پاکستان میڈیکل کمیشن کا قیام، شعبہ طِب کے ساتھ کھلواڑ نامنظور!

|رپورٹ: مرکزی بیورو، پروگریسو یوتھ الائنس|

گزشتہ سال ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پاکستان میڈیکل کمیشن (PMC) کی منظوری دے کر پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) کو تحلیل کرنے اور میڈیکل کے طلبہ پر نیشنل لائسنسنگ ایگزام (NLE) مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تھی جس کے خلاف میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھنے والے طلبہ اور ملازمین کی طرف سے شدید ردِعمل آیا تھا۔ اس آرڈیننس کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا اور بعد ازاں عدالت نے اس آرڈیننس کو کالعدم قرار دے کر پی ایم ڈی سی (PMDC) کو بحال کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ لیکن اب دوبارہ قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں پی ایم ڈی سی (PMDC) کو تحلیل کرنے کا بِل منظور کر دیا گیا ہے اور اس کی جگہ پاکستان میڈیکل کمیشن (PMC) کو دوبارہ لاگو کیا گیا ہے جو ایک کارپوریٹ باڈی پر مشتمل ہے اور اس بِل کی منظوری کے بعد یہ ملک میں طِبی شعبے کی نگران ہو گی۔ اس اجلاس میں تمام سیاسی پارٹیاں موجود تھیں یعنی اپوزیشن کی تمام پارٹیاں بھی یہ شب خون مارنے میں برابر کی شریک ہیں۔ اب کی بار بھی اس فیصلے کے خلاف میڈیکل کے طلبہ کی طرف سے شدید ردِ عمل سامنے آیا ہے جو آگے بھی متوقع ہے۔

پورے طِبی شعبے پر اس فیصلے کے انتہائی خوفناک نتائج مرتب ہوں گے۔ پہلے ہی حکومت سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کا عمل بہت تیزی سے جاری رکھے ہوئے ہے اور میڈیکل کی تعلیم بھی محض ایک دھندے کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ پی ایم ڈی سی (PMDC) اپنی تمام تر کرپشن اور خامیوں کے باوجود ایک سرکاری ادارہ ہے جس میں کافی حد تک چیک اینڈ بیلنس موجود تھا لیکن اب اس فیصلے کے بعد نجی مالکان کو لوٹ مار کی کھلی چھوٹ حاصل ہو گی تاکہ وہ اپنا منافع بڑھانے کے لیے کسی بھی حد تک چلے جائیں۔ پہلے پی ایم ڈی سی (PMDC) کی طرف سے فیسوں پر ایک سخت پالیسی موجود تھی جس کی بِناء پر مقرر کردہ فیس سے زیادہ فیس نہیں لی جا سکتی تھی۔ تعلیم کے حوالے سے ریاستی پالیسیوں کی بِناء پر میڈیکل کی تعلیم پہلے ہی بہت مہنگی تھی اور اب تو محنت کش سے طلبہ کی اقلیت جو کسی طرح میڈیکل کی تعلیم حاصل کر پاتی تھی اب وہ بھی نہیں کر پائے گی۔ اس کے علاوہ اداروں میں سیٹوں کے حوالے سے بھی کوئی قدغن نہیں ہو گی، مالکان داخلے کے وقت پیسے کمانے کے لیے طلبہ کا ہجوم داخل کریں گے اور داخلے کا میرٹ ”رقم“ مقرر ہو گی۔

میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی زندگی ایک دوڑ میں گزرتی ہے اور ان پر پڑھائی کا اتنا بوجھ ہوتا ہے کہ وہ دیگر سماجی سرگرمیوں سے بالکل کٹ جاتے ہیں۔ ڈپریشن کا رجحان بھی میڈیکل کے طلبہ میں زیادہ نظر آتا ہے اور خودکُشی کے واقعات بھی بہت زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس بِل کے بعد نیشنل لائسنسنگ ایگزام (NLE) کے نام سے ایک اور ٹیسٹ متعارف کروایا گیا ہے جو ایم بی بی ایس (MBBS) پاس کرنے کے ایک سال بعد ہوا کرے گا۔ اس ٹیسٹ کو پاس کیے بغیر گریجویٹ ہونے والے طلبہ ہاؤس جاب یا پریکٹس نہیں کر پائیں گے یعنی اتنی مہنگی اور بے حد محنت سے حاصل کی گئی ڈگری کے بعد بھی طلبہ ایک سال بے روزگاری کی دلدل میں گزاریں گے اور اگر پہلی بار ٹیسٹ پاس نہیں ہوا تو اس کے بعد بھی انہیں مزید ایک سال تک دوبارہ ٹیسٹ ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ واضح امکانات ہیں کہ یہ ٹیسٹ لینے کی ذمہ داری بھی کسی ”نجی دوکان“ کے سپرد کی جائے گی یعنی یہاں بھی پیسہ ہی چلے گا اور سرمایہ داروں کے بچے پیسے دے کر یہ پہاڑ بھی سر کر لیں گے اور محنت کش طبقے کے بچے ہمیشہ کی طرح کچلے جائیں گے۔

اس فیصلے سے صرف طلبہ ہی نہیں بلکہ طِبی تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین بھی بُری طرح متاثر ہوں گے۔ نجی مالکان منافعے کی ہوس میں بڑے پیمانے پر ملازمین کی برطرفیاں اور ڈاؤن سائزنگ کریں گے تاکہ کم سے کم لوگوں سے زیادہ سے زیادہ کام لیا جا سکے۔ ظاہری بات ہے کہ باقی بچ جانے والے ملازمین کے اوقاتِ کار میں بھی اضافہ ہو گا اور ان سے بہت زیادہ کام لیا جائے گا۔ مزید یہ کہ پی ایم ڈی سی (PMDC) میں اجرتوں کے حوالے سے بھی ایک پالیسی موجود تھی جو اب ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جائے گی اور ملازمین کی اجرتوں میں بے تحاشہ کمی کی جائے گی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ طِب کے شعبے میں ڈی ریگولرائزیشن کی جا رہی ہے۔ جیسے کہ اوپر بات کی گئی ہے کہ پہلے انفراسٹرکچر کے حوالے سے بھی چیک اینڈ بیلنس تھا اور دیکھا جاتا تھا کہ کسی ادارے میں کتنے طلبہ ہیں، اس حساب سے ادارے کی عمارت کتنی بڑی ہے یا ایک کمرہ جماعت میں کتنے طلبہ ہیں اور وہ کمرہ ان کے لیے کافی ہے یا نہیں وغیرہ۔ لیکن اب یہ انفراسٹرکچر بھی تباہ ہو گا اور کسی سے کوئی پوچھ گِچھ نہیں ہو گی۔ مالکان کو دو کمروں کے گھر میں بھی میڈیکل کالج کھولنے کی اجازت ہو گی۔ اس سارے عمل میں طِبی تعلیم کے معیار پر بھی ہولناک اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان میں پہلے ہی سائنسی شعبہ جات کا جو حال ہے وہ ہمارے سامنے ہے اور اب تو ہر چوراہے پر نیم حکیموں کی دکانیں نظر آئیں گی۔

گزشتہ سال کی طرح اس بار بھی آرڈیننس منظور ہونے پر نجی مالکان بہت خوش ہیں اور اپنی گھٹیا روش برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیاں بھی اس فیصلے سے متفق ہیں جس سے ان کی عوام دشمنی ظاہر ہوتی ہے کہ عوام کے خلاف حکمران طبقے کی تمام پارٹیاں ایک ہی پیج پر ہیں۔ گزشتہ سال میڈیکل کے شعبے سے منسلک طلبہ اور ملازمین کی طرف سے کافی شدید ردِعمل نظر آیا تھا لیکن اس تحریک میں موجود موقع پرست عناصر نے طلبہ کو عدالتوں کے فریب میں ڈال دیا تھا۔ اس بل کے بعد عدالتوں کا کردار بھی واضح ہو گیا ہے کہ یہاں کا قانون صرف محنت کشوں پر جبر کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ جب بات سرمایہ داروں کے منافعوں کی آتی ہے تو وہ ہر قانون کو پیروں تلے روندتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔ ایک سال قبل ہم نے اس مدعے پر ایک تحریر لکھی تھی، اسے پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

ہم نے اس وقت بھی لکھا تھا کہ عدالتوں اور قانونی چارہ جوئی سے کچھ نہیں ہونے والا بلکہ اس لڑائی کو لڑنے اور کامیاب ہونے کے لیے طلبہ کے پاس احتجاج ہی واحد راستہ ہے۔ گزشتہ سال میں ہونے والے واقعات سے اسباق سیکھتے ہوئے تحریک کو درست بنیادوں پر منظم کرنا اور طلبہ یونین بحال کرنا اس وقت انتہائی اہم ہے۔ سب سے پہلے طلبہ کو یکجا ہو کر وسیع سطح پر کیمپین کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تمام طلبہ اس فیصلے کے بھیانک نتائج سے آگاہ ہو سکیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس اس فیصلے کی شدید مذمت کرتا ہے اور اس کے خلاف طلبہ کی جدوجہد میں شانہ بشانہ کھڑے رہنے کی یقین دہانی کرواتا ہے۔

Comments are closed.