ناکام نظام، ناکام حکمران، دیوالیہ ریاست۔۔۔مزدور راج ہی واحد حل ہے!

|تحریر: آدم پال|

کسی بھی سماج کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا عمل وہاں رہنے والے افراد کے لیے انتہائی تکلیف دہ اور اذیتوں سے بھرپور ہوتا ہے۔ ایک طویل عرصے سے قائم سماجی ڈھانچے، ریاستی ادارے اور معاشی نظام جب اپنے زوال کے عمل سے گزر کر ٹوٹ رہے ہوتے ہیں اور آخری سانسیں لیتے ہوئے اپنے خاتمے کی جانب بڑھ رہے ہوتے ہیں اس وقت وہ پورا سماج انتہائی ہیجان انگیز اور تکلیف دہ صورتحال سے گزر رہا ہوتا ہے اور وہاں رہنے والے تمام لوگ بھی اسی ہیجانی کیفیت کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ پورا سماج درد ِ زہ کی تکلیف سے گزر رہا ہے جس میں پرانا سماج اور نظام ایک نئی زندگی کو جنم دینے کے عمل سے گزر رہا ہے۔ اس دوران جس تکلیف اور درد سے ایک حاملہ خاتون گزرتی ہے اسی سے ملتی جلتی کیفیت سے وہ پورا سماج اور وہاں رہنے والے لوگ گزر رہے ہوتے ہیں۔

اس وقت پاکستان کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے جس میں کئی دہائیوں سے موجود ریاست، سماجی ڈھانچے اور معاشی نظام دھڑام سے گر رہے ہیں اور اپنے بوجھ تلے یہاں رہنے والے کروڑوں انسانوں کو کچلتے چلے جا رہے ہیں۔ ریاست کا بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور حکمران طبقے کی دھڑے بندی کی لڑائی اور دھینگا مشتی میں ریاست کے اہم ترین ادارے اور بنیادی ستون داخلی لڑائیوں میں ایک دوسرے کے کپڑے اتار رہے ہیں اور پوری دنیا کے سامنے ایک دوسرے کو ننگا کر کے اپنی حقیقت کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ سیاست کی صورتحال بھی زیادہ مختلف نہیں اور وہاں بھی حکمران طبقے کی لڑائی ایک خانہ جنگی کی کیفیت میں داخل ہو چکی ہے جس میں ہر فریق دوسرے کو صرف شکست ہی نہیں دینا چاہتا بلکہ اس کا سیاسی قتل کرنے کے درپے ہے۔ معیشت کی صورتحال بھی اب ہر کسی پر واضح ہو چکی ہے اور دیوالیہ پن کا آغاز ہو چکا ہے جو آنے والے عرصے میں مسلسل گہرا ہوتا چلا جائے گا اور سماج کے ہر شعبے اور کونے کھدرے کو اپنی لپیٹ میں لے کر برباد کرتا چلا جائے گا۔

یہ تمام عمل اس سماج میں رہنے والی ایک بہت بڑی اکثریت کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے اور یہ تکلیف اس لیے بھی کئی گنا بڑھ جاتی ہے جب اس تمام عمل سے نجات یا بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ہر امید، ہر آسرا اور ہر بیساکھی ٹوٹتی ہوئی نظر آتی ہے اور ایک بے یقینی کی کیفیت کے ساتھ ساتھ نا امیدی بھی غالب ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اس صورتحال میں حکمران طبقے کی پھیلائی گئی پراگندگی اور غلاظت سماج پر اور بھی زیادہ حاوی ہوتی ہوئی نظر آتی ہے اور پورا سماج اس غلاظت اور بدبو کی لپیٹ میں جاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس غلاظت کا سب سے زیادہ شکار وہاں موجود خواتین بنتی ہیں جنہیں ہر وقت اعلیٰ اخلاقیات اختیار کرنے کی تلقین کی جاتی ہے اور ہر سماجی گراوٹ کا ملبہ بھی ان پر ڈالا جاتا ہے۔ حکمران طبقے کی خواتین کی بد کرداری، غیر اخلاقی حرکتوں اور کرپشن سامنے آنے کا نتیجہ بھی عام خواتین پر اخلاقیات کے بھونڈے معیار اور جبرمزیدمسلط ہونے پر نکلتا ہے۔ لیکن دوسری جانب بظاہر غیر سیاسی نظر آنے والی عام خواتین بھی حکمران طبقے کے خلاف مزید نفرت اور غم و غصے کا اظہار کرتی ہیں۔

اس تمام صورتحال کا ایک مثبت پہلو بھی یہی ہے کہ حکمران طبقے کا حقیقی کردار عوام کی بہت بڑی اکثریت کے سامنے عیاں ہوتا ہوا نظر آتا ہے اور وہ تمام تر ابہام اور مفروضے جو حکمران طبقے کے متعلق ایک طویل عرصے سے قائم ہوئے ہوتے ہیں وہ ایک ایک کرکے چکنا چور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ سب سے پہلا ابہام اور مفروضہ یہ ہوتا ہے کہ اس سماج پر براجمان حکمران طبقہ بہت ہی زیادہ قابل ہے اور وہ نہ صرف محنت کش عوام سے زیادہ سمجھ دار اور ذہین ہے بلکہ اس سماج کی تمام تر پالیسیاں انتہائی سنجیدگی اور عرق ریزی سے ترتیب دے رہا ہے اور اسی وجہ سے یہ سماج کسی نہ کسی طرح اپنی ڈگر پر چل رہا ہے۔ یہی ابہام درحقیقت اس سماج اور یہاں موجود اداروں کے جاری رہنے کی منطق ترتیب دینے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ عمومی طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ ریاستی ادارے اور سیاسی جماعتیں اور معاشی نظام کسی بہت ہی اعلیٰ اور ارفع منطق کے تحت ترتیب دیے گئے ہیں اور اسی کے ساتھ ساتھ یہ نظام ازلی اور ابدی بھی ہے جس کو چلانے کے لیے انتہائی مہارت اور قابلیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح حکومتی عہدوں پر براجمان افراد کے لیے ایک مخصوص تعظیم اور عزت بھی ابھاری جاتی ہے اور انہیں عام لوگوں سے بڑا اور دیو ہیکل خصوصیات کا حامل شخص قرار دے کران کے ساتھ دیو مالائی تصور جوڑ دیا جاتا ہے۔ لیکن سماجی-معاشی نظام کے زوال کے عہد میں یہ تمام بت ایک ایک کر کے پاش پاش ہوتے ہیں، جو ایک طرف عوام کے لیے انتہائی تکلیف دہ کیفیت کا حامل ہوتا ہے وہاں انہیں خود میدان عمل میں کود کر اپنی تقدیریں اپنے ہاتھ میں لینے پر بھی اکساتا ہے۔

پاکستان میں گزشتہ ایک سال میں جس طرح حکمران طبقے کی لڑائی میں یہ بت پاش پاش ہوتے نظر آئے ہیں وہ تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ سب سے پہلے تو یہاں عمران خان کی شخصیت میں بکاؤ میڈیا کے پراپیگنڈے کے ذریعے ریاستی آشیر باد سے ایک دیو مالائی تصور ابھارنے کی سر توڑ کوشش کی گئی۔ اس بھونڈے عمل کو اس ملک کے محنت کش طبقے نے تو یکسر مسترد کر دیا تھا لیکن درمیانے طبقے کی بہت بڑی پرتیں اپنے مخصوص طبقاتی کردار کی وجہ سے اس پراپیگنڈے کا شکار ہو گئیں اور عمران خان کو نجات دہندہ قرار دینے لگیں۔ لیکن ساڑھے تین سال سے زائد عرصے تک بر سر اقتدار رہنے کے دوران اس تمام پراپیگنڈے کا کھوکھلا پن ہر کسی پر عیاں ہو گیا اور درمیانے طبقے کا یہ بت بھی پاش پاش ہوتا نظر آیا۔ آکسفورڈ کی ڈگری، گوروں کے ساتھ رشتے داریاں، مغربی حکمرانوں کے ساتھ دوستیاں، خوبرو شخصیت، پلے بوائے کا ٹھپہ اور انگریزی بولنے میں مہارت رکھنے جیسی خصوصیات کو درمیانہ طبقہ اپنی غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے پوجتا بھی ہے اور رالیں ٹپکاتے ہوئے اس کے خواب بھی دیکھتا رہتا ہے اسی لیے عمران خان کی شکل میں انہیں اپنا لیڈر اور مسیحا نظر آتا تھا۔ لیکن یہ تمام خصوصیات مذہبی ٹچ اور ریاست مدینہ کے تڑکے کے ساتھ کس قدر بد ذائقہ اور عوام دشمنی پر مبنی ہوں گی اس کا اندازہ بہت سے لوگوں کو چکھنے کے بعد ہی ہوا جبکہ سنجیدہ لوگ پہلے سے ہی واضح کر رہے تھے کہ یہ سب ایک فراڈ اور دھوکہ ہے۔ دوسری سیاسی پارٹیوں کی قیادتوں کا عوام دشمن اور غلیظ کردار تو پہلے ہی واضح تھا لیکن اس تمام عمل میں ان کی غلاظت اور بدبو پہلے سے بھی کئی گنا زیادہ بڑھ گئی اور سماج کے کسی حصے میں اگر ان کی کچھ حمایت موجود تھی تو وہ بھی تیزی سے ختم ہونے لگی۔

اس کے بعد گزشتہ سال میں اعلیٰ عدالتوں کے ججوں، جرنیلوں اور میڈیا کے بڑے بڑے بت بھی ٹوٹے ہوئے نظر آئے جس نے درمیانے طبقے کے ہیجان میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے آرمی چیف کی تعیناتی کے گرد ہونے والی بحثوں نے ریاست کے اس سب سے طاقتور ادارے کے سربراہ اور اس عہدے کے امیدواروں کے درمیان ہونے والی کشمکش نے حکمران طبقے کے عوام دشمن کردار کی حقیقت کو مزید واضح کر دیا۔ ریاستی مشینری کے پراپیگنڈے کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش ہمیشہ سے جاری رہی ہے کہ ملک میں رہنے والے عوام کے لیے بیرونی دشمن کے خطرے سے محفوظ رکھنے میں فوج سمیت دیگر ریاستی ادارے ہر وقت مگن رہتے ہیں اور عام لوگ اسی لیے چین کی نیند سوتے ہیں کیونکہ یہ اعلیٰ و ارفع لوگ راتوں کو جاگ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن حالیہ بحث کے دوران زبان زد عام ہوچکا ہے کہ سابقہ آرمی چیف قمر باجوہ سمیت دیگر بہت سے جرنیل کرپشن اور لوٹ مار میں سر سے لے کر پیر تک لتھڑے ہوئے تھے۔ اس میں جنرل فیض حمید کا نام بھی سامنے آ چکا ہے جس کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی کرپشن اور لوٹ مار کے قصے بھی سامنے آ چکے ہیں۔ یہ جنرل بھی آرمی چیف کے عہدے کے حصول کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہا تھا جبکہ اس سے پہلے آئی ایس آئی کے سربراہ سمیت دیگر اہم ترین عہدوں پر تعینات رہا تھا۔ اس دوران جرنیلوں کی سیاست کے میدان میں مداخلت اور مختلف سیاسی پارٹیوں کی پشت پناہی اور ان کی لڑائی میں اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کی تمام تر خبریں بھی سامنے آ چکی ہیں۔

سوات سے لے کر فاٹا تک حکمران طبقے کی لڑائی میں طالبان سمیت تمام مہروں کو استعمال کرنے کی نئی کوششوں کے خلاف شدید عوامی رد عمل سامنے آیا ہے۔

واضح ہو چکا ہے کہ آرمی چیف اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے ملکی سیاست کو کسی طرح لونڈی کی طرح استعمال کرتا رہا ہے اور مختلف ”عظیم“ سیاسی لیڈروں کی وفاداریاں اور سیاسی بیان بازیاں آرمی چیف کے اشاروں کی محتاج تھیں۔ اس دوران مختلف حلقے یہ الزام بھی لگا چکے ہیں کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت تبدیل کرنے کے لیے آرمی چیف کو سات ارب روپے کی رشوت دی گئی اور اس کے بعد اپنی مرضی کی نئی سیاسی پارٹی BAP تخلیق کروا کر اس کے ذریعے وزارتوں کی بند ربانٹ اور لوٹ مار کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ اسی طرح بلوچستان میں موجود آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈرز کے نام بھی کرپشن کے حوالے سے منظر عام پر آ چکے ہیں اور اسلام آباد میں وزیر اعظم ہاؤس میں موجود آئی ایس آئی کے ملازمین کی جانب سے کالیں ٹیپ کرنے اور انہیں اپنے من پسند جرنیل کو بھیجنے کی کاروائی کی خبریں بھی سامنے آ چکی ہیں۔ ان ریکارڈ کی گئی کالوں کو ذاتی مفادات کے حصول کے لیے اس جرنیل نے سوشل میڈیا کے ذریعے پبلک بھی کر دیا تھا۔ سیاست میں مداخلت کے دوران خود فوج کے اندر دھڑے بندی اور لڑائی شدت اختیار کر چکی ہے اور اب سیاسی پارٹیوں کی لڑائی فوج کے اندر مختلف افسران کے گروہوں کی باہمی لڑائی بن چکی ہے۔ اپنی اس لڑائی میں طالبان، تحریک لبیک اور دیگر مذہبی بنیاد پرست اور دہشت گرد تنظیموں کو بھی شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کیا جاتا رہا ہے اور ابھی بھی کیا جا رہا ہے اور اس کی تفصیلات بھی اب سامنے آ چکی ہیں۔ ایک طرف ان مذہبی بنیاد پرست تنظیموں کی سماجی حمایت پہلے کی نسبت بہت زیادہ کم ہو چکی ہے دوسری جانب منشیات اور اسمگلنگ سے لے کر دہشت گردی کے اس کاروبار کی حقیقت بھی سامنے آ چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوات سے لے کر فاٹا تک حکمران طبقے کی لڑائی میں ان مہروں کو استعمال کرنے کی نئی کوششوں کے خلاف شدید عوامی رد عمل سامنے آیا ہے اور جرنیلوں کی لڑائی میں عوام نے کسی بھی فریق کو سماجی حمایت دینے سے انکار کر دیا ہے۔

اسی طرح حکمران طبقے کے گھریلو معاملات اور جنسی تعلقات کی آڈیوز اور ویڈیوز بھی سامنے آ رہی ہیں اور اس حوالے سے بہت سی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔ اس تمام عمل سے محنت کش عوام کو حکمران طبقے کے حقیقی کردار کو زیادہ جاننے کا موقع مل رہا ہے۔ پہلے بھی اس ملک کے حکمران طبقات کے بارے میں محنت کشوں کی رائے کوئی اچھی نہیں تھی اور ان سے عمومی طور پر نفرت اور حقارت ہی نظر آتی تھی لیکن موجودہ صورتحال نے اس نفرت اور حقارت میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس ریاست کے تمام تر اداروں اور ان کی بنیادوں پر بھی سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں اور وہ ادارے جنہیں ایک مقدس کردار عطا کیا جاتا تھا اور ان کے گرد دیو مالائی تصورات گھڑ لیے جاتے تھے وہ اب حقیقت میں ختم ہو چکے ہیں۔ جرنیلوں کی کرپشن اور لوٹ مار بھی اس ملک میں نئی نہیں ہے اور نہ ہی ان کے جنسی تعلقات اور عیاشی کی زندگیوں کی کہانیاں اس ملک میں نئی ہیں لیکن گزشتہ کچھ عرصے میں ان جرنیلوں نے جس بڑے پیمانے پر دولت جمع کی ہے اور لوٹ مار کے نئے ریکارڈ بنائے ہیں وہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے لے کر سیمنٹ اور کھاد کے کاروبار تک پھیلی ہوئی جرنیلوں کی اس لوٹ مار کی خبریں ان مزدوروں کے زخموں پر نمک چھڑکتی ہیں جو انتہائی غربت اور ذلت کی زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے چھوٹے موٹے روزگار سے بھی ہاتھ دھو رہے ہیں۔اس تمام عمل میں جرنیلوں کے ساتھ ساتھ ججوں اور دیگر بیوروکریٹس کی کرپشن، عوام دشمنی اور اس ریاست کے آئین اور قانون کی حقیقت بھی عوام پر عیاں ہو رہی ہے۔ عام محنت کش پہلے ہی انصاف کے نام پر بنے ان نیلام گھروں کی حقیقت سے واضح تھے لیکن درمیانے طبقے کے وہ حصے جو کسی حد تک اس نظام انصاف اور قانون و آئین سے رسمی سی توقعات لگا کر رکھتے تھے وہ بھی اب مایوس ہو چکے ہیں۔

اس تمام عمل میں سب سے بڑا عمل موجودہ معاشی نظام کے دیوالیہ پن کی حقیقت عوام پر عیاں ہونا ہے۔ آئی ایم ایف جیسے ادارے کی مکمل ناکامی سے لے کر یہاں موجود تمام معیشت دانوں اور دانشوروں کی دانش کا بھانڈا سر بازار پھوٹ چکا ہے اور کسی کے پاس بھی اس تمام تر بحران سے باہر نکلنے کا کوئی منصوبہ نہیں۔ کسی بھی سیاسی لیڈر یا معیشت دان کے پاس آئی ایم ایف اور اسی کی مسلط کردہ پالیسیوں کے علاوہ کوئی متبادل نہیں۔ لیکن ان تمام تر پالیسیوں پر عمل کے باوجود بحران حل نہیں ہو پا رہا بلکہ بگڑتا چلا جا رہا ہے۔ اس وقت سرکاری طور پر شرح سود 16 فیصد کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکی ہے تا کہ افراطِ زر کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔ اس کے علاوہ سرکاری سطح پر ترقیاتی اخراجات میں بھی بہت بڑے پیمانے میں کٹوتی کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے بھی افراطِ زر کو کم ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے باوجود سرکاری اعدادوشمار کے مطابق دسمبر میں افراط زر 25 فیصد سے تجاوز کر چکا ہے جبکہ حقیقی طور پریہ چالیس سے پچاس فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ مختلف تجزیہ نگاروں کے اندازوں کے مطابق آنے والے عرصے میں ڈالر کا ریٹ تین سو روپے سے تجاوز کرنے کے واضح امکانات موجود ہیں جبکہ افراطِ زر سرکاری طور پر پچاس سے ساٹھ فیصد اور حقیقی طور پر ایک سو فیصد سے بھی تجاوز کر سکتا ہے۔ پہلے سے موجود مہنگائی اور بیروزگاری سے جکڑے عوام کے لیے یہ معاشی قتل عام پر منتج ہوگا اور لاکھوں لوگ بھوک اور بیماری کے باعث ہلاک ہو جائیں گے۔ سرکاری سطح پر غور کیا جارہا ہے کہ بجلی کی قیمت میں ایک سو فیصد تک اضافہ کر دیا جائے اور بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت کچھ کیٹیگریز کے لیے 90 روپے تک بڑھا دی جائے۔ اسی طرح دیگر بنیادی ضروریات پر بھی ٹیکسوں میں اضافہ زیر غور ہے۔ اس تمام عمل میں واضح ہے کہ وہ لوگ غلط ثابت ہو چکے ہیں جو موجودہ معاشی بحران کو عارضی قرار دے رہے تھے یا یہ کہہ رہے تھے کہ یہ کسی مخصوص پارٹی یا وزیر خزانہ کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔

نئے سال کے آغاز پر آئی ایم ایف کی سربراہ نے واضح کر دیا ہے کہ 2023ء میں دنیا کا ایک تہائی حصہ معاشی کساد بازاری یا Recessionکی زد میں ہوگا اور اس میں امریکہ اور یورپ جیسی بڑی اور ترقی یافتہ معیشتیں بھی شامل ہوں  گی۔ ایسے میں پاکستان جیسی کمزور اور نحیف معیشتوں کے دیوالیہ ہونے کے امکانات مزید بڑھ چکے ہیں اور اس سے نجات کا رستہ اس موجودہ نظام میں کسی کے پاس بھی موجود نہیں۔

یہ تمام تر صورتحال اور نظام کا زوال حکمران طبقے کے چہروں پر لکھا دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ میڈیا میں جو بیان دے رہے ہوتے ہیں انہیں ان پر خود بھی اعتماد نہیں ہوتا اور محنت کش عوام پہلے ہی ان کے عوام دشمن کردار اور جھوٹ بولنے کی عادت اور فراڈ بازی سے واقف ہو چکے ہیں۔ جہاں عوام کے سامنے یہ بڑے بڑے لیڈر اور ریاستی عہدوں پر براجمان سربراہان کے بت ٹوٹ چکے ہیں وہاں ان اداروں کی عوامی شعور میں موجود بنیادیں بھی منہدم ہو رہی ہیں۔اعلیٰ عدلیہ اور انصاف کے ادارے ہوں یا پارلیمنٹ اور انتخابات کا جھانسہ، محنت کش عوام کو کسی بھی ادارے اور اس کی بنیادوں پر اب کوئی بھی اعتماد نہیں رہا۔ ان اداروں کی بنیادیں جہاں بڑی بڑی عمارتوں، بہت زیادہ سکیورٹی کی موجودگی اور وسیع پروٹوکول کے ذریعے استوار کی جاتی ہیں وہاں میڈیا، نصاب تعلیم، منبر اور دیگر ذرائع سے عوام کی سوچوں میں بھی اداروں کا تقدس انڈیلا جاتا ہے اور انہیں دماغوں پر مسلط کیا جاتا ہے۔ لیکن حالات و واقعات کے جھٹکے ان اداروں کی بنیادیں شعور سے مٹاتے چلے جا رہے ہیں اور ان کا تقدس مسلسل پامال ہو رہا ہے۔ سیاسی پارٹیوں اور ان کی قیادتوں کے لیے بھی جو حمایت عوام میں گزشتہ دہائیوں میں بنی تھی وہ اب ختم ہو چکی ہے اور دوبارہ اسے مسلط کرنے کی طاقت موجودہ نظام میں نہیں رہی۔

درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کے تمام سماجی اور معاشی رشتوں کی بنیادیں اس وقت محنت کش طبقے کے شعور سے ختم ہو رہی ہیں اور منڈی کی معیشت اور بینکوں اور سٹاک ایکسچینجوں کے اس نظام کے زوال کے اثرات اب ہر خاص و عام محسوس کر رہا ہے۔ خاص طور پر نوجوانوں کے لیے صورتحال انتہائی گمبھیر اور تکلیف دہ ہے جنہوں نے آنکھ ہی ایسے وقت میں کھولی ہے جب ہر طرف سماج ٹوٹ کر بکھر رہا ہے اور ان کے لیے آگے بڑھنے اور ذہنی نشوو نما کے مواقع کہیں بھی موجود نظر نہیں آتے۔ ایسے میں ان کی بہت بڑی اکثریت ملک سے باہر جا کر زندگی بسر کرنے کے خواب دیکھتی ہے اور کوشش بھی کرتی ہے۔ لیکن اس میں جو لوگ انسان دشمن ویزہ سسٹم کے باعث ناکام ہو جاتے ہیں وہ مزید اذیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں جبکہ جو لوگ بظاہر کامیاب ہوتے ہیں وہ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کے اثرات محسوس کرتے ہوئے مزید ہیجان کا شکار ہو جاتے ہیں۔

لیکن اس تمام تر صورتحال کا انتہائی ترقی پسند پہلو بھی ہے کہ اس سماج کی دہکتی ہوئی آگ میں جہاں پرانا سماج پگھل رہا ہے وہاں نئے سماج کی بنیاد کا خام مال بھی پک رہا ہے اور آنے والے عرصے میں وہ نئی شکلیں لے کر نمودار ہوگا۔ نئی سیاسی پارٹیاں بھی ابھریں گی اور محنت کشوں اور نوجوانوں کی نئی تحریکیں بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ میدان میں اتریں گی۔ وہ تمام تر مظالم اور جبر جو آج کے حکمران عوام پر روا رکھے ہوئے ہیں ان کو محنت کش طبقہ کبھی بھی فراموش نہیں کرے گا بلکہ اس کے عمومی حافظے میں ظلم اور جبر کا ہر ایک قصہ مکمل طور پر محفوظ ہے۔ یہی صورتحال آنے والے عرصے میں نئی انقلابی تحریکوں کو بھی جنم دے گی اور اس نظام کے مکمل خاتمے اور ایک نئے نظام کے نظریات کو بھی عوامی سطح پر مقبولیت عطا کرے گی۔

موجودہ حکمران طبقات کوئی نیا نظریہ، نئی سوچ، نئی سیاست اور نئی حکمت عملی بنانے سے مکمل طور پر عاری ہو چکے ہیں۔ معیشت کو دیوالیہ پن سے نکالنے کے لیے ان کے پاس کوئی نیا فارمولا یا طریقہ کار نہیں، ریاستی اداروں کی کرپشن، لوٹ مار اور خانہ جنگی کو ختم کرنے کی ان میں سکت نہیں۔ مذہبی بنیاد پرستی اور رجعتیت کے جو بیج انہوں نے خود چند دہائیوں قبل بوئے تھے اور جو اب تناور درخت بن چکے ہیں انہیں کاٹنے کی صلاحیت ان میں موجو د نہیں، امریکی سامراج سمیت دیگر سامراجی طاقتوں کی غلامی کے طوق اتارنے کی سکت ان میں موجود نہیں اور نہ ہی یہ یہاں نئی صنعت لگانے اور روزگار پیدا کرنے کا کوئی نیا منصوبہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ یہ حکمران طبقہ اور یہ نظام نہ صرف مکمل طور پر بانجھ ہو چکا ہے بلکہ ضعیف اور بیمار بھی ہو چکا ہے اور اب بستر مرگ پر موجود ہے۔ یہ سماج میں صرف بیماری، گندگی اور تکلیف ہی پھیلا سکتا ہے۔ آنے والے عرصے میں یہاں مزید خلفشار، بحران، خونریزی، بھوک اور بیماری پھیلتے ہوئے ہی نظر آئیں گے۔ اس نظام میں رہتے ہوئے خوشحالی اور ترقی کا کوئی امکان نہیں، اس بربادی کے پھیلاؤ میں مختصر وقفے آسکتے ہیں جنہیں یہ حکمران ترقی قرار دینے کی کوشش کریں گے لیکن محنت کش عوام کی نجات اب اس گرتے ہوئے نظام میں ممکن نہیں۔ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی اس اذیت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور حکمران طبقے کی تمام تر دولت وملکیت مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں لیتے ہوئے ایک منصوبہ بند معیشت کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ صرف ایک مزدور ریاست اور سوشلسٹ معیشت کے تحت ہی یہاں موجود بھوک، بیماری، جہالت اور رجعت کا خاتمہ ہو سکتا ہے جس کے لیے پرانے ریاستی و سیاسی ڈھانچے کو ایک انقلاب کے ذریعے ختم کرنا پڑے گا اور ایک نئے سماج اور ایک نئی زندگی کے سفر کا آغاز کرنا ہوگا۔

Comments are closed.