نجی بنکوں میں کام کرنے والے ملازمین کی حالت زار

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، ملتان|

کہنے کو غلامی 1833ء میں Slavery Abolition Act کے نافذالعمل ہونے سے دنیا سے ختم ہو گئی تھی لیکن کیا ہزاروں سال سے چلے آرہے طبقاتی نظام میں انسانوں کو غلام بنانے کی نفسیات بھی ختم ہو گئی ہے؟ اس سوال کا جواب بہت واضح ہے۔ اگر ہم اپنے اردگرد کے ماحول کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ غلامی ختم ہو سکی ہے اور نہ غلام بنانے کی نفسیات، بس اس کے خدوخال تبدیل ہوئے ہیں اور اس کا نام غلامی سے تبدیل ہو کر نوکری، ملازمت پڑ گیا ہے اور یہ تبدیلی زیادہ خطرناک ہے جیسا کہ نام پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے۔ آج پاکستان جیسے ترقی پذیر معاشرے میں اقتصادیات کا گھن چکر دن بدن یہاں کے محنت کش طبقے کے استحصال کو بھیانک حد تک بڑھا رہا ہے اور استحصال کرنے والوں میں نجی کمپنیاں اور ادارے سرِ فہرست ہیں جہاں ملازمین کے استحصال کی بہت سی داستانیں رقم ہو چکی ہیں۔ ان میں سکولز، بینک، ہوٹلز اور دیگر دفاتر شامل ہیں۔ بینکوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کا استحصال کیسے اور کن کن ذریعوں سے ہوتا ہے، آیئے اس کا احاطہ کرتے ہیں۔

کام کا دورانیہ
لیبر قوانین کے تحت ملازمین کے کام کا دورانیہ 8 گھنٹے متعین ہے اور اس سے زیادہ کام کرنے پر اوور ٹائم ملنا لازم ہوتا ہے لیکن ایسا عملی طور پر نہیں ہوتا۔ بینک کے ملازمین مختلف وجوہات کی بنا پر روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 4 سے 5 گھنٹے بینک میں زیادہ لگاتے ہیں اور اس پر ان کواوور ٹائم نہیں دیا جا تا۔ زیادہ کام کی وجہ سے بینک ملازمین کی سماجی رابطہ کاری پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اکثر اوقات بینک کی انتظامیہ میٹنگ بھی کاروباری اوقات کے بعد منعقد کرتی ہے جس سے بینک کے ملازمین کو مزید اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انتظامیہ کی ملازمین پر بے جا دھونس!
پاکستان میں بینکاری نظام کبھی نقصان میں نہیں رہا۔ اس کے باوجود منافع کمانے کی حوس میں بینک کے ملازمین کو ہفتہ وار بنیادوں پر غیر حقیقی ہدف دیے جاتے ہیں جن کو پورا کرنے کی کوشش میں ملازمین صحیح اور غلط کے فرق کو فراموش کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے جس کی وجہ سے کھاتہ داروں کے ہاتھوں بے عزت ہونا اور گالیاں سننا ان کے لیے معمول کی بات ہے اور اس ضمن میں بینک انتظامیہ اپنے ملازمین کی کوئی دادرسی نہیں کرتی اور اگر کوئی ملازم خلوص اور دیانتداری سے ان غیر حقیقی اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش میں ناکام رہے تو ہفتہ وار میٹنگ میں وہ ملازم اپنی انتظامیہ کے ہاتھوں اپنے کولیگز کے سامنے وہ ذلت اور بے عزتی سہتا ہے کہ اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔

اقربا پروری
بینکاری کا شعبہ مشکل ہے اور اس میں کام کرنے والے ملازمین سب سے زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ اس مشکل کے باوجود جو ملازمین غیر معمولی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں انہیں ان کی محنت کا جائز حق لینے کے لیے بھی چاپلوسی سے کام لینا پڑتا ہے یا یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ محنتی افراد سے زیادہ چاپلوس افراد کامیاب ہیں اور ایسے افراد اپنے خوشامدی رویے اور چاپلوسی سے اپنے باسز کو خوش رکھتے ہیں اور سالانہ اضافے میں عام ایک محنت کش سے زیادہ حصہ وصول کرتے ہیں۔

اضافی کام
اس نظام میں محنت کشوں کا استعمال ایک روبوٹ کی طرح کیا جاتا ہے اور ایک اجرت میں طے شدہ ذمے داری کی بجاے اضافی کام لیا جاتا ہے اور اس اضافی کام کی کوئی اضافی اجرت محنت کش کو نہیں دی جاتی ہے۔ محنت کش اپنی معاشی ضروریات کی وجہ سے ان تمام ناانصافیوں کو برداشت کر تے چلے جاتے ہیں۔

تعطیلات کے مسائل
ایک محنت کش ایک سال میں کم از کم 40 چھٹیاں لینے کا اہل ہوتا ہے لیکن یہ اسے کبھی ملتی نہیں ہیں۔ زیادہ سے زیادہ 15 چھٹیاں ہی ملتی ہیں وہ بھی قانونی قدغن کی وجہ سے ورنہ یہ بھی نہ ملیں۔ اگر بیماری کی وجہ سے چھٹیاں لینی ہوں تو پیشگی اطلاع اور ڈاکٹر کے نسخہ جات پیش کرنا ضروری ہے۔ محنت کش اپنی مرضی اور آزادی سے چھٹی کرکے اپنی فیملی کے ساتھ وقت نہیں گزار سکتے۔

غیر منصفانہ کٹوتیاں
”ہیں تلخ بہت بندہئ مزدور کے اوقات“۔۔۔اقبال کا یہ مصرعہ آج کئی سال بعد بھی اتنا ہی توانا ہے جتنا اپنی تخلیق کے وقت تھا۔ کاروباری اور سیٹھ افراد اپنے منافع میں اضافہ کی غرض سے ملازمین مخالف پالیسیاں مرتب کرتے ہیں جیسا کہ تاخیر سے آنے پر اجرت میں کمی اور کچھ ادارے تو چھٹی پر بھی اجرت میں کٹوتی کرتے ہیں لیکن اس کے برعکس دیر تک کام کرنے پر کو آلاونس نہیں دیا جاتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام محرومیوں کو جنم دیتا ہے اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا موجب ہے جس کی وجہ سے محنت کشوں کی محنت کا استحصال کر کے اور ان کی غیر ادا شدہ اجرت کو چوری کر کے اس کا ثمر سرمایہ دار لے جاتا ہے اور مزدوروں کو ان کی محنت کی برائے نام اجرت بھی احسان جتا کر دی جاتی ہے اور انہیں باور کروایا جاتا ہے کہ یہی ان کی زندگی ہے اور یہ ایسے ہی چلے گی۔ سرمایہ داری نے محنت کشوں کے ساتھ وہی رویہ روا رکھا ہے جو ایک آقا کا اپنے غلام کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔ اس لیے غلامی ختم ہو کر بھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ آزادی کی جنگ آج بھی جاری ہے اور اسے جیتنے کے لیے دنیا بھر کے محنت کشوں کو ایک ہونا پڑے گا اور اس نظام کو ختم کرکے بنی نوع انسان کو آزادی دلانا ہو گی۔

Comments are closed.