سوشلسٹ انقلاب کے بعد پاکستان میں صحت کا نظام کیسا ہوگا؟

|تحریر:آفتاب اشرف|

آج کرونا کی عالمی وبا پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ طرز پیداوار کی تاریخی متروکیت کو آشکار کر رہی ہے۔ آزاد منڈی کے ”جادوئی ہاتھ“ کی ناکامی امریکہ، برطانیہ، اٹلی اور سپین جیسے صف اول کے سرمایہ دارانہ ممالک میں روز بروز بڑھتی اموات، طبی سازو سامان کی شدید کمی اور ہیلتھ سسٹم کے نیم انہدام کی صورت میں اپنا اظہار کر رہی ہے۔ لیکن دوسری طرف چین اور ویت نام جیسے ممالک کی کرونا وبا کیخلاف کامیابی کو دنیا بھر کے طبی ماہرین سرا ہ رہے ہیں۔ اگرچہ، پچھلی دو دہائیوں میں یہ ممالک بھی مکمل طور پر سرمایہ داری کی طرف پلٹ چکے ہیں لیکن ابھی بھی ان میں سابقہ افسرشاہانہ منصوبہ بند معیشت کی کچھ مسخ شدہ باقیات (مثلاً فری یا سستی ہیلتھ کئیر وغیرہ) اور معیشت میں بڑے پیمانے پر ریاستی مداخلت موجود ہے اور منڈی کے نام نہاد جادوئی ہاتھ کی بجائے یہ وہ عناصر ہیں جنہوں نے ان ممالک کو کرونا وبا پر قابو پانے کے قابل بنایا۔ اسی طرح ایک چھوٹے سے جزیرے کیوبا، جو کئی لبرل ردِ اصلاحات کے باوجود ابھی تک معیاری اعتبار سے ایک مسخ شدہ مزدور ریاست اور منصوبہ بند معیشت ہے، کی کرونا وبا کیخلاف کارکردگی برطانیہ، اٹلی اور یہاں تک کہ امریکہ جیسی دیو ہیکل سرمایہ دارانہ معیشتوں سے بہتر ہے۔ ایسے میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان جیسا پسماندہ سرمایہ دارانہ ملک جس کی کم از کم40 فیصد آبادی غربت کی انتہائی لکیر (ایک ڈالر یومیہ فی کس) اور کم از کم75 فیصد آبادی غربت کی عالمی لکیر (دو ڈالر یومیہ فی کس) سے نیچے رہتی ہے اور جہاں صحت عامہ کا مسئلہ سرمایہ دار حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کی ترجیحات کی لسٹ میں کبھی شامل ہی نہیں رہا، وہاں کرونا وبا کیا قیامت ڈھا سکتی ہے۔

انہی تمام وجوہات کی بدولت اس وقت پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام اور خصوصاً منڈی کے میکینزم کی ناکامی، نااہلی اور عوام دشمنی کے متعلق ایک بحث چھڑ چکی ہے۔ اسی لئے مارکس وادیوں کا فریضہ ہے کہ وہ عوام کے سامنے ایک ٹھوس خاکہ پیش کریں کہ اگر ایک صحت مند مزدور ریاست اور محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں چلنے والی منصوبہ بند معیشت موجود ہو تو اس وبا کیخلاف جنگ کتنے مؤثر انداز میں لڑی جا سکتی ہے۔ بلاشبہ اس خاکہ بندی کا آغاز تو ایک عالمی سوشلسٹ سماج کے حوالے سے ہونا چاہیے کیونکہ کسی اندھے کو بھی نظر آ رہا ہے کہ قومی ریاست کی فرسودہ حد بندیاں کس طرح کرونا کیخلاف جنگ کو مشکل تر بنا رہی ہیں۔ اس کی ایک مثال یہاں سے لی جا سکتی ہے کہ جب چین کے ہسپتالوں میں وبا کی وجہ سے جگہ نہیں تھی تو امریکہ اور یورپ کے ہسپتال خالی پڑے تھے اور آج جب چین کے ہسپتال خالی ہیں تو امریکہ کے ہسپتالوں میں مریضوں کو فرش پر لٹایا جا رہا ہے۔ اسی طرح دنیا کی بے شمار بڑی نجی دوا ساز کمپنیاں کرونا کیخلاف ویکسین تیار کرنے کی دوڑ میں ہیں لیکن چونکہ اس کا مقصد انسانی بھلائی نہیں بلکہ منافع خوری ہے، لہٰذا یہ تمام ریسرچ ایک دوسرے سے خفیہ رکھی جا رہی ہے جس کا نتیجہ تجربات کی بے فائدہ تکرار، وسائل کے ضیاع اور ویکسین کی تیاری میں بلا ضرورت تاخیر کی صورت میں نکل رہا ہے۔

لیکن یہاں ہمارا موضوعِ بحث چونکہ پاکستان ہے، لہٰذا ہم اپنی بحث کو زیادہ تر اسی نکتے پر مرکوز رکھیں گے کہ اگر پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام کی بجائے سوشلسٹ نظام ہوتا اور نجی ملکیت کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام بینکوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور تمام صنعتوں سمیت معیشت کے کلیدی شعبوں کو اجتماعی ملکیت میں لیتے ہوئے ایک انقلاب کے ذریعے صحت مند مزدور ریاست قائم ہوتی اور یہاں منڈی کی معیشت کے بجائے ایک منصوبہ بند معیشت ہوتی تو یہاں کا نظام صحت کیسا ہوتا اور یہ کرونا کی حالیہ وبا کا مقابلہ کیسے کرتا۔

سوشلسٹ پاکستان میں صحت کے لئے وسائل کہاں سے آئیں گے؟

ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ہم سائنسی بنیادوں پر ایک سوشلسٹ پاکستان میں نظام صحت کا جتنا بھی منطقی خاکہ کیوں نہ پیش کریں، سرمایہ داروں کے ماؤتھ پیس اور درمیانے طبقے کے عوام دشمن دانشور سب سے پہلا سوال یہ اٹھائیں گے کہ اس سب کے لئے وسائل کہاں سے آئیں گے۔ اسی لئے سب سے پہلے ان نام نہاد پڑھے لکھے خواتین و حضرات کے اس سوال کا شافی جواب دینا ضروری ہے۔ درحقیقت، اس ملک میں وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے اور ابھی بھی یہاں کا محنت کش طبقہ اپنا خون پسینہ ایک کر کے بے تحاشا دولت پیدا کرتا ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے تحت چونکہ ذرائع پیداوار، مالیاتی نظام، زرعی زمین کا ایک بڑا حصہ اور قدرتی وسائل مٹھی بھر ملکی و غیر ملکی سرمایہ داروں کی نجی ملکیت میں ہیں لہٰذا محنت کشوں کی پیدا کردہ تمام تر دولت محض چند ہاتھوں میں سمٹ جاتی ہے اور انہیں اجرت کے نام پر محض اتنا ملتا ہے کہ وہ بمشکل جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھ سکیں۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے جب یہاں کا محنت کش طبقہ تمام بڑی فیکٹریوں، کارخانوں، کمپنیوں، بینکوں، بڑی زرعی ملکیتوں، بڑے نجی اثاثوں، ہول سیل ٹریڈاور قدرتی وسائل کو اپنی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لیتے ہوئے ایک منصوبہ بند معیشت کی تعمیر کا آغاز کرے گا تو چند ہی مہینوں میں پورے سماج کی کایا پلٹنے کے لئے درکار وسائل کی کوئی کمی نہیں ہو گی۔

تمام سامراجی قرضوں کو ضبط کرتے ہوئے وسائل کا رخ عوام کی فلاح کی طرف موڑا جائے گا۔

اسی طرح، ایک سوشلسٹ انقلاب کے بعدآئی ایم ایف، ورلڈ بینک، اے ڈی بی جیسے عالمی مالیاتی اداروں اور امریکہ، چین اور سعودی عرب وغیرہ سے حاصل کردہ تمام سامراجی قرضے بھی ضبط کر لئے جائیں گے کیونکہ نہ تو یہ قرضے پاکستان کے محنت کش طبقے نے لیے ہیں اور نہ ہی ان پر خرچ ہوئے ہیں، مزید برآں ان سودی قرضوں کے اصل زر سے کہیں زیادہ رقم پہلے ہی پاکستان کے محنت کشوں کی ہڈیوں سے نچوڑ کر ان سامراجیوں کودی جا چکی ہے لیکن ان کی نوعیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ ان قرضوں کے شکار ممالک ’ڈیٹ ٹریپ‘ میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ مزدور ریاست کے سیاسی، انتظامی و دفاعی ڈھانچے اور منصوبہ بند معیشت کا کنٹرول محنت کشوں، چھوٹے کسانوں، سپاہیوں اور طلبہ کے منتخب نمائندوں پر مبنی کمیٹیوں (سوویتوں) کے پاس ہو گا۔ ان منتخب نمائندوں کو مناسب کارکردگی نہ دکھانے پر کسی بھی وقت ان کا حلقہ انتخاب واپس بلا سکے گا۔ اسی طرح، ایک مزدور ریاست کے دفاع کا فریضہ سوشلسٹ نظریات سے آراستہ ایک نوتشکیل شدہ انقلابی فوج ادا کرے گی جس میں افسروں کا انتخاب سپاہیوں کی کمیٹیوں کے ذریعے ہو گا اور یکساں سروس دورانیہ رکھنے والے سپاہیوں اور افسروں کی تنخواہیں بھی یکساں ہوں گی۔ اس فوج کو مسلح مزدور ملیشیا کی سپورٹ بھی حاصل ہو گی، مزید برآں تمام بالغ آبادی بھی فوجی تربیت یافتہ ہو گی۔ اس طرح نہ تو کوئی فوجی اشرافیہ ہوگی اور نہ ہی دفاع کے نام پر اس کی کوئی لوٹ مار، کاروباری سرگرمیاں اور عیاشیاں لیکن کہیں کم فوجی اخراجات کے باوجود مزدور ریاست کے دفاع میں بھی کوئی کسر نہیں رہے گی۔ ایک مزدور ریاست میں عوام سے بالا موجود ایک بورژوا طرز کی افسر شاہی، پولیس فورس اور عدلیہ کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی۔ مزید برآں، تما م ریاستی ذمہ داران کو عوامی کمیٹیوں (سوویتوں) کے ذریعے منتخب کیا جائے گا اور سوویتوں کے پاس کسی بھی وقت انہیں واپس بلانے کا اختیار بھی ہو گا۔ اسی طرح، تمام تر ریاستی وانتظامی ذمہ داران کی تنخواہیں اور مراعات بھی کسی ہنر مند مزدور جتنی ہی ہوں گی۔

مندرجہ بالا تمام اقدامات کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ اس ملک کا محنت کش طبقہ جو بھی دولت پیدا کرے گا اس کا ایک بڑا حصہ، لازمی انتظامی و دفاعی اخراجات اور اجرتوں کی کٹوتی کے بعد، واپس پورے سماج کی تعمیر و ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے خرچ ہو گا۔ اگر ہم اس حوالے سے سکہ رائج الوقت میں ایک خام سا عددی تخمینہ لگانے کی کوشش کریں توپتا چلتا ہے کہ صرف رواں مالی سال میں ہی ریاست پاکستان نے محنت کش عوام کی ہڈیوں سے نچوڑے گئے 3500 ارب روپے بیرونی وداخلی قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی اور 1800 ارب روپے فوجی اخراجات کے لئے مختص کیے ہیں۔ سرمایہ دار طبقے کو حاصل 1200 ارب روپے کی سالانہ ٹیکس چھوٹ اور سبسڈیاں اس کے علاوہ ہیں۔ اور یہ لوٹ مار صرف رواں مالی سال کی ہی نہیں بلکہ پچھلے 73سالوں کی کہانی ہے۔ اسی طرح، 17-2016ء کی رپورٹس کے مطابق ملک کے صرف دو بڑے نجی بینکوں (ایچ بی ایل،یو بی ایل) اور صرف ایک نجی کمپنی (بحریہ ٹاؤن) کے مجموعی ڈکلئیرڈ اثاثے (اصل تو یقینا کہیں زیادہ ہوں گے) تقریباً 50ارب ڈالر کے تھے۔ اسی عرصے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی فوجی اشرافیہ کی ٹیکس فری کاروباری سلطنت (فوجی فاؤنڈیشن، عسکری ویلفئیر ٹرسٹ، شاہین فاؤنڈیشن،بحریہ فاؤنڈیشن، رئیل اسٹیٹ وغیرہ)کی مالیت بھی کم از کم50ارب ڈالر تھی۔ یعنی پاکستانی روپے میں صرف ان تمام مالی، صنعتی ودیگر اثاثوں کی مالیت ہی لگ بھگ17000 ارب بنتی ہے۔ اب ذرا ایک طرف چند ہاتھوں میں مرکوز دولت کے ان انباروں کو دیکھیں اور دوسری طرف یہ حقیقت مد نظر رکھیں کہ آغا خان کراچی جیسے ایک جد ید ترین ہسپتال کی تعمیر پر زیادہ سے زیادہ15ارب روپے لاگت آتی ہے تو بخوبی سمجھ آ جاتا ہے کہ ایک سوشلسٹ پاکستان کے پاس اپنے تمام شہریوں کو علاج معالجے کی مفت اور معیاری سہولیات فراہم کرنے کے لئے وسائل کی کوئی کمی نہیں ہو گی۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ایک سوشلسٹ پاکستان کا نظام صحت کیسا ہو گا اور یہ کرونا وبا کا کیسے مقابلہ کرے گا۔

انسداد، علاج سے بہتر ہے!

پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 87 فیصد بچے غربت اور خوراک کی کمی یا شدید غیر متوازن غذا کے باعث نارمل نشو نما نہیں کر پا رہے۔ 40 فیصد تو ایسے ہیں جو ”سٹنٹڈ گروتھ“ کا شکار ہیں

سرمایہ دارانہ نظام، جس میں نجی دوا ساز کمپنیوں، انشورنس کمپنیوں اور ہسپتالوں کے منافعوں کو صحتِ عامہ پر ترجیح حاصل ہوتی ہے، کے برعکس ایک سوشلسٹ سماج کے نظامِ صحت کا نعرہ ”انسداد، علاج سے بہتر ہے“ ہو گا۔ اگر ہم پاکستان کے حوالے سے بات کریں تو 2018ء میں یونیسیف اور آغا خان یونیورسٹی کے تعاون سے شائع ہونے والی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 87 فیصد بچے غربت اور خوراک کی کمی یا شدید غیر متوازن غذا کے باعث نارمل نشو نما نہیں کر پا رہے۔ 40 فیصد تو ایسے ہیں جو ”سٹنٹڈ گروتھ“ کا شکار ہیں یعنی عمر کے لحاظ سے قد، وزن اورذہنی نشونما میں بہت پیچھے رہ چکے ہیں۔ اسی طرح، نوعمر بچیوں میں سے 57 فیصد اور ماں بننے کی عمر میں موجود لڑکیوں اور خواتین میں سے 43 فیصدخون کی کمی کا شکار ہیں۔ کم از کم 33 فیصد یعنی ہر تین میں سے ایک خاندان سادہ خوراک کی بھی کمی کا شکار ہے اور 56 فیصد گھروں میں استعمال ہونے والا پینے کا پانی انتہائی مضر صحت جراثیموں سے آلودہ ہے۔ اس ساری صورتحال کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ جسمانی وذہنی اعتبار سے کمزور ہے اور نتیجتاً اس کی قوتِ مدافعت بھی بہت کم ہے۔ رہی سہی کسر مناسب رہائشی سہولیات نہ ہونے کے سبب ہر شہر میں میلوں تک پھیلی ہوئی جھونپڑ پٹیوں اور کچی آبادیوں، رہائشی اوور کراؤڈنگ، سیوریج کے انتہائی تباہ حال نظام، منشیات کے استعمال اور ماحولیاتی آلودگی نے پوری کر دی ہے۔ ان سب حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور یہ غریب آبادی نہ صرف ملیریا، اسہال، ہیضہ، نمونیہ، ٹی بی اور یرقان جیسی بیماریوں کا شکار رہتی ہے بلکہ ان میں کرونا سمیت کسی بھی وبائی مرض کے پھیلنے کا امکان بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔

لیکن ایک سوشلسٹ تبدیلی کے بعد یہاں یہ سب کچھ نہیں ہو گاکیونکہ اس میں غربت، بیروزگاری اوربھوک ننگ نہیں ہو گی۔ کوئی بچہ اور کوئی خاندان خوراک کی کمی کا شکار نہیں ہو گا، سٹنٹڈ گروتھ جیسے بھیانک مظاہر ندارد ہوں گے، بچیوں اور ماؤں کے چہروں پر لالی ہو گی۔ خوشحالی اور شرحِ تعلیم 100فیصد ہونے کی وجہ سے ہر شخص صحت کے اصولوں کی پیروی کرے گا۔ منشیات، سگریٹ سازی اور فاسٹ فوڈ جیسے مضر صحت عوامل پر سخت پابندی ہو گی۔ پینے کا صاف پانی ہر ایک کو میسر ہوگا۔ ہر خاندان کو مناسب رہائش مہیا کرنا بھی مزدور ریاست کی ذمہ داری ہو گی۔ اسی طرح بچوں اور نوجوانوں کی بھر پور جسمانی و ذہنی نشو نما کے لئے کھیل کے میدانوں،جمنیزیمز، اسٹیڈیمز، پارکس، لائبریریوں، تھیٹرز اور سینما گھروں کی کوئی کمی نہیں ہو گی۔ نہ صرف بجلی مفت فراہم کی جائے گی بلکہ لوڈ شیڈنگ کا بھی کوئی تصور نہیں ہو گا۔ ہر گھر میں بجلی سے چلنے والا ہیٹنگ اور کولنگ سسٹم ہو گا۔گرمیوں کے موسم میں ہر گھر میں اے سی چلے گا اور کوئی شخص بھی اپنے پت اور پھوڑوں زدہ جسم کو خارش کر کر کے کھرچنے پر مجبور نہیں ہو گا،اسی طرح سردیوں میں کوئی بھی ٹھٹھرنے کی اذیت نہیں سہے گا۔

مزید برآں، یہ سب کچھ کوئی صدیوں میں نہیں ہو گا بلکہ منصوبہ بند معیشت میں فزیکل و سوشل انفراسٹرکچر کی تیز ترین ہمہ جہت تعمیر کے ذریعے یہ سب چند سالوں میں حاصل کر لیا جائے گا۔ اس مقصد کے لئے نئے پلانڈ شہر بسانے سے لے کر پن بجلی کے منصوبوں، پانی اور سیوریج کی پائپ لائنوں، ہر سطح کے تعلیمی اداروں کی تعمیر اور جدید اجتماعی کاشتکاری کے فروغ اور تیز و ہمہ جہت صنعتکاری تک سب کچھ کیا جائے گا۔ سرمایہ داری کے برعکس ایک منصوبہ بند معیشت میں ماحول کو منافعوں کی بھینٹ چڑھانے کی کوئی وجہ نہیں ہو گی اور نتیجتاً یہ تمام ترقی نہایت ماحول دوست ہو گی۔ مزید برآں، ذاتی و نجی ٹرانسپورٹ کے بتدریج خاتمے، ماس پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کے قیام اور تیزمنصوبہ بند شجر کاری کے ذریعے ماضی میں ماحول کو پہنچنے والے تمام نقصان کا بھی بھر پور ازالہ کیا جائے گا۔ غربت اور بھوک ننگ کا مکمل خاتمہ، جسمانی صحت مندی، مناسب رہائش، محفوظ روزگار، جدید سائنسی تعلیم، اعلیٰ ثقافت اور آلودگی سے پاک ماحول کے عوام کی ذہنی صحت پر بھی نہایت مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور نفسیاتی بیماریوں میں تیز ترین کمی ہو گی۔ ملک کے مختلف علاقوں میں سرمایہ داری کے تحت ہونے والی ناہموار ترقی کی بدولت پیدا ہونے والے تفاوت کو ختم کرنا بھی مزدور ریاست کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہو گا تا کہ سوشلسٹ ریاست کی پوری آبادی یکساں طور پر ایک صحت مند زندگی سے لطف اندوز ہو سکے۔

سوشلسٹ نظام میں صحت کا انفراسٹرکچر

ملک میں ہر سال ساڑھے 4 لاکھ بچے ملیریا، نمونیااور اسہال جیسی انتہائی قابل علاج بیماریوں کے باعث جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ سالانہ 50 ہزار عورتیں ایک نئی زندگی کو جنم دیتے ہوئے زچگی کی پیچیدگیوں کے باعث جان ہار جاتی ہیں

پاکستان کی موجودہ صورتحال کاالمیہ یہ ہے کہ ایک طرف غربت، بھوک ننگ، بیروزگاری، بے گھری اور تباہ حال سوشل و فزیکل انفراسٹرکچر کی وجہ سے سماج پر ”بیماریوں کا بوجھ“ بہت زیادہ ہے تو دوسری طرف سرکاری سطح پر صحت پر ہونے والے اخراجات جی ڈی پی کے بمشکل 1 فیصد کے برابر ہیں حالانکہ عالمی ادارہئ صحت(WHO) جیسے سرمایہ دارانہ نقطہ نظر رکھنے والے ادارے کے نزدیک بھی انہیں جی ڈی پی کے کم از کم 6.5 فیصد کے برابر ہونا چاہئے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تقریباً 22کروڑ کی آبادی کے لئے سرکاری شعبے میں صرف 6ہزار بنیادی مراکز صحت، 950سیکنڈری کئیر ہسپتال اور صرف 45 ٹرشری کئیرہسپتال (بڑے سپیشلائزڈ ہسپتال) ہیں۔ صحت کی عوامی سہولیات کی قلت کا یہ عالم ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں 2 ہزار افراد کے لئے ایک بستر دستیاب ہے۔ تکنیکی سہولیات کا اتنا فقدان ہے کہ کرونا کی حالیہ وبا کے دوران انکشاف ہوا کہ پورے ملک کے سرکاری ہسپتالوں میں کل ملا کر بمشکل 2ہزاروینٹی لیٹرز موجود ہیں اور ان کی بھی ایک بڑی تعداد مسلسل استعمال کی وجہ سے خراب پڑی ہے۔ ہیلتھ سٹاف کی شارٹیج اتنی زیادہ ہے کہ 15سو افراد کے لئے صرف ایک ڈاکٹر دستیاب ہے جبکہ نرسنگ اور پیرا میڈیکل سٹاف کی قلت کی صورتحال اس سے بھی زیادہ گھمبیر ہے۔ سماج پر بیماریوں کے زبردست بوجھ اور سرکاری شعبہ صحت کی اس تباہ حالی کے مابین تضاد کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں ہر سال ساڑھے 4 لاکھ بچے ملیریا، نمونیااور اسہال جیسی انتہائی قابل علاج بیماریوں کے باعث جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ سالانہ 50 ہزار عورتیں ایک نئی زندگی کو جنم دیتے ہوئے زچگی کی پیچیدگیوں کے باعث جان ہار جاتی ہیں جبکہ اتنی ہی تعداد میں عورتیں ہر سال صرف چھاتی کے سرطان کے باعث بے وقت موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ اسی طرح، ہر سال 30 ہزار سے زائد افراد دگرگوں انفرا سٹرکچر کی وجہ سے سڑکوں پر ہونے والے حادثات میں جان ہار دیتے ہیں، حالانکہ ان کی ایک بڑی تعداد کو بر وقت اور معیاری طبی امداد کی فراہمی سے بچایا جا سکتا ہے۔ اور واضح رہے کہ یہ سب کچھ کوئی قومی المیہ نہیں بلکہ ایک طبقاتی مسئلہ ہے کیونکہ بیماریوں کے بوجھ کا ایک بڑا حصہ غریب محنت کش عوام کے کندھوں پر لدا ہو اہے اور اسی طرح صحت کی مفت و معیاری سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے زندگی ہارنے والے افراد کی ایک بھاری ترین اکثریت بھی محنت کش طبقے سے ہی تعلق رکھتی ہے۔

لیکن ایک سوشلسٹ نظام میں یہ سب صورتحال ہر گز نہیں ہو گی کیونکہ اس میں صحت عامہ مزدور ریاست کی اولین ترجیح ہو گی اور ہر شخص کو مفت و معیاری طبی سہولیات کی بروقت اور وافر فراہمی ریاست کا بنیادی فریضہ ہو گا۔ ایسے میں ایک طرف تو پہلے زیر بحث لائے گئے اقدامات کے نتیجے میں سماج پر ”بیماریوں کے بوجھ“ میں زبردست کمی واقع ہو گی اور دوسری طرف منصوبہ بند ی کے تحت تیز ترین بنیادوں پر پورے ملک میں صحت کے فزیکل انفراسٹرکچر اور اس سے منسلک صنعتوں کو تعمیر کیا جائے گا۔ لیکن صحت کے انفراسٹرکچر کی تعمیر کے معاملے میں بھی ”انسداد،علاج سے بہتر ہے“ کے نعرے کو ہی ایک بلند تر سطح پر لاگو کیا جائے گا۔ مثلاً اگر شوگر اور ہائی بلڈ پریشر جیسے امراض کو آغاز سے ہی اچھے کنٹرول میں رکھا جائے تو ہارٹ اٹیک، گردوں کا فیل ہونا اور فالج جیسے موذی امراض میں ویسے ہی بہت بڑے پیمانے پر کمی واقع ہو جائے گی۔ ایسے ہی اگر مائیں صحت مند ہوں گی تو غالب امکانات ہیں کہ پیدا ہونے والے بچے بھی صحت مند ہو گے۔ اسی طرح اگر عمر کے پہلے پانچ سالوں میں بچوں کو ہونے والی کامن انفیکشنز کے دوران انہیں بروقت اور بہترین علاج معالجہ ملے تو وہ مستقبل کی بہت ساری طبی پیچیدگیوں سے بچ سکتے ہیں۔ پوری آبادی کی 100 فیصد ویکسینیشن بھی بہت ساری بیماریوں کو جڑ سے ہی ختم کر دے گی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ منصوبہ بند معیشت کے تحت پیچیدہ بیماریوں کے لئے بھی بڑی تعداد میں ایک سے ایک بڑھ کر بڑے سپیشلائزڈ ہسپتال بنائے جائیں گے لیکن اس سے بھی زیادہ فوکس پرائمری ہیلتھ کئیر یا صحت کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر ہو گا۔ ہر رہائشی کالونی، بلڈنگ یا بلاک کی اپنی جنرل پریکٹیشنرز، پیرا میڈکس اور نرسنگ سٹاف کی ٹیم ہو گی جو طے شدہ وقفوں پر خود گھر گھر جا کر لوگوں کا طبی معائنہ اور بنیادی علاج معالجہ کیا کرے گی، تمام رہائشیوں کا طبی ریکارڈ رکھے گی، ضرورت پڑنے پر ٹیسٹوں کے لئے سیمپلنگ کرے گی، ویکسینیشن کرے گی، لوگوں کو حفظان صحت کے اصولوں کے بارے میں بتائے گی اور ضرورت محسوس ہونے پر مزید علاج معالجے یا تشخیص کے لئے کسی بھی مریض کو متعلقہ بڑے ہسپتال کی طرف ریفر کرے گی۔ اسی طرح ہر چند رہائشی بلاکس یا بلڈنگز پر ایک بنیادی مرکز صحت ہو گا جو کہ بیسک میڈیسن و سرجری، زچہ بچہ، امراض اطفال اور دیگر عام بیماریوں اور بنیادی طبی مسائل کے علاج کے لئے تمام تر سہولیات سے آراستہ ہوگا۔ اس کے بعد تحصیل اور ڈسٹرکٹ لیول پر سیکنڈری کئیر ہسپتال ہوں گے جو تقریباً ہر قسم کے بنیادی سپیشلائزڈ علاج معالجے کی سہولیات سے آراستہ ہوں گے۔ اس کے بعد مختلف بیماریوں کے پیچیدہ کیسز کے علاج کے لئے جنرل ٹرشری کئیر یا بڑے سپیشلائزڈ ہسپتال ہوں گے۔ ٹرشری کئیر لیول پر امراض قلب، گردوں کے امراض، سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریوں،کینسر، امراض اطفال،امراض چشم اور دیگر امراض کے سب سپیشلٹی ہسپتال بھی موجود ہوں گے۔ تمام ہسپتالوں اور بنیادی مراکز صحت کے پاس جدید ایمبولینسوں کا فلیٹ ہو گا جبکہ ٹرشری کئیر ہسپتالوں کے پاس ائیر ایمبولینس سروس بھی ہو گی۔

لوکل ہیلتھ ٹیمز اور بنیادی مراکز صحت سے لے کر ٹرشری کئیر ہسپتالوں تک، صحت کا پورا نظام جہاں ایک طرف مقامی سوویتوں (جن میں طبی عملے کے منتخب نمائندے بھی شامل ہوں گے) کے زیر انتظام ہو گا تا کہ شعبہ صحت میں گراؤنڈ لیول پر محنت کش عوام کا جمہوری کنٹرول یقینی بنایا جا سکے وہیں دوسری طرف یہ سپریم سوویت (ملک کی مرکزی سوویت) اور مرکزی پلاننگ بیورو کے تحت کام کرنے والی نیشنل ہیلتھ کمیٹی کے ساتھ بھی منسلک ہو گا تا کہ پورے نظام پر بحیثیت مجموعی نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ پورے ملک سے ملنے والے عوامی فیڈ بیک کی بنیاد پر اگلے پانچ سالہ منصوبے میں شعبہ صحت کی بڑھوتری اور بہتری کے حوالے سے عمومی منصوبہ بندی کی جا سکے۔ واضح رہے کہ اس سوال کا کہ بنیادی مراکز صحت، سیکنڈری کئیر اور ٹرشری کئیر ہسپتالوں اور طبی عملے کی تعداد کا لوگوں کی تعداد کے ساتھ کیا تناسب ہو گا، ابھی کوئی لگا بندھا جواب نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اس بارے میں WHO سمیت جتنے بھی اداروں کے قواعد و ضوابط موجود ہیں وہ سب سرمایہ دارانہ نقطہ نظر رکھنے والے ادارے ہیں اور ناگزیر طور پر ان کے بنائے ہوئے قواعد و ضوابط میں سرمایہ دار طبقے اور ریاستی اشرافیہ کے مالی وسیاسی مفادات کا بھر پور خیال رکھا جاتا ہے۔ لیکن ہم یہ ضرور بتا سکتے ہیں کہ ایک مزدور ریاست میں کسی شخص کو مطلوبہ طبی سہولت کامیسر نہ ہو پانا ریاست کی ایک سنگین کوتاہی بلکہ جرم تصور ہو گا اور اسی بنیادی آئیڈیا کو مد نظر رکھتے ہوئے نظام صحت کا فزیکل انفراسٹرکچر تعمیر کیا جائے گا۔

ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر میڈیکل کالجز اورپیرا میڈیکل و نرسنگ کالجز قائم کئے جائیں گے جہاں باقی تمام تعلیمی اداروں کی طرح تعلیم بالکل مفت ہو گی، تا کہ طبی عملے کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔ تمام طبی عملے کو کسی ہنر مند مزدور کے برابر تنخواہیں اور مراعات دی جائیں گی اور باقی تمام محنت کشوں کی طرح انہیں بھی روزگار کا مکمل تحفظ حاصل ہو گا۔ اسی طرح، میڈیکل ریسرچ کے ادارے بھی قائم کئے جائے گے جو خاص طور پر اس خطے میں زیادہ پائی جانے والی بیماریوں کے حوالے سے طبی ریسرچ کو آگے بڑھائیں گے۔ پانچ سالہ منصوبوں کے تحت ہونے والی صنعتکاری میں مزدور ریاست کی جانب سے جدید دوا ساز فیکٹریاں اور دیگر طبی آلات و سامان بنانے والی فیکٹریاں بھی قائم کی جائیں گی۔ یقینا، میڈیکل اور فارما سوٹیکل ریسرچ اور جدید طبی آلات کی تیاری کے معاملے میں ایک ملک کے مادی و تکنیکی وسائل کے سہارے ایک خاص حد سے آگے بڑھنا ناممکن ہے اور باقی تمام شعبوں کی طرح اس شعبے میں بھی معیاری جست لینے کے لئے ایک عالمی سوشلسٹ سماج کا قیام ناگزیر ہے لیکن یہاں پرسوشلسٹ نظام کے قیام کے بعد ایک اولین ترجیح کے طور پر اس شعبے میں جہاں تک ہو سکا آگے بڑھنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔

سوشلسٹ پاکستان کی کرونا کیخلاف جنگ

جو دسیوں کھرب روپے کی رقم آج کا پاکستان بیل آؤٹ پیکجز، ٹیکس چھوٹوں اور سبسڈیوں کی شکل میں سرمایہ دار طبقے اور دفاعی بجٹ کے نام پر فوجی اشرافیہ کی جیب میں ڈال رہا ہے، یہ سب وسائل ایک سوشلسٹ پاکستان میں کرونا جیسی وبا کیخلاف ہنگامی لڑائی لڑنے کے کام آئیں گے۔

اگر پاکستان ایک صحت مند مزدور ریاست اور منصوبہ بند معیشت ہوتا تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ وسائل کے ساتھ بھی کرونا کیخلاف جنگ میں اس کی کارکردگی امریکہ اور برطانیہ جیسی سرمایہ دارانہ معیشتوں سے کہیں بہتر ہوتی اور وہ دنیا بھر سے بھیک مانگنے کی بجائے پوری دنیا کو اپنی خدمات مفت فراہم کرنے کی آفر کر رہا ہوتا۔ یقینی طور پر حفظان صحت کے اصولوں کا شعور رکھنے والی صحت مند آبادی اورمحنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں چلنے والا ایک بہترین ریاستی نظام صحت کرونا وبا کیخلاف کامیاب جنگ میں ایک اہم کردار ادا کرتے۔ لیکن ایک منصوبہ بند معیشت میں وبا کے دوران ضرورت پڑنے پر ایک پلانڈ طریقے سے چند دنوں میں ہی مزید وسائل کا رخ بھی کرونا کیخلاف جنگ کی طرف موڑا جا سکتا تھا۔ آج کے سرمایہ دارانہ پاکستان کے برعکس ایک سوشلسٹ پاکستان میں ایسا کرنے میں نہ تو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اے ڈی بی کی عوام دشمن معاشی شرائط اور سامراجی قرضے آڑے آئیں گے اور نہ ہی نجی بینکوں، صنعتکاروں، تاجروں اور ذخیرہ اندوزوں کی منافع خوری۔ اسی طرح، جو دسیوں کھرب روپے کی رقم آج کا پاکستان بیل آؤٹ پیکجز، ٹیکس چھوٹوں اور سبسڈیوں کی شکل میں سرمایہ دار طبقے اور دفاعی بجٹ کے نام پر فوجی اشرافیہ کی جیب میں ڈال رہا ہے، یہ سب وسائل ایک سوشلسٹ پاکستان میں کرونا جیسی وبا کیخلاف ہنگامی لڑائی لڑنے کے کام آئیں گے۔اسی طرح، ایک سوشلسٹ پاکستان میں نہ تو مختلف عمارتوں کو ہنگامی قرنطینہ مراکز میں تبدیل کرنے کے راستے میں نجی ملکیت آڑے آئے گی اور نہ ہی نجی دوا ساز کمپنیوں کی طرف سے ادویات کی من مانی قیمتوں جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح، اول تو منصوبہ بند معیشت میں چونکہ ہرامر ایک پیشگی منصوبہ بندی کے تحت کیا جاتا ہے لہٰذا سوشلسٹ پاکستان کو وینٹی لیٹرز، طبی عملے اور دیگر لازمی خدمات سرانجام دینے والے محنت کشوں کے لئے حفاظتی کٹس کی قلت اور ٹیسٹنگ کٹس کی عدم دستیابی جیسے مسائل کا سامنا کرنا ہی نہیں پڑے گا۔ لیکن اگر ہنگامی صورتحال کے باعث ایسا ہوتا بھی ہے تو اس کمی کو پورا کرنے کے لئے فوری طور پر اضافی وسائل مختص کر دیے جائیں گے۔ اگر وبا کے عالمگیر ہونے کی وجہ سے یہ سب سامان عالمی منڈی میں بھی نہیں ملتا تو یہ چیزیں کوئی سپر کمپیوٹر تو ہیں نہیں لہٰذا محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں چلنے والی ایک منصوبہ بند معیشت میں وہ لچک موجود ہو گی کہ فوری طور پر دیگر ملتی جلتی صنعتوں کو موڈیفائی کر کے اندورن ملک اس سازو سامان کی پیداوار کو بڑھایا جا سکے گا۔

ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی کرونا وبا کے بے تحاشا پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ سرمایہ دار طبقہ اپنے منافعوں پر ضرب پڑنے کے خوف سے لاک ڈاؤن کا شدید مخالف تھا اور نتیجتاً چین، اٹلی، برطانیہ اور امریکہ سمیت کسی ایک بھی سرمایہ دارانہ ملک میں بروقت لاک ڈاؤن نہ کیا جا سکا جس کا خمیازہ اب وبا کے زبردست پھیلاؤ اور ہزاروں انسانی جانوں کے ضیاع کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن نہ کرنے کے لئے حکومت پر سرمایہ داروں کا زبر دست دباؤ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں جب لاک ڈاؤن ہوا بھی تو وہ بہت حد تک برائے نام ہی تھا اور تیسرے ہفتے تک پہنچتے پہنچتے تو صرف میڈیا اور خبروں تک ہی محدود رہ گیا تھا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ کئی ممالک اور بالخصوص پاکستان میں سرمایہ دار طبقے نے لاک ڈاؤن کو عملاً ختم کرانے کے لئے محنت کش طبقے کی مشکلات اور بیروزگار دیہاڑی داروں میں پھیلتی بھوک افلاس کا خوب منافقانہ پرچار کیا اور اس حوالے سے جی بھر کر مگر مچھ کے آنسو بہائے حالانکہ دوسری طرف یہی سرمایہ دار ”مزدوروں کو اجرتوں کی ادائیگی“ کے نام پر حکومت سے کھربوں روپے کے معاشی ریلیف پیکج اور سستے قرضے بھی ڈکار رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی فیکٹریوں اور کمپنیوں میں دھڑا دھڑ ڈاؤن سائزنگ بھی کر رہے تھے۔ ظلم کی انتہا دیکھیے کہ نکالے جانے والے محنت کشوں کی ایک بھاری اکثریت کو پچھلے دو سے تین ماہ کی واجب الادا تنخواہوں تک کی ادائیگی نہیں کی گئی۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرتے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے محنت کش عوام کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہو ا لیکن ضروری ہے کہ ”محنت کشوں کی ہمدردی“ کی آڑ میں لاک ڈاؤن کھلوانے پر بضد سرمایہ دار وں کے طبقاتی کردار اور مفادات کو بے نقاب کیا جائے۔ مزید برآں، یہ حکومت و ریاست کا فریضہ تھا کہ وہ لاک ڈاؤن کے دوران محنت کش عوام کوعزت کے ساتھ گھر بٹھا کر روٹی کھلاتی لیکن سرمایہ داروں کی نمائندہ حکومتوں اور ریاستوں کے پاس سرمایہ دار طبقے کو بیل آؤٹس دینے کے لئے تو کھربوں کی رقم ہمیشہ موجود ہوتی ہے لیکن تمام دولت پیدا کرنے اور اپنی محنت سے سماج کو زندگانی بخشنے والے محنت کشوں پر ایک ٹکہ خرچ کرتے ہوئے بھی انہیں تکلیف ہوتی ہے۔ ان سطور کے تحریر کئے جانے تک پاکستان میں لاک ڈاؤن عملاً ختم کیا جا چکا ہے۔خاکم بدہن اگر اس کا نتیجہ وبا کے تباہ کن پھیلاؤ اور بھاری جانی نقصان کی صورت میں نکلا تو اس کی مکمل ذمہ دار ی اس عوام دشمن سرمایہ دارانہ نظام، اس کے حکمران طبقات اور اس کی آلہ کار ریاست پر عائد ہو گی۔

لیکن ایک سوشلسٹ سماج کو کرونا وبا کی روک تھام کے لئے ایک مؤثر لاک ڈاؤن کرنے میں کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ ایک مزدور ریاست میں چونکہ تمام معیشت محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں ہو گی اور اس کا مقصد منافع خوری کرنا نہیں بلکہ انسانوں کی ضروریات پوری کرنا ہو گا، لہٰذا لاک ڈاؤن کے دوران کسی قسم کی ڈاؤن سائزنگ، اجرتوں کی عدم ادائیگی اور بیروزگاری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مزید برآں، ضرورت پڑنے پرعوام کی اضافی مدد کے لئے وسائل کا رخ موڑنا بھی ایک منصوبہ بند معیشت کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو گا کیونکہ اس میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے کوئی عوام دشمن طبقات اور ان کے مفادات نہیں ہوں گے۔ اسی لئے ایک سوشلسٹ سماج وبا کے حالات میں عوام کو کسی قسم کی مشکل میں ڈالے بغیر ہفتوں کا نہیں بلکہ مہینوں کا لاک ڈاؤن بآسانی کر سکے گا۔ اس تمام عرصے میں صرف لازمی سروسز اور پیداوار جاری رہے گی لیکن اس کے لئے ان شعبوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کو مکمل اور معیاری حفاظتی کٹس فراہم کی جائیں گی اور بیمار پڑنے کی صورت میں ان کا بہترین علاج معالجہ کیا جائے گا۔ یہاں ہم بتاتے چلیں کہ 1920-30ء کی دہائیوں میں سٹالن ازم کی افسر شاہانہ جکڑبندی کے باوجود سوویت یونین نے منصوبہ بند معیشت کے بلبوتے پر ملک سے ملیریا، ٹائیفس اور طاعون جیسی موذی وباؤں کا کامیابی سے خاتمہ کیا تھا جبکہ دوسری طرف سرمایہ دارانہ دنیا اس وقت ایک بد ترین معاشی بحران سے گزر رہی تھی اور امریکہ جیسے ملک کی سڑکوں پر بیروزگار لوگ بھوک سے مر رہے تھے۔

یہ خواب پورا کیسے ہو گا؟

بلاشبہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے۔ یقینا پاکستان کا محنت کش طبقہ بھی اپنی زندگی اور جدوجہد کے عملی تجربات سے سیکھتے ہوئے لازمی نتائج اخذ کر رہا ہے۔ کرونا وبا کے دوران ریاست اور سرمایہ دار طبقے کا شدید ظالمانہ اور استحصالی رویہ بھی اس کے طبقاتی شعور کو ایک مہمیز دے گا۔ جلد ہی یہ محنت کشوں میں پنپنے والا یہ سب غصہ اور نفرت ایک کھلی بغاوت کی صورت میں پورے نظام اور اس کے حکمران طبقات کو چیلنج کرے گا۔ لیکن انقلاب کی کامیابی کے لئے صرف اتنا کافی نہیں۔ لازمی ہے کہ جب محنت کش طبقہ تحریک برپا کرے تو اس میں پہلے سے جڑیں رکھنے والی ایک مارکسی لیننی پارٹی موجود ہو جس کے پاس وہ درست نظریات، پروگرام، نعرے، حکمت عملی اور دلیر قیادت ہو جو محنت کش عوام کو سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کے پروگرام پر جیتتے ہوئے اس انقلاب کو پایہئ تکمیل تک پہنچائے تا کہ ایک ایسا غیر طبقاتی سماج تعمیر کیا جا سکے جہاں کسی انسان کو بھوک، بیروزگاری، لاعلاجی اور بے گھری جیسے الفاظ کے معانی بھی معلوم نہ ہوں۔

Comments are closed.