|تحریر: رزاق غورزنگ|
پچھلے کچھ دنوں سے میڈیا پر مسلسل یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ گوادر کے گرد خار دار تاروں کا جال بچھایا جارہا ہے۔ گوادر شہر کے 25 مربع کلومیٹر پر باڑ لگائی جائے گی اور صرف دو پوائنٹس ایسے ہوں گے جہاں سے لوگوں کو اخراج اور داخلے کی اجازت ہوگی۔ اسکے علاوہ لوگوں پر نظر رکھنے اور ”سیکورٹی“ خدشات کے پیش نظر 500 کیمرے بھی نصب کیے جائیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں پر چلنے والے وزیراعلیٰ نے بھی ان اقدامات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدامات ”سیف سٹی پروجیکٹ“ کا حصہ ہیں، جس کا مقصد گوادر کے عوام کو ”تحفظ“ اور شہر کو ”دہشت گردانہ“ حملوں سے محفوظ کرنا ہے۔ لیکن بلوچستان کے عوام کی طرف سے شدید تنقید اور غصہ آنے کے بعد 30 دسمبر کو صوبائی وزیر داخلہ نے گوادر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت گوادر میں باڑ لگانے کا منصوبہ عارضی طور پر معطل کررہی ہے اور اس پر دوبارہ گوادر کی ”مقامی“ آبادی سے مشاورت کے بعد کام شروع کیا جائے گا۔ یہ حفاظتی حصار شہر کے اس حصے میں لگائے جارہے ہیں جہاں پر چین کی سرمایہ کاری موجود ہے جس میں پورٹ سے لیکر انٹرنیشنل ائیر پورٹ اور دوسرے اہم سٹرٹیجک حصے آتے ہیں۔ اس تمام صورتحال نے گوادر اور بلوچ عوام کی احساس محرومی میں اضافہ کیا ہے۔ گوادر کی مقامی آبادی میں یہ احساس شدت پکڑ رہا ہے کہ ان تمام تر اقدامات کے نتیجے میں گوادر کی مقامی آبادی کو بے دخل کیا جارہا ہے اور ان کو مستقبل میں اقلیت میں تبدیل کرکے ان کو اپنے ہی شہر سے محروم کیا جارہا ہے۔ کچھ لوگ ان اقدامات کو مودی کی کشمیر میں کیے گئے اقدامات سے بھی تشبیح دے رہے ہیں جہاں پر آرٹیکل 35A اور 370 کا خاتمہ کرتے ہوئے کشمیر کو سرمایہ داروں اور سامراجی لوٹ مار کیلئے کھول دیا گیا ہے اور کشمیر میں آنے والے ہر کسی کو جائیداد خریدنے اور ڈاکومنٹس بنانے کی اجازت دی گئی ہے۔ گوادر کے ماہی گیر تو پچھلے تین سال سے اس بات پر سراپا احتجاج ہیں کہ سمندر کے مشرقی کنارے پر ایکسپرس ہائی وے بناکر انہیں روزگار سے محروم کیا جارہا ہے۔ وہاں کی مقامی آبادی سراپا احتجاج ہے کہ سی پیک، میگاپروجیکٹ اور ”مبینہ ترقی“ کے شور میں ہم صاف پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ گرمیوں میں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ 16 سے 18 گھنٹے کی ہوتی ہے۔ پاکستان کی وفاقی حکومت نے کچھ عرصہ پہلے کوسٹل بیلٹ، ان کے ارد گرد جزائر اور تفریحی مقامات پر قبضہ کرنے کیلئے ایک آرڈیننس بھی پاس کیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ کوسٹل بیلٹ اور ان سے منسلک اثاثہ جات کو صوبائی ملکیت سے چھین کر وفاق کے تصرف میں دیا جائے۔ وفاق کے اس آرڈیننس کے پس منظر میں بلوچستان کے سیاسی حلقوں میں یہ بحثیں زیرِگردش ہیں کہ مرکزی حکومت اس آرڈیننس کے ذریعے بلوچستان کے پورے کوسٹل بیلٹ پر اپنا قبضہ جمانا چاہتے ہیں تاکہ سامراجی لوٹ مار کو تیز سے تیز کردیا جائے۔ ان تمام تر عوامل سے ریاست کے سامراجی جبر کے نئے باب رقم ہورہے ہیں اور بلوچستان میں عمومی طور پر قومی استحصال اور جبر اپنی انتہاوں کو پہنچ رہا ہے۔
بلوچ عوام اور نوجوانوں کی طرف سے اپنے بنیادی حقوق اور قومی حق خودارادیت کی جدوجہد کو پاکستان کی سیکورٹی ریاست نے ہروقت فوجی آپریشنوں،”مارو اور پھینک دو“ کی پالیسی کے ذریعے کچلا ہے۔ اپنی رِٹ کو بحال کرنے اور اپنے آپ کو پھیلانے کیلئے ریاست نے ہر کلومیٹر اور ہر شہر میں فوجی استبداد اور سیاسی کارکنوں کا قتل کیا ہے۔ ان کو لاپتہ کیا جاتا ہے اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی جاتی ہیں یا پھر ان کو ریاستی عقوبت خانوں میں ٹارچر کرکے پاگل اور اپاہج بنا دیا جاتا ہے۔ ریاست نے سعودی عرب کی سرپرستی میں ہزارہ عوام کے فرقہ وارانہ قتل عام کے ذریعے بھی بلوچستان کے عوام کو تقسیم کرنے اور ان کی اپنے حقوق کی جدوجہد کو مسخ کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی ہے۔ صوبے میں پشتون اور بلوچ ڈیموگرافی پر سیاست کرنے والے سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ ریاست نے بھی پشتون اور بلوچ عوام کے درمیان تقسیم کو گہرا کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ ڈیتھ سکواڈ اور جرائم پیشہ عناصر کے ذریعے سیاسی کارکنان کی قتل عام کے ساتھ ساتھ ان کو کھلی چھوٹ دی گئی کہ وہ لوٹ مار اور آبادیوں کو یرغمال بناکر رکھیں۔ اس قتل عام کو قتل گاہوں میں دبانے کے خلاف جب لوگ کوچہ و بازار میں نکلتے ہیں تو ان کے خلاف غداری کے مقدمات بنتے ہیں اور ان کو ڈرا دھمکا کر اور بدترین نتائج کی وارننگ دے کر عملی سیاسی جدوجہد سے دستبردار ہونے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ریاستی پھیلاؤ کی اس جابرانہ پالیسی کے نتیجے میں بلوچستان میں ہر جگہ ناکے اور چیک پوسٹیں نظر آتی ہیں۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اس وقت پاکستان کا سب سے زیادہ ملٹرائزڈ شہر بن چکا ہے۔ صوبے کے انتہائی محدود بجٹ میں سے ہر سال 60 ارب روپے دفاع کیلئے خرچ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مائننگ، قدرتی وسائل اور عالمی سامراجی کمپنیوں کی لوٹ مار میں حصہ داری کے فیصلوں پر بھی بلوچستان کی گماشتہ بورژوازی کے مقابلے میں ریاست کی عسکری اشرافیہ برتر نظر آتی ہے۔ غیر رسمی معیشت سے چلنے والے دیوہیکل کاروباروں پر بھی ریاستی ناخدا قابض نظر آتے ہیں۔ صوبے کی حکومتیں بنانے کے حوالے سے تو یہاں کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ کٹھ پتلی حکومتیں کہاں بنتی ہیں اور ان کی ڈوریں کہاں سے ہلائی جاتی ہیں۔ پچھلی حکومتوں کے حوالے سے کوئٹہ میں یہ مشہور تھا کہ ان کو ایک بریگیڈئیر چلا رہا ہے۔ 2018ء میں جب نواز شریف اور قوم پرستوں کی مخلوط حکومت کو گرایا گیا تو اس حکومت میں شریک ایک قوم پرست رہنما نے ٹیلی ویژن پر کھل کر اس بریگیڈئیر کا نام لیتے ہوئے کہا کہ ہماری حکومت کو اس بریگیڈئیر نے گرایا ہے۔ اس دیوہیکل دفاعی انفراسٹکچر کے باوجود ”دہشتگردی“ کے ایسے واقعات رونما ہوجاتے ہیں جن پر لوگوں کے ذہنوں میں سوالات جنم لیتے ہیں کہ اتنے مظبوط دفاعی میکنزم کے باوجود ”امن“ کے وقفے کیوں اتنے مختصرہوتے ہیں۔
ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے 15 سال میں تشدد اور سیکورٹی صورتحال کی وجہ سے 2000 ارب روپے کا سرمایہ اور کاروبار کوئٹہ سے دوسرے ممالک کو شفٹ ہوچکا ہے۔ ریاست کی بلوچستان کی طرف یہ پالیسی انگریز سامراج کی پالیسی سے بہت مماثلت رکھتی ہے۔ انگریز سامراج نے بھی بلوچستان کو تاریخی طور پر زارِ روس پر نظر رکھنے اور ہندوستان کو ان کی مداخلت سے روکنے کیلئے سٹرٹیجک اور دفاعی مورچے کے طور پر استعمال کیا۔ اسی لئے انگریز سامراج نے کوئٹہ کو ایک فوجی گیریژن کے طور پر آباد کیا اور اسی گیریژنزائزڈ اور سیکورٹی کے غالب مقاصد کے تحت کوئٹہ کا سماجی و اقتصادی ارتقاء ہمیں نظر آتا ہے۔ بلوچستان کے اوپر ریاست اور اس پر براجمان پیداواری و اقتصادی ڈھانچہ یہاں کی پیداواری قوتوں کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ پیداوری قوتوں، ریاست اور ان کے ملکیتی رشتوں کے درمیان تضاد کی سائنسی سمجھ بوجھ اور ان کی روشنی میں انقلابی جدوجہد کا طریقہ کار ہی ہمیں اس بحران سے نکلنے کا راستہ فراہم کرسکتا ہے۔
ریاستی جبر کے خلاف بلوچ قومی جدوجہد کے اندر دو سیاسی رجحانات غالب نظر آتے ہیں، جس میں ایک رجحان نے پارلیمنٹ، انتخابی سیاست اور موجودہ سماجی و معاشی نظام کے اندر اصلاحات کے ذریعے صوبائی خود مختاری حاصل کرتے ہوئے وفاقی پارلیمانی جمہوریت کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس سیاسی رجحان کا اظہار اپنی انتہاوں پر مفاہمت اور موقع پرستی کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ جس میں ان کا حکومتوں کا حصہ بن کر بلوچ عوام پر فوجی آپریشنوں اور بد ترین ریاستی جبر میں بھی حکومتی و ریاستی مراعات سے مستفید ہوتے رہنا واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک قوم پرست پارٹی نے تو پچھلے انتخابات میں سپاہِ صحابہ جیسے فرقہ پرست اور دہشت گرد گروپ سے انتخابی اتحاد تک کر لیا تاکہ کسی بھی طرح سے پارلیمنٹ اور ان کی مراعات تک رسائی حاصل کی جائے۔ دوسرا سیاسی رجحان ہمیں مسلح جدوجہد اور بندوق کے ذریعے بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی حاصل کرنے کی نظر آتی ہے۔ مسلح جدوجہد کے اس طریقہ کار میں وہ لوگ حصہ لیتے ہیں جو بندوق چلا سکتے ہیں اور ریاستی عتاب سے بچنے کیلئے پہاڑوں میں یا کہیں بھی اپنے آپ کو چھپا سکتے ہیں۔ ریاست اور مسلح جنگجووں کے درمیان تصادم میں پوری آبادی کو سیاسی عمل سے کاٹ دیا جاتا ہے اور ہیروازم کی وہ خوفناک نفسیات جنم لیتی ہے جس میں آزادی کی جدوجہد کو بندوق چلانے والے مسیحاوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ردِعمل کے طور پر ریاست نے ”شرپسندوں“ اور ”دہشتگردوں“ کا جواز بناکر پوری بلوچ آبادی پر جبر و ستم کے پہاڑ توڑ دئیے۔ مسلح جدوجہد اور ریاست کے درمیان تصادم نے اپنی انتہاوں پر جاکر بلوچ آبادی کو یرغمال بنائے رکھا اور اسی دو طرفہ تصادم، ریاستی جبراورفوجی آپریشنوں نے خوف کے سائے اتنے گہرے کردیے کہ جس میں بدترین بیگانگی اور سیاسی عمل سے بیزاری ایک بنیادی خاصیت کے طور پر ابھری۔ جمود کے اس پہاڑ کو توڑنے کیلئے بہت بڑے واقعات کی ضرورت پڑی جس نے ایک بار پھر سیاسی بیداری کا آغاز کردیا ہے۔ بلوچ قومی جدوجہد کے ان دو سیاسی رجحانات نے بلوچ قومی مسئلے کو قوم پرست نظریات کے محدود پروگرام کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی۔ سرد جنگ کے زمانے میں جب دنیا دو بلاک میں تقسیم تھی تو اس زمانے میں ناگزیر طور پر مظلوم قومیتوں کا جھکاؤ سوویت یونین کی طرف تھا اور مظلوم قومیتوں کی جدوجہد ریاستی جبر کے ساتھ ساتھ عالمی سیاست میں سامراج مخالف کرادار رکھتی تھی اور ایک حد تک قومی آزادی کی تحریکوں پر بائیں بازو کی چھاپ نظر آتی تھی جس میں مختلف قومیتوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگ کسی سیاسی پارٹی یا تحریک میں ایک سیاسی پروگرام کے ذریعے اکٹھے جدوجہد کرتے تھے لیکن سوویت یونین میں سٹالنسٹ ردِ انقلاب کے بعد سٹالنسٹ بیوروکریسی نے بھی مارکسزم اور لینن ازم کی بنیادوں سے انحراف کرتے ہوئے ان تحریکوں کو اپنی خارجہ پالیسی میں اپنے تنگ نظر اور محدود مفادات کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف قومی آزادی کی یہ تحریکیں بھی اپنا آزادانہ نظریاتی و انقلابی کردار متعین کرنے میں ناکام نظر آئیں جس کا بالآ خر نتیجہ یہ نکلا کہ سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ یہ قوم پرست تحریکیں بھی اپنے محدود قوم پرستانہ پروگرام اور نظریات سے آگے نہیں جاسکیں۔
پچھلی دو دہائیوں کے اندر بلوچستان میں ریاستی آشیر باد کے ساتھ سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیوں اورعالمی مالیاتی سرمائے کی سرایت نے بلوچ قومی سوال اور اس کی حرکیات کو پیچیدہ اور گھمبیر بنا دیا ہے۔ اپنے سٹرٹیجک محل وقوع اور بحرعرب پر موجود ہونے کی وجہ سے دنیا کے سامراجی ممالک کے درمیان آج کی بحران زدہ سرمایہ داری میں اپنی اجارہ دارانہ لوٹ مار کو تیز تر کرنے کیلئے یہ سامراجی گدھ بلوچستان اور دوسرے خطوں میں مداخلتیں کرتے ہیں، اسی بناء پر بلوچستان کے اندر حالیہ تصادم 1960 اور 70 کی دہائی میں ریاست بمقابلہ بلوچ عوام کی سادہ تقسیم کی بجائے نسبتاً گنجلک شکل اختیار کرگیا ہے۔ یہاں پر متضاد سامراجی قوتیں اگر ایک طرف ریاستی پشت پناہی کے ساتھ یہاں کے عوام اور ان کے وسائل کی لوٹ مار کررہی ہیں تو دوسری طرف ان کی مخالف سامراجی قوتیں مظلوم قومیتوں پر ہونے والے مظالم پر مگرمچھ کے آنسو بہا کر اپنے مذموم عزائم حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ یہ سامراجی قوتیں قومی تحریکوں کے بعض حصوں کی مالیاتی اور لاجسٹک حمایت کرکے ان تحریکوں کی روح کو مسخ کردیتی ہیں۔ سامراجی مداخلت، ملٹی نیشنل کمپنیوں، ریاستی و مقامی اشرافیہ کی حوس اور استحصال نے بلوچستان کی وسیع تر آبادی کو غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیوں کے نتیجے میں بلوچستان کی محدود مڈل کلاس بھی منہدم ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں وہ سماجی بنیادیں اور پوٹینشل ہی ختم ہوتا جارہا ہے جس کی بنیاد پرماضی میں قوم پرست نظریات کے محدود پروگرام کے باوجود ریاستی جبر کے خلاف جدوجہد میں ایک ترقی پسندانہ دامن رکھتی تھی۔ پاکستان کے قیام سے لے کر 80ء کی دہائی تک بلوچ آزادی کی قیادت قبائلی اشرافیہ کے ہاتھ میں تھی جنہوں نے تاریخ کے مختلف مرحلوں پر پاکستان کی ریاست اور حکمران اشرافیہ سے سمجھوتوں اور مذاکرات کے ذریعے ان کو حل کرنے کی کوشش کی، لیکن ریاست کی نااہلی اور سرمایہ داری کے تاریخی زوال کے اندر وہ صلاحیت نہیں تھی کہ وہ اس مسئلے کو معاشی و سیاسی عوامل کے ذریعے حل کرپاتی۔ پچھلے 30 سالوں میں تبدیل ہوتے ہوئے سماجی و اقتصادی عوامل کی بدولت بلوچ قومی تحریک میں مڈل کلاس کی فعال شمولیت نظر آتی ہے اور قومی تحریک کی قیادت پر قبائلی اشرافیہ کے ساتھ ساتھ مڈل کلاس اور پروفیشنلز بھی تحریک کے ایک حصے کی قیادت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تاریخی طور پر ان تحریکوں اور ان دونوں سیاسی رجحانات کی سماجی بنیادیں بلوچ معاشرے میں مڈل کلاس، پروفیشنلز، دانشور اور طالب علموں کے اندر پیوست تھیں۔ دوسرے الفاظ میں بلوچ حقِ خودارادیت کا پرچار کرنے والے ان دو سیاسی رجحانات نے اپنے طبقاتی پس منظر کی وجہ سے بلوچستان کی وسیع تر مزدور تحریک سے اپنے آپ کو نہیں جوڑا۔ وہ اپنی قومی جدوجہد کو بلوچستان کی وسیع تر تحریک سے جوڑنے میں ناکام رہے۔ بلوچستان کی مزدور تحریک کا پاکستان اور خطے کی مزدور تحریک سے ایک نامیاتی رشتہ ہے جس میں وہ انقلابی نظریات کے تحت ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر ہو کر طبقاتی اتحاد کے ذریعے جدوجہد کرسکتے ہیں۔
عالمی مزدور تحریک کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں قومی سوال کے اوپر نظریاتی پوزیشنوں اور لائحہ عمل کا عظیم خزانہ موجود ہے۔ مارکسزم نے اپنے نظریاتی اور عملی جدوجہد کے پروگرام میں قومی سوال کو انتہائی اہم حصہ مانتے ہوئے ہر قسم کے جبر کی نہ صرف مخالفت کی ہے بلکہ اس جبر کو ختم کرنے کیلئے انقلابی سوشلزم کے سائنسی نظریات سے لیس پروگرام کے ذریعے صف اول میں جدوجہد بھی کی ہے۔ اس حوالے سے قومی سوال پر مارکسی اساتذہ میں سب سے موثر نام بالشویک انقلاب کے قائد لینن کا آتا ہے۔ لینن نے روزا الگسمبرگ سے اختلاف کرتے ہوئے مظلوم قوموں کی خودارادیت بشمول حقِ علیحدگی کو تسلیم کیا اور روس میں قومیتوں کو آزادی دے کر تاریخ کے میزان پر ثابت کیا کہ ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب ہی جبر اور استحصال کی تمام شکلوں سے نجات دلاسکتا ہے۔ قومی سوال پر مارکسی موقف کو تخلیق کرنے کیلئے لینن نے مارکسزم کے جوہر یعنی جدلیاتی مادیت کو بنیاد بنایا، جس میں ہر سماجی، سیاسی و اقتصادی مظہر کو مسلسل حرکت، تبدیلی اور تضادات کی نشونما میں دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ لینن کے قومی سوال پر نظریاتی کام کو اگر ترتیب میں پڑھا جائے تو اس میں ایک متضاد ارتقاء اور بڑھوتری نظر آئے گی جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لینن قومی سوال کو وسیع تر مزدور تحریک کے نقطہ نظر سے اس مسئلے پر ٹھوس موقف لیتا تھا اور اس عظیم قائد نے ہمیشہ مزدور تحریک اور طبقاتی جدوجہد کو بنیادی لیتے ہوئے قومی سوال کو اس وسیع تر عالمی مزدور تحریک اور پروگرام کا ناقابلِ تقسیم ضمنی حصہ تسلیم کیا ہے۔ لینن جس زمانے میں قومی سوال کے اوپر لکھ رہا تھا اس زمانے کی نوآبادیاتی دنیا کا بیشتر حصہ صنعت کے ساتھ ساتھ زراعت اور جاگیردارانہ رشتوں پر مشتمل تھا جس کی بنیاد پر لینن نے عالمی سامراج کے خلاف جدوجہد میں نوآبادیاتی دنیا کی قوم پرست تحریکوں کے ترقی پسند پوٹینشل کو ایک حد تک مانتے ہوئے مزدور تحریک پر زور دیا کہ وہ اپنا آزادانہ تنظیمی ڈھانچہ اور نظریاتی موقف کو سختی سے قائم رکھتے ہوئے سامراج کے خلاف جدوجہد میں سامراج مخالف بورژوا قوم پرستوں کے ساتھ عارضی طور پر متحدہ محاذ میں جاسکتے ہیں۔ لیکن اس کا حتمی حل پھر بھی محنت کشوں کے اقتدار پر قبضے اور عالمی سوشلسٹ انقلاب کی کامیابی سے جوڑ دیا جاتاتھا۔
آج کی دنیا پر اگر ہم نظر ڈالتے ہیں تو یہ دنیا سو سال پہلے والی لینن کی دنیا سے بہت زیادہ مختلف ہے۔ آج ہمیں پوری دنیا میں عالمی مالیاتی سرمائے اور بڑی بڑی اجارادارانہ کمپنیوں کی یلغار نظر آتی ہے۔ آج کی عالمی معیشت میں زراعت کا حصہ بہت ہی کم نظر آتا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی خطہ عالمی معیشت کے عمل سے اپنے آپ کو نہیں کاٹ سکتا۔ آج کی دنیا میں بورژوا ڈیموکریٹک بنیادوں پر نہ صنعت کاری ہوسکتی ہے اور نہ ہی پیداواری قوتوں کو ترقی دی جاسکتی ہے، بلکہ آج کی دنیا میں پیداواری قوتوں اور انسانیت کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ قومی ریاست اور بورژوا ملکیتی رشتے ہیں۔ آج کے عہد میں مارکس وادیوں کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ وہ انسانیت، تہذیب اور اس پورے سیارے کو بچانے کی خاطر عالمی محنت کش طبقے کو طبقاتی بنیادوں پر منظم کرنے اور انہیں مارکسی نظریات سے لیس کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ مارکس وادیوں کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ محنت کشوں اور عوام کو مزید قومی ریاستوں میں تقسیم کریں۔ اسی لئے اگر کوئی قومی سوال پر لینن کے آج سے سو سال پہلے اخذ کئے گئے نتائج کو مطلق مان کر اور ان کو تجریدی طور پر آج کی زندہ صورتحال پر لاگو کرتا ہے تو اس کے بہت خطرناک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ یوگوسلاویہ، بوسنیا اور دنیا کے دوسرے حصوں میں حق خودارادیت کے نام پر جو نسل کشی کی گئی اور جس پیمانے پر معصوم انسانوں کا خون بہایا گیا وہ سامراج اور سرمایہ داری کے بڑے جرائم تھے۔ ایسے میں بلوچ اور دنیا میں دوسری مظلوم اقوام کی استحصال اور اس کے خلاف جاری تحریکوں کو آج کی ابھرتی ہوئی مزدور تحریک ہی وہ انقلابی سمت اور رہنمائی دے سکتی ہے جس پر چل کر ہی ہمیں کامیابی مل سکتی ہے۔