انڈونیشیا: انقلاب کے پہیے کو آگے کیسے بڑھایا جائے

|تحریر: بیما ویکاکاسانا، ترجمہ: عرفان بلوچ|

ہفتے بھر کے اندر، جو کچھ نیم باغیانہ خصائص کے حامل مظاہروں کی صورت شروع ہوا تھا، اب ایک کھلی انقلابی بغاوت میں بدل چکا ہے جس کے رکنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ یہ محض سرکاری عمارتوں اور پولیس تھانوں کو ہی نہیں مسمار کر رہا، بلکہ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ عوام کی اس غنودگی کی کیفیت کو بھی توڑ رہا ہے جس نے عوام کو زنجیروں میں جکڑ رکھا تھا۔ ایک انقلاب کا آغاز ہو چکا۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

لوئی سولہواں: ”کیا یہ بغاوت ہے؟“
لا روشفوکو: ”نہیں حضور۔ یہ انقلاب ہے۔“

پارلیمانی عمارتوں، سرکاری دفاتر اور سب سے بڑھ کر پولیس اسٹیشنوں کے جلنے کے مناظر نے میڈیا پہ طوفان برپا کر رکھا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ حیران کن لاکھوں مظاہرین کی جانب سے کی جانے والی لائیو نشریات ہیں، جو حقیقی معنوں میں اس لمحے کی انقلابی روح کو محفوظ کر رہی ہیں۔ یہ تصاویر 1998-99ء کے انقلابی دور کے مناظر کی یاد تازہ کرتی ہیں۔

پارلیمانی عمارت کو آگ لگانے کا پہلا واقعہ مکاسر (Makassar) میں پیش آیا، جب پولیس نے ایک 21 سالہ رائیڈ ڈرائیور، عفان کرنیوان، کو قتل کر دیا تھا۔ اس کے فوراً بعد تیگال، سولو، سوراکارتا، بانڈنگ اور مغربی نوسا ٹینگارا میں بھی ایسے ہی مناظر دیکھنے میں آئے۔ پیکالونگان میں یہ احتجاج ایک پرامن تقریب کے طور پر شروع ہوا، جہاں لوگوں نے عفان کرنیوان کے لیے دکھ کا اظہار کیا اور پھول چڑھائے۔ لیکن جیسے ہی عوام کا شدید غصہ پھٹا یہ اچانک ہی ایک بھڑکتی ہوئی آگ میں تبدیل ہو گیا۔

جوں جوں مظاہرے شدت اختیار کر رہے ہیں، ان کی فہرست روز بروز طویل ہوتی جا رہی ہے۔ جب ہم یہ سطریں لکھ رہے ہیں، عوام نے بریبیس، پیکالونگان، سیلاکپ اور کیدیری کو بھی اس فہرست میں شامل کر دیا ہے، ہم ان تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ قدم سے قدم ملانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو انقلاب کی اصل روح ہیں۔

سینکڑوں پولیس اسٹیشنوں کو لوٹ کر جلا دیا گیا ہے۔ پہلے چند دنوں میں مظاہرین کے ساتھ سختی برتنے والی پولیس اب تیزی سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ جب ان کا سامنا نوجوانوں سے ہوا تو انہوں نے اپنی درندگی کا مظاہرہ بڑی ”بہادری“ سے کیا۔ لیکن اب، جب محنت کش طبقے کی ایک وسیع پرت میدان میں آ چکی ہے اور ان پر غالب آ گئی ہے، تو وہ اچانک خود کونے میں لگ گئے ہیں اور بھاگ کھڑے ہوئے ہیں۔ کچھ شہروں میں تو وہ مکمل طور پر غائب ہو چکے ہیں۔

عوام کے بے قابو ہوتے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے، حکومت نے عفان کرنیوان کے قتل کے ذمہ دار افسران کی تحقیقات اور ان پر مقدمہ چلانے کا وعدہ کیا تھا۔ صدر پرابوو نے صورتحال کو پرسکون بنانے کی کوشش میں متاثرہ خاندان سے مل کر، انہیں گلے لگا کر اور 200 ملین روپے اور ایک گھر تحفے میں دے کر میڈیا پر ایک تماشا پیش کیا۔ مگر عفان کے والد نے کہا کہ اس تحفے سے ان کا غم کم نہیں ہوا: ”یہ کروڑوں روپے بھی میرے بیٹے کی جگہ نہیں لے سکتے۔“ یہی جذبات عوام میں بھی پائے جا رہے ہیں۔

آخرکار، سات پولیس افسران کو 20 دن کی خصوصی حراست کی ’سزا‘ سنائی گئی، جس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں جیل نہیں بھیجا جائے گا، بلکہ محض پولیس اسٹیشن میں رکھا جائے گا۔ یہ سزا ہائی اسکول میں دی جانے والی سزا کے برابر ہے۔ انصاف کا یہ مذاق عوام کے غصے کو مزید بھڑکا رہا ہے۔

پہلے چند دنوں میں مظاہرین کے ساتھ سختی برتنے والی پولیس اب تیزی سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔

ملک بھر کے چوک چوراہوں پہ لڑائی جاری ہونے کے باوجود، میڈیا نے اپنے کیمرے ان ملزمان کی عدالتی کاروائیوں پر مرکوز کر دیے، تاکہ اس تحریک کو یہ یقین دلایا جا سکے کہ انصاف فراہم کیا جا رہا ہے۔ لیکن جلد ہی یہ بات واضح ہو گئی کہ اس تھالی میں پروسہ ہوا کھانا نہ صرف ٹھنڈا اور باسی ہے بلکہ گل سڑ چکا ہے۔

پورے نظام سے عوام کی نفرت اب پارلیمنٹ کا رخ اختیار کر رہی ہے، جو سب سے نمایاں سیاسی ادارہ ہے اور جس کی سڑاند کا اس کے اراکین روزانہ بغیر کسی شرم کے مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہفتے کی رات، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک قابلِ نفرت رکنِ پارلیمنٹ احمد ساہرونی پر عوام نے حملہ کیا اور اسے لوٹ لیا گیا۔ براہِ راست نشر ہونے والی ویڈیوز میں اس کی قیمتی اشیاء کو لے جاتے ہوئے دکھایا گیا، جن میں چھ لاکھ ڈالر کی رچرڈ مِلے گھڑی بھی شامل تھی۔ اس سے قبل اس کا اشتعال انگیز اور متکبرانہ بیان، جس میں اس نے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کو ”زمین پر سب سے بڑے جاہل لوگ“ کہا تھا، اب اس کے گلے پڑ گیا ہے۔ ساہرونی خود عوام کے غصے سے بچنے کے لیے سنگاپور فرار ہو گیا ہے۔

اس خوف میں مبتلا کہ ساہرونی کا انجام کہیں اس کا اپنا مقدر نہ بن جائے، پارلیمنٹ کے ایک اور رذیل رکن، ایکو پیٹریو، جس کے بیانات بھی مظاہرین کے خلاف اشتعال انگیز رہے تھے، نے روتے ہوئے معافی کی ایک ویڈیو پوسٹ کی۔ لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ ایک تبصرے میں کہا گیا، ”یہ معافی صرف دکھاوے کے لیے ہے، اگلی باری اس کے گھر کی ہے۔“ اور ایسا ہی ہوا، چند ہی گھنٹوں میں اس کے گھر پر بھی عوام نے ہلہ بول دیا۔ اس کے فوراً بعد، ایک اور رکنِ پارلیمنٹ، اویہ کویا، کا گھر بھی اسی انجام کو پہنچا۔

جس وقت ہم یہ لکھ رہے ہیں، سیاستدانوں کے نفرت انگیز جتھے میں سے ایک اور کے پُرتعیش گھر پر چھاپہ مارا گیا ہے اور اسے لوٹ لیا گیا ہے، اس بار وزیر خزانہ سری مُولیانی کا گھر تھا، جو اس کفایت شعاری کے بجٹ کو تشکیل دینے والی ہے جس نے انڈونیشیا کے عوام کا گلا گھونٹ رکھا ہے۔ اب کوئی بھی عوام کے انتقام سے نہیں بچ سکتا۔

میڈیا اور حکومت نے مظاہرین کو پرتشدد لٹیروں اور انتشار پسندوں کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر ہم بھی اس لوٹ کی ’خالص‘ انقلاب کی اخلاقی ناکامیوں کے طور پر مذمت کریں تو یہ ہماری کوتاہی ہو گی۔ عوام کے نزدیک وہ محض ان بدعنوان سیاستدانوں کی ناجائز طور پر اکٹھی کی ہوئی دولت کو دوبارہ حاصل کر رہے ہیں۔

در حقیقت، بائیں بازو کے کچھ لوگوں نے مظاہرین سے مطالبہ کرنا شروع کر دیا ہے کہ وہ دوسرے شہریوں کے سامان کو لوٹنے سے گریز کریں، اس تنبیہ کے ساتھ کہ ہمیں وہ نہیں دہرانا چاہیے جو مئی 1998ء میں ہوا تھا، سوہارتو (Suharto) کا تختہ الٹنے والا انقلاب، جس میں فسادات اور لوٹ مار بھی شامل تھی۔ لیکن ایسی تجریدی اخلاقی تبلیغ بورژوا عوامی رائے کے دباؤ کے سامنے جھکنے کا نتیجہ ہے۔ حکومت اور اس کے میڈیا کی طرف سے اس لوٹ کی ہر مذمت پر، ہمیں ہزار گنا بلند آواز میں کہنا چاہیے: سب سے بڑے لٹیرے پارلیمنٹ میں، صدارتی محل میں اور ان کارپوریشنوں کے بورڈ رومز میں بیٹھے ہیں جن کے مفادات کی وفادارانہ خدمت یہ سیاست دان کرتے ہیں۔

پارلیمانی اراکین سے نفرت اس قدر شدید ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی براہ راست تحریک کا سامنا کرنے کی جرات نہیں کی، باوجود اس کے کہ انہوں نے اپنے لامتناہی پریس ریلیز اور سوشل میڈیا بیانات میں عوام کی حالت زار سننے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ بالکل درست ہے، کیونکہ اگر وہ عوام کے سامنے آئے تو عوام ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔ وہ جو کچھ بھی کہتے، وہ غلط ہوتا اور صورتحال کو مزید خراب کرتا۔ ماضی میں، حکومت کم از کم کسی حد تک مقبول پارلیمانی اراکین کو، جو عام طور پر انڈونیشین ڈیموکریٹک پارٹی آف سٹرگل (PDI-P) سے ہوں، مظاہرین کے ساتھ مکالمہ کرنے کے لیے بھیج سکتی تھی۔ مگر آج، یہ بھی ناممکن ہے۔

انقلاب کیا ہے اور ہم اس کے کس مرحلے پہ ہیں؟

ہم جس چیز کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ ایک انقلاب ہے، جو زندگی کے درخت کی تمام ہریالی کے ساتھ اپنی سرشت کے مطابق نمو پا رہا ہے۔ عوام نے اسے اسی طرح پہچانا ہے، جیسا کہ ان مظاہروں میں انقلاب کے نعرے، خاص طور پر نوجوانوں کی طرف سے بڑھتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں۔ جیسا کہ ٹراٹسکی نے کہا تھا، ایک انقلاب ”عوام کا اپنی قسمت پر حکمرانی کے میدان میں پوری قوت کے ساتھ داخل ہونا ہے“۔ یہ واقعی پوری قوت کے ساتھ مداخلت کا عمل ہے، اور یہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ہم 1998ء کے انقلاب کے بعد سے اس پیمانے کی کوئی عوامی تحریک دیکھ رہے ہیں۔

اس بغاوت نے حکومت کے تمام پہلے سے لگائے گئے اندازوں کو ہوا میں اڑا دیا ہے۔ اس لیے، حکومت کو اپنے معمول کے ہتھکنڈوں سے اس تحریک کو کچلنے میں مشکلات کا سامنا ہے، جیسا کہ اس نے حالیہ برسوں میں چھوٹی عوامی تحریکوں کے ساتھ کیا تھا، جیسے 2025ء میں انڈونیشیا گیلاپ (’ڈارک انڈونیشیا‘)، 2024ء میں پرنگاتن دارورات (’ہنگامی انتباہ‘)، یا 2019ء میں ریفارمیسی دیکوروپسی (’ریفارمیشن کو کرپٹ کیا جا رہا ہے‘)، اب یہ سب تحریکیں موجودہ تحریک کے مقابلے میں ماند نظر آتی ہیں۔

اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ بائیں بازو کے بہت سے لوگوں کو اس انقلابی تحریک کی طرف خود کو جوڑنے میں مشکلات کیوں پیش آ رہی ہیں۔ جب نوجوانوں نے بے ساختہ ”بوبارکان ڈی پی آر“ (”ایوان کے نمائندگان کو تحلیل کرو“) کا نعرہ بلند کیا، تو بہت سے لوگ شروع میں چونک گئے، ایک ایسا مطالبہ جسے انہوں نے انتہا پسند بائیں بازو کا نعرہ کہہ کر رد کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ، ”اگر ہم پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیں گے، تو اس کی جگہ کیا آئے گا؟“، ”کیا اس سے صدر کے لیے ڈکٹیٹر بننے کا راستہ نہیں کھل جائے گا؟“، ”پارلیمنٹ کو تحلیل کرنا ایک غیر منطقی مطالبہ ہے۔ ہمیں نئے انتخابات کا مطالبہ کرنا چاہیے“۔ اچانک، یہ بائیں بازو کے لوگ بالکل حکومت جیسی زبان بولنے لگے ہیں۔

جب کوئی انقلاب پھوٹ پڑتا ہے، تو ہم ہمیشہ نہ صحیح مگر اکثر، عوام کو ان کے رہنماؤں اور ان تجربہ کار کارکنوں سے کہیں زیادہ انقلابی پاتے ہیں جو چھوٹے پیمانے کی جدوجہد کے عادی ہوتے ہیں جو ان کے قابو میں ہوتی ہے۔ ایک بے قابو تحریک کا سامنا ہونے پر، جو کہ ایک انقلاب کی، خاص طور پر اس کے پہلے مرحلے کی، ایک خصوصیت ہے، یہ بائیں بازو کے کارکن خود کو جلد ہی اپنی گہرائی سے باہر پاتے ہیں۔

اس بغاوت نے حکومت کے تمام پہلے سے لگائے گئے اندازوں کو ہوا میں اڑا دیا ہے۔

لیکن عوام کے لیے ’پارلیمنٹ کو تحلیل کرو‘ کا نعرہ اس کرپٹ ادارے سے شدید عوامی نفرت کو ظاہر کرتا ہے، جس کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ اس نے ان کے لیے بدحالی کے سوا کچھ نہیں کیا۔ اسی مطالبے کے گرد تحریک یکجا ہوئی ہے اور مسلسل طاقت پکڑ رہی ہے، کیونکہ یہ تحریک جدوجہد کی بھٹی میں اس نعرے کو مسلسل آزما رہی ہے۔

مطالبات اور نعرے صرف قابلِ حصول اور قابلِ عمل اہداف کی فہرست نہیں ہوتے۔ ’تجربہ کار‘ کارکنوں اور ٹریڈ یونینز کی افسر شاہی کو یہ تربیت دی گئی ہے کہ وہ ان مطالبات کو وضع کریں جنہیں وہ ’معقول‘ سمجھتے ہیں، ایسے مطالبات جو وہ نسبتاً پُرامن دور میں، طاقت کے ایک سازگار توازن کو دیکھتے ہوئے، مالکان سے حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن انقلاب دراصل اسی پُرامن دور سے لگائی گئی ایک جست ہے، ایک تیز اور پُرتشدد جست، جو انقلاب کے سالماتی عمل کے ذریعے سطح کے نیچے طویل عرصے سے تیار ہو رہی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ جب عوام نے ’پارلیمنٹ کو تحلیل کرو‘ کا نعرہ پیش کیا، تو بائیں بازو کے لوگ، جو پُرامن دور کے اتنے عادی تھے کہ حقیقت میں انہوں نے انقلاب کے خیال پر کبھی غور ہی نہیں کیا تھا، وہ اپنا توازن کھو بیٹھے۔

انقلاب کسی ڈرامے کا کوئی ایکٹ نہیں ہے۔ عوام نے ابھی اپنی طاقت کو دریافت کیا ہے، جو انہیں خود بھی اتنا ہی حیران کر رہی ہے جتنا کہ وہ حکمران طبقے کو خوفزدہ کر رہی ہے۔ ہر بار جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ کتنے طاقتور ہیں، تو ان کی جرات مزید بڑھ جاتی ہے، جو بدلے میں محنت کش طبقے کی نئی پرتوں کو جدوجہد میں شامل ہونے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہ عمل پھر خود کو دہراتا ہے، ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ یہ اوپر کی جانب بڑھتا ہے اور نئی بلندیوں کو چھوتا ہے۔ ہر نئی لہر کے ساتھ، عوام کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کی طاقت ابھی بھی بہت وسیع ہے۔ نئی نسل نے پہلی بار، ان زنجیروں کو توڑ دیا ہے جنہوں نے طویل عرصے سے ان کے ذہنوں کو جکڑ رکھا تھا۔ پھر اس میں کوئی حیرانی نہیں کہ یہ نئی حاصل شدہ طاقت ایک شدید، دھماکہ خیز اور بے ہنگم انداز میں پھوٹ پڑی ہے۔ پھر بھی، اس کی قوت نے معاشرے کی پوری بنیاد کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اپنے عمل میں یہ ایک انقلاب ہے۔

ایک ہفتے سے زیادہ دن رات مظاہرے کرنے، پولیس اسٹیشنوں اور علاقائی پارلیمانی عمارتوں کو جلانے کے بعد، عوام یہ سیکھیں گے کہ صرف یہ کافی نہیں ہے۔ یہ اقدامات ان کی طاقت کا مظاہرہ کرنے اور حکمران طبقے کو یہ دکھانے کے لیے کافی ہو سکتے ہیں کہ وہ سنجیدہ ہیں، لیکن یہ ان کے حتمی مقصد، اپنی زندگیوں اور معاشرے کی بنیادی تبدیلی، کو حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔

اس حقیقت کو سمجھنے میں انہیں کتنا وقت لگے گا، یہ کئی عوامل پر منحصر ہو گا، خاص طور پر ان کی قیادت کے معیار پر۔ ایک اچھی قیادت کے ساتھ، ہم تحریک کو ضروری نتائج تک پہنچنے کے لیے درکار وقت کو کم کر سکتے ہیں۔ لہٰذا، ہم انقلابیوں کو ایسے مطالبات کو مہمیز دینی چاہیے جو ان کے شعور کے ساتھ ہم آہنگ ہوں اور اسے آگے بڑھائیں، ایسے مطالبات جو ان کے غصے سے نتھی ہوں اور اسے ضروری منظم سیاسی اظہار دینے کی کوشش کریں۔ لیکن کبھی بھی اس بات کو کم نہ سمجھیں کہ عوام تجربے سے کتنی جلدی سیکھ سکتے ہیں۔ صرف سات دنوں میں، انہوں نے دس سال کے پُر امن دور سے زیادہ سیکھا ہے۔

بائیں بازو کے وہ کمزور دل لوگ جو آج اس بات کا ماتم کر رہے ہیں کہ یہ انقلاب ناکام ہو سکتا ہے اور اس کا انجام خونی ہو سکتا ہے کیونکہ کوئی انقلابی قیادت نہیں ہے، اور اس بہانے تحریک سے الگ تھلگ رہتے ہیں، وہ ایسے احمق ہیں جو سو فیصد ضمانت کے ساتھ ایک ہموار انقلاب کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان کی یہ نام نہاد ’حقیقت پسندی‘ صرف ان کی اپنی مایوسی کا عکس ہے، ایک ایسی مایوسی جو اس وقت مکمل طور پر رجعتی بن جاتی ہے جب عوام پہلی بار پُرامید ہونے کے لیے ایک عظیم مقصد پا چکے ہوں اور اپنی تمام انقلابی قوت کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہوں۔

ایک کامل انقلاب کی ضمانت کوئی نہیں دے سکتا۔ ہم اس عمل میں مداخلت کریں گے جیسے جیسے وہ ہمارے سامنے کھلے گا۔ بائیں بازو کے بہت سے لوگوں کی پرانی عادات، جن میں چھوٹے احتجاج اور مظاہرے احتیاط سے تیار کردہ لاجسٹکس اور پیشگی شیڈول کے ساتھ منظم کیے جاتے تھے، اب ایک انقلاب کی زندہ حقیقت سے ٹکرا رہی ہیں جسے سیدھے سادے احتیاط و انتباہ کے خانوں میں نہیں رکھا جا سکتا۔

ایک کامل انقلاب کی ضمانت کوئی نہیں دے سکتا۔ ہم اس عمل میں مداخلت کریں گے جیسے جیسے وہ ہمارے سامنے کھلے گا۔

حکومت گاجر اور لاٹھی کی پالیسی کے ساتھ بغاوت کو روکنے کے لیے آسمان اور زمین کے قلابے ملا رہی ہے۔ پھر بھی وہ محتاط ہیں: اگر وہ بہت زیادہ مراعات دیتے ہیں، تو عوام مزید پراعتماد ہو سکتے ہیں اور مزید مطالبات کر سکتے ہیں؛ اگر وہ بہت کم دیتے ہیں، تو یہ عوام کو مزید مشتعل کر سکتا ہے۔

اب تک بہت سی تسلی بخش باتیں کی گئی ہیں۔ لیکن عوام کا گلا گھونٹنے والے تمام ٹیکسوں کی منسوخی، یا یہاں تک کہ عفان کرنیوان کے لیے انصاف کی فراہمی کے لحاظ سے کچھ بھی ٹھوس نہیں کیا گیا۔ درحقیقت، یہ شک ہے کہ کیا یہ مراعات انقلاب کی لہر کو روکنے کے لیے کافی ہوں گی، کیونکہ کرپٹ پارلیمنٹ کو ختم کرنے کا مطالبہ مزید مستحکم ہو چکا ہے۔ یقیناً، اتوار کے دن حکومت نے اعلان کیا کہ وہ پارلیمانی اراکین کے لیے الاؤنسز منسوخ کر رہی ہے، لیکن اس سے تحریک پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

اسی کے ساتھ، وہ جبر میں اضافہ کر رہے ہیں۔ حکومت نے بڑے شہروں اور منصوبہ بندی کے مقامات پر فوج تعینات کرنا شروع کر دی ہے۔ لیکن فوج کو استعمال کرنا الٹا بھی پڑ سکتا ہے، کیونکہ نیو آرڈر (New Order) فوجی حکومت کی یادیں عوام کے ذہنوں میں ابھی بھی تازہ ہیں۔

انڈونیشیا کا انقلاب ابھی شروع ہوا ہے۔ اس کے پہلے مرحلے کو آخری مرحلے سے جوڑنا ایک مہلک غلطی ہو گی، لیکن یہ بات ناقابل تردید ہے کہ اس کا آغاز ہو چکا ہے۔

تقریباً تین دن تک لگاتار مظاہروں کے بعد، اتوار کو اس تحریک میں ایک مختصر وقفہ آیا، جس میں صرف کچھ علاقوں میں معمولی جھڑپیں ہوئیں۔ لیکن یہ سوچنا غلط ہو گا کہ یہ جمود یا زوال کی علامت ہے۔ انقلاب، زندگی کی طرح، اپنی ایک سُر تال رکھتا ہے۔ عوام اب اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ کیا ہو چکا ہے، انہوں نے کیا حاصل کیا ہے اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ حکومت کا کیا ردعمل ہے۔ وہ اپنے ہی اعمال سے اسباق سیکھ رہے ہیں۔ درحقیقت، بہت سے بڑے شہروں میں اگلے دنوں کے لیے مظاہروں کی منصوبہ بندی پہلے ہی کی جا چکی ہے۔

محنت کش طبقے کا کردار

محنت کش عوام نے سڑکوں پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے باوجود، انہوں نے ذرائع پیداوار پر اپنی طاقت کے حوالے سے ایک محنت کش طبقے کے طور پر کوئی اجتماعی کاروائی نہیں کی۔ ایک بڑی ہڑتال، بلاشبہ، تحریک کا حتمی ہتھیار ہے جسے ابھی تک استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ اب تمام کوششیں ایک عام ہڑتال کے لیے کو متحرک کرنے کی طرف مرکوز ہونی چاہئیں۔

ٹریڈ یونین کے رہنما نہ صرف کسی بھی قسم کی قیادت فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں، بلکہ وہ فعال طور پر حکومت کے ساتھ بھی منسلک ہیں۔ اس طرح، بہت زیادہ امکان ہے کہ عام ہڑتال کی کال یونینوں کی طرف سے نہیں آئے گی۔ ایک طرف، ٹریڈ یونینیں محنت کش طبقے کے صرف ایک چھوٹے سے حصے کی نمائندگی کرتی ہیں۔ درحقیقت، گزشتہ 10 سالوں میں یونین کی رکنیت میں کمی آئی ہے، کیونکہ ان طبقاتی مفاہمت پسند رہنماؤں کی نااہل قیادت میں مزدور تحریک اپنی نچلی ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ نوجوان ان سے وسیع پیمانے پر نفرت کرتے ہیں۔

ایک بار جب محنت کش طبقے کی ممکنہ طاقت ایک بڑی ہڑتال میں شامل ہو جائے گی، تو انقلاب ایک نئے، اعلیٰ مرحلے میں داخل ہو جائے گا۔

دوسری طرف، ٹریڈ یونینوں کے بوجھل ڈھانچے ایک ایسے انقلاب کے سیاسی اظہار کے لیے شاید ہی کافی ہوں جو بہت تیزی سے سامنے آ رہا ہے، جس کے لیے ایک زیادہ چست، لچکدار اور ذمہ دار ڈھانچے کی ضرورت ہے۔ ان میں سے بہترین ٹریڈ یونینیں بھی کافی نہیں ہوں گی، جیسا کہ انڈونیشیا میں انتہائی بائیں بازو کی یونینوں کے فالج زدہ کیفیت سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ ان میں سے کسی نے بھی ہڑتالوں کا مطالبہ نہیں کیا۔

.اس وقت، یہ تحریک سوشل میڈیا چینلز اور گلیوں محلوں، سکولوں، یونیورسٹیوں وغیرہ میں موجود گروہوں کے ذریعے از خود منظم ہو رہی ہے۔ ان غیر رسمی ڈھانچوں کو ایکشن کمیٹیوں اور جدوجہد کے جمہوری اداروں کی شکل میں مضبوط کرنے کی ضرورت ہے جو ان کی توانائی کو ان کے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے اور حکومت کا تختہ الٹنے کے نعرے کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی جانب وسیع اور مرکوز کیا جا سکے۔ یہ ایکشن کمیٹیاں اقتدار کے اداروں کے جنین کے طور پر بھی کام کر سکتی ہیں۔

اس انقلاب میں نوجوان اس وقت سب سے زیادہ منظم پرت ہیں۔ انہیں فیکٹریوں، صنعتی کمپلیکسوں، کام کی جگہوں اور مزدوروں کے محلوں کا دورہ کر کے محنت کش طبقے سے ایک پُل قائم کرنا چاہیے تاکہ مزدوروں کی ایکشن کمیٹیوں کے لیے کال کو پھیلایا جا سکے اور ہڑتالوں کی ضرورت کو واضح کیا جا سکے۔ ایک بار جب محنت کش طبقے کی ممکنہ طاقت ایک بڑی ہڑتال میں شامل ہو جائے گی، تو انقلاب ایک نئے، اعلیٰ مرحلے میں داخل ہو جائے گا۔

آگے کے اقدامات

ایک انقلاب ساکت نہیں رہ سکتا۔ اس کا فطری قانون یہ ہے کہ اسے یا تو فتح کی طرف بڑھنا چاہیے یا پیچھے ہٹنا چاہیے، جس کے نتائج اکثر بہت سنگین ہوتے ہیں۔ یہ انقلاب اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک کہ یہ سرمایہ داری کو ختم نہ کر دے، ورنہ اسے بھی 1998ء کے انقلاب جیسی قسمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عوام کے غصے کی اصل وجہ سرمایہ داری کا بحران ہے، جس کا بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈالا گیا ہے۔ اس کا حتمی مقصد صرف سرمایہ داری کا انقلاب کے ذریعے تختہ الٹنا اور معاشرے کی سوشلسٹ بنیادوں پر تبدیلی ہو سکتا ہے۔

انقلاب کو اس مقصد کے قریب لانے کے لیے، ہم محنت کش عوام اور نوجوانوں سے مطالبہ کرتے ہیں:

ہمارا سب سے طاقتور ہتھیار خود محنت کش طبقہ ہے، جو اکیلے معیشت کو چلاتا ہے اور معاشرے کی دولت پیدا کرتا ہے۔

پارلیمنٹ کو تحلیل کرو اور پرابوو کو باہر نکال پھینکو! یہ نام نہاد جمہوری ادارہ اور صدارت کبھی بھی محنت کش عوام اور غریبوں کی مرضی کی عکاسی نہیں کرتے۔ اس کی بجائے، وہ ہماری تمام بدحالی کا ذریعہ ہیں۔ انہیں ختم کر دینا چاہیے۔

ان سڑے ہوئے اداروں کی جگہ، محنت کش طبقے اور غریبوں کی ایک انقلابی حکومت تشکیل دو! یہ ایک ایسی حکومت ہو گی جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی، ایک ایسی حکومت جو مزدوروں، کسانوں، شہری غریبوں اور نوجوانوں کے مفادات کی خدمت کرے گی۔ یہ مزدوروں کی جمہوریت کا استعمال کرے گی، نہ کہ امیروں کی جعلی جمہوریت کا۔

عوام کی جدوجہد کے جمہوری اداروں کے طور پر فوری طور پر ایکشن کمیٹیاں تشکیل دو۔ انہیں کیمپسز، سکولوں، مزدوروں کے محلوں، فیکٹریوں، موٹر سائیکل ٹیکسی اڈوں، کافی شاپس اور دیگر جگہوں پر قائم کرو۔ یہ ایکشن کمیٹیاں حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے اس انقلابی آگ کو مزید گہرائی، وسعت اور لائحہ عمل دیں گی۔ وہ مزدوروں کی طاقت کے جنین کے طور پر کام کریں گی، جو محنت کش طبقے اور غریبوں کی انقلابی حکومت کی بنیاد بنیں گی۔

حکمران طبقہ طاقتور اس لیے ہے کہ معیشت پر ان کا کنٹرول ہے اور ان کی دولت بڑی حد تک پہنچ سے دور ہے۔ ہمارا سب سے طاقتور ہتھیار خود محنت کش طبقہ ہے، جو اکیلے معیشت کو چلاتا ہے اور معاشرے کی دولت پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا، ایکشن کمیٹیوں کے ذریعے، ہمیں ایک عام ہڑتال کے لیے متحرک ہونا چاہیے! یہ حکومت کو ایک بڑا دھچکا دے گا اور ہمیں فتح کے قریب لائے گا۔

اس انقلاب کا جو بھی انجام ہو، جو سڑکوں اور فیکٹریوں میں ایک حقیقی زندہ جدوجہد سے طے پائے گا، یہ ایک فیصلہ کن لمحہ ہے اور کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہے گا۔

انڈونیشیا کا انقلاب زندہ باد!

پارلیمنٹ کو تحلیل کرو!

پرابووو مردہ باد!

محنت کش طبقے اور غریبوں کی حکومت قائم کرو!

محنت کش عوام اور نوجوانوں کی جدوجہد کے جمہوری اداروں کے طور پر ایکشن کمیٹیاں بناؤ!

ملک گیر ہڑتال شروع کرو! پیداوار کے پہیے روک دو!

Comments are closed.