|تحریر: آدم پال، ترجمہ: ولید خان|
آج گلگت میں ایک مرتبہ پھر انسداد دہشت گردی عدالت نے احسان علی اور عوامی ایکشن کمیٹی کے دیگر قائدین کی ضمانت مسترد کر دی ہے۔
دانستہ طور پر پچھلے ڈیڑھ مہینے سے عدالتی کاروائی کو مسلسل طول دیا جا رہا ہے۔ وکیل، جج اور کٹھ پتلی عدالت کو کنٹرول کرنے والی ریاستی قوتیں، حکومتی ملی بھگت کے ساتھ عوامی ایکشن کمیٹی کے قائدین کے خلاف جھوٹے مقدمات کو بھونڈے عذر پیش کر کے مسلسل لٹکا رہی ہیں۔ آج پھر ظلم کرتے ہوئے ضمانت کی اپیل کو مسترد کر دیا گیا ہے۔
احسان علی سمیت ان قائدین پر اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنے کی پاداش میں دہشت گردی کا پرچہ کاٹا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ قائدین کو اس لیے گرفتار کیا گیا کیونکہ وہ گلگت میں احسان علی کی رہائی کے لیے احتجاج کر رہے تھے!
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو کوئی اپنے حقوق کی آواز بلند کرے گا، پاکستانی ریاست اسے ”دہشت گرد“ سمجھے گی۔ دوسری طرف وزیر دفاع خواجہ آصف نے مئی میں اعتراف کیا تھا کہ پاکستانی ریاست کئی دہائیوں امریکی سامراج اور دیگر مغربی قوتوں کے لیے دہشت گردی کی حمایت اور غلیظ کام کرتی رہی ہے۔
یہ دہشت گرد اور ان کے معاون آج بھی پورے ملک میں بغیر کسی سزا یا رکاوٹ کے آزادی سے گھوم پھر رہے ہیں جبکہ جو بھی ظلم و جبر کے خلاف یا عوامی حقوق کے لیے آواز اٹھاتا ہے اس پر دہشت گردی کا پرچہ کاٹ دیا جاتا ہے۔
یہ حقیقت ملک کی جابر ریاست اور حکمران طبقے کا چہرہ ننگا کرنے کے لیے کافی ہے، جس نے عوام کی روزمرہ زندگی کو جہنم بنا رکھا ہے۔ ریاست کے کچھ حصے آج بھی دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہیں جبکہ اس دہشت گردی کے خلاف وقتاً فوقتاً آپریشن بھی جاری رہتے ہیں۔ لیکن دہشت گردی مسلسل پھیل رہی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ ریاست دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں ناکام ہو چکی ہے بلکہ اس کے کئی حصے دہشت گردوں کے ساتھ ساز باز میں مصروف ہیں۔
دہشت گردی کے کاروبار سے کئی جرنیلوں اور سیاست دانوں نے دیوہیکل مال و دولت بنایا ہے جبکہ دہشت گردی کے خلاف آپریشنوں نے بھی کئی جیبوں کو بھرا ہے۔ ان علاقوں کے عوام اس عفریت کے ہاتھوں مسلسل برباد ہو رہے ہیں۔ ہزاروں زندگیاں ضائع جبکہ لاکھوں افراد کا روزگار تباہ و برباد ہو چکا ہے۔
دوسری طرف دہشت گردی کے خلاف قوانین اور اسپیشل عدالتوں کو ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد اور بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے سیاسی کارکنوں کے خلاف کھلم کھلا استعمال کیا جاتا ہے۔ دہائیوں پر محیط ایک پوری تاریخ ہے جس میں ٹریڈ یونین قائدین، لیفٹ سیاسی کارکنان اور سیاسی کارکنان کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کر کے مہینوں اور سالوں سلاخوں کے پیچھے اس لیے پھینک دیا گیا کیونکہ انہوں نے حکمران طبقے کے خلاف ایک ہڑتال یا ایک احتجاج کو منظم کیا تھا۔
یہ قوانین اور عدالتیں دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں۔ در حقیقت پوری ریاستی مشینری اس ملک کی عوام کو کسی قسم کی سیکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ دوسری طرف پولیس اور ریاست کے دیگر ادارے انہی قوانین کو استعمال کرتے ہوئے عوامی تحریکوں کو کچلتے اور سیاسی کارکنان کو ٹارچر کرتے ہیں۔
اسی طرح اور کئی جابر قوانین کو منظور کیا جا رہا ہے جن کے ذریعے حکمران طبقہ عوام کی زندگیاں تباہ و برباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔ حال ہی میں منظور شدہ PECA قانون اس کی ایک مثال ہے جس کے ذریعے سوشل میڈیا کو لگام ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پارلیمنٹ نے چھبیسویں آئینی ترمیم منظور کی ہے جس میں جرنیلوں کو ججوں پر تاریخی کنٹرول دے دیا گیا ہے۔
اس دوران حکمران طبقہ IMF اور ورلڈ بینک کی غلامی میں محنت کشوں پر مسلسل ٹیکسوں کی بھرمار کر رہا ہے اور ان کے خون پسینے کا آخری قطرہ تک لوٹ کھسوٹ رہا ہے۔ بیروزگاری بڑھ رہی ہے، بے قابو افراط زر، قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور ضروری اشیاء کی مصنوعی قلت ناقابل یقین سطح پر کھڑے ہیں۔ اس دوران ملک کے وسائل کی کرپٹ جرنیلوں، سیاست دانوں، بینکاروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں لوٹ مار تاریخی بلندیوں تک پہنچ چکی ہے۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں امراء نہ ہونے کے برابر ٹیکس ادا کر رہے ہیں جبکہ تین چوتھائی سے زیادہ ٹیکس بلاواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے جس کا تقریباً سارا بوجھ محنت کش عوام کے کندھوں پر ہے۔ حالیہ چند سالوں میں محنت کشوں پر بہت تباہ کن حملے ہوئے ہیں۔ پورے ملک میں بہت بڑے احتجاج ہوئے ہیں جن میں قومی اداروں کے محنت کش خاص طور پر نمایاں ہیں۔
اس دوران قومی اقلیتوں پر بھی ریاستی حملوں کی بھرمار ہو چکی ہے۔ جبر کی شکار کئی قومی اقلیتوں نے اس جابر ریاست کے خلاف دیوہیکل تحریکیں برپاء کی ہیں اور ریاستی اداروں نے ہر طرح کا جبر استعمال کر کے ان تحریکوں کو کچلنے کی کوشش کی ہے۔
کامریڈ احسان علی
گلگت بلتستان میں بھی یہی ہو رہا ہے جہاں پچھلے سال فروری میں عوامی ایکشن کمیٹی (AAC) نے احسان علی کی قیادت میں شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔ اس تحریک نے حکمران طبقے کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتے ہوئے تحریک کے تمام مطالبات منوا لیے، جن میں اچھے معیار کے آٹے کی فراہمی اور اس پر سبسڈی، نئے ہسپتالوں اور یونیورسٹیوں کے لیے بجٹ اور بیروزگار نوجوانوں کے لیے اقدامات وغیرہ شامل تھے۔
اس تحریک نے ریاستی اداروں کو ہلا کر رکھ دیا جس نے روایتی سیاسی پارٹیوں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے ساتھ مصنوعی شیعہ سنی فرقہ واریت کے ساتھ دیگر مقامی مسائل کی تفریق کو بھی رد کر دیا۔ پوری عوام کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کر دیا گیا جو اپنے حقوق اس ظالم حکمران طبقے کا منہ توڑ کر حاصل کرنے کے لیے پُر عزم تھی۔
فتح کے بعد سے ریاست مسلسل اس تحریک کو توڑنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ احسان علی کو بدنام زمانہ فورتھ شیڈول میں ڈال دیا گیا جو دہشت گردوں اور ممنوعہ دہشت گرد تنظیموں کی فہرست ہے۔ لیکن تحریک کے دباؤ نے انہیں مزید کوئی قدم اٹھانے سے روک دیا اور وہ مناسب وقت کا انتظار کرتے رہے۔
اس دوران عوامی ایکشن کمیٹی اپنے آپ کو مسلسل منظم کرتی رہی اور عوامی سطح تک اپنے تنظیمی ڈھانچوں کو پھیلا دیا گیا۔ احسان علی اس سارے کام میں سرگرم تھے اور کئی نوجوان ان کے شانہ بشانہ متحرک تھے۔ پورے گلگت بلتستان میں ان کی عوامی رابطہ کاری مسلسل جاری تھی۔
احسان علی اور ان کے ساتھیوں نے اعلانیہ کمیونسٹ نظریات کا پرچار کیا اور گلگت بلتستان میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی (RCP) کو منظم کرنے کی جدوجہد جاری رکھی۔ اس مقصد کے لیے گلگت پریس کلب میں ایک کمیونسٹ اسکول بھی منظم کیا گیا جس میں نوجوانوں اور محنت کشوں نے گرمجوشی سے شمولیت کرتے ہوئے ”کمیونزم کیا ہے؟“ اور ”کمیونسٹ عالمی صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں“ جیسے عنوانات پر سیر حاصل بحث مباحثہ کیا۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی ممبرشپ بڑھ رہی تھی اور نوجوانوں کے ساتھ کئی ملاقاتیں منظم ہو رہی تھیں۔ حقیقی کمیونزم کے نظریات کی یلغار نے حکمران طبقے کی پارٹیوں کو خوفزدہ کر دیا تھا۔
احسان علی نے ایک اور تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے نام نہاد ”آزاد“ جموں کشمیر کے شہر راولاکوٹ میں ایک عوامی میٹنگ میں حصہ لیا۔ ہزاروں کی تعداد میں شریک افراد کی اس میٹنگ کو کشمیر کی عوامی ایکشن کمیٹی نے منعقد کیا تھا جو اپنی تاریخی فتح کا جشن منا رہے تھے۔ اس فتح کے نتیجے میں بجلی کی قیمتوں میں دیوہیکل کمی ہوئی، آٹا سبسڈی بحال ہوئی اور دیگر کئی مطالبات مانے گئے۔
”آزاد“ جموں کشمیر کی اس تحریک میں پچھلے سال لاکھوں افراد نے شرکت کی جنہوں نے جولائی میں دارلحکومت مظفرآباد کی طرف مارچ کیا۔ اس تحریک پر ریاست نے خوفناک حملہ کرتے ہوئے تین افراد کو شہید بھی کیا۔ چند مہینوں بعد ان شہداء کی یاد میں ایک تاسیسی میٹنگ منعقد کی گئی جس میں گلگت سے احسان علی مہمان خصوصی اور مرکزی مقرر کے طور پر شریک ہوئے۔
انہیں حاضرین کی جانب سے زبردست پذیرائی ملی اور ہزاروں لوگ کئی گھنٹے ان کی تقریر کا انتظار کرتے رہے۔ اپنی تقریر میں احسان علی نے پاکستانی حکمران طبقے کے خلاف جدوجہد کو منظم کرنے کے لیے تمام عوامی تحریکوں کو متحد ہونے کی ضرورت پر تفصیلی بات کی تاکہ اپنے تمام جائز مطالبات منوائے جا سکیں۔ انہوں نے محنت کش طبقے کے تاریخی اور کلیدی کردار پر بھی بات کی جو اس جابر نظام اور ریاست کے خاتمے کی واحد ضمانت ہے۔
یہ ایک دیوہیکل قدم تھا جس نے حکمران طبقے پر خوف طاری کر دیا تھا۔ وہ ہر ممکن کوشش کریں گے کہ تمام تحریکوں کو ایک دوسرے سے کاٹ کر قومی بنیادوں اور مقامی مسائل میں تقسیم کر کے رکھا جائے۔ انہوں نے ان تحریکوں کو کچلنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا ہے۔ سب سے اہم طریقہ کار ان تحریکوں کو مقامی، فرقہ ورانہ اور قومی بنیادوں پر تقسیم کرنا ہے۔ حکمران طبقے کی نظر میں احسان علی اور RCP کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ ان تمام مصنوعی تقسیموں سے بالاتر ہو کر طبقاتی بنیادوں پر عوام کو منظم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ آج بھی اس عزم کو توڑنے کی بھرپور کوشش جاری ہے۔
اراضی اصلاحات اور معدنیات حقوق قوانین
اس دوران حکمران طبقہ گلگت بلتستان کی عوام پر مزید جابرانہ حملوں کی تیاری کر رہا تھا جس میں اراضی اصلاحات اور معدنیات قوانین کی منظوری شامل ہے۔ دوسری طرف موسم گرماء کے آغاز کے ساتھ AAC اور RCP کی سرگرمیاں نئی بلندیوں کو چھو رہی تھیں اور عوامی رابطہ کاری کا عمل تیز تر ہو رہا تھا۔ ان حالات میں حکمران طبقے نے منصوبہ بنایا کہ اراضی اصلاحات اور معدنیات کے بِل اپنی کٹھ پتلی گلگت بلتستان اسمبلی سے منظور کرا لیے جائیں۔
اراضی اصلاحات قانون کے تحت تمام غیر رجسٹرڈ اراضی ریاستی ملکیت بن چکی ہے تاکہ لوٹ مار اور استحصال کا نیا بازار گرم ہو جبکہ ان زمینوں پر سینکڑوں سالوں سے آباد عوام کو بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح معدنیات قانون کے تحت تمام معدنیات ریاست کی ملکیت بن چکی ہیں جبکہ مقامی عوام کو نہ صرف حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے بلکہ بے لگام معدنیات کشی سے ماحولیات اور انسانی زندگی کی تباہی یقینی بنا دی جائے گی۔
ان حالات میں احسان علی اور عوامی ایکشن کمیٹی کے دیگر قائدین کو 15 مئی کو گرفتار کر لیا گیا تاکہ وہ اراضی اصلاحات قانون کی منظوری تک کوئی عوامی تحریک منظم نہ کر سکیں۔ ان گرفتاریوں کے بعد تمام سیاسی کارکنان اور سرگرمیوں پر شدید کریک ڈاؤن کا آغاز ہو گیا اور تمام ڈسٹرکٹ میں درجنوں دہشت گردی کے پرچے کاٹے جا چکے ہیں۔
ان گرفتاریوں پر احتجاج کرنے والے کارکنان کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ کئی نوجوان کارکنان کو پولیس نے شدید ٹارچر کا نشانہ بنایا ہے اور انہیں احسان علی اور عوامی ایکشن کمیٹی کے خلاف بیانات دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے کہ ان پر کسی بیرونی قوت سے فنڈ وصولی کا الزام لگا دیا جائے یا یہ کہا جائے کہ وہ انڈیا کی حمایت سے سماجی امن تباہ کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ لیکن شدید ٹارچر اور خاندانوں کو دھمکیوں کے باوجود حکمران اس طرح کا کوئی بیان حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
اسی طرح تمام گرفتار قائدین کے خاندانوں کو فون کالز اور دیگر طریقہ کار سے اس مسئلے پر کسی قسم کی سرگرمی کرنے پر گھمبیر نتائج کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ خوف و ہراس اور بدمعاشی کے اس ماحول میں گلگت بلتستان کی کٹھ پتلی اسمبلی میں اراضی اصلاحات قانون پیش کیا گیا جس پر ایک آدھ علامتی بات کرنے کے بعد اسے منظور کر لیا گیا۔
ان تمام اقدامات سے حکمران طبقے اور اس کے اداروں کے خلاف عوامی نفرت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ عوام میں شدید غم و غصہ اور بغاوت کی بے چینی پھیل رہی ہے، جو آنے والے وقت میں کسی ایک معمولی مسئلے پر بھی دھماکے سے پھٹ سکتے ہیں۔
احسان علی اور عوامی ایکشن کمیٹی کے دیگر قائدین پر مقدمہ انصاف کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق ہے جو گلگت بلتستان اور پاکستان کے عدالتی نظام کی حقیقی شکل کو ننگا کر رہا ہے۔ اس ملک میں عدلیہ نے ہمیشہ حکمرانوں کی سب سے شرمناک اور ننگی غلامی کی ہے۔ عدلیہ کی تاریخ امراء کی چاپلوسی اور غرباء پر شدید جبر سے بھری پڑی ہے۔ ضمانت کی اس درخواست میں بھی یہی بات واضح رہی۔ اعلیٰ عدلیہ سے بھی اسی قسم کی توقعات کی جا سکتی ہیں۔
نو آبادیاتی علاقہ
تمام انتظامیہ، عدلیہ اور کٹھ پتلی اسمبلی پاکستانی جرنیلوں کے ہاتھوں میں ہے اور تمام محکموں کو ان کا حکم بجا لانا فرض ہے۔ عام طور پر ایک فوجی افسر جس کا عہدہ سیکٹر کمانڈر ہوتا ہے، اس نو آبادیاتی علاقے کو پاکستان کے حکمران طبقے کے لیے منظم کرتا ہے۔
ان احکامات پر کوئی جج، مجسٹریٹ یا پولیس افسر چوں تک نہیں کر سکتا۔ انہیں آخری حرف تک حکم بجا لانا ہے۔ اسی طرح کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ، اسمبلی اور تمام قانون سازی فوجی افسران کے کنٹرول میں ہے۔ یہ افسران دیگر افسر شاہی، ججوں اور سیاست دانوں کے ساتھ مل کر بڑے کاروباریوں کی ملی بھگت سے اس خوبصورت اور وسائل سے مالا مال علاقے کی لوٹ مار، استحصال اور دیوہیکل کرپشن میں ملوث ہیں۔ اس دوران عام عوام شدید غربت، بیروزگاری اور مایوسی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
جنگلات کی تیز تر کٹائی اور لکڑی کی اسمگلنگ سے لے کر معدنیات کی لوٹ کھسوٹ اور چین کے ساتھ سرحدی تجارت تک، افسران اور حکمران طبقہ اس علاقے کو لوٹنے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہا ہے اور استحصال کو مسلسل بڑھانے کے لیے روز نئے طریقے ایجاد کر رہا ہے۔ اس لوٹ کھسوٹ کے خلاف جو آواز ابھرتی ہے اسے ریاست کی پوری قوت کے ساتھ کچل کر ملک دشمن اور قوم مخالف بنا دیا جاتا ہے۔
اس ساری صورتحال نے گلگت بلتستان کی پُر امن اور ماحولیات دوست عوام کو سیخ پا کر دیا ہے۔ وہ بار بار اس ظلم و جبر کے خلاف اٹھ رہے ہیں۔ کئی اثناء میں ان کے قائدین نے انہیں دھوکہ دیا ہے اور کئی مرتبہ حکمران طبقہ عوام کو فرقہ وارانہ یا دیگر مسائل کی بنیاد پر کامیابی سے تقسیم کر چکا ہے۔ لیکن اس مرتبہ انہوں نے ماضی کے تجربات سے سیکھا ہے اور ایک ایماندار اور لڑاکا قیادت موجود ہے جس پر مشکل ترین حالات میں بھی اعتماد کیا جا سکتا ہے۔
گلگت بلتستان ایک انتہائی خوبصورت علاقہ ہے جو پہاڑوں، جھیلوں، جنگلات یہاں تک کہ ایک ریگستان سے مالا مال ہے جہاں صدیوں سے لوگ آباد ہیں۔ یہ خطہ کئی ثقافتوں اور زبانوں کا خوبصورت گلدستہ ہے جو اپنے تنوع اور خوبصورتی میں لاثانی ہے۔
اس علاقے میں تین پہاڑی سلسلے ملتے ہیں جو اس علاقے کو اور بھی سحر انگیز بنا دیتے ہیں۔ ہمالیہ، قراقرم اور ہندو کش پہاڑی سلسلے کئی زبانوں اور ثقافتوں کا سرچشمہ ہیں اور ان کے پیچ و خم میں قبل از تاریخ انسانیت کے ارتقائی عمل کے کئی راز دفن ہیں۔ اس علاقے میں کئی پہاڑوں میں قبل از تاریخ فن پارے دریافت ہو چکے ہیں جنہیں سنبھالنا اور ان کی حفاظت کرنا انسانیت کا فرض ہے۔
بلتستان میں مرکزی زبان بلتی ہے جو چینی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ بلتستان کا سب سے بڑا شہر سکردو ہے جبکہ دنیا کی سب سے بڑی چوٹی K-2 بھی یہیں پر موجود ہے جسے عبور کرنے کی خواہش دلوں میں لیے پوری دنیا سے کوہ پیما اس علاقے کا رخ کرتے ہیں۔ اس علاقے کی مقامی عوام کو بھی کوہ پیمائی کا بہت شوق ہے اور انہوں نے کئی عالمی ریکارڈ بھی قائم کیے ہیں۔
گلگت کی مرکزی زبان شینا ہے جو انڈو آریان زبانوں سے تعلق رکھتی ہے۔ اگرچہ یہ شہر اس علاقے کا دارالحکومت ہے لیکن اس شہر میں کئی اور زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ یہ اس علاقے کا سب سے بڑا شہر ہے اور چین کے ساتھ سرحدی تجارت کا مرکز ہے۔
ہنزہ میں بوروشاسکی مرکزی زبان ہے جو پوری دنیا میں کسی زبانوں کے خاندان سے تعلق نہیں رکھتی اور انتہائی منفرد زبان ہے۔ لوریمر نے بوروشاسکی کے بارے میں لکھا ہے اور کچھ بہت خوبصورت لوک کہانیاں انگریزی میں ترجمہ کی ہیں جس سے اس علاقے کی خوبصورتی کا اور بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اس علاقے میں وخی سمیت اور بھی کئی زبانیں بولی جاتی ہیں۔
مختلف ثقافتوں کے دوراہے پر موجود یہاں کے عوام صدیوں سے پُر امن زندگی گزار رہے ہیں لیکن برطانوی سامراج سے لے کر موجودہ پاکستانی ریاست تک کی لوٹ مار ان لوگوں پر مسلسل حملے کر رہی ہے۔
استحصال کی شکار عوام
برطانوی سامراج کے تحت یہ علاقہ جابر کشمیری مہاراجہ کے زیر تسلط تھا جو یہاں کی عوام سے دیوہیکل ٹیکس وصولی کرتا تھا۔ برصغیر میں برطانوی سامراج کے خاتمے کے بعد کشمیر کا علاقہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان تنازعہ کا مرکز بن گیا۔
یہ دو حریف ریاستیں اس خطے میں تسلط کی جنگ آج بھی لڑ رہی ہیں اور دونوں کے اس خطے میں سامراجی عزائم موجود ہیں۔ ان ممالک نے اس مسئلے پر کئی جنگیں کی ہیں اور یہاں کی عوام کئی مرتبہ متاثر ہوئی ہے جس میں سب سے زیادہ قابل ذکر 1999ء کی کارگل جنگ ہے۔
اس خطے میں موجود سیاچن گلیشیئر دنیا کا بلند ترین میدان جنگ ہے، جہاں آج بھی انڈیا اور پاکستان کی افواج مد مقابل ہیں۔ اس صورتحال نے پورے خطے کی عوام کو شدید متاثر کر رکھا ہے۔ پورا علاقہ بھاری فوجی تعیناتی کے نتیجے میں ایک فوجی چھاؤنی بن چکا ہے جس میں زندگی کے ہر پہلو پر فوج کا کنٹرول ہے۔
حال میں چینی سامراج نے پاکستان میں چین پاکستان معاشی راہداری (CPEC) پلان کے تحت دیوہیکل سرمایہ کاری کی ہے جو چینی ریاست کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ ہے۔ اس پراجیکٹ کے تحت کئی نئے انفراسٹرکچر پراجیکٹ لانچ کیے گئے جس نے اس خطے کی ماحولیات کو بہت متاثر کیا ہے اور اس خطے کے وسائل کی لوٹ مار تیزی سے بڑھی ہے۔
اب امریکی سامراج بھی اس سارے مسئلے میں کود چکا ہے جس میں پاکستان اور ٹرمپ کے درمیان ایک نئی معدنیات معاہدے کا تذکرہ ہو رہا ہے جس سے اس علاقے کے وسائل کی لوٹ مار میں اور بھی اضافہ ہو گا۔
معدنیات کی لوٹ مار اور عالمی ماحولیاتی تبدیلی پورے خطے پر شدید اثر انداز ہو رہے ہیں۔ قطبین سے باہر دنیا میں سب سے زیادہ گلیشیئر اس علاقے میں موجود ہیں جنہیں ماحولیاتی تبدیلیاں تباہ و برباد کر رہی ہیں۔ 1990ء کی دہائی کے مقابلے میں آج یہ گلیشیئر کئی زیادہ گنا تیزی کے ساتھ پگھل رہے ہیں جس نے تودوں کی تباہی، پورے گاؤں برباد کرنے اور نئی جھیلیں بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
اسی طرح سیلاب اور دیگر متعلقہ مظاہر عوام کی روزمرہ زندگی پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ انفراسٹرکچر بہت پسماندہ ہے اور سردیوں میں بیس بیس گھنٹے بجلی موجود نہیں ہوتی۔ دو سال پہلے سکردو کے قریب شدید سردی سے کئی افراد ہلاک ہو گئے کیونکہ وہاں کوئی صحت کی سہولیات موجود نہیں تھیں۔ عام طور پر سب سے زیادہ گھمبیر مریضوں کو اسلام آباد کے ہسپتالوں میں بھیج دیا جاتا ہے جو کئی سو کلومیٹر دور ہے اور سڑک لینڈ سلائیڈوں کی وجہ سے بند رہتی ہے۔
اس صورتحال میں اس خطے کی عوام اس غربت اور لوٹ مار سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔ در حقیقت گلگت بلتستان سرکاری طور پر پاکستان کا حصہ نہیں ہے اور آئین پاکستان اور دیگر قوانین کا یہاں اطلاق نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اس خطے کا کوئی ایک نمائندہ پاکستانی پارلیمنٹ میں موجود نہیں ہے۔
یہ پاکستان کی ایک کالونی ہے جہاں پاکستانی قوانین کا نام نہاد ایگزیکٹیو احکامات کے تحت اطلاق ہوتا ہے۔اس لیے یہاں پاکستانی ریاست کے قومی جبر کے خلاف شدید جذبات موجود ہیں جبکہ خطے کی عوام کو قابو میں رکھنے کے لیے حکمران طبقے کا جبر مسلسل بڑھ رہا ہے۔
ان حالات میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے قائد اور انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کے ممبر احسان علی گلگت بلتستان کی عوام کے لیے ایک انقلابی راہ کی مشعل جلائے ہوئے ہیں جسے خطے کی عوام بہت سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔ گلگت بلتستان میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی ریاستی اداروں کی لوٹ مار کے خلاف آواز بلند کرنے کے ساتھ سوشلسٹ انقلاب کا پرچم بھی بلند کر رہی ہے کہ صرف انقلابی نظریات کے تحت ہی سامراجی قوتوں کی لوٹ مار اور استحصال سے آزادی حاصل کی جا سکتی ہے، اسی جدوجہد کے تحت معدنی وسائل اور قدرتی حسن سے مالا مال اس خطے کے عوام غربت اور مایوسی سے حقیقی آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی گلگت بلتستان میں ایک عام ہڑتال کی اپیل کر رہی ہے تاکہ سامراجی قوتوں کے خلاف خطے کی عوام کو متحد کیا جائے۔ ابھی سے یہاں سکول کے اساتذہ، سرحدی تجارت میں شامل تاجر، لائن محکمہ مزدور (عوامی سیکٹر کلرک اسٹاف) اور دیگر سیکٹر کے ملازمین ہڑتالیں اور احتجاج کر رہے ہیں۔ ان احتجاجوں کے قائدین نے بھی عوامی ایکشن کمیٹی کے قائدین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اس دوران دھمکیوں اور بدمعاشی کے باوجود عوامی ایکشن کمیٹی نے گلگت بلتستان کے تمام ڈسٹرکٹ میں احتجاج منظم کیے ہیں، ان میں سے کچھ میں خواتین نے بھی شرکت کی ہے۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی نے پروگرام پیش کیا ہے کہ ان تمام جدوجہدوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر ایک غیر معینہ مدت عام ہڑتال منظم کرنی چاہیے۔ اس کا مطلب پاکستان کے محنت کشوں سے بھی اپیل ہے کہ وہ اپنے مطالبات کے لیے ایک عام ہڑتال منظم کریں کیونکہ وہ بھی اسی حکمران طبقے کے شدید استحصال کا شکار ہیں۔
محنت کشوں کے لیے ایک ہی راہ ہے کہ وہ سرمایہ داری کا خاتمہ کرنے کے لیے آگے بڑھیں جس کے ذریعے تمام استحصال اور جبر کا خاتمہ کرتے ہوئے عوام کو قومی جبر، غربت، بیروزگاری، بھوک اور بیماری سے آزاد کرایا جا سکتا ہے۔
ایک سوشلسٹ مزدور ریاست کے تحت ہی گلگت بلتستان سمیت دیگر قومی جبر کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکتا ہے۔ محنت کش طبقہ بھی اس نظام کی غلامی سے آزاد ہو گا اور وسائل کو تمام انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے منظم کرے گا۔
یہ وہ پروگرام اور نظریہ ہے جس نے حکمران طبقے کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں اور اس لیے اس نے عوامی ایکشن کمیٹی اور انقلابی کمیونسٹ پارٹی پر حملوں کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ حکمران طبقے نے پولیس کے ساتھ رجعتی مذہبی انتہاء پسندوں کو بھی بھرپور استعمال کیا ہے تاکہ مذہبی بنیادوں پر قائدین کی ساکھ مجروح کی جا سکے۔ اس کے ساتھ قبائلی اور دیگر مقامی مسائل کو بھی اسی کام کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ لیکن اب تک یہ تمام حربے ناکام رہے ہیں۔
تحریک متحد اور مضبوط ہے۔ قائدین کے حوصلے پہلے سے بھی زیادہ بلند ہیں اور وہ آخری حد تک لڑنے کو تیار ہیں۔ انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی یکجہتی مہم کو گلگت بلتستان میں شاندار پذیرائی مل رہی ہے۔ اس تحریک میں شامل کئی افراد نے انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کا شکریہ ادا کیا ہے کہ اس دور افتادہ خطے کے مسائل کو پوری دنیا میں اجاگر کرتے ہوئے عوامی ایکشن کمیٹی اور عوامی تحریک سے یکجہتی کی گئی ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ یہ ظلم و جبر عوام کو زیادہ دیر تک روک نہیں سکتا ہے۔ ایک مرتبہ اس خطے کے عوام متحرک ہو گئے تو یہاں کے پہاڑ بھی لرز اٹھیں گے۔
گلگت بلتستان کی تحریک پورے خطے کے لیے مشعل راہ ہے۔ جس طرح یہاں سے نکلنے والے دریا پورے پاکستان کو سیراب کرتے ہیں، اسی طرح گلگت بلتستان کی تحریک پورے خطے میں پھیل کر پورے نظام کی بنیادوں کو جھنجھوڑ ڈالے گی۔
ہمیں یقین ہے کہ مستقبل میں تاریخی واقعات رونما ہوں گے۔ پورے پاکستان اور گلگت بلتستان میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی اس مستقبل کی تیاریاں کر رہی ہے اور جتنے مرضی حملے ہو جائیں، یہ تیاری جاری رہے گی!
ہم لڑیں گے! ہم جیتیں گے!
محنت کش اتحاد، زندہ باد!
سرمایہ داری مردہ باد!
کمیونزم زندہ باد!