس سے ایلبرٹا حکومت کا مفاد متاثر ہو گا۔
دونوں صورتوں میں، کارنی کو کینیڈا کے وفاق میں موجود دراڑوں کے حوالے سے بڑے مسائل کا سامنا رہے گا۔ پہلے ہی ایلبرٹا کی وزیر اعلیٰ ڈینیئل اسمتھ (Danielle Smith) نے خبردار کیا ہے: ”میں صرف امید کرتی ہوں کہ وہ کسی ایسی سیاسی جماعت کے ساتھ ناپاک اتحاد نہ بنائے جو اقتصادی راہداریوں کی تعمیر کے خلاف ہو،“ وہ براہ راست بلاک کیوبیکوئیس، این ڈی پی اور گرین پارٹی کو مخاطب کر رہی تھی۔
لیکن جب تک کارنی کو وہ تین نشستیں نہیں ملیں گی جو اسے درکار ہیں، وہ ایک فعال حکومت تشکیل نہیں دے سکتا۔ یہ توازن تلاش کرنے کا ایک مشکل عمل ہو گا جس میں کوئی بھی جماعت سمجھوتہ کرنے سے گریز کرے گی، کیونکہ اس کا مطلب سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہو گا۔
اقلیتی حکومتیں زیادہ دیر تک نہیں چلتی ہیں۔ کارنی کو جو بحران درپیش ہے، اس کے پیش نظر، اس کی حکومت کی مدت بہت مختصر ہو گی۔
اگرچہ بہت سے لوگ پوئلیور کی اپنی نشست پر شکست کا جشن منا رہے ہیں، ایسا نہیں لگتا کہ وہ کہیں جا رہا ہے۔ وہ آسانی سے کسی کنزرویٹو ایم پی کو اپنی نشست چھوڑنے کے لیے قائل کر لے گا تاکہ وہ ضمنی انتخاب میں حصہ لے سکے اور پارلیمنٹ میں جگہ حاصل کر سکے۔ اس کے بعد وہ کارنی حکومت سے مایوسی کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکتا ہے اور جب یہ غیر مستحکم اقلیتی حکومت گرا دی جائے گی، تو وہ اقتدار میں بھی آ سکتا ہے۔
بائیں بازو کے لیے آگے کا راستہ کیا ہے؟
آنے والے سال اس ملک کی تاریخ کے سب سے تلاطم خیز سالوں میں شمار ہوں گے۔ یہ امکان کم ہے کہ کارنی، ٹروڈو کی طرح ایک طویل مدت مستحکم حکومت تشکیل دے پائے۔ وہ لاکھوں افراد جو کارنی کو ووٹ دے چکے ہیں، انہیں جلد ہی ایک سخت حقیقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جو حمایت کنزرویٹو پارٹی نے نوجوانوں اور ٹریڈ یونین کے ممبران میں حاصل کی ہے، وہ محنت کش تحریک، این ڈی پی اور بائیں بازو کے لیے ایک انتباہی نشان ہے۔ این ڈی پی اور محنت کش رہنماؤں کی طبقاتی تعاون کی حکمت عملی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ این ڈی پی کے وجود پر اب ایک سوالیہ نشاان ہے۔
این ڈی پی کے ووٹوں کے زوال کے بعد، بائیں بازو کے کئی حلقے پہلے سے ہی یہ کہہ رہے ہیں کہ بائیں بازو کو اب از سر نو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات درست ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کس بنیاد پر؟
سرمایہ داری ہمارے ارد گرد ہر جانب سے زوال کا شکار ہے اور محنت کش عوام ایک راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ سرمایہ داروں اور ان کی جماعتوں سے تعاون موت کا راستہ ثابت ہوا ہے، جس سے ہماری تحریک زوال پذیر ہوئی اور ہمیں صنعتی اور سیاسی میدان میں بھی مسلسل شکستوں سے دوچار کیا۔
محنت کش تحریک کو اپنی بنیادوں کی طرف واپس جانا ہو گا؛ طبقاتی خود مختاری اور معاشرے کو سوشلسٹ بنیادوں پر بدلنے کی جدوجہد۔
یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے انقلابی کمیونسٹ پارٹی جدوجہد کر رہی ہے۔ ہمارے ساتھ شامل ہوں اور اس تحریک کو اس کی انقلابی بنیادوں پر واپس لانے کی جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیں۔