جبری گمشدگیاں، جابر ریاستیں اور ابھرتی عوامی تحریکیں

|تحریر: سائرہ بانو|

 

عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام بدترین زوال کا شکار ہے اور پوری دنیا میں تباہی اور بربادی پھیلا رہا ہے۔ چند امیر ترین افراد کی دولت سینکڑوں ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر چکی ہے جبکہ کروڑوں لوگ بھوک، بیماری اور غربت کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اپنے جبر کو قائم رکھنے اور حکمران طبقات کی پر تعیش زندگیوں کو جاری و ساری رکھنے کے لیے اس نظام کے تحت بنائے گئے ریاستی و عالمی اداروں کا جبر بھی بھیانک شکل اختیار کرتے ہوئے وحشت کی تمام حدود عبور کرتا جا رہا ہے۔

سامراجی طاقتیں ہوں یا کسی غریب ملک کے حکمران طبقات ہر جگہ ریاستی جبر نئی انتہاؤں کو عبور کر رہا ہے۔ ماضی میں بھی حکمران طبقات اپنے خلاف ابھرنے والی ہر آواز کو دباتے رہے ہیں اور مخالفین کی کھالیں کھنچوانے سے لے کر ان کے خون سے وضو کرنے تک تمام ظالمانہ طریقہ کار بروئے کار لاتے رہے ہیں۔ لیکن آج کی جدید ٹیکنالوجی کے باعث یہ جبر بھی نئی بھیانک شکلیں اختیار کر چکا ہے اور دوسرا اس کا دائرہ کار ماضی کے کسی بھی دور کی نسبت کہیں زیادہ وسعت اختیار کر چکا ہے۔ فلسطین میں آزادی کی جدوجہد کو کچلنے کے لیے جدید ترین ہتھیاروں اور آلات قتل کا استعمال ہو یا کشمیر سے لے کر کردستان تک عوامی تحریکوں کو دبانے کے لیے خونی ہتھکنڈے، ہر طرف حکمران طبقات کے ہاتھ مظلوموں کے خون سے لتھڑے نظر آتے ہیں۔ اس عمل میں سرمایہ دارانہ نظام کی غلاظتوں نے مزید زہر گھول دیا ہے اور پیسوں کے لیے ان جابر ریاستوں کے اہلکار اس کو اپنے ذاتی کاروبار کے لیے بھی استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں اور کسی مظلوم کی جان کو گروی رکھ کر اس کے خاندان سے پیسے اینٹھتے رہتے ہیں یا پھر اپنی جنسی ہوّس کو تسکین دیتے ہیں۔ اگر یہ لالچ اور ہوّس پوری نہ ہو تو مغوی پر کسی بھی قسم کا جھوٹا لیبل لگا کر صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ ریاستی ادارے اپنے ان اہلکاروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انہیں اس کاروبار کی کھلی چھوٹ دیے رکھتے ہیں بلکہ بہت سی جگہ پر اس کو آشیر باد بھی دیتے ہیں اوراس کاروبار میں سے حصہ بھی وصول کرتے ہیں۔

اس تمام تر عمل کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے تحت بنی ریاستیں ہی ہیں اور صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی اس کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک مزدور ریاست کے تحت ہی نہ صرف محنت کش عوام کو تمام تر بنیادی ضروریات مہیا کی جا سکتی ہیں بلکہ انہیں اپنی رائے کا اظہار کرنے کی حقیقی آزادی بھی دی جا سکتی ہے۔ گوکہ عالمی سطح پر عوامی تحریکوں کے دباؤ کے تحت قوانین بنائے گئے ہیں اور بہت سے ایسے ادارے بھی موجود ہیں جو ریاستی جبر کے شکار افراد کے لیے آواز بھی بلند کرتے ہیں لیکن موجودہ حالات خود چیخ چیخ کر گواہی دے رہے ہیں کہ ان اداروں کے احکامات پر کتنا عمل ہو رہا ہے یا پھر یہ قوانین کتنے مؤثر ہیں۔ اس صورتحال میں ضروری ہے کہ انقلابی قوتیں بنیادی حقوق کی جدوجہد میں جابر ریاستوں کی جانب سے اغوا کیے جانے والے افراد کے لیے بھی آواز بلند کریں اور اس جبر کا خاتمہ کرنے کے لیے عملی طور پر سرگرم ہوں۔

اغوا کرنے کی واردات ریاستی اداروں کی جانب سے دن کے کسی بھی پہر میں کی جاسکتی ہے جیسا کہ کچھ ہفتے پہلے اسلام آباد میں ایک معروف صحافی کے ساتھ دن دیہاڑے ایسا واقعہ نظر آیا۔ بعض اوقات رات کے کسی پہر کچھ لوگ آتے ہیں اور ایک گھر میں گھس جاتے ہیں۔ یہ گھر شہر میں کسی بھی ایسے شخص کا ہوسکتا ہے جو ریاستی اداروں میں براجمان افراد کا ناپسندیدہ شخص ہو۔ یہ لوگ اکثر سادہ کپڑوں میں اور کبھی کبھار یونیفارم میں ہوتے ہیں۔ ان کے پاس ہتھیار ہوتے ہیں۔ یہ نہ تو کوئی وجہ بتاتے ہیں اور نہ گھر میں گھسنے کے لیے کوئی وارنٹ دکھاتے ہیں۔ بیشتر اوقات یہ اپنی شناخت بھی نہیں کرواتے کہ کس کے ایماء پر یہ کارروائی کررہے ہیں اور گھر میں سے کسی ایک یا ایک سے زیادہ افراد کو کسی گاڑی میں ڈال کر چلے جاتے ہیں۔ اگر گھر والے مزاحمت کریں تو یہ تشدد سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ہر جبری گمشدگی کا آغاز اسی طرح ہوتا ہے۔

جبری گمشدگیاں انسانی حقوق کی بھیانک ترین خلاف ورزی ہیں اور اس حوالے سے عالمی سطح پر قوانین بھی موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 18 دسمبر 1992ء کو پروٹیکشن آف آل پرسنز فرام اینفورسڈ ڈس اپیئرنس نامی ڈیکلیریشن پاس کیا تھا۔ اس ڈیکلیریشن کے مطابق اینفورسڈ ڈس اپیئرنس اس وقت ہوتی ہے جب ”کسی شخص کو گرفتار کیا جائے، محبوس رکھا جائے، اس کی مرضی کے برخلاف بزور قوت اغوا کیا جائے، سرکاری اہلکار یا کوئی مجرمانہ منظم گروہ، یا نجی افراد ان حکومتی اداروں کے ایماء پر کسی شخص کی آزادی اس طرح مسدود کردیں کہ وہ قانونی تحفظ کے دائرے سے باہر نکل جائے“۔

آمرانہ حکومتیں اور خانہ جنگیوں، اندرونی اختلافات اور بغاوتوں کا شکار ممالک اختلافی سوچ رکھنے والے افراد کو خاموش کروانے کے لیے جبری گمشدگیوں کا سہارا لیتے ہیں۔ 1960 کی دہائی میں گوئٹے مالا میں پہلی بار جبر کی اس تیکینک کا منظم طور پر آغاز کیا گیا اور 70 اور 80 کی دہائی میں برازیل، یوراگوئے، چلی، پیرو اور ارجنٹائن کی حکومتوں نے بھی اپنے مزدوروں، کسانوں، طلبہ اورمزدور راہنماؤں کو جبراً لاپتہ کرنا شروع کیا تاکہ معاشرے کے مختلف گروہوں میں پھیلنے والی اختلافی سوچ کو روکا جاسکے۔ نئی نوعیت کے اس جبر نے جلد ہی دوسرے جغرافیائی خطوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہٹلر کے زمانے کے جرمنی میں بھی اس سے ملتی جلتی تیکنیک مروج تھی جس میں نازی قبضے کی مخالفت کرنے والوں کو خاموشی سے اغوا کرلیا جاتا اور خصوصی عدالتوں کے ذریعے یا تو انھیں تاعمر قید رکھا جاتا یا موت کی سزا دی جاتی۔

جبری گمشدگیوں کو پہلی بار 1970ء کی دہائی میں اس وقت انسانی حقوق کی خلاف ورزی تسلیم کیا گیا جب چلی میں انسانی حقوق کے وکلاء نے دیکھا کہ وہ جن قیدیوں کی پیروی کررہے تھے وہ سیکیورٹی فورسز کی کسٹڈی میں ہونے کے باوجود اچانک غائب ہوگئے۔ اس وقت چلی میں خونی آمر پنوشے کی حکومت تھی جس نے ملک کے مقبول اور منتخب صدر ایاندے کا تختہ الٹ کر امریکی سامراج کے ایما پر اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ جبری گمشدگیوں کا یہ سلسلہ لاطینی امریکہ کے مختلف ممالک میں جاری رہا جہاں امریکی سامراج کی پشت پناہی سے آمریتوں کو مسلط کیا جاتا رہا اورعوامی تحریکوں کو کچلا جاتا رہا۔ لیکن اب جبری گمشدگیاں دنیا کے ہر ملک میں ہوتی ہیں۔ اس ظالمانہ عمل کی مذمت کے لیے 2011 ء سے ہر سال 30 اگست کو جبری گمشدگیوں کا عالمی دن منایا جاتاہے۔

جبری گمشدگیاں کسی فرد کے انسانی حقوق کی ہی خلاف ورزی نہیں بلکہ اس کو معاشرے میں خوف پھیلانے کے آلے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس عمل کے دوران اور بعد میں لوگوں میں جو عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے وہ صرف لاپتہ فرد کے رشتے داروں تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ مجموعی طور پرپورے معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ گوکہ یہ عمل آمریت زدہ اور فسطائی معاشروں میں زیادہ عام ہے لیکن نام نہاد جمہوری، لبرل اور ترقی پسند حکومتیں بھی اپنے مخالفین کو خاموش کروانے کے لیے یہ حربہ استعمال کرتی ہیں۔ اس ظلم کا شکار یوں تو کوئی بھی ہوسکتا ہے لیکن عام طور پرحکمران طبقے کیخلاف آواز بلند کرنے والے یا ان کے جرائم کو ایکسپوز کرنے والے افراد، سیاسی کارکن، اغواکنندہ کے گھر والے، گواہ، اور وکلاء اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

جبری گمشدہ ہونے والے فرد کو غیر انسانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کی اور اس کے گھر والوں کی زندگی خطرے میں رہتی ہے۔ وہ اور اس کے گھر والے امید اور خوف کے درمیان جھولتے رہتے ہیں۔ ان کا انتظار بعض اوقات سالوں پر محیط ہوجاتا ہے۔ جو خوش قسمت ہوتے ہیں ان کے پیارے واپس آجاتے ہیں اور جو نہیں ہوتے ان کی لاشیں کسی ویرانے میں ملتی ہیں یا وہ بھی نہیں ملتیں۔ مغویوں کو پتہ ہوتا ہے کہ ان کے گھر والوں کو ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوگا کہ ان کا کیا بنا اور کوئی ان کی مدد نہیں کرسکتا۔ قانون کی حفاظت سے دور جبراً لاپتہ کیے گئے افراد کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کردیا جاتا ہے اور وہ اپنے اغواکنندگان کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں۔ اگر موت ان کا مقدر نہیں بنائی جائے اور ان کو بالآخر رہاکردیا جائے تب بھی مغوی سالہا سال تک اس غیرمعمولی تشدد اورانسانیت سوز سلوک کے جسمانی اور نفسیاتی نتائج بھگتتے رہتے ہیں۔ اغوا شدہ افراد کے گھر والے اور احباب بھی مختلف اقسام کا ذہنی تشدد سہتے ہیں۔ انہیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ ان کا پیار ا کہاں اور کس حال میں ہے، زندہ ہے یا مرچکا ہے۔ بیشتر کیسز میں گھر والوں کو بھی دھمکیوں اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کبھی کبھار مغوی کی تلاش بعض اوقات اس کے کسی گھر والے کی جان بھی لے لیتی ہے۔

اگر مغوی گھر کا واحد کمانے والا فرد تھا تو پیچھے رہ جانے والے گھر کے افراد کو معاشی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جو غم اور ذہنی مشکلات سے مل کر ایک بڑے المیے کا روپ دھار لیتی ہے۔ بعض اوقات ان مسائل اور دباؤ سے گھبرا کر گھر والے مغوی کی تلاش بھی ترک کردیتے ہیں۔ کئی ممالک کے قانون بھی اس معاملے میں مغوی کے گھر والوں کی تکالیف میں اضافہ کرتے ہیں کیونکہ وہ موت کا سرٹیفیکیٹ نہ ملنے کے سبب مغوی کے گھروالوں کو پینشن یا دیگر مالی معاونت نہیں فراہم کرتے۔ ان سنگین معاشی مسائل کا براہ راست اثر گھر کی خواتین پر پڑتا ہے۔ اگر عورتوں کو جبراً گمشدہ کیا جائے تو ان کو جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بیشتر کیسز میں اپنے شوہر، بیٹے، باپ یا بھائی کی جبری گمشدگی کی صورت میں گھر کی خواتین آگے بڑھ کر جدوجہد شروع کرتی ہیں تو اغواکنندگان انہیں ڈرا دھمکا کر یا جنسی طور پرہراساں کر کے پیچھے ہٹنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مغوی کے گھر والوں کو سماجی مقاطعے کا بھی سامنا ہوسکتا ہے۔ شعور سے عاری اور بیماری کی حد تک عوام دشمن لوگ اس معاملے میں مغوی کو قصوروار ٹھہرانا شروع کردیتے ہیں اور اس کے گھر والوں سے قطع تعلق کرلیتے ہیں جس سے گھر والوں کی پریشانیوں میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔

جبری گمشدگی کا شکار عام طور پر مرد ہوتے ہیں تاہم مردوں کے علاوہ عورتوں اوربچوں کو بھی جبراً گمشدہ کیا جاتا ہے۔ بچوں کی جبری گمشدگی کنونشن آن دی رائٹس آف دی چائلڈ کی صریح خلاف ورزی ہے۔ کسی بچے کی ماں یا باپ کو اغوا کیا جانا بھی بچوں کے حقوق کے خلاف ہے۔ جبری گمشدگی کے نتیجے میں فرد کے وہ بنیادی انسانی حقوق معطل ہوجاتے ہیں جویونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس، انٹرنیشنل کووننٹس آن ہیومن رائٹس اور دیگر بین الاقوامی قوانین کا حصہ ہیں۔ اس طرح کی جبری گمشدگیاں قیدیوں سے روا رکھے جانے والے عام قواعد کی بھی سنگین خلاف ورزی ہیں جو اقوام متحدہ کی معاشی اور سماجی کونسل نے 1957ء میں مرتب کیے تھے۔ گمشدہ شخض قانون کے حفاظتی دائرے سے باہر ہوجاتا ہے اور اپنے اغواکنندگان کے رحم وکرم پر ہوتا ہے۔ اس کے بہت سے حقوق معطل ہوجاتے ہیں:
۔اب وہ بحیثیت فرد قانون کے سامنے شناخت نہیں کیا جاسکتا۔
۔اس شخص کی آزادی اور تحفظ مسدود ہوجاتا ہے۔
۔کوئی ظلم، سزا، تشدد، غیر انسانی سلوک یا تذلیل برداشت نہ کرنے کا حق ختم ہوجاتا ہے۔
۔اگر مغوی قتل کردیا جائے تو اس کا زندہ رہنے کا حق ختم ہوجاتا ہے۔
۔کوئی شناخت رکھنے کا حق ختم ہوجاتا ہے۔
۔اسے قانونی چارہ جوئی اور سماعت کا حق نہیں رہتا۔
۔اسے ان جسمانی، معاشی، نفسیاتی اور دیگر تکالیف کا کوئی ہر جانہ نہیں ملتا۔
۔اس کے گھر والوں کو یہ حق نہیں ہوتا کہ وہ اس کے گمشدہ کیے جانے کے حقائق جان سکیں۔

مغوی کے علاوہ اس کے گھر والوں کے جو سماجی، معاشی اور ثقافتی حقوق غصب ہوجاتے ہیں وہ یہ ہیں:
۔خاندان کے تحفظ اور معاونت کا حق
۔معیاری زندگی گزارنے کا حق
۔صحت مند رہنے کا حق
۔تعلیم کا حق
Rome Statue of the International Criminal Court اور
International Convention for the Protection of All Persons from Enforced Disappearance کے مطابق اگر کسی عام شہری آبادی کے خلاف منظم انداز میں جبری گمشدگیاں کی جارہی ہوں تو اسے انسانیت کے خلاف جرم تصور کیا جائے گا۔ اس صورت میں گمشدہ فرد کے گھر والوں کومالی تلافی طلب کرنے اور اپنے مغوی کے بارے میں حقائق جاننے کا حق ہوتا ہے۔

جبری گمشدگی پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ ہے جو ریاست کے شدیدبحران اور عدلیہ کی ناکامی کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ اس مسئلے پر ملک کے ذرائع ابلاغ پر بحث و مباحثہ تو دور اس کا نام لینے پر بھی پابندی ہے۔ اس پابندی کے باعث جن خاندانوں کے لوگ اٹھائے جاتے ہیں ان کے لیے انصاف حاصل کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 9 اس چیز کا ضامن ہے کہ تمام شہری اپنی زندگی قانونی دائرے میں رہتے ہوئے مکمل آزادی سے گزار سکتے ہیں جبکہ آرٹیکل10 کہتا ہے کہ کسی بھی شہری کو بغیر کسی وجہ کے حراست میں نہیں لیا جاسکتا اور اگر حراست میں لیا جاتا ہے تو چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اس شہری کو متعلقہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا لازم ہے اور اسے اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے۔ لیکن پاکستانی شہریوں کو یہ حقوق صرف آئین کی دستاویز میں حاصل ہیں۔

جبری گمشدگی کا شکار ہونے والے شخص کوپاکستان میں عام طور پر مسنگ یا گمشدہ کہا جاتا ہے جو اس واقعے کی سنگینی کو کم کردیتا ہے جبکہ جبری طور پر لاپتہ یا گمشدہ ہونے کی اصطلاح زیادہ برمحل ہے کیونکہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ کسی شخص کو لاپتہ کرنے میں طاقت کا استعمال کیا گیا ہے جو ایک جرم ہے اور گمشدگی سے قطعاً مختلف ہے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق جبری گمشدگی تشدد کی ایک شکل ہے۔ اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کے مطابق یہ جرمِ مسلسل ہے جو اغوا کے وقت سے شروع ہوتا ہے اور اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ ریاست اس بات کو تسلیم نہ کرلے یا مغوی کو رہا نہ کردے۔ ہر جبری گمشدگی انسانیت کے خلاف جرم ہے جس کی ذمہ دار حکومت ہوتی ہے۔ جابرانہ ریاستیں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اس طرح ان لوگوں سے چھٹکارا حاصل کرتی ہیں جو ان کے نزدیک خطرہ ہوتے ہیں۔ اس عمل میں نہ کوئی وارنٹ ہوتا ہے، نہ الزام اور نہ عدالتی کارروائی۔ شہری قانون کی حفاظت سے باہر ہوتا ہے اور اس پر کسی بھی طرح کا تشدد کیا جاسکتا ہے یا ہلاک کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کے بیشتر کیسز کا نتیجہ مغوی کی ہلاکت کی صورت میں نکلتا ہے اور اکثر مقتولین کی لاشیں بھی نہیں ملتیں۔ حکومت اور اس کے ادارے ایسے قتل سے لاتعلقی کا اظہا ر کرتے ہیں اور لاشوں کو گمنامی کی حالت میں ٹھکانے لگادیتے ہیں تاکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہ مل سکے۔

پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا آغاز پاکستان کے قیام کے بعد سے شروع ہوگیا تھا لیکن گزشتہ چند سالوں میں اس عمل میں تیزی آگئی ہے۔ 2014ء میں قومی اسمبلی نے پروٹیکشن آف پاکستان یا تحفظِ پاکستان نامی بل پاس کیا جس کے تحت سیکیورٹی فورسز کو گریڈ 15 کے افسر کی منظوری سے کسی بھی مشتبہ شخص کو موقعے پر گولی ماردینے کا حق حاصل ہوگیا۔ اس قانون کے تحت سیکیورٹی ایجنسیاں کسی بھی ایسے شخص کے خلاف کارروائی کرسکتی ہیں جو پاکستان کے خلاف کسی قسم کا خطرہ بن سکتا ہو۔ مذکورہ قانون کے تحت ایجنسیاں کسی بھی جگہ بغیر کسی وارنٹ کے داخل ہوکر چھان بین کرسکتی ہیں، کسی بھی شخص کو گرفتار کرسکتی ہیں، کسی ہتھیار، گاڑی، آلات، یا اشیاء کو اپنے قبضے میں لے سکتی ہیں جو کسی جرم میں استعمال ہوئے ہوں یا ہوسکتے ہوں۔ تاہم اس قانون کے تحت چھان بین کے بعدہر وہ چیز جو کسی مجرمانہ سرگرمی میں استعمال نہ ہوئی ہو اسے دو دن کے اندر متعلقہ علاقے کے اسپیشل جوڈیشل مجسٹریٹ کے حوالے کرنا ہوگا۔ شبہ ہونے کی صورت میں کسی شخص کو شوٹ کرنے کا آرڈر گریڈ 15 یا اس سے برتر افسر ہی دے سکتا ہے اور اس صورت میں حکومت پر لازم ہے کہ وہ ایسے واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کروائے۔ سزایافتہ شخص کو اس صورت میں اپنی سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کا حق ہے۔ اس بل کی ایک شق کہتی ہے کہ ”حکومت، جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم، مسلح افواج یا سول آرمڈ فورسز اپنے عملے، حراست میں لیے گئے فرد، ملزم یا انٹرن کی حفاظت یا کسی اور وجہ کی بناء پر مغوی یا ملزم کے مقام اور اس کے بارے میں معلومات ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے علاوہ کسی اور کو فراہم کرنے سے انکارکرسکتی ہیں“۔

یہ آرڈیننس 2014ء میں دو سال کے لیے نافذ کیا گیا تھا۔ جولائی 2016 میں اس کے خاتمے کے بعد اس وقت کی وزارت داخلہ نے اس کو مزید دو سال کے لیے توسیع دینے کی درخواست کی جس پر انٹرنیشنل کمیشن آف جسٹس (ICJ) نے اپنے ایک اعلامیے میں اس کے منفی نتائج کے بارے میں تنبیہ کرتے ہوئے لکھا، ”گزشتہ دو سالوں میں کسی ملز م پراس آرڈیننس کے تحت کوئی جرم ثابت نہیں ہوا جس کی وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ قانون پاکستان کے لوگوں کو دہشت گردی یا دیگر متشدد واقعات سے بچانے کے بجائے ان کے بنیادی حقوق سلب کرنے کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ حکومت کی جانب سے نہایت عجلت میں اس کا اعادہ کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ معمول کے قانونی عمل کو وقتی طور پر معطل کرنا مستقل بھی ہوسکتا ہے“۔

اس آرڈیننس سے ملٹری اور قانون کا نفاذ کرنے والی ایجنسیوں کو غیرمعمولی اختیارات مل گئے ہیں جس کے نتیجے میں وہ کسی بھی فرد کو غیر معینہ مدت تک قید میں رکھ سکتی ہیں اور موقعہ پر قتل بھی کرسکتی ہیں۔ اس قانون کے تحت خصوصی عدالتیں بھی قائم کی جاسکتی ہیں جن میں ایسے کیسز کی خفیہ سماعت ہوسکتی ہے۔ یہ عمل منصفانہ اور عوامی انصاف کے بین الاقوامی معیار کے برخلاف ہے جس میں ملزم کو ایک آزاد، مجاز اور غیر جانبدار ٹریبونل کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔

چونکہ جبری طور پر گمشدہ افراد کی بڑی تعداد معاشرے کے پسے ہوئے طبقے سے تعلق رکھتی ہے اس لیے زیادہ تر واقعات منظر عام پر نہیں آتے، اس آرڈیننس کے تحت چونکہ ایجنسیاں قانون سے ماورا ہیں اس لیے ایسے اغو ا کی پولیس رپورٹ بھی درج نہیں ہوتی لہٰذا پاکستان
میں جبری گمشدگیوں کی صحیح تعداد بتانا ممکن نہیں تاہم ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ تعداد بیس ہزار کے لگ بھگ ہوسکتی ہے۔

ملک کی کئی سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون سیاسی کارکنان کو ان کی سیاسی وابستگی کی سزا دینے کے لیے استعمال ہورہا ہے اور ہزاروں سیاسی کارکن اور عام شہری اب تک اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ بین الاقوامی قانون ریاستوں کو اس بات کا حق دیتا ہے کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے انسانی حقوق کو متاثر کیے بغیر کارروائی کرسکتی ہیں لیکن ’ملکی سلامتی کو خطرہ‘ کے نام پر ماورائے عدالت قتل، خفیہ قید میں رکھنا یا جبری گمشدگیاں قانون اور انسانی زندگی کی حرمت کے خلاف ہیں۔

ان مظالم اور غیر قانونی کاروائیوں کے خلاف احتجاج بھی ہوتے رہتے ہیں اور بائیں بازو کے بہت سے سیاسی کارکنان اس حوالے سے متحرک بھی ہیں۔ لیکن ان احتجاجوں کو میڈیا پر کسی بھی حوالے سے کوریج نہیں ملتی جو اس سرمایہ دارانہ نظام کے میڈیا کی کھوکھلی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔ اسی طرح پارلیمنٹ میں موجود کوئی بھی سیاسی پارٹی اس حوالے سے کوئی اقدام نہیں کرتی اور اپنی کرپشن اور بد عنوانی کو بچانے کے لیے سرگرم ہیں اور لوٹ مار کے نئے منصوبے بناتی رہتی ہیں۔ بہت سی این جی اوز بھی اس میں سامراجی اداروں کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرنے کے لیے سرگرم ہوتی ہیں لیکن اپنے آقاؤں کے اشاروں پر ایک مخصوص حد سے آگے نہیں بڑھتیں اور اس ایشوکو اپنے کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ریاستی جبر کا خاتمہ کرنے کے لیے اس ایشو کو سرمایہ دارانہ نظام کیخلاف لڑائی سے جوڑا جائے۔ یہ لڑائی پاکستان سمیت اس وقت پوری دنیا میں جاری ہے اور دنیا بھر میں نوجوان، مزدور اور کسان حکمرانوں کے عوام دشمن حملوں کیخلاف سرگرم ہو رہے ہیں۔ امریکہ میں سیاہ فاموں کیخلاف تعصب کے ایشو پر ابھرنے والی ملک گیرعوامی تحریک اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ وہاں بھی ایک پولیس والے نے ایک سیاہ فام شخص جارج فلوئیڈ کو بیدردی سے قتل کر دیا تھا جس کی ویڈیو پوری دنیا میں وائرل ہو گئی تھی۔ اس کے بعد مشتعل ہجوم نے وہاں پر پولیس اسٹیشن کو نذر آتش کر دیا تھا جبکہ ملک گیر مظاہروں کے دوران کچھ لوگ وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کو گریبان سے پکڑنے کی غرض سے داخل بھی ہو گئے تھے جب اس نے بھاگ کر اپنی جان بچائی تھی۔ ایسی ہی صورتحال دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی موجود ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تمام تحریکوں کو انقلابی نظریات سے لیس کیا جائے اور انہیں منظم کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد کا حصہ بنایا جائے اور سوشلسٹ انقلاب کی منزل حاصل کی جائے۔ صرف اسی وقت ہی امیر اور غریب کی طبقاتی تقسیم کا خاتمہ ہوگا اور ہر شخص آزادی کے ساتھ زندہ رہنے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حق حاصل کرسکے گا۔

Comments are closed.